Powered By Blogger

جمعرات, اگست 05, 2021

کسی بھی جوڑے کیلئے ماں باپ بننے کی خوشی سب سے بڑی ہوتی ہے ۔

کسی بھی جوڑے کیلئے ماں باپ بننے کی خوشی سب سے بڑی ہوتی ہے ۔

(اردو اخبار دنیا)کسی بھی جوڑے کیلئے ماں باپ بننے کی خوشی سب سے بڑی ہوتی ہے ۔ جب ایک خاتون ننہی سی معصوم جان کو جنم دیتی ہے اور ایک مرد اپنی گود میں پہلی مرتبہ اپنی اولاد کو اٹھاتا ہے تو وہ خوشی دنیا میں دیگر سبھی خوشیوں سے الگ ہوتی ہے ۔ بچوں کی پرورش کرنا آسان نہیں ہوتا ہے ، مگر والدین اپنے بچے کی پرورش میں سب کچھ لگا دیتے ہیں ۔ سوشل میڈیا پر والدین اور بچوں سے وابستہ کئی خوبصورت تصاویر وائرل ہوتی رہتی ہیں ، جنہیں دیکھ کر بہت پیار آتا ہے ۔ مگر حال ہی میں ایک ایسی تصویر وائرل ہورہی ہے ، جس کو دیکھ کر لوگ آگ ببولہ ہورہے ہیں ۔

ہم جس وائرل تصویر کی بات کررہے ہیں اس میں ایک جوڑا مال کے فوڈ کورٹ میں کھانا کھاتے نظر آرہا ہے ۔ اس جوڑے کا ایک چھوٹا بچہ بھی ہے ، جس کو ان لوگوں نے مال کی فرش پر لیٹا دیا ہے ۔ اس منظر کو مال میں موجود ایک دکاندار نے اپنے کیمرے قید کرلیا ۔ دکاندار کافی غصہ ہے ۔ دراصل دکاندار نے ٹک ٹاک پر ایک ویڈیو شیئر کیا ہے ، جس میں والدین آرام سے کرسی پر بیٹھے اپنے کھانے کا لطف لے رہے ہیں جبکہ انہوں نے مال کی ٹھنڈ اور سخت فرش پر بچے کو لیٹا رکھا ہے ۔ دکاندار ویڈیو میں کہتا ہے کہ کیا ایسے لوگ سچ میں ہوتے ہیں یا یہ سب کچھ فرضی ہے ؟ اس ویڈیو کو دیکھنے کے بعد کئی لوگ اس والدین کو آڑے ہاتھ لے رہے ہیں ۔

والدین آرام سے کرسی پر بیٹھے اپنے کھانے کا لطف لے رہے ہیں جبکہ انہوں نے مال کی ٹھنڈ اور سخت فرش پر بچے کو لیٹا رکھا ہے ۔ تصویر : Tiktok/@wclipsto



ایک یوزر نے لکھا : اس جوڑے کے چہرے کو زمین پر کوئی رگڑے جس سے انہیں پتہ چلے کہ زمین کتنی گندی ہوتی ہے ، جہاں انہوں نے اپنے بچے کو لیٹا رکھا ہے ۔ جبکہ ایک دیگر یوزر نے کہا کہ وہ بچہ کوئی کتا نہیں ہے کہ انہوں نے اس کو زمین پر لیٹا دیا ہے ۔ ایک دیگر یوزر نے لکھا کہ مجھے یقین نہیں ہورہا ہے کہ وہاں موجود کسی بھی شخص نے اس منظر کے خلاف آواز نہیں اٹھائی ۔ ایک یوزر نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ یہ سین دیکھ کر میرا خون ابل رہا ہے اور اگر میں وہاں ہوتا تو پولیس کو اس کی اطلاع دیدیتا ۔


ہندوستانی ہاکی ٹیم اولمپکس میں 41برس بعد میڈل حاصل کرنے میں کامیاب

ہندوستانی ہاکی ٹیم اولمپکس میں 41برس بعد میڈل حاصل کرنے میں کامیاب

India ends 41-year wait to win Olympic medal, beats Germany to win bronze

سوشل میڈیا پر لوگوں نے کہا – ورلڈ کپ سے بڑی فتح ہے

ٹوکیو،5؍اگست:(اردواخباردنیا)ٹوکیو اولمپکس میں آج کانسی کے تمغے کے لیے کھیلے گئے ہاکی میچ میں ہندوستان نے جرمنی کی ٹیم کو پانچ کے مقابلے میں چار گول سے شکست دے دی ہے۔ فیلڈ ہاکی میں ہندوستان کا یہ بارہواں میڈل ہے لیکن اس کھیل میں اکتالیس برس بعد بھارتی ٹیم کوئی تمغہ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ 1980 کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ بھارتی ٹیم اولمپک کھیلوں میں کوئی میڈل جیت پائی ہے۔ بھارتی ہاکی ٹیم کے کپتان #منپریت سنگھ نے کانسی کا یہ تمعہ اپنے ملک میں ان تمام طبی کارکنان کے نام کیا، جو کووڈ کی وبا سے نمٹنے میں پیش پیش ہیں۔ جس سے اولمپکس میں 41 سال سے تمغے کی کمی کا خاتمہ ہوا۔
اس تاریخی فتح کے ساتھ ہاکی ٹیم کو ملک بھر سے مبارکبادیں مل رہی ہیں۔ ٹوئٹر پر کئی مشہور لوگوں نے ہاکی ٹیم کی حوصلہ افزائی کی اور جیت کے لیے نیک خواہشات بھی دیں۔ وزیر اعظم نریندر #مودی نے ٹیم کو مبارکباد دیتے ہوئے ٹویٹ کیا ہے۔ پی ایم مودی نے لکھاکہ ٹوکیو میں ہاکی ٹیم کی شاندار فتح پورے ملک کے لیے قابل فخر لمحہ ہے۔ یہ ایک نیا ہندوستان ہے، جو خود اعتمادی سے بھرا ہوا ہے۔ ہندوستان کو ہاکی ٹیم پر فخر ہے۔
مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے ٹیم کو #مبارکباد دی ہے۔ ٹیم کو مبارکباد دیتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ مبارک ہو ٹیم #انڈیا، پورے ملک کو آپ کی وجہ سے فخر ہے۔ہندوستان کے صدر نے بھی ٹیم انڈیا کو مبارکباد دی۔ انہوں نے کہا کہ 41 سال بعد ٹیم انڈیا نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جیت حاصل کی ہے۔ مبارک ہو۔بالی ووڈ کے بادشاہ #شاہ رخ #خان نے ٹویٹ کرکے ٹیم انڈیا کو مبارکباد دی۔ انہوں نے لکھا کہ ٹیم انڈیا نے ہاکی میں حیرت انگیز کام کیا ہے۔ہندوستان ہاکی ٹیم نے ٹوکیو میں حیرت انگیز کام کیا ہے۔
اولمپکس میں جرمنی کو 5-4 سے شکست دے کر اس نے کانسی کا تمغہ جیت کر تاریخ رقم کی ہے۔ ہندوستانی مرد ہاکی ٹیم نے 41 سال بعد #اولمپکس میں #تمغہ جیت کر تاریخ رقم کی ہے۔ ہندوستان نے آخری گولڈ میڈل 1980 میں #ماسکو میں جیتا تھا۔ تب سے ہندوستان #ہاکی میں تمغے کا انتظار کر رہا تھا جسے موجودہ ہاکی ٹیم نے ختم کر دیا۔

بی جے پی کے لوگ ’مینی فیسٹو‘نہیں بلکہ ’منی فیسٹو‘بناتے ہیں: اکھلیش یادو

بی جے پی کے لوگ ’مینی فیسٹو‘نہیں بلکہ ’منی فیسٹو‘بناتے ہیں: اکھلیش یادو

akhileshyadav

لکھنؤ،5؍اگست:(اردواخباردنیا)سماج وادی پارٹی (ایس پی) کے صدر اکھلیش یادو نے جمعرات کو دعویٰ کیا کہ حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے اترپردیش کے لوگوں کی ناراضگی کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ایس پی ریاست میں آئندہ اسمبلی انتخابات میں 400 سیٹیں جیتے گی۔ ایس پی صدر نے بی جے پی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف اپنی #سائیکل یاترا شروع کرنے سے پہلے ایک پریس کانفرنس میں دعویٰ کیاکہ حکومت ہر مسئلے پر ناکام ہوچکی ہے۔

اب تک ہم 350 بولتے تھے لیکن جس طرح کا غم و غصہ عوام میں ہے، شایدہم 400 سیٹیں جیتیں گے۔ آج صورت حال ایسی ہے کہ بی جے پی کے پاس امیدوار کم پڑجائیں گے۔ امیدوار ٹکٹ کا مطالبہ ہی نہیں کریں گے۔ اکھلیش نے کہا کہ گزشتہ اتوار کو مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے مرزا پور میں ایک ریلی میں کہا تھا کہ ریاست کی بی جے پی حکومت نے سال 2017 میں جاری ہونے والے پارٹی کے انتخابی منشور کا ہر وعدہ پورا کیا ہے۔

لیکن سچ یہ ہے کہ بی جے پی نے ابھی تک اپنا #منشور کھول کر نہیں دیکھاہے۔انہوں بی جے پی پر سیاست کو عوامی خدمت نہیں بلکہ کاروبار کا ذریعہ بنانے کا الزام لگاتے ہوئے کہاکہ بی جے پی کے لوگ ’مینی فیسٹو نہیں بلکہ منی فیسٹوبناتے ہیں۔ سیاست ان کے لیے ایک کاروبار ہے۔ عوام نے بی جے پی کا دھوکہ دیکھا ہے۔

ریاست کی یوگی آدتیہ ناتھ حکومت پر کورونا وبائی امراض کے دوران جان بچانے میں مکمل طور پر ناکام ہونے کا الزام لگاتے ہوئے سابق وزیر اعلی اتر پردیش نے کہا کہ پوری حکومت اور انتظامیہ نے عوام کو دھوکہ دیا اور بڑی تعداد میں لوگ ہلاک ہوئے۔

#اکھلیش نے اتر پردیش کو غذائی قلت، گنگا میں لاشیں بہانے، لاشوں سے کفن ہٹانے، کورونا وبا کے دوران ادویات کی بلیک #مارکیٹنگ، #پنچایت #انتخابات میں ڈیوٹی کرتے ہوئے اساتذہ کی اموات ، بے گناہ لوگوں کو جیل میں ڈالنے، خاص طور پرریاست کی بی جے پی حکومت کو مذہب اور ذات کے نام پر لوگوں پر مظالم کا ذمہ دار ٹھہرایا ، بڑے بڑے پوسٹرز اور ہورڈنگز لگا کر اپنی ناکامی کو چھپایا اور حراست میںموت کے معاملے میں اسے نمبر ون ریاست قرار دیا۔

‎یہ ڈرامہ نہیں تو اورکیا ہے: ایس پی کی سائیکل یاترا پر مایاوتی برہم ‏

یہ ڈرامہ نہیں تو اورکیا ہے: ایس پی کی سائیکل یاترا پر مایاوتی برہم

mayavati

نئی دہلی،5؍اگست:(اردواخباردنیا)اترپردیش اسمبلی انتخابات کی سرگرمیوں کے درمیان ریاست میں مختلف مقامات پر برہمن کنونشن کا اہتمام کررہی بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کی صدر مایاوتی نے سماج واد کے لیڈر جنیشور مشرکی سالگرہ کے موقع پر جمعرات کو سائیکل یاترا نکال رہی سماج وادی پارٹی کونشانہ بنا یا ہے۔ مایاوتی نے کہاکہ آنجہانی شری جنیشور مشرا کو ان کی برسی پر دل کی گہرائیوں سے خراج عقیدت ۔ لکھنؤ میں ان کے نام سے منسوب پارک بی ایس پی حکومت نے بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر کے نام پر بنایا تھا، لیکن ایس پی حکومت نے ذات پات ،سوچ اور نفرت کی وجہ سے اس کا نام بھی نئے اضلاع وغیرہ کی طرح تبدیل کردیا، یہ کیسا احترام ہے؟

#مایاوتی نے کہاکہ #یوپی کے اضلاع میں بی ایس پی کے روشن خیال کی بے پناہ کامیابی کے بعد ایس پی کو اب بی جے پی حکومت کی طرف سے ستائے جانے والے شری جنیشور مشرا اور ان کے معاشرے کی یاد آئی ہے۔ یہ سب ان کی سیاسی خود غرضی اور سستی مقبولیت کے لیے ڈرامہ نہیں ہے تو پھر کیا ہے؟ یہ بات قابل ذکر ہے کہ آنجہانی #سینئر سوشلسٹ لیڈر جنیشور مشرا جو چھوٹے لوہیا کے نام سے مشہور ہیں۔

ان کی #سالگرہ کے موقع پر ایس پی صدر #اکھلیش یادو جمعرات کو دارالحکومت لکھنؤ میں سائیکل یاتراکر رہے ہیں۔ پارٹی کے مطابق یہ یاترا ریاست کی بی جے پی حکومت کی خراب #پالیسیوں کے خلاف عوام کی آواز بلند کرنے کے مقصد سے نکالی جارہی ہے۔

بریکینگ نیوز:ریاست میں کالجس شروع کرنے کافیصلہ

ممبئی:5اگست (اردو اخبار دنیا)حکومت مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ تعلیم و تکنیکی تعلیم شری اودئے سامنت نے آج یہاںاخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ریاست میں کالجز دوبارہ شروع کرنے پر غورکیاگیاہے اور 15ستمبرتا یکم اکتوبر کے درمیان ریاست بھر میں تمام کالجز کھول دئےے جائیںگے ۔

انھوں نے بتایا کہ یونیورسٹیز کے وائس چانسلر ز کوہدایت دی گئی کہ وہ متعلقہ اضلاع کے ضلع کلکٹر سے تبادلہ خیال کرکے اندرون آٹھ یوم اپنی رپورٹ انھیں روانہ کریں جس کے بعدتمام حالات کومدنظررکھتے ہوئے 15ستمبرتا یکم اکتوبر کے درمیان ریاست بھر میں تمام کالجز کھول دئےے جائیںگے ۔

آرٹیکل 341 میں مذہبی امتیاز کیوں؟ مستقیم صدیقی

آرٹیکل 341 میں مذہبی امتیاز کیوں؟ مستقیم صدیقی

(اردو اخبار دنیا)
نواده محمد سلطان اختر


 آئین آرٹیکل نمبر 341 میں صدر کو اختیار دیتا ہے کہ مختلف ذاتوں اور قبائل کے نام ایک فہرست میں شامل کرے۔ 1950 میں صدر نے ایک آرڈیننس کے ذریعے ایک شیڈول جاری کیا صرف اس شیڈول میں درج ذاتوں اور قبائل کو شیڈولڈ کاسٹ اور شیڈولڈ ٹرائب کہا گیا ہے۔
 صدر کے آرڈیننس کے پیرا (3) میں لکھا گیا ہے کہ کوئی بھی شخص جو ہندو مذہب سے تعلق نہیں رکھتا وہ درج فہرست ذات اور فہرست قبائل کا مقام حاصل نہیں کر سکتا۔ 1956 میں اس آرڈیننس میں ترمیم کرکے سکھوں کو شامل کیا گیا اور 1990 میں بودھ مذہب والوں کو پیرا (3) میں شامل کر دیا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی شخص ہندو سکھ یا بدھ مذہب سے تعلق نہیں رکھتا اسے درج فہرست ذات کے زمرے میں شامل نہیں کیا جائے گا۔ اس طرح عیسائی ، مسلمان ، جین اور پارسی اس زمرے سے باہر ہیں۔ اس سے یہ بات صاف طور پر واضح ہے کہ اس حکم کے تحت درج فہرست ذاتوں کے لئے ریزرویشن صرف ہندو ، سکھ یا بودھ، دلتوں کے لئے ہی دستیاب ہے ، عیسائی یا مسلم دلت یا کسی دوسرے مذہب کے پسماندہ کے لئے نہیں ہے،
 آرٹیکل 341 آئین کے آرٹیکل نمبر 15 پر ایک بد نما داغ ہے کہ ہم یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ آئین مذہب کے نام پر تعصب رکھتا ، آئیں جاننے کی کوشش کرتے ہیں کیسے ہوا ہے؟ 

 نہرو حکومت کی طرف سے 10 اگست 1950 کو ایک آرڈیننس لا کر آئین میں کی گئی تبدیلیوں کا اثر یہ ہوا کہ مسلمانوں کی سب سے بڑی برادری جو اپنے آپ کو پاسمانده کہتی ہے مکمل طور پر ریزرویشن سے محروم کر دیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جو لوگ پاسمانده ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں وہ سماجی ، معاشی اور سیاسی طور پر پسماندہ نہیں ہیں۔ حکومتیں آتی ہیں ، حکومتیں چلی جاتی ہیں ، سیاست پسماندہ کے نام پر کی جاتی ہے ، اقتدار والے پسماندہ کے نام پر یا اپوزیشن کے ڈر سے ایک یا دو سیٹیں دےدیتی ہیں، مالائی دار و لچھے دار باتوں کے ساتھ زندہ آباد کا نعرہ ہوتا رہتا ہے لیکن پسمانده کے مسائل کا کوئی حل نہیں نکالا جاتا، یہ سچ ہے کہ بہت سے مسائل ہیں اور صرف سیاسی جماعتیں ہی ہر مسئلے کو حل نہیں کر سکتیں ، لیکن میری نگاہ میں سب سے بڑا مسئلہ پسمانده کی شراکت کا ہے۔حصّہ داری کا ہے، جب ہم انصاف کی بات کرتے ہیں تو ہمیں یہ بات بھی کرنی ہوگی کہ سیاست میں تعلیم کے میدان میں ، روزگار کے شعبے میں پسمانده سیکشن کی کتنی شراکت ہے؟ ہم پسمانده کے تمام مسائل کو دور نہیں کر سکتے لیکن ہم ایسے مسئلے کو دور کرنے کے لیے پہل کر سکتے ہیں جو سیاسی ہے ، جو غیر دستوری ہے ، جو آئین پر بد نُما داغ ہے ، لیکن ہم ایسا نہیں کرتے ، کیونکہ ہمیں اُس اِس،مندر مسجدِ کے نام پر گمراہ کر دیاجاتاہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر کوئی کھل کر بحث نہیں کرتا ، حالانکہ اس پر صرف بحث کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس مدے کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کی ضرورت ہے ، آرٹیکل 341 میں پابندی کو ہٹانے کی ضرورت ہے۔ آئین میں مذہب کے نام پر امتیازی سلوک کیوں ہے؟
 10 اگست 1950 کو اس وقت کی نہرو حکومت نے ایک غیر آئینی آرڈیننس کے ذریعے مذہبی پابندیاں عائد کیں اور ہندوؤں کے علاوہ دیگر مذاہب کے پسماندہ طبقات کو درج فہرست ذاتوں سے خارج کردیا تھا۔ لیکن سکھوں 1956 میں اور بودھ مذہب والوں 1990 اس زمرے میں دوبارہ شامل کر لیا گیا، دلت، مسلمان اور عیسائی آج بھی درج فہرست ذات کے ریزرویشن سے باہر ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب 1956 میں سکھوں کو دوبارہ اس زمرے میں شامل کیا گیا اور 1990 میں بودھ مذہب والوں کو دوبارہ اس زمرے میں شامل کیا گیا ، دونوں وقتوں میں مرکز میں حکومت برسر اقتدار تھیں وہ حکومت مسلم اکثریتی ووٹوں سے اقتدار میں آئی تھی،اُن پر پوری طرح سے انصاف پسند لوگوں نے دوبارہ دباؤ کیوں نہیں بنایا؟ اگر پسمانده سماج سے اُبھرے ہوئے کچھ لیڈروں نے اس پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تھی تو پھر عام انصاف عوام اس پر خاموش کیوں رہے؟ بہت سے سوالات اٹھیں گے لیکن ہمیں اس مسئلے کو سوال سے زیادہ بحث کرنے کی ضرورت ہے ، ہمیں اسے ایک عوامی بحث کا مسئلہ بنانا ہوگا ، ہمیں اس بحث میں معاشرے کے ہر طبقے کا تعاون لینا ہوگا ، اس مسئلے کو ذات اور مذہب سے اوپر اٹھ کر کرناہوگا اِس پر حقوق و اختیار کا مدا بنانا پڑے گا۔ اس پر کھیت، کھلیان ، گلی سے لے کر علاقے تک ہر جگہ بحث کرنا ہوگا، اگر ہم اس بحث کو نظر انداز کر دیں تو یہ بہت بڑی نا انصافی ہوگی ، جو بحث کو سنجیدگی سے نہیں لیتا ، اسے آئین میں امتیازی سلوک کا علم نہیں ہے۔
 درج فہرست ذاتوں کے لئے ریزرویشن 1936 میں اس وقت کی برطانوی حکومت میں دیا تھا۔ کسی کا مذہبی پابندی نہیں تھی۔ اس طرح تمام مذاہب کے دلتوں کو درج فہرست ذاتوں کا ریزرویشن مل رہا تھا ، لیکن نہرو حکومت نے 10 اگست 1950 کو مذہبی پابندیاں عائد کیں اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کو اس پر مسلط کر دیا۔ ابھی تک عیسائی، مسلمان ، جین اور پارسی اس زمرے سے باہر ہیں۔
 10 اگست 2021 سے اس پر مسلسل پروگرام منعقد کیئے جائیں گے ، بہار ، جھارکھنڈ اور بنگال میں اس پر بحث جاری کی جائے۔ ریزرویشن صرف نوکریوں میں نہیں ہوتا ، ریزرویشن عوامی نمائندوں کے انتخاب میں بھی ہے۔ یہ ملک کے ہر شہری کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس پر بحث شروع کرے اور اسے ہٹانے کی ہر ممکن کوشش کرے۔ اور اسمیں ہر کسی کا جیسا بھی ہو تعاون کرے

ٹک ٹاک (Tik-Tok) کانیا فیچر متعارف

ٹک ٹاک (Tik-Tok) کانیا فیچر متعارف

نیویارک ،5؍اگست:(اردواخباردنیا)ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم ٹک ٹاک نے #اسنیپ چیٹ اسٹوریز کی طرز پر 24 گھنٹے میں اسٹوری غائب ہونے والے فیچر محدود پیمانے پر متعارف کرا دیا ہے۔اس فیچر سے ٹک ٹاک TikTok کی اسٹوری میں لگایا گیا مواد (content) 24 گھنٹے بعد خود غائب ہوجائے گا۔ٹک ٹاک نے ابھی تک اس فیچر کا باضابطہ اعلان نہیں کیا تاہم کچھ صارفین کو آزمائشی طور پر یہ فیچر مہیا کیا گیا ہے۔

#ٹک ٹاک کا یہ فیچر #سوشل #میڈیا کنسلٹنٹ میٹ نوارا نے بنایا ہے، انہوں نے سماجی رابطے کی سوشل ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹک ٹاک کے آنے والے نئے فیچر کا پوسٹ شیئر کیا۔اسٹوری کا یہ فیچر سب سے پہلے اسنیپ چیٹ نے متعارف کروایا تھا، اس کے بعد واٹس ایپ اور #فیس بک نے بھی متعارف کروایا جہاں اسٹوریز 24 گھنٹے بعد خود غائب ہو جاتی ہیں۔

خیال رہے کہ اس سے قبل ٹک ٹاک نے اپنے مد مقابل #ایپلیکیشنز سے سبقت لینے کے لیے ویڈیو کا دورانیہ بڑھا دیا ہے۔ ٹک ٹاک نے ویڈیو کا دورانیہ تین منٹ کردیا ہے جو پہلے سے تین گنا زیادہ ہے۔ٹک ٹاک #چین کی بائٹ ڈانس کی ملکیت ہے اور یہ دنیا میں مقبول ترین سوشل میڈیا ایپس میں سے ایک ہے۔

#دنیا کے 150 ممالک میں ٹک ٹاک کے ایک ارب سے زیادہ صارفین موجود ہیں۔ امریکہ میں اب تک 200 ملین سے زائد باراس ایپلی کیشن کو ڈاؤن لوڈ کیا جا چکا ہے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...