Powered By Blogger

ہفتہ, اگست 21, 2021

لے منایا گیا محرم ، بہار اور جھارکھنڈ میں سادگی نہیں ہوا تعزیہ پہلام

لے منایا گیا محرم ، بہار اور جھارکھنڈ میں سادگی نہیں ہوا تعزیہ پہلامرانچی(اردو اخبار دنیا): اسلامی کیلنڈر کے مطابق جمعہ یعنی 10 محرم کو دنیا بھر میں کروڑوں لوگوں نے حضرت محمد ﷺ کے نواے اور امام حضرت علی کے بیٹے امام حسین علیہ السلام کی شہادت کو سادگی کے ساتھ منایا اور خراج عقیدت پیش کی۔ اس موقع پر ، بہار اور جھارکھنڈ کے مختلف امام باڑوں میں سماجی دوری کو اپناتے ہوئے ، لوگوں نے مجلس اور ماتم کرکے امام حسین کو یاد کیا۔

  سوز پڑھتے ہوئےعزادار

بہار کے پٹنہ ، آرہ ، مظفر پور ، چھپرا ، شیخ پورہ ، سیوان اور گوپال گنج میں بھی مسلمانوں نے اپنے گھروں میں امام حسین علیہ السلام کی یاد میں ماتم اور مجلسیں کیں۔ دوسری طرف جھارکھنڈ کے جمشید پور ، رانچی ، جپلا حسین آباد اور حیدر نگر میں کورونا ہدایات پر عمل کرتے ہوئے گھروں میں امام حسین کی یاد میں ماتم اور نوحہ خوانی کی گئی ۔ تاہم ، کورونا کی وبا کے پیش نظر اس سال بھی تعزیہ کا جلوس نہیں نکالا گیا اورکئی جگہوں پر تعزیہ پہلام نہیں ہو سکا ۔ جس کی وجہ سے مسلم طبقوں میں مایوسی تھی۔

  امام باڑے میں ذکرِ حسین کرتا ننھا عزادار

دہلی سے آرہ میں محرم منانے آئے جے این یو کے ریسرچ اسکالر سید سعدین رضا نے لگاتار نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ امام حسین نے انسانیت ، حقوق اور دین کو بچانے کے لیے اپنی شہادت دی۔ کربلا کی جنگ اس لیے ہوئی تاکہ دنیا میں امن و سکون قائم ہو۔
لہٰذا ، انسانیت کا خیال رکھتے ہوئے اور کورونا ہدایات پر عمل کرتے ہوئے ، تعزیہ کا جلوس اور پہلام کا اہتمام پچھلے دو سالوں سے نہیں کیا جا رہا ہے۔ کیونکہ کورونا وبا پوری دنیا کے لیے ایک خطرہ بنی ہوئی ہے اور ہم سبھی مل کر اس وباءکو کورونا گائڈلائن پر عمل کرتے ہوئے سمجھداری کے ساتھ شکست دے سکتے ہیں اور اسے دنیا سے ختم کر سکتے ہیں۔

  سوز پڑھتے ہوئےعزادار

اس موقع پر وشوا بھارتی یونیورسٹی ، کولکاتا کے شعبہ تاریخ کے صدر شعبہ ڈاکٹر اعزاز حسین نے بتایا کہ امام حسین (ع) نے 680 عیسوی میں بنی امیہ کے خلیفہ یزید کی ناانصافی اور دین اسلام کے خاتمے کی سازش کے خلاف تحریک چلائی۔ امام حسین (ع) اپنے 72 ساتھیوں کے سات یزید کی ایک بڑی فوج سے ٹکرا گئے ۔ 10 محرم کو عراق کے کربلا میں یزیدی فوج نے امام حسین (ع) اور ان کے ساتھیوں کو تین دن تک بھوکا اور پیاسہ رکھنے کے بعد قتل کردیا۔ اپنی اور اپنے ساتھیوں کی جانیں قربان کر کے امام حسین نے دنیا کو پیغام دیا کہ عزت کی موت ذلت کی زندگی سے بہتر ہے۔ امام حسین کی شہادت کو یاد کرتے ہوئے مسلمان ہر سال محرم مناتے ہیں ،

  MOULANA NASEEM ABBAS

اس کے ساتھ ہی کانپور سے آئے ہوئے مولانا نسیم عباس نے کہا کہ جھوٹ اور ظلم کے مقابلہ میں امام حسین (ع) کی تحریک سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ظالم کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو ، اسکے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہو جائے۔، بالآخر فتح حق کی ہی ہوتی ہے۔ اسی طرح تحریک کربلا سے ہم ہمت ، صبر ، عزم ، وفاداری ، مساوات ، قربانی اور دشمنوں کی معافی کا سبق سیکھتے ہیں اور اسے اپنی زندگی میں اسے عملی بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

دہلی میں بارش نے توڑا 2009 کا ریکارڈ ، سڑکیں ندی میں تبدیل

دہلی میں بارش نے توڑا 2009 کا ریکارڈ ، سڑکیں ندی میں تبدیل(اردو اخبار دنیا)دہلی میں 2009 کے بعد سے اس سال ایک مہینے میں سب سے زیادہ بارش ہوئی ہے، جس کے سبب قومی راجدھانی میں آبی جماؤ اور ٹریفک جام کا مسئلہ پیدا ہو گیا ہے۔ یہ جانکاری ہندوستانی محکمہ موسمیات سائنس (آئی ایم ڈی) نے ہفتہ کے روز دی۔ آئی ایم ڈی کا کہنا ہے کہ 10 اگست 2010 کو 110 ایم ایم بارش ہوئی تھی جو کہ اب تک کی سب سے زیادہ تیز بارش تھی، لیکن ہفتہ کی صبح 8.30 بجے تک 24 گھنٹوں کے دوران لودھی روڈ آبزرویٹری میں 149.0 ایم ایم بارش درج کی گئی، جب کہ دہلی ریج پر تقریباً 149.2 ایم ایم بارش کا اندراج ہوا۔ ساتھ ہی آئی ایم ڈی نے بتایا کہ صفدر جنگ ہوائی اڈے نے ہفتہ کو اس مانسون سیزن کی ایک دن کی سب سے زیادہ بارش 138.8 ایم ایم درج کی ہے۔

آئی ایم ڈی کے مطابق دہلی-این سی آر کے بیشتر مقامات (بہادر گڑھ، فرید آباد، بلبھ گڑھ، لونی دیہات، ہنڈن اے ایف اسٹیشن غازی آباد، اندرا پورم، نوئیڈا، گریٹر نوئیڈا، کیتھل اور کرنال کے آس پاس) پر ہلکی سے درمیانی رفتار کے ساتھ ہفتہ کی صبح گرج کے ساتھ بارش ہوئی۔ کئی رہائشی علاقوں اور کئی سڑکوں و جنکشنوں پر پانی بھر گیا ہے جس سے ٹریفک جام کا مسئلہ پیدا ہو گیا ہے۔

دہلی ٹریفک پولیس لوگوں کو حالات کے بارے میں ٹوئٹر پر لگاتار جانکاری دے رہی ہے۔ ٹریفک پولیس کا کہنا ہے کہ ''ایم بی روڈ، خان پور ٹی پوائنٹ سے ہمدرد نگر ریڈ لائٹ ٹریفک، مہرم نگر انڈر پاس، راجوکری انڈر پاس، راج گھاٹ کے دونوں راستے میں آبی جماؤ کی وجہ سے ٹریفک نظام متاثر ہے۔'' مزید جانکاری دیتے ہوئے یہ بھی بتایا گیا کہ دوارکا انڈر پاس اور بجواسن فلائی اوور، راجدھانی پارک میٹرو اسٹیشن سے منڈکا اور نانگلوئی سے نجف گڑھ روڈ پر پانی کی ٹنکی کے پاس آبی جماؤ کی حالت ہے۔

نابالغ لڑکی کے ساتھ عصمت دری کی ویڈیو وائرل کرنے کی دھمکی دینے والے دو نوجوانوں کے خلاف ایف ا ? ئی ا ? ر درج

نابالغ لڑکی کے ساتھ عصمت دری کی ویڈیو وائرل کرنے کی دھمکی دینے والے دو نوجوانوں کے خلاف ایف ا ? ئی ا ? ر درجبکسر(اردو اخبار دنیا)، 21 اگست۔گھر سے کوچنگ کے لئے نکلی ایک نابالغ لڑکی کے ساتھ دو نوجوانوں کے ذریعہ پہلے عصمت دری کیا گیا۔ اس دوران اس کی ویڈیو بھی بنائی گئی۔واقعہ کو لیکر لواحقین کو بتائے جانے پر جان سے مارنے کی دھمکی دیکر اسے چھوڑ دیا گیا۔ شرم کی وجہ سے لڑکی نے یہ بات اپنے گھر والوں سے چھپائی ، مگر لڑکوں کے ذریعہ جسمانی تعلقات بنانے کے دباو?کو لیکر دوبارہ دباو? بنایا گیا اور ایسا نہ کرنے پر ویڈیو وائرل کرنے کی دھمکی دی گئی ، تو لڑکی نے سبھی باتیں اپنے اہل خانہ کو بتائی۔ واقعہ کی معلومات ہوتے ہی مشتعل اہل خانہ متاثرہ لڑکی کے ساتھ خاتون تھانہ پہنچ کر تھانہ علاقہ کے درہ پور گاو?ں کے دو نوجوانوں کے خلاف ایف ا?ئی ا?ر درج کرائی ہے۔ معاملے کی ایف ا?ئی ا?ر درج کی گئی ہے۔ نوجوانوں کی گرفتاری کی کوشش جاری ہے۔
ایس ایچ او نے بتایا کہ 17 اگست کے روز لڑکی جب گھر سے نکل کر کوچنگ جارہی تھی ، تبھی ان نوجوانوں نے جبراً واقعہ کو انجام دیا اور ویڈیو بنائی۔ ایف ا?ئی ا?ر درج ہونے کے بعد لڑکی کا میڈیکل چیک اپ کروا رہی ہے

ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی شان میں گستاخی کرنے والوں کٹہرے میں لانے کا حکم

ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی شان میں گستاخی کرنے والوں کٹہرے میں لانے کا حکم

saudi public prosecution
 ریاض ، 21اگست:(اردو اخبار دنیا)سعودی پبلک پراسیکیوشن کے ایک سرکاری ذریعے نے بتایا ہے کہ پراسیکیوٹر جنرل الشیخ #سعود بن عبداللہ المعجب نے #سوشل #میڈیا کے ذریعے ام #المومنین حضر #عائشہ صدیقہ کی شان میں گستاخی کرنے والے عناصر کو فوری طورپر گرفتارکرکے انہیں عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ پبلک پراسیکیوشن کے مانیٹرنگ سیل کی نشاندہی پر ایک ویڈیو سامنے لائی گئی ہے جس میں ام المومین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور بالواسطہ طورپر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کا ارتکاب کیا گیا ہے۔پراسیکیوٹر جنرل نے ویڈیو کے ذریعے مقدس ہستیوں کی گستاخی کے مرتکب عناصر کو فوج داری قانون کی دفعہ 15 اور 17 کے تحت گرفتار کرنے اور انہیں عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے، تاکہ ان کے خلاف سخت قانونی کارروائی عمل میں لائی جاسکے۔
ذرائع نے بتایا کہ #مقدس #مذہبی ہستیوں ، اسلامی اقدار اور عوامی اخلاقیات کی توہین پرمبنی مواد سوشل میڈیا پر شائع کرنا ان بڑے اور ناقابل معافی جرائم میں سے ایک ہے جنہیں اٹارنی جنرل کے فیصلے نمبر 1 مجریہ 1441 کے تحت گرفتارکرکے ان کے خلاف قانونی کارروائی عمل لانا ہے۔ اس نوعیت کے جرائم پر کم سے کم پانچ سال قید اور 30 لاکھ ریال جرمانہ کی سزا ہے۔

امریکی لڑکی نے آندھراپردیش کے لڑکے سے کرلی شادی

امریکی لڑکی نے آندھراپردیش کے لڑکے سے کرلی شادیحیدرآباد _ امریکی لڑکی اور آندھراپردیش کا لڑکا جو ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے، شادی کے اٹوٹ بندھن میں بندھ گئے۔تفصیلات کے مطابق اے پی کے مشرقی گوداوری ضلع کے کُپلاواری گوڑم گاوں کے رہنے والے این نارائن راواور اوشارمنی کا بیٹا شیوشنکر ملازمت کے سلسلہ میں امریکہ گیا تھا۔وہ ورجنینا میں آٹھ سال سے ملازمت کررہا تھا۔اس کے دوستوں نے اس کا تعارف امریکی لڑکی ملیساسے کروایااور دونوں میں محبت ہوگئی۔شیوشنکر نے اس بات سے اپنے والدین کو واقف کروایااورشادی کی اجازت مانگی۔ابتدا میں اس کے والدین نے اس شادی کے لئے رضامندی ظاہر نہیں کی تاہم اس نے اپنے والدین کو کسی طرح اس شادی کے لئے رضامند کرلیا۔اس طرح ان دونوں کی شادی ہندورسم ورواج کے ساتھ انجام پائی


‎بانده میں نابالغ لڑکی کے ساتھ اجتماعی آبروریزی ، 3 گرفتار ، 2 ملزمین کی تلاش

 بانده میں نابالغ لڑکی کے ساتھ اجتماعی آبروریزی ، 3 گرفتار ، 2 ملزمین کی تلاشباندہ(اردو اخبار دنیا): اترپردیش کے باندہ (Banda) ضلع میں ایک نابالغ لڑکی کے ساتھ آبروریزی (Rape) کے سانحہ کو انجام دیا گیا ہے۔ اہل خانہ نے تین لوگوں کے خلاف تندواری تھانے میں 14 اگست کو شکایت کی، لیکن پولیس نے معاملہ درج نہیں کیا تھا۔ پولیس معاملے میں ٹال مٹول کرتی رہی، جس کے بعد متاثرہ لڑکی کے اہل خانہ نے اعلیٰ افسران سے معاملے کی گہار لگائی۔ اس کے بعد 19 اگست کی رات کو معاملہ درج کرلیا۔ کچھ ہی دیر بعد 3 لڑکوں کو گرفتار بھی کرلیا گیا ہے اور عدالتی حراست میں بھیج دیا گیا ہے۔

پورا معاملہ تندواری تھانہ علاقے کے ایک گاوں سے سامنے آیا ہے۔ یہاں ایک لڑکی سے تندواری تھانہ کے بیدا گاوں کے رہنے والے 5 لڑکوں نے آبروریزی کی۔ تحریر کے مطابق، لڑکی اپنے گھر سے جنگل کی طرف قضائے حاجت کے لئے گئی تھی۔ وہیں پہلے سے بیٹھے حیوانوں نے آبروریزی کی واردات کو انجام دیا۔ حادثہ کے بعد متاثرہ لڑکی نے آپ بیتی اہل خانہ کو بتائی۔ بے ہوش حالت میں گھر پہنچی لڑکی کو دیکھ کر اہل خانہ کے ہوش اڑ گئے۔

اس کے بعد اہل خانہ نے لڑکی کو لے کر 14 اگست کو تندواری تھانے پہنچے، لیکن پولیس نے معاملہ میں لاپرواہی کرتے ہوئے کوئی بھی کارروائی نہیں کی، جس کے بعد متاثرہ فیملی نے اعلیٰ افسران سے پورے معاملے کی شکایت کی۔ معاملہ بڑھتا ہوا دیکھ کر باندہ ایس پی ابھینندن سنگھ نے 19 اگست کو آبروریزی کا معاملہ درج کراتے ہوئے ملزمین کی گرفتاری کے لئے ٹیم لگائی اور 3 نابالغ ملزمین کو گرفتار کرنے کے بعد ان کو عدالتی حراست میں بھیج دیا گیا ہے۔

باندہ ایس پی ابھینندن نے بتایا کہ 14 اگست کو ایک لڑکی کے ساتھ آبروریزی کا سانحہ پیش آیا تھا۔ اہل خانہ تھانہ پہنچے تھے اور اطلاع دے کر چلے گئے تھے۔ 19 اگست کو انہوں نے تحریری طور پر شکایت دی، جس کے بعد معاملہ درج کرلیا گیا ہے۔ لڑکی کو میڈیکل جانچ کے لئے بھیج دیا گیا ہے اور تین ملزمین کی گرفتاری بھی کرلی گئی ہے۔ لڑکوں کو عدالتی حراست میں بھیجا گیا ہے اور پورے معاملے کی تفتیش کی جارہی ہے۔ معاملے میں دو دیگر کی تلاش کی جارہی ہے۔

مولانا محمد قاسم نانوتویؒ جن کو تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی!

مولانا محمد قاسم نانوتویؒ جن کو تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی!

Muhammad Qasim Nanautavi

نقی احمد ندوی

انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کرنے کے بعد سب سے پہلا کام یہ کیا کہ ہندوستانی مسلمانوں پر اپنی زمین تنگ کر دی، وہ قوم جس نے ہندوستان کو ایک نئی تہذیب، ایک نئی ثقافت، ایک نئی زبان اور ایک نیا #آئین دیا تھا اور جس نے ہندوستان کی تعمیر وترقی کی بے مثال تاریخ لکھی تھی، اسی قوم کی تہذیب وثقافت اور حقوق کو پامال کرنے کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوا۔

ان کی زمین اور جاگیریں سلب کر لی گئیں، ان کی زبان کو غیر سرکاری قرار دیا گیا، ان کے ادارے اور انسٹی ٹیوشنس بند کر دیئے گئے، سرکاری نوکریوں سے انھیں بے دخل کر دیا گیا اور یہی نہیں بلکہ ان کے دین ومذہب پر بھی #انگریزی یلغار شروع ہوئی۔ ایک طرف #مسلمانوں کا وجود خطرہ میں تھا تو دوسری طرف ان کا مذہب اور دین انگریزوں کے بھیانک نشانہ پر تھا۔

ایسے حالات میں شاملی کا مرد مجاہد مولانا محمد قاسم نانوتوی اٹھا اور ہندوستان میں مسلمانوں کے دین ومذہب کی حفاظت کا بیڑہ اپنے سر اٹھا لیا اور مدارس ومکاتب کے قیام کے ذریعہ ایک ایسی تعلیمی تحریک کا آغاز کیا جو ہندوستان کے مسلمانوں کی تاریخ کا سب سے روشن باب بن گیا۔

مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے کئی شہروں میں مدارس کے قیام کی تحریک چلائی۔ چنانچہ دیوبند میں دارالعلوم، مرادآباد میں مدرسہ قاسمیہ شاہی، گولاوٹی میں مدرسہ منبع العلوم اور امروہہ میں مدرسہ جامع مسجد امروہہ قائم کیا، جہاں سے آج بھی علمِ دین کی ضیاپاشی کا سلسلہ جاری ہے۔

مولانا محمد قاسم نانوتویؒ سہارن پور کے قریب ایک گاؤں نانوتہ میں 1833ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا اسم گرامی اسد علی صدیقی تھا۔ ابتدائی تعلیم آپ نے اپنے گاؤں میں حاصل کی۔ 1843ء کے آخر میں مولانا مملوک علی نانوتوی آپ کو اپنے ساتھ دلی لے گئے، جہاں آپ نے منطق، فلسفہ اور علم کلام پر متعدد کتابیں مولانا مملوک علی سے پڑھیں۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد آپ مطبع احمدی میں ادارت کے فرائض انجام دینے لگے۔ ساتھ ہی درس وتدریس کا سلسلہ بھی جاری رکھا، اسی دوران آپ کا تعلق #مولانا حاجی امداد اللہ مہاجر مکی سے بھی ہوا جو آخری دم تک قائم رہا۔

1860ء میں آپ نے حج کیا اور حج سے واپسی کے بعد #میرٹھ کے مطبع مجتبیٰ میں نوکری کی، جہاں کتابوں کے نسخوں کا تقابل اور نظرثانی کا کام کیا کرتے تھے۔ اس کے بعد دوبارہ #حج پر روانہ ہوئے اور واپسی پر مطبع ہاشمی میں ملازمت اخیار کی۔میرٹھ کے قیام کے دوران ہی آپ نے 1857ء میں شاملی کی جنگ میں حصہ لیا، آپ کی #حراست کا حکم صادر ہوا اور اس دوران آپ نے پوشیدہ زندگی گزاری۔

جب 1858ء کے نومبر میں انگریز حکومت نے عام معافی کی منادی کی تب آپ نے اپنی علمی، دعوتی، تحریکی اور انقلابی سرگرمیوں کا پورے زور وشور کے ساتھ آغاز کیا۔ چنانچہ 1866ء میں جب دارالعلوم دیوبند کا مدرسہ معرض وجود میں آیا تو آپ نے وہیں اقامت اختیار کی اور اپنے آخری سانس تک اس مدرسہ کی تعمیر وترقی میں مصروف رہے۔

مولانا محمد قاسم نانوتویؒ ایک عظیم مجاہد، ایک مخلص مصلح، ایک بہترین مصنف، ایک یگانہ روز گار متکلم، ایک بے باک خطیب، ایک بے مثال استاذ ومربی اور ایک بے لوث خادم دین وملت ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے خلوص وللہیت اور زہد واستغنا کی وجہ سے سلف صالحین کی جیتی جاگتی تصویر تھے جس کی گواہی آپ کے معاصرین نے اپنی تحریر وتقریر میں ہمیشہ دی ہے۔

مولانا محمد #قاسم #نانوتویؒ کے عظیم الشان کارناموں میں سب سے عظیم کارنامہ دارالعلوم دیوبند کا قیام ہے، مصر کے جامع ازہر کے بعد دارالعلوم دیوبند کو دنیا کی سب سے بڑی اسلامک یونیورسٹی کے طور پر مانا جاتا ہے۔ مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے حاجی عابد حسین، مولانا مہتاب علی اور شیخ نہال احمد کے ساتھ مل کر 13؍ مئی 1866ء کو سہارن پور کے ایک چھوٹے سے گاؤں دیوبند میں اس کی بنیاد رکھی۔

اس کا آغاز دیوبند کی چھتیہ مسجد سے ہوا اور ایک درخت کے نیچے ایک استاذ اور ایک طالب علم کے ذریعہ اس کی شروعات ہوئی، مگر مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کی خلوص وللہیت اور بے مثال قربانی وجدوحہد نے اسے بہت ہی مختصر مدت میں ترقی کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ مولانا نے آخری سانس تک اسی بے غیبہ علم وفن کی آبیاری کی اور اس کی تعمیر وترقی میں مشغول رہے۔

دارالعلوم دیوبند ایک مدرسہ نہیں تھا بلکہ ایک مشن تھا، ایک تحریک تھی، جس کا خواب مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے دیکھا تھا اور وہ خواب یقینا پورا ہوا۔ مولانا نے دیوبند کے ایک چھوٹے سے شہر میں جو شمع جلائی تھی اس سے ہندوستان اور ہندوستان کے باہر تقریباً ہر بڑے شہر میں اس طرح کی شمعیں جلتی چلی گئیں کہ پورا برصغیر علم دین کے ان قمقموں سے جگمگا اٹھا۔

آج ہندوستان ہی نہیں بلکہ پاکستان، بنگلہ دیش، #افغانستان، جنوبی آفریقہ، برطانیہ کے ملاد، دنیا کے نہ جانے کتنے ممالک میں اہل دیوبند نے علم دین کا چراغ جلا رکھا ہے جس کی روشنی سے ہزاروں طالبانِ علوم نبوت روزانہ فیضیاب ہو رہے ہیں۔

پاکستان کا دارالعلوم کراچی، جامعہ اشرفیہ لاہور، جامعہ ضیاء القرآن فیصل آباد، ڈربن کا مدرسہ انعامیہ اور یورپ کے بیشتر مساجد ومدارس اسی دیوبند کی ضیاپاشیوں کا پرتوہیں۔ دوسری طرف ہندوستان کی آزادی میں دارالعلوم دیوبند کے فارغین نے جو تاریخ لکھی ہے جس کو اگر ہندوستانی تاریخ فراموش کرنا بھی چاہے تو نہیں کر سکتی۔ مولانا محمود الحسن، مولانا عبد اللہ سندھی، مفتی کفایت اللہ دہلوی، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا احمد علی لاہوری اور مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی کے علاوہ ایسے سیکڑوں نام ہیں جنھوں نے ہمارے ملک کی آزادی میں ایک اہم رول ادا کیا۔

جہاں تک علمائے دیوبند کی علمی، تصنیفی اور دینی ودعوتی خدمات کا تعلق ہے تو تبلیغی جماعت کے بانی مولانا الیاس کاندھلوی، پاکستان کے مفتی اعظم مولانا محمد شفیع، سیکڑوں کتابوں کے مصنف مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا محمود الحسن، مولانا انور شاہ کشمیری اور مولانا حسین احمد مدنی کے علاوہ ایسے سیکڑوں مفسر، محدث، فقیہ، ادیب، مصنف داعی اور علماء دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہوئے جن کی عظیم الشان خدمات ملت اسلامیہ کی تاریخ کا سنہرا باب ہیں۔

مولانا قاسم نانوتوی بلاشبہ علماء کرام کے لیے مشعل راہ ہیں جنھوں نے نہ صرف تلوار سے انگریزوں کے خلاف جنگ کیا، بلکہ تعلیم کے میدان میں ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک نئی سمت اور جہت دی۔اللہ تعالی انکے درجات بلند فرمایے۔ آمین۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...