Powered By Blogger

اتوار, اگست 29, 2021

فرق ہے پیدائشی مسلمان اور نو مسلم میں

فرق ہے  پیدائشی مسلمان اور نو مسلم میں

mustafa-ali-sarwari
محمد مصطفی علی سروری
تلنگانہ کے ایک ضلع کا واقعہ ہے۔ ہوا یوں کہ ایک مسلمان لڑکی نے اپنے گھر سے بھاگ کر ایک ہندو نوجوان کے ساتھ مندر جاکر وہاں پر شادی رچالی۔ اس واقعہ پر مسلم نوجوانوں میں خوب غم و غصہ کی لہر پھیل گئی ایک دوسرے کو غیرت دلانے کے لیے ہر کوئی سوشیل میڈیا اور واٹس ایپ کے ذریعہ مسیجس فارورڈ کر رہا تھا۔ بتلایا گیا کہ لڑکی کے ’’غیرت مند‘‘ رشتہ داروں نے لڑکے سے، اس کے گھر والوں سے بدلہ لینے کے لیے طرح طرح کے منصوبے بنانے شروع کردیئے اور پولیس میں بھی باضابطہ شکایت درج کروائی گئی۔
پولیس نے لڑکے اور لڑکی کو باضابطہ طور پر اپنے ہاں طلب کیا۔ لیکن لڑکی نے پولیس کے روبرو اپنا بیان ریکارڈ کروایا کہ اس نے اپنی مرضی سے ہندو لڑکے کے ساتھ شادی کی ہے۔ اب وہ اپنے مسلمان ماں باپ اور ان کے گھر کو واپس جانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی ہے۔ لڑکی چونکہ بالغ تھی۔ اس لیے پولیس کو لڑکی کا بیان ریکارڈ کرنے کے بعد لڑکی کے گھر والوں کی شکایت خارج کرنی پڑی اور ادھر غیرت مند مسلمان پولیس پر جانبداری کا الزام لگاتے ہوئے اپنے غصہ کا اظہار کر رہے تھے۔ 
دوسرے جانب جب یہ اطلاع اسی ضلع کے احمد بھائی (نام تبدیل) کو ملی تو انہوں نے خاموشی سے اس نوبیاہتا جوڑے کا پتہ اٹھایا اور پھر ان لوگوں کی کونسلنگ کرنے کے ارادے ان سے ملنے کے لیے نکل پڑے۔ لڑکی والوں کی طرف سے جس طرح سے اور جس انداز میں لڑکے کو اس کے گھر والوں کو دھمکیاں دی گئی تھیں اور ڈرایا گیا تھا اس پس منظر میں ہندو لڑکا اپنی بیوی کو لے کر ایک نامعلوم مقام پر رہ رہا تھا۔ ایسے میں احمد بھائی کو اس لڑکے سے ملنے اور کونسلنگ کے کام میں بڑی رکاوٹ رہی۔ خیر سے کسی طرح احمد بھائی نے لڑکے کو یقین دلایا کہ وہ اس سے ملنا چاہتے ہیں اور ان کی ملاقات کے لیے لڑکی یا اس کے گھر والوں کا کوئی رول نہیں ہے بلکہ وہ تو شادی شدہ جوڑوں کو خوش حال زندگی گذارنے کے لیے کونسلنگ کرتے ہیں۔
خیر سے احمد بھائی کی اس ہندو لڑکے اور مسلم لڑکی سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے دونوں کی خوشگوار ازدواجی زندگی کے لیے تفصیلی بات کی اور سمجھایا کہ دونوں کا الگ الگ مذہب سے تعلق ہونا اور لڑکی کا اپنے گھر سے بھاگ کرشادی کرنے مندر آنا کامیابی نہیں ہے بلکہ اصل کامیابی یہ بھی نہیں کہ پولیس نے ان دونوں کو بغیر کسی کیس کے چھوڑ دیا۔ احمد بھائی نے لڑکے کو سمجھایا کہ دونوں کی آگے کی شادی شدہ زندگی پرسکون گذرے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکنہ اقدامات کرنے چاہئے اور سب سے اہم بات کہ دونوں (لڑکے اور لڑکی) کے گھر والوں کی نیک خواہشات اگر شامل حال ہوجائیں تو اس سے بہتر دوسری کوئی بات نہیں ہوسکتی ہے۔
احمد بھائی نے لڑکے کو بتلایا کہ چھپتے چھپاتے یا اپنے ہی گھر سے دور رہ کر اپنا اور اپنی بیوی کا پیٹ پالنا کوئی آسان کام نہیں اور جب میاں بیوی کو ذہنی سکون نہیں تو انہیں اپنا گھر بسانا اور اپنے بچوں کے بارے میں سونچنا بھی ممکن نہیں۔ جب لڑکے نے احمد بھائی سے پوچھا کہ ان سارے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے تو احمد بھائی نے سمجھایا کہ تمہارے گھر والے تو تم سے ناراض ہی ہے کہ تم نے دوسروں کی لڑکی کو بھگاکر شادی کرلی۔ لڑکی کے گھر والے اس لیے ناراض کے تم نے ان کی بچی کو بھگایا۔
تمہارے پاس مستقل نوکری نہیں اور اگر تم دونوں کو تمہارے گھر والوں کا سپورٹ مل جائے تو اس سے بڑھ کر دوسرا کوئی سہارا نہیں ہے اور اگر تم مذہب اسلام میں داخل ہو جائو تو تم سکون کی زندگی گزار سکتے ہو کیونکہ تم کو اپنے سسرال والوں سے ذہنی سکون تو ملے گا ساتھ ہی آگے کی زندگی کے لیے ہر قدم پر وہ لوگ تم دونوں کی مدد بھی کرسکیں گے۔
اس کے بعد احمد بھائی نے کہا کہ تم پر کوئی زبردستی نہیں۔ میں تمہیں اسلام کے بارے میں کتابیں دیتا ہوں۔ تم پڑھ لو اسلام کو سمجھ لو اور اگر اطمینان ہوجائے تو بتادینا تب تم کو اسلام میں داخل ہونے کا طریقہ بھی بتادوں گا۔
احمد بھائی کے مطابق کونسلنگ کے دو تین سیشن ہوئے۔ بچی کو بھی سمجھ میں آگیا اور بالآخر لڑکے نے بھی اپنی خوشگوار ازدواجی زندگی کو یقینی بنانے کے لیے دائرہ اسلام میں داخل ہوکر مسلم لڑکی سے اب نکاح کرلیا اور یوں ایک ہی گائوں کے دو فرقوں کے درمیان جو تنائو اور کشیدگی پیدا ہوگئی تھی وہ بھی بڑی حد تک تھم گئی۔ قارئین کرام اس سارے واقعہ کو سننے کے بعد احمد بھائی کے کردار کو جاننے اور ان کی شخصیت کو سمجھنے کے لیے بے چینی بڑھ گئی اور پھر بالآخر ان کا پتہ چل ہی گیا۔احمد بھائی سے جب بات کی گئی تو انہوں نے ان ریکارڈ پر آنے سے بالکل منع کردیا۔
بحر حال درمیانی افراد نے انہیں اپنے متعلق بات کرنے کے لیے آمادہ کرلیا۔ لیکن ان کی ایک ہی شرط تھی کہ وہ اپنی اصلی شناخت مخفی ہی رکھنا چاہتے ہیں۔ البتہ وہ اپنے بارے میں اپنے کام کے بارے میں ضرور بات کریں گے۔
تقریباً 50 سال کی عمر کے احمد بھائی پیدائشی مسلمان نہیں ہیں۔ احمد بھائی نے مذہب اسلام کیوں اور کیسے قبول کیا اس کے متعلق وہ بتلاتے ہیں کہ ان کا تعلق تلنگانہ کے ایک ضلع سے ہے۔ بچپن میں ان کے بہت سارے دوست مسلمان تھے۔ ان کی عمر جب تقریباً 13 برس تھی تو انہوں اسلام کا مطالعہ شروع کیا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیوں انہوں نے اسلام کے متعلق جاننا ضروری سمجھا؟ تو احمد بھائی نے کہا کہ وہ ایک ہندو گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور جب وہ محلے میں اور اسکول میں اپنے مسلم دوستوں سے ملتے جلتے تو انہیں اندازہ ہوا کہ مسلمانوں کی زندگی گزارنے کا انداز الگ ہے۔
صرف انداز ہی نہیں مسلمانوں کے تہوار الگ ہیں۔ مسلمانوں کے ہاں خلوص ہے، مسلمانوں کی عورتیں بہت پردہ میں رہتی ہیں۔ غرض مسلمانوں کے گھروں کے حالات بھی ان کے گھر جیسے نہیں اور احمد بھائی کو جب وہ ہائی اسکول میں آگئے تو اپنے مسلم دونوں کے ساتھ رہنا، اٹھنا بیٹھنا اچھا لگنے لگا۔ ان کے مسلم دوست اجتماع میں جاتے تو وہ بھی ان کے ساتھ چلے جاتے۔ پھر ایک مرتبہ جب وہ اجتماع میں گئے تو وہاں ان کا تعارف ہوا کہ وہ غیر مسلم ہیں تو لوگوں نے ان کو تلگو زبان میں ’’ادے اسلام‘‘ نامی کتاب پڑھنے کو دی۔
احمد بھائی بتلاتے ہیں کہ اس کتاب میں مذہب اسلام کا تعارف اور اسلام کی بنیادی تعلیمات پڑھنے کے بعد انہوں نے طئے کیا کہ وہ بھی اسلام قبول کرلیں گے۔ کیا احمد بھائی کے لیے اسلام قبول کرلینا آسان تھا؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے بتلایا کہ ان کے گھر والے نقاش تھے اور مجسمہ سازی ان کا خاندانی پیشہ تھا۔ وہ اپنے گھر کے سب سے بڑے بیٹے تھے۔ ان کے گھر میں 10،  15 فٹ کے مجسمے تیار ہوتے تھے لیکن گھر کے کسی فرد کو بھی اسلام کے بارے میں معلوم نہیں تھا۔ 
احمد بھائی بتلاتے ہیں کہ یہ اللہ رب العزت کا بڑا فضل و کرم تھا کہ اس نے مجھے اپنے پڑوس میں اور اسکول میں مسلمان دوستوں کی دولت سے نوازا جن کی بدولت، جن کے رہن سہن اور ن کے گھر کے حالات دیکھ کر مجھے اسلام میں دلچسپی پیدا ہوئی اور میں نے اپنے گھر والوں کو بتلائے بغیر اسلام کا مطالعہ شروع کردیا۔ کتابیں لاکر اپنی الماری میں چھپاکر رکھتے اور پڑھتے تھے اور جب کتابیں پڑھی تو مذہب اسلام احمد بھائی کو اتنا پسند آیا کہ وہ اپنا آبائی مذہب چھوڑ کر اسلام کے دائرے میں داخل ہوگئے۔
لیکن تب تک بھی ان کے گھر والوں کو ان کے قبول اسلام کا علم نہیں تھا کیونکہ وہ ابھی آٹھویں جماعت کے اسٹوڈنٹ تھے۔ انہیں ڈر تھا کہ اگر سب کو معلوم ہوگا تو ان کے گھر والے انہیں گھر سے نکال دیں گے۔ اس لیے وہ چھپ چھپ کر اپنے دوستوں کے ساتھ محلے کے مولانا کے پاس گئے اور کلمہ پڑھ لیا۔ 
اب ان کی دعا یہی ہوتی تھی کہ ائے اللہ تو مجھے جلد سے جلد خود کفیل بنادے تاکہ اگر میرے گھر والے مجھے گھر سے بے دخل کردیں تو اس صورت میں میں اپنے پیروں پر خود کھڑا ہوسکوں۔ دوستوں کے ساتھ رہ کر دین اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی بات احمد بھائی کے گھر والوں سے زیادہ دن چھپی نہیں رہ سکی۔ 
ایک دن جب وہ اسکول سے گھر واپس لوٹے تو پورے گھر والوں نے مل کر ان کا استقبال کیا اور ان کی الماری سے نکلنے والی اسلامی کتب بتلاکر ان سے اعتراف کروایا کہ وہ مسلمان ہوچکے ہیں۔احمد بھائی کے مطابق اس رات انہیں اپنے ہی گھر کی چھت سے الٹا لٹکا کر مارا گیا اور دونوں پیروں کو باندھ کر پوری رات ویسے ہی الٹا چھوڑا گیا کہ اسلام چھوڑکر واپس اپنے آبائی مذہب پر لوٹ آئو۔ اگلے دن ان کے ماموں کو ان پر ترس آگیا تو انہوں نے ان کی رسی کھولی اور زمین پر اتارا۔
احمد بھائی بتلاتے ہیں اُس رات بھر الٹا لٹکنے کے بعد ان کے پائوں کی رگیں جو پھول گئی تھی وہ آج بھی اس کا درد محسوس کرتے ہیں۔ بالآخر وہ اپنا گھر چھوڑ کر باہر نکلے اور اپنی تعلیم کا اور اپنے اخراجات خود جمع کرنے کے لیے کام کرنے کا آغاز کیا۔ انٹرمیڈیٹ پورا کیا۔ پھر ڈگری کامیاب کی۔ صبح صبح لوگوں کے گھروں پر اخبار ڈالا اور مجسمہ سازی کے بجائے سائن بورڈس اور بیانرس لکھنا شروع کیا۔ اردو سیکھی، اردو کے بیانرس اور بورڈ بنانے لگے۔ عربی سیکھی عربی کے بورڈ بنانے لگے۔
بھوکے پیٹ رہنا گوارہ کیا مگر کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائے۔ اپنے رب سے دعا کرتے کہ ایمان کی دولت دی ہے تو عزت اور سلامتی والی زندگی بھی عطا فرما۔ مسجد کے کمرے میں تین سال گذارے۔ پھر بیٹری پیاکنگ کا کام کیا۔ طغرے بنانے لگے۔ اسکول میں ٹیچر کے طور پر تلگو اور انگلش پڑھانے لگے۔ ایک بچے کو ٹیوشن پڑھانے پر دس روپئے ملتے تھے۔ گائوں بدلا اور سائن بورڈ لکھنے لگے۔ 2 x 3 کا ایک بورڈ لکھتے تو 50 روپئے ملتے تھے۔ سائیکل پر گائوں گائوں جانا پڑتا تھا۔ ہمت نہیں ہاری اور شادی کا مرحلہ آیا تو ایک ہی شرط رکھی کہ مجھے ایسی لڑکی چاہئے جو اسلام سے لگائو رکھتی ہو اور مجھے اسلام سکھا سکتی ہو۔ کیونکہ احمد بھائی کا احساس تھا کہ روزگار کے چکر میں وہ اتنے مصروف ہوگئے ہیں کہ دین اسلام سیکھنے کے لیے الگ سے وقت ہی نہیں نکال سکتے۔ ایسے میں بیوی دیندار ہو تو دین گھر پر ہی سیکھا جاسکتا ہے۔
احمد بھائی کے مطابق الحمد للہ انہیں ایک نیک خاتون کا رشتہ ملا جو بڑی شکر گزار ہیں اور زندگی کے ہر قدم پر ان کا حوصلہ بڑھاتی ہیں۔ ساتھ انہوں نے کہا کہ ان کی بیگم ان کی جدو جہد سے بھری زندگی میں بڑی صابر رہی کہ کسی دن کھانا کم ملا تو بھی حرف شکایت زبان پر نہ لاتی اور نہ ہی اپنے ماں باپ سے شکایت کرتی۔شادی میں اگرچہ احمد بھائی نے والدین کو دعوت دی تھی لیکن ان لوگوں نے شرکت نہیں کی۔ البتہ شادی کے بعد والدہ اور بہن ان کی بیوی سے ملنے آئیں اور ان کی بیوی خوب برا بھلا کہا لیکن ان کی بیوی نے ان دونوں کی اپنے شوہر کی ہدایت کے مطابق اچھی تواضع کی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ احمد بھائی کی والدہ جو کہ اپنے آبائی دین پر ہی تھی مرتے وقت بھی اپنی بہو کی تعریف کرتی رہیں کہ ہم نے اس کو اس کے گھر میں ہی برا بولا مگر وہ اف تک نہیں بولی۔
احمد بھائی کہتے ہیں کہ آج مسلمانوں کے ہاں دین اسلام صرف رسومات تک محدود ہوکر رہ گیا۔ مسلمان قرآن تو پڑھ رہا ہے مگر قرآن مسلمان سے کیا کہہ رہا ہے وہ مسلمانوں کو نہیں معلوم۔ ایسے میں دین مسلمانوں کی زندگی سے دور ہوگیا اور نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ مسلمان لڑکیاں مسلم گھرانوں میں پیدا ہونے، بڑے ہونے کے بعد بھی دیگر مذاہب کے لڑکوں کے ساتھ بھاگنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کر رہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ کہاں وہ گائوں کا ماحول جہاں بچپن میں انہوں نے دوستوں کے ساتھ رہ کر دین اسلام کو سمجھا اور سیکھا اور کہاں آج کی نوجوان نسل جو دین اسلام سے خود بھی واقف نہیں اور بس دوسروں سے نفرت کرنا سیکھ رہی ہے۔ 
احمد بھائی نے بتلایا کہ انہوں نے حالیہ عرصے میں تین ایسے غیر مسلم لڑکوں کی کونسلنگ کی ہے جنہوں نے مسلم لڑکیوں کے ساتھ شادی کرلی تھی۔ ان کے مطابق مسلمانوں اور مسلم تنظیموں کو دین اسلام کی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے اب از سر نو منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔ اور پہلی ترجیح خود مسلمانوں کو دین اسلام کی حقیقی تعلیمات سے واقف کروانے کو دی جانی چاہیے۔انہوں نے سوال کیا کہ آج کا مسلمان نوکری کے لیے عربی زبان سیکھ رہا ہے تو اللہ کی کتاب قرآن مجید کو سمجھنے کے لیے عربی سیکھنے کے لیے کونسی رکاوٹ ہے۔
بحر حال احمد بھائی دائرے اسلام میں داخل ہونے کے بعد اپنی ذات سے خدمت خلق میں مصروف ہیں اور ہم پیدائشی مسلمانوں کو احمد بھائی کی زندگی اور کام سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہم پیدائشی مسلمانوں کو بھی دین اسلام سمجھنے، قرآن پاک سمجھ کر پڑھنے اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین ۔
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)

دردناک سڑک حادثہ، تین دن کی دلہن موت کی آغوش میں

دردناک سڑک حادثہ، تین دن کی دلہن موت کی آغوش میں

بیٹی کی خوشیوں کے ارمان کے ساتھ باپ بھی ہلاک، شوہر اور دیگر زخمی، ضلع نرمل میں واقعہ

نرمل:(اردودنیانیوز۷۲) جہاں بجتی ہے شہنائی وہاں ماتم بھی ہوتے ہیں۔ ایک دلہن جس کے ہاتھوں میں ابھی مہندی کا رنگ پوری طرح چڑھا بھی نہیں تھا کہ وقت کے بے رحم ہاتھوں نے موت کی آغوش میں لے لیا۔ والد کے اپنی بیٹی کو ڈولی میں وداع کرنے کے بعد کی خوشیوں کا خواب چکنا چور ہی نہیں بلکہ خود بھی چل بسے۔ تفصیلات کے بموجب کل رات یعنی صبح کی اولین ساعتوں ایک بجکر 15 منٹ پر پولیس کو 100 ڈائیل کال وصول ہوا ۔ کال موصول ہوتے ہی سب انسپکٹر کڑم پولیس اسٹیشن مسٹر راجو اپنے عملے کے ساتھ مقام واقعہ روانہ ہوئے جبکہ موقع پر تین دن کی دلہن مونیکا اور اس کے والد راجنا کی موت واقع ہوگئی تھی جبکہ اس کے شوہر جناردھن اور ایک دوست کے علاوہ ڈرائیور زخمی ہوگیا تھا جسے پولیس نے فوری سرکاری دواخانہ منتقل کردیا۔ یہ واقعہ کڑم پولیس اسٹیشن کے حدود پانڈوایوا میں پیش آیا۔ سب انسپکٹر پولیس کڑم مسٹر راجو نے ضابطہ کی کارروائی کرتے ہوئے مقدمہ درج رجسٹر کرکے تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔ حادثہ کی تحقیقات باریک بینی سے کی جارہی ہیں۔ تاہم دولہن کی ازدواجی خوشیاں خاک میں مل گئی۔ والد کے ارکان اپنی جگہ لیکن وہ بھی اس حادثہ میں ہلاک ہوگیا-

مراٹھواڑہ سمیت ریاست میں دوبارہ موسلادھاربارش کی پیش گوئی

ممبئی:28اگست۔ (اردو دنیا نیوز۷۲)ریاست میں چنددنوں سے بارش رُک گئی تھی۔ لیکن محکمہ موسمیات نے اگلے چار دنوں تک ریاست میں شدید بارشوں کی پیش گوئی کی ہے۔ محکمہ موسمیات نے خلیج بنگال میں بننے والے کم پریشر کے علاقے اور مغربی اور وسطی ہندوستان کے سفر کے امکانات کی وجہ سے اگلے چار تاپانچ دنوں میں ریاست کے کچھ حصوں میں موسلا دھار سے بہت زیادہ بارش کی پیش گوئی کی ہے۔

جبکہ 30 اگست کو ریاست میں بارشیں تیز ہو جائیں گی۔ مراٹھواڑہ کے پربھنی کے علاوہ ناسک ، تھانے ، رائے گڑھ ، کونکن پٹہ اور پالگھر کے لیے اورنج الرٹ جاری کیا گیا ہے۔ ان مقامات پر بھاری سے بہت زیادہ بارش کی پیش گوئی کی گئی ہے۔اسلئے مراٹھواڑہ اور ودربھ میں بھی بارش کی توقع ہے۔

 

ناندیڑ:جائیداد مالکان پر 140کروڑ روپیوں کاٹٰیکس بقایا

ناندیڑ:28اگست۔ (اردو دنیا نیوز۷۲)سال 2017 کے میونسپل کارپوریشن انتخابات میں کانگریس پارٹی نے عوام کو شہر کی ترقی کے خواب دکھائے تھے ۔اورعوام نے کانگریس کو90فیصدووٹ دے کر کامیاب بھی بنایا لیکن گزشتہ چارسالوں کے درمیان شہر کی حالت کافی ابتر ہوگئی ہے۔کوئی اہم ترقیاتی کام انجام نہیں دئےے گئے اور نہ سڑکوں کی تعمیر ہوئی ہے۔ایسے حالات میں شہریان پر 140کروڑ رپیوں کاجائیداد ٹیکس بقایا ہے ۔

جس کی عدم وصولی سے بھی شہر کے ترقیاتی کام متاثر ہوئے ہیں۔ریاست کے وزیر اشوک راوچوہان نے سال 2017 ءکے ناندیڑبلدیہ انتخابات میں ریاست میں بی جے پی کااقتدارہونے کے باوجود کانگریس پارٹی کوزبردست کامیابی سے ہمکنار کیا۔اسکے بعدریاست میں سال 2019 میں اقتدار میں تبدیلی آئی اورکہاجارہاتھا کہ ناندیڑشہر کی ترقی کی راہ ہموار ہوگئی ہے لیکن تقریباتین سال کاعرصہ گزرہا ہے شہر میں کوئی اہم ترقیاتی کام نہیں ہوئے ۔

بالخصوص سڑکوں کی حالت انتہائی خستہ بنی ہوئی ہے ۔جس سے حادثات بڑھ گئے ہیں۔شہر کی کئی بستیوں میںعوام بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ ناندیڑکارپوریشن کی تجوری بھی خالی ہے ۔ٹیکس کی رقم ہی کارپوریشن کی آمدنی کابڑا ذریعہ ہوتا ہے لیکن ہرسال کروڑوں روپے بقایارہے جاتے ہیں اورآج یہ رقم 140کروڑ تک پہنچ گئی ہے شہر میں کھلی جگہوںکاٹیکس وصو ل کیاجائے تو کارپوریشن کوکروڑوں کی آمدنی ہوگی ۔

دلہا دلہن کا شادی کے لباس میں پش اپس لگانے کا مقابلہ

ہر دلہا دلہن کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی شادی میں کچھ منفرد ہونا چاہیے تاکہ لوگوں کو کئی عرصے تک ان کی شادی یاد رہے۔تیار ہو کر جہاں لڑکی میک اپ اور عروسی لباس میں زیادہ چلنے پھرنے سے پرہیز کرتی ہے وہیں دلہا بھی اس بات کا خاص خیال رکھتا ہے کہ اس کا لباس خراب نہ ہو جائے۔تاہم حال ہی میں بھارتی میڈیا پر شیئر کی گئی بھارتی جوڑے کی ویڈیو نے سوشل میڈیا صارفین کو حیرت میں مبتلا کر رکھا ہے۔

وائرل ویڈیو میں دلہن کو لال عروسی لباس اور دلہے کو شیروانی اور قلے میں پش اپس لگاتے دیکھا جاسکتا ہے۔ویڈیو سوشل میڈیا پلیٹ فارم انسٹاگرام پر ‘وِٹی ویڈنگ’ نامی پیج کی جانب سے شیئرکی گئی ہے جسے صارفین کی جانب سے بے حد پزیرائی مِل رہی ہے۔خیال رہے کہ اس سے قبل بھی ایک بھارتی دلہن کے پش اپس لگاتے ہوئے ویڈیو وائرل ہوئی تھی۔

12 سالہ "احمد” ویئرڈ ویلز نامی این ایف ٹیز بیچ کر کروڑ پتی بن گیا

لندن میں سکول کی چھٹیوں کے دوران ایک 12 برس کا لڑکا نان فنجیبل ٹوکٹنز (این ایف ٹیز) کی فروخت سے کروڑ پتی بن گیا ہے۔

بنیامین احمد نے ویئرڈ ویلز نامی این ایف ٹیز کی متعدد تصاویر بنائیں کیں اور پھر مارکیٹ میں ان کی ڈیجیٹل ٹوکن فروخت کر دیے جس سے اسے 290،000 پاؤنڈز کی آمدن حاصل ہوئی۔

این ایف ٹیز کے ذریعے فنپاروں کو ٹوکنز بانٹا جا سکتا ہے اور پھر ایک ڈیجیٹل سرٹیفکیٹ کی ملکیت حاصل کی جاتی ہے، جسے خریدا اور فروخت کیا جا سکتا ہے۔

عام طور پر خریدار کو حقیقی آرٹ ورک یا اس کے جملہ حقوق نہیں دیے جاتے۔

بنیامین احمد اپنی آمدنی کو کرپٹو کرنسی ایتھیریئم کی شکل میں ہی رکھیں گے جس میں پھر ان (این ایف ٹیز) کی فروخت ہوتی تھی۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اس ڈیجیٹل ٹوکن کی قیمت کم یا زیادہ ہو سکتی ہے اور اگر ڈیجیٹل ویلیٹ جس میں یہ کرنسی رکھی جاتی ہے کسی وجہ سے ہیک یا چوری ہو جائے تو پھر ایسے میں حکام کے پاس اس کا کوئی حل موجود نہیں ہے۔

بنیامین نے کبھی کسی بینک میں اپنا اکاؤنٹ نہیں کھلوایا۔

’بچوں پر فخر ہے‘

بنیامین کے کلاس فیلوز ابھی تک اس کی اس دولت سے آگاہ نہیں ہیں اگرچہ اس نے اپنے اس شوق کے بارے میں یوٹیوب پر ویڈیوز بھی بنا رکھی ہیں، جن سے وہ تیراکی، بیڈمنٹن اور ٹیکوانڈو جیسے اپنے مشاغل کی طرح لطف اندوز ہوتا ہے۔

بنیامین نے دوسرے بچوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ اس شعبے میں قدم رکھنے کے لیے اپنے آپ کو کسی بھی قسم کے دباؤ میں نہ لائیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے اگر آپ کو کھانا پکانا اچھا لگتا ہے تو پھر ضرور کھانا پکائیں، اگر آپ کو ڈانس اچھا لگتا ہے تو پھر اپنی قابلیت کے عین مطابق ضرور ڈانس بھی کیجیے۔

بنیامین کے والد عمران ایک سافٹ وئیر ڈویلپر ہیں، جو روائتی فنانس کا کام کرتے ہیں، جس سے پانچ اور چھ برس کی عمر میں ہی بنیامین اور اس کے بھائی یوسف کی بھی اس ڈیجیٹل کرنسی کے شعبے کی طرف رغبت ہو گئی۔

بچوں کو اس وقت ٹیکنالوجی کے ایک مضبوط نیٹ ورک کا بڑا فائدہ بھی حاصل ہے اگرچہ ماہرین ہی اس حوالے سے کوئی حتمی اور بہتر تجویز یا مدد کر سکتے ہیں مگر عمران کو اپنے بچوں کی اس صلاحیت پر بہت ناز ہے۔

مزید دلچسپی بڑھ گئی

ان کے والد عمران کے مطابق اگرچہ یہ بچوں کے لیے ایک لطف اندوز ہونے کا ایک مشغلہ تھا مگر مجھے شروع سے ہی پتا چل گیا تھا کہ ان بچوں کا اس طرف بہت رحجان ہے اور وہ اس شعبے میں بہت اچھے بھی ہیں۔

’اس کے بعد ہم نے انھیں کسی حد تک سنجیدہ لینا شروع کر دیا۔ مگر اب یہ روز کا معمول بن چکا ہے کیونکہ آپ اس کام میں راتوں رات مہارت حاصل نہیں کر سکتے ہیں اور آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں یہ کوڈنگ کا کام تین ماہ میں سیکھ جاؤنگا۔‘

عمران کے مطابق ان کے بچے روزانہ 20 یا 30 منٹس کوڈنگ کی مشق کرتے تھے اور چھٹی والے دن بھی وہ یہ کرتے ہیں۔

وئیرڈ ویلز بنیامین کی دوسری ڈیجیٹل آرٹ کو کولیکشن ہے۔ اس سے قبل اس نے مائین کرافٹ میں قسمت آزمائی کی تھی جس میں اسے خاطر خواہ کامیابی نصیب نہیں ہو سکی تھی۔

،تصویر کا ذریعہBENYAMIN AHMED

اس بار اسے ایک مشہور ویل کی تصویر والی میم اور ڈیجیٹل آرٹ سٹائل سے حوصلہ ملا۔ مگر اس نے ایموجی ٹائپ کی ویل کے اپنے پروگرام کے تحت 3350 تصاویر کا سیٹ تیار کیا۔

بنیامین کے مطابق اپنے کام سے آمدن حاصل کر کے انھیں بہت مسرت ہوئی اور وہ سب میری سکرین پر آہستہ آہستہ منافع کماتی نظر آ رہی تھیں۔

بنیامین پہلے ہی اپنی تیسری سپر ہیرو والی کولیکشن پر کام کر رہے ہیں۔ وہ پانی کے اندر ویلز پر بھی ایک گیم بنانے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔

بنیامین کے مطابق یہ بہت ہی دلچسپ ہو گی۔

عمران کو سو فیصد یقین ہے کہ اس کے بیٹے نے جملہ حقوق کے اصولوں کی خلاف ورزی نہیں کی ہے اور انھوں نے بنیامین کے کام کے آڈٹ کے لیے وکلا کی بھی خدمات حاصل کی ہیں۔ یہ وکلا اس بات کا بھی تعین کریں گے کہ بنیامین کے ڈیزائین کو ٹریڈ مارک میں کیسے ڈھالا جا سکتا ہے۔

آرٹ کی دنیا این ایف ٹیز پر تقسیم دکھائی دیتی ہے۔

آرٹسٹ کا کہنا ہے کہ یہ کمائی کا ایک اہم اضافی ذریعہ ہے۔ اس شعبے میں مہنگی فروخت سے متعلق چونکا دینے والی متعدد کہانیاں ہیں۔

ابھی اس متعلق شک کا بھی اظہار کیا جاتا ہے کہ کیا یہ ایک طویل دورانیے کی محفوظ سرمایہ کاری ہو گی یا نہیں۔

کرسٹی کے سابق آکشنر چارلس الیسوپ نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ این ایف ٹیز کی خریداری کی کوئی تک نہیں بنتی۔

انھوں نے روان برس کے آغاز میں کہا تھا کہ ایک ایسی چیز کو خریدنا جو موجود ہی نہ ہو ایک تعجب والی بات ہے۔

ان کے مطابق لوگ اس شعبے میں سرمایہ کاری کرتے ہیں وہ کسی حد تک بے وقوف ہیں مگر انھیں قوی امید ہے کہ ایسا کرنے سے وہ اپنی جمع پونجی سے ہاتھ نہیں دھو بیٹھیں گے۔

اہم خبر:کووڈ سے متعلق رہنما ہدایات 30 ستمبر تک نافذ رہیں گی

نئی دہلی، 28 اگست (اردو دنیا نیوز۷۲) مرکزی وزارت داخلہ نے کووڈ وبا سے نمٹنے اور اس کے انتظام کے لئے ملک بھر میں چلائی جارہی مہم کے تحت جاری رہنما ہدایات اور کووڈ سے متعلق مناسب رویہ پر عمل کی مدت میں 30 ستمبر تک اضافہ کردیا ہے۔

 

مرکزی داخلہ سکریٹری اجے بھلہ نے آج ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام خطوں کے چیف سکریٹریوں اور منتظمین کو الگ الگ خط لکھ کر کہا کہ کووڈ۔ 19 سے بچاؤ اور روک تھام کے لئے ملک بھر میں پہلے سے ہی نافذ صحت اور کنبہ بہبود کی مرکزی وزارت کے رہنما خطوط اور احتیاطی تدابیر اب 30 ستمبر تک نافذ رہیں گی۔

 

ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام خطوں کو لکھے گئے خط میں مسٹربھلہ نے کہا کہ قومی سطح پر وبا کی صورتحال کل ملاکر مستحکم ہے لیکن کچھ ریاستوں میں انفیکشن میں ابھی بھی اضافہ دیکھا جارہا ہے جو باعث تشویش ہے۔

انہوں نے ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام خطوں سے کہا ہے کہ تہواروں کے پیش نظر بھیڑ نہ ہونے دیں اور ضرورت پڑنے پر مقامی سطح پر پابندی لگائیں جس سے بھیڑ اور بڑی تعداد میں لوگوں کو یکجا ہونے سے روکا جائے سکے۔ انہوں نے کہا کہ کووڈ سے متعلق مناسب رویہ کو سختی سے نافذ کیا جانا چاہیے۔ ساتھ ہی جانچ، شناخت ، علاج، ٹیکہ کاری اور کووڈ سے متعلق مناسب رویئے کی پانچ سطحی پالیسی پر پوری طرح زور دیا جانا چاہیے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...