
اس کے اوپر رکھے برتنوں سے وقفے وقفے سے اجزا نکل کر شامل ہوتے رہتے ہیں اور اندر موجود روبوٹک چمچ کھانے کو اپنے انداز سے تیار کرتا رہتا ہے۔کھانا بننے کے بعد اسے کھولنا، بند کرنا اور دھونا بہت آسان ہے کیونکہ اس کے اندر چمچہ اور ہانڈی بھی یہی روبوٹ ہے۔
اس کے اوپر رکھے برتنوں سے وقفے وقفے سے اجزا نکل کر شامل ہوتے رہتے ہیں اور اندر موجود روبوٹک چمچ کھانے کو اپنے انداز سے تیار کرتا رہتا ہے۔کھانا بننے کے بعد اسے کھولنا، بند کرنا اور دھونا بہت آسان ہے کیونکہ اس کے اندر چمچہ اور ہانڈی بھی یہی روبوٹ ہے۔
والدہ کے ساتھ شیئر کی گئی ان تصاویر میں ویان اور شلپا شیٹی انتہائی خوش دکھائی دے رہے ہیں، تاہم انھوں نے ان تصاویر کے ساتھ کوئی عنوان تحریر نہیں کیا۔یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ ویان کندرا کی ان تصاویر میں صرف ماں شلپا اور بیٹا ویان ہی ہے، جبکہ ان میں والد راج کندرا موجود نہیں ہیں۔تصاویر دیکھنے سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ راج کندرا کی گرفتاری سے پہلے لی گئی ہوں۔
خیال رہے کہ 20 جولائی کو ممبئی پولیس کی کرائم برانچ نے راج کندرا کو فحش فلمیں بنانے اور انھیں ایپ کے ذریعے ریلیز کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ پولیس کی جانب سے عدالت میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ان کے پاس راج کندرا سے متعلق واضح ثبوت موجود ہیں۔ دوسری جانب راج کندرا کے خلاف فحش فلموں کی پروڈکشن کا کیس زیرِ سماعت ہے اور وہ اس وقت جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں ہیں۔
دراصل ایٹہ لو جہاد معاملہ پر الٰہ آباد ہائی کورٹ نے تلخ تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ محض شادی کے لیے ڈر، دھوکہ، لالچ اور دباؤ میں کی گئی مذہب تبدیلی قطعاً درست نہیں۔ ایسے مذہب تبدیلی میں عبادت کا طریقہ تو بدل جاتا ہے، لیکن اس خاص مذہب کے تئیں کوئی عقیدت نہیں ہوتی۔ عدالت نے کہا کہ اس طرح کی مذہب تبدیلی میں متعلقہ افراد کے ساتھ ہی ملک و سماج پر بھی برا اثر پڑتا ہے۔عدالت نے اپنے فیصلے میں واضح لفظوں میں کہا کہ شادی کرنے کے لیے لڑکیوں کا مذہب بدلوانا پوری طرح غلط ہے، کیونکہ مذہب بدلے بغیر بھی شادی کی جا سکتی ہے، رشتے نبھائے جا سکتے ہیں، ایک دوسرے کے مذہب اور اس کے طریقۂ عبادت کی عزت کر رشتوں کو مزید مضبوط کیا جا سکتا ہے۔ الٰہ آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ الگ مذاہب کے لوگوں میں شادی اور رشتوں کو بہتر طریقے سے نبھانے میں مغل بادشاہ اکبر اور ان کی ہندو بیوی جودھا بائی کی شادی سے بہتر کوئی دوسری مثال نہیں ہو سکتی ہے۔ جودھا-اکبر کی یہ مثال عدالت نے ایٹہ ضلع کے جاوید عرف جابد انصاری کی ضمانت عرضی پر سنائے گئے فیصلہ میں دیا ہے۔
دراصل جاوید کے خلاف ایٹہ کے جلیسر تھانہ میں ایک ہندو لڑکی کو بہلا پھسلا کر بھگانے اور دھوکے سے مذہب تبدیل کرا کر اس کے ساتھ نکاح کرنے کی ایف آئی آر درج ہوئی تھی۔ متاثرہ لڑکی نے مجسٹریٹ کو دیے گئے بیان میں کہا تھا کہ جاوید نے سادے کاغذات اور اردو میں لکھے گئے دستاویزوں پر دستخط کرا کر دھوکے سے اس کا مذہب تبدیل کرا دیا۔ اس کے بعد پہلے سے شادی شدہ ہونے کی جانکاری چھپا کر دباؤ ڈال رک اس سے نکاح کر لیا۔ وہ جاوید کے ساتھ قطعی نہیں رہنا چاہتی۔ اس معاملے میں جاوید جیل میں ہے اور خود کو جیل سے رہا کیے جانے کے مطالبہ کو لے کر الٰہ آباد ہائی کورٹ میں عرضی داخل کی تھی، جسے آج خارج کر دیا گیا۔الٰہ آباد ہائی کورٹ کے مذکورہ فیصلہ پر ہندی نیوز پورٹل ’اے بی پی لائیو‘ نے ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ جسٹس شیکھر کمار یادو کی سنگل بنچ نے ملزم جاوید کی ضمانت عرضی خارج کر دی ہے اور اسے جیل سے رہا کیے جانے کا حکم دیے جانے سے انکار کر دیا ہے۔
ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ مذہب عقیدت کا موضوع ہوتا ہے، یہ بہتر طرز زندگی کے بارے میں بتاتا ہے۔ ایشور کے تئیں اپنی عقیدت کا اظہار کسی بھی طریقہ عبادت کے ذریعہ کیا جا سکتا ہے۔ عقیدت کے لیے کسی خاص مذہب کی عبادت کا ہونا قطعی ضروری نہیں ہوتا۔ کسی بھی شخص کو اپنی پسند کے مذہب کو اختیار کر کے اس کا طریقۂ عبادت اپنانے کا پورا حق ہوتا ہے۔ جہاں مذہب کے تئیں اعتماد اور خودسپردگی نہیں ہوتی، وہاں تبدیلیٔ مذہب کسی لالچ، ڈر، دباؤ اور دھوکے کے ذریعہ ہوتی ہے۔ ایسی مذہب تبدیلی صفر ہے، اور اس کی کوئی آئینی یا قانونی حیثیت نہیں۔
اعظم خان سماج وادی پارٹی کے ان لیڈروں میں سے ایک ہیں جن پر پارٹی کی بنیادیں قائم ہیں
میں نے اپنی تحریکی اور دعوتی زندگی میں اترپردیش کے بیشتر دیہاتوں اور دور دراز کی آبادیوں کا دورہ کیا ہے، مجھے بہت تعجب بھی ہوتا تھا اور خوشی بھی کہ یوپی کی سرحدوں اور سنگھی علاقوں کے عام مسلمان بھی اعظم خان کے نام سے حوصلہ پاتے تھے اور ان کے لیے دعائیں کرتےتھے
اعظم خان کا نام موجودہ بھارت کے ان چند مسلمان ناموں میں سے ایک ہے جو مسلم لیڈرشپ کا بھرم بچائے ہوئے ہیں
اعظم خان کا سب سے عظیم کارنامہ ان کے ذریعے قائم کردہ شاندار، وسیع و عریض ” محمد علی جوہر یونیورسٹی ” ہے
آپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ
ہندوستان میں Mainstream کے تعلیمی اداروں میں سے اسلامی نسبت سے مشہور تقریباﹰ بیشتر ادارے، ” جامعہ عثمانیہ ” ” علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ” ” جامعہ ملیہ اسلامیہ ” یہ سب آزادی سے پہلے کے قائم کردہ ہے، آزادی کے بعد اپنے پرشکوہ اسٹرکچر اور معیاری تعلیمی اسٹیٹس کے لحاظ سے ” محمد علی جوہر یونیورسٹی، رامپور ” کا قیام ایک انفرادی اور تاریخی کارنامہ ہے، اعظم خان نے اپنی اس یونیورسٹی کی خصوصیات ذکر کرتے ہوئے دعوٰی کیا تھا کہ: محمد علی جوہر یونیورسٹی کا میڈیکل کالج اس ملک کا تاریخی میڈیکل کالج ہے، اس کے معیار کا آپریشن تھیٹر ہندوستان میں تو نہیں البته نیویارک میں ہوسکتا ہے_
ذرا سوچیں کہ ایک نظریاتی مجاہد آزادی ” محمد علی جوہر ” کی طرف منسوب یہ یونیورسٹی، نسل پرست سنگھیوں کی آنکھوں میں کیسے کھٹکتی ہوگی کہ جس کی عمارتوں کا انداز و آہنگ کسی ترقی یافته یوروپی تعلیمی سینٹر کا منظر پیش کرتا ہو اور اس کی عمارتوں کی ساخت، ” پارلیمنٹ ” اور ” راشٹرپتی بھون ” کا منظر پیش کرتے ہوں_اس یونیورسٹی کا قیام بےحد مشقتوں اور صبر آزما قانونی جدوجہد کے بعد ممکن ہوا ہے، کانگریس حکومت تک نے اس یونیورسٹی کو التواء میں ڈالے رکھا تھا، لیکن اعظم خان کی جہدِ مسلسل نے بالآخر اسے قائم کروا ہی لیا جو لوگ آج سیاسی دشمنی اور اپنے انتقامی جذبے کے تحت اعظم خان کے واسطے سے یونیورسٹی کے خلاف سنگھی کارروائیوں کا چارہ بنے ہوئے ہیں وہ بہت بھیانک قومی جرم کا ارتکاب کررہے ہیں
*ایسے ماحول میں جبکہ، مرکز کی نریندرمودی سرکار، امت شاہ کی وزارت داخلہ اور یوگی آدتیہ ناتھ کی وزارت اعلٰی کی پوری فورس، اعظم خان کے خلاف تندہی سے جٹی ہوئی ہے، ان کے جوان ” ایم ایل اے ” بیٹے عبداللہ خان کو گرفتار کرلیاگیا ہے، یونیورسٹی پر مسلسل چھاپہ ماری ہورہی ہے، یونیورسٹی کے قیمتی اثاثوں اور کتابی ذخیروں کو نقصان پہنچایا جارہا ہے، ایسے نازک حالات میں مسلمانوں کا اولین فریضہ ہےکہ وہ آگے آئیں اور ” اعظم خان ” کے شانہ بشانہ ہوجائیں، یہ ہماری قومی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے قومی اثاثے کو محفوظ کریں، وہ لوگ جن کی متعصب زندگی پتھروں، پاخانوں اور بیت الخلاء سے شروع ہوکر وہیں ختم ہوجاتی ہے ان کی متعصبانہ ذہنیت اس عظیم سرمائے پر بلڈوزر چلانے سے بھی دریغ نہیں کرےگی لیکن آپ آگے آئیں کیونکہ آئندہ مستقبل میں یہ یونیورسٹی پورے قوم کا فخر اور اس کی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے والی ہوگی، ہم مسلمانوں کی تمام سیاسی، ملی اور سماجی لیڈرشپ سے اپیل کرتےہیں کہ خدارا آگے آکر ہندوستان میں قومی وجود پر پڑنے والی اس سنگھی ضرب کا مقابلہ کریں، یہ وقت ہیکہ ہم اپنے وجود کو ثابت کریں_
اسوقت سنگھی فاشسٹ ٹولہ ہندوستان میں اپنے پورے تکبر کے ساتھ دندناتا پھر رہاہے، مسلمانوں کے خلاف دہشتگردانہ سماجی جرائم ہورہےہیں، پارلیمنٹ سے اقلیتی حقوق اور عوامی آزادی کے خلاف قوانین پاس ہورہےہیں، برق رفتاری کے ساتھ ملک کو بے ترتیبی اور جنگل راج کی طرف لے جایا جارہاہے، نسل پرست سنگھیوں کے حوصلے بلند بھی ہیں اور یہ جلدبازی میں بدحواس بھی ہیں، اسی کا نتیجہ ہےکہ مسلمانوں کی ایک عظیم الشان یونیورسٹی پر یلغار کررہےہیں، آپکو ہمت و قوت سے کام لینے کی ضرورت ہے، یقین جانیں،
اگر آپ اسے مزید دس سال پیچھے دھکیلنا چاہتےہیں تو اس کا واحد طریقہ یہ ہیکہ، آگے بڑھکر اقدام کیجیے، ظالموں کے خلاف عالمی سطح پر مؤثر گُہار لگائیے__
یہ مضمون میں نے دو سال پہلے آج ہی کے دن شائع کیا تھا لیکن کوئی نہیں جاگا، ہماری تمام قیادتیں سوتی رہیں، وہ لوگ بھی ایک مسلم دانشگاه بچانے نہیں آئے جو دن رات مسلمانوں کے پاس دانشگاہوں کی کمی کا رونا روتے ہیں، دوسری طرف، یونیورسٹی پر بھی یوگی آدتیہ ناتھ نے شب خون مارا اور اعظم خان کو بھی جیل بھیج دیا اور ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے، اب ان کی حالت بھی غیریقینی ہوچکی ہے، اللہ ہماری مجموعی بے حسی کو کبھی معاف نہیں کرےگا۔: *سمیع اللّٰہ خان*
جنرل سیکرٹری: کاروانِ امن و انصاف
کورونا وائرس کی جانب سے اسپائیک پروٹین کو انسانی خلیات میں داخلے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور اس میں ہونے والی تبدیلیاں وائرس کو جسم کا دفاع کرنے والی اینٹی باڈیز سے بچنے یا اس پر حملہ آور ہونے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔چین میں ایک تحقیق کے دوران دریافت کیا گیا تھا کہ ڈیلٹا قسم سے متاثر مریضوں میں وائرس کی اوریجنل قسم کے مقابلے میں ایک ہزار گنا زیادہ وائرل لوڈ نظام تنفس کی نالی میں ہوتا ہے، جس کی وجہ سے وہ چھینک، کھانسی یا بات کرنے سے زیادہ آسانی سے پھیل جاتا ہے۔درحقیقت یہ نئی میوٹیشن اس وائرس کے لیے لوگوں کو بیمار کرنے کی صلاحیت کو زیادہ مؤثر بنادیتی ہے۔
ڈیلٹا میں ایسی جینیاتی تبدیلیاں بھی موجود ہیں جو دیگر اقسام میں نظر نہیں آئیں۔ان میں سے ایک اسپائیک میوٹیشن ڈی 950 این ہے جو اس لیے منفرد ہے کیونکہ وہ کورونا کی کسی اور قسم میں نظر نہیں آئی۔یہ میوٹیشن ریسیپٹر جکڑنے والے حصے کے باہر واقع ہے اور ماہرین کے مطابق اس میوٹیشن سے وائرس کو مختلف اعضا اور ٹشوز کو متاثر کرنے کی سہولت ملتی ہے جبکہ وائرل لوڈ بھی بڑھتا ہے۔ڈیلٹا میں اسپائیک پروٹین کے ایک حصے این ٹرمینل ڈومین میں بھی میوٹیشنز ہوئی ہیں جو وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہیں۔ان میوٹیشنز کے باعث ہی مونوکلونل اینٹی باڈیز دیلٹا کے شکار کووڈ مریضوں کے علاج میں ممکنہ طور پر کم مؤثر ثابت ہوتی ہیں اور ڈیلٹا کے لیے ویکسین سے بننے والی اینٹی باڈیز سے بچنے کی صلاحیت کچھ حد تک بڑھ جاتی ہے۔
یہی ممکنہ وجہ ہے جس کے باعث ڈیلٹا سے ویکسینیشن والے متعدد افراد بھی بیمار ہورہے ہیں، تاہم ویکسینز کی وجہ سے بیماری کی شدت عموماً معمولی یا معتدل ہوتی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں ڈیلٹا کے حملے شدید ہوں گے یا نہیں، اس بات سے متعلق کوئی بھی دعویٰ یا پیشگوئی کرنا ممکن نہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ڈیلٹا کی وبا 10 سے 12 ہفتوں تک برقرار رہ سکتی ہے، جس کے دوران وائرس کی زد میں موجود آبادیوں میں پھیل سکتا ہے۔ماہرین ک مطابق کرونا وائرس کی جان لیوا اقسام کو ابھرنے سے روکنا ہمارے ہاتھ میں ہی ہے، اگر کیسز کی تعداد بہت زیادہ رہی تو وائرس میں ارتقا جاری رہے گا جس کا نتیجہ زیادہ خطرناک اقسام کی شکل میں نکلے گا۔
ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے! Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...