Powered By Blogger

جمعہ, جون 17, 2022

اگنی پتھ ' کے خلاف مظاہرہ سے ریلوے بہار میں اسٹیشنوں پر تباہی ، 45 ٹرینیں رد

اگنی پتھ ' کے خلاف مظاہرہ سے ریلوے بہار میں اسٹیشنوں پر تباہی ، 45 ٹرینیں ردفوج بھرتی کو لے کر مجوزہ اگنی پتھ اسکیم کو لے کر بہار میں مظاہرین کے ذریعہ لگاتار تیسرے دن خوب ہنگامہ آرائی ہے۔ ریاست کے مختلف ریلوے اسٹیشنوں پر توڑ پھوڑ اور ہنگامہ ہوا، کئی ٹرینوں کو آگ لگا دی گئی۔ جمعہ کے روز ریلوے اسٹیشنوں پر ہونے والے پرتشدد مظاہرے کے سبب ایسٹ سنٹرل ریلوے میں ٹرینوں کی آمد و رفت بری طرح سے متاثر ہوئی ہے۔ اس درمیان ایسٹ سنٹرل ریلوے نے 45 ٹرینوں کو رد کر دیا ہے جب کہ کئی ٹرینوں کا راستہ بھی بدلا گیا ہے۔ ریلوے نے مختلف ریلوے اسٹیشنوں کے لیے ہیلپ لائن نمبر بھی جاری کیا ہے۔
اگنی پتھ منصوبہ کے خلاف جمعہ کی صبح سے ہی بہار میں مظاہرے نے مختلف ریلوے اسٹیشنوں پر پہنچ کر ہنگامہ شروع کر دیا۔ کئی مظاہرے اپنے چہرے چھپائے ہوئے تھے تاکہ ان کی شناخت نہ ہو سکے۔ اس دوران مظاہرین نے خوب توڑ پھوڑ کی۔ سمستی پور، لکھی سرائے، سوپول میں ٹرینوں کے نذر آتش کیے جانے کی خبریں موصول ہو رہی ہیں

ایسٹ سنٹرل ریلوے کے چیف پبلک رلیشن افسر ویریندر کمار نے جمعہ کو بتایا کہ دھرنا اور مظاہرہ کی وجہ سے ٹرینوں کی آمد و رفت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اب تک 45 ٹرینوں کو رد کیا گیا ہے جب کہ 17 ٹرینوں کا راستہ بدلا گیا ہے یا پھر منزل سے پہلے ہی اسے روک دیا گیا ہے۔ ویریندر کمار نے یہ بھی بتایا کہ ڈالٹن گنج، کوڈرما، دھنباد، کھگڑیا، حاجی پور، برونی، سہرسہ، دربھنگہ، گیا سمیت کئی اسٹیشنوں کے لیے ہیلپ لائن نمبر جاری کیے گئے ہیں جہاں لوگ فون کر کے حالات کی جانکاری لے سکتے ہیں۔

غیرت : ایک اچھی انسانی صفتمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ

غیرت : ایک اچھی انسانی صفت
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ
غیرت انسان کے ان اوصاف میں ہے، جو ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہے، غیرت کی وجہ سے بہن ، بیوی ، بیٹی، ماں اور وطن تک کی عزت وآبرو کا تحفظ ہوتا ہے ، یہ غیرت محبت کی بنیاد پر ہوتی ہے ،جس سے جتنی محبت ہوتی ہے ، آدمی اس کے سلسلے میں اتنا ہی با غیرت ہوتا ہے ، مسلمانوںکو اپنی جان ، عزت وآبرو ، ماں باپ سب سے زیادہ محبت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوتی ہے ، یہ ہمارے دین وایمان کا حصہ ہے، جب تک کسی کی محبت دنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ نہ ہو کوئی انسان کامل مسلمان نہیں ہو سکتا، محبت رسول کے سلسلے میں قرآن کریم اور احادیث رسول میں واضح ہدایات موجود ہیں اور ان کا تقاضہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں کوئی بھی گستاخی کرتا ہے تو اسے سخت سزا ملنی چاہیے، کسی خاص پارٹی سے نکال کر اسے تحفظ فراہم کرنا اس کے جرم کی سزا نہیں ہے، نفرت پھیلانے اور مسلمانوں کی دلآزاری کے جرم میں ہندوستان کے موجودہ قوانین میں جو سزا ہے وہ بھی دی جاتی تو غصہ کچھ ٹھنڈا ہوتا، لیکن اب غصہ کی یہ آگ ہندوستان کے ساتھ مسلم ممالک تک پھیل گئی ہے، یہ ہماری غیرت کا تقاضہ ہے کہ ہم ناموس رسالت کے تحفظ اور امہات المومنین کے تقدس کی بقاکے لیے ہندوستانی قانون کے دائرہ میں جو کچھ کر سکتے ہوں کریں، ہمیں حکومت کو یہ باور کرانا چاہیے کہ ہم سب کچھ برداشت کر تے رہے ہیں ،لیکن نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ ہے کہ ہم اس کو کسی بھی حال میں بر داشت نہیں کر سکتے، یہ معاملہ ایسا ہے جس پر ہم صبر کرہی نہیں سکتے، حکومت جتنی جلدی اس بات کو سمجھ لے ملک کے حق میں بہتر ہوگا، یہ تو رہی نبی صلی اللہ علیہ کی محبت اور غیرت کی بات، بے غیرت انسان کو ان چیزوں کی فکر نہیں ہوتی ، کسی کے ساتھ کچھ نا زیبا سلوک ہوجائے ، کسی کی عزت وآبرو داؤپر لگ جائے ، بے غیرت انسان کی پیشانی پر بل نہیں آتا ، او روہ ہر حال میں جو کچھ ہے اور جیسا کچھ ہے، قبول کرتا رہتا ہے ، لیکن با غیرت انسان، خاندان اور ملک وملت کی عزت کو بٹہ لگتا نہیں دیکھ سکتا ، اور اس کے بس میںجو کچھ ہوتا ہے کر گذرتا ہے، اس معاملہ میں عربوں کی غیرت وحمیت ضرب المثل رہی ہے ، مشہور ہے کہ ایک میاں بیوی کا جھگڑا مہر کی رقم کی مقدار پر ہو گیا ، معاملہ قاضی کے پاس گیا ، قاضی نے گواہ طلب کیا اور گواہ نے یہ شرط لگائی کہ پہلے عورت کا حجاب اتارا جائے؛ تا کہ میں اس کا چہرہ دیکھ کر بتاؤں کہ یہی عورت ہے، جس کے نکاح میں، میںموجود تھا، بس اتنی بات پر شوہر کی غیرت جاگ اٹھی ، وہ اس بات کو بر داشت نہیں کر سکا کہ اس کی بیوی کا چہرہ غیر مرد دیکھے، اس نے کہا: قاضی صاحب یہ نہیں ہو سکتا ، میری بیوی جتنے مہر کا دعویٰ کر رہی ہے میں اس کو دوں گا ، لیکن کوئی دوسرا اس کا چہرہ دیکھے یہ میرے لیے ناقابل بر داشت ہے ، بیوی نے شوہر کی یہ غیرت وحمیت دیکھی تو اس نے سارا مہر قاضی کو گواہ بنا کر ہی معاف کر ڈالا اور دونوں ہنسی خوشی گھر آگیے، غیرت کے اس قسم کے بہت سارے واقعات سے کتابیں بھری ہوئی ہیں۔
 آج بھی انسانوں میں غیرت باقی ہے، وہ اپنے خاندان کی عزت کے لیے سب کچھ داؤ پر لگا دیتا ہے ، اور معاملہ قتل وخوں ریزی تک جا پہونچتا ہے ، ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ غیرت کے حوالے سے کچھ اور باتیں کی جائیںآپ کویاد ہو گا کہ پاکستانی ماڈل قندیل بلوچی کے بارے میں یہ خبر آئی تھی کہ اس کے بھائی نے اس کی بے راہ روی کو دیکھ کر اس قندیل کو ہی بجھا دیا جو کبھی عمران خان سے شادی کی خواہش ظاہر کرتی ، کبھی اس کے اندر شاہد آفریدی کی قربت کی بھوک جاگتی اور کبھی ورلڈ کپ چمپین پاکستان کے بننے پر بر ہنہ ناچنے کا اعلان کرتی ، اس کی غلط حرکت اور اعلانات سے پورے خاندان کو شرمندگی اٹھانی پڑ رہی تھی، چنانچہ اس کے بھائی نے فوزیہ عظیم عرف قندیل بلوچ کو قتل کر دیا ۔
 غیرت کے نام پر قتل یا تشدد کے واقعات ہندوستان میں بھی وقوع پذیر ہوئے ہیں، پاکستان میں اس کا تناسب بہت ہے، اعداد وشمار کے حوالہ سے دیکھیں تو پاکستان میں ۱۹۹۹ء سے ۲۰۰۴ء تک چار ہزار ، ۲۰۰۵ء میں ایک ہزار، ۲۰۰۷ء میں انیس سو سنتاون افراد غیرت کے نام پر قتل کیے گیے ، اقوام متحدہ کی رپورٹ پر اعتماد کریں تو معلوم ہو گا کہ ہر سال پانچ ہزار خواتین اس غیرت کے نام پر موت کے گھاٹ اتاردی جاتی ہیں ، جبکہ بی بی سی کی رپورٹ اس سے چار گنا زیادہ یعنی بیس ہزار کی ہے ، ان میں زیادہ تر خواتین ہوتی ہیں؛ مگرمردوں کے قتل کے واقعات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ۔
 یہ حالات کیوں پیدا ہوئے ہیں؟ اور ہمارے لڑکے لڑکیاں غیرت وحمیت ، حیا وشرم کی چادر اتار کر بے غیرتی اور بے حیائی پر کیوںاتر آتی ہیں، اس کے اسباب کا جائزہ بھی لینا ضروری ہے، آج صورت حال یہ ہے کہ ثقافت اور کلچر کے نام پر ہمارے تعلیمی اداروں میں ناچ گانے عام ہیں ، چھوٹی چھوٹی بچیوں کو اسٹیج پر ناچنے کی مشق شروع سے ہی کرائی جاتی ہے ، موسیقی کی دھنوں اور گانے کے بول پر ان کے پاؤں تھرکنے لگتے ہیں، اسکولوں میں جویونی فارم بچیوں کو دیا جارہا ہے ، وہ ٹخنے سے اوپر تک کا اسکرٹ ہے، یہ کبھی کبھی اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ آگے جھکنے کی شکل میں پیچھے سے بے پردگی ہوجاتی ہے ، یہی حال لڑکوں اور نوجوانوں کے پینٹ کا ہے ، عموماًمسجدوں میں یہ نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ سجدے میں جانے کے بعد ستر پیچھے سے کھل جاتا ہے ، نماز پر اس کا اثر پڑتا ہے یا نہیں، اس بحث سے قطع نظر دیکھیں تو بھی یہ کیسی بے شرمی کی بات ہے ، اس کے علاوہ عصری تعلیمی اداروں میں مہمانوں کا استقبال کرنے کے لیے جوان لڑکیوں کو کھڑا کیا جاتا ہے ، گلدستہ اور بو کے پیش کرنا ہو تو عورتوں اور لڑکیوں کا انتخاب کیا جاتا ہے ، بعض اداروں میں بھی اب اس قسم کے مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں ، معزز مہمانوں کو ان کی نشست گاہ تک لے جانے کے لیے بھی خواتین اور لڑکیوں کا ہی استعمال کیا جاتا ہے اور اسے عزت افزائی کا بڑا ذریعہ سمجھا جاتا ہے ، یہ تو گھر سے باہر کا ماحول ہے ، گھر کے اندر ڈش انٹینا کے ذریعہ پھیلائی جا رہی فحاشی موبائل اور انٹر نیٹ پر ہزاروں فحش صفحات ، فحش ویڈیو کلپ یہ سب مل کر ہمارے لڑکے لڑکیوں سے حیا کی چادر اتروا دیتے ہیں ، اس کے علاوہ ماڈلنگ کی چکا چوندھ، کپڑے چھوٹے کرکے اور اتار کر زیادہ کمانے کی ہوس بے غیرتی کے دلدل میں دھنسنے پر مجبور کر دیتی ہے ، اب اگر بھائی ، باپ  ماں اور گھر کے دوسرے لوگوں میں غیرت وحیا باقی ہے تو ان کے لیے یہ سوہان روح ہوتا ہے ، اپنے بچیوں کی حرکات وسکنات سے وہ گھٹن محسوس کرتا ہے ، سماج میں اس کی بے وقعتی ہوتی ہے ، اس پر آوازے کسے جاتے ہیں ، ان سب کا اثر کبھی کبھی غیرت وحمیت کے نام پر قتل کی شکل میں سامنے آتا ہے۔
بر صغیر ہندوپاک کے تناظر میں دیکھیں تو ان ممالک کے اپنے قوانین ہیں ، تعزیرات کی اپنی دفعات ہیں اور ان میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے ، یوں بھی قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا کسی طور درست نہیں ہے ۔ لیکن ہم ان اسباب وعلل کو دور کرنے کے لیے کام کر سکتے ہیں اور اس میں کہیں بھی قانون رکاوٹ نہیں ہے ، اس لیے غیرت کے نام پر انتہا پسندی کے بجائے ہمیں سماج میں ایک ایسا ماحول بنا نا چاہیے اور تعلیمی اداروں سے لے کر گھر تک ایسا تربیتی نظام پروان چڑھانا چاہیے کہ حیا، غیرت وحمیت ہماری زندگی کا لازمی حصہ بن جائے کوئی کسی کی توہین کرنے کی جرأت نہ کرے،اس کے لیے سماج کے ہر طبقے کو آگے آنا ہوگا، صرف انسانی حقوق کے تحفظ اور اظہار رائے کی آزادی کے نام اس قسم کی حرکتوں کو برداشت نہیں کیا جا سکتا ۔

توہین رسالت : نماز جمعہ کے پیش نظر یوپی میں حفاظت کے سخت انتظامات ، الہ آباد چھاؤنی میں تبدیل

توہین رسالت : نماز جمعہ کے پیش نظر یوپی میں حفاظت کے سخت انتظامات ، الہ آباد چھاؤنی میں تبدیلالہ آباد: یوپی کے کئی شہروں میں گزشتہ جمعہ کو توہین رسالت کے خلاف ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے بعد آج نماز جمعہ کے پیش نظر ریاست بھر سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے ہیں۔ پی اے سی کی 132 کمپنیاں حساس علاقوں میں تعینات کی گئی ہیں۔ ریپڈ ایکشن فورس کے 10 یونٹ بھی تعینات کیے گئے ہیں۔ ڈرونز سے بھی ہر قدم پر نظر رکھی جا رہی ہے۔
الہ آباد میں احتجاج پر قدغن لگانے کے لیے سیکورٹی دستوں نے اس بار خصوصی انتظامات کیے ہیں۔ پولیس اور ریپڈ ایکشن فورس (آر اے ایف) کو ملٹی سیل لانچرز (ایم ایس ایل) فراہم کئے گئے ہیں۔ اس کی خاصیت یہ ہے کہ اس سے ربڑ کی گولیاں کے ساتھ آنسو گیس کے 6 گولے ایک بیک وقت داغے جا سکتے ہیں۔ الہ آباد راج کے تشدد زدہ علاقے میں پچھلی بار کے مقابلے کئی گنا زیادہ فورس تعینات کی گئی ہے۔

الہ آباد میں کل 10 ہزار فوجیوں کو تعینات کیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا کی خصوصی نگرانی کی جا رہی ہے۔ اس کی مانیٹرنگ کے لیے 72 ٹیمیں تعینات کی گئی ہیں جو واٹس ایپ گروپس، ٹوئٹر، فیس بک، انسٹاگرام وغیرہ پر نظر رکھ رہی ہیں اور دیکھ رہی ہیں کہ کہیں کوئی پوسٹ قابل اعتراض یا مذہبی جذبات بھڑکانے والی تو نہیں ہے۔

اس بار جمعہ کے لئے پولیس فورس کی تعداد میں مزید اضافہ کیا گیا ہے۔ کشیدہ علاقوں میں 20 زونل اور 50 سیکٹر مجسٹریٹس کی ٹیم آر اے ایف، پولیس، پی اے سی کے اہلکاروں کی بڑی تعداد کے ساتھ تعینات ہے۔ ہر آنے جانے والے کی کڑی نگرانی کی جا رہی ہے اور علاقے میں سی سی ٹی وی کیمروں سے نظر رکھی جا رہی ہے اور ویڈیو گرافی کی جا رہی ہے۔

الہ آباد میں رضاکار اور سیکورٹی ایجنسیوں کے لوگوں کو بھی تعینات کیا گیا ہے۔ 300 اضافی سی سی ٹی وی کیمروں اور 4 ڈرون کیمروں سے نگرانی کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ 200 سے زائد ویڈیو گرافرز کی ڈیوٹی بھی لگائی گئی ہے۔ ایس ایس پی اجے کمار اور ڈی ایم سنجے کھتری نے بھی مذہبی رہنماؤں سے اپیل کی ہے کہ نماز ادا کرنے کے بعد لوگ اپنے گھروں کو جائیں۔ گزشتہ جمعہ کے مقابلہ الہ آباد میں 15-16 گنا زیادہ فورس تعینات کی گئی ہے۔

بلڈوزر معاملے کو لے کر سپریم کورٹ کا اترپردیش حکومت کو نوٹس ، 3 دن میں طلب کیا جواب

بلڈوزر معاملے کو لے کر سپریم کورٹ کا اترپردیش حکومت کو نوٹس ، 3 دن میں طلب کیا جوابنئی دہلی: بی جے پی کی سابق ترجمان نوپور شرما کے متنازعہ بیان پر ہوئے تشدد میں یوپی حکومت کی کارروائی کو لے کر جمعرات کو سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی۔ سپریم کورٹ کے جسٹس بوپنا اور وکرم ناتھ کی بنچ نے اس معاملے کی سماعت کی۔ سماعت مکمل ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے یوپی حکومت کو نوٹس جاری کیا۔ اس کے ساتھ ہی عدالت نے یوپی حکومت سے 3 دن میں جواب طلب کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے یوپی میں بلڈوزر کارروائی پر حکومت سے جواب مانگا ہے۔ نوٹس میں سپریم کورٹ نے حکومت اتر پردیش سے پوچھا ہے کہ کیا بلڈوزر کارروائی قانونی عمل کے تحت کی گئی ہے یا نہیں؟ سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے یوپی حکومت سے واضح طور پر کہا کہ کوئی بھی توڑ پھوڑ کی کارروائی قانون کے طریقہ کار کے مطابق کرنی چاہیے۔

جمعرات, جون 16, 2022

دہلی سے پٹنہ تک:’اگنی پتھ‘ اسکیم کے خلاف پرتشدداحتجاجض

 

دہلی سے پٹنہ تک:’اگنی پتھ‘ اسکیم کے خلاف پرتشدداحتجاج

نئی دہلی،پٹنہ:مرکزی حکومت کی اگنی ویر اسکیم کے خلاف احتجاج کا دائرہ بڑھتا جارہاہے۔ پہلے بہار میں احتجاج ہواپھراب راجدھانی دہلی سے بھی مظاہرے کی خبر آرہی ہے۔ راجدھانی کے نانگلوئی ریلوے اسٹیشن پر نوجوانوں نے ٹرین روک کر احتجاج کیا۔ایسی ہی خبر گروگرام سے بھی آئی ہے۔ ۔فوج میں بھرتی کے لیے مرکزی حکومت کی اگنی پتھ اسکیم کے خلاف دوسرے دن بھی مظاہرے جاری ہیں۔ خاص کر بہار میں نوجوان مرکز کی نئی اسکیم کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔

جمعرات کو ریاست کے جہان آباد، نوادہ اور سہرسہ میں مظاہروں کی خبریں آ رہی ہیں۔ جہان آباد کے نوجوانوں نے اگنی پتھ اسکیم کے خلاف احتجاج میں کاکو موڑ کے قریب این ایچ-83 اور این ایچ-110 کو آگ لگا کر بلاک کر دیا اور مرکزی حکومت کے خلاف نعرے لگائے۔

یہاں کچھ نوجوانوں نے ریلوے ٹریک پر دھرنا دیا جس کی وجہ سے پٹنہ گیا ریلوے لائن پر ٹریفک میں خلل پڑا۔ جہان آباد میں ٹریک بلاک کرنے والے طلباء نے ٹرین پر پتھراؤ کیا۔

اس واقعے میں کئی لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ جہان آباد اسٹیشن کے قریب پتھراؤ کیا گیا جس کے بعد پولیس نے طلبہ کا ہٹایا اور ریلوے ٹریک کو کلیئر کرایا۔

یہاں نوادہ، آرہ اور سہرسہ میں بھی نوجوانوں کا ریلوے اسٹیشن اور سڑک پر مظاہرہ جاری ہے۔ آرہ میں نوجوانوں نے ریلوے اسٹیشن پر ہنگامہ آرائی کی جس کے بعد پولیس نے آنسو گیس کے شیل فائر کر کے انہیں بھگا دیا۔

یہاں سہرسہ میں امیدواروں نے فوج میں بھرتی کے امتحان کو منسوخ کرنے اور عمر کی حد میں کمی کے خلاف احتجاج میں ٹرین روک کر احتجاج کیا۔

امیدواروں نے دہلی جانے والی کلون ہمسفر، ویشالی سپرفاسٹ اور پٹنہ جانے والی راج رانی سپرفاسٹ ٹرینوں کو گھنٹوں روک رکھا ہے۔

اسی وقت کیمور ضلع میں نوجوانوں کے احتجاج کی خبریں آرہی ہیں۔ ضلع کے بھبوا روڈ اسٹیشن پر نوجوانوں کے ذریعہ ٹرینوں کی توڑ پھوڑ کی جارہی ہے۔ پتھراؤ سے انٹرسٹی ایکسپریس کے کئی شیشے ٹوٹ گئے۔ مظاہرین نے ٹرین کی بوگی کو بھی آگ لگا دی۔

بدھ کو بہار کے مظفر پور، آرا، بکسر، بیگوسرائے میں احتجاج کی اطلاعات ہیں۔ بہار کے کیمور ضلع میں نوجوانوں کے مظاہرے کی خبریں آ رہی ہیں۔

ضلع کے بھبوا روڈ اسٹیشن پر نوجوانوں کے ذریعہ ٹرینوں کی توڑ پھوڑ کی جارہی ہے۔ پتھراؤ سے انٹرسٹی ایکسپریس کے کئی شیشے ٹوٹ گئے۔ مظاہرین نے ٹرین کی بوگی کو بھی آگ لگا دی۔

وارث علی گنج کی ایم ایل اے ارونا دیوی عوامی کام کے لیے نوادہ آرہی تھیں۔

اس دوران مشتعل لوگوں نے ایم ایل اے کی گاڑی پر حملہ کر دیا۔ کار میں موجود ایم ایل اے بال بال بچ گئیں۔ وہ جان بچانے کے لیے بھاگیں۔

یہ واقعہ نوادہ کے تین نمبر بس اسٹینڈ کے قریب پیش آیا۔ اچانک 15 سے 20 نوجوان وہاں پہنچے اور گاڑی پر حملہ کرنا شروع کر دیا۔ یہ نوجوان مرکزی حکومت کی اگنی ویراسکیم کے خلاف تھے

پروفیسر اسلم آزاد ___ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ

پروفیسر اسلم آزاد ___
 مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ
 سابق صدر شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی، نامور شاعر، ادیب اور نقاد، مسلم مسائل پر بے باکانہ اظہار خیال کے لیے مشہور، سابق ایم ایل سی ، بہار قانون ساز کونسل میں جنتادل یونائیڈ کے سابق ڈپٹی لیڈر پروفیسر اسلم آزاد کا طویل علالت کے بعد ۸؍ نومبر ۲۰۲۲ء بروز بدھ بوقت گیارہ بجے دن آل انڈیا میڈیکل انسٹی چیوٹ  (AIMS)پٹنہ میں انتقال ہو گیا، گذشتہ سال کورونا کے شکار ہونے کے بعد سے ان کی صحت مسلسل گرتی جا رہی تھی، دہلی کے سرگنگا رام اور میکس اسپتال میں جانچ کے بعد معلوم ہوا کہ وہ کینسر کے شکار ہیں، ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تو وہ پٹنہ لوٹ آئے، مشہور معالج وجے پرکاش کا علاج جاری رہا، طبیعت زیادہ بگڑی تو ان کو تین دن قبل پٹنہ ایمس میں بھرتی کرایا گیا تھا، جہاں انہوں نے آخری سانس لی، ان کا جنازہ ان کے آبائی گاؤں مولا نگر پوپری ضلع سیتامڑھی لے جایا گیا، نماز جنازہ بدھ کے روز ہی رات کے نو بجے مولانا سعید احمد نقشبندی صاحب نے پڑھائی اور وہیں مقامی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں اہلیہ تین لڑکے اور دو لڑکیوں کو چھوڑا، سب بر سر روزگار ہیں۔
 پروفیسر اسلم آزاد بن کاتب محمد عباس سابق مکھیا مولیٰ نگر کے گھر ۱۲؍ دسمبر ۱۹۴۸ء کو مولیٰ نگر، آواپور ضلع سیتامڑھی میں پیدا ہوئے ، ان کی ابتدائی تعلیم پوپری میں ہوئی، وہاں سے وہ پٹنہ منتقل ہو گیے اور۱۹۶۹ء میں پٹنہ یونیورسیٹی سے ایم اے کیااور تحقیق کی دشوار گذار وادیوں کو عبور کرکے ’اردو ناول آزادی کے بعد‘‘ کے موضوع پر ۱۹۷۴ء میں پی اچ ڈی کی ڈگری پائی، تعلیم وتدریس، ادب وشاعری، سماجی اور سیاسی خدمات سے انہیں خاص دلچسپی تھی۔
 انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز ۱۹۸۳ء میں لوک دل کے ریاستی نائب صدر کی حیثیت سے کیا، ۱۹۸۹ء تک وہ اس عہدہ پر فائز رہے، ۱۹۹۱ء میں وہ سماج وادی جنتا پارٹی کے ریاستی جنرل سکریٹری رہے، ۱۹۸۵ء میں انہوں نے رونی سید پور حلقہ سے لوک دل کے اسمبلی امیدوار اور ۱۹۹۱ء میں سیتامڑھی لوک سبھا حلقہ سے سماج وادی جنتا پارٹی کے ٹکٹ پر انتخاب میں حصہ لیا ، ۱۱؍ مئی ۲۰۰۶ء سے ۲۰۱۲ء تک وہ جنتا دل کی طرف سے ایم ایل سی رہے۔
حصول تعلیم کے بعد پروفیسر اسلم آزاد نے تدریسی زندگی کا آغاز بھی۱۹۷۵ء میں پٹنہ سے کیا اور ترقی کرتے ہوئے ۱۹۹۰ء میں پہلی مرتبہ پٹنہ یونیورسٹی کے صدر شعبہ اردو مقرر ہوئے، ۲۰۱۴ء میں ملازمت کی مدت پوری کرکے سبکدوش ہوئے۔
 اللہ رب العزت نے انہیں تصنیف وتالیف کی اچھی صلاحیت عطا فرمائی تھی ایک شاعر، ادیب ، نقاد اور مضمون نگار کی حیثیت سے ان کی اپنی شناخت تھی، ان کے مضامین اور اشعار ملک وغیر ملک کے رسائل وجرائد میں چھپا کرتے تھے، ان کی تصنیفات وتالیفات میں اردو ناول آزادی کے بعد، عزیز احمد بحیثیت ناول نگار، قرۃ العین حیدر بحیثیت فکشن نگار، آنگن ایک تنقیدی مطالعہ، اردو کے غیر مسلم شعراء اور ان کی شاعری کا مجموعہ ’نشاط کرب‘‘ اور ’’مختلف‘‘ خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔
 اسلم آزاد مجھ سے ذاتی طور پر محبت کرتے تھے، برسوں کے تعلقات تھے، جب ملتے تو مجھے ادبی مضامین لکھنے پر ابھارتے ، جو تحریریں چھپ چکی ہوتیں اس پر حوصلہ افزائی کے کلمات کہتے، انہوں نے میری کتاب ’’یادوں کے چراغ جلد دوم ‘‘ کے فلیپ پر جو حوصلہ افزا کلمات لکھے وہ ان کی محبت اور تعلق کا بہترین نمونہ ہے، لکھتے ہیں:’’مولانا محمد ثناء الہدیٰ قاسمی بہار کے نامور عالم دین، ادیب اور دانشور ہیں بے حد سنجیدہ، مہذب اور با وقار شخصیت کے حامل ، ان کی ادبی اور علمی نگارشات کو پڑھ کر میں ورطۂ حیرت میں غرقاب ہو گیا، کیوں کہ کسی عالم دین سے ادبی موضوعات پر اتنے گہرے مطالعہ کی مجھے قطعی امید نہیں تھی۔‘‘
 یادوں کے چراغ میں ۶۹؍ شخصیات پر لکھے گیے مضامین شامل ہیں، جنہیں سوانحی خاکہ کہا جا سکتا ہے، یہ مضامین متعقلہ شخصیتوں کی حیات کے بیش تر حصوں کا احاطہ کرتے ہیں۔ سارے مضامین بے حد معلوماتی او روقیع ہیں، ان کی زبان شستہ ، سلیس ، رواں اور بے حد تخلیقی ہے‘‘۔
ایسے محبت کرنے والے شخص کا جدا ہوجانا ادبی اور سیاسی دنیا کا بڑا نقصان تو ہے ہی ، مجھے لگتا ہے کہ یہ میرا ذاتی نقصان ہے، میں نے ایک محبت کرنے والے شخص کو کھو دیا ہے، بے غرض ، بے لوث، محبت کرنے والے اب ملتے کہاں ہیں۔اسلم آزاد نے کہا تھا  ؎
میرے سجدوں سے منور ہے تیری راہ گذر 
میری پیشانی پہ روشن ہے صداقت میری

10 جون جمعہ کو بھارت بند کا ذمہ دار کون

10 جون جمعہ کو بھارت بند کا ذمہ دار کون

نوجوانوں کے مستقبل کی تباہی کا ذمہ دار کون؟

تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاوید اختر بھارتی

جمعہ کا دن تمام دنوں کا سردار ہے اسی لئے جمعہ کے دن کو چھوٹی عید بھی کہا جاتا ہے جس طرح اس دنیا میں کسی مذہب میں سنیچر تو کسی مذہب میں اتوار تو کسی مذہب میں منگل کے دن کو اہمیت حاصل ہے اور خوشی کا دن مانا جاتا ہے اسی طرح مذہب اسلام کے اندر جمعہ کے دن کو بڑی فضیلت حاصل ہے یعنی یوم الجمعہ سید الایام ہے تو ظاہر بات ہے مسلمانوں کو جمعہ کے دن بڑی خوشی رہتی ہے کہ چلو آج پوری بستی کے لوگوں سے ملاقات ہوجائے گی اور خیریت بھی معلوم ہو جائے گی شادی وغیرہ کی تقریبات تو جمعہ کے دن لوگ نہیں رکھتے ہیں حالانکہ ممنوع نہیں مگر اس دن کچھ دوسرے طرح کی مصروفیات ہوتی ہیں دینی و دنیاوی، سیاسی و سماجی تقریبات کا انعقاد تو اکثر جمعہ کے دن ہوتا ہے اور شائد اسی کا کسی نے غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے 10 جون جمعہ کے دن بھارت بند کا اعلان کردیا کہیں کوئی اشتہار تو نظر نہیں آیا لیکن سوشل میڈیا پر فیس بک، واٹس ایپ وغیرہ پر پوسٹ نظر آئی کہ گستاخ رسول نوپور شرما کے خلاف 10 جون جمعہ کو بھارت بند رہے گا کس کے زیرِ انتظام، کس کے زیرِ اہتمام،، نہیں معلوم،، نہ کسی تنظیم کا نام اور نہ ہی کسی عالم کانام،، نتیجہ یہ ہوا کہ 10 جون کو جمعہ کی نماز کے بعد ملک کے مختلف علاقوں میں نوپور شرما کے خلاف مسلمان سڑکوں پر اتر آئے اور احتجاج کرنے لگے اور نوپور شرما کی گرفتاری کا مطالبہ کرنے لگے مگر دیکھتے ہی دیکھتے حالات بدل گئے یعنی ہنگامی حالت پیدا ہوگئے کہی لاٹھی چارج ہوئی تو کہیں فائرنگ ہوئی اور اس کے بعد گرفتاری کا سلسلہ شروع ہوگیا یعنی سڑکوں پر اترے کسی کی گرفتاری کے لئے اور خود گرفتار کئے جانے لگے اس دوران دو لوگوں کی گولی لگنے سے موت بھی ہوگئی اتنا سب کچھ ہوجانے کے بعد بھی اب تک یہ نہیں معلوم ہوسکا کہ بھارت بند کا اعلان کس نے کیا تھا بلکہ لگتا تو ایسا ہی ہے کہ بھارت بند کا اعلان بھی چند فرقہ پرستوں کی سازش تھی جو بھائی کو بھائی سے لڑانا چاہتے ہیں، جو پڑوسیوں کو پڑوسیوں کا دشمن بنانا چاہتے ہیں، جو ملک میں فرقہ پرستی کی آگ لگانا چاہتے ہیں، جو نوجوانوں کا مستقبل تباہ کرنا چاہتے ہیں اور ساتھ ہی مسلمانوں کو بدنام کرنا چاہتے ہیں اور ہوا بھی ایسا ہی کہ کسی ماں کی گودی اجڑگئی، کسی باپ نے اپنا بیٹا کھودیا اور ہزاروں کی تعداد میں مسلم نوجوانوں کا مستقبل تاریکیوں میں ڈوب گیا پولیس نے بھی ظلم و بربریت کی انتہا کردی اور نہ جانے کتنے گھروں پر بلڈوزر چلادیا گیا لوگ ایک گھر بنانے میں ٹوٹ جاتے ہیں اور کوئی بستیاں اجاڑ کر مسکراتا ہے،، نوپور شرما نے رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی وہ قابل مذمت ہے، ناقابل معافی و ناقابلِ برداشت ہے مگر جوش کے ساتھ ہوش نہیں کھونا ہے،، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارت بند کا ذمہ دار کون، گرفتاریوں کا ذمہ دار کون، مسلمانوں کی بے رحمی کے ساتھ پٹائی کا ذمہ دار کون، ان کے مستقبل کی تباہی کا ذمہ دار کون، اب کون ان کی رہائی کرائے گا، زخمیوں کا علاج کون کرائے گا، ان کے گھر کے لوگ خون کے آنسو رورہے ہیں انہیں تسلی کون دے گا، جس ماں نے اپنا لعل اور جس باپ نے اپنا لخت جگر کھویا ہے انہیں سہارا کون دےگا یہ تمام سوالات کے جوابات کون دے گا؟ اب آئیے مسلمانوں کو تو تعلیم دی گئی ہے کہ اگر تین آدمی کا قافلہ ہوتو ایک کو امیر بنالو مگر یہاں کوئی امیر نہیں، کوئی قیادت نہیں، کوئی لیڈر نہیں پھر بھارت بند کا اعلان ہوا کیسے اور کیا کس نے اس کا پتہ لگانا ضروری ہے،، آئین کے دائرے میں رہ کر احتجاج کرنا یہ تو جمہوریت کی شان ہے اور احتجاجیوں پر لاٹھیاں برسانا، انہیں گرفتار کرکے مخصوص قانون کے تحت کارروائی کرنا اور ان کے مکانات کو بلڈوزر کے ذریعے منہدم کردینا یہ جمہوریت کو کچلنے کے مترادف ہے اور یہ سب کچھ ایک خاص مذہب کے ماننے والوں کے ساتھ کرنا ناانصافی اور ظلم ہے،، ضرورت تو اس بات کی بھی ہے کہ مذہبی بنیاد پر ڈیبیٹ پر پابندی عائد کی جائے اور جو بھی نیوز چینل مذہبی ڈیبیٹ کرائے تو اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے اور ڈیبیٹ میں جانے والوں کو بھی کچھ شرم و حیا ہونی چاہئے کہ ہمارا لحجہ کیا ہے، ہم کس انداز سے گفتگو کررہے ہیں، ہم کسی کو سمجھا رہے ہیں یا کسی کو اکسا رہے ہیں نوپور شرما نے شان رسول میں جو گستاخی کی ہے اس میں یہ ڈیبیٹ میں جانے والے نام نہاد علما بھی برابر کے شریک ہیں ان کے خلاف بھی ایف آئی آر ہونی چاہئے اور ان کی بھی گرفتاری ہونی چاہئے کیونکہ آج جو ملک کے حالات ہیں اور جو بھارت بند ہوا لوگ سڑکوں پر اترے ان پر لاٹھیاں برسیں، گرفتاریاں ہوئیں، دو لوگوں کی جانیں گئیں اور ہزاروں کی تعداد میں مسلم نوجوانوں کا جو مستقبل تباہ ہوا اس کے ذمہ دار صرف اور صرف یہی وہی مکار اور لفافوں کے لالچی علماء ہیں جو ڈیبیٹ میں جاتے ہیں، کبھی تھپڑ کھاتے ہیں تو کبھی جوتے کھاتے ہیں بدلے میں لفافہ لیتے ہیں اور پوری قوم مسلم کا بیڑہ غرق کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور اسلام کی شبیہ کو خراب کرنے پر آمادہ ہیں یاد رکھیں کہ نیوز چینلوں پر جاکر تم اپنے علم کا اور صلاحیت کا لوہا نہیں منواسکتے بلکہ تمہاری جہالت، تمہاری مفاد پرستی اور مکاری کی پول کھل سکتی ہے اور کھلنا شروع بھی ہوگئی ہے-

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...