Powered By Blogger

بدھ, جنوری 12, 2022

انکم ٹیکس ریٹرن داخل کرنے کی تاریخ میں 15 مارچ تک توسیع

انکم ٹیکس ریٹرن داخل کرنے کی تاریخ میں 15 مارچ تک توسیع

نئی دہلی: محکمہ انکم ٹیکس نے سال 2021-22 کے ریٹرن داخل کرنے کے ساتھ ہی مختلف قسم کی آڈٹ رپورٹس داخل کرنے کی آخری تاریخ میں توسیع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے تحت سال 2021-22 کے لیے ریٹرن داخل کرنے کی آخری تاریخ 31 دسمبر 2021 تھی، جس میں توسیع کرتے ہو ئے 15 مارچ 2022 کر دی گئی ہے۔

آج یہاں جاری ایک بیان میں یہ جانکاری دیتے ہوئے سینٹرل بورڈ آف ڈائریکٹ ٹیکس (سی بی ڈی ٹی) نے کہا کہ یہ فیصلے ٹیکس دہندگان اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کو کورونا کی وجہ سے درپیش مشکلات کے پیش نظر لیے گئے ہیں۔

سی بی ڈی ٹی نے کہا کہ مالی سال 2020-21 کے لیے مختلف آڈٹ رپورٹس داخل کرنے کی آخری تاریخ جو 15 جنوری کو ختم ہوتی ہے اب اسے بڑھا کر 15 فروری 2022 کر دیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں ایک سرکلر جاری کر دیا گیا ہے۔

سوریہ نمسکار مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

سوریہ نمسکار 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
ملک کی پچہترویں یوم آزادی کے موقع پر حکومت ہند کے ذریعہ تمام اسکولوں میں سوریہ نمسکار کو متعارف کرانے کامتعصبانہ فرمان ملک کے مسلمانوں اور سیکولر عوام کے لیے تشویش کا باعث بن گیا ہے ۔ خاص کر مسلمانوں کے عقائد سے ٹکرانے کی وجہ کرمسلم طلبہ اور ان کے گارجینوں میں شدید اضطراب پایا جا رہا ہے ، مسلم قائدین اس زعفرانی فرمان کے خلاف حرف احتجاج بلند کر رہے ہیں ۔
 ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے، جس کا آئین سیکولر بنیادوں پر بنایا گیا ہے ، جس کا مطلب ہے کہ کسی بھی ایک مذہب کو اس ملک میں آئینی و دستوری طور پر فوقیت نہیں دی جائے گی اور اس کے رسم و رواج اور احکامات کو ملک کے شہریوں کے لیے لازم نہیں کیا جائے گا؛ بلکہ ہر شخص کو اپنے لیے اپنا پسندیدہ مذہب و عقیدہ اختیار کرنے اور اس کے رسم و رواج پر چلنے کی آزادی ہو گی ۔ 
یہی وجہ ہے کہ آزادی کے بعد سے ملک میں بننے والے قوانین و ضوابط ، منصوبوں اور پالیسیوں میں آئین کے اس بنیادی اقدار کا ہمیشہ خیال رکھا گیا ۔ آزادی کے بعد سے جتنی تعلیمی پالیسیاں بنیں یا نصاب تیار کیے گئے، ان سب میںیہ بنیادی عنصرکے طور پر ملحوظ رہا ۔ مگر ملک کی ایک جماعت جس کو یہ سیکولر اقدار کبھی ہضم نہیں ہوئے اور وہ اس ملک کو ایک خاص مذہب و عقیدے کا پابند بنانے کے لیے ہمیشہ کوشاں رہی ۔ ۲۰۱۴ء میں جب بی جے پی کی قیادت میں اس جماعت نے پوری اکثریت کے ساتھ زمام اقتدار اپنے ہاتھ میں لیا، تو وہ اس ایجنڈے کی تکمیل میں لگ گئی اورپورے ملک کو زعفرانی رنگ میں رنگنے کی قواعد شروع کردی ۔ تعلیمی پالیسی کا بھگوا کرن اور تعلیمی نظام کو ہندتو کے عقیدے اور آستھا کی بنیاد پر چلا نا اس کے اولین ایجنڈے میں شامل ہے ۔ اسی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے اس نے پورے ملک میں نئی قومی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ء لاگو کرنے کا فیصلہ کیا ، جو مکمل طور پر ہندوتو کی ترجمان ہے اور قدیم سناتنی روایات کو مد نظر رکھ کر بنائی گئی ہے ۔نئی قومی تعلیمی پالیسی میں جو سفارشات کی گئی ہیں اسکو عملی جامہ پہنائے جانے کا کام شروع ہو چکا ہے ۔ یکم جنوری ۲۰۲۲ء سے تیس ریاستوں کے تقریباً تیس ہزار اسکولوں میں سوریہ نمسکار کو متعارف کرانے اور یوم جمہوریہ ۲۶؍ جنوری ۲۰۲۲ء کے موقعہ پر طلبہ و طالبات کے ذریعہ سوریہ نمسکار پر مشتمل تقریب کے انعقاد کا فیصلہ اسی کی ایک کڑی ہے۔ حکومت کا یہ اقدام آئین کے بنیاد ی اقدار کی سراسر خلاف ورزی  اور مسلمان طلبہ و طالبات کے لیے ناقابل قبول ہے۔ مسلمان اللہ کے علاوہ کسی بھی جاندار یا بے جان شئی کی عبادت و پوجا نہیں کر سکتا ۔ سوریہ نمسکار کا جو طریقہ ہے وہ گویا سورج کی عبادت کرنے ہی کے مترادف ہے ۔ جو ہمیں کسی بھی صورت میں منظور نہیں ہے، اس لئے حکومت ہند سے ہمارا مطالبہ ہے کہ وہ اس حکم نامہ کو فوراً واپس لے اور اس کو اسکولوں میں نافذ کرنے سے باز آئے ۔ تمام مسلم طلبہ و طالبات سے ہم امید رکھتے ہیں کہ اگر ان کے اسکولوں میں سوریہ نمسکار کا پروگرام ہوتا ہے تو وہ ہرگز اس میں شریک نہیںہوںاور نہ اس طرح کی کسی بھی تقریب میں حصہ لیںگے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت ملک کی عوام کو اس طرح کے فضول مسائل میں الجھانے کے بجائے حقیقی مسائل کی طرف توجہ دے ، مہنگائی اور بے روزگاری کی روک تھام ، سرحدوں کی حفاظت ، ملکی اثاثوں کے تحفظ جیسے مسائل پر اپنی توجہ صرف کرے۔

منگل, جنوری 11, 2022

بُلّی بائی ایپمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

بُلّی بائی ایپ
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 عورتوں کے بے عزت کرنے کی جو مہم بعض بے شرم اور بے غیرت لوگوں نے شروع کر رکھی ہے ، اس نے ایک بار پھر ’’بُلّی بائی ایپ‘‘ کے نام سے اپنے ہاتھ پاؤں پھیلانے شروع کیے ہیں، چھ ماہ قبل ’’سُلی ڈیلس‘‘ کے نام سے ایک ایپ نے عورتوں کو بے عزت کرنے کا کام شروع کیا تھا، جس پر مہذب سماج نے کافی احتجاج درج کرایا تھا ، اور وہ ایپ بلاک کر دیا گیا تھا، ایک سال کے بعد ’’بُلّی بائی‘‘ کے نام سے نیا ایپ شرارت پسندوں نے لانچ کیا ہے، جس میں صرف مسلم خواتین کو جو سماج میں با وقار حیثیت کی حامل ہیں کونشانہ بنایاگیا ہے ، ایپ کھولنے پر کسی مسلم عورت کی تصویر ’’بُلّی بائی‘‘ کے نام سے سامنے آتی ہے، اور اس کی قیمت لگانے کو کہا جاتا ہے،یعنی ایک طرح سے نیلائی کی بولی لگائی جا رہی ہے، اس پر بھدے اور غلط قسم کے تبصرے ڈالے جاتے ہیں، سو سے زائد ایسی تصویریں اس ایپ پر لوڈ ہیں، جس سے مسلم خواتین کو بے عزت کرنے کا کام لیا جا رہا ہے ۔
 اس ایپ نے سائبر کرائم کو بھی اپنی طرف متوجہ کر دیا ہے، وزیر اطلاعات ونشریات اشونی وشنو نے اس ایپ کو بلاک کرنے کے بجائے اس کے صارفین کو بلاک کرنے کی بات کہی ہے، یہ جڑ کو محفوظ رکھ کر پُھنگی کو کاٹنے جیسی بات ہے، اس ایپ کو ہی بلاک کر دینا چاہیے تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔
یہ ہمت ایپ بنانے والوں میں اس لیے آئی کہ ’’سُلّی ڈیلس‘‘ میں گذشتہ جولائی میں جو معاملے درج ہوئے تھے اس پر دہلی اور یوپی پولیس نے کوئی کاروائی نہیں کی،’’ بُلّی بائی‘‘ پر مہیلا آیوگ کے تنبیہ کرنے پر دہلی پولیس نے کام شروع کر دیا ہے ، ممئی سائبر پولیس نے بُلّی بائی متنازعہ ایپ کے اصل دماغ اٹھارہ سال کی شویتا سنگھ کو اترا کھنڈ کے رودر پور سے گرفتار کر لیا ہے، ایک اور شخص کی گرفتاری بنگلور سے عمل میں آئی ہے، اس کا نام وشال کمار جھا ہے اوروہ انجینئرنگ کا طالب علم ہے اس معاملہ میں ایک بندے کی گرفتاری آسام سے ہوئی، ا س طرح اس معاملہ میں شامل پانچ میں سے تین پولیس کی گرفت میں آچکے ہیں اور اصلا بہار کا رہنے والا ہے، بُلّی بائی ایپ کو متحرک رکھنے کے لیے تین فرضی اکاؤنٹ کا استعمال کیا جا رہا تھا، ان میں سے ایک اکاؤنٹ سکھوں کے خالصہ کے نام سے بنا یا گیا تھا۔
 بُلّی ایپ معاملہ کو مسلم خواتین کو نفسیاتی طور پر کمزور کرنے اور ان کی سرگرمیوں کو ختم کرنے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، تاکہ وہ حکومت کے خلاف کوئی بات سوشل میڈیا پر نہ رکھ سکیں، اور سیاست میں اپنی حصہ داری ادا کرنے سے دور رہیں، اس ایپ کا اثر دیکھنے میں آنے لگا ہے، کئی درجن مسلم خواتین نے اس واقعہ کے بعد اپنا اکؤنٹ ختم کر نے میں ہی عافیت سمجھی اور انہوں نے سوشل میڈیا سے ترک تعلق کر لیا ہے۔ 
یہ معاملہ ایک شخص کا نہیں پوری جماعت کا ہے ، ہمارا مطالبہ ہے کہ پولیس کو اس گینگ کا قلع قمع کرنا چاہیے اور ایسی سزا دینی چاہیے کہ آئندہ کوئی اس قسم کی فحش حرکت کرنے کی ہمت نہیں جٹا پائے، تبھی ان عورتوں کے ساتھ انصاف ہوپائے گا۔

یہ الیکشن اب 80 ( ہندو ) بمقابلہ 20 ( مسلم ) فیصد کے درمیان : یوگی آدتیہ ناتھ

یہ الیکشن اب 80 ( ہندو ) بمقابلہ 20 ( مسلم ) فیصد کے درمیان : یوگی آدتیہ ناتھلکھنؤ : یوپی اسمبلی انتخابات سے پہلے اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا کہ یہ انتخاب 80 بمقابلہ 20 فیصدکا ہوگا۔ یوگی آدتیہ ناتھ کے ذریعہ بتائے گئے اعداد و شمار تقریباً اتر پردیش میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے تناسب سے میل کھاتے ہیں، جہاں اگلے ماہ اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔راجدھانی لکھنؤ میں ایک پرائیویٹ نیوز چینل کے زیر اہتمام ایک پروگرام میں اتر پردیش کے سی ایم یوگی آدتیہ ناتھ سے برہمن ووٹوں سے متعلق سوال پوچھا گیا۔ اس کے جواب میں وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ''الیکشن اس سے کہیں آگے بڑھ چکا ہے ، اب یہ الیکشن 80 بمقابلہ 20فیصد کا ہے''۔پروگرام کے میزبان نے پھر کہا کہ اویسی نے کہا ہے کہ وہ 19 فیصد ہیں۔ اسد الدین اویسی، اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اورحیدرآباد کے ایم پی ہیںیوگی آدتیہ ناتھ نے میزبان کے سوال کا مختصر جواب دیا۔چیف منسٹر یوگی نے کہاکہ لڑائی اب 80 اور 20فیصد کی ہوچکی ہے، جو لوگ گڈ گورننس اور ترقی کی حمایت کرتے ہیں وہ 80 فیصد بی جے پی کے ساتھ ہیں اور جو کسان مخالف ہیں، ترقی مخالف ہیں، غنڈوں، مافیا کی حمایت کرتے ہیں۔ وہ 20 فی صد اپوزیشن کے ساتھ ہیں۔

پیر, جنوری 10, 2022

الحاج غلام سرور: آئی جو ان کی یاد تو آتی چلی گئیمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ وناظم وفاق المدارس الاسلامیہ

الحاج غلام سرور: آئی جو ان کی یاد تو آتی چلی گئی
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ وناظم وفاق المدارس الاسلامیہ
بات ان دنوں کی ہے ، جب میں مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور ویشالی میں استاذ تھا ، جناب شاہ نواز احمد خان صاحب بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے سکریٹری تھے اور مولانا شکیل احمد قاسمی جواہر نو ودیہ ودیالیہ چائی باسہ میں ٹیچر ہوا کرتے تھے ، تینوں میں ایک بات قدرِ مشترک تھی کہ تینوں مختلف اوقات میں طلبہ تحریک سے وابستہ رہ چکے تھے، اور تعلیم وتربیت کے نئے نئے منصوبوں کے وضع کرنے میں طبیعت خوب لگتی تھی اور ذہن خوب چلتا تھا ، ایک ملاقات میںہم تینوں اس بات پر متفق ہو گئے کہ بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کی تاریخ مرتب کی جائے تاکہ اس کے پردے میں بہار کی مذہبی تعلیم کی تاریخ بھی مرتب ہوجائے، چنانچہ اس کے لئے قرعہ مجھ دیوانے کے نام نکل آیا ، ابا بکر پور سے پٹنہ میری خدمت منتقل کر لی گئی ، اور میں اس کی صحرانوردی میں لگ گیا، کم وبیش چار سال کی محنت کے بعد جب تصنیف سے فراغت ہوئی تو اس وقت کے چیر مین پروفیسر محمد سہراب مرحوم ومغفور کا مشورہ ہو اکہ اسے نظر ثانی کے لئے جناب غلام سرور صاحب کی خدمت میں پیش کرنا چا ہئے، وہ دیکھ بھی لیں اور اس پر مقدمہ بھی لکھ دیں ، چنانچہ کتاب کے مسودہ کی فوٹو کاپی مجلد ان کی خدمت میں پیش کر دی گئی ،میں مطمئن ہو گیا ، اگلے ہفتہ حکم ہوا کہ آپ کو غلام سرور صاحب نے بلایا ہے ، مرتا ، کیا نہ کرتا۔
 ملاقاتیں دو  پہلے بھی تھیں ، ایک بار مولانا شکیل احمدقاسمی کے ساتھ ملا تھا، جب وہ افتخار اکبر کے ساتھ مل کر تجسس نکالنے کا ارادہ کر رہے تھے اور غلام سر ور صاحب کے پاس اس راستے کے پیچ وخم معلوم کرنے اور مشورہ لینے پہونچے تھے ، اس موقع سے غلام سرور صاحب نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ اس کام میں مت لگو، مجھے دیکھو پوری زندگی لگا دیا ، نتیجہ کیا نکلا ؟ اس ملاقات میں مولانابیتاب صدیقی مرحوم بھی تھے ، انہوں نے اس موضوع پر کچھ کہنا چاہا ، تو مولانا شکیل احمدقاسمی نے انہیں روک دیا، ملاقات بہت اچھی نہیں رہی تھی ، وجہ یہ تھی کہ وہ جو کچھ صحافت کے حوالہ سے کہہ رہے تھے ، اس میں مایوسی کی جھلک تھی ، ہم لوگوں کے پاس تجربہ تو تھا نہیں ، تجربہ انہیں کے پاس تھا ، اور جب تجسس کے چند شمارے نکال کر افتخار اکبر نے اسے بند کر دیا تو یقین کرنا پڑا کہ قلندر ہر چہ گوید دیدہ گوید۔
دوسری ملاقات مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور ویشالی کے ایک جلسہ میں ہوئی تھی، گرج دار پاٹ دار آواز ، آج بھی کانوں سے ٹکراتی محسوس ہوتی ہے، تقریر کی ابتدا میں ہی واضح کر دیا تھا کہ مجھے نہ نذرانہ چاہئے نہ محنتانہ ، نہ رخصتانہ اور نہ ہی ہرجانہ ، اس لئے جو کہوں گا ، صاف صاف کہوں کا اور حق کہوں گا، حق کے علاوہ کچھ نہیں کہوں گا، پھر انہوںنے مدرسہ بورڈ کی تشکیل میں اپنی جد وجہد کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ میرے ذاتی گناہ تو اللہ معاف کر دے گا، ، یہ میرا اجتماعی گناہ ہے ، خدا معلوم یہ قابل معافی ہویا نہ ہو، وہ مدرسہ بورڈ سے ملحق مدارس کی کار کر دگی سے غیر مطمئن تھے اور جب وہ غیر مطمئن ہوتے تو ان کا لب ولہجہ خاصہ غضب ناک ہوجا تا تھا، وہ اس زمانہ میں اسپیکرتھے۔
ان کے یہاں جانے سے پہلے دوستوں سے دریافت کیا تھا، جن کی آمد ورفت ان کے یہاں برابر رہتی تھی ، کہنے لگے کہ میرا ذکر نہیں کیجئے گا کہ آپ کا تعلق مجھ سے ہے ،میں نے ایسے دوستوں پر چار حرف پڑھے ،جو اتنا بھی ساتھ دینے کو تیار نہیں تھے، حکم حاکم مرگ مفاجات، ڈرتا ڈرتا پہونچا، مجھے ایک صاحب نے بتا دیا تھا کہ پہلی ڈانٹ ان کی سن لیجئے گا اور اس کے بعد جو کہیے گا وہ سنیں گے ، چنانچہ میںنے ایسا ہی کیا ، پہلے وہ خوب گرجے ، آپ کانگریسی ہیں ،بورڈ میں نے بنایا اور سارا کریڈٹ گورنر کو آپ نے دیدیا ، یہ بے انصافی کی بات ہے ، اسے صحیح کیجئے۔ خاموش ہوئے تو میں نے کہا آپ جو کچھ داخل کرنا چاہتے ہیں، وہ مجھے دیدیجئے ،میں شامل کر دوں گا، بالکل نرم پڑ گئے، ایک کتاب تھمائی اور کہا مواد اس میں سے لے لیجئے اور ایک ہفتہ بعد آئیے، چنانچہ میں واپس آگیا ، ایک ہفتہ بعد حاضری ہوئی ، پوچھا ، شامل کر دیا میں نے کہا ، نہیں ، فرمایا ، کیوں؟ میںنے کہا کہ یہ تاریخ ہے ، قصیدہ نہیں ، اس کتاب سے کچھ شامل کرنے کا مطلب قصیدہ خوانی ہے ، اور میں نہیں چاہتا کہ میری کتاب کی تاریخی حیثیت مجروح ہو ،پھر گرجنے لگے ، فرمایا ، جہاں جہاں آپ نے مجھ سے علمی اختلاف کیا ہے میںنے اسے برداشت کر لیا ، لیکن یہ تو تاریخی غلطی ہے ، میں نے کہا تاریخ وہ نہیں ہے جو آپ کہہ رہے ہیں تاریخ یہ ہے کہ آرڈی نینس کئی جاری ہوئے، سب پر گورنر کے دستخط ہیں ، اس حوالہ سے ان کا ذکر ہے ، وزیر تعلیم کی حیثیت سے آپ نے  بورڈ کی تشکیل میںجد وجہد کی ہے، اس کا ذکر بھی توپورے انصاف کے ساتھ کیا گیا ہے ۔ بات آگے بڑھی تو مدارس ملحقہ کی کار کر دگی پر آواز اٹھا نا شروع کر دیا ، میں بھی ان دنوں مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور میں تھا ، اس لئے گویا ساری چوٹ مجھ پر پڑ رہی تھی ، میں نے عرض کیا کہ آپ اپنی رائے من وعن لکھ دیں اور وہ مقدمہ کی شکل میں اس کتاب کی زینت بن جائے ، اور ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو جائے ، بات ا نہیں پسند آگئی، لکھا اور خوب لکھا ، مدرسہ بورڈ اور مدارس ملحقہ کے حوالہ سے جو شکایات انہیں تھیں بلا خوف لومۃ لائم اس کا اظہار اس مقدمہ میں انہوں نے کیا ہے۔
 واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی اس تحریر میں سارا کرب الفاظ میں اڈیل دیا ہے، انہوں نے اس مسودہ پر جو نشانات لگائے اور جو تصحیح کی ہے ،وہ آج بھی نوراردو لائبریری حسن پور گنگھٹی ویشالی میں موجود ہے ، پہلی بار انہوں نے مجھے بتایا اور بتایا کیا کتاب میں نشان لگا دیاکہ’’ حضرت مولانا ‘‘کے ساتھ آخر میں ’’صاحب ‘‘نہیں لگے گا کہنے لگے نام کے آگے پیچھے دونوں طرف القاب وآداب لگانا قواعد کے خلاف ہے، اور یہ صرف مولویانہ اردو میں پایا جاتا ہے۔
 کتاب کا اجرا ڈاکٹر ظہیر الدین صاحب کی دورصدارت میں ہوا، ان دنوں وہ بیمار چل رہے تھے ، شاہ نواز احمدخان صاحب جن کی تحریک پر  یہ کام شروع ہوا تھا، مجھے لے کر ان کی سرکاری رہائش گاہ پر گئے ، بہت تپاک سے ملے، کتاب پیش کیا، خوش ہوئے ، ناشتہ وغیرہ کرایا، شاہ نوازخان کی جو شامت آئی تو انہوں نے پوچھ دیا کہ راعین کے کیا معنی ہیں ؟فرمایا : آپ نے شمس الہدیٰ سے پڑھا ہے بتائیے ، شاہ نواز صاحب نے معاملہ میری طرف محول کر دیا کہ یہ عربی کے اسکالر ہیں ، ، میری طرف گھور کر دیکھا ، میںنے کہا نگراں کے آتے ہیں ، بس بگڑنے لگے ، کیوں نہیں کہتے چرواہا کے آتے ہیں میں نے کہا: چرواہا کو بھی چرواہا اس لئے کہتے ہیں کہ وہ بکری کا نگراں ہوتا ہے ، میں نے کہا ، حدیث میں آیا ہے ’’کلکم راع  وکلکم مسئول عن رعیتہ‘‘ شاہنواز صاحب نے پوچھا کہ یہ لوگ کہاں سے آکر ہندوستان میں آباد ہوئے کہنے لگے ثابت کردوہم غیر ملکی ہیں ،تم سب اسی کام پر لگے ہوئے ہو ، ہم لوگ یہیں پلے بڑھے اور یہ نسل یہیں پروان چڑھی ، یہ خالص ہندی نسل ہے ، تیور اتنے سخت تھے کہ تھوڑی دیر بعد ہم لوگوں کو لوٹ جانے میں ہی عافیت محسوس ہوئی ۔یہ تھے غلام سر ور ، بے باک ، بے خوف ، جوبات بیٹھ گئی، بیٹھ گئی ، جہاں اڑ گئے، اڑ گئے،کلیم عاجز صاحب نے ایک جگہ لکھا ہے ’’ غلام سرور تو شیر تھا سیاست میں قید ہو کر رہ گیا‘‘ ۔
پھر میں امارت شرعیہ آگیا، یہاں رہتے ہوئے کبھی ملاقات کی نوبت نہیں آئی۔ اپنی مخصوص افتاد طبع کی وجہ سے امارت شرعیہ اور اس کے اکابر بھی ان کی قلم کی زد میں آتے رہے ، بہت سارے مواقع پر انہوںنے امارت کی کار کر دگی پر سوالات اٹھائے ؛لیکن جب انہوں نے امارت شرعیہ کو قریب سے دیکھا اور ۱۲؍ جون ۱۹۶۳ئ؁ کو یہاں تشریف لائے تو انہیں بے پناہ مسرت ہوئی ، انہوں نے اپنی اس مسرت کا اظہار امارت شرعیہ کے معائنہ بک میں کیا اور لکھا کہ: 
’’ آج پہلی بار اس کا موقع ملا کہ امارت کے دفتر میں تھوڑی دیر بیٹھ کر اس کے مختلف شعبوں کی کار کر دگی سے واقفیت حاصل کی جائے، بیت المال ، دار القضاء ، نقیب ، دار الاشاعت وغیرہ کے شعبے مسلمانوں کے لئے جو کام کر رہے ہیں وہ صرف غنیمت ہی نہیں بلکہ بہت غنیمت ہے ، اس دور میں مسلمانوں کو ان کے دین کی طرف رجوع کرنا اور ان کی  واعانت کرنی ،نیز ان کے باہمی مقدمات کا از روئے شریعت فیصلہ کرنا اہم کام ہیں اور اس اعتبار سے آج بھی امارت مفید کام کر رہا ہے، اس کے کاموں کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے ، مسلمانوں کو لازم ہے کہ امارت کے کاموں میں نہ صرف دلچسپی لیں ، بلکہ عملاً اشتراک وتعاون کا ہاتھ بھی دراز کریں‘‘

جسے جینا ہو مرنے کے لئےتیار ہوجائے گزشتہ جمعہ مورخہ ۷/جنوری ۲۰۲۲ءکواپنے ملک میں ایک غیرمعمولی واقعہ رونما ہوا ہے،جسےنہ بھلایاجاسکتا ہےاور نہ ہی اس کی افادیت کاکسی کوانکار ہوسکتا ہے۔

جسے جینا ہو مرنے کے لئےتیار ہوجائے 

گزشتہ جمعہ مورخہ ۷/جنوری ۲۰۲۲ءکواپنے ملک میں ایک غیرمعمولی واقعہ رونما ہوا ہے،جسےنہ بھلایاجاسکتا ہےاور نہ ہی اس کی افادیت کاکسی کوانکار ہوسکتا ہے۔
ابھی کچھ دنوں پہلےاترا کھنڈ میں دھرم سنسد منعقد کرکے بیس ہزار مسلمانوں کے قتل عام کا اعلان ہوا، اس کے ردعمل میں بیس ہزاربریلی کےبیباک مسلمان مولانا توقیر رضا خان کی دعوت پر مرنے اور قتل ہونے کے تیار ہوگئے،یہ جواب اپنے آپ میں بڑا پیغام کاحامل ہے اور بے نظیر بھی ہے۔
۷/جنوری کوجمعہ کی نماز کے بعد بریلی کے میدان میں سبھی اکٹھا ہوئے،سرپر کفن باندھ لیا،مرنےکے لئے تیار ہوگئےاور یہ کہنے لگے کہ؛ ہم نے ملک کی آزادی کی خاطر اپنی جان کی قربانی دی ہےاور آج بھی ملک کے لئےشہادت کا جام پینے کوہم تیار ہیں، ہم اپنے مذہب اپنے ملک اور اپنے رسول کی عظمت کے لئے جان دینے یہاں آئے ہیں، ہمیں مارو ہم تمہارا ہاتھ نہیں پکڑیں گے۔
مولانا توقیر رضا خان صاحب کااس جمہوری ملک میں یہ انوکھااحتجاج بڑا کامیاب اوربامراد رہاہے، یہ نئی حکمت عملی رہی بڑی کارگر رہی ہے،اور کامیابی سے ہمکنار بھی ہوئی ہے ،اس سےپورے ملک میں ایک پیغام گیا ہے،اور اس کی گونج دور دور تک سنائی دینے لگی ہے۔اور یہ فرق نمایاں ہوگیا ہے کہ ایک طرف سے مارنے اور قتل کرنے کی بات ہوئی ہے تو دوسری طرف سے ملک کے لئے مرنے اور قتل ہونے کی عملی تیاری ہے۔
مولانا محمود مدنی صاحب کا سپریم کورٹ میں اس عنوان پر مقدمہ دائر کرنا۲۰۲۲ءکا کامیاب لائحہ عمل کےطورپردیکھاگیاہےتووہیں مولاناتوقیر رضاخان کی یہ کوشش کی بھی بڑی پذیرائی ہورہی ہے۔
اس کی کامیابی کے لئے اتنا کہدینا کافی ہے کہ جو مسلمانوں کومشتعل کرنے کے لئے کوشاں رہےہیں اور خوف میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں وہ خود ہی مشتعل ہوگئے ہیں اور خوف میں مبتلا ہوگئےہیں۔اس کی ڈھیر ساری مثالیں نظر آنی شروع ہوگئ ہیں،مسلمانوں کے بائیکاٹ کی باتیں کرتے ہیں تو کہیں خود اپنی جان کی دہائی دیتے نظر آرہےہیں۔
اس کامیابی پر مولانا کےساتھ ساتھ وہاں کے بیدار مغز مسلمانوں کو بھی مبارک باد ہے۔جنہیں بڑی خوبصورتی کے ساتھ مولانا نے غازی کا نام دیا ہے،کہ آپ سبھی اب غازی ہیں، واقعی اپنے آپ میں یہ ایک یادگار دن ہے اور ملک کے لئے تاریخ میں یہ تاریخ ساز واقعہ بھی ہے، جسے بریلی کے مسلمانوں نےاپنےسروں پر کفن باندھ کر یادگار بنادیا ہے ۔
اس میں ہمارے لئے بڑا سبق ہے۔
ملک میں ہم اسی وقت انقلاب کی امید کرسکتے ہیں جب ہم خوف سے باہر آجائیں،یہ بتلانے کی شدید ضرورت ہے کہ ہم وہ لوگ ہیں جو موت سے نہیں ڈرتے ہیں۔ابھی کرونا وائرس کی وبا نے دکھادیا ہے کہ یہ نفرت کے پرچار کرنے والے اپنی کٹیا میں دم دبائے بیٹھے تھے، ارتھی کو اٹھانے والا کوئی نہیں رہا تو مسلمانوں نے آکر آخری رسومات انجام دی ہے۔اس سے بھی ملک میں ایک اہم پیغام گیا ہے۔نفرت کے پجاریوں کواور
مسلمان کی بائیکاٹ کرنے والوں کو منھ کی کھانی پڑی ہے۔
مجھ سے ایک صاحب نے یہ کہا ہیکہ مولوی صاحب! ایک بیٹا جو دہلی سے کورونا پوزیٹیو ہوکرمیرے گاؤں آیا اسےاپنے گھر میں داخلہ نہیں ملا،والدین دور ہوگئے، وہ سبھی اپنی اپنی جان کی فکر کرنے لگے،میں نے اس کی دوا کی اور وہ صحتیاب ہوگیا، اپنے والدین سے زیادہ مجھ سے وہ محبت کرنے لگا ہے جبکہ میں مسلمان ہوں اور وہ ہندو ہیں۔
آج پھر یہ کورونا مضبوط شکل میں اومیکرون بنکر آگیا ہے۔اب ہمیں اپنا فرض ادا کرنا یے، ہندو مسلمان نہیں دیکھنا ہےاور نہ مذہب اسلام میں ایک پڑوسی کے مذہب کو دیکھنے کی تعلیم ملتی ہے بلکہ ہم ایک انسان کی خدمت کا جذبہ اپنے اندر پیدا کریں اور انسانیت کی خدمت کا فریضہ انجام دیں۔پھر ملک کے بدلتے حالات کا کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کریں۔
اور اس بات کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ جب بھی ہم نے موت کا خوف کیا ہے، ہم مارے گئے ہیں اورمذہب اسلام کابھی ہم سے بڑا نقصان ہوا ہے، اسلام کی دعوت رک گئی ہے،اورہمیں مزید خوف میں مبتلا کرنے کی کوشش ہوئی ہے۔
جب ہم ملک کے لئے اور دوسروں کے لئےمرنے کے لئے آمادہ ہوئے ہیں تو اسلام کابھی بھلا ہوا ہے،اور ہمیں کامیابی بھی ملی ہے، محبت جیت گئی ہے اور نفرت کا منھ کالا ہوگیا ہے،
جگر مراد آبادی کا یہ شعر اس عنوان پر کیا خوب صادق ہے اور موجودہ وقت میں یہ مصرع ہمارے لئےمشعل راہ بھی ہے:
یہ مصرع کاش نقش ہر درودیوار ہوجائے 
جسے جینا ہو مرنے کے لئے تیار ہوجائے ۔

ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ
رابطہ، 9973722710

Sent from my Galaxy

اتوار, جنوری 09, 2022

کہیں دیر نہ ہو جائے ✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

کہیں دیر نہ ہو جائے 
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ (9431003131)
ذاتی اور شخصی کمزوریوں میں ایک بڑی کمزوری کام میں تاخیر کی ہے، ٹال مٹول اور وقت پر کام کر گزرنے کا مزاج اصلا ختم ہوتا جا رہا ہے،دفاتر خواہ سرکاری ہو ں یا غیر سرکاری ان میں دیر سے حاضر ہونا ایک فیشن سا ہو گیا ہے ، سرکاری دفاتر میں یہ معاملہ کچھ زیادہ ہی ہے، پٹنہ میں بعض سرکاری دفاتر کے کارکنان کا نعرہ ہے، ’’بارہ بجے لیٹ نہیں اور تین بجے کے بعد بھینٹ نہیں‘‘ کم کارکنان ہیں جواس اصول سے اپنے کو الگ رکھتے ہیں، غیرسرکاری دفاتر میں چوںکہ داروگیر کا مزاج ہے اور سب کچھ دفتر کے سربراہ اور باس کے رحم وکرم پرہوتا ہے، اس لیے ہٹا دیے جانے اورتنخواہ کٹ جانے کے ڈر سے یہاں تاخیر کا تناسب کم ہوتا ہے، دفتر کے ذمہ داروں نے اس کاحل یہ نکالا کہ حاضری کے لیے مشین کا استعمال کرایا جائے، بھائیوں نے اس کا حل بھی ڈھونڈنکالا اور انگوٹھا لگا کر چلتے رہنے کا چلن عام سا ہو گیا، بات وہیں کی وہیں رہ گئی۔
 ذمہ داریوں کی ادائیگی میں تاخیر انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور غیر شریفانہ عمل ہے، مہینے بھر میں ایک دو دن تاخیر ہو سکتی ہے، لیکن اس کو معمول بنا لینا غیر شرعی بھی ہے اور غیر اخلاقی بھی۔ اعذا ر بہت سارے بیان کیے جا سکتے ہیں، اور لوگ کرتے ہی رہتے ہیں، لیکن عذر کی پیشی تاخیر سے کام کو انجام دینے اور دفتر میں حاضری کا بدل کسی طور پر نہیں ہے۔اس لیے اس عادت کو جس قدر جلد ہو ترک کرنا چاہیے، تاخیر کیوں ہوتی ہے؟ اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ ہم کام کے سلسلہ میں سنجیدہ نہیں ہوتے، ہر وقت ذہن ودماغ میں یہ بات گردش کرتی ہے کہ اچھا کرلیں گے نا، ابھی بہت وقت ہے، دفتر چلے جائیں گے نا، بعض لوگ پندرہ پندرہ منٹ پر یاد دہانی کے لیے الارم لگا کر رکھتے ہیں، وقت نکلتا جاتا ہے اور الارم کے بار بار یاد دہانی کاان پر کوئی اثر نہیں ہوتا، انہیں عین وقت پر کوئی کام یاد آجاتا ہے، بعض لوگ’’ گھورپیٹھ‘‘ کے عادی ہوتے ہیں، ایسے لوگوں کو دفتر سے نکلنے کے بعد گھر کا کوئی کام یاد آجاتا ہے اور تھوڑی دور چل کر وہ گھر کی طرف چل پڑتے ہیں، ظاہر ہے ایسے میںتاخیر ہونی ہی ہے، اب اگر پوچھیے کہ لیٹ کیوں آتے ہو تو مچل کر کہیں گے کہ ’’میں دیر کرتا نہیں دیر ہوجاتی ہے‘‘۔
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس پروجکٹ اور منصوبے پر ہم کام کر رہے ہوتے ہیں اور اسے وقت پر مکمل کرکے کمپنی یا ادارے کے حوالہ کرنا ہے، تاخیر کی عادت کی وجہ سے ہمارے اوپر یہ خوف طاری ہوتا ہے کہ شاید ہم اس کام کووقت پر مکمل نہیں کر سکیں گے، اس سوچ سے نفسیاتی طور پر ہمارے کام کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے اور واقعۃً ہم اس کام کو وقت پر پورا نہیں کر پاتے ، اگر ہم پوری ایمانداری کے ساتھ اس منصوبہ پر وقت کی پابندی کے ساتھ کام کرتے تو کام وقت پر مکمل ہوجاتا اور ہمیں اپنے سے بڑے ذمہ دار کی جھڑکیاں نہیں سننی پڑتیں۔
ٹالنا ایک عادت ہے، اس عادت کی وجہ سے ہی تاخیر ہوتی ہے، بڑوں نے کہا ہے کہ’’ آج کا کام کل پر نہ ڈال، جو کل کرنا ہے اسے آج کراور جو آج کرنا ہے اسے ابھی کر ڈال‘‘، جو لوگ ٹال مٹول کرتے ہیں ان کی قوت ارادی کمزور ہوتی ہے، وہ بعد میں کر لیں گے کا ورد تو کرتے رہتے ہیں، لیکن وہ ’’بعد‘‘ کبھی نہیں آپاتا، جس میں وہ اس کام کے کر گزرنے پر قادر ہوجائیں، کیوں کہ ایسے لوگوں کا ذہن آرام طلب ہوتا ہے وہ جسمانی آرام کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں ، یہ آرام طلبی انہیں سست اور کاہل بنا دیتی ہے، اس سے وقتی آرام تو مل جاتا ہے، لیکن نتیجہ کے اعتبار سے بعد میں یہ تکلیف دہ ہوجاتا ہے اور اس کا نقصان کبھی تو اس شخص کو اور کبھی جس ادارے اور تنظیم سے وہ جُرا ہوا ہے اس کو اٹھانا پڑتا ہے۔
 نفسیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹالنے اور تاخیر کا بنیادی سبب ہمارا دماغ ہے، ہم جب جذبات میں ہوتے ہیں تو دماغ کا وہ حصہ سر گرم عمل ہوتا ہے جسے طبی زبان میں ’’لِمبک سسٹم ‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے، دماغ کا ایک دوسرا حصہ پری فنٹل کارٹکس کہلاتا ہے، یہ حصہ منصوبہ بنانے، مقاصد تک پہونچنے اور فیصلہ لینے میں ہماری مدد کرتا ہے، دماغ کے ان دونوں حصوں میں جب کھینچ تان اور کشمکش شروع ہوتی ہے اور پری منٹل کارٹکس اس کشاکش میں مغلوب ہوجاتا ہے اور ِلمبک سسٹم غالب آجاتا ہے تو ہمارے اندر لیٹ لطیفی آجاتی ہے اور ہم ٹال مٹول اور تاخیر کی گاڑی پر سوار ی کرنے لگتے ہیں،اس کی وجہ سے تاخیر تو ہوتی ہے، انسان ذہنی تناؤ کا بھی شکار ہوجاتا ہے۔
 مثل مشہور ہے کہ ’’گاڑی اسٹیشن کے قریب والے کی چھوٹتی ہے‘‘ کیوں کہ ذہنی طور پر آدمی سوچتا ہے کہ تو بغل میں اسٹیشن ہے دس منٹ بھی توجانے میں نہیں لگیں گے، پھر جب ٹرین ٹائم کو آدھا گھنٹہ رہتا ہے تو دماغ میں یہ بات گردش کرتی رہتی ہے کہ ابھی بہت وقت ہے، جب پندرہ منٹ بچ گئے تو بھی فکرنہیں ہوتی ہے جب پانچ منٹ بچ جاتے ہیں تو بھاگم بھاگ ٹرین پکڑنے کی فکر ہوتی ہے اور اب ذہن پر سوال ہوتا ہے کہ کس طرح جلد اسٹیشن پہونچیں اور پھر دماغ فیصلہ کر دیتا ہے کہ ٹرین آگئی اب تو پکڑا ہی نہیں سکتی اس طرح ٹرین تو چلی جاتی ہے اور وہ خود اپنی تاخیر کی وجہ سے منہ دیکھتا رہ جاتا ہے، اب جہاں جانا تھا اس کے لیے بہانے ڈھونڈنے میں ذہنی توانائی صرف ہوتی ہے، توانائی کام کو آگے بڑھانے میں لگنی تھی، وہ بہانے ڈھونڈھنے میں برباد ہوتی رہتی ہے۔
ٹالنے اور تاخیر کے کئی وجوہات ہوا کرتے ہیں، بعض لوگ کام کو اس لیے ٹالتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ابھی اس کام کے کرنے کا وقت ہی نہیں آیا، بعد میں کر لیا جائے گا۔ بعض لوگوں کی نفسیات یہ ہوتی ہے کہ میرے ذمہ جو کام کیا گیا ہے وہ اتنا بڑا ہے کہ اس کے لیے کافی وقت چاہیے، ابھی میرے پاس اتنا وقت ہے ہی نہیں۔ بعضوں میں خوف کی نفسیات اس قدر غالب ہوتی ہے کہ اسے لگتا ہے کہ ہم اس میں کامیاب نہیں ہو سکتے اس لیے وہ کام کو کل پر ٹالتے رہنے میں عافیت محسوس کرتا ہے، بعضوں میں قوت فیصلہ کی کمی ہوتی ہے، وہ یہ فیصلہ نہیں کرپاتے کہ مجھے یہ کام کرنا چاہیے یا نہیں، بعض لوگ کام کو ٹال کر آخر وقت میں بھاگ دوڑ اور جلد بازی کا مزہ لینا چاہتے ہیں۔
ٹال مٹول اور تاخیر کا بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کا اعتماد آپ کی صلاحیت سے ختم ہوجاتا ہے، وہ آپ کو کاہل ناکارہ اوراز کاررفتہ سمجھ کر آپ کے ذمہ کام دینا بند کر دیتے ہیں، ایسے میں آپ کا وقت برباد ہوتا ہے اور آپ بغیر کسی مطلب کے اپنے کو مشغول دکھنا چاہتے ہیں، انگریزی میں اس صورت حال کو بزی فار نتھنگ (Busy for nathing)سے تعبیر کرتے ہیں، اگر آپ کو وقت پر کام کرنے کی عادت نہیں ہے تو آپ ہمیشہ بھاگتے نظر آئیں گے، کام کا خیال آپ پرغالب آئے گا ، لیکن تاخیر کی وجہ سے خوف کی نفسیات آپ پر غالب آجائے گی اور آپ کسی کام کو اپنے ہاتھ میں لینے سے گھبرائیں گے اور ٹالنے کے لیے سینکڑوں بہانے خود سے تخلیق کر ڈالیں گے، طویل عرصہ تک اگر آپ ایسا کرتے رہے تو آپ کی ہمت پست ہوجائے گی اور دھیرے دھیرے آپ کی توانائی اور کام کرنے کی صلاحیت کا خاتمہ ہوجائے گا۔ تناؤ ، فکر ، اور قوت ارادی میں کمی آپ کی زندگی کا مقدر ہوجائے گی۔
 ٹال مٹول اور کاہلی کو عام طور سے لوگ ایک ہی سمجھتے ہیں، حالاں کہ ایسا نہیں ہے، ٹال مٹول میں آپ ضروری کا م کو چھوڑ کرغیر ضروری کام میںمشغول ہوجاتے ہیں، جب کہ کاہلی اور سستی میں ایسا نہیں ہوتا، سستی میں آدمی کسی کام کے کرنے سے گھبراتا ہے، وہ کام کوٹالتا نہیں ، بلکہ اس میں کام کرنے کی خواہش ہی نہیں ہوتی، مقصد ٹالنا نہیں کام سے گریز کرنا ہوتا ہے۔ 
 ٹال مٹول کی بُری عادت کا خاتمہ ایک دن میں نہیں ہو سکتا، خصوصا اس شکل میں جب ٹال مٹول اور تاخیر اس لت میں مبتلا شخص کے نزدیک معیوب بھی نہ ہو، ایسے شخص کے لیے ضروری ہے کہ وہ پہلے مرحلہ میں اس بات کو مانے کہ اس کے اندر ٹال مٹول کی بُری عادت موجود ہے، اس اقرار کے بعد جب بھی تاخیر سے کام کرنے یا ٹالنے کا خیال آئے، فوراسر کو جھٹکے اور خود کلامی کے انداز میں کہے کہ مجھے اس کام کو ابھی کرلینا چاہیے کیوں کہ یہ کام بہت اہم ہے، پھر مضبوط قوت ارادی کے ساتھ اس کام کو شروع کر دے، وقت کا انتظار نہ کرے، اس لیے کہ گیا وقت پھر ہاتھ نہیں آتا، اگر آپ کادماغ کہے کہ اسے اچھے سے کرنا ہے، اعلیٰ درجہ پر لے جانا ہے تو سمجھئے کہ ابھی ٹالنے کی عادت آپ سے رخصت نہیں ہوئی ہے، ایسے موقع سے آپ سوچیے کہ کام نہ ہونے سے بہتر ہے کہ کچھ ہوجائے، آپ کی یہ سوچ آپ کو کام کے لیے تیار کرے گی اور ہو سکتا ہے کہ آپ اس کو اچھے انداز میں بھی کر گذریں۔
 ایک جائزہ کے مطابق دنیا کے تقریبا پنچانوے فی صد لوگ ٹال مٹول اور تاخیر والے رویہ کے شکار ہیں، یہ ایک ایسی عادت ہے جس نے مرض کی شکل اختیار کر لی ہے، ہمیں اس مرض سے ہر حال میں نجات پانا چاہیے، نجات پانے کے طریقوں پر اوپر روشنی ڈالی گئی ہے، اس کے علاوہ ایک طریقہ فرانسکو سیریلونے پیش کیا ہے، اس کا اصطلاحی نام پروفیشنل پوموڈ ور و ہے، پوموڈورو اطالوی زبان میں ٹماٹر کے معنی میں آتا ہے، چونکہ سیریلو نے پہلے اسے ٹماٹر سے ملتی جلتی گھڑی کے طو پر پیش کیا تھا، اس لیے اس کا نام پوموڈ ورو رکھا گیا، اس فارمولے کے مطابق تاخیر اور ٹال مٹول کی عادت کو چار مرحلوں میں دور کیا جا سکتاہے، پہلے ایک کام طے کیجئے، پچیس منٹ تک مسلسل اس کام کو کرتے رہیے۔ پچیس منٹ کے بعد پانچ منٹ آرام فرمائیے، اس طرح چار پوموڈور ومکمل کرکے تیس منٹ کا وقفہ لیجئے،لیکن ضروری ہے کہ پچیس ، پچیس منٹ کا جو وقت آپ نے طے کیا ہے اس میں کوئی دوسرا کام نہ کریں حتی کہ فون کا استعمال بھی نہ کریں، تب ٹال مٹول کی عادت آپ کی جاتی رہے گی ۔
جہاں تک مسلمانوں کا معاملہ ہے اسے وقت کی پابندی کے ساتھ نماز کا حکم دیا گیا ہے، ٹال مٹول کرنے والے اگر وقت کی پابندی کے ساتھ با جماعت نماز کا اہتما م کرنے لگیں اور اسے اپنی عملی زندگی میں داخل کر لیں تو کبھی نہ لیٹ ہوں گے اور نہ ہی ٹال مٹول کا مزاج بنے گا، نماز کی پابندی تکبیر اولیٰ اور جماعت کے ساتھ اس کی ادائیگی تاخیر کرنے والوں کے لیے اکسیر کا درجہ رکھتی ہے، نماز کی پابندی عبادت ہی نہیں ہمیں تاخیر اور ٹال مٹول نہ کرنے کا سبق بھی دیتی ہے، کاش میری قوم اسے سمجھ پاتی۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...