Powered By Blogger

ہفتہ, جون 11, 2022

پریاگ راج تشدد کے ماسٹر مائنڈ جاوید پمپ کو پولیس نے حراست میں لیا

پریاگ راج تشدد کے ماسٹر مائنڈ جاوید پمپ کو پولیس نے حراست میں لیاپریاگ راج: اترپردیش کے پریاگ راج میں جمعہ کی نماز کے بعد شرپسندوں کے تشدد کے ماسٹر مائنڈ محمد جاوید عرف جاوید پمپ کو پولیس نے ہفتہ کو حراست میں لے لیا۔
پریاگ راج کے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس اجے کمار نے یہ معلومات دیتے ہوئے بتایا کہ شہر کے خلد آباد تھانہ علاقہ کے اٹالہ باغ ایریا میں کل جمعہ کی نماز کے بعد ہنگامہ کے 24 گھنٹے کے اندر پولیس نے جاوید کو واقعہ کے ماسٹر مائنڈ کے طورپر شناخت کرکے حراست میں لے لیاہے۔ اس سے پوچھ گچھ جاری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کل کے تشددکے بعد پولیس کی تفتیش میں واردات کے ماسٹرمائنڈ کے طورپر جاوید کا نام سامنے آیا تھا۔
کمار نے کہا کہ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف ماضی کی تحریکوں میں بھی جاوید کے ذریعہ اہم کرداراداکرنے کی بات پولیس کی تفتیش میں سامنے آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جاوید کا موبائیل فون قبضے میں لے کر جانچ کی جارہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ابتدائی پوچھ گچھ میں پتہ چلا ہے کہ دہلی واقع جواہرلال نہرویونیورسٹی میں زیرتعلیم جاوید کی بیٹی اسے مشورہ دیتی ہے۔ کمار نے واضح کیا کہ کسی کو مشورہ دیناکوئی جرم نہیں ہے لیکن اگر قانونی عمل کے بعد ضرورت پیش آئی تو جاوید کی ان سرگرمیوں سے جڑے دیگر لوگوں سے بھی پوچھ گچھ کی جا سکتی ہے۔

یوپی:جہاں احتجاج اورتشدد، وہاں بلڈوزر

یوپی:جہاں احتجاج اورتشدد، وہاں بلڈوزر

سہارنپور: اتر پردیش میں جمعہ کو بھڑکنے والے تشدد کے بعد کانپور اور سہارنپور میں تشدد کے ملزمان اور ان سے وابستہ کچھ لوگوں کے گھروں پر بلڈوزر چلا دیے گئے ہیں۔ اتر پردیش کے سہارنپور ضلع میں تشدد کرنے والے ملزم کے گھر پر بلڈوزر چلا دیا گیا ہے۔

یوپی پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم کے گھر پر غیر قانونی تعمیرات کو گرا دیا گیا ہے۔ کانپور میں ہونے والی کاروائی پر پولیس افسر کا کہنا ہے کہ جس عمارت میں انہدام کیا گیا ہے، وہ تشدد کے مرکزی ملزم سے منسلک لینڈ مافیا ہے۔ تشدد کے سلسلے میں اب تک 13 ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔

اس کے ساتھ ہی 237 ملزمان کو گرفتار کیا گیا ہے۔

بی جے پی ترجمان کے پیغمبر اسلام کے بارے میں متنازعہ بیان کے بعد پریاگ راج، سہارنپور سمیت اتر پردیش میں کئی مقامات پر تشدد بھڑک اٹھا۔

اطلاع کے مطابق ملزم مزمل ولد عصمت ساکن راحت کالونی 62 فوٹا روڈ تھانہ کوتوالی دیہی علاقوں ضلع سہارنپور نے میونسپل ٹیم کے ساتھ مل کر موثر بلڈوزر کارروائی کی ہے۔

ملزم عبدالوقیر ولد بلال ساکن کھٹا کھیڑی بلال مسجد تھانہ منڈی ضلع سہارنپور نے میونسپل کارپوریشن کی ٹیم کے ساتھ مل کر بلڈوزر کے ذریعے موثر کاروائی کی۔ اس کاروائی کے دوران پولیس کی بھاری نفری بھی علاقے میں موجود تھی۔

اتر پردیش کے مختلف اضلاع میں نماز جمعہ کے بعد ہونے والے تشدد کے سلسلے میں پولیس نے 227 سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔

سینئر پولیس افسر نے ہفتہ کو یہ جانکاری دی۔ ایڈیشنل ڈائرکٹر جنرل آف پولیس ( لاء اینڈ آرڈر) پرشانت کمار نے کہا کہ ریاست میں اس سلسلے میں 227 لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔

اس میں پریاگ راج میں 68، ہاتھرس میں 50، سہارنپور میں 48، امبیڈکر نگر میں 28، مراد آباد میں 25 اور فیروز آباد میں آٹھ افراد شامل ہیں۔

دریں اثنا، تشدد کے مرتکب افراد کو انتباہ میں، یوپی کے وزیر اعلیٰ کے میڈیا مشیر، مرتیونجے کمار نے ہفتے کے روز ایک ٹویٹ میں کہا، "فساد کرنے والوں کو یاد رکھیں، ہر جمعہ کے بعد ایک ہفتہ ہوتا ہے..." کمار نے ایک بلڈوزر کی عمارت کو گرانے کی تصویر بھی ٹویٹ کی۔

سہارنپور کے علاوہ کانپور میں ایک ہفتے کے تشدد کے بعد انتظامیہ نے غیر قانونی تعمیرات کو گرایا گیا ہے۔ اس عمارت کو جائے وقوعہ سے تقریباً تین کلومیٹر کے فاصلے پر منہدم کر دیا گیا ہے۔

پولیس نے کہا کہ اس عمارت کے مالک کے کانپور تشدد کے مرکزی ملزم کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں اور وہ بھی اس سازش میں ملوث ہے۔ حکام نے اس معاملے کی تصدیق کی ہے۔

اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے حکام کو ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا، "ماضی میں ریاست کے مختلف شہروں میں ماحول کو خراب کرنے کی کوششوں میں ملوث سماج دشمن عناصر کے خلاف سخت کاروائی کی جائے گی۔"

مہذب معاشرے میں ایسے سماج دشمن لوگوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ خیال رہے کہ کسی بے گناہ کو ہراساں نہیں کیا جاتا، لیکن ایک بھی مجرم باقی نہیں رہتا۔ بتادیں کہ اتر پردیش کے پریاگ راج اور سہارنپور سمیت کئی اضلاع میں لوگوں نے جمعہ کی نماز کے بعد بی جے پی کی معطل لیڈر نوپور شرما کے پیغمبر اسلام کے خلاف مبینہ قابل اعتراض ریمارکس پر نعرے لگائے اور پتھراؤ کیا۔

رانچی : Protest Against Nupur Sharma احتجاج کے دوران پولیس اور مظاہرین میں میں جھڑپ ، ایک شخص ہلاک

رانچی : Protest Against Nupur Sharma احتجاج کے دوران پولیس اور مظاہرین میں میں جھڑپ ، ایک شخص ہلاک

رانچی کی مرکزی سڑک پر جمعہ کی نماز کے بعد لوگوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرین نوپور شرما کی گرفتاری کا مطالبہ کر رہے تھے۔ Protest Against Nupur Sharma

جھارکھنڈ: رانچی کی مرکزی سڑک پر نماز کے بعد لوگوں نے شدید احتجاج کیا۔ مظاہرین نوپور شرما کی گرفتاری کا مطالبہ کر رہے تھے۔ مظاہرین نے ہاتھوں میں سیاہ پٹی اور مذہبی جھنڈا لیے ڈیلی مارکیٹ کے سامنے البرٹ ایکا چوک کی طرف احتجاج کیا۔ Protest Against Nupur Sharma

رانچی میں احتجاج کے دوران پولیس اور مظاہرین میں جھڑپ، کرفیو نافذ

اس دوران ڈیلی مارکیٹ کے قریب پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپ ہوئی، جس کے بعد مشتعل ہجوم نے پتھراؤ شروع کردیا۔ وہیں پولیس حالات کو قابو کرنے میں مصروف ہے۔ فی الحال سجاتا چوک اور اقرا مسجد کے قریب بیریکیڈنگ کی گئی ہے۔ ٹریفک کا رخ موڑ دیا گیا ہے۔ پورے علاقے میں بڑی تعداد میں آئی آر بی، جے اے پی اور ضلع پولیس کو تعینات کیا گیا ہے۔

احتجاج کے دوران جھڑپ کے بعد پولیس کی جانب سے فائرنگ کی گئی۔ اس فائرنگ میں ایک شخص کی موت ہوگئی ہے۔ وہیں ڈیلی مارکیٹ کے اسٹیشن انچارج اودھیش ٹھاکر کے سر میں چوٹ آئی ہے۔ ایس ایس پی رانچی سریندر کمار جھا کے سر پر بھی چوٹ آئی ہے۔ ساتھ ہی اس جھڑپ میں کئی پولیس اہلکار زخمی بتائے گئے، جنہیں ریمس RIMS میں داخل کرایا گیا۔

بہار کے پورنیہ میں سڑک حادثہ 9کی موت

بہار کے پورنیہ میں سڑک حادثہ 9کی موت

پٹنہ ، 11 جون (اردو دنیا نیوز۷۲)۔ بہار کے پورنیہ ضلع کے بائیسی سب ڈویزن کے انگڑھ او پی کے کنجیا پرائمری اسکول کے قریب جمعہ کی دیر رات ڈیڑھ بجے سڑک حادثے میں نو لوگوں کی موت ہوگئی ۔ بتایا گیا ہے کہ یہ لوگ تلک تقریب تارا باڑی سے واپس اپنے گاؤں کشن گنج کے نونیا لوٹ رہے تھے۔

راستے میں ان لوگوں کی اسکارپیو پانی سے بھرے گڑھے میں الٹ گئی۔ اس حادثے میں 8 افراد کی موقع پر ہی موت ہو گئی ۔ جبکہ ایک دیگر کا علاج کے دوران موت ہوگی ۔اسکارپیو میں کل 11 لوگ سوار تھے ۔ حادثے میں جان گنوانے والوں میں سبھی آپس میں رشتہ دار تھے۔

رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی برزخی حیات ___

رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی برزخی حیات ___
 مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 اردو دنیا نیوز۷۲
  ہمارے عہد میں حضرت مولانا مفتی ثمین اشرف قاسمی صاحب کا شمار’’ موفق من اللہ‘‘ لوگوں میں ہوتا ہے، ان کی صلاحیت وصالحیت، زہد وورع، تقریر وتحریر، خلوص وللہیت ، تقویٰ اور طہارت کی ایک دنیا قائل ہے، ان کی انہیں صلاحیتوں کی وجہ سے حضرت مولانا حکیم محمد اختر صاحب ؒ حضرت مولانا قمر الزماں الٰہ آبادی اور حضرت مولانا پیر ذو الفقار احمد صاحب نقشبندی  مد فیوضہم سے انہیں خلافت حاصل ہے، میں نے مصلی الحتبور بردبئی میں ان کی تقریریں سنی ہیں اور بار ہا ان سے استفادہ کیا ہے، خرد نوازی کے طور پر انہوں نے اپنی بعض کتابوں پر تقریظ بھی لکھوائی ہے، محبت بانٹتے ہیں، محبت کرتے ہیں او رسراپا محبت ہیں، پہلی خلافت ان کو حکیم اختر صاحب سے ملی ہے اس لیے یہ رنگ ان پر غالب ہے ، لوگ ان کی طرف ان کی نرم دلی اور بے پناہ محبت کی وجہ سے کھینچے چلے آتے ہیں، میں نے ان کی محبت میں لوگوں کو گرفتار ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ جو گرفتار ہو گیا پھر نکل نہیں پاتا ہے، انہوں نے مسجد غریر دبئی میں زمانہ تک درس حدیث بھی دینے کا کام کیا ہے۔
 ان کی کتابیں جو اہل علم کے نزدیک مقبول ومتعارف ہیں، ان میں دیدار الٰہی کا شوق، حق جل مجدہ کی باتیں (الاحادیث القدسیہ کی شرح) معارف قدسیہ، تجلیات قدسیہ، وصایا انبیاؤاولیائ، کیمیائے درویشاں، اسماء النبی صلی اللہ علیہ وسلم، علامات سعادت، عقیدہ ختم نبوت، لا حول ولا قوۃالا باللہ، احادیث عقیدہ ختم نبوت ، علامات قیامت، سچے اور جھوٹے نبی میں فرق، سچے اور جھوٹے مسیح میں فرق، امام مہدی احادیث کی روشنی میں ، ایصال ثواب کا مسنون طریقہ ، تلاوت کلام اللہ سے قبل استعاذہ کی حکمتیں خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔
مفتی صاحب کی سلسلہ ٔ تحفظ ختم نبوت کی چھٹی کتاب ’’رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بر زخی حیات‘‘ اس وقت میرے سامنے ہے، اس موضوع پر یہ کوئی پہلی کتاب نہیں ہے، ساٹھ سے زائد کتابیں اس موضوع پر عربی اور اردو میں مبطوعہ شکل میں موجود ہیں،جن میں ڈاکٹر علامہ خالد محمود صاحب سابق ڈائرکٹر اسلامک اکیڈمی مانچیسٹر یوکے کی اردو تصنیف ’’مدارک الاذکیافی حیاۃ الانبیاء علیہم السلام‘‘ کو خاص اہمیت حاصل ہے، سات سو برانوے (۷۹۲) صفحات پر مشتمل یہ کتاب اکابر علمائ، دیو بند کی ظر میں انتہائی معتبر ہے۔
 حضرت مفتی صاحب نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بر زخی زندگی پر روشنی ڈالی ہے، مفتی صاحب کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنی کتابوں میں موضوع کے مالہ وما علیہ اور جزئیات پر سیر حاصل بحث کرتے ہیں، بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس بحث کی اس کتاب میں ضرورت نہیں تھی، لیکن غور کی نظر اس کے فوائد کی طرف رہنمائی کرتی ہے، اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگر یہ بحث نہیں کی جاتی تو موضوع تشنہ رہ جاتا، مفتی صاحب نے اس موضوع پر کم وبیش دو سو اکہتر ذیلی عنوانات کے تحت روشنی ڈالی ہے، اور مدلل گفتگو سے موضوع کو ثابت کیا ہے، حالاں کہ بقول حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم’’یہ ایک نازک اور مشکل موضوع ہے اور اس کی تشریح وتوضیح میں کسی قدر اہل سنت والجماعت کا اختلاف رہا ہے، متکلم اسلام حضرت مولانا محمد الیاس گھمن کے مطابق ’’آپ(مفتی صاحب ) نے اس اجماعی عقیدہ کو دلائل کے ساتھ بیان فرماکر اہل سنت والجماعت کے موقف کی ترجمانی فرمائی ہے‘‘۔
مفتی محمد عارف باللہ القاسمی نے لکھا ہے کہ ’’ انبیاء علہم السلام کی بر زخی حیات کے مسئلے کا حق ادا کیا گیا ہے اور دلائل وبراہین کی فراوانی کے ساتھ علمی نکتے اور سینہ بسینہ منتقل ہونے والے اسرار نے اس کتاب کی قدر وقیمت کو مزید بڑھا دیا ہے‘‘۔
واقعہ یہ ہے کہ یہ اہل سنت والجماعت کا اجماعی عقیدہ ہے اور نصوص میں اس کی نبیادیں موجود ہیں، کیوں کہ شہداء کو قران میں زندہ کہا گیا ہے اور ہمیں بتایا گیا ہے کہ تم ان کی زندگی کو نہیں سمجھ سکتے، ظاہر ہے انبیاء کرام کی برزخی حیات شہداء کی بہ نسبت اقوی واعلیٰ ہے، البتہ اس کو دنیاوی حالات پر قیاس نہیں کیا جا سکتا، حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی ؒ نے فتاویٰ محمودیہ میں اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے لکھا ہے کہ’’برزخ کے حالات کو مشاہدہ کے حالات پر قیاس نہیں کیا جاسکتا، قیاس الغائب علی الشاہد نا جائز ہے، کم از کم دو سو جگہ اس کو امام فخر الدین رازی نے تفسیر کبیر میں لکھا ہے۔(فتاویٰ محمودیہ ۳؍ ۹۷)
اس سلسلہ میں استدلال ان احادیث سے بھی کیاجاتا ہے، جس میں مذکورہے کہ زمین پر انبیاء کے اجسام کا کھا نا حرام قرار دیا گیا ہے اور یہ کہ انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں، اور وہ نماز پڑھتے ہیں۔ ان اﷲ حرم علی الارض ان تاکل اجساد الانبیائ- الانبیاء احیاء فی قبورھم یصلون۔ اس کے علاوہ انبیاء کی میراث تقسیم نہیں ہوتی، کیوںکہ ان کی بر زخی زندگی عام انسانوں سے الگ ہوتی ہے ، اس طرح ازواج مطہرات سے دوسرا کوئی نکاح نہیں کرسکتا، اگر عام انسانوں کی طرح ان کی برزخی زندگی ہوتی تو ترکہ بھی تقسیم ہوتا، اور ازواج مطہرات اگر نبی کے نکاح سے نکل گئی ہوتیں تو نکاح ثانی بھی جائز ہوتا، لیکن ان کو امہات المؤمنین کا درجہ دے کر نکاح ثانی کے لیے ہمیشہ ہمیش کے لیے حرام قرار دے دیا گیا، حضرت مولانا یوسف بنوری ؒ نے اسی بات کو اپنے خاص علمی انداز میں لکھا ہے:
’’عدم نکاح بالازواج المطہرات اور عدم توریث وغیرہ کی علت اصل حیات کو کیا جائے تو درست ہے بہر حال حکم شرعی کی کوئی علت ہی ہوتی ہے اور یہاں تو علت از قبیل العلل المعتبرہ کے ہوگی، نہ کہ علل مرسلہ کی قسم سے اور اس علت کی تنقیح، اصولی تنقیح، الفاظ اور تحقیق المناط سے زیادہ قطعی ہوگی۔ (تسکین الصدور ۲۵)
کتات کا آغاز تقاریظ سے ہوتا ہے، جو حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ، مولانا الیاس گھمن ، مولانا مفتی احمد خان پوری، مفتی محمد عارف باللہ قاسمی کے قلم سے ہے، مقدمہ خود مؤلف نے لکھا ہے تفصیلی لکھا ہے اور موضوع کے مختلف گوشوں کی طرف راہنمائی کی ہے، دو سو بہتر صفحات پر مشتمل یہ کتاب ادارۃ دعوۃ الحق مادھوپور، سلطان پور ڈاکخانہ ٹھاہر وایا رونی سید پور ضلع سیتامڑھی سے حاصل کی جا سکتی ہے، کتاب پر ہدیہ /قیمت درج نہیں ہے، اس لیے اگر اس نمبر پر 7999999869پر فون کر لیں تو مفت بھی حاصل ہو سکتی ہے، کتاب خوبصورت چھپی ہے، جلد خوبصورت اور کاغذ عمدہ ہے، جلی قلم ہونے کی وجہ سے کمزور بینائی والے بھی پڑھ سکتے ہیں، کتاب کی سیٹنگ کرنے والے نے فنی مہارت کا ثبوت نہیں دیا ورنہ اندر کے اوراق بھی خوبصورت دِکھتے، ہمارے دور میں جب مسلمات دین پر اعتراضات کیے جاتے ہیں اور نئی نسل اجماعی عقائد سے بھی انحراف کر رہی ہے اس کتاب کا ہر گھر میں رہنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔

جامع مسجد کے باہر مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی ہوگی : پولیس

جامع مسجد کے باہر مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی ہوگی : پولیس

دہلی پولیس نے جمعہ کو کہا کہ جمعہ کی نماز کے فوراً بعد جامع مسجد کے باہر مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔

وسطی ضلع کی ڈپٹی کمشنر پولیس شویتا چوہان نے بتایا کہ جمعہ کی نماز کے فوراً بعد تقریباً 300 لوگ پلے کارڈز اٹھائے ہوئے جامع مسجد کے باہر جمع ہوئے اور نعرے بازی کرنے لگے۔

انہوں نے کہا کہ عام طور پر ہر جمعہ کو تقریباً 1500 لوگ نماز کے لیے جامع مسجد آتے ہیں۔ لیکن آج نماز کے فوراً بعد 300 کے قریب لوگ جامع مسجد کے باہر جمع ہوئے اور نعرے بازی کرنے لگے۔ الرٹ پولیس نے صورتحال پر قابو پانے اور گاڑیوں کی ہموار نقل و حرکت کو یقینی بنانے کے لیے انہیں فوری طور پر منتشر کردیا۔

ڈپٹی کمشنر آف پولیس نے کہا کہ مظاہرین میں سے کچھ کی شناخت کرلی گئی ہے اور دیگر کی جلد ہی شناخت کر لی جائے گی۔ انہوں نے خبردار کیا کہ ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔

مظاہرین نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے معطل ترجمان نوپور شرما اور نوین جندل کو مبینہ طور پر متنازعہ مذہبی تبصرے کرنے پر گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا۔

پیغمبر اسلام ﷺ کا حضرت عائشہؓ سے نکاح مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

پیغمبر اسلام ﷺ کا حضرت عائشہؓ سے نکاح 

 مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
___________________________

نبی کی حیثیت عام انسانوں کی نہیں ہوتی، وہ خالق کائنات کا نمائندہ اور اس کی مرضیات کا ترجمان ہوتا ہے، اس کا اٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا، کھانا پینا، دوستوں اور دشمنوں کے ساتھ اس کا رویہ، سفر وحضر، غرض کہ زندگی کا ایک ایک لمحہ اور ایک ایک حرکت وعمل انسانیت کے لئے اسوہ اور نمونہ ہوتا ہے، اس کے بولنے میں بھی انسانیت کے لئے سبق ہے اور اس کی خاموشی میں بھی، نبوت کا سلسلہ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مکمل ہوگیا، آپ کے بعد نہ کوئی نبی آیا ہے اور نہ آسکتا ہے؛ اس لئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات سو دو سو اور ہزار دو ہزار سال کے لئے نہیں؛ بلکہ قیامت تک کے لئے نمونہ ہے، اور آپ کی سیرت وسنت کی اتباع میں آخرت کی بھی فلاح ہے اور دنیا کی بھی کامیابی ہے۔
زندگی کا ایک اہم شعبہ ازدواجی اور خاندانی زندگی ہے، جس سے ہر انسان گزرتا ہے، ہر شخص حاکم اور قاضی نہیں بنتا، ہر شخص تجارت اور کاروبار نہیں کرتا؛ لیکن تقریبا ہر شخص خاندان کا حصہ ہوتا ہے، شادی بیاہ کے مرحلہ سے گزرتا ہے اور اس کے ذریعہ ایک نیا خاندان وجود میں آتا ہے، خاندان کا حصہ مرد بھی ہوتے ہیں اور عورتیں بھی ہوتی ہیں، اس کوقدم قدم پر رہنمائی کی ضرورت پیش آتی ہے، اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو عام لوگوں کے مقابل زیادہ نکاح کی اجازت دی گئی، آپ نے مختلف قبائل میں نکاح کئے، جس سے اسلام کی اشاعت میں مدد ملی، خواتین نیز خاندانی زندگی سے متعلق احکام کی تفصیلات مہیا ہوئیں، آپ نے بحیثیت مجموعی جن خواتین سے نکاح کیا، ان کی تعداد گیارہ ہے، ان میں ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ سب کی سب بیوہ یا مطلقہ تھیں، آپ نے پہلا نکاح حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کیا جو عمر میں آپ سے پندرہ سال بڑی تھیں، اور ایک بیوہ خاتون تھیں، بچپن ۵۵؍ سال کی عمر ہونے تک آپ کے نکاح میں ایک ہی بیوی رہیں: حضرت خدیجہؓ اور ان کے بعد حضرت سودہؓ، زندگی کے آخری آٹھ سالوں میں بقیہ ازواج آپ کے نکاح میں آئیں۔
غرض کہ پہلا نکاح آپ نے پچیس سال کی عمر میں چالیس سال کی خاتون سے کیا ، دوسرے: ایک کے سو ا آپ کی تمام بیویاں بیوہ یا مطلقہ تھیں، تیسرے: جو انسانی زندگی میں اصل زمانۂ شباب ہوتا ہے، اس میں آپ نے ایک ہی بیوی پر اکتفا فرمایا اور عمر کے آخری مرحلہ میں متعدد نکاح کئے، اگر ان نکات کو ملحوظ رکھا جائے تو وہ بہت سے غلط فہمیاں دور ہو جائیں گی، جو اعداء اسلام کی طرف سے پھیلائی جاتی ہیں،جن میں سے ایک حضرت عائشہؓ سے نکاح بھی ہے، حقیقت یہ ہے کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کا رشتہ پہلے جبیر ابن مطعم کے لڑکے سے طئے ہو چکا تھا، یہ خاندان ابھی مسلمان نہیں ہوا تھا، جبیر کی بیوی نے کہا کہ اگر ابو بکر کی لڑکی ہمارے گھر آگئی تو ہمارا گھر بھی بددین ہو جائے گا؛ اس لئے ہم کو یہ رشتہ منظور نہیں (مسند احمد: ۶؍۲۱۱) ؛ اس لئے یہ رشتہ ختم ہو گیا، پھر جب حضرت خدیجہؓ کا انتقال ہوگیا تو حضرت خولہؓ نے آپ سے حضرت سودہؓ اور حضرت عائشہؓ کا رشتہ پیش کیا، حضرت سودہؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہم عمر تھیں، آپ نے ان سے نکاح فرمایا اور بعض غیبی اشاروں کی بنا، پر حضرت عائشہؓ کے رشتہ کو بھی قبول فرمالیا، اور حضرت خولہؓ سے خواہش کی کہ وہ اس بات کو آگے بڑھائیں، حضرت خولہؓ نے حضرت ابو بکرؓ کے سامنے یہ بات رکھی، حضرت ابو بکر کو یوں تو یہ رشتہ دل وجان سے محبوب تھا؛ لیکن چوں کہ زمانہ جاہلیت میں منھ بولے بھائی کی بیٹی سے نکاح کو حرام سمجھا جاتا تھا؛ اس لئے اس پر تأمل ہوا، جب حضرت خولہؓ نے حضور سے یہ بات بتائی تو آپ نے فرمایا کہ ابو بکرؓ دینی بھائی ہیں نہ کہ سگے بھائی، اس لئے ان کی بچی سے میرا نکاح ہو سکتا ہے، تو پھر وہ کھٹک بھی دور ہوگئی، اس طرح حضرت عائشہؓ سے آپ کا نکاح ہوا، نکاح کے وقت راجح قول کے مطابق حضرت عائشہؓ کی عمر چھ سال تھی اور رخصتی کے وقت نو سال ، دوسرے قول کے مطابق نکاح کے وقت حضرت عائشہؓ کی عمر اٹھارہ سال تھی؛ لیکن نو سال والی روایت کو امام بخاریؒ نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے، اور اہل علم کے نزدیک یہی روایت زیادہ صحیح ہے۔
حضرت عائشہؓ سے نکاح کے کئی بڑئ فوائد حاصل ہوئے:
ایک تو جاہلیت کی یہ رسم ختم ہو گئی کہ منھ بولا بھائی سگے بھائی کی طرح ہے اور سگے بھائی کی بیٹی کی طرح اس کی بیٹی سے بھی نکاح کی ممانعت ہے، اگر آپ نے اپنے عمل کے ذریعہ اس جاہلانہ رسم کے خاتمہ کا اعلان نہ کیا ہوتا، اور صرف زبانی ہدایت پر اکتفا کیا ہوتا تو شاید بھائی اور بھتیجی کے مصنوعی رشتہ کا تصور آسانی سے ختم نہیں ہوتا، اور صدیوں سے آئے ہوئے اس رواج کی مخالفت لوگوں کو گوارا نہیں ہوتی؛ لیکن جب آپ نے خود منھ بولے بھائی کی صاحبزادی سے نکاح کر لیا تو ہمیشہ کے لئے یہ تصور ختم ہوگیا۔
دوسرے: اللہ تعالیٰ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو غیر معمولی ذکاوت وذہانت سے نوازا تھا، ۳۵۰؍صحابہ وتابعین نے ان سے حدیث حاصل کی اور ان سے جو حدیثیں منقول ہیں، ان کی تعداد ۲۲۱۰؍ ہے، (سیر اعلام النبلاء، ۲؍۱۳۹)سات صحابہ وہ ہیں، جن کو روایت حدیث میں مکثرین کہا جاتا ہے، یہ وہ صحابہ ہیں، جنھوں نے ایک ہزار سے زیادہ حدیثیں آپ سے نقل کی ہیں، ان میں جہاں چھ مردوں کے نام ہیں، وہیں ایک نام حضرت عائشہ صدیقہؓ کا بھی ہے، فتاویٰ میں بھی حضرت عائشہؓ کا پایہ بہت بلند تھا اور ان کا شمار عہد صحابہ کے ان اصحاب فتویٰ میں ہوتاتھا، جنھوں نے کثرت سے فتاویٰ دئیے ہیں، ماضی قریب کے معروف عالم وفقیہ ڈاکٹر رواس قلعہ جی نے حضرت عائشہؓ کے فتاویٰ کو ’’ موسوعہ فقہ عائشہ‘‘ کے نام سے جمع کیا ہے، جو ۷۶۷؍ صفحات پر مشتمل ہے، اس سے فقہ وفتاویٰ کے میدان میں ان کی خدمات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے، عربی زبان میں ایک اصطلاح ’’استدراک‘‘ کی ہے، کسی شخص کی بات یا تصنیف میں کوئی غلطی یا غلط فہمی ہو گئی ہو تو اس کی اصلاح کو استدراک کہتے ہیں، حضرت عائشہؓ نے اکابر صحابہ پر استدراک کیا ہے، جس کو علامہ جلال الدین سیوطیؒ نے ’’ عین الاصابۃ فی استدراک عائشۃ علی الصحابۃ‘‘ کے نام سے جمع کیا ہے، اور اہل علم کی رائے ہے کہ عموما ان استدراکات میں حضرت عائشہؓ کا نقطہ نظر زیادہ درست ہے، پھر یہ کہ حضرت عائشہؓ جیسی ذہین خاتون کے آپ کے نکاح میں ہونے کی وجہ سے خواتین اور خاندانی زندگی سے متعلق بہت سارے مسائل کا حل ان ہی کی روایات سے ہوا ہے؛ اس لئے امت کو آپ کے ذریعہ جو علمی اور فکری فائدہ پہنچا، وہ بظاہر کسی اور سے نہیں ہو سکتا تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ۴۷؍ سال زندہ رہیں، اور ان کی ہدایت واصلاح اور تعلیم وتربیت کا چشمہ جاری رہا، کہا جاتا ہے کہ بیس سال میں ایک نسل بدل جاتی ہے، اس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی دو نسلیں ان سے فیضیاب ہوئیں، یہ اسی لئے ممکن ہو سکا کہ وہ کم عمری میں آپ کے نکاح میں آگئی تھیں۔
اس سکے ساتھ ساتھ ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہوا کہ اس نکاح کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سب سے بڑے معاون ومددگار حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے خاندان کو عزت سے سرفراز فرمایا، چار رفقاء نے سب سے بڑھ کر آپ کی مدد کی، ان میں سے دو حضرت ابو بکر وحضرت عمرؓ کی صاحبزادیوں کو آپ نے اپنے نکاح میں لے کر عزت بخشی، اور دو رفقاء حضرت عثمانؓ وحضرت علیؓ کے نکاح میں اپنی صاحبزادیوں کو دے کر عزت افزائی کی، اور اس طرح آپ نے ان چاروں دوستوں کی قربانی کے مقابلہ دلداری فرمائی، آپ حضرت ابو بکر کو کتنی ہی نعمتیں دے دیتے؛ لیکن حضرت عائشہؓ سے نکاح کی وجہ سے اس خاندان کو جو عزت ملی، اور جو سعادت حاصل ہوئی، وہ کسی اور طرح نہیں ہو سکتی تھی؛ اس لئے نہ کبھی حضرت ابو بکر کو پچھتاوا ہوا کہ عمر کے کافی تفاوت کے ساتھ آپ نے اپنی صاحبزادی کا نکاح کر دیا اور نہ خود حضرت عائشہؓ کو؛ بلکہ وہ اس نسبت کو اپنے لئے باعث عزت وافتخار سمجھتے تھے، اور جب ایک موقع پر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات کو اختیار دیا کہ چوں کہ آپ کے ساتھ رہتے ہوئے بہت صبرو شکیب کی زندگی گزارنی پڑتی تھی، اس لئے ازواج مطہرات اگر چاہیں تو اپنے حقوق لے کر علیحدگی اختیار کر لیں تو سب سے پہلے حضرت عائشہؓ نے اس کو رد کر دیا، اور کہا کہ وہ ہر حال میں آپ کے ساتھ ہی رہیں گی، رشتہ نکاح کا تعلق اصل میں بیوی کے ساتھ ہوتا ہے، تو جب بیوی خود اس رشتہ کو اپنے لئے باعث سعادت سمجھتی ہو اور خوش دلی کے ساتھ باعث افتخار جانتے ہوئے اس پر راضی رہے تو کیسے کسی کو اس پر اعتراض کا حق ہو سکتا ہے؟
جہاں تک نکاح کے وقت کم سنی کی بات ہے تو اس کا تعلق اصل میں سماجی تعامل ورواج، موسمی حالات اور غذا سے ہے؛ اسی لئے مختلف علاقوں میں بلوغ کی عمریں الگ الگ ہوتی ہیں، عرب میں کم عمری میں لڑکیوں کے نکاح کا رواج تھا، عہد نبوت میں بھی اور آپ کے بعد بھی اس کی کئ مثالیں ملتی ہیں، جن میں دس سال سے کم عمر میں لڑکیوں کا نکاح کر دیا گیا، اور جلد ہی وہ ماں بھی بن گئیں، خود حضرت عائشہؓ کے نکاح میں حضرت خولہ ؓ نے رشتہ پیش کیا، اور حضرت ابو بکرؓ نے رضاعی بھائی ہونے کا بھی عذر کیا؛ لیکن عمر کے تفاوت پر کسی تامل کا اظہار نہیں کیا، پھر یہ کہ حجاز کا موسم گرم ہوتا ہے اور اس زمانے میں وہاں کی غذا کھجور اور اونٹنی کا دودھ ہوا کرتا تھا، جس میں بہت زیادہ غذائیت پائی جاتی تھی؛ اس لئے وہاں کے حالات کو ہندوستان پر قیاس نہیں کرنا چاہئے۔
اس کے علاوہ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ دنیا کے دوسرے مذاہب میں بھی کم عمر لڑکیوں کی شادی کا رواج رہا ہے، مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت مریم علیہا السلام کسی کی بیوی نہیں بنیں، اور معجزاتی طور پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی؛ لیکن عیسائیوں کے بعض فرقوں کا خیال ہے کہ جوسف نامی شخص سے حضرت مریمؑ کا نکاح ہوا تھا، اس وقت جوسف کی عمر ۹۹؍ برس اور حضرت مریم کی بارہ برس تھی، ۱۹۸۳ء تک کیتھولک کینان نے اپنے پادریوں کو بارہ سال کی لڑکی سے شادی کرنے کی اجازت دے رکھی تھی، ۱۹۲۹ء سے پہلے برطانیہ میں چرچ آف انگلینڈ نے بھی بارہ سال کی لڑکی سے شادی کی اجازت دی تھی، امریکہ کے اسٹیٹ آف ڈیلویرا میں ۱۸۸۰ء تک لڑکی کی شادی کی کم سے کم عمر ۸؍ سال اور کیلی فورنیا میں ۱۰؍ سال مقرر تھی، یہاں تک کہ کہا جاتا ہے کہ امریکہ کی بعض ریاستوں میں لڑکیوں کی شادی کی عمر کافی کم رکھی گئی ہے، امریکہ کی ایک ریاست ’’ میسیچوسس‘‘ ہے، جہاں لڑکیوں کی شادی کی عمر ۱۲؍ سال مقرر ہے، اور ایک دوسری ریاست نیوہیمسفر‘‘ میں ۱۳؍ سال مقرر ہے۔
اگر ہندو مذہب کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں کم عمری کی شادی کی بہت حوصلہ افزائی کی گئی ہے، منوسمرتی میں ہے کہ لڑکی کے بالغ ہونے سے پہلے اس کی شادی کر دینی چاہئے، (گوتما: ۱۵۔۔۲۱) اور یہ کہ باپ کو چاہئے کہ اپنی لڑکی کی شادی اسی وقت کر دے جب وہ بے لباس گھوم رہی ہو؛ کیوں کہ اگر وہ بلوغت کے بعد بھی گھر میں رہے تو اس کا گناہ باپ کے سر ہوگا۔ (بہ حوالہ: many ix, 88,htpp:/www.payer.de.dharam shastra/dharmash083 htm)منوسمرتی میں میاں بیوی کی شادی کی عمر یوں مقرر کی گئی ہے: لڑکا ۳۰؍ سال اور لڑکی ۱۲؍ سال، یا لڑکا ۲۴؍سال اور لڑکی ۸؍ سال کی ۔
مہا بھارت میں شادی سے متعلق جو ہدایت دی گئی ہے، اس میں لڑکی کی عمر ۱۰؍ سال اور۷؍ سال ہے، جب کہ شلوکاس میں شادی کی کم از کم عمر ۴؍ سے ۶؍ سال اور زیادہ سے زیادہ ۸؍ سال مقرر ہے۔
آج کل برادران وطن رام جی کو سب سے آئیڈیل شخصیت مانتے ہیں تو رامائن سے پتہ چلتا ہے کہ رام اور سیتا کی شادی کے وقت سیتا کی عمر صرف چھ سال تھی (رامائن، ارینہ کانڈ، سرگ: ۴۷، اشلوک: ۱۱،۴،۱۰)
غرضیکہ کم عمری میں لڑکی کا نکاح اور بیوی وشوہر کے درمیان عمر کا فرق طرفین کی باہمی رضامندی ، معاشی رواج، موسم، صحت اور بلوغ سے متعلق ہے، مشرق ومغرب کے اکثر سماج میں کم عمر لڑکیوں کا نکاح ہوتا رہا ہے، مختلف مذہبی کتابوں میں نہ صرف اس کی اجازت دی گئی ہے؛ بلکہ اس کی ترغیب دی گئی ہے، اور خاص کر ہندو سماج میں اس کا رواج زیادہ رہا ہے، اور مذہب کی مقدس شخصیتوں نے اس عمر میں نکاح کیا ہے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...