Powered By Blogger

منگل, ستمبر 07, 2021

امارت شرعیہ کی فکری و انتظامی انفرادیت

امارت شرعیہ کی فکری و انتظامی انفرادیتمفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پٹنہ(اردو دنیا نیوز۷۲)

امارت شرعیہ،بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ کا قیام 19/ شوال 1439ھ مطابق 26/ جون 1921 کو امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد کی صدارت میں عمل میں آیا تھا،اس کے دستور کی دفعہ نمبر ۱ / میں واضح طور پر لکھا ہے کہ 'یہ اسلام کے اجتماعی نظام اور مسلمانوں کی جماعتی زندگی کی تشکیل ہے اور شریعت کا ایسا مطلوب ومقصود ہے، جس کے بغیر اسلامی زندگی کا تحقق نہیں ہو سکتا'، حضرت عمر بن الخطاب کا مشہور قول ہے کہ اسلام بغیر جماعت، جماعت بغیر امارت اور امارت بغیر سمع وطاعت کے نہیں ہے، لا اسلام الا بجماعۃ ولا جماعۃ الا بامارۃ ولا امارۃ الا بطاعۃ (جامع بن عبد البر 61)

تنظیمیں اس کے قبل بھی تھیں اور بعد میں بھی بہت بنیں، لیکن امارت شرعیہ کی فکری انفرادیت یہ ہے کہ اس نے منہاج نبوت پر نظام شرعی کے قیام کو اپنا مقصد اولیں قرار دیا۔ آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اقامت دین کا جو طریقہ اپنایا اس میں فرد کی اصلاح کو اولیت حاصل ہے، افراد کی زندگی جب صالح قدروں اور ایمانی تقاضوں کے ساتھ پروان چڑھے گی تو اس سے صالح معاشرہ وجود میں آئے گا، اور صالح معاشرہ کے ذریعہ حکومت الٰہیہ کے قیام کی راہ ہموار ہوگی، اس سلسلے میں مولانا ابو المحاسن محمد سجاد ؒ کا رسالہ حکومت الٰہیہ کا مطالعہ مفید ہے، امارت شرعیہ کے طریقہئ کار میں اس بات کو بنیادی حیثیت حاصل ہے کہ ایمانی بنیادوں پر گاؤں گاؤں میں تنظیم امارت سے لوگوں کو جوڑا جائے، جب اس کی تنظیم قائم ہو جائے تو شہروں میں صدر اور سکریٹری اور گاؤں میں نقیب اور نائب نقیب کا انتخاب کیا جائے، اور وہ امیر شریعت کے نمائندہ کی حیثیت سے گاؤں اور علاقوں میں دینی بیداری لانے کا کام کریں، پھر جو لوگ بھی تنظیم سے جڑ گئے ہیں وہ قومی محصول کے نام پر بیت المال کے استحکام کے لئے ایک چھوٹی رقم بھی پیش کریں جو آج کل صرف بیس روپے ہے، یہ تنظیمی ڈھانچہ مرکز سے گاؤں تک نبوی طریقہئ کار کے مطابق اصلاح کی کوشش کرتا ہے، امارت شرعیہ کی یہ تنظیمی انفرادیت ہے جو کسی دوسری تنظیم میں نہیں ہے۔

امارت شرعیہ کی دوسری بڑی انفرادیت یہ ہے کہ اس نے امت مسلمہ کو کلمہ کی بنیاد پر جوڑنے کا کام کیا۔وہ ذات برادری، مسلک ومشرب اور لسانی عصبیت اور علاقائیت سے اوپر اٹھ کر کام کرتی ہے، اس کی سوچ اس معاملہ میں بہت واضح ہے۔ اس کے نزدیک اتحاد کی بنیاد کلمہ طیبہ ہے اور یہ وہ بنیاد ہے جس کی کوئی علاقائی سرحد نہیں ہے۔ امارت شرعیہ نے اسے عملی طور پر برتا اور ہر موقع سے خواہ وہ ریلیف کا کام ہو یا باز آباد کاری کا کوئی تفریق نہیں کی، بلکہ ریلیف اور خدمت خلق کے کاموں میں ایمانی بنیادوں سے اوپر اٹھ کر اس نے انسانی بنیادوں پر کام کیا، امارت شرعیہ کے سارے اسپتال بھی اسی اصول پر کام کر رہے ہیں۔بعد کے دنوں میں کلمہ کی بنیاد پر اتحاد ملت کی دعوت لے کر بہت سی تنظیمیں اٹھیں اور امارت شرعیہ کے اس کام کو پورے ہندوستان میں آگے بڑھانے کا کام کیا۔

امارت شرعیہ کی ایک انفرادیت یہ بھی ہے کہ اس کے تمام شعبہ جات ملکی قوانین کی رعایت کے ساتھ ایک رفاہی ادارہ کا تصور پیش کرتے ہیں اور مختلف شعبوں کے ذریعہ امارت شرعیہ حکومت کے کاموں میں تعاون کرتی ہے، مسلم معاشرہ کو اعلیٰ اخلاقی اقدار سے مزین کرنے، تعلیم کو رواج دینے اور اس کے لیے مکتب اسکول وغیرہ کا قیام، مصیبت کے وقت ضرورت مندوں کی مدد، علاج ومعالجہ اور غریب بچیوں کی شادی میں تعاون یہ ایسے کام ہیں جو سیدھے سیدھے مملکت کے کرنے کے ہیں، امارت شرعیہ کے ذریعہ ان کاموں میں تعاون کی وجہ سے حکومت کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے، اور لوگوں کی پریشانیاں دورہوتی ہیں۔

امارت شرعیہ کی سب سے بڑی انفرادیت دار القضاء کا قیام ہے، آج اس کی سرسٹھ شاخیں عائلی اور خاندانی، جھگڑوں کو نمٹانے کے لیے کام کر رہی ہیں اور ایک بڑی تعداد معاملات کی یہاں سے حل ہوا کرتی ہے، ظاہر ہے امارت شرعیہ اگر یہ کام نہ کرے تو سرکاری عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ بڑھے گا، امارت شرعیہ کا یہ شعبہ مقامی اور آپسی جھگڑوں کو ثالثی کی بنیاد پر نمٹا کر بڑا کام کر رہا ہے، عدالت اس کی اہمیت کو سمجھ رہی ہے، اس لیے اس نے اپنے ایک فیصلے میں دار القضاء کے نظام کو متوازی عدالت ماننے سے انکار کر دیا ہے، دار القضاء کے نظام کو ان دنوں دوسرے اداروں کی طرف سے بھی وسعت دی جا رہی ہے، لیکن مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد قضاء اسلامی کے نظام کو جس طرح امارت شرعیہ نے پھیلا یا اور نافذ کیا یہ اس کی انفرادیت ہے، دوسرے اداروں کے ذریعہ جو اس محاذ پر کام ہو رہا ہے اس میں بھی امارت شرعیہ کی مدد حسب ضرورت شامل رہتی ہے، امارت شرعیہ کے اس کام میں انفرادیت کا احساس واقرار ساری تنظیموں کے ذمہ دار؛ بلکہ دوست دشمن ملک وبیرون ملک سب کو ہے۔

امارت شرعیہ نے مختلف مذہبی فرقوں اور ان کے پیشواؤں کے احترام کوہر دو ر میں ملحوظ رکھا، اس کی خواہش رہتی ہے کہ مقام ومرتبہ کے اعتبار سے ان کا اکرام کیا جائے اور اسلام کے اصول کے مطابق نہ تو خود کسی کو ضرر پہونچا ئیں اور نہ ہی دوسرے اسے ضرر پہونچائیں۔

امارت شرعیہ کا انتظامی ڈھانچہ بھی دوسری تنظیموں سے الگ اور منفرد ہے، یہاں انتظام وانصرام پر مشورے دینے اور کام پر نگاہ رکھنے کے لیے چار کمیٹیاں ہیں، ٹرسٹ، مجلس عاملہ، مجلس شوری اور ارباب حل وعقد، یہاں کسی بھی کمیٹی کے مشورے اور فیصلے کے نفاذ کے لئے امیر شریعت کی رضا مندی اور منظوری ضروری ہے، یہ کمیٹیاں ہیئت حاکمہ نہیں ہیں، یہ مقام صرف یہاں کے امیر شریعت کو دستوری طور پر حاصل ہے۔ البتہ مجلس شوریٰ کو موجودہ دستور میں ترمیم واضافہ کا حق ہے، بشرطیکہ کہ تمام ارکان شوری یا دو تہائی اکثریت کسی اضافے یا ترمیم پر متفق ہوں۔ یہاں مجلس شوریٰ کل مختار نہیں ہے، وہ صرف مشورے دے سکتی ہے، کرنا کیا ہے؟ اس کا فیصلہ امیر شریعت کو لینا ہے، اور جب کوئی فیصلہ امیر شریعت کر دیں تو اس کا ماننا ہر ایک کے لیے ضروری ہے، دوسری تنظیموں میں چار چارکمیٹیاں نہیں ہیں، اور فیصلے شوریٰ کی مرضی سے ہوتے ہیں اور ان کا دخل اس حد تک ہوتا ہے کہ مجلس شوریٰ ہی کل مختار ہو جاتی ہے،ا سکی وجہ سے جو فساد وبگاڑ مختلف اداروں میں پیدا ہوا ہے وہ تاریخ کا حصہ ہے، یہاں کا طریقہ کار یہ ہے کہ امیر شریعت مشوروں کو سنیں گے اور کثرت آرا سے نہیں، قوت دلیل کی بنیاد پر فیصلہ کریں گے، جو دستور امارت شرعیہ، دستور العمل اور ٹرسٹ میں مذکور اصول وضوابط کے خلاف نہیں ہوگا، پھر چونکہ یہ تنفیذ شریعت کا ادارہ ہے؛ اس لیے فیصلے میں شرعی اصول وضوابط کی پابندی کی وجہ سے امیر شریعت کے لئے آمر بن جانے کا امکان یہاں کم رہتا ہے۔ جب کہ دوسرے اداروں میں ایسا نہیں ہے۔

جب امیر نے کوئی فیصلہ کر دیا تو سمعنا واطعنا، اس ادارہ کا خاص امتیاز ہے، اپنی بات سلیقہ سے امیر شریعت کے سامنے رکھی جا سکتی ہے، جس کی بنیاد پر وہ فیصلے تبدیل بھی کر سکتے ہیں، چوں کہ دستورکے اعتبار سے امیر شریعت کا'عالم باعمل ہونایعنی کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معانی اور حقائق کا معتد بہہ علم رکھنا، اغراض ومصالح شریعتِ اسلامیہ وفقہ اسلامی وغیرہ سے واقف ہونا' ضروری ہے، دار العلوم دیو بند کے دار الافتاء نے ایک سوال کے جواب میں 'عالم' کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ 'علوم دینیہ کے مخصوص نصاب کو ثقہ اساتذہ سے پڑھ کر فارغ ہونے والے شخص کو عرفا عالم کہا جاتا ہے (جواب نمبر: 168572)ایسے شخص کی مسائل پر گہری نظر ہوتی ہے، اس لیے وہ ہر فیصلے میں شریعت کے اصول وضوابط اور جزئیات کو ملحوظ رکھتا ہے، اور شریعت کا کوئی فیصلہ آجائے تو مجال سرتابی کی گنجائش ختم ہوجاتی ہے، امیر شریعت انہیں اوصاف وکمالات کی وجہ سے دار القضاء کے کسی بھی فیصلے کے خلاف استغاثہ اور مرافعہ کا قاضی ہوتا ہے، اور اسے حق پہونچتا ہے کہ وہ استغاثہ کی سماعت کے بعد قاضی کے فیصلے کو باقی رکھے یا رد کر دے۔

اسی طرح امارت شرعیہ کے دو شعبے دار الافتاء اور دار القضاء انتظامی امور کو چھوڑ کر بلا واسطہ امیر شریعت کے ما تحت ہوتے ہیں، تاکہ شرعی حکم بیان کرنے اور فیصلہ کرنے میں یہ شعبے کسی شخص کے دباؤ یا انتظامیہ کے اثرات سے پورے طور پر محفوظ رہیں۔انہیں خصوصیات کی وجہ سے مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی ؒ نے مختلف موقعوں سے اپنے بیانات میں بار بار اس بات کو دہرایا اور 'امارت شرعیہ دینی جد وجہد کا روشن باب' کے مقدمہ میں لکھا کہ

'مجھے ہندوستان کے کسی صوبے پر رشک آتا ہے تو بہار پر اور اگر بہار پر رشک آتا ہے تو امارت شرعیہ کی وجہ سے کہ وہاں کے مسلمان اس کی بدولت ایک ایسی زندگی گذار رہے ہیں جو معتبر اسلامی زندگی سے قریب تر اور جاہلی وغیر اسلامی زندگی سے بعید تر ہے۔

کرنال میں کسانوں کا احتجاج،متعددگرفتاراور رہا

کرنال میں کسانوں کا احتجاج،متعددگرفتاراور رہا

کرنال میں کسانوں کا احتجاج،متعددگرفتاراور رہا
کرنال میں کسانوں کا احتجاج،متعددگرفتاراور رہا

 

کرنال(اردو دنیا نیوز۷۲)

ہریانہ کے کرنال میں کسانوں نے ضلعی انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات ناکام ہونے کے بعد اب ضلعی سیکرٹریٹ کا گھیراؤ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ کسانوں نے اناج منڈی سے سیکرٹریٹ تک کا سفر کیا۔

سیکریٹریٹ کے گھیراؤ کے لیے آنے والے کسانوں کو پولیس نے ہائی وے پر تین چوکیاں عبور کرنے کے بعد روک لیا۔ جب کسان آگے بڑھنے پر بضد تھے ، پولیس نے راکیش ٹکیت سمیت کچھ کسان رہنماؤں کو حراست میں لے لیا۔ یہاں ، کسانوں کے احتجاج کی وجہ سے ہریانہ کے 5 اضلاع میں موبائل انٹرنیٹ اور بلک ایس ایم ایس خدمات بند کردی گئی ہیں۔

ہوم سیکریٹری -1 ڈاکٹر بلکر سنگھ کے حکم کے مطابق ، کرنال ، کوروکشتر ، کیتھل ، پانی پت اور جند میں منگل کی رات 12 بجے سے منگل کی رات 11:59 بجے تک موبائل انٹرنیٹ سروس بند رہے گی۔

پولیس نے کسان رہنماؤں راکیش ٹکیت ، یوگیندر یادو سمیت کچھ کسان رہنماؤں کو حراست میں لے لیا ہے۔ کسانوں نے انہیں گرفتار کرنے اور لے جانے کے لیے بلائی گئی بسوں کو باہر روک دیا ہے۔

پولیس کی جانب سے تحویل میں لینے کے کچھ دیر بعد تمام کسان رہنماؤں کو رہا کر دیا گیا ہے۔ کسان مسلسل سیکرٹریٹ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اب تک پولیس انہیں روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ کرنال کے ایس پی گنگارام پونیا نے کہا کہ پولیس امن و امان برقرار رکھنے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔

دفعہ 144 لاگو ہے۔ کسانوں کو منی سیکرٹریٹ تک پہنچنے سے روکنے کے لیے نیم فوجی فورس سمیت سیکورٹی فورسز کی 40 کمپنیاں تعینات کی گئی ہیں۔ منی سیکرٹریٹ سمیت 18 مقامات پر ناکے لگائے گئے ہیں۔ جی ٹی روڈ اور شہر سے منی سیکریٹریٹ کی طرف جانے والی سڑکوں کو بلاک کردیا گیا ہے۔


بہار پنچایت انتخابات : دوسرے مرحلے میں 34 اضلاع کے 48 بلاکوں میں ہوں گے انتخابات

بہار پنچایت انتخابات : دوسرے مرحلے میں 34 اضلاع کے 48 بلاکوں میں ہوں گے انتخاباتنامزدگی کا عمل آج سے شروع ہوگا ، دوسرے مرحلے میں کئی سیلاب متاثرہ اضلاع میں بھی ہوگا انتخابات

پٹنہ (اردو دنیا نیوز۷۲)پٹنہ، 7 ستمبر۔ریاست میں تین درجے کے پنچایت انتخابات کے دوسرے مرحلے کے لیے نامزدگی منگل سے شروع ہو گئی ہے۔ تین درجے کے پنچایت انتخابات 2021 کے دوسرے مرحلے کا نوٹیفکیشن پیر کے روز ریاستی الیکشن کمیشن نے جاری کیا۔ یہ نوٹیفکیشن بہار کے 34 اضلاع کے 48 بلاکوں میں ہونے والے انتخابات کو لیکر جاری کیا گیا ہے۔ اس کے تحت 7 ستمبر سے اندراج شروع ہوگا۔ نامزدگی کا عمل 13 ستمبر تک جاری رہے گا۔ پرچہ نامزدگی کی جانچ پڑتال 16 ستمبر تک کی جائے گی۔ ووٹنگ کے لیے 9686 بوتھ بنائے گئے ہیں۔
ریاستی الیکشن کمیشن کے مطابق جن امیدواروں نے پرچہ نامزدگی داخل کیے ہیں وہ 18 ستمبر تک اپنی پرچے واپس لے سکیں گے۔ تمام امیدواروں کو انتخابی نشان بھی اسی دن الاٹ کیا جائے گا۔ دوسرے مرحلے کی پولنگ 29 ستمبر کو ہوگی۔ ان کے ووٹوں کی گنتی یکم اور دو اکتوبر کو ہوگی۔ ا?ن لائن اندراج کی سہولت بھی امیدواروں کو دی گئی ہے۔ اس کے لیے الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ sec.bihar.gov.in پر جا کر ضروری عمل مکمل کرنا ہوگا۔ لیکن اسے پرنٹ کر کے ریٹرننگ ا?فیسر کو جمع کرانا ہوگا۔ اندراج کا وقت صبح 10 بجے سے شام 4 بجے تک ہوگا۔دوسرے مرحلے میں پورنیہ کے بن منکھی بلاک میں انتخابات ہوں گے۔ کٹیہار کے کرسیلا ، کٹیہار ، حسن گنج ، ڈنڈکھورہ بلاکوں میں انتخابات ہوں گے۔ ارریہ کے بھڈگاما بلاک میں انتخابات ہوں گے۔ سیتامڑھی میںدروسرے مرحلے میں چروت اور نان پور بلاک میں انتخابات ہوںگے۔ دربھنگہ میں دوسرے مرحلے میں بینی پور اور علی نگر بلاکوں میں انتخابات ہوں گے۔ مدھوبنی میںدوسرے مرحلے میں پنڈول اور رہیکا میں انتخابات ہوں گے۔ سمستی پور کے تاج پور ، پوسا اور سمستی پور بلاک میں انتخابات ہوں گے۔سوپول کے پرتاپ گنج بلاک میں انتخابات ہوں گے۔ سہرسہ میں دوسرے مرحلے میں کہرہ بلاک میں انتخابات ہوں گے۔
مدھے پورہ میں دوسرے مرحلے میں مدھے پورہ بلاک میں انتخابات ہوں گے۔کھگڑیا کے پروٹا 17-18 ،مونگیر کے ٹیٹیا بنبر ، جموئی کے علی گنج ، بھاگلپور کے جگدیش پور بلاک اور بانکا کے بانکا بلاک میں انتخاب ہوں گے۔ پٹنہ کے پالی گنج میں ، بھوجپور ضلع کے پیرو بلاک میں ، کیمور کے درگا وتی بلاک میں اور روہتاس کے روہتاس ، نوہٹا بلاک میں دوسرے مرحلے میں انتخاب ہں گے۔ دوسرے مرحلے میں گیا کے ٹیکاری اور گروا ، نوادہ کے کوا کول ، جہان ا?باد کے گھوشی بلاک میں ، ارودل کے کرتھی میں انتخاب ہوں گے۔ سارن میں دوسرے مرحلے میں مانجھی میں ، سیوان صدر میں ، گوپال گنج کے وجیا پور بلاک میں ، مظفر پور کے مڑون بلاک میں انتخاب ہوں گے۔ مشرقی چمپارن میں دوسرے مرحلے میں فنہارا اور مغربی چمپارن کے چن پٹیا بلاک میں انتخاب ہوں گے۔

مغربی بنگال کولکاتا ، 7 ستمبر۔ مغربی بنگال میں کورونا کی تیسری لہر شروع ہوگئی ہے۔ اس سے ایک بار پھر خوف و ہراس پیدا ہوگیا ہے۔

مغربی بنگال کولکاتا ، 7 ستمبر۔ مغربی بنگال میں کورونا کی تیسری لہر شروع ہوگئی ہے۔ اس سے ایک بار پھر خوف و ہراس پیدا ہوگیا ہے۔

(اردو دنیا نیوز۷۲)

کولکاتا ، 7 ستمبر۔ مغربی بنگال میں کورونا کی تیسری لہر شروع ہوگئی ہے۔ اس سے ایک بار پھر خوف و ہراس پیدا ہوگیا ہے۔
پیر کو بھی ، ریاست میں کورونا کے ڈیلٹا پلس ویرینٹ سے متاثرہ مریض کے بارے میں معلومات موصول ہوئی ہیں۔ اس کے بعد ریاستی محکمہ صحت نے آج ایک ہنگامی میٹنگ طلب کی ہے۔خدشہ ہے کہ یہ وائرس بیرون ملک سے آنے والے مسافروں کے ذریعے پھیل سکتا ہے۔ اسی لیے کولکاتا ایئرپورٹ کے ساتھ ساتھ ریلوے اسٹیشنوں پر کورونا پروٹوکول پر سختی سے عمل کرنے کے انتظامات کیے جا رہے ہیں۔ماہرین کو خدشہ ہے کہ اکتوبر میں بنگال میں کورونا کی تیسری لہر عروج پر ہوگی۔ اس سے قبل 10 اگست کو کورونا سے متاثرہ پہلے نئے مریض کے بارے میں معلومات موصول ہوئی تھیں۔
اب ریاست میں کورونا ڈیلٹا پلس سے متاثرہ ایک اور مریض کے بارے میں معلومات موصول ہوئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ڈیلٹا ہی کورونا کی دوسری لہر کے لیے ذمہ دارتھا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈیلٹا پلس ویرینٹ میں پہلے سے زیادہ تیزی سے وائرس پھیلانے کی صلاحیت ہے۔محکمہ صحت کے مطابق ، گزشتہ جولائی میں ، کورونا سے متاثرہ ایک شخص کوکورونا ویرینٹ کی جانچ کے لیے ہگلی بھیجا گیا تھا۔ 6 ستمبر کو منظر عام پر آنے والی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ڈیلٹا پلس ویرینٹ سے متاثر ہے۔ ریاستی انتظامیہ اس صورتحال میں زیادہ محتاط ہے۔ پچھلے کچھ دنوں سے بیرون ملک سے آنے والوں پر کڑی نظر رکھی جا رہی ہے۔


جھارکھنڈ میں عالم و فاضل 2020 کا امتحان 14 ستمبر 2021 سے شروع ہوگا ‏

جھارکھنڈ میں عالم و فاضل 2020 کا امتحان 14 ستمبر 2021 سے شروع ہوگا 
جھارکھنڈ میں جن طلبہ و طالبات نے 2020 کے عالم و فاضل امتحان کا فارم بھرا ہے ان کا امتحان 14 ستمبر 2021 سے شروع ہوگا اور جن لوگوں نے عالم و فاضل امتحان 2021 کا فارم بھرا ہے اس کے بارے میں ابھی کوئی اطلاع نہیں ہے

میں دہلی - میرٹھ ایکسپریس وے پر ٹرک اور کار تصادم ، شوہر ، بیوی اور بیٹے سمیت پانچ افراد ہلاک

میں دہلی - میرٹھ ایکسپریس وے پر ٹرک اور کار تصادم ، شوہر ، بیوی اور بیٹے سمیت پانچ افراد ہلاک

(اردو دنیا نیوز۷۲)

غازی آباد ، 07 اگست ۔ پیر کی دیر رات ایک تیز رفتار ٹرک ، ایک آلٹو کارمیں دہلی میرٹھ ایکسپریس وے پر شدید ٹکرہو گئی۔ اس خوفناک سڑک حادثے میں دو خاندانوں کے 5 افراد ہلاک ہوگئے۔ مرنے والوں میں دو بچے بھی شامل ہیں۔
حادثہ مسوری تھانہ علاقے میں پیش آیا۔ یہ تمام لوگ ایک سال کے بچیکا مونڈن کرانیکے بعد ہریدوار سے آرہے تھے۔ مرنے والوں میںوہ بچہ بھی شامل ہے جس کا منڈن کروایاگیاتھا۔
سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ، دیہی ڈاکٹر ایرج راجہ نے بتایا کہ سونو اور آشیش خاندان سمیت آشیش سنہا کے بیٹے دیو سنہا کے مونڈن کے بعد پیر کو ہریدوار سے واپس آرہے تھے۔یہ لوگ اندراپورم کے رہنے والے تھے۔ جب یہ لوگ کلچھینا کے قریب پہنچے تو پیچھے سے ایک تیز رفتار ٹرک نے کار کو ٹکر مار دی۔ تصادم اتنا زور دار تھا کہ کارکے پرخچے اڑ گئے۔ لکھنؤ کے رہائشی آشیش (35 سال) ، ان کی بیوی شلپی (32 سال) ، بیٹا دیو سنگھ (01 سال اور سونو 30 سال) اور سونو کی بیٹی پرہ (10 سال) کی کار میں موت ہو گئی۔ جبکہ 2 دیگر افراد زخمی ہوئے ، زخمیوں کو اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔ ٹرک اور اس کے ڈرائیور کو بھوج پور پولیس اسٹیشن نے پکڑ لیا ہے۔


نصف ملک میں بارش،سیلاب اورتودے گرنے کے واقعات،بچائو کام جاری

نصف ملک میں بارش،سیلاب اورتودے گرنے کے واقعات،بچائو کام جاری

نصف ملک میں بارش،سیلاب اورتودے گرنے کے واقعات،بچائو کام جاری
نصف ملک میں بارش،سیلاب اورتودے گرنے کے واقعات،بچائو کام جاری
(اردو دنیا نیوز۷۲)

گورکھ پور،دہرادون،جل گائوں: ملک کی بڑے حصے میں آبی قیامت کا قہرجاری ہے۔ اترپردیش، مہاراشٹر، گجرات میں بارش کے سبب سیلاب آگیا ہے جب کہ اتراکھنڈ اور ہماچل جیسی پہاڑی ریاستوں میں چٹانیں کھسکنے اور تودے گرنے کے واقعات بھی ہورہے ہیں۔

بارش ، سیلاب اور مٹی کے تودے گرکر اتراکھنڈ اور ہماچل پردیش جیسی پہاڑی ریاستوں میں تباہی مچا رہے ہیں۔ اتراکھنڈ میں دہرادون-رانی پوکھری-رشی کیش کو جوڑنے والا عارضی پل پیر کی رات جکھان ندی کے تیز دھارے میں بہہ گیا۔

مرکزی پل 27 اگست کو یہاں بہہ گیا۔ لوگوں کو درپیش مسائل کے پیش نظر دریا پر ایک متبادل پل بنایا گیاتھا ، جس پر اتوار کی شام ہی ٹریفک شروع ہوئی ، وہ پل بھی کل رات بہہ گیا۔ رشی کیش-ہریدوار ہائی وے پر گاڑیوں کا دباؤ پل کے بہنے کے بعد بڑھ گیا ہے۔ یہاں سے سفر کرنے والوں کو بھی زیادہ فاصلہ طے کرنا پڑے گا۔

پل دریا میں بہنے کے بعد لوگ یہاں پھنسے ہوئے ہیں۔ پہاڑی ریاستوں سے تباہی کی کئی تصویریں سامنے آرہی ہیں۔ ایک تصویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک ٹرک تیز بارش کے بعد ندی میں بہہ رہا ہے۔ اس سے قبل پیر کے روز ، اتراکھنڈ کے ٹہری میں اچانک سڑک پر بڑی چٹانیں گر گئیں۔ اس دن ہماچل پردیش کے کنور میں بھی لینڈ سلائیڈنگ کا واقعہ رپورٹ ہوا۔

یہاں رام پور کے جیوری علاقے میں لینڈ سلائیڈنگ کے بعد قومی شاہراہ بند ہو گئی جس سے لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ضلعی انتظامیہ نے اس واقعے سے پہلے ہی علاقے میں الرٹ جاری کر دیا تھا۔ احتیاط کے طور پر پولیس اہلکار بھی تعینات تھے۔ جس کی وجہ سے کسی قسم کا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

دو دن پہلے پہاڑوں سے پتھر گرنے کا سلسلہ یہاں جاری تھا۔ انتظامیہ کو پہلے ہی خدشہ تھا کہ پہاڑ کا بڑا حصہ ٹوٹ سکتا ہے۔ لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے نیشنل ہائی وے نمبر 5 پر ٹریفک مکمل طور پر بند تھی۔ دونوں طرف گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں۔ کنور سے آنے والے مسافروں کو کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔

مہاراشٹر ، اتر پردیش اور گجرات سمیت کئی ریاستوں میں بارش کی وجہ سے بربادی کے واقعات منظر عام پر آرہے ہیں۔ مہاراشٹر کے 750 دیہات سیلاب کی لپیٹ میں ہیں۔ سیلاب میں 500 مویشی بہہ جانے کی اطلاعات ہیں۔ ساتھ ہی اتر پردیش کے 11 ڈیموں میں رسائو شروع ہو گیا ہے۔

اگر ان میں سے کوئی بھی ڈیم ٹوٹ جاتا ہے تو یہ خوفناک تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔ مہاراشٹر کے جلگاؤں کے چالیسگاؤں تالکا میں ، موسلا دھار بارشوں کی وجہ سے 750 دیہات زیر آب آگئے ہیں۔

شدید بارشوں کی وجہ سے یہاں کمر تک پانی بھر گیا ہے۔ سیلاب میں ایک خاتون جاں بحق 500 سے زائد مویشی پانی میں بہہ گئے ہیں۔ کئی دیہاتوں میں لوگ اب بھی پھنسے ہوئے ہیں اور بچائے جانے کے منتظر ہیں۔ منگل کو بارش کے بعد اورنگ آباد۔دھلے شاہراہ پر لینڈ سلائیڈنگ ہوئی۔ تب سے وہاں ٹریفک جام ہے۔

سڑک پر کیچڑ ہے۔ شاہراہ پر گاڑیوں کی لمبی قطار ہے۔ گورکھپور ضلع کے بہت سے دیہات میں ، دریاؤں کے پانی کی سطح ہر گھنٹے میں 3 سے 4 انچ بڑھ رہی ہے۔ جس کی وجہ سے لوگوں میں خوف و ہراس کا ماحول ہے۔ اتر پردیش کے گورکھپور ضلع میں سیلاب کی صورتحال ہے۔

کئی قریبی دیہات پانی میں ڈوب گئے ہیں۔ اس خوف سے کہ دریاؤں کے پانی کی سطح مسلسل بڑھ رہی ہے ، لوگوں نے نقل مکانی شروع کر دی ہے۔ جن کے پاس پکے گھر ہیں انہوں نے چھت پر پناہ لی ہے۔ دریاؤں کے پانی کی سطح میں ہر گھنٹے میں 3 سے 4 انچ اضافہ ہو رہا ہے

۔ 11 ڈیموں میں رساو شروع ہو چکا ہے جن میں چوری چورا ، راپتی ​​روہا ڈیم ، گورا دریا کا مہاکول ڈیم ، لکدیہا ڈیم اور بوہوار ڈیم شامل ہیں۔ 23 سال پہلے 1998 میں ایسی بری صورت حال پیش آئی تھی۔ اب تک 39 افراد کو بچایا گیا ہے اور محفوظ مقام پر پہنچایا گیا ہے

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...