Powered By Blogger

جمعرات, دسمبر 23, 2021

دنیا کی محبت غم کا سبب ہےشمشیر عالم مظاہری دربھنگویامام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار

دنیا کی محبت غم کا سبب ہے
شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی
امام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار
دنیا اور اس کی سب چمک دمک محض عارضی ہے،  انسان کی زندگی میں اگر کوئی نعمت میسر آجائے تو کوئی ضمانت نہیں کہ وہ آخری دم تک باقی بھی رہے،  اس لئے کہ دنیا تغیر پذیر ہے، مال، صحت، عزت، اور عافیت کے اعتبار سے لوگوں کے حالات بدلتے رہتے ہیں،  لہذا دنیا کی بڑی سے بڑی کہی جانے والی نعمت بھی ناپائیدار ہے ، اور اس سے انتفاع کا سلسلہ یقیناً ختم ہو جانے والا ہے،  اگر زندگی میں ختم نہ ہوا تو مرنے کے بعد یقیناً ہوجائے گا،  مرنے کے بعد نہ بیوی بیوی رہے گی،  نہ مال مال رہے گا نہ جائیداد اور کھیتی باڑی ساتھ ہوگی۔  ان سب اشیاء کا ساتھ چھوٹ جائے گا، بات یہ ہے کہ دنیا کی زندگی عارضی جبکہ آخرت کی زندگی دائمی ہے،  دنیا کی ہر خوشی اور نعمت زوال اور خطرات کی زد میں ہے،  جبکہ آخرت کی خوشی اور نعمت نہ تو زائل ہوگی اور نہ ہی اس کے ساتھ کوئی مصیبت اور پریشانی ہوگی، مومن کی نظر آخرت پر ہونی چاہیے،  دنیا اور دنیا کی آسائشیں  کسی مسلمان کی مقصد نہیں ہو سکتیں ۔
 اس لیے قرآن و حدیث میں انسانوں کو ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ دنیا کی زیب و زینت کو مقصود نہ بنائیں بلکہ اس کے مقابلہ میں آخرت کی لازوال نعمتیں حاصل کرنے کی جدو جہد اور فکر کرنی چاہیے
قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیا
مفہوم : فریفتہ کیا ہے لوگوں کو مرغوب چیزوں کی محبت نے،  جیسے عورتیں اور بیٹے اور خزانے جمع کئے ہوئے سونے اور چاندی کے اور گھوڑے نشان لگائے ہوئے ،  اور مویشی اور کھیتی،یہ فائدہ اٹھانا ہے دنیا کی زندگانی میں، اور اللہ ہی کے پاس ہے اچھا ٹھکانا،آپ فرما دیجئے: کیا بتاؤں میں تم کو اس سے بہتر؟پرہیز گاروں کے لئے اپنے رب کے ہاں باغ ہیں، جن کے نیچے جاری ہیں نہریں،  ہمیشہ رہیں گے ان میں،اور عورتیں ہیں ستھری اور رضامندی اللہ کی،اور اللہ کی نگاہ میں ہیں بندے (آل عمران)
اللہ تعالیٰ نے دنیا کے نظام کو قائم اور باقی رکھنے کے لیے گو کہ ان اشیاء کی محبت لوگوں کے دلوں میں راسخ فرما دی ہے کیونکہ اگر ان چیزوں سے لوگوں کو دلی تعلق نہ ہوگا تو دنیا کی آبادی اور شادابی کے اسباب کیسے فراہم ہونگے مال کے حصول کے لیے جدوجہد کون کرے گا صنعت و حرفت اور کاشتکاری کے شعبے کیسے فروغ پائیں گے لہذا ان دنیاوی اسباب سے لوگوں کا تعلق نظام قدرت کے عین مطابق ہے مگر اس تعلق کے دو پہلو ہیں ایک پسندیدہ اور دوسرا ناپسندیدہ ہے۔ یعنی اگر عورتوں سے تعلق حرام کاری کی طرف رغبت کی وجہ سے ہے تو ناپسند ہے اور اگر عفت و عصمت کے تحفظ اور صالح اولاد کے حصول کے لیے اپنی منکوحہ عورتوں سے تعلق ہے تو یہ عین عبادت ہے اسی طرح مال میں انہماک اگر تکبر و غرور اور فخر و مباہات اور دوسروں پر ظلم و جبر کے ساتھ ہے تو یہ بدترین غلطی ہے لیکن اگر صدقہ خیرات کے شوق اور لوگوں کے حقوق کی ادائیگی کے مقصد سے حلال کاروبار میں وقت لگاتا ہے تو ظاہر ہے کہ اسے برا نہیں کہا جاۓگا (تفسیر ابن کثیر)
دنیا کی زندگی تو بس کھیل کود ہے اور آخرت کا گھر ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو ڈرتے ہیں کیا تم عقل نہیں رکھتے (سور الانعام)
یہ دنیا کی زندگی تو بس عارضی ہے ہمیشہ کا گھر تو صرف آخرت ہے (سورۃ المؤمن)
آخرت میں سخت عذاب بھی ہے اور اللہ کی مغفرت اور رضا بھی ہے اور دنیا کی زندگی تو بس فریب ہی فریب ہے (سورۃ الحدید)
فرما دیجئے ! دنیا کی زندگی تھوڑی ہے اور آخرت بہتر ہے اس شخص کے لئے جو تقوی اختیار کرتا ہے (سورۃ النساء)
اور ان کو بتادیں کہ دنیا کی زندگی ایسے ہی ہے جیسے ہم نے اتارا پانی آسمان سے (سورۃ الکہف)
اور یہ دنیا کی زندگی نہیں مگر کھیل تماشا اور آخرت کی زندگی تو ہمیشہ رہنے والی ہے کاش یہ جان لیتے (سورۃ العنکبوت)
جو کوئی آخرت کی کھیتی کو چاہتا ہے ہم اس کے واسطے اس کی آخرت کی کھیتی کو بڑھاتے ہیں اور اس میں زیادتی کرتے جاتے ہیں اور جو کوئی دنیا کی کھیتی کو چاہتا ہے ہم اس کو دنیا میں سے کچھ دے دیتے ہیں اور اس کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا (سورۃ الشوریٰ)
یہ چند آیات مثال کے طور پر پیش کی گئی ہیں ورنہ دسیوں بیسیوں آیات ہیں جو دنیا کی قلت و حقارت اور آخرت کی تعریف کے بارے میں  پیش کی جا سکتی ہیں۔ قرآن کی ان آیات کے علاوہ آقا صلی اللہ وسلم کے ارشادات کا مطالعہ کریں تو آپ نے بھی یہی حقیقت اپنی امت کے دل میں اتار نے کی کوشش کی ہے کہ دنیا اور آخرت میں کوئی مناسبت نہیں اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے جو حقیقی اور سچا مسلمان ہوگا وہ آخرت ہی کو بنانے اور سنوارنے کی کوشش کرے گا دنیا ہی کی زندگی کو اپنی فکر و سعی کا محور بنا لینا مسلمانوں کا شیوہ نہیں۔
حدیث قدسی میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا کہ اگر ابن آدم کو ایک وادی سونے کی بھری ہوئی مل جائے تو وہ چاہے گا کہ مجھے ایک وادی اور مل جائے جب دو مل جائیں گی تو پھر یہ چاہے گا کہ مجھے ایک وادی اور مل جائے ۔ ابن آدم کا پیٹ سوائے قبر کی مٹی کے اور کوئی چیز نہیں بھرے گی جب وہ دنیا سے رخصت ہو گا اور اس کو قبر میں دفن کیا جائے گا تب اس کا پیٹ بھرے گا اور دنیا میں مال و دولت جمع کرنے کے لئے جو بھاگ دوڑ اور محنت کر رہا تھا وہ ساری محنت دھری رہ جائے گی اور سب مال و دولت یہاں چھوڑ کر خالی ہاتھ دنیا سے رخصت ہو جائے گا البتہ اگر اللہ تعالیٰ کسی بندے کو قناعت عطا فرما دیں تو یہ ایک ایسی چیز ہے جو انسان کا پیٹ بھر دیتی ہے اور اس قناعت کو حاصل کرنے کا نسخہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث میں بیان فرمایا کہ اگر تم دنیا اور آخرت کی فلاح چاہتے ہو تو اس نسخے پر عمل کر لو اور اگر فلاح نہیں چاہتے ہو تو عمل مت کرو لیکن پھر ساری عمر بے چینی اور پریشانی کا شکار رہو گے وہ نسخہ یہ ہے کہ دنیاوی مال و دولت کے اعتبار سے اپنے سے اونچے کو مت دیکھو ورنہ یہ خیال آئے گا کہ اس کو فلاں چیز مل گئی ہے مجھے وہ چیز نہیں ملی بلکہ اپنے سے کمتر آدمی کو دیکھو کہ اس کے پاس دنیا کے اسباب کیا ہیں اور تمہیں اس کے مقابلے میں کتنا زیادہ ملا ہوا ہے اس وقت تم اللہ کا شکر ادا کرو گے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جو سامان اور راحت عطا فرمائی ہے وہ اس کو حاصل نہیں اور اگر اپنے سے اونچے کو دیکھو گے تو دل میں حرص پیدا ہوگی پھر مقابلہ اور دوڑ پیدا ہوگی اور اس کے نتیجے میں دل اندر حسد پیدا ہوگا کہ وہ آگے نکل گیا میں پیچھے رہ گیا  پھر حسد کے نتیجے میں بغض پیدا ہوگا پھر عداوت پیدا ہوگی تعلقات خراب ہوں گے اللہ تعالی کے حقوق بھی ضائع ہوں گے اور اللہ کے بندوں کے حقوق بھی ضائع ہوں گے اور اگر قناعت حاصل ہو گئی تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ سکون میں آجاؤ گے اس کے علاوہ سکون کا کوئی راستہ نہیں ہے (لا یملأ جوف ابن آدم الا التراب ) صحیح بخاری۔
دنیا کی محبت اگر دل میں سمائی ہوئی ہو تو پھر صحیح معنی میں اللہ تعالی کی محبت دل میں نہیں آ سکتی اور جب اللہ تعالٰی کی محبت نہیں ہوتی وہ محبت غلط رخ پر چل پڑتی ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ !حب الدنیا رأس کل خطیٔۃ ۔ دنیا کی محبت ہر گناہ اور معصیت کی جڑ ہے۔ (کنز العمال)
جتنے جرائم اور گناہ ہیں اگر انسان ان کی حقیقت میں غور کرے گا تو اس کو یہی نظر آئے گا کہ ان سب میں دنیا کی محبت کار فرما ہے چور کیوں چوری کر رہا ہے اس لئے کہ دنیا کی محبت ہے اگر کوئی شخص بدکاری کر رہا ہے تو کیوں کر رہا ہے اس لیے کہ دنیا کی لذتوں کی محبت دل میں جمی ہوئی ہے شرابی اس لیے شراب نوشی کر رہا ہے کہ وہ دنیاوی لذتوں کے پیچھے پڑا ہوا ہے کسی بھی گناہ کو لے لیجئے اس کے پیچھے دنیا کی محبت کار فرما نظر آئے گی اور جب دنیا کی محبت دل میں سمائی ہوئی ہے تو پھر اللہ کی محبت کیسے دل میں داخل ہو سکتی ہے لہذا دل میں حقیقی محبت یا تو اللہ تعالی کی ہوگی یا دنیا کی ہوگی دونوں محبتیں ہے ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتیں اسی وجہ سے مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ! ہم خدا خواہی وہم دنیائے دوں ، ایں خیال است و محال واست وجنوں ۔ یعنی دنیا کی محبت بھی دل میں سمائی ہوئی  ہو اور اللہ تعالی کی محبت بھی سمائی ہوئی ہو یہ دونوں باتیں نہیں ہوسکتیں اس لیے کہ یہ صرف خیال ہے اور محال ہے اور جنون ہے اس واسطے اگر دل میں دنیا کی محبت سما گئی تو پھر اللہ کی محبت نہیں آئے گی جب اللہ کی محبت نہیں ہوگی تو پھر دین کے جتنے کام ہیں وہ سب محبت کے بغیر بے روح ہیں بے حقیقت ہیں ان کے ادا کرنے میں پریشانی دشواری اور مشقت ہوگی اور صحیح معنی میں وہ دین کے کام انجام نہیں پا سکیں گے بلکہ قدم قدم پر آدمی ٹھوکریں کھاۓ گا اس لیے کہا گیا کہ انسان دل میں دنیا کی محبت کو جگہ نہ دے۔ (اصلاحی خطبات)
دنیا دار کی زندگی 
عرب کے ایک شاعر (غالباً ابو العتاھیہ) سے کسی نے پوچھا سناؤ کیسے گزر رہی ہے اس نے جواب دیا کیا بتاؤں ایسی زندگی گزار رہا ہوں جس سے نہ خدا خوش ہو سکتا ہے،  نہ شیطان اور نہ ہی میں خود۔ سائل نے پوچھا وہ کیسے کہنے لگا خدا کامل فرمانبرداری چاہتا ہے وہ مجھ سے نہیں ہوتی،  شیطان بڑے بڑے جرائم کا ارتکاب مجھ سے کرانا چاہتا ہے ان کو کرنے کی میرے اندر ہمت اور جرأت نہیں، میرا نفس عیاشی کے اسباب چاہتا ہے وہ مجھے میسر نہیں ہوتے۔
دیندار کی زندگی 
اس کے برعکس حضرت بہلول سے کسی نے پوچھا سناؤ کیا حال ہے فرمایا اس شخص کا حال کیا پوچھتے ہو کہ دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے اس کی خواہش کے مطابق ہوتا ہے کہا یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہا یہ تو تم جانتے ہو کہ ہر بات خدا کے ارادہ اور خواہش کے موافق ہوتی ہے اور میں نے اپنی خواہش کو خدا کی خواہش میں مٹا دیا اور اس کے تابع کر دیا ہے اب جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ میری خواہش کے موافق ہوتا ہے
اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کے دلوں کو دنیا کی محبت سے حفاظت فرمائے اور اپنی محبت عطا فرمائے آمین

کھلے میں نماز پر سیاست ___✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

کھلے میں نماز پر سیاست ___
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 ہریانہ کی منوہر لال کھٹرسرکار نے کُھلے میں نماز پڑھنے پر پابندی لگادی ہے ، انہوں نے کہا کہ’’کھلے میدان میں مسلمانوں کو نماز ادا کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے، جسے نماز پڑھنا ہے وہ اپنے گھر پر پڑھے‘‘ جن کھلے میدانوں میں پہلے مسلمانوں کو نماز جمعہ اد اکرنے کی اجازت دی گئی تھی اسے بھی منوہر لال کھٹر نے واپس لے لیاہے، ہریانہ کی دیکھا دیکھی بہار میں بھی فرقہ پرستوں نے کھلے میں نماز ادا کرنے کو ممنوع قرار دینے کا مطالبہ شروع کر دیا ہے، گوبہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے یہ کہہ کر اس آواز کو دبا دیا ہے کہ ’’ہماری نگاہ میں سبھی لوگ یکساں ہیں، سڑک پر نماز کو ایشو نہ بنائیں، کہیں کوئی پوجا کرتا ہے ، کہیں کوئی گاتا ہے‘‘ وزیر اعلیٰ کے اس بیان کے بعد یہ معاملہ بہار کی حد تک ختم ہو گیا ہے ، لیکن کب کس کو جوش آجائے اور اس راگ کو الاپنے لگے ، کہا نہیں جاسکتا ۔
 وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے اس مسئلے پر جو کچھ کہا ہے، اس میں بہت دم ہے، اس لیے کہ غیر مسلموں کے سارے تہوار سڑکوں پر اور کھلے میں ہی ہوتے ہیں، ظاہر ہے ان پر پابندی لگا نے کا دم خم حکومت میں نہیں ہے ، ہریانہ کی کھٹر سرکار میں بھی نہیں، وہ راون کو جلانے کا کام گھر میں نہیں کر سکتے ، میدان میں ہی جلایا جائے گا، رام لیلا کی ساری کہانی میدان میں ہی اسٹیج کی جاتی ہے، درگا پوجا کے سارے پنڈال سڑک کنارے ہی لگتے ہیں،چھٹھ کے موقع سے سڑک جام اور آمد ورفت کے راستوں کو بدلنا پڑتا ہے، ٹریفک کا نظام درہم برہم ہو کر رہ جاتا ہے، ’’جگ‘‘ بھی کھلے میدان میں کیا جاتا ہے اور ہنومان چالیسہ کا پاٹھ کسی کے دروازے پر بھی ہو میلہ سڑکوں پر ہی لگتا ہے، احتجاج ، مظاہرے اور دھرنے کھلے میدان میں ہی ہوتے ہیں، سڑکوں کو جام کرکے اپنی بات منوائی جاتی ہے ، اس لیے وزیر اعلیٰ نے ’’ہماری نگاہ میں سبھی لوگ یکساں ہیں‘‘ کہہ کر یہی پیغام دینا چاہا ہے کہ پابندی صرف نمازوں پر نہیں لگے گی ، سب یکساں ہیں تو پابندی کا اطلاق بھی سب پر ہونا چاہیے۔
 اگر یہ پابندی مسلمانوں نے قبول کر لیا تو اس کے دور رس اثرات ہوں گے، جمعہ کے بعد عیدین کی نماز کھلے میں پڑھنے پر پابندی لگے گی ، گاندھی میدان پٹنہ میں نماز ادا نہیں کی جا سکے گی، پھر کہا جائے گا جنازہ کی نماز بھی گھروں میں پڑھو ، ایک طویل سلسلہ چل پڑے گا، اس لیے اس مسئلہ پر خاموش رہنا مصلحت کے بھی خلاف ہے، اگر حکومت اس قسم کی کوئی پابندی لگاتی ہے تو اسے اس کا حل بھی پیش کرنا چاہیے، اس کا حل یہ ہے کہ اوقاف کی زمینوں کو غیر قانونی قبضہ سے واگذار کرکے مسلمانوں کے حوالہ کیا جائے تاکہ وہ ان زمینوں کا استعمال جمعہ اور عیدین وغیرہ نمازوں کی ادائیگی کے لیے کر سکیں، حکومت اوقاف کی زمینوں کے غیر قانونی قبضہ کو ختم کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی، کیوں کہ بہت ساری زمینوں پر خود حکومت کی عالیشان عمارتیں کھڑی ہیں، اور ان کے وقف کی جائیدا ہونے کی وجہ سے کرایہ یا لیز کی رقم بھی ادا نہیں کی جا رہی ہے۔
ہندوستان صدیوں سے گنگا جمنی تہذیب کا مرکز رہا ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ رہتے آ رہے ہیں، ان کی عبادت کے اپنے اپنے طریقے ہیں، کسی کی عبادت میں کوئی رکاوٹ نہ ہو، یہاں کی روایت رہی ہے، اسی روایت کے نتیجے میں میدان میں پوجا بھی کی جا تی ہے اور حسب ضرورت نماز یں بھی پڑھی جاتی رہی ہیں، حالاں کہ مسلمان باجماعت نمازوں کے لئے مساجد جانا ضروری سمجھتا ہے، لیکن کسی موقع سے جماعت بڑی ہوجاتی ہے، تو وہ سڑکوں اور میدانوں میں پھیل جاتی ہے، بعض کمپنیوں میں مسلمان کام کرتے ہیں اور وہاں پر کوئی مسجد دور دور نہ ہو تو میدان کا استعمال نماز کی ادائیگی کے لیے کیا جاتا ہے، یہ مسلمانوں کا معمول نہیں ہے، وقتی ضرورت ہے اس پر واویلا مچانا یا پابندی لگانا ہندوستانی روایات کے خلاف ہے او ریہاں کی گنگا جمنی تہذیب کے بھگوا رنگ میں رنگنے کے مترادف بھی۔
 منوہر لال کھٹر کو فوری طور سے اپنے اس حکم کوواپس لینا چاہیے تاکہ ہندوستان میں سبھی مذاہب کے احترام کی جو تابندہ روایت رہی ہے اس پر آنچ نہ آئے۔

ویکسین نہ لگوانے والے افراد کو ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے کی اجازت دی تو تیزی سے پھیلے گا انفیکشن : ممبئی ہائی کورٹ میں مہاراشٹر حکومت نے دیا بیان

ویکسین نہ لگوانے والے افراد کو ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے کی اجازت دی تو تیزی سے پھیلے گا انفیکشن : ممبئی ہائی کورٹ میں مہاراشٹر حکومت نے دیا بیانممبئی: مہاراشٹر حکومت نے بدھ کے روز بمبئی ہائی کورٹ کو بتایا کہ ویکسین نہ لگوانے والے لوگوں کو پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرنے والوں کے ساتھ سفر کرنے کی اجازت دینا دوسروں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالے گا اور کورونا وائرس اور اس کی مختلف اقسام کے تیزی سے پھیلنے کا سبب بنے گا۔ ریاستی حکومت نے ہائی کورٹ میں داخل ایک حلف نامہ میں کہا، “مہاراشٹر حکومت یہ خطرہ مول نہیں لے سکتی۔ حلف نامہ میں کہا گیا ہے کہ جن لوگوں نے کووِڈ-19 ویکسین کی دونوں خوراکیں حاصل نہیں کی ہیں انہیں ریاست میں پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرنے سے منع کرنے کا فیصلہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے لیا گیا ہے کہ جو لوگ ویکسین نہیں کرواتے ہیں وہ دوسروں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔چیف جسٹس دیپانکر دتہ اور جسٹس ایم ایس اس طرح کے فیصلے معقول ہیں اور امتیازی نہیں ہیں اور شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں کرتے ہیں۔ریاستی حکومت نے دو پی آئی ایل کے جواب میں یہ حلف نامہ داخل کیا ہے۔ ریاستی حکومت نے کہا کہ درخواست گزاروں نے خود ویکسین کی دونوں خوراکیں دی ہیں۔ ہائی کورٹ اس موضوع پر اگلی سماعت 3 جنوری 2022 کو کرے گا…

بدھ, دسمبر 22, 2021

کام کے طریقے ____✍️‌مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ ہم جب کسی کام کو شروع کرتے ہیں

کام کے طریقے ____
✍️‌مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 ہم جب کسی کام کو شروع کرتے ہیں ، یا کسی تقاضے کو پورا کرنے پر آتے ہیں تو ہم میں بڑا جوش وجذبہ ہوتا ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ دنوں کاکام گھنٹوں اور گھنٹوں کا کام منٹوں اور سکنڈوں میں کر ڈالیں، اس جذبہ سے کام تیزی سے آگے بڑھنے لگتا ہے، وقت گذرنے کے ساتھ ہم اس جذبہ وجوش کو باقی نہیں رکھ پاتے، جس کی وجہ سے یاتو کام میں سست رفتاری آجاتی ہے اور کبھی جوش وجذبہ کے سرد پڑجانے کی وجہ سے کام رک جاتا ہے، کام کوپھر سے رفتار دینے کے لیے ضروری ہے کہ ہدف روز کا مقرر کرلیں اور دھیرے دھیرے دن بھر میں اس ہدف تک پہونچنے کی کوشش کریں،اگر آپ نے تیز دوڑنا شروع کیا تو آپ جلد ہی تھک ہار کر بیٹھ جائیں گے، اور ہدف ادھورا رہ جائے گا، آپ نے سنا ہی ہوگا کہ دھیمے چلنے والا کچھوا خرگوش کی اڑن چال پر غالب آگیا تھا۔
 اب اگر آپ کام کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں تو آپ کو اپنے کام کا بھی جائزہ لینا چاہیے کہ کہیں ہم نے مقاصد کے اعتبار سے کم تر چیز کا انتخاب تو نہیں کر لیا ہے، اگر وہ کم تر نہیں ہے تو اس پر غور کرنا چاہیے کہ کام کا جوش وجذبہ کیوں اختتام پذیر ہوا اور کیوں زندگی پرانی لیکھ پر چلنے لگی، کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ہم جس مقصد اور منزل کو پانے کے لیے یہ کام کر رہے تھے وہ ہماری ترجیحات میں نہیں تھیں، ہم ایسے ہی کسی کی ترغیب سے اس کام میں لگ گیے تھے، اگر ایسا ہے توفورا اس کام کو چھوڑ کر دوسرے کام کا انتخاب سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے، اور اس کا سلوگن یہ ہونا چاہیے کہ’’ ہم چاہتے نہیں‘‘، ہمیں ہر قیمت پر یہ’’ چاہیے‘‘ آپ کی ’’چاہت‘‘ آپ کی خواہش کا مظہر ہے، جب کہ’’ چاہیے‘‘ آپ کے عزم بالجزم کی طرف اشارہ کرتا ہے،اور یہ بتاتا ہے کہ آپ اسے حاصل کرکے ہی دم لیں گے۔
 اس عزم کے پہلے اپنے کاموں کی فہرست سازی کیجئے، پھر ہر کام کے بارے میں اپنے ذہن ودماغ سے پوچھیے کہ اس کام کو آپ کیوں کرنا چاہتے ہیں، کام شروع کرنے سے پہلے جو مثبت اور منفی جواب ملے اس کو ایک نوٹ بک میں درج کرتے رہیں، پھر فیصلے سے پہلے ان اسباب ووجوہات کا جائزہ لیں اور جائزہ میںجو کام سمجھ میں آئے اس کا آغاز کر دیں، اس طرح آپ کسی کام کا آغاز شعوری طور پر کر سکیں گے، اور آپ کے جوش وجذبہ میں کمی نہیں آئے گی، اس کے برعکس اگر آپ نے بلا سوچے سمجھے کام کا آغاز کر دیا تو آپ کا دماغ اس سے متاثر ہوگا، اور دماغ سے چلنے والی لہریں ہی اعضاء وجوارح اور قویٰ کو متحرک رکھا کرتی ہیں، اور عمل پر ابھارتی ہیں،جب دماغ سے اعضا کو کوئی ہدایت نہیں ملے گی؛ کیوں کہ اس میں آپ کی دلچسپی نہیں ہے تو کام یا تو سست پڑجائے گا یا رک جائے گا۔
 آپ جب کام سے مطمئن ہوگیے تو ہتھیلی پر سرسوں جمانے کا کام مت کیجئے، کیوں کہ یہ نا ممکن ہوتا ہے، اپنے فیصلے کوعملی رنگ وروپ بخشنے کے لیے منصوبہ بندی کیجئے، منصوبہ بندی میں کام کے درمیان پیش آنے والی پریشانیوں اور مشکلات کا بھی خیال رکھیے، اگر آپ نے ان رکاوٹوں کو منصوبہ سازی میں ملحوظ نہیں رکھا تو ممکن ہے ان رکاوٹوں کے سامنے آنے سے آپ مضمحل اور دل بر داشتہ ہوجائیں اور کام سے آپ کا دل پِھر جائے، لیکن اگر آپ نے پہلے سے ان رکاوٹوں کو ملحوظ رکھا ہے تو آپ سوچیںگے کہ اس کام میں یہ رکاوٹ تو آنی ہی تھی، ہم اس کو دور کرکے آگے بڑھ سکتے ہیں، آپ سوچیں گے کہ راستے کبھی بند نہیں ہوتے، ہر بند راستے کے بغل سے ایک متبادل راستہ ہوتا ہے، ہم اس رکاوٹ کو متبادل راستے کا استعمال کرکے دور کرلیں گے اور منزل تک پہونچ کر دم لیں گے۔
 آپ نے جو بھی نشانہ مقرر کیا ہے، اس کو خود کلامی کے انداز میں دہراتے رہنا بھی آپ کی قوت عمل کو مہمیز کرتا ہے، ہر صبح جب اٹھیے تو معمولات سے فراغت کے بعد خود کلامی کے انداز میں کہیے کہ’’ ہم اس کام کو پایہ تکمیل تک پہونچانے کے لیے پابند عہد ہیں اور ہم انشاء اللہ ایسا کرکے رہیں گے‘‘ آپ محسوس کریں گے کہ آپ کی اس خود کلامی نے آپ کے اندر نئی توانائی اور طاقت پیدا کر دی ہے اور آپ پہلے سے زیادہ کام کی تکمیل کے سلسلے میں پُر عزم ہو گیے ہیں۔

منگل, دسمبر 21, 2021

ووٹر شناختی کارڈ کو آدھار سے مربوط کرنے کا بل منظور

ووٹر شناختی کارڈ کو آدھار سے مربوط کرنے کا بل منظور

ترمیمی بل کو لوک سبھا کی ندائی منظوری ۔ ووٹرس کی حیثیت سے رجسٹریشن کے لئے سال میں چار مواقع دستیاب

نئی دہلی : لوک سبھا نے پیر کو انتخابی قوانین (ترمیمی) بل 2021 ء منظور کرلیا جس کے تحت ووٹر شناختی کارڈس کو آدھار کے ساتھ مربوط کرنے کی گنجائش مل گئی ہے ۔ یہ بل ندائی ووٹ کے ذریعہ منظور کیا گیا ۔ اس بل میں گنجائش ہے کہ الکٹورل رجسٹریشن آفیسرس اُن لوگوں سے آدھار نمبر طلب کرسکتے ہیں جو اپنی شناخت ثابت کرنے کے مقصد سے بطور ووٹرس اپنا رجسٹریشن کرانا چاہتے ہیں ۔ اس میں یہ گنجائش بھی ہے کہ انتخابی فہرست میں پہلے سے جو نام موجود ہیں اُن کی جانچ کے لئے بھی الکٹورل رجسٹریشن آفیسرس آدھار نمبرس طلب کرسکتے ہیں۔ نیز ایک سے زیادہ حلقے کی انتخابی فہرست میں یکساں نام کے ووٹرس پائے جائیں تو اُن کے درمیان تخصیص کے لئے بھی آدھار نمبرس طلب کئے جاسکتے ہیں۔ ساتھ ہی اس ترمیمی بل میں یہ وضاحت بھی کردی گئی ہے کہ آدھار نمبر پیش کرنے میں کسی بھی فرد کی ناکامی انتخابی فہرست میں اُس کے نام کی عدم شمولیت کی وجہ نہیں بنے گی ۔ دیگر دستاویزات کی جانچ کرتے ہوئے اُسے پہلے کی طرح انتخابی فہرست میں شامل کیا جاسکتا ہے ۔ اس طرح ووٹر شناختی کارڈس کو آدھار سے مربوط کرنا فی الحال رضاکارانہ نوعیت کا عمل ہے ۔ آج کا منظورہ بل قانون عوامی نمائندگی 1950 اور 1951 کے بعض دفعات میں ترمیم کرتا ہے ۔ ووٹر شناختی کارڈ کو آدھار سے مربوط کرنے کا بنیادی مقصد یکساں فرد کا مختلف مقامات پر انتخابی فہرستوں میں اپنے نام کی شمولیت کا تدارک کرنا ہے ۔ آر پی ایکٹ 1950 ء کے سیکشن 14 میں ترمیم اہل افراد کے لئے ووٹروں کے طورپر رجسٹریشن کے سلسلہ میں کوالیفائی ہونے کی چار تواریخ فراہم کریگی ۔ موجودہ طورپر ہر سال یکم جنوری ہی واحد تاریخ ہے جس کے اعتبار سے درخواست قبول کی جاتی ہے ۔ یکم جنوری کو یا اُس سے قبل 18 سال کے ہونیو الے افراد ووٹروں کے طورپر اپنا رجسٹریشن کرواسکتے ہیں۔ اُس کے بعد 18 سال کے ہونے والوں کو رجسٹریشن کے لئے پورا ایک سال انتظار کرنا پڑتا تھا جو آج کے بل کی منظوری کے بعد نہیں ہوگا ۔

امارت شرعیہ کے مقاصدکونئے عزم وحوصلہ کے ساتھ آگے بڑھانا ہم سب کی ذمہ داری : حضرت امیر شریعت مساجد کو نظام تعلیم کا مرکز بنانے اور نئی قومی تعلیمی پالیسی کے منفی و مثبت اثرات کا تجز ) Policy Impact Analysis ( کرنے کی ضرورت امارت شرعیہ بہار ، اڈیشہ وجھارکھنڈ

امارت شرعیہ کے مقاصدکونئے عزم وحوصلہ کے ساتھ آگے بڑھانا ہم سب کی ذمہ داری : حضرت امیر شریعت مساجد کو نظام تعلیم کا مرکز بنانے اور نئی قومی تعلیمی پالیسی کے منفی و مثبت اثرات کا تجز ) Policy Impact Analysis ( کرنے کی ضرورت امارت شرعیہ بہار ، اڈیشہ وجھارکھنڈپٹنہ

امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ وجھارکھنڈ کی مجلس شوریٰ امارت شرعیہ کی سالانہ میٹنگ کانفرنس ہال امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ میں امیر شریعت بہار، اڈیشہ وجھارکھنڈ حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب مد ظلہ العالی کی صدارت میں منعقد ہوئی ۔جس میں حضرت امیر شریعت نے اپنے صدارتی خطاب میں فرمایا کہ ملک کے بدلتے ہوئے منظر نامے میں امارت شرعیہ کو اکابر کی متعین کردہ سمت میں تیز رفتاری اور نئے طریقے سے آگے بڑھانا ہمارا مقصد ہے، اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ امارت شرعیہ کی خدمات میں مزید وسعت اور تاثیر پیدا کی جائے۔جہاں ذیلی دار القضائ قائم ہوں ، وہاں صرف کار قضائ نہ انجام دیا جائے بلکہ وہ ایک ہمہ جہت خدمت کا مرکز(Service Hub) بھی ہو، وہاں دار ا لقضائ کے ساتھ شفاخانہ، مکتب، اطلاعات عامہ کا سنٹر وغیرہ بھی قائم کیا جائے ۔ حضرت امیر شریعت نے تمام شعبہ جات کی کارکردگی کی تحسین کرتے ہوئے فرمایا کہ جدید آلات اور ٹیکنالوجی سے بھی دفاتر کو مزین کیا جائے گا ۔ تمام شعبہ جات کے طریقہ کار میں بہتری اورکارکردگی میں اضافہ

(Process Improvement and Efficiency)کی سمت میں ہم آگے بڑھیں گے، یہ آئندہ کچھ سالوں میں ہمارا ترجیحی ہدف ہے۔ انہوں نے امارت شرعیہ کے تحت چلنے والے مکاتب اور اسکولوں کے لیے جدید نصاب بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ایسا نصاب تیار کیا جائے جو بچوں کی عمر کے لحاظ سے ہو اوریہ نصاب بچوں کی نفسیات کے ماہرین کے مشورے سے تیار کیاجائے۔انہوں نے نئی قومی تعلیمی پالیسی 2020کے مثبت اور منفی پہلوؤں کا جائزہ لینے اور پالیسی کے مثبت ومنفی اثرات کاتجزیہ(Policy Impact Analysis) کے لیے ماہرین تعلیم اور ماہرین قانون کی ایک کمیٹی بنانے اور این آر سی کے معاملات کو قانونی اور عوامی سطح پر دیکھنے کے لیے علاحدہ علاحدہ کمیٹی بنانے کی منظوری بھی دی۔ انہوں نے امارت شرعیہ کے شعبہ جات کی رپورٹ اوراور اس شعبے کے ذمہ داروں کی طرف سے پیش کیے گئے آئندہ کے اہداف کو پوری قوت کے ساتھ آگے بڑھانے کا ارادہ ظاہر کیا۔ انہوں نے دینی نصاب تعلیم میں توسیع اور تعلیم کو ایک یونٹ کی شکل میں دیکھتے ہوئے تعلیمی نظام بنانے کی ضرورت پر زور دیاا ور فرمیا کہ اس وقت دینی مکاتب کے نظام کو وسیع تر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ مساجد کو اس کا مرکز بنایا جائے۔بعض مقامات پر اس کا موثر نظام چل رہا ہے۔

نائب امیر شریعت حضرت مولانا محمد شمشاد رحمانی صاحب نے فرمایا کہ بچوں کی نفسیات کے پیش نظر مکاتب کے لیے نصاب اور طریقۂ کار کا خاکہ امیر شریعت سابع حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحبؒ کے مشورے سے مرتب کیا گیا تھا ، جو کمیٹی تشکیل پا رہی ہے ، ان کے سامنے یہ خاکہ بھی رہے تو بہتر ہے۔حضرت نائب امیر شریعت نے یہ بھی کہا کہ وفاق المدارس الاسلامیہ سے جو مدرسے جڑے ہوئے ہیں ان کی تعداد میں اضافہ کیا جائے اور اس سلسلہ میں مدارس کے ذمہ داروں سے بات کی جائے۔

قائم مقام ناظم مولانا محمد شبلی القاسمی صاحب نے تمہیدی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امارت شرعیہ کے تمام شعبے حضرت امیر شریعت کی فعال قیادت میں ترقی کی راہ پر گامزن ہیں۔اللہ کے فضل و کرم سے مشکل حالات میں بھی امارت شرعیہ نے ملت کی صحیح سمت میں رہنمائی کی ،اور اس وقت یہ ادارہ حضرت امیر شریعت کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نئے عزم و حوصلے کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے ۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ حضرت امیر شریعت کی ہدایت پر ہر شعبہ کے یکسالہ اہداف و مقاصد بھی رپورٹ میں درج کیے گئے ہیں ، جس سے آپ محسوس کریں گے کہ امارت شرعیہ کی ملک و ملت کے حساس مسائل پر بھی گہری نظر ہے۔اس موقعہ پر نظامت کی رپورٹ کے ذیل میں جملہ شعبہ جات کی یک سالہ کارکردگی پر اجمالی روشنی ڈالی اور ماضی کے فیصلوں پر عملی پیش رفت کا خاکہ بھی پیش کیا۔قاضی شریعت مولانا محمد انظار عالم قاسمی صاحب نے دار القضائ کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے مرکزی اور ذیلی دار القضاء کی کارکردگی سے متعلق اعداد وشمار پیش کیے ، انہوں نے آئندہ کے اہداف کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ امسال دس دارالقضاء کے قیام کا ارادہ ہے جس میں سے الحمدللہ دو دار القضاء قائم ہو چکے ہیں، اور دو کا قیام جلد ہی عمل میں آئے گا۔ جہاں جہاں دارالقضاء کی زمین ہے ، وہاں چار منزلہ عمارت تعمیر ہوگی اور دار القضاء کے ساتھ شفاخانہ، مکتب اور قاضی شریعت وکارکنان کے لیے رہائش گاہ بھی بنانے کا منصوبہ ہے۔ اس کے علاوہ قضائ کی اہمیت لوگوں تک پہونچانے کی شکل تلاش کرنا، وقف نامہ ، وصیت نامہ، ہبہ وغیرہ دار القضاء میں بن سکتا ہے ، اس کے لیے عوام میں بیداری لانا بھی ہمارے آئندہ ایک سالہ اہداف میں شامل ہے۔مولانا مفتی محمد سہراب ندوی صاحب نائب ناظم صاحب نے شعبۂ تبلیغ و تنظیم کی رپورٹ پیش کی ، انہوں نے شعبہ سے متعلق آئندہ کے اہداف ومنصوبے بیان کرتے ہوئے کہا کہ آنے والے سالوں میں مبلغین کی تعداد میں اضافہ کر کے اس کی تعداد سو تک پہونچانے، بیس مقامات پر وفود کے دورے کرنے، پورنیہ،کشن گنج، کٹیہار اور ارریہ کے علاوہ مزید چار اضلاع میں نقبائ کے اجتماعات منعقد کرنا ، شعبہ تنظیم کے دفتر کو جدید تقاضوں سے لیس کرنا اور اس کی افادیت کو بڑھانا ہمارے آئندہ کے اہداف میں شامل ہے۔مولانا مفتی محمد ثنائ الہدیٰ قاسمی صاحب نے نقیب، شعبۂ تعلیم، مکاتب، تحفیظ القرآن ، وفاق المدارس الاسلامیہ اور مولانا منت اللہ رحمانی اردو ہائی اسکول آسنسول کی رپورٹ پیش کی اور ان شعبہ جات کے تعلق سے آئندہ کے اہداف و منصوبے بھی بیان کیے جن میں اس سال ایک سو مکاتب کا قیام ، اساتذہ کی تربیت کے پروگراموں کا انعقاد ، وفاق کی سند کو ملک کی اہم یونیورسٹیوں سے منظوری اہم اہداف میں شامل ہے۔، مولانا مفتی سہیل احمد قاسمی صاحب صدر مفتی نے دار الافتاء کی رپورٹ پیش کی، جبکہ مفتی سعید الرحمن قاسمی صاحب نے دارا لافتاءکی افادیت کو بڑھانے کے لیے کئی اہم منصوبوں کو پیش کیا، جن میں دار الافتائ کو ڈجیٹلائز کرنا اہم ہے۔مولانا سہیل احمد ندوی نائب ناظم امارت شرعیہ نے امارت شرعیہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ کے تحت چلنے والے اداروں ، مولانا سجاد میموریل اسپتال اور دارا لعلوم الاسلامیہ کی رپورٹ اور اہداف و منصوبے پیش کیے۔ مولانارضوان احمد ندوی صاحب نے شعبۂ نشر و اشاعت و کتب خانہ کی رپورٹ پیش کی، جبکہ مولانا محمد ابو الکلام شمسی صاحب نے امارت پبلک اسکول رانچی وگریڈیہہ کی رپورٹ پیش کی اور مجوزہ اسکولوں کے قیام کے سلسلہ میں اہداف و منصوبوں کو اراکین کے سامنے رکھا۔

اس میٹنگ میں جناب مولانا ابو طالب رحمانی، جناب مولانا ظفر عبد الروؤف رحمانی، مولانا ڈاکٹر عتیق الرحمن صاحب، جناب راغب احسن ایڈووکیٹ صاحب، جناب جاوید اقبال ایڈووکیٹ صاحب، جناب انجینئر محمد فہد رحمانی صاحب، جناب مولانا ڈاکٹر محمد یاسین قاسمی صاحب، جناب ذاکر بلیغ صاحب ایڈووکیٹ، جناب ممتاز احمد صاحب انجینئر کھگڑیا، جناب الحاج مولاناعارف صاحب رحمانی ، جناب ماسٹر محمد انوار صاحب بیگوسرائے، جناب الحاج اکرام الحق صاحب ارریہ، مولانا بدر احمد مجیبی، مولانا مطیع الرحمن مدنی سلفی ، مولانا اعجاز احمد صاحب دربھنگہ سابق چیئر مین مدرسہ بورڈ، جناب ارشاد اللہ صاحب چیئر مین سنی وقف بورڈ ، جناب احمد اشفاق کریم صاحب ایم پی راجیہ سبھا ، جناب مولانا مفتی توحید مظاہری، مولانا عبد السبحان صاحب دہلی، مولانا قمر انیس قاسمی ، مولانا مشتاق صاحب یکہتہ، جناب احسان الحق صاحب سوپول ، جناب ظفر عالم سہرسہ سابق ایم ایل اے نے زیر بحث ایجنڈو ں میں قیمتی آرا پیش کیں ، ان آرا کی روشنی میں درج ذیل تجاویز منظور ہوئیں۔

-1مکاتب کے لیے ایک نیا نصاب بنایا جائے ، جو بچوں کی عمر کے لحاظ سے ہو اور وہ بچوں کی نفسیات کے ماہرین کے مشورہ سے بنایا جائے ۔نصاب کے لیے ایک نصاب کمیٹی بھی تشکیل دی جائے ۔-2مکاتب کے اساتذہ کی تربیت کا بھی ایک نظام بنایا جائے، جو لوگ اس کے ماہرین ہیں اور اساتذہ کو ٹریننگ دینے کا کام کرتے رہے ہیں ، ان سے اس سلسلہ میں مدد لی جائے۔-3نئی قومی تعلیمی پالیسی 2020کا جائزہ لینے کے لیے ماہرین تعلیم اور ماہرین قانون کی ایک کمیٹی بنائی جائے جو پوری پالیسی کے مثبت اور منفی اثرات کا جائزہ

âPolicy Impact Analysis

á کرکے اس کے منفی و مثبت اثرات پر مشتمل مکمل رپورٹ پیش کرے۔ قومی تعلیمی پالیسی پر دوسرے اداروں نے جو مشورے دیے ہیں ان کو بھی آر ٹی آئی کی مدد سے نکلوا لیا جائے۔-4دار القضاء کے تعلق سے یہ اعداد و شمار اکٹھے کیے جائیں کہ کتنے مقدمات ایسے ہیں جو ایک دن سے ایک مہینے کے اندر میں حل ہو ئے ہیں اور ان کو عوام کے سامنے پیش کیا جائے ۔-5 دار القضاء کے اعداد وشمارکو عام کیا جائے اور اور اس کی اہمیت لوگوں کو بتائی جائے تاکہ اس کی طرف رجوع بڑھے۔-6 قضاۃ کا وکلائ کے ساتھ باہمی رابطہ کا نظام بنایا جائے تاکہ ایک دوسرے سے استفادہ کر سکیں۔سال میں دو یا تین بار ان کی آپس میں میٹنگ ہو۔ -7 دار القضاء کی قانونی حیثیت سے بھی لوگوں کو آگاہ کیا جائے۔-8تمام مبلغین کا نام اور موبائل نمبر ارکان ٹرسٹ کو مہیا کرایا جائے۔-9مساجد میں مکتب قائم کرنے کو ہدف بنایا جائے اور اس کے لیے عوام کو متوجہ کیا جائے ۔-10 ایک پلاننگ کمیٹی حضرت امیر شریعت مد ظلہ کی قیادت میں بنائی جائے جو اس چیز کا جائزہ لے کہ کون کون سے کام ترجیحی بنیاد پر کرنے چاہئیں ۔ پروجیکٹ اور منصوبہ بندی کے ساتھ کاموں کو کیاجائے، کسی بھی پروجیکٹ کو شروع کرنے سے پہلے ہم اس کے شروع کرنے پر آنے والے اخراجات کا پہلے سے نظم کریں، پھر پروجیکٹ کو شروع کریں ۔جو کام قوم وملت کی فلاح کے لیے زیادہ مفید ہیں ، انہیں ترجیح دی جائے ۔ایک ساتھ بہت سارے کاموں میں ہاتھ نہ ڈالا جائے بلکہ وہی کام شروع کیا جائے جس کو ہم کامیابی کے ساتھ پورا کرسکتے ہیں۔اس کے لیے کام کرنے والوں کا ایک ورک شاپ کیا جانا چاہئے۔

امارت شرعیہ کی مجلس شوریٰ کا اجلاس مولانا مفتی مجیب الرحمن قاسمی بھاگل پوری کی تلاوت کلام پاک سے ہوا، اس کے بعد مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب نے تجویز تعزیت پیش کی اور مرحومین کی مغفرت اور بلندیٔ درجات کی دعا کی گئی۔جناب مولانا منظر رحمانی صاحب نے امیر شریعت سابع حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب علیہ الرحمہ کے سانحۂ ارتحال پر منظوم تعزیت پیش کی۔ اس سے قبل مورخہ 18دسمبر 2021روز سنیچر کو مجلس عاملہ و ارکان ٹرسٹ امار ت شرعیہ کی مشترکہ میٹنگ دو نشستوں میں منعقد ہوئی ۔جس کا آغاز مولانا محمد اسعد اللہ قاسمی صاحب کی تلاوت کلام پاک سے ہوا، اورمختلف ایجنڈوں پر گفتگو ہوئی ۔ آخر میں یہ نشست حضرت امیر شریعت کی دعا پر مجلس اختتام پذیر ہوئی۔مجلس عاملہ کے اجلاس میں مولانا ڈاکٹر عتیق الرحمن قاسمی کی کتاب''عورت قرآن کریم میں''کا اجراء بھی حضرت امیر شریعت اور معزز اراکین کے ہاتھوں عمل میں آیا۔ مجلس شوریٰ کے اجلاس میں مذکورہ بالا حضرات کے علاوہ جناب انوار الحسن وسطوی ویشالی،مولانا مظاہر عالم صاحب ویشالی،مرزا حسین بیگ، مولانا محمد عالم قاسمی،مولانا سعود عالم قاسمی جمشید پور، مولانا جاوید اختر ندوی لکھنؤ، مولانا فیاض احمد قاسمی مدھوبنی، مولانا وحید الزماں صاحب پورنیہ، مولانا احسان الحق قاسمی روہتاس، قاری شعیب صاحب نوادہ، مولانا امجد بلیغ رحمانی ارریہ، مولانا عبد الماجد رحمانی ارریہ، مولانا ڈاکٹر شکیل احمد قاسمی پٹنہ،مولانا ابو الکلام قاسمی شمسی پٹنہ، مولانا مشیر الدین قاسمی مونگیربھی شریک اجلاس رہے۔اجلاس کی نظامت مولانا محمد شبلی القاسمی صاحب قائم مقام ناظم امارت شرعیہ نے انجام دی

حکومت نکاح کی عمر متعین کرنے سے باز رہے مولانا خالد سیف اللہ رحمانی _ ( جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ) _ کا بیان

حکومت نکاح کی عمر متعین کرنے سے باز رہے مولانا خالد سیف اللہ رحمانی _ ( جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ) _ کا بیان

نئی دہلی: ۲۰؍دسمبر ۲۰۲۱ء
جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے اپنے پریس نوٹ میں کہا ہے کہ نکاح انسانی زندگی کی ایک اہم ضرورت ہے؛ لیکن نکاح کس عمر میں ہو، اس کے لئے کسی متعین عمر کو پیمانہ نہیں بنایا جا سکتا، اس کا تعلق صحت وتندرستی سے بھی ہے اور سماج میں اخلاقی اقدار کے تحفظ اور سوسائٹی کو اخلاقی بگاڑ سے بچانے سے بھی؛ اسی لئے نہ صرف اسلام بلکہ دیگر مذہب میں بھی نکاح کی کوئی عمر متعین نہیں کی گئی ہے، اس کو عاقدین اور اُن کے سرپرستوں کی صوابدید پر رکھا گیا ہے، اگر کوئی لڑکا یا لڑکی ۲۱؍سال سے پہلے نکاح کی ضرورت محسوس کرتا ہے اور نکاح کے بعد عائد ہونے والے واجبات کو ادا کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے تو اس کو نکاح سے روک دینا ظلم اور ایک بالغ شخص کی شخصی آزادی میں مداخلت ہے، سماج میں اس کی وجہ سے جرائم کو بڑھاوا مل سکتا ہے، ۱۸؍ سال یا ۲۱؍ سال شادی کی کم سے کم عمر متعین کر دینا اور اس سے پہلے نکاح کو خلاف قانون قرار دینا نہ لڑکیوں کے مفاد میں ہے، نہ سماج کے لئے بہتر ہے؛ بلکہ اس سے اخلاقی قدروں کو سخت نقصان پہنچ سکتا ہے،ویسے بھی کم عمر میں نکاح کرنے کا رجحان آہستہ آہستہ ختم ہو رہا ہے؛ لیکن بعض دفعہ ایسے حالات آتے ہیں کہ مقررہ عمر سے پہلے ہی نکاح کر دینے میں لڑکی کا مفاد ہوتا ہے؛ اس لئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ایسے بے فائدہ بلکہ نقصاندہ قانون بنانے سے باز رہے۔

جاری کردہ:
*ڈاکٹر محمد وقار الدین لطیفی*
(آفس سکریٹری)

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...