ہندوستانی مسلمانوں پر تشدد عالمی برادری کا توجہ دینا ضروری
افسوس کہ متاثرہ چوڑی فروش کے خلاف بھی ایف آئی آر درج کیا جاتا ہے
افسوس کہ متاثرہ چوڑی فروش کے خلاف بھی ایف آئی آر درج کیا جاتا ہے
مظفر نگر : آواز دی وائس مرکزی حکومت کے تین زرعی قوانین کے خلاف آج اتر پردیش کے مظفر نگر میں کسان مہا پنچایت کا انعقاد کیا جائے گا۔ متحدہ کسان مورچہ شہر کے جی آئی سی گراؤنڈ میں منعقد ہونے والی اس مہا پنچایت کا اہتمام کر رہا ہے۔ دعوی کیا جاتا ہے کہ اس میں ملک بھر سے 5 لاکھ کسان پہنچیں گے۔ بھارتیہ کسان یونین کے صدر نریش ٹکیت کے بیٹے گورو خود اس ایونٹ کو سنبھال رہے ہیں۔
مہا پنچایت کے لیے زمین کے کنارے ایک اسٹیج بنایا گیا ہے۔ یہ پلیٹ فارم تقریبا سو فٹ لمبا اورسو فٹ چوڑا ہے۔ اونچائی 10 فٹ ہے۔ یہاں سے مہا پنچایت میں آنے والے کسانوں سے خطاب کیا جائے گا۔ سامنے زمین پر خیمے بھی لگائے گئے ہیں۔ ترنگا زمین میں 100 فٹ کی بلندی پر ایک بڑے کھمبے پر لہرا رہا ہے۔ ’
دعوی ہے کہ ملک کے کونے کونے سے کسان مہا پنچایت پہنچیں گے۔ ان کے یہاں رہنے اور کھانے کا انتظام کیا گیا ہے۔ بی کے یو لیڈر گورو ٹیکیٹ خود نظام کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شہر میں مختلف مقامات پر 500 دکانوں میں کھانے کے انتظامات کئے گئے ہیں۔ ہر بھنڈارا میں حلوائیوں سمیت دس افراد مصروف ہیں۔ اسٹورز کے علاوہ 5 ستمبر کو 110 دیہات سے کھانا آئے گا۔ دیگر جگہوں پر بھٹی بھی لگائی گئی ہے۔
شہریان کو اپنے آدھارکارڈ‘الیکشن کارڈ یاالیکشن کی سلیپ اور 55 روپے لے کر قریبی ایس ٹی ڈپو جانا ہوگا اور ساتھ میں موبائل فون رکھناضروری ہے ۔ ایس ٹی ڈپو آفس کے اوقات صبح دس بجے تا شام چھ بجے تک مقرر ہیں۔ان اوقات میں سینئر شہریان ڈپوکے تعلقہ سکشن میں پہونچ کر اپنااسمارٹ کارڈ تیار کرواسکتے ہیں۔
غذائی ماہرین کے مطابق رائی دانے میں جُز ’ گلوکوسینولیٹ‘ (glucosinolate) پایا جاتا ہے جو کہ رائی کو منفرد ذائقہ دیتا ہے، رائی دانے میں موجود مرکبات انسانی جسم بالخصوص بڑی آنت میں سرطانی خلیوں سے بچاؤ ممکن بناتے ہیں، رائی کے بیجوں میں فائبر کم اور کاربوہائیڈریٹس زیادہ پائے جاتے ہیں۔
غذائی ماہرین کے مطابق رائی دانے میں صحت کے لیے بنیادی جز سمجھے جانے والے فیٹی ایسڈز بھی پائے جاتے ہیں، اس میں اومیگا3، سیلینیم، مینگنیز، میگنیشیم، وٹامن B1، کیلشیم، پروٹین اور زِنک بھرپور مقدار میں پایا جاتا ہے۔
ماہرین کی جانب سے رائی دانے کو روزانہ کی بنیاد پر خوراک میں شامل کرنا اور اس سے مستفید ہونا تجویز کیا جاتا ہے۔رائی دانے کے روزانہ کی بنیاد پر حاصل ہونے والے بے شمار طبی فوائد اور رونما ہونے والی جسمانی تبدیلیاں مندرجہ ذیل ہیں۔
بہتر نظام ہاضمہ
ہاضمے کی بہتر کارکردگی کے لیے رائی دانہ بہترین سمجھا جاتا ہے، کیونکہ یہ انسانی جسم میں میٹابولزم کے عمل کو مضبوط بناتے ہیں اور ہاضمے کے مسائل کو کم کرتے ہیں، اس کے نتیجے میں انسان کا جسمانی وزن کم ہوتا ہےخصوصاً باہر نکلا پیٹ اندر جانے لگتا ہے۔
جوڑوں کے درد کا علاج
کیلشیم اور میگنیشیم سے بھرپور ہونے کے سبب یہ عمر بڑھنے کے ساتھ خواتین کو ہڈیوں سے متعلق مسائل سے محفوظ رکھتے ہیں، چہرے سے جھریوں کا خاتمہ کرتے ہیں۔کمر کے درد یا پٹھوں کی اکڑن کے مسئلے سے دوچار فراد رائی کے دانے چبا لیں، اس سے درد میں کمی آئے گی اور پٹھوں کی سختی اور سوجن کم ہوگی۔
کینسر سے نجات
رائی دانوں کے اندر ایسے انزائمز enzymes پائے جاتے ہیں جو بڑی آنت کے سرطان کا خاتمہ کرتے ہیں، یہ سرطانی خلیوں کو بڑھنے اور پیدا ہونے سے روکنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔
سوزش اور انفیکشن کا علاج رائی دانوں میں سیلینیم ہوتا ہے، جو دمے کے حملوں اور جوڑوں کے گٹھیا کے درد کی شدت کو کم کر دیتا ہے۔
رائی دانے سوزشوں بالخصوص چنبل کے نتیجے میں ہونے والے زخموں اور انفیکشنز کا مقابلہ کرنے کی بھرپورصلاحیت رکھتے ہیں۔
بلڈ پریشر کے مسائل میں معاون
رائی دانے میں موجود میگنیشیم فشار خون کو کم کرتا ہے اور یہ آدھے سر کے درد کی شدت میں بھی کمی لاتا ہے۔
وائرل انفیکشن، الرجی میں افاقہ
رائی دانوں کی یہ خاصیت ہے کہ یہ نزلے کی شدت کو کم کرتے ہیں اور سانس کی نالی میں تنگی سے نجات حاصل کرنے میں مدد دیتے ہیں۔
اگر کسی کو مٹی سے الرجی کے سبب سانس لینے میں دشواری پیش آتی ہے تو وہ رائی کے بیج چبالے، افاقہ ہوگا۔
دادا بھائی نوروجی ممبئی کے ایک نسبتًا غریب پارسی گجراتی خاندان میں 4 ستمبر 1825 میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے تعلیم ایلفنسٹن انسٹی ٹیوٹ سکول میں حاصل کی۔ وہ 28 برس کی عمر میں برطانیہ کے زیر انتظام چلنے والے ممبئی کے ایلفنسٹن کالج کے پہلے انڈین پروفیسر مقرر ہوئے جہاں وہ ریاضی اور فزکس پڑھاتے تھے۔انھوں نے بڑودہ کے مہاراجہ کے دیوان کے طور پر بھی کچھ عرصے تک کام کیا تھا۔ وہ ایک ترقی پسند قوم پرست تھے ۔وہ انڈیا کی سب سے پرانی سیاسی جماعت انڈین نیشنل کانگریس کے بانیوں میں تھے ۔انھیں انڈیا کی آزادی کی جد وجہد کے ابتدائی اہم ترین رہنماؤں میں شمار کیا جاتا ہے۔
1855 میں پہلی بار برطانیہ گئے
مورخ دینیار پٹیل لکھتے ہیں کہ ’برطانیہ میں وہاں کی دولت اور خوشحالی کو دیکھ کر ان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ اس کے بعد وہ یہ سمجھنے کی کوشش کرتے رہے کہ آخر ان کا ملک اتنا افلاس زدہ کیوں ہے۔‘
’انھوں نے دوعشرے تک ملک کی معیشت کا گہرا مطالعہ کیا اور سامراجی برطانیہ کے اس نظریے کو مسترد کر دیا کہ نوآبادیاتی نظام عوام کے لیے خوشحالی کا ضامن ہے۔‘دادا بھائی نے ’پاورٹی اینڈ ان برٹش رول ان انڈیا‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی جس میں انھوں نے یہ بتانے کی کوشش کی کہ کس طرح انڈیا کی دولت رفتہ رفتہ برطانیہ منتقل ہورہی ہے ۔ اس میں انھوں نے انڈیا میں ہونے والی پیداوار اور منافع کا مفصل حساب پیش کیا تھا۔
انھوں نے تخمینہ لگایا تھا کہ برطانیہ ہر برس تین سے چار کروڑ پاؤنڈ مالیت کی دولت انڈیا سے اپنے یہاں منتقل کر رہا ہے جس سے انڈیا میں بڑے پیمانے پر غربت پھیل رہی ہے۔انسائکلوپیڈیا برٹینیکا کے مطابق ’اس وقت انڈیا کی 25 کروڑ کی آبادی برطانوی سامراج کی آبادی کا اسی فیصد تھی لیکن برطانوی پارلیمان میں ان کی کوئی نمائندگی نہیں تھی۔ دادا بھائی دوبارہ برطانیہ آئے۔ انھوں نے برطانوی سامراج کے ایک شہری کے طور پر کئی بار انتخاب لڑا اور شکست ہوئی۔ انہیں ان انتخابات میں شدید نسل پرستی کا سامنا کرنا پڑا۔‘
1886 میں وہ کنزرویٹیو پارٹی کے مضبوط گڑھ ہوبرن سے لبرل پارٹی کے امیدوار کے طور پر کھڑے ہوئے اور پھر ہار گئے۔ اس وقت وزیر اعظم لارڈ سیلس بیری نے کہا ’انگریزوں کا حلقہ ایک سیاہ فام شخص کو منتخب کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔‘
دادا بھائی نے ہار نہیں مانی۔ وہ ہاؤس آف کامنز یعنی ایوان نمائندگان کے 1892 کےانتخابات میں دوبارہ کھڑے ہوئے۔ اس بار وہ جیت گئے ۔ ان کی جیت صرف پانچ ووٹوں سے ہوئی تھی۔انجیل پر ہاتھ رکھ کر حلف لینے سے انکار کر دیاcیہ وہ برس تھا جب پاکستان کے مستقبل کے قائد اعظم محمد علی جناح تعلیم حاصل کرنے کے لیے برطانیہ پہنچے تھے۔ ایک نوجوان سٹوڈنٹ کے طور پر انھوں نے انڈین اور انڈیا سے متعلق معاملات میں گہری دلچسپی لینی شروع کی تھی۔
انھوں نے دادا بھائی نوروجی کی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کیا۔ 1892 کے انتخابات میں دادا بھائی جب امیدوار کے طور پر کھڑے ہوئے تو نوجوان طالب علم محمد علی جناح نے اپنے دوسرے طالب علم ساتھیوں کے ساتھ ان کی انتخابی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ان کی انتخابی کامیابی کے لیے دن رات کام کیا۔
بالآخر اس بار دادا بھائی کو انتخاب میں کامیابی حاصل ہوئی اور وہ برطانیہ کی تاریخ میں سب سے پہلے منتخب ہونے والے ایشیائی رکن پارلیمان بنے۔
برطانیہ کی پارلیمنٹ میں حلف برداری کی تقریب میں انھوں نے عیسائیوں کی مذہبی کتاب انجیل پر ہاتھ رکھ کر حلف لینے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کے بعد انھیں ان کے پارسی مذہب کی کتاب خوردہ اویستا پر حلف لینے کی اجازت دی گئی تھی۔
فنس بری کے ٹاؤن ہال میں ایک تختی لگی ہوئی ہے جس میں انھیں ہاؤس آف کامنس میں منتخب ہونے والے پہلے ایشائی کے طور پر یاد کیا گیا ہے۔
ایک نوآبادیاتی شہری کھلے عام برطانوی سامراج پر سنگین الزام لگانے کی جرات کیسے کر سکتا ہے
گجرات کی رہائشی میٹرک کی طالبہ عمارہ کی دنیا ہی بدل گئی، جذبات، تاثرات، اسٹائل، دنیا کو دیکھنےکا انداز اور کھیلوں میں دلچسپی سمیت سب کچھ بدل گیا۔شعبہ پلاسٹک سرجری جنرل اسپتال کی سربراہ ڈاکٹر رومانہ اخلاق کی سربراہی میں ٹیم نے عمارہ کا 4 گھنٹے طویل آپریشن کیا۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ عمارہ کی آواز کے ساتھ ہارمونز میں بھی تبدیلی آرہی تھی۔لڑکی کی والدہ کا کہنا ہے کہ عمارہ میں بچپن سے ہی لڑکوں والی عادات تھیں، اس کے بیٹا بننے پر بہت خوش ہیں۔عمار کہتا ہے کہ وہ لڑکا بننے پر بے حد خوش ہے، اب وہ نئے دوست بھی بنائے گا اور ان کے ساتھ کرکٹ سمیت دیگر کھیل بھی کھیلے گا۔
اسکے بعد وزیر آباد پولس اسٹیشن میںاسکی شکایت درج کروائی گئی ہے۔تفصیلات کے مطابق شہر کے کھڑکپورہ میں سلمان ہوٹل کے سامنے ہی شیخ فیاض نے خود کوڈاکٹربتاتے ہوئے اسپتال شروع کیاتھا۔اسپتال میں دتا بجرنگ وانکھیڑے مریض 16تا20مئی 2021 کے درمیان کوویڈ مرض وائرس ہونے پر علاج کیلئے داخل کیا گیااسکے بعد ڈاکٹرفیاض نے دوا‘گولی و سلائن لگاکرا سکاعلاج کیا لیکن 21مئی کو دتاوانکھیڑے کی حالت مزیدخراب ہوگئی اسلئے دوسرے خانگی اسپتال میں داخل کروایا گیا ۔ جب خانگی اسپتال میں دستاویزات کی جانچ کی گئی اور پہلے جہاں علاج کروایاگیااس ڈاکٹر کے بارے میں پوچھاگیاتو انکشاف ہوا کہ فیاض نامی شخص کے پاس میڈیکل پریکٹس کاکوئی سرکاری سرٹیفکیٹ نہیں ہے ۔
بجرنگ کی بہن کا کہنا ہے کہ شیخ فیاض کو میونسپل کارپوریشن نے کوویڈ کے مریضوںکی تشخٰیص کی کوئی اجازت بھی نہیں دی تھی ۔ اس ضمن میں کارپوریشن کے پاس شکایت دینے کے بعد میڈیکل آفیسر ڈاکٹرونود چوہان و ڈاکٹر امینہ رحمن کے پاس تفتیش کی ذمہ داری سونپی گئی ۔ ان دونوں ڈاکٹرس کی ٹیم نے اپنی رپورٹ 5جولائی 2021ءکو میونسپل کارپوریشن کوسپرد کردی جس میں کہاگیاہے کہ شیخ فیاض کے پاس مہاراشٹرمیڈیکل سروس اندراج سرٹیفکیٹ ایکٹ کے تحت کوئی بھی سرٹیکیفٹ نہیں ہے ۔اس کے بعدکارپوریشن نے ایک لڑکی کو فرضی مریض بناکر شیخ فیاض کے اسپتال میںروانہ کیا۔اس وقت شیخ فیاض نے اپنی دستخط سے ایلوپیتھی دوا لکھ کر دے رہاتھا اسی وقت کارپوریشن کے دستے نے اسے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔اسکے بعد میڈیکل آفیسر کے پاس رپورٹ پیش کردی گئی ۔اس رپورٹ کی بنیاد پر کمشنرو ایڈیشنل کمشنر نے متعلقہ بوگس ڈاکٹر کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی ہدایت دی ۔کارگزارمیڈیکل آفیسر ڈاکٹرسریش سنہہ بیسن نے وزیر آباد پولس اسٹیشن میں شیخ فیاض کے خلاف شکایت درج کروائی ہے ۔ جس کی بناءپر ملزم ڈاکٹر کے خلاف جرم نمبر 309/2021 ‘ تعزیرات ہند کی دفعات420‘336‘ اورمہاراشٹر طبی کمرشیل ایکٹ 1961کی دفعہ 33کے تحت مقدمہ کااندراج کیاگیا ہے۔
ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے! Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...