Powered By Blogger

منگل, ستمبر 28, 2021

کانپور کے دیہی علاقوں میں ڈینگی کے مریضوں میں تیزی سے اضافہ

کانپور کے دیہی علاقوں میں ڈینگی کے مریضوں میں تیزی سے اضافہکانپور ، 28 ستمبر ۔ اترپردیش کے ضلع کانپور میں خاص طور پر دیہی علاقوں میں موسم میں تبدیلی کی وجہ سے ڈینگی بڑھ رہا ہے۔ ضلع کے کرسولی گاؤں میں اب تک 13 مریض فوت ہوچکے ہیں۔ اگرچہ محکمہ صحت ڈینگی لاروا کو باقاعدگی سے اسپرے کرکے اور بہتر علاج کے ذریعے ختم کررہا ہے ، صحت یابی کی شرح میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ ستمبر کے مہینے میں 10 برس بعد جنوب مغربی مانسون بھی اتنا ہی فعال ہوا ہے ، کبھی تیز بارش اور کبھی تیز دھوپ کی وجہ سے موسم بدل گیا ہے۔ اس کی وجہ سے ڈینگی کا اثرمسلسل بڑھ رہا ہے۔ خاص طور پر دیہی علاقے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ اب تک ضلع میں 201 مریضوں میں ڈینگی کی تصدیق ہوچکی ہے جن میں سے 164 مریض دیہی علاقوں اور 37 مریض شہری علاقوں کے ہیں۔ صرف کلیان پور کے کرسولی گاؤں میں ، 13 افراد ہلاک ہوچکے ہیں ، میڈیکل ٹیمیں دیہات میں چوبیس گھنٹے ڈیرے ڈال ہوے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ سرکاری اعداد و شمار میں ڈینگی سے ایک بھی موت کی اطلاع نہیں ملی ہے۔ چیف میڈیکل آفیسر ڈاکٹر نیپال سنگھ نے بتایا کہ ڈینگی لاروا کو تباہ کرنے کے لیے دیہی علاقوں سے شہری علاقوں تک ادویات کا چھڑکاؤ کیا جا رہا ہے۔ اب تک ضلع میں 169 مریض علاج کے بعد صحت مند ہو چکے ہیں۔ ضلع میں ڈینگی کے 32 فعال کیسز ہیں ، ان کا علاج جاری ہے۔ سی ایم او نے بتایا کہ کرسولی گاؤں کے 47 گھروں میں ڈینگی لاروا پایا گیا ہے۔ اسے ہیلتھ ورکرز نے تباہ کر دیا۔ اینٹی لاروا ادویات کا گھروں میں سپرے بھی کیا گیا ہے۔

شھید وطن بھگت سنگھ:دیش کا سپوت

شھید وطن بھگت سنگھ:دیش کا سپوت

شہیدوطن بھگت سنگھ
شہیدوطن بھگت سنگھ

  •  

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے

دیکھنا ہے زورکتنابازوئے قاتل میں ہے

جب بھی دیش بھکتی کی بات ہوتی ہے،جب کہیں حب الوطنی کی مثال پیش کی جاتی ہے توبھگت سنگھ کا نام ضرورلیا جاتاہے۔بھگت سنگھ بھارت ماتا کا وہ سپوت تھا جس نے مادروطن کی آزادی کے لئے ہنستے ہوئے پھانسی کے پھندے کو چوم لیاتھااوراپنی جان، جاں آفریں کے حوالے کردی تھی۔ بھگت سنگھ کی اسی قربانی کے سبب ہرطبقہ ان کا احترام کرتاہے۔ہندوستان کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی ان کا یوم شہادت منایاجاتاہے۔

جس طرح سکھ ان کا احترام کرتے ہیں،اسی طرح ہندواورمسلمان بھی انھیں سمان دیتے ہیں۔جہاں انھیں پنجاب والے ایک ویر سپوت کے طور پر دیکھتے ہیں،وہیں کشمیر سے کنیاکمارتک انھیں جوانمردی کی ایک مثال ماناجاتاہے۔ ملک کی سبھی سیاسی پارٹیاں بھی اس مجاہدآزادی کوخراج عقیدت پیش کرتی ہیں، اس بات سے قطع نظر کہ ان کا سیاسی نظریہ کیا تھا۔

اطمینان اور صبر

بھگت سنگھ کو جس وقت پھانسی کے لئے لے جایا گیا، اس سے پہلے وہ کمیونسٹ میسنی فسٹو پڑھ رہے تھے۔ انھوں نے جہاں تک اسے پڑھا تھا،وہاں صفحے کو موڑ دیا گویا وہ اسے دوبارہ وہیں سے شروع کرنے والے ہیں۔ اس کے بعد وہ خوشی خوشی پھانسی پر چڑھ گئے۔ پاکستان کے صوبہ پنجاب میں لاہور سے قریب 100 کلومیٹر دور موجودہ فیصل آباد ضلع میں بھگت سنگھ کا آبائی گاﺅں بنگہ ہے۔یہاں ہرسال ان کے یوم شہادت پر پروگرام منعقد ہوتے ہیں۔ایک پروگرام لاہور کےشادمان چوک میں بھی ہوتاہے جہاں بھگت سنگھ ، سکھ دیو اور راج گرو کوپھانسی دی گئی تھی۔ ان سبھی پر برطانوی حکومت کے خلاف سازش کرنے کاالزام تھا۔ پاکستان میں بہت دنوں سے مطالبہ کیا جا رہاہے کہ شادماں چوک کا نام بھگت سنگھ کے نام پر رکھا جائے۔

کون تھے بھگت سنگھ؟

امر شہید سردار بھگت سنگھ کا جنم 28 ستمبر، 1907 کو پنجاب کے لایلپور ضلع کے بنگا گاﺅں میں ہوا۔ یہ علاقہ اب پاکستان میں پڑتا ہے۔ بھگت سنگھ نے ملک کی آزادی کے لئے جس جرات کے ساتھ طاقتور برطانوی حکومت کا مقابلہ کیا، وہ ایک مثال ہے۔وہ ایک محب وطن سکھ خاندان سے تھے۔ان کے والد اور چچا بھی انگریزوں کے مخالف تھے ،لہٰذاان کے جنم کے وقت وہ جیل میں بند تھے۔ جس دن بھگت سنگھ پیدا ہوئے ان کے والد اور چچا کو جیل سے رہا کیا گیا۔ اس شبھ گھڑی کے موقع پر بھگت سنگھ کے گھر میں خوشی اور بھی بڑھ گئی ۔

بھگت سنگھ کی دادی نے بچے کا نام ”بھاگاں والا“ (خوش قسمت) رکھا، بعد میں انہیں بھگت سنگھ کہا جانے لگا۔ وہ 14 سال کی عمر سے ہی پنجاب کے انقلابیوں کے ساتھ کام کرنے لگے تھے۔ ڈی اے وی اسکول سے انہوں نے نویں کا امتحان پاس کیا۔ 1923 میں انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کرنے کے بعد انہیں شادی کے بندھن میں باندھنے کی تیاری ہونے لگی تو وہ لاہور سے بھاگ کر کانپور آ گئے۔ ملک کی آزادی کے لئے کل ہند سطح پر انقلابی ٹیم کی تشکیل نو کرنے کا کریڈٹ سردار بھگت سنگھ کو ہی جاتا ہے۔

انہوں نے کانپور کے اخبار ”پرتاپ“ میں ”بلونت سنگھ“ کے نام سے اور دہلی کے اخبار ” ارجن“ کے ادارتی شعبہ میں ”ارجن سنگھ“ کے نام سے کچھ وقت کام کیا اور اپنے کو ”نوجوان بھارت سبھا“سے بھی منسلک رکھا۔ 1919 میں ملک بھر میں آزادی کی تحریک زوروں پر تھی اور اسی سال 13 اپریل کو جلیانوالا باغ سانحہ ہوا۔ اس سانحہ کی خبر سن کر بھگت سنگھ لاہور سے امرتسر پہنچے۔ ملک پر مر مٹنے والے شہداءکے تئیں خراج عقیدت پیش کیا اور خون سے بھیگی مٹی کو انہوں نے ایک بوتل میں رکھ لیا، جس سے ہمیشہ یہ یاد رہے کہ انہیں اپنے ملک اور ملک کے باشندوں کی توہین کا بدلہ لینا ہے۔ 1920 میں چلی مہاتما گاندھی کی عدم تعاون تحریک سے متاثر ہو کر 1921 میں بھگت سنگھ نے اسکول چھوڑ دیا۔

دیش بھکتی کا کالج

عدم تعاون تحریک سے متاثر طالب علموں کے لئے لالہ لاجپت رائے نے لاہور میں ’نیشنل کالج‘ قائم کی تھی۔ اسی کالج میں بھگت سنگھ نے بھی داخلہ لیا۔ نیشنل کالج میں ان کی حب الوطنی کا جذبہ پھلنے پھولنے لگا۔ اسی کالج میں دیگر انقلابیوں کے رابطے میں آئے۔ وہ یہیں چندر شیکھر آزادجیسے عظیم انقلابی کے رابطہ میں آئے اور بعد میں ان کے قریبی دوست بن گئے۔کالج میں ایک نیشنل ڈرامہ کلب بھی تھا۔اسی کلب کے ذریعے بھگت سنگھ نے دیش بھکتی کے ڈرامے میں اداکاری بھی کی۔

عظیم نائک

بھگت سنگھ 1928 کے سانڈرس مرڈر کیس کے اصل ہیرو تھے۔ 8 اپریل، 1929 کو تاریخی ”اسمبلی بم کانڈ“ کے بھی وہ اہم ملزم مانے گئے تھے۔ جیل میں انہوں نے بھوک ہڑتال بھی کی تھی۔اصل میں تاریخ کا ایک باب ہی بھگت سنگھ کی ہمت، بہادری، عزم وحوصلہ اور قربانیوں کی کہانیوں سے بھرا پڑا ہے۔ سیفٹی بل اور ٹریڈ ڈسپیوٹ بل کی مخالفت میں انھوں نے اہم کردار نبھایا تھا۔تبادلہ خیال کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ اس سارے کام کو بھگت سنگھ، سکھ دیو، راج گرو انجام دیں گے۔ پنجاب کے بیٹوں نے لاجپت رائے کے خون کا بدلہ خون سے لے لیا.۔سانڈرس اور اس کے کچھ ساتھی گولیوں سے بھون دیئے گئے۔

تختہ دارپر

انہیں دنوں انگریز حکومت دہلی کی اسمبلی میں پبلک سیفٹی بل اور 'ٹریڈ ڈسپیوٹس بل لانے کی تیاری میں تھی۔ یہ بہت ہی جابرانہ قانون تھے اور حکومت انہیں پاس کرنے کا فیصلہ کر چکی تھی۔ حکمرانوں کا اس بل کو قانون بنانے کے پیچھے مقصد تھا کہ عوام میں انقلاب کا جو بیج پنپ رہا ہے اسے ابھرنے سے پہلے ہی ختم کر دیا جائے۔تبادلہ خیال کے بعد 8 اپریل 1929 کا دن اسمبلی میں بم پھینکنے کے لئے طے ہوا اور اس کام کے لئے بھگت سنگھ اور بَٹُوکیشوردت مقرر ہوئے۔ یہ طے ہوا کہ جب وائسرائے پبلک سیفٹی بل پیش کرے، ٹھیک اسی وقت دھماکہ کیا جائے اور ایسا ہی کیا بھی گیا۔ جیسے ہی بل سے متعلق اعلان کیا گیا تبھی بھگت سنگھ نے بم پھینکا۔

اس کے بعد انقلابیوں کو گرفتار کرنے کا دور چلا۔ بھگت سنگھ اور بَٹُوکیشور دت کو عمر قید کی سزا ہوئی۔ بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں پر ’لاہور سازش‘ کا مقدمہ بھی جیل میں رہتے ہی چلا۔بھاگے ہوئے انقلابیوں میں اہم راج گرو پونا سے گرفتار کرکے لائے گئے۔ آخر میں عدالت نے وہی فیصلہ دیا، جس کی پہلے ہی توقع تھی۔ بھگت سنگھ، سکھ دیو، راج گرو کو سزائے موت ملی۔ 23 مارچ 1931 کی رات بھگت سنگھ، سکھ دیو اور راج گرو حب الوطنی کے جرم میں پھانسی پر لٹکا دیے گئے،اوررات کے اندھیرے میں ہی ستلج ندی کے کنارے ان کا انتم سنسکار کردیا گیا۔ پھانسی کے وقت بھگت سنگھ محض 23 سال ،5 ماہ اور 23 دن کے تھے۔ بھگت سنگھ کی موت نے انقلابیوں کے جذبوں کو پست نہیں کیا بلکہ انھیں مزید حوصلہ ملا اور وہ بھگت سنگھ کی چتا کی راکھ اور مٹی کو اپنے ماتھے پر لگاگر آزادی کی قسمیں کھانے لگے۔

پھول تو دودن بہارجاں فزادکھلاگئے

حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھاگئے


امتیازی سلوک : کیا یوپی کے اسکولوں میں بچوں کے برتنوں کے لیے ذاتیں ہیں ؟ پرنسپل معطل

امتیازی سلوک : کیا یوپی کے اسکولوں میں بچوں کے برتنوں کے لیے ذاتیں ہیں ؟ پرنسپل معطل

اترپردیش میں ایک عجیب معاملہ سامنے آیا ہے۔ معاملہ ریاست کے مین پوری ضلع سے متعلق ہے ، جہاں ایک سرکاری اسکول میں دلت بچوں کو مڈ ڈے میل کھانے کے بعد اپنے برتن الگ کمرے میں رکھنا پڑتا ہے تاکہ اونچی ذات کے بچے برتنوں کو نہ چھوئیں۔ جب حکومت نے پرنسپل کو معطل کر دیا ، جنہوں نے اسے ایک پرانی روایت کہا ، گاؤں کے اونچی ذات کے لوگوں نے احتجاج میں اپنے بچوں کو اسکول بھیجنا بند کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ پیر کے روز 80 بچوں میں سے صرف 26 دلت بچے سکول میں پڑھنے آئے۔ اونچی ذات کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کے بچے تب ہی سکول جائیں گے جب معطل پرنسپل واپس آئیں گے۔

این ڈی ٹی وی کی خبر کے مطابق پرائمری سکول داؤد پور میں تمام بچے ایک ساتھ پڑھ رہے ہیں ، لیکن مڈ ڈے میل کھانے کے بعد انہیں اپنے برتنوں کو ذات کے مطابق الگ رکھنا پڑتا ہے ، بائیں طرف دلت بچوں کے برتن رکھنے کا کمرہ ہے اور دائیں طرف باورچی خانہ ہے جہاں اونچی ذات اور او بی سی بچوں کو برتن رکھے جاتے ہیں۔ جب سر شوہر نے باورچی کو تمام بچوں کے برتن دھونے کو کہا تو وہ غصے میں آگیا اور کام چھوڑ دیا۔

یوپی کے بہت سے اسکولوں میں ، اکشیا پترا جیسی کچن سروس چلانے والی تنظیم مڈ ڈے میٹل تیار کرتی ہے اور اسکولوں کو گرم کھانا فراہم کرتی ہے۔ ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے ، لیکن بہت سے اسکولوں میں جہاں باورچی کھانا پکاتا ہے اور مڈ ڈے میل دیتا ہے ، وہاں بچوں کو دونوں طرح کے مسائل درپیش ہیں۔ اگر باورچی دلت ہے تو بہت سی اونچی ذات کے بچے اس کا کھانا کھانے سے انکار کرتے ہیں اور اگر باورچی اونچی ذات کا ہے تو وہ دلت بچوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرتا ہے۔

مین پوری کے داؤد پور کی آبادی تقریبا ڈیڑھ ہزار ہے ، جن میں سے تقریبا4 654 فیصد آگے اور پسماندہ ذات کے لوگ ہیں اور تقریبا 35 35 فیصد دلت ہیں۔ سکول کی شکایت پر محکمہ تعلیم نے باورچی اور اس کے اسسٹنٹ کو برطرف کر دیا اور پرنسپل کو معطل کر دیا۔ اس سے ناراض ، آگے اور پسماندہ ذات کے لوگوں نے اپنے بچوں کو سکول بھیجنا بند کر دیا۔ چاہے آپ دلتوں کی سیاست میں کتنے ہی ووٹ مانگیں ، سماج میں کئی جگہیں ہیں جیسے داؤد پور پرائمری اسکول

حیدرآباد ۔ ممبئی کے درمیان بلٹ ٹرین چلانے کی تیاری-14 گھنٹوں کا سفر 3 گھنٹوں میں طئے ہوگا ، 11اسٹیشن رہیں گے

حیدرآباد ۔ ممبئی کے درمیان بلٹ ٹرین چلانے کی تیاری-14 گھنٹوں کا سفر 3 گھنٹوں میں طئے ہوگا ، 11اسٹیشن رہیں گے

 

Bullet-train-Hyderabad-Mumbai
تلنگانہ:(اردودنیانیوز۷۲)حیدرآباد اور ممبئی کے درمیان بلٹ ٹرین چلانے کیلئے مرکزی حکومت حکمت عملی تیار کررہی ہے ۔ عہدیداروں کی جانب سے سروے کا کام مکمل کرلیا گیا ہے ۔ حیدرآباد اور ممبئی کے درمیان 650 کلو میٹر کا فاصلہ ہے ۔ عام ٹرینوں سے سفر کرنے پر 14 گھنٹے درکار ہوتے ہیں ۔ حیدرآباد اور ممبئی کے درمیان بلٹ ٹرین یا ہائی اسپیڈ ریل دستیاب ہوجانے پر حیدرآباد سے تین گھنٹوں میں ممبئی پہنچنا ممکن ہوجائے گا ۔
باوثوق ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ حیدرآباد ۔ ممبئی کے درمیان بلٹ ٹرین دستیاب ہونے کے تعلق سے مہاراشٹرا کے ضلع تھانے کے حدود میں شامل دیہی علاقوں کے عوام کو اطلاعات دی گئی ہے ۔ نیشنل ہائی اسپیڈ ریل کارپوریشن کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ مرکزی حکومت کی منظوری حاصل ہوجانے کے بعد ہائی اسپیڈ ریل تلنگانہ اور مہاراشٹرا کے 11 ریلوے اسٹیشنس سے پونے کا احاطہ کرتے ہوئے ممبئی کو روانہ ہوگی ۔
نیشنل ہائی اسپیڈ ریل کارپوریشن کے ڈپٹی جنرل منیجر این کے پاٹل نے بتایا کہ اس پراجکٹ کیلئے تھانے میں حصول اراضی شعبہ کے ڈپٹی کلکٹر پرشانت سوریاونشی اور دوسرے عہدیداروں کو تفصیلی رپورٹ پیش کردی گئی ہے ۔
اس ہائی اسپیڈ ریل کے حدود میں 649.76 کلومیٹر تک گرین کاریڈار بھی قائم کیا جارہا ہے ۔ اس پراجکٹ کیلئے تھانے ضلع میں 1200 ہیکڑ حصول اراضی کو قطعیت دی گئی ہے

شادی کا دن دلہا کیلئے ڈراؤنا خواب بن گیا

دوستوں کی شرارت کے باعث دلہا اپنی ہی شادی میں زخمی ہوگیا اور ریڑھ کی ہڈی کے فریکچر کا سامنا کرنا پڑ گیا۔رومانیہ سے تعلق رکھنے والے اس نوجوان کا جو دن زندگی کا بہترین دن ہونے والا تھا وہی ایک ڈراؤنا خواب بن گیا۔

دوستوں نے شرارت کرتے ہوئے دلہے کو ہوا میں اچھالا، لیکن واپس زمین پر آتے دلہے کو دوست سنبھال نہ سکے اور وہ زمین پر جاگرا اور دوبارہ نہیں اٹھ پایا۔زخمی دلہے کو اسپتال پہنچایا گیا جہاں تشخیص کے بعد معلوم ہوا کہ اس کی کمر کی ہڈی مختلف مقامات سے ٹوٹ گئی۔

ناندیڑ:آج بھی موسلادھاربارش کی پیش قیاسی

ناندیڑ:27 ستمبر (اردو دنیا نیوز۷۲)ناندیڑشہر وضلع میں کل سے موسلادھاربارش ہورہی ہے۔ آج 27 ستمبر کوصبح سے بارش کاسلسلہ جاری تھا اور دوپہر میں کچھ وقفہ کیلئے بارش تھم گئی مگر چاربجے کے بعد دوبارہ شدید بارش ہوئی ۔محکمہ موسمیات نے ناندیڑ ضلع میں دو دن تک شدید بارش کا انتباہ دیا ہے ۔کل بھی ضلع میں شدید بارش ہونے کے پیش گوئی کی گئی ہے ۔ناندیڑ کی گوداوری ندی میں پانی کی آمد کاسلسلہ جاری ہے ۔اورسطح آب مسلسل بڑ ھ رہی ہے۔

کل رات ناوگھا ٹ پل کوبندکردیاگیاتھا کیونکہ پُل پرپانی آگیاتھا لیکن آج دوپہر کے بعد پانی کچھ حد تک اترگیا اسلئے لوگوں نے دوبارہ یہاں سے آمدورفت شروع کردی ہے مگر کسی بھی وقت یہ پل دوبارہ زیر آب آسکتا ہے۔آج شام کے وقت پُل پر لوگوں کاہجوم دیکھاگیااور لوگ سیلفی اور تصویر کشی کرتے نظر آئے ۔حالانکہ یہ خطرناک بھی ثابت ہوسکتا ہے۔میونسپل کارپوریشن کاانتظامیہ شہر میں سیلاب کی صورتحال پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہے ۔کل وشنوپوری ڈیم کے آٹھ دروازے کھولے گئے ہیں جس سے ہزاروں کیوزکس پانی گوداوری ندی میں پہنچ رہا ہے۔

آٹھویں جماعت کے طالبعلم نے لاک ڈاون کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈیڑھ سال میں کرلیا قرآن کریم حفظ کیا

آٹھویں جماعت کے طالبعلم نے لاک ڈاون کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈیڑھ سال میں کرلیا قرآن کریم حفظ کیا

دیوبند:(اردو دنیا نیوز۷۲) اسپرنگ ڈیل پبلک اسکول میں آٹھویں جماعت کے طالب علم محمد انس صدیقی نے لاک ڈاون کے باعث تعلیمی ادارے بند رہنے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے محض ڈیڑھ سال کی مدت میں تکمیل حفظ قرآن کریم کرنے کا شاندار کارنامہ انجام دیا۔اس مناسبت سے محلہ ابو المعالی میں انوار صدیقی کی رہائش گاہ پر ایک دعائیہ مجلس کا انعقاد کیا گیا۔

اس موقع پر دارالعلوم وقف دیوبند کے استاذ حدیث مفتی محمد عارف قاسمی نے کہا کہ حافظ محمد انس صدیقی اور ان کے والدین کے لئے یہ نہایت خوشی اور مسرت کی بات ہے کہ عصری تعلیم میں مصروف ایک بچہ نے اپنے خالی اوقات کا اس قدر بہترین انداز میں استعمال کرکے دنیا وآخرت کا وہ خزانہ حاصل کیا جس کے لئے والدین اور ان کے بچے سالہا سال محنت کرکے مشکل سے اس منزل تک پہنچ پاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ بچہ دوسرے بچوں کے لئے قابل تقلید ہے کہ کس طرح اس نے اپنے خالی وقت کا بہترین مصرف تلاش کیا۔

اس موقع پر حافظ محمد انس صدیقی کی دستار بندی کی گئی اور اس عظیم کارنامہ کے لئے انہیں دعاوں سے نوازا گیا۔اسپرنگ ڈیل پبلک اسکول کے چیئرمین سعد صدیقی اور نائب چیئرمین احمد فیضان صدیقی نے حافظ محمد انس صدیقی اور ان کے والدین کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ اس بچہ کا یہ عظیم کارنامہ ان کے ادارہ کے لئے بھی باعث فخر ہے۔بچہ کے والد انوار صدیقی نے بتایا کہ بچہ کی دلچسپی کے ساتھ ان کے استاذقاری نصر الدین کی محنت اور ذاتی دلچسپی کا بڑا دخل ہے۔خصوصی شرکاءمیںقاری توقیر،قاری سعید،معاویہ علی ،جمال انصاری ،ڈاکٹر نواز دیوبندی ،راحت خلیل ،جمشید انور،نواب صدیقی،نسیم چاند،تنظیم صدیقی،شہزاد عثمانی،خرم عثمانی،ارشاد قریشی،عابد انصاری اور راجو وغیرہ موجود رہے

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...