Powered By Blogger

ہفتہ, نومبر 27, 2021

دل پسند باتیں مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

دل پسند باتیں 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
 مولانا علی احمد قاسمی بن حضرت محمد یونس امین صاحب بانی ومہتمم جامعہ رشید العلوم امین نگر مہیش پور ڈاک خانہ تیلوا وایا مہشی ضلع سہرسا مدرسہ کے اہتمام اور دوسرے دینی وتعلیمی کاموں کے ساتھ تصنیف وتالیف کا ساف ستھرا ذوق رکھتے ہیں، ان کی کئی کتابیں مثلا آئینہ صالحین ، نادر کلام ، عربی محاورات، قیمتی اعمال کی نیکیاں، ملفوظات اولیائ، مواعظ تبلیغ، خطبات عالیہ، سفر عاقبت ، وقت کی اہمیت حدیث کی روشنی میں مطبوع، مقبول اور معروف ہیں۔
 ’’دل پسند باتیں‘‘ مولانا کی دسویں کتاب ہے ،ا س کا پہلا ایڈیشن ۲۰۱۸ء میں آیا تھا، دوسرا ایڈیشن بس آناہی چاہتا ہے، اس کتاب میں مولانا نے حکمت ودانائی کی باتوں کو ایک خاص انداز میں جمع کر دیا ہے ، یہ خیال ان کے دل میں ترمذی وابن ماجہ میں موجود اس حدیث کی وجہ سے پیدا ہوا، جس میں کہا گیا ہے کہ حکمت ودانائی کی بات صاحب حکمت اور دانا شخص کی گم شدہ چیز ہے، پس جہاں وہ پائے ، وہاں سے لینے کا وہ زیادہ حقدار ہے، بعض روایتوں میں الحکمۃ ضالۃ المؤمن کے الفاظ بھی آتے ہیں، جس سے ایمان والوں کی خصوصیت کا پتہ چلتا ہے ، مولانا نے اسے اپنی کتاب کا سرنامہ بنایا ہے ، کتاب کا انتساب والد مرحوم کے نام کیا ہے جو ان کی سعادت مندی پر دال ہے ، پیش لفظ فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ، تقریظ مولانا مفتی محمد جمال الدین قاسمی صدر مفتی وصدر المدرسین جامعہ اسلامیہ دار العلوم حیدر آباد اور حرف چند ڈاکٹر سید اسرار الحق سبیلی اسسٹنٹ پروفیسر وصدر شعبہ اردو گورمنٹ کالج سری پیٹ تلنگانہ کا ہے ، حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ نے لکھا ہے : 
’’زیر نظر کتاب میں مصنف نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر مختلف ادوار کے علماء ، صلحائ، صحابہ کرام اور تابعینعظام کے اقوال ونصائح کو نمبر وار ذکر کرنے کی کوشش کی ہے ، جو ہر طبقہ کے لوگوں کے لیے مفید چیز ہے ، مصنف کی یہ کوشش قابل قدر ہے ، کیوں کہ مختلف کتابوں اوررسائل سے مضامین کو منتخب کرکے جمع کرنا ایک مشکل کام ہوتا ہے ‘‘(ص ۳۰)
 مولانا مفتی محمد جمال الدین نے لکھا ہے کہ ’’دل پسند باتیں خضرراہ کا کام دے گی ، مؤلف نے مطالعہ کے سمندر میں غواصی کرکے قیمتی موتیاں ڈھونڈھ نکالی ہیں، اور کتابوں کا جگر چاک کرکے جواہرات کو اکٹھا کیا ہے ، اور چمنستان علم وعرفان سے رنگا رنگ پھولوں کو جمع کرکے ایک حسین گلدستہ تیار کیا ہے ۔‘‘ (ص ۳۲)
 ڈاکٹر سید اسرار الحق سبیلی نے لکھا ہے کہ ’’ان اقوال زریں سے شریعت کے بہت سے اسرار ورموز اور گتھیاں سلجھانے میں مدد ملے گی - مؤلف نے ان بکھرے اقوال کو یک جا کر کے اپنی علمی ذوق اور وسعت مطالعہ کا ثبوت دیا ہے۔‘‘ (ص ۳۵) خود مؤلف کا خیال ہے کہ ’’یہ جمع شدہ زریں کلمات وگراں قدر موتی وجواہرات ہیں جو بزرگان دین کی کتابوں کے صفحات کی سینوں میں مخفی تھے۔ یہ بیش بہا جواہرات دریا بہ کوزہ کے ساتھ خیر الکلام ماقل ودل کے مصداق ہیں۔ (ص ۳۶)
دوسو چودہ صفحات پر مشتمل یہ کتاب نو ابواب اور ایک متفرقات پر مشتمل ہے، پہلے باب کے تحت ذیلی عناوین درج نہیں ہیں، ہر باب کے تحت اس کے نمبر کے اعتبار سے احادیث واقوال درج کیے گیے ہیں، یہ سلسلہ دس تک پہونچتا ہے، یعنی دوسرے باب میں دو باتوں کا ذکر کیا گیا ہے ، تیسرے میں تین اور نویں میں دس باتوں کو نقل کیا گیا ہے ، ہر بات کے تحت بہت سارے اقوال نقل کیے گیے ہیں، کہنا چاہیے کہ یہ بکھرے موتی ہیں، جنہیں انتہائی سلیقہ سے اکابر کی کتابوں سے نکال کر اس کتاب میں جمع کر دیا گیا ہے ، یہ ورق ورق روشن ہے، جس پر عمل کرکے انسانی اور ایمانی زندگی روشنی کے تمام مراحل طے کر سکتی ہے۔ اور آدمی ایسی زندگی گذارنے پر قادر ہو سکتا ہے جو اللہ ورسول کو محبوب اور پسندیدہ ہیں، مؤمن کی سوچ وفکر کا مرکز ومحور یہی ہونا چاہیے کہ وہ اللہ کی رضا حاصل کرلے اور اسوۂنبی کو اپنا کر جنت کا مستحق ہوجائے۔
 کتاب کی کمپوزنگ سلیقے سے قبا گرافکس حیدر آباد نے کیا ہے ، طباعت ، کاغذ ، جلد اور بائینڈنگ بھی دل پسند ہے، ناشر امین لائبریری امین نگر ، مہیش پور سہرسا ہے، قیمت دو سو روپے کتاب کے تاجروں کے کمیشن کو سامنے رکھیں تو زائد نہیں ہے ، مطبع کا پتہ درج نہیں ہے، بعض جگہوں پر تعبیرات بدلنے کی ضرورت ہے ، مثلا پہلے باب کا آغاز اس جملہ سے ہوتا ہے کہ ’’اس باب میں وہ باتیں درج ہیں جو ایک ایک لفظ پر مشتمل ہیں‘‘ جو باتیں درج کی گئی ہیں، ان میں کئی کئی جملے ہیں، صحیح تعبیر یہ ہے کہ وہ باتیں درج ہیں، جن میں صرف ایک بات ، کام یا چیز کا ذکر کیا گیا ہے ۔
 کتاب میں جہاں سے جو بات لی گئی ہے اس کے حوالہ کا اہتمام کیا گیا ہے ، اگر ان کتابوں ، مصنفین اور جہاں سے وہ شائع ہوتی ہیں، اس کا ایک اشاریہ کتاب کے آخر میں دے دیا جاتا تو قارئین کو سہولت ہوتی اور حوالہ سے مکمل واقفیت ہوجاتی ، ابھی جو طرز اس کتاب میں موجود ہے ، اس سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ حوالہ والی کتابیں کن کی ہیں اور ان کی اہمیت کیا ہے ، ہم امید کرتے ہیں کہ اگلے اڈیشن میں اس کا اہتمام کیا جائے گا۔
 میں اس اہم کتاب کی تالیف پر مولانا علی احمد قاسمی کو مبارکباد دیتا ہوں، اللہ نے ان سے ایک اچھا کام لے لیا، دعا کرتا ہوں کہ اللہ اسے امت مسلمہ کی اصلاح کا ذریعہ بنا دے اور اسے قبول عام وتام حاصل ہو ، کتاب مؤلف کے پتہ سے مل سکتی ہے ، جو آغاز میں ہی درج کردیا گیا ہے ۔

گروگروام میں گرو سنگھ سبھا نے مسلمانوں سے کی گرودوارے میں نماز پڑھنے کی اپیل ، پیش کی بھائی چارہ کی مثال

گروگروام میں گرو سنگھ سبھا نے مسلمانوں سے کی گرودوارے میں نماز پڑھنے کی اپیل ، پیش کی بھائی چارہ کی مثالگرو گرام: مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر میں رکھنا... سائبر سٹی گروگرام میں ایک طرف کھلے میں نماز کی مخالفت ہو رہی ہے تو دوسری طرف بھائی چارے کو کیسے قائم رکھا جائے، اس کی کوشش بھی کی جارہی ہیں۔ گروگرام میں گرو سنگھ سبھا گروگرام نے سبھی مسلم بھائیوں سے گرودواروں میں نماز پڑھنے کی اپیل کرکے مثال پیش کی ہے۔ گرو سنگھ سبھا نے مہا پرو سے پہلے اپیل کرتے ہوئے کہا اگر مسلم بھائی چاہیں تو کووڈ ضوابط کے تحت ہمارے گرودواروں میں جمعہ کی نماز ادا کرسکتے ہیں۔ گرو سنگھ سبھا کے پردھان شیرگل سدھو نے کہا کہ یہ ہماری پہل، پہلی کوشش نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی امرتسر کے ہرمندر صاحب میں نماز ادا کی جاتی رہی ہے۔ واضح رہے کہ اس سے پہلے سیکٹر 12 کے رہنے والے اکشے یادو نے اس معاملے میں پہل کرتے ہوئے گزشتہ جمعہ کو اپنی دوکانوں میں نماز پڑھنے کی جگہ دی بلکہ کہا کہ اگر جگہ کم پڑے گی تو ان کے گھر میں موجود پارکنگ اور پارک میں نماز ادا کی جاسکے، ایسے انتظامات کے لئے بھی وہ تیار ہیں۔ وہیں اس معاملے میں شیر گل سدھو کی مانیں تو ہمارے اول رہنما پہلی پات شاہی نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ کیسے انسانیت کی خدمت ہی خدا کی عبادت ہے۔ اور ہماری قوم اسی میں اعتماد کرکے انسانیت کی خدمت میں لگی ہے۔

گرو سنگھ سبھا، گروگرام کے پردھان شیر گل سنگھ سدھو نے کہا کہ عبادت مندر میں ہو گرودوارے میں ہو یا مسجد میں، عبادت سے روکنا گناہ ہے۔

واضح رہے کہ ایک طرف سنیکت ہندو سنگھرش سمیتی نے ضلع انتظامیہ کو کسی بھی صورت میں کھلے میں نماز نہ پڑھنے دینے کی وارننگ جاری کی ہوئی ہے۔ وہیں پہلے اکشے یادو اور اب گروسنگھ سبھا نے بھائی چارے کی مثال پیش کرکے نفرت کی سیاست کرنے والوں کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی ہے۔ قومی، بین الا اقوامی، جموں وکشمیر کی تازہ ترین خبروں کے علاوہ تعلیم و روزگار اور بزنس کی خبروں کے لئے نیوز18 اردو کو ٹوئٹر، فیس بک پر فالو کریں۔

اپنے والداوربھائی کوبے گناہ ثابت کرنے میں ہم اکیلے رہ گئے ، سب نے ساتھ چھوڑدیا ، ملی تنظیموں نے بھی کنارہ کشی اختیارکرلی : عمرگوتم کی بیٹی نئی دہلی ( ایجنسی )

اپنے والداوربھائی کوبے گناہ ثابت کرنے میں ہم اکیلے رہ گئے ، سب نے ساتھ چھوڑدیا ، ملی تنظیموں نے بھی کنارہ کشی اختیارکرلی : عمرگوتم کی بیٹی نئی دہلی ( ایجنسی )دھرم پریورتن کرانے کے الزام میں گرفتار معروف داعی اورمبلغ عمر گوتم کی بیٹی نے ایک انٹرویو کے دوران اپنے دل کے زخموں کو کریدتے ہوئے کہا کہ ہماری فیملی ٹوٹ کر بکھر گئی ہے۔ ہم تنہا ہیں، سب نے ہمارا ساتھ چھوڑدیا،اپنی لڑائی خود لڑ رہے ہیں ،زندگی کا زیادہ تر حصہ وکیلوں کے پیچھے دوڑنے میں گزرتا ہے ،کوئی تنظیم بھی ہمارے حق میں نہیں بولتی، سب نے ہونٹ سی لیے ہیں۔
ایک نیوز پورٹل سے گفتگو کرتے ہوئے عمر گوتم کی بیٹی نے کہا کہ کیس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی،کوئی امید افزا بات نہیں ہوئی ۔انہوں نے بتایا کہ لکھنؤ پاپا سے ملنے جاتے رہتے ہیں ،ان کی صحت خراب ہورہی ہے اور مایو سی بڑھتی جارہی ہے ،میری ممی ٹوٹتی جارہی ہیں ،بھائی کی غیر قانونی گرفتاری نے ان کو اور مجھے توڑ کر رکھ دیا ہے،پاپا اور بھائی بے گناہ ہیں اور یہ ثابت کرنا ہمارا ہدف ہے۔
ان پر عائد الزامات کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ فیبریکیٹڈ ہیں، پاپا تبدیلی مذہب کرنے والوں کی قانونی مدد کرتے تھے ،کسی کا مذہب تبدیل نہیں کرایا نہ ترغیب دی اور نہ ہی کسی پر دباؤ ڈالا ۔دوسرے ان کا آفس دہلی میں ہے اور مقدمہ لکھنؤ میں رجسٹرڈ ہوا دفتر2010میں قایم کیا تھا۔
ان کی بیٹی نے ایک سوال پر کہا کہ ابھی تک کوئی ایسی بات سامنے نہیں آئی کہ پاپا کو ٹارچر کیا گیا یا ان پر کوئی زیادتی ہوئی ہو مگر جیل تو جیل ہے بس ان کی یہ خواہش ہے کہ وہ بے گناہ ثابت ہوں اور باعزت بری ہوکر سماج کے سامنے آئیں ،مین اسٹریم میڈیا کے رویے پر جواب دیتے ہوئے بیٹی نے کہا کہ اس نے ہماری فیملی کی امیج تباہ کردی ،زندگی بھر کی ساکھ کو ختم کردیا ۔وہ جج بن گیا فیصلے صادر کرتا رہا غیرملکی فنڈنگ کا الزام ہو یا دھرم پریورتن کرانے کا کسی کا کوئی ثبوت نہیں۔جو لیبل پیشانی پر لگادیا ہے باعزت بری ہونے کے بعد بھی اس کا دھلنا مشکل ہے ۔امید کی کرن یہ ہے کہ جنہوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا تھا وہ سامنے آئے اور پاپا کے حق میں گواہی دی شاید مقدمہ پر اس کا اثر پڑے۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے والد پر چار جگہوں گجرات،فتح پور،دہلی اور لکھنؤ میں مقدمات ہیں اند ازہ لگائیں کہ کیا حالت ہوتی ہوگی ،گزشتہ دنوں گجرات لے جایا گیا تھا ان دنوں لکھنؤ جیل میں ہیں ۔کیا لوگ ساتھ دے رہے ہیں؟ بیٹی نے کہا کہ نہیں ددھیال ہو یا ننہال کوئی نہیں ہے ہمارا۔ ہم اکیلے ہیں میں اور میری ممی بھائی کا سہارا تھا،اس کو بھی لے گیے میری اور ممی کی صحت خراب ہورہی ہے ،میری میرے بھائی کی جاب،فیوچر،کیریر،عزت سب ختم سالگتاہے ہمارے سپورٹ میں کوئی نہیں ہے، تنظیمیں بھی خاموش ،گھر کی دیواروں میں قید ہوکر رہ گیے ہیں ،سب کی نگاہوں میں سوال ہے۔ مقدمہ اپنی جگہ رکا ہے ۔رتی بھر پیش رفت نہیں ہوئی خواہ کوئی کچھ کہہ رہا ہو مگر حقیقت یہی ہے ۔
کیا ہے کسی کے پاس عمرگوتم کی بیٹی کے ان سوالوں کا جواب؟

جمعہ, نومبر 26, 2021

غازی پور بارڈر پر مہاپنچایت شروع ، پارلیمنٹ مارچ کے پیش نظر دہلی کی سرحدیں سیل Kisan Andolan

غازی پور بارڈر پر مہاپنچایت شروع ، پارلیمنٹ مارچ کے پیش نظر دہلی کی سرحدیں سیل Kisan Andolan

کسانوں کی تحریک کا ایک سال مکمل ہونے پر کسانوں کی مہاپنچایت شروع ہو گئی ہے۔ جس کا آغاز قومی ترانے سے ہوا۔ اس موقع پر راکیش ٹکیت، یوگیندر یادو اور دیگر کسان لیڈر موجود ہیں۔ ساتھ ہی غازی پور کسان آندولن کمیٹی کے ترجمان جگتار سنگھ باجوہ نے کسانوں کو مہاپنچایت کے انتظامات کی جانکاری دی۔

کسان تحریک کا ایک سال مکمل ہونے پر کسانوں کی بڑی تعداد سنگھو بارڈر پہنچ گئی ہے۔ یہاں تحریک کی پہلی برسی منائی جارہی ہے۔

پی اے سی کی 5 بٹالین، سول پولیس کے 250 اہلکار، ایل آئی یو، انٹیلی جنس اور خواتین پولیس اہلکار مہاپنچائیت کے لیے یوپی گیٹ پر کسان آندولن کے مقام پر تعینات کیے گئے ہیں۔ ایس پی سٹی سیکنڈ گیانیندر سنگھ کا کہنا ہے کہ کسانوں کی تحریک پر مکمل حفاظتی انتظامات کیے گئے ہیں۔ سول ڈریس میں پولیس اہلکار بھی مشتبہ افراد پر نظر رکھنے کے لیے تعینات کیے گئے ہیں۔

دہلی میرٹھ ایکسپریس وے پر دہلی پولس نے بیریکیڈنگ مضبوط کردی ہے۔ ساتھ ہی دہلی پولیس نے بیریکیڈنگ کے قریب وارننگ پوسٹر لگائے ہیں، جس میں کہا گیا ہے کہ اس مقام پر دفعہ 144 نافذ کی جائے گی۔

کسانوں کے پارلیمنٹ مارچ کے اعلان کے پیش نظر، جمعہ سے یعنی آج سے ہی دہلی کو سیل کر دیا گیا ہے۔ تمام سرحدوں پر سیکورٹی بڑھا دی گئی ہے۔ سرحد پر تعینات پولیس اہلکاروں کو سخت احکامات دیے گئے ہیں کہ کسی کو بغیر چیکنگ کے دہلی میں داخل ہونے کی اجازت نہ دی جائے۔

کسانوں کے احتجاج کے ایک سال مکمل ہونے پر، پولیس نے کسی بھی ناپسندیدہ پیش رفت سے بچنے کے لیے دہلی-غازی آباد سرحد پر حفاظتی انتظامات کو بڑھا دیا ہے۔ بیریکیڈنگ کے ساتھ ساتھ پولیس نے راستہ روکنے کے لیے کرینیں بھی لگا دی ہیں۔ دہلی غازی آباد بارڈر ہی نہیں دیگر راستوں پر بھی رکاوٹوں کی وجہ سے کئی مقامات پر طویل جام ہے۔

کسانوں کی تحریک کا آج ایک سال مکمل ہو گیا ہے۔ ایسے میں دہلی کی تمام سرحدوں پر جہاں کسان گزشتہ 12 ماہ سے احتجاج کر رہے ہیں، وہیں پولس کی سختی بڑھ گئی ہے، وہیں کسانوں کی بھیڑ بھی بڑھ گئی ہے۔ تحریک کے ایک سال مکمل ہونے اور تینوں قوانین کو واپس لینے کے وزیر اعظم کے اعلان کے بعد، ایس کے ایم نے کسانوں سے دہلی کی سرحدوں پر پہنچ کر جزوی فتح کا جشن منانے کی اپیل کی تھی۔ جمعرات کو اس اپیل کا کافی اثر ہوا۔

صورتحال یہ تھی کہ کنڈلی-سنگھو سرحد پر کسانوں تک پہنچنے کا سلسلہ صبح سے شروع ہوا اور دیر رات تک جاری رہا۔ ہر ایک گھنٹے میں 15 ٹریکٹر ٹرالیاں کنڈلی بارڈر پہنچ رہی ہیں۔ کسان قانون واپس لینے کے اعلان سے پرجوش ہیں، لیکن ایم ایس پی سمیت زیر التوا مطالبات کو نہیں بھولے ہیں۔ ان کی حکومت سے پر امید اپیل ہے کہ باقی مطالبات بھی جلد پورے کیے جائیں، تاکہ وہ وطن واپس آسکیں۔

امریکہ کی دادا گیری مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ امریکہ داخلی طور پر بہت سارے مسائل سے جوجھ رہا ہے ، گن کلچر، دن بدن زوال پذیر معیشت اور مختلف ملکوں کی طرف سے در پیش خارجی خطرات کی وجہ سے وہ اندر سے کھوکھلا ہو گیاہے

امریکہ کی دادا گیری 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 امریکہ داخلی طور پر بہت سارے مسائل سے جوجھ رہا ہے ، گن کلچر، دن بدن زوال پذیر معیشت اور مختلف ملکوں کی طرف سے در پیش خارجی خطرات کی وجہ سے وہ اندر سے کھوکھلا ہو گیاہے ، اور اسے پریشانیوں کا سامنا ہے، اس کے باوجود وہ باہری دنیا میں اپنا رعب ودبدبہ بنانے کے لیے بہت سارے ملکوں کو تاراج کرنے میں اپنا کردار ادا کرتا رہا ہے ، تاکہ دنیا اس کی دادا گیری کو تسلیم کرے، جب تک روس کا سقوط نہیں ہواتھا اس وقت تک بہت سارے ملکوں سے اس کی سرد جنگ چلتی رہی تھی، اس زمانہ میں بھی اس نے مختلف ملکوں پر فوج کشی کی، گواسے اس کا خطرہ بنارہتا تھا کہ روسین بلاک کے اس میں کود پڑنے کی وجہ سے امریکہ کو زیادہ نقصان نہ اٹھانا پڑے، ان دونوں کی طاقت آزمائی کی وجہ سے غیر جانبدار ملکوں نے اپنی ایک تنظیم بنالی، جس میں ہندوستان پیش پیش تھا، باوجویکہ روس سے اس کا مضبوط تجارتی اور دفاعی معاہدہ تھا۔
 امریکہ نے ۱۸۹۸ء میں اسپین میں اپنی فوج بھیجی، یہ لڑائی آٹھ مہینہ چلی، پہلی عالمی جنگ میں ایک سال سات مہینے اپنی حلیف جماعتوں کے ساتھ اسے جنگ کرنی پڑی، ۱۸۹۹ء میں وہ فلپائن کے ساتھ بھڑ گیا اور ۱۹۰۲ء تک تین سال ایک مہینے یہ لڑائی چلتی رہی ، ۱۹۵۰ء میں اس کی بھڑنت کوریا سے ہو گئی اور ۱۹۵۳ء تک تین سال ایک مہینے اس لڑائی کی نظر ہو گیے، ۱۹۴۱ء میں دوسری عالمی جنگ کا آغاز ہوا، ۱۹۴۵ء تک تین سال آٹھ مہینہ کا عرصہ اس میں گذر گیا، مسلم ممالک پر حملہ کا آغاز امریکہ نے عراق کے ساتھ جنگ سے کیا جو ۲۰۰۳ء سے ۲۰۱۲ء آٹھ سال نو مہینے جاری رہا، ویت نام جنگ کا آغاز ۱۹۶۵ء میں ہوا، جو ۱۹۷۵ء تک دس سال دو مہینے جاری رہا، ۲۰۰۱ء میں اس نے افغانستان میں کٹھ پتلی حکومت بنوا کر طالبان کے خلاف جنگ کا آغاز کیا، یہ امریکہ کی تاریخ میں سب سے لمبی جنگ تھی، جو ۲۰۲۱ء تک انیس سال چھ ماہ جاری رہی یہاں سے انتہائی ناکامی کی حالت میں اسے بھاگ کھڑا ہونا پڑا اور اس نے امریکہ کی ساری دادا گیری کی پول کھول کر رکھ دی، اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ وہ جس کو چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلیل کر دیتا ہے، افغانستان کے طالبان سے جنگ کرنے کی وجہ سے جو ذلت امریکہ کے حصہ میں آئی ہے اسے دنیا کی تاریخ میں کبھی بھلایا نہیں جا سکتا ، ایک زمانہ تھا جب قرآن نے اس وقت کی رومن حکومت کے بارے میں کہا تھا کہ روم مغلوب ہو گیا، اسی طرح امریکہ کے لیے بھی چند سال ہی رہ گیے ہیں، اللہ رب العزت کا ارشاد ہے اس کے ما قبل اور ما بعد حکومت اللہ کی ہے، جس سے ایمان والے مسرور ہوں گے۔

مضبوط خاندان اور مضبوط سماج‘ کی تشکیل کیسے؟کامران غنی صبا شعبئہ اردو نیتیشور کالج مظفرپور ......

مضبوط خاندان اور مضبوط سماج‘ کی تشکیل کیسے؟
کامران غنی صبا 
شعبئہ اردو نیتیشور کالج مظفرپور 
................. 
ہم جس عہد میں زندگی گزار رہے ہیں وہاں خاندان اور سماج کا بکھرائو ہمارے سامنے ایک بڑا چیلنج ہے۔ ہمارے سماج کی یہ ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ بیشتر خاندان انتشار و افتراق کا شکار ہیں۔ یہاں تک کہ بعض انتہائی مذہبی خانوادے بھی آپسی انتشار اور رنجشوں سے محفوظ نہیں ہیں۔ قابلِ مبارکباد ہیں وہ خانوادے جہاں اتحاد و اتفاق اور محبت کی فضا قائم ہے۔قرآن و حدیث اور سیرتِ النبیﷺ وسیرت الصحابہؓ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں عبادات (نماز، روزہ، حج ، زکوۃ وغیرہ) کے ساتھ ساتھ رشتہ داروں اور قرابت داروں سے معاملات پر بھی بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ آج ہمارے معاشرہ کی صورت حال یہ ہے کہ عبادات کے معاملہ میں ہم قدرے بہتر ہیں۔ مساجد بہت حد تک آباد ہیں۔نماز کے پابند افراد الحمد للہ ہر جگہ موجود ہیں۔ مسلمانوں میں عبادت سے رغبت پیدا کرنے کے لیے باضابطہ محنتیں بھی کی جاتی ہیں۔ لوگوں کو مساجد تک لانے کے لیے جماعتیں نکلتی ہیں۔ دروس ِ قرآن و حدیث کی محفلیں ہر جگہ آراستہ کی جاتی ہیں۔تزکیہ اور تصفیہ کی مجالس بھی قائم کی جاتی ہیں۔ یقینا ان کاوشوں کے مثبت اثرات بھی سامنے آتے ہیں۔ لیکن ان سب کے باوجود ہمارے سماج میں ایسے افراد ڈھونڈنے سے ملتے ہیں، جن کے معاملات قرابت داروں سے اچھے ہوں۔ کسی کو بھائی سے شکوہ ہے تو کسی کی دوسرے رشتہ داروں سے رنجش ۔افرادِ خانہ کا ایک دوسرے کے گھر آنا جانا ممنوع ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ بعض ایسے گھرانے جو ’’امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘‘ کا فریضہ انجام دیتے ہیں وہاں بھی رنجشوں کے بتوں کی پرستش کی جاتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں بے شمار ایسے افراد موجود ہیں جو گھر سے باہر کی دنیا میں انتہائی خوش اخلاق،ملنسار، دیندار اور مثالی نظر آتے ہیں،لیکن اندرون خانہ ان کی دنیا بالکل مختلف ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ باہر کی دنیا کے لوگوں سے ہمارا تعلق جزوقتی ہوتا ہے۔ تھوڑی دیر کے لیے تصنع کے پردے میں خوش اخلاقی کا نمونہ پیش کرنا نسبتاً آسان ہوتا ہے۔ اس کے برعکس افرادِ خانہ سے ہمارا تعلق کل وقتی ہوتا ہے۔ ان سے ہمارے معاملات زیادہ پیش آتے ہیں۔ اس لیے ان کے سامنے اپنا حقیقی چہرا چھپا کر رکھنا ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں قرابت داروں سے تعلق استوار رکھنے پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے
’’اور تم سب اللہ کی بندگی کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، ماں باپ کے ساتھ نیک برتائو کرو، قرابت داروں، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسنِ سلوک کے ساتھ پیش آئو۔(سورۃ النساء)
’’اُس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہواور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔ یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے۔(سورۃ النساء)
ایک حدیث میں تو یہاں تک کہا گیا کہ’’اللہ کے نزدیک سب سے برا عمل رب کائنات کے ساتھ شرک کرنا، پھر رشتہ داری توڑنا ہے۔‘‘(صحیح الجامع الصغیر، رقم 166)
ایک حدیث کے الفاظ تو اتنے سخت ہیں کہ ’’سیدنا ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا اولاد آدم کے اعمال جمعرات کی شام اور جمعہ کو اللہ تعالیٰ کو پیش کیے جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ رشتہ توڑنے والے شخص کا کوئی عمل قبول نہیں کرتا۔‘‘
مسلم شریف کی ایک حدیث میں فرمایا گیا کہ ’’رشتہ عرش الٰہی سے آویزاں ہے، وہ پکار پکار کر کہتا ہے کہ جس نے مجھے جوڑا اللہ اسے جوڑے اور جس نے مجھے توڑ دیا اللہ اسے توڑ دے۔‘‘(مسلم 2555)
احادیث شریفہ صلہ رحمی کے انعام اور قطع رحمی کی وعیدوں سے بھری پڑی ہیں۔
افراد خانہ اور رشتہ داروں سے تعلق میں پائداری کے لیے درج ذیل نکات اگر ملحوظ رکھیں جائیں تو ان شاء اللہ بہتر نتائج برآمد ہوں گے۔
تعاون کا جذبہ: انسان کو سماجی زندگی میں ایک دوسرے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ کسی کی عبادت و ریاضت سے جتنا متاثر نہیں ہوتا اس سے کہیں زیادہ متاثراسے لوگوں کا اخلاق و کردار کرتا ہے۔ جو لوگ اچھے برے وقت میں ہمارے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، فطری طور پر ہمارے دل میں ان کے لیے احترام کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
جذبۂ ایثار : افرادِ خانہ اور رشتہ داروں کے لیے چھوٹی بڑی قربانی پیش کرنے والوں کا تعلق اپنے متعلقین سے اچھا ہوتا ہے لیکن بسا اوقات سب کچھ کرنے کے باوجود ہماری ذرا سی لغزش تعلقات میں کشیدگی کا سبب بن جاتی ہے۔ بعض افراد کے اندر ایثار و قربانی کا جذبہ تو خوب ہوتا ہے لیکن وہ اسے پوشیدہ نہیں رکھ پاتے۔ مثال کے طور پر ایک شخص نے اپنے کسی غریب رشتہ دار کی مالی طور پر مدد کی لیکن وہ اسے پوشیدہ نہیں رکھ پایا اور اپنے دوسرے رشتہ داروں سے اس کا ذکر کر ڈالا۔ یقینا ایسا کرنے سے اُس غریب رشتہ دار کی عزت نفس مجروح ہوگی جس سے رشتے میں کشیدگی اور کدورت پیدا ہو سکتی ہے۔
صبر اور برداشت: صبر اور برداشت کے بغیر کوئی بھی تعلق کبھی پائدار نہیں ہو سکتا۔ بیشتر خاندان میں کشیدگی کی سب سے اہم وجہ افراد خانہ کا عدم برداشت ہے۔چھوٹی چھوٹی باتیں بسا اوقات بڑی بڑی رنجیدگیوں کی وجہ بن جاتی ہیں۔ ایک صاحب اپنے ایک قریبی رشتہ دار کو اپنی بیٹی کا شادی کارڈ دینا بھول گئے۔دونوں گھروں سے پہلے سے انتہائی اچھے مراسم تھے لیکن ایک چھوٹی سی چوک اور دوسری طرف برداشت کی کمی اچھے خاصے تعلق میں بگاڑ کا سبب بن گئی۔
اپنی گھریلو حیثیت کا ادراک: کچھ لوگ گھر سے باہر کی دنیا میں بہت مشہور ہوتے ہیں۔ دنیا انہیں عالم، استاد، دانشور، فنکار وغیرہ کے نام سے جانتی ہے۔ باہر کی دنیا میں ان کی بڑی قدر و منزلت ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کو لگتا ہے کہ گھر میں انہیں ویسی عزت نہیں ملتی۔ اردو میں ایسے لوگوں کی وجہ سے ہی باضابطہ ایک محاورہ وضع ہو چکا ہے’’گھر کی مرغی دال برابر‘‘۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ باہر کی دنیا میں ہم کتنے ہی بڑے اور مشہور انسان کیوں نہ ہوں گھر میں ہماری حیثیت ایک باپ، بیٹا، بھائی ، ماں ، بہن، بہو وغیرہ ہی کی ہوتی ہے۔ ہمارا گھر اور باہر کا کردار یکساں کبھی نہیں ہو سکتا۔ اگر ہمیں اپنی گھریلو حیثیت کا اداراک نہیں ہوگا تو افرادِ خانہ کے تئیں ہمارے دل میں رنجش پیدا ہوگی۔
............

فرقہ پرستی کے خلاف لڑائی میں سبھی طبقات متحد ہوں: مولانا ارشد مدنی نفرت کا مقابلہ نفرت سے نہیں ،محبت کے فروغ سے ہوگا: ارشد مدنی

فرقہ پرستی کے خلاف لڑائی میں سبھی طبقات متحد ہوں: مولانا ارشد مدنی نفرت کا مقابلہ نفرت سے نہیں ،محبت کے فروغ سے ہوگا: ارشد مدنی

اردو دنیا نیوز ۷۲، نئی دہلی

مولانا ارشد مدنی نے فرقہ پرستی کے خلاف لڑائی میں تمام طقبات کو شامل کرنے اور نفرت کے خاتمے کیلئے متحد ہوکرمیدان عمل میں آنے کی اپیل کی ہے۔

جمعیۃ علماء ہند کے صدراور نو منتخب آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے نائب صدر مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ فرقہ پرستی کے خلاف جنگ میں ہم تنہا کامیابی حاصل نہیں کرسکتے ہمیں نہ صرف ان طبقے کو بلکہ سماج کے تمام ہم خیال افراد کو اپنے ساتھ لانا ہوگا۔انہوں نے ان خیالات کا اظہار کانپور میں منعقد ہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ستائیسویں اجلاس میں بورڈ کے نائب صدر منتخب ہونے کے بعدکیا اور انہوں نے اپنے خطا ب میں سب سے پہلے بورڈ کے صدر مولانا رابع حسنی ندوی کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ میں مختلف عوارض اور عمر کے تقاضے کی وجہ سے اب زیادہ بھاگ دوڑ نہیں کرپاتا لیکن آپ کے حکم کی تعمیل میں مجھے جو ذمہ داری دی گئی ہے اس کی ادائیگی کی حتی المقدور کوشش کروں گا۔

مولانا مدنی نے ملک کے موجودہ حالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے الزام لگایا کہ موجودہ بورڈ کے اجلا س میں ملک میں بڑھتی ہوئی خطرناک فرقہ پرستی کے تعلق سے جو باتیں سامنے آئی ہیں اور جس پر گفتگو ہورہی ہے ان باتوں کو لیکر حکومت کا جو نظریہ اور رویہ ہے اور جس طرح ان چیزوں کو پورے ملک میں پیش کیا جارہا ہے وہ نفرت اور تعصب پر مبنی ہے، احکام شرعیہ میں مداخلت درحقیقت اسی نفرت وتعصب کی سیاست پر مبنی ہے۔

انہوں نے کہاکہ ان چیزوں کو روکنے کے لئے ہمارے پاس بظاہر کوئی طاقت نہیں ہے اور جولوگ ایسا کررہے ہیں ان کے پاس اقتدار کی طاقت ہے جسے آج کی دنیا میں سب سے بڑی طاقت سمجھا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایسے مایوس کن حالات میں بھی امید اور یقین کے چراغ روشن ہیں،ملک کا ایک بڑا طبقہ ایسا ہے جو ملک کی موجودہ روش کو غلط سمجھتا ہے اور ایک مخصوص طبقے کے خلاف پچھلے کچھ برسوں سے جو کچھ ہورہا ہے اسے وہ اچھی نظر سے نہیں دیکھتا وہ یہ بھی سمجھتا ہے کہ اس طرح کی چیزیں ملک کے لئے انتہائی خطرناک اور نقصاندہ ہیں۔

مولانا مدنی نے کہا کہ فرقہ پرستی کے خلاف جنگ میں ہم تنہا کامیابی حاصل نہیں کرسکتے ہمیں نہ صرف اس طبقے کو بلکہ سماج کے تمام ہم خیال افراد کو اپنے ساتھ لانا ہوگا۔ منافرت اور فرقہ پرستی کی اس آگ کو بجھانے کے لئے ہمیں مل جل کر آگے آنا ہوگا اگر ہم ایسا کریں گے تو کوئی وجہ نہیں کہ فرقہ پرست طاقتو ں کو سکشت نہ دے سکیں۔

انہوں نے وضاحت کی کہ فرقہ پرستی اور منافرت کا یہ کھیل جنوب کے مقابلے میں شمالی ہندوستان میں اپنے شباب پر ہے،اس کی بنیادی وجہ سیاسی مفاد ہے۔

اشتعال انگیزیوں اور اوٹ پٹانگ بیانات سے سماجی سطح پر فرقہ وارانہ صف بندی قائم کرنے کی سازش ہورہی ہے تا کہ اکثریت کو اقلیت سے بالکل الگ تھلگ کر کے اپنے ناپاک منصوبوں میں کامیابی حاصل کرلی جائے۔

اس سازش کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمیں اکثریت کے ان تمام لوگوں کو اپنے ساتھ لانا ہوگا جو ان باتوں کو غلط سمجھتے ہیں اور جن کا ماننا یہ ہے کہ اس طرح کی سیاست ملک کے اتحاد، سا لمیت اور ترقی کے لئے انتہائی خطرناک ہے۔

انہوں نے آگے کہا کہ منافرت اور فرقہ پرستی کی آگ بھڑکانے والے مٹھی بھر لوگ ہی ہیں لیکن وہ طاقتور اس لئے ہیں کہ انہیں اقتدار میں موجود لوگوں کی پشت پناہی حاصل ہے، اس لئے قانون کے ہاتھ بھی ان کے گریبان تک نہیں پہنچ پاتے۔

مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ نفرت کا مقابلہ نفرت سے نہیں کیا جاسکتا ہے، آگ سے آگ کو بجھانے کی کوشش نادان لوگ ہی کرسکتے ہیں، اس کے مقابلے میں ہمیں اخوت، ہمدردی اور اتحاد ومحبت کو فروغ دینا ہوگا جو ہماری اور اس ملک کی پرانی تاریخ بھی رہی ہے۔ اس تاریخ کو دوبارہ زندہ کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے زور دے کر کہا کہ بلا شبہ ملک کے حالات انتہائی خراب ہیں لیکن ہمیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے، ملک کے اندر ایک بڑا طبقہ ایسا ہے جو اس نفرت کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے،ایسے لوگو ں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو ڈر اور خوف کے اس ماحول میں بھی فرقہ پرستی اور منافرت کے خلاف مضبوطی سے لڑ رہے ہیں۔ یاد رکھیں جس دن ہم فرقہ پرست طاقتوں کے خلاف تمام طبقات کو متحد کرنے اور اپنے ساتھ لانے میں کامیاب ہوگئے،یہ طاقتیں اسی روز دم توڑ دیں گی۔

مولانا مدنی نے کہا کہ اس کے لئے ہمیں ایک مظبوط لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا اور میدان عمل میں آنا ہوگا، ورنہ کل تک بہت دیر ہوسکتی ہے۔ برادران وطن کو خاص طور پر پڑھے لکھے طبقے کو چاہے وہ کسی بھی مذہب سے ہوں، بشرطیکہ وہ اس نفرت کے خلاف ہوں انہیں ساتھ لیکراس نفرت کے خلاف مہم چلانی چاہیے تب جاکر ان مسائل کا حل ہوگا ورنہ تمام طبقات کو متحد کئے بغیر فرقہ پرستی کو ختم نہیں کیا جاسکتا ہے۔

اخیر میں مولانامدنی نے دعوی کیاکہ اس وقت ہندوستان کے حالات جس قدر تشویشناک ہیں اس کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی۔ مرکز میں اقتدار کی تبدیلی کے بعد یکے بعد دیگرے جو واقعات پیش آرہے ہیں اس سے اب اس میں کوئی شبہ نہیں رہ گیا ہے کہ ہندوستان فسطائیت کی گرفت میں چلا گیا ہے۔ فرقہ پرست اور انتشار پسندقوتوں کا بول بالا ہوگیا ہے، جس نے ہر ایک محبِ وطن کو فکرمند کر دیا ہے۔(پریس ریلز)

#Tags ہندوستان

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...