Powered By Blogger

منگل, جون 21, 2022

حج: سفر محبت وعبادت__

حج: سفر محبت وعبادت__
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ(9431003131)
    اسلام کی بنیاد پانچ  چیزوں پرہے،ایمان لانا،اورایمان کے بعدنمازپڑھنا،روزہ رکھنا،بعض شرائط وقیودکے ساتھ سب پرفرض ہے،مردہویاعورت،جوان ہویابوڑھا،فقیرہویامالدار،سب ایک صف میں ہیں،چونکہ یہ کام سب کرسکتے ہیں،بعض مخصوص حالات میں جولوگ نہیں اداکرسکتے ہیں ان کوچھوٹ دی گئی ہے یااعذارختم ہونے کے بعدادائیگی کاحکم دیاگیاہے،زکوٰۃ اورحج سب پرفرض نہیں کیاگیاہے،کیونکہ ان کاتعلق مال سے ہے،اورسب مال والے نہیں ہیں،پھرجن کے پاس مال ہے،اس کے اوپرزکوٰۃفرض کرنے کے لیے نصاب کی شرط لگائی گئی اورحج فرض کرنے کے لیے مالداری کے ساتھ استطاعت کی قیدلگائی گئی،اس لیے کہ حج میں سفرکرنابھی ہوتاہے اورمال بھی خرچ کرنا،اب اگرآدمی بیمارہے،تندرست نہیں ہے توخودسفرنہیں کرسکتاقیدمیں ہے توسفرکی اجازت ہی نہیں۔تندرست وتوانااورآزادہے لیکن راستہ پرامن نہیں ہے۔راجح قول کے مطابق عورت کے ساتھ کوئی محرم جانے والانہیں ہے یاعورت عدت میں ہے،توبھی سفرممکن نہیں؛اس لیے اس پرحج فرض نہیں،سب کچھ موجودہے، سفرخرچ اورواپسی تک بال بچوں کے نفقہ کی صورت نہیں بنی توبھی حج کرناممکن نہیں اوراللہ رب العزت اپنے فضل سے بندوں پر اسی قدرفرض کرتاہے جس کی ادائیگی پروہ قدرت رکھتاہو،اب قدرت وطاقت ،صحت ،مال ودولت اورہرقسم کی مطلوبہ استطاعت ہوتواللہ اپنے گھرکی طرف بلاتاہے،سب کچھ اللہ ہی کادیاہواہے،ایسے میں وہ یوںہی بلالے کچھ نہ دے اورکوئی وعدہ نہ کرے تب بھی سرکے بل جاناچاہیے،دوڑناچاہیے،لیکن یہ اللہ رب العزت کاکتنابڑافضل اورکرم ہے کہ سب کچھ دے کرکہتاہے کہ آؤمیرے گھر،احرام باندھو،طواف کرو،سعی کرو،حجراسودکااستلام کرو،رکن یمانی کوچھوؤ،زمزم پیو،صفاومروہ کی سعی کرو،عرفہ،مزدلفہ میں وقوف کرو،منیٰ میں رات گذارو،شیطان کوکنکری مارو،قربانی کرو،ہم اس کے بدلے تمہیں جنت دیںگے،وہ جنت جس کے لیے تم پوری زندگی ہماری عبادت کرتے رہتے ہو،اس پوری زندگی کامطلوب صرف ایک حج مقبول میں تمہیں دیںگے،تم نے اس سفرمیں کوئی غلط کام نہیں کیا،جھگڑانہیں کیا،شہوانی خواہشات سے مغلوب نہیں ہوئے توایسے پاک صاف ہوکرگھرلوٹوگے جیسے آج ہی تم ماں کے پیٹ سے معصوم پیداہوئے ہو،اس کے علاوہ اوربھی انعامات تمہیں ملیں گے،تمہارے اندردنیاسے بے توجہی پیداہوجائے گی،آخرت کی فکراوررغبت تمہاری زندگی کاحصہ بن جائے گی،تم نے جومال خرچ کردیا،وہ تمہارے لیے فقروفاقہ کاباعث نہیں بنے گا؛بلکہ اللہ تعالی اپنے فضل سے تمہیں اوردے گا،غنی بنادے گا،اتنادے گاکہ بے نیازہوجاؤگے،تمہیں ہرقسم کی عصبیت اورامتیازکی بیماری سے پاک کردے گا،ریا،نمودونمائش کاجذبہ ختم ہوجائے گا،اللہ تعالی کے اس اعلان فضل ونعمت کے بعدبھی دوسرے ارکان کی ادائیگی کی طرح حج میں جانے میں کوئی کوتاہی کرتاہے تویہ بڑی محرومی اوربدبختی کی بات ہے،یقیناًحج زندگی میں ایک بارفرض ہے،لیکن فرض ہونے کے بعدساقط نہیں ہوتاہے اورکیامعلوم اگلی زندگی کیسی ہوگی،ابھی اللہ کے انعام کی قدرنہیں کیااوربعدمیں مال ہی جاتارہا یاصحت ہی باقی نہ رہی تویہ فرض رہ جائے گا،اس لیے انتظارکرناکہ ملازمت سے سبکدوش ہوجائیں تب اللہ کے بلاوے پرلبیک کہیں گے اورسب گناہ سے رک جائیںگے،یہ شیطان کابہلاواہے کہیں اس کے پہلے ہی بلاواآگیااورکون جانتاہے کہ کب بلاواآئے گا،مرنے کی کوئی عمرنہیں ہوتی اورکوئی نہیں جانتا کہ کب اورکس وقت ملک الموت اپناکام کرجائیںگے  اس لیے جوزندگی دی گئی ہے اورجومال ودولت ،صحت وعافیت فراہم ہے،اس کی قدرکرنی چاہئے اوربلاتاخیراللہ کے اس بلاوے پردوڑجاناچاہیے،ہمارے بعض بھائی اس اہم رکن کی ادائیگی کواس لیے ٹالتے ہیںکہ بچی کی شادی کرنی ہے حج الگ فرض ہے اوربچی کی شادی الگ ذمہ داری ہے؛ خصوصاًاس شکل میں جب کہ لڑکی ابھی سیانی؛ نہیں ہوئی ہے، ذمہ داری ہی اُس کام کی نہیں آئی،ایسے میں کہا کی عقل مندی ہے کہ ایک فرض کوآئندہ والی ذمہ داری کے نام پرٹالاجائے۔یہی حال مکان کی تعمیر،زمین کی خریدگی،اوردوسرے گھریلومعاملات کاہے،جن کے نام پرشیطان بہکاتارہتاہے،اورحج مؤخرہوتارہتاہے،اورپھروہ وقت بھی آجاتاہے کہ ادائیگی کی شکل باقی نہیں رہتی۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاکہ جس شخص کے پاس کوئی عذرنہ ہو،استطاعت بھی ہو،سخت حاجت بھی درپیش نہ ہو،ظالم بادشاہ اورمرض نے بھی نہ روکاہواوروہ حج کے بغیر مرگیاتویہودی ہوکرمرے یانصرانی ہوکرمرے ،مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں۔اللہ کی پناہ کس قدرسخت وعیدہے۔اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔
حج کے سفرکی تیاری کازمانہ آگیاہے اللہ کے اس بلاوے پردوڑنے کے لیے تیارہوجائیے،نیت کوخالص کیجئے،گناہوں ںسے توبہ کیجئے،اگروالدین آپ کی خدمت کے محتاج ہوں توان سے بھی اجازت لیجئے،امانت ووصیت سے فارغ ہولیجئے،حقوق کی ادائیگی پرتوجہ دیجئے،اچھے رفیق سفرکاانتخاب کیجئے،حج کے مسائل سیکھئے،حج کمیٹی والے تربیتی کیمپ لگواتے ہیں،اس کی حاضری کویقینی بنائیے کہ یہ بھی حج کے مسائل سیکھنے کااچھاذریعہ ہے،جلدی کیجئے،صحت ودولت کوغنیمت جانیئے ،دوڑیئے،تیزی دکھائیے،اپنے ساتھ اپنے دوستوں کو بھی تیارکیجئے،آپ کی رفیق حیات دکھ سکھ میں آپ کے ساتھ رہتی ہیں،اللہ نے ان پربھی حج فرض کیاہے اورنہ بھی کیاہواوراستطاعت ہوتوضرورلے جایئے،اس لیے کہ وہ اپنے سفرمیں محرم رفیق سفرکی محتاج ہوتی ہیں اور خدا معلوم آئندہ انہیں کوئی محرم ملے یانہ ملے،اس لیے حق رفاقت کاتقاضہ ہے کہ اللہ کی بندیوں کوبھی اس سفرمیں ساتھ لیجئے،تاکہ وہ بھی اللہ تعالی کے انعامات واکرام سے فائدہ اٹھاسکیں،ان خیالات کی تشہیربھی کیجئے،لکھنے کی صلاحیت ہوتومضمون کے ذریعہ ،بولنے کی صلاحیت ہوتوتقریرکے ذریعہ،مجلسی گفتگومیں ممتازہوں تواسے موضوع گفتگوبنائیے،ائمہ حضرات مساجدکے منبرومحراب سے بھی اسلام کے اس اہم رکن کی ادائیگی کے لیے ترغیب دیں،تاکہ مسلمانوں میں جو سستی پائی جاتی ہے وہ دورہو۔آقاصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاکہ بھلائی کی طرف رہنمائی کرنے والابھی اس خیرکے کرنے والے کی طرح ہے یعنی وہ بھی ثواب میںبرابرکاشریک ہوگا۔اس لیے اس پیغام کوہرسطح پرعام کیجئے اوراجرکے مستحق ہوجائیے،نسخہ آسان بھی ہے اورقابل عمل بھی ہے۔
اس سفر محبت وعبادت سے آپ لوٹ کر آئیں گے تو اپنے ساتھ جنت کا تحفہ اور گناہوں سے پاک ہونے کا مژدہ لے کرلوٹیں گے، حج کے اس سفر محبت وعبادت میں آپ نے کعبہ کی تجلیات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، مکہ کی بابرکت سرزمین منی، عرفہ، مزدلفہ، کے وقوف اور جمرات کی رمی نے آپ کے نفس امارہ کو مار ڈالا ہوگا، حب رسول سے سرشار، مسجد نبوی میں ادا کی گئی کم وبیش چالیس وقت کی نمازوں اور مواجہہ شریف کے در ود وسلام نے آپ کے اندر جو روحانیت پیدا کی ہے، اس کو پوری زندگی باقی رکھیے، حج کو بدنام نہ کیجئے، کھجور اور زمزم کے ساتھ وہ تحفہ بھی بانٹیے گا؛ جس میں آپ کو کچھ خرچ کرنا نہیں پڑا ہے، یہ و ہ منافع ہیں جن کو آپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، ان میں سے ایک اللہ پر توکل اور اعتماد کا ہے، آپ کا یہ سفر اللہ کے بھروسے ہی پورا ہے، چلنے کی سکت نہیں تھی، لیکن آپ نے طواف وسعی اللہ بھروسے کر لیا ہے، آپ نے وہاں ساری دنیا سے آئے الگ الگ مسلک اور مشرب کے لوگوں کو دیکھا ، سب اپنے اپنے طریقے پر عبادت کرتے ہیں، کوئی کسی کو بُرا بھلا نہیں کہتا، فروعی مسائل میں اختلاف کے با وجود اتحاد امت کا یہ بڑا سبق حاجی اپنے ساتھ لے کر آتاہے، ہندوستان کے پس منظر میں خصوصیت سے اس کا تذکرہ کرنا چاہیے، اس کے علاوہ تحمل اور بر داشت جن کا مظاہرہ قدم قدم پر آپ نے کیا اور دوسروں کو کرتے دیکھا ، اسے بھی لوگوں میں بانٹیے، تعصب سے پاک سماج اور خالص اللہ کی عبادت کا پیغام بھی حج کا خاص تحفہ ہے، جو اللہ کی میزبانی میں آپ کو عطا ہوا ہے، حج کے اس سفر کا بڑا فائدہ انسان کے اندر سے امتیاز کی بیماری کو ختم کرنا ہے، سلے ہوئے کپڑے کے ڈیزائن سے امتیاز پیدا ہوتا ہے، احرام کے دوبغیر سلے ہوئے کپڑے، کفن کی طرح پہن کر تمام عازمین میں یکسانیت پیدا کردی گئی،لبیک کا ترانہ عربی میں پڑھ کر زبان کا امتیاز ، منی عرفہ کے خیموں میں ٹھہر کر مکان کا امتیازختم کرایا گیا اور مزدلفہ میں کھلے آسمان کے نیچے رات گذار کر ایسے غریبوں کی پریشانیوں کا احساس جن کے سر پر چھت نہیں ہے، آپ نے کیا ہے، اس احساس  کی قدر کیجئے، خود بھی عمل کیجئے اور دوسروں تک بھی پہونچائیے۔

اب ایسا لگتا ہے ملک میں عدالتوں کی کوئی ضرورت نہیں ؟

اب ایسا لگتا ہے ملک میں عدالتوں کی کوئی ضرورت نہیں ؟

مذہبی عبادت گاہوں سے متعلق قانون سے چھیڑچھاڑکے خطرناک نتائج ہوسکتے ہیں ، جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ کے اجلاس سے مولانا ارشد مدنی کا خطاب

نئی دہلی: جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ نے ملک کی موجودہ صورتحال پر سنجیدگی سے غور وخوض کرتے ہوئے ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ واریت، شدت پسندی، امن وقانون کی ابتری اور مسلم اقلیت کے خلاف بدترین امتیازی رویہ پر سخت تشویش کا اظہار کیا ۔ یہ تشویش کا اظہار صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشد مدنی کی صدارت میں منعقد ہ اجلاس میں کیا گیا۔ دوسری طرف مولانا مدنی نے کہا کہ پورے ملک میں بدامنی، افراتفری، فرقہ واریت اور لاقانونیت اپنی انتہا پر ہے، ملک کی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں سے ان کے آئینی وجمہوری اختیارات چھینے جارہے ہیں۔اجلاس میں دعوی کیا گیا کہ ملک کے امن واتحاد اور یکجہتی کے لئے یہ کوئی اچھی علامت نہیں ہے، حکمرانوں کے ذریعہ آئین وقانون کی پامالی کی یہ موجودہ روش ملک کے جمہوری ڈھانچہ کو تار تار کرسکتی ہے۔ اس موقع پر اجلاس میں اتفاق رائے سے جو تجاویز منظور ہوئیں ان میں سے دو اہم تجاویز میں کہا گیا کہ حضرت نبی کریم ﷺ کی شان میں جن لوگوں نے گستاخی کی جرأت کی ہے ان کی معطلی ہی کافی نہیں بلکہ انہیں فوری گرفتار کر کے قانون کے مطابق ایسی سخت سزادی جانی چاہئے، جو دوسروں کے لئے باعث عبرت ہو۔ دوسری اہم تجویز میں کہا گیا ہے کہ مذہبی عبادت گاہوں سے متعلق 1991ء کے اہم قانون میں ترمیم کی کسی بھی کوشش کے انتہائی تباہ کن نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ تجویز میں کہا گیا ہے کہ ترمیم یاتبدیلی کے بجائے اس قانون کو مضبوطی سے لاگو کیا جانا چاہئے، جس کے سیکشن 4 میں واضح طور پر لکھا ہے کہ ''یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ 15 اگست 1947ء کو موجود تمام عبادت گاہوں کی مذہبی حیثیت ویسی ہی رہے گی جیسی کہ اس وقت تھی'' ۔ سیکشن 4 (2) میں کہا گیا ہے کہ اگر 15اگست 1947ء کو موجودکسی بھی عبادت گاہ کی مذہبی نوعیت کی تبدیلی سے متعلق کوئی مقدمہ، اپیل یا کوئی کارروائی کسی عدالت، ٹریبونل یا اتھارٹی میں پہلے سے زیرالتوا ہے تو وہ منسوخ ہو جائے گی اور اس طرح کے معاملہ میں کوئی مقدمہ، اپیل یا دیگر کارروائی کسی عدالت، ٹریبونل یا اتھارٹی کے سامنے اس کے بعد پیش نہیں ہوگی، اسی لئے اس قانون کے خلاف سپریم کورٹ میں جو پٹیشن داخل ہے جمعیۃ علماء ہند اس میں مداخلت کار ہے۔مجلس عاملہ کے اس اہم اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا ارشدمدنی نے کہا کہ عاملہ کا یہ اجلاس ایک ایسے نازک وقت میں منعقد ہو رہا ہے کہ جب پورے ملک میں بدامنی، افراتفری، فرقہ واریت اور لاقانونیت اپنی انتہا پر ہے، ملک کی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں سے ان کے آئینی و جمہوری اختیارات چھینے جارہے ہیں یہاں تک کہ ان کے ذریعہ کئے جانے والے پرامن احتجاج کو بھی ملک دشمنی سے تعبیر کر کے قانون کی آڑ میں ان پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں۔ مولانامدنی نے کہا کہ ہمارے رسول اقدس ﷺ کی شان میں دانستہ گستاخی کی گئی اور ان گستاخوں کی گرفتاری کے مطالبہ کو لیکر جب مسلمانوں نے احتجاج کیا تو ان پر گولیاں اور لاٹھیاں برسائی گئیں، گرفتاریاں ہوئیں یہاں تک کہ اس کی پاداش میں بہت سے لوگوں کے گھروں پر بلڈوزر چلوا دیا گیا، سنگین دفعات کے تحت مقدمات قائم کئے گئے ہیں، یعنی جو کام عدالتوں کا تھا اب وہ حکومتیں کر رہی ہیں۔ اب نہ ملک میں عدالتوں کی ضرورت ہے اورنہ جج درکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ احتجاج ہر ہندوستانی شہری کا جمہوری حق ہے لیکن موجودہ حکمرانوں کے پاس احتجاج کو دیکھنے کے دوپیمانے ہیں، مسلم اقلیت احتجاج کرے تو ناقابل معافی جرم؛ لیکن اگر اکثریت کے لوگ احتجاج کریں اور سڑکوں پر اترکر پرتشدد کارروائیاں انجام دیں اور پوری پوری ریل گاڑیاں اور اسٹیشن جلا ڈالیں تو انہیں تتر بتر کرنے کے لئے ہلکا لاٹھی چارج بھی نہیں کیا جاتا، انتظامیہ کا مظاہر ہ اور احتجاج کرنے والوں کے درمیان مذہب کی بنیاد پر تفریق افسوسناک ہے۔ انہوں نے دعوی کیا کہ فوج میں ٹھیکہ کے نوکری کے خلاف ہونے والا پرتشدد احتجاج اس کا کھلا ثبوت ہے

جمعیت متحد ہوگئی

جمعیت متحد ہوگئی
ابھی کچھ دنوں قبل دیوبند کے عثمان نگر عید گاہ میدان سے حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب نے جو پیش گوئی کی تھی وہ آج پوری ہوگئی ہے، دونوں جمعیت اب متحد ہوگئی ہے،مجلس عاملہ کی مٹنگ میں باضابطہ اس کی تجویز لی گئی ہے اور اس کی مکمل ذمہ داری حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب مدظلہ العالی کو سپرد بھی کردی گئی ہے۔یہ خبر روزنامہ اخبار صحافت دہلی نے اپنے پہلے صفحہ پر شائع کیا ہے۔
واقعی اس نازک ترین حالات میں یہ تاریخ ساز فیصلہ ہےجو صرف اور صرف ملت اسلامیہ ہند کے مفادمیں لیا گیا ہے، مولانا ارشد مدنی صاحب نے واقعی امیرالہند ہونے کا فرض ادا کیا ہے۔آپ گزشتہ کئی سالوں سے اس اتحاد کے لئے کوشاں رہے ہیں،جس کا برملا اظہار بھی اپنی تقریر میں آپ نے کیا ہے، عیدگاہ میدان سے اپنے خطاب میں  یہ کہا کہ: اس سلگتے ماحول میں جمعیت کا اتحاد ضروری ہے، مسلمانوں کے خلاف جو حالات پیدا ہورہے ہیں اس کا بھی تقاضہ ہے کہ مسلمانوں کا ایسا پلیٹ فارم جس کی سوسالہ تاریخ قربانیوں سے بھری پڑی ہے،ان حالات میں اس جماعت کا میدان عمل ایک ہونا چاہیے، اسلامی نقطہ نظر بھی یہی ہے کہ اتحاد واتفاق اور مصالحت کا مظاہرہ کیا جائے،وہ دن دور نہیں جب اللہ اس اتحاد کے عمل کو کامیاب بنادے گا "اس تقریر کو سن کر داد تحسین دینے کے بجائے خلاف معمول حاضرین نے نعرہ تکبیر "اللہ اکبر "کی صدائیں بلند کردیں، گویا اسی نعرہ مستانہ سے حضرت والا کی رائے سے اتفاق وتائید اور اپنی خوشی کا بھی اظہارحاضرین نےایک ساتھ کردیا، شاید یہ قبولیت کی گھڑی رہی ہوگی جو یہ نعرہ اتفاق وتائید سے آج تجویز میں بدل گیاہے۔ 
                  ایں سعادت بزور بازو نیست 
                   تا نہ بخشد خدائے بخشندہ 
اس موقع پر ہم حضرت مولانا سید محمود اسعدمدنی صاحب کو فراموش نہیں کرسکتے ہیں،  اس لئے کہ یہ سب کچھ مولانا کی فراست سے ہی ممکن ہوا ہے، اس کی دلیل کے لئے مولانا ارشد مدنی صاحب کا یہ ایک جملہ کافی ہے، ملاحظہ کیجئے:"جمعیت علماء ہند کی مجلس منتظمہ کے اجلاس میں مجھے مدعو کیا گیا جس سے مجھے اتحاد کی امید نظر آئی "
گویا مجلس منتظمہ کے اجلاس میں حضرت مولانا سید محمود مدنی صاحب نےآپ کو مدعو کرکے اتحاد کی اس کوشش کو خوبصورت مہمیزدینے کا کام کیاہےاور آپ نے اس کے لئے مجلس عاملہ کی مٹنگ میں باضابطہ تجویز لے اس اتحام کو تام کردیا ہے۔آپ دونوں قابل مبارکباد ہیں۔آج جمعیت متحد ہوگئی ہے ،اور آج سے پھر جمعیت مکمل جمعیت میں بدل گئی ہے۔
انسان جب کوشش کرتا ہے اور توفیق خدا وندی شامل حال ہوتی ہے تو وہ کام بھی ہوجاتا ہے جو بظاہر انہونی معلوم ہوتا ہے، مجھے اچھی طرح یہ بات یاد ہے، ۲۰۱۵ء میں حضرت مولانا قاری عثمان صاحب منصور پوری رحمہ اللہ علیہ (صدر جمعیت علماء ہند )ارریہ مٹیاری تشریف لائے،قیام جامع مسجد ارریہ سے متصل ایور گرین ہوٹل میں تھا،ناچیز جمعیت کے ایک رکن کی حیثیت سے وہاں خادمانہ حاضر ہوا، فرصت کے وقت میں جمعیت کے اتحاد پر دعا اور دوادونوں کی گزارش کی،حضرت نے بشاشت کا مظاہرہ فرمایا اور میری پوری بات توجہ کے ساتھ سنی اور دعائیہ کلمات بھی ارشاد فرمائے،
جب وہاں سے باہر آیا تو میرے دوستوں نے مجھے بہت کوسا اور یہی کہا کہ تم یہ کیا انہونی والی بات کہتے ہو،بزرگوں سے ایسی بات مت کہو اور فارسی کا ایک محاورہ مجھ پربلا محل مارے گھٹنا پھوٹے سر کی طرح دے مارا:خطائے بزرگاں گرفتن خطا است "
آج حضرت کی وہ دعا بھی یاد آرہی ہے، حرکت کرتے ہوئے لب نظر آرہے ہیں،اس اتحاد میں حضرت کی دعائیں بھی شامل ہیں، اللہ حضرت کے درجات بلند فرمائے ،آمین

ہمایوں اقبال ندوی 
نائب صدر، جمعیت علمائے ہند،ضلع، ارریہ 
تاریخ، ۱۹/جون ۲۰۲۲ء

جمعہ, جون 17, 2022

آسام کے وزیراعلیٰ مدارس پر معقولیت سے عاری موقف ترک کریں

آسام کے وزیراعلیٰ مدارس پر معقولیت سے عاری موقف ترک کریں
(اردو دنیا نیوز۷۲)

(3 جون میں لکھا گیا میرا کھلا خط کو انگریزی سے اردو ترجمہ کر کے شائع کیا گیا ہے. جو مجھے آج ہی پتہ چلا. ترجمہ اور بہتر ہوسکتا تھا. بہر حال اخبار اور قابل مدیر صاحب کا شکریہ.)

ڈاکٹر ہیمنتا بسوا سرما کے نام ایک صحافی کا کھلا خط
تاریخ اشاعت - 7 جون، 2022

معزز وزیر اعلی، آسام
بتاریخ: 03 جون، 2022

*موضوع: مدرسہ کے فارغین بنام ڈاکٹرس و انجینئرس*
محترم وزیراعلی،

مذکورہ بالا امور کے حوالے سے یہ بات عرض کرنی ہے کہ آسام اور اس سے باہر کے مختلف میڈیا آؤٹ لیٹس کے ذریعے مدارس کے فارغین کے تعلق سے نیز مدارس سے ڈاکٹروں اور انجینئروں کے نہیں نکلنے کے حوالے سے آپ کے حالیہ بیانات پر میری نظر پڑی ہے۔ براہِ کرم، مجھے آپ کی توجہ صرف موضوع کے تین اہم نکات کی طرف مبذول کرانے کی اجازت دیں اور اپنے اور ان لوگوں کو جو اس ’’کھلے خط‘‘ کی نکات کو مثبت انداز میں سمجھ سکتے ہیں، مثبت نتیجہ اخذ کرنے کے لیے آپ کو گہرائی کے ساتھ معاملہ فہمی کی دعوت دیتا ہوں۔
1۔مدرسہ کیا ہے؟
مدرسہ وہ جگہ ہے جہاں تعلیم دی جاتی ہے۔ عربی زبان کی اصطلاح میں مدرسہ انگریزی کے لفظ اسکول، ہندی کے لفظ ودیالیہ، سنسکرت یا بنگالی میں استعمال کی جانے والی اصطلاح پاٹھشالہ کے عین مترادف ہے۔ مدرسہ کا سیدھا مطلب ہے تعلیم کی جگہ، اور تعلیم سائنس، فنون لطیفہ، تجارت، دینیات یا دیگر علوم کی ہو سکتی ہے۔
سنہ 1835 تک یعنی آزادی سے قبل اور برطانوی استعمار کے دور میں، دیگر کمیونٹی کے مذہبی تعلیمی اداروں کے ساتھ مدارس ہی پورے ملک (ہندوستان) کے لیے تمام طرح کے اطباء، انجینئر، منتظم، سائنس داں اور جج پیدا کرتے تھے۔ تھامس بیبنگٹن میکالے (لارڈ میکالے) کی مداخلت کے بعد، جو ہندوستان میں مغربی تعلیم کو متعارف کرانے کا بانی تھا، ہندوستانی نظام تعلیم کو بنیادی طور پر نجی اور سرکاری شعبوں میں تقسیم کرنے میں کامیاب رہا۔ عیسائی مشنری اسکول، ہندو مشن اسکول، گروکل ودیالیہ اور موجودہ دور کے مسلمانوں سے منصوب کیے جانے والے مدارس اس نجی شعبے کے تعلیمی نظام کا حصہ ہیں جس میں نصاب اور تدریس کے طریقہ کار میں کمیونٹی کی بنیاد پر تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ بعد ازاں، تمام مذہبی گروہوں کے ان تعلیمی اداروں میں سے کچھ کو یا تو مکمل طور پر اپنایا گیا یا جزوی طور پر، متعلقہ ریاستی یا مرکزی حکومتوں نے مختلف سطحوں پر مختلف اوقات میں اور متعدد منصوبوں کے تحت انہیں مالی امداد بھی فراہم کیں، اور یہ سلسلہ آج تک پورے ملک میں جاری ہے۔ جناب والا! سنہ 1950 سے ریاستی مدرسہ ایجوکیشن بورڈ آسام (SMEBA) حکومت کے تعاون سے چلنے والے سب سے قدیم اور کامیاب ترین تعلیمی اداروں میں سے ایک رہا ہے۔ ملک کو آزادی ملنے کے بعد ہندوستان میں امداد یافتہ مدارس بورڈز، جو کہ بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن، آسام (SEBA) کی طرح کام کر رہے ہیں، اور جنہیں دسمبر 2020 میں مدارس کو بند کرنے کی آپ کی مہم جوئی کی تکمیل تک آرٹس اسٹریم میں کے جی (ابتدائی) سے پوسٹ گریجویٹ تک کی تعلیم فراہم کر رہے ہیں-
محترم آپ نے، حال ہی میں دہلی میں ایک پریس کانفرنس میں کہا، ’’لفظ مدرسہ، کا ہی وجود ختم ہونا چاہیے۔‘‘
کیا آپ تعلیم کے خلاف ہیں جناب وزیر اعلیٰ!
محض مدرسہ کے لفظ سے ہی کسی خاص قسم کی تعلیم کی صراحت نہیں ہوتی ہے۔ یہ مسلم مخالف گروہوں اور اسلامو فوبیا سے متاثر اذہان کی پیداوار ہے نیز یہ مکمل طور پر ایک تنگ اور متعصبانہ تفہیم ہے کہ مدرسہ صرف علوم اسلامی (دینیات) یا زیادہ واضح طور پر محض اسلامی علوم و فنون سے متعلق تعلیم فراہم کرتا ہے۔ ایک روشن خیال اور اعلی ظرف انسان، سابق وزیر تعلیم اور کسی ریاست کے وزیراعلیٰ سے تعلیم کی عام اصطلاح کے بارے میں اتنے سادہ لوح ہونے کی توقع نہیں کی جاتی!
2۔ڈاکٹرس اور انجینئرس مدرسوں سے کیوں تیار نہیں ہوتے؟
علمی حلقے میں یہ سوال کسی بھی طرح اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ جو شخص ہندوستان میں تعلیمی نظام اور ہمارے تدریسی طریقہ کار سے واقف ہے وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ ہمارے پاس اسکولی تعلیم کے بعد اعلیٰ تعلیم کے تین بڑے اور اہم اسٹریم ہیں۔ وہ ہیں (i) آرٹس اسٹریم، (ii) کامرس اسٹریم اور (iii) سائنس اسٹریم۔ 11 ویں کلاس کے بعد میڈیکل ڈاکٹرز یا انجینئرز کسی بھی قسم کے تعلیمی نظام سے صرف سائنس اسٹریم کے ہی طلبا مطلوب ہوتے ہیں۔ سابقہ دو ۔ آرٹس اور کامرس جدید طبیب یا انجینئر پیدا نہیں کرتے۔ مدارس، 1857 کے بعد سے ہندوستان میں، صرف فنون لطیفہ (آرٹس اسٹریم) کی تعلیم ہی فراہم کرتے ہیں۔ اس لیے مدارس سے ایم بی بی ایس ڈاکٹرز اور آئی آئی ٹی انجینئرز پروڈیوس کرنے کی خواہش ایک خواب کے مترادف ہے۔ یہ مضحکہ خیز ہے کہ کالج یا یونیورسٹی کے آرٹس یا کامرس اسٹریم کا طالب علم نیورو سرجن یا خلائی سائنسدان بنے گا! یہ بچکانہ بات تو ہے ہی اس کے ساتھ ہی یہ غیر دانشمندانہ اور غیر ضروری بھی ہے اور ایک لایعنی دلیل سے زیادہ کچھ نہیں ہے، نیز یہ عقل کے بھی برخلاف ہے۔
یہاں یہ بھی ذکر کرنا قرین قیاس ہے کہ ہندوستانی تعلیمی نظام میں وہ طالب علم جس نے سائنس اسٹریم سے تعلیم حاصل نہیں کی ہے، ایک کامیاب ڈاکٹر یا انجینئر بنے؛ یہ اتنا عام نہیں ہے بلکہ اسے شاذ میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، ہندوستان میں 1,457 افراد کے لیے ایک ڈاکٹر ہے۔ ملک بھر میں 74.04 فیصد کی شرح خواندگی کے ساتھ، ہمارے پاس ملک میں صرف 12.07 فیصد کل پوسٹ گریجویٹ ہیں جن میں سائنس، آرٹس، کامرس اور مینجمنٹ، انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی کے شعبے شامل ہیں۔ تحقیق میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ 2020 تک جملہ تعلیمی نظام سے صرف 0.81 فیصد طلبا داخلہ لیتے ہیں۔ اور یہ، سب جانتے ہیں، اعداد و شمار اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ سینکڑوں یونیورسٹیوں اور ہزاروں ریاستوں اور مرکزی حکومتوں کے تحت چلنے والے کالجز ہمارے موجودہ تعلیمی ڈھانچے کے اندر سے ڈاکٹر یا IIT انجینئر بننا کتنا عام اور کتنا سہل ہے۔
دوسری طرف، کیا اس قوم کو ترقی یافتہ اور خوشحال بنانے کے لیے صرف ایلوپیتھک ڈاکٹروں اور آئی آئی ٹی انجینئروں کی ضرورت ہے –
جناب وزیراعلی؟
کیا ہمارے اساتذہ قوم کے حقیقی معمار نہیں ہیں؟ کیا ہندوستان کی عدالتوں میں وکلاء اور ججز، افرادی قوت میں اکاؤنٹنٹ اور سی اے، سڑکوں اور سرحدوں پر مامور پولیس اور مسلح افواج، اس ملک کے ہر کونے میں پھیلے انتظامیہ اور انتظامی عملے کی ہندوستان میں کوئی قیمت نہیں؟ کل 685کامیاب امیدواروں میں سے جن کی سفارش یو پی ایس سی نے 2021 میں تقرریوں کے لیے کی اور اس کا اعلان 30 مئی 2022 کو کیا گیا ہے، کتنوں کا تعلق ریاست آسام سے ہے؟ صرف تین، یہ 0.43 فیصد ہے اور سبھی 500 سے نیچے رینک میں ہیں! بہت مایوس کن، نہایت ہی افسوسناک اور یقیناً بہت خراب کارکردگی!
محترم ڈاکٹر سرما، آپ براہ کرم مدارس سے ڈاکٹرز اور انجینئرز پیدا کرنے کے حوالے سے اپنی دلیل پر نظر ثانی کریں جو بنیادی طور پر اساتذہ اور قوم کے معماروں کو ہیومینٹیز کے ذریعے تعلیم کے دھارے میں پروان چڑھاتے ہیں۔ آپ کا استدلال علمی تمثیلات پر موقوف نہیں ہے اور آپ کی علمی شخصیت کی اچھی شبیہ پیش نہیں کرتا ہے۔
3-ڈاکٹر بمقابلہ ایک دوسرا ڈاکٹر
محترم ڈاکٹر ہمنتا بسوا سرما، چونکہ آپ نے حال ہی میں ’نیوز لائیو‘ چینل کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران واضح طور پر کہا ہے کہ مدارس کے فارغ التحصیل اس قابل نہیں ہیں کہ وہ جدید دنیا کے سائنسی مزاج کا مقابلہ کرسکیں، اس لیے اس موضوع پر اپنے طور سے حل نکالتے ہیں۔ آئیے اس کا ایک تقابلی انداز میں کیس اسٹڈی کرتے ہیں۔ اس سے ہمیں ایک دوسرے کی حقیقی لیاقت و صلاحیت کی سطح کو جانچنے میں بھی مدد ملے گی۔ ڈاکٹر بمقابلہ ایک دوسرا ڈاکٹر۔ ہم اس کیس اسٹڈی کے لیے زیادہ دور نہیں جا رہے ہیں۔ میں نے اس تقابلی موازنے کے لیے دو اہم ترین شخصیات کا انتخاب کیا ہے، ایک بذات خود آپ ڈاکٹر سرما اور آپ کے ہی اسمبلی کے ایک ساتھی ڈاکٹر رفیق الاسلام قاسمی۔
آپ، یعنی آسام کے موجودہ وزیر اعلیٰ ڈاکٹر ہمنتا بسوا سرما نے بیچلر آف آرٹس (بی اے) اور ماسٹر آف آرٹس (ایم اے) کی ڈگریاں حاصل کی ہیں۔ اس کے بعد آپ نے بیچلر آف لاز (LLB) کی ڈگری حاصل کی اور 2001 تک گوہاٹی ہائی کورٹ میں قانون کی پریکٹس کی۔ 2006 میں آپ نے گوہاٹی یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ آف فلاسفی (پی ایچ ڈی) مکمل کی، اس طرح آپ ڈاکٹر بن گئے لیکن اس سے قبل آپ 2001 میں عوام کی خدمت کے لیے منتخب کر لیے گئے۔
ڈاکٹر رفیق الاسلام قاسمی جو کہ ضلع بارپیٹا کے جنیا ایل اے سی سے آسام کے قانون ساز اسمبلی سے 3 بار اور موجودہ رکن اسمبلی (ایم ایل اے) بھی ہیں۔ انہوں نے بچپن میں ہی مدرسہ سے قرآن کریم حفظ کیا اور قرآن کریم کی 114 سورتوں یا 6349 آیات کو اپنے قلب میں محفوظ کرلیا۔ اس طرح وہ حافظ کلام اللہ بن گئے۔ اس کے بعد انہوں نے عالمی شہرت یافتہ دانشگاہ دارالعلوم دیوبند سے فضیلت کی ڈگری (بیچلر کے مساوی) حاصل کی، اور ایک عالم دین (عرف عام میں مولانا) بن گئے۔ انہوں نے ممبئی سے انگریزی زبان اور ادب میں ڈپلومہ بھی کیا۔ اس کے بعد انہوں نے بیچلر آف آرٹس (BA) اور ماسٹر آف آرٹس (MA) کی ڈگری لی۔ وہ گوہاٹی یونیورسٹی میں ایم اے میں گولڈ میڈلسٹ تھے۔ انہوں نے 2016 میں ڈاکٹریٹ آف فلاسفی (پی ایچ ڈی) مکمل کی اس طرح اسی یونیورسٹی سے آپ کی طرح ڈاکٹر بن گئے، جہاں سے آپ نے اپنی ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی یعنی گوہاٹی یونیورسٹی سے۔ اور آپ کے برعکس، انہوں نے سیاست میں مکمل طور پر آنے سے قبل وہاں بطور لیکچرر تدریسی خدمات بھی انجام دیں۔
ڈاکٹر رفیق الاسلام عمر میں آپ سے 11 سال چھوٹے ہیں۔ وہ اب 42 سال کے ہوچکے ہیں اور آپ کی عمر 53 سال ہے۔ ڈاکٹر رفیق الاسلام 2011میں بطور رکن اسمبلی عوامی خدمت سے منسلک ہوئے تھے اور آپ نے 10 سال پہلے 2001 میں، شمولیت اختیار کی تھی۔ مصنف (مکتوب نگار) کو ڈاکٹر رفیق الاسلام کے استاد ہونے کا شرف حاصل ہے، اس لیے میں یہ دعویٰ کر سکتا ہوں کہ ڈاکٹر رفیق الاسلام کمیونیکیشن اسکل اور زبان و بیان کی مہارت میں دیگر سیاست دانوں سے میلوں آگے ہیں۔ دسِپور میں آپ کے موجودہ اسمبلی ہاؤس میں بہت سے لوگوں کی اہلیت و لیاقت کے پیمانے پر موازنہ کرنا، بشمول آپ کے ۔ وہ عربی، انگریزی، اردو، ہندی، آسامی اور بنگالی زبانوں پر یکساں عبور رکھتے ہیں۔ خواہ اسمبلی میں کسی بل پر بحث و مباحثہ ہو میڈیا کو کچھ بریفنگ دینی ہو یا عوام کے درمیان اپنی بات رکھنی ہو، مطلوبہ مہارت اور قابل رشک دانشمندی کو بروئے کار لانے والے فصیح اللسان مقرر بھی ہیں۔ وہ اپنے سامعین کو مایوس کیےبغیر ایک کہنہ مشق مقرر کی طرح متاثر کرتے ہیں اور قائدانہ خوبیوں کے ساتھ ایک زبردست عالم دین بھی ہیں۔ وہ یقیناً آپ کی طرح ہی ڈاکٹر ہیں — ڈاکٹر سرما۔ ڈاکٹر رفیق الاسلام بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔ اس ’’کھلے خط‘‘ کے مصنف نے جزوی طور پر ہی سہی مدرسہ کے فارغ التحصیل ڈاکٹر رفیق الاسلام جیسے 40 سے زیادہ ڈاکٹروں کو سکھایا پڑھایا (ٹرینڈ کیا ہے) ہے۔
محترم ڈاکٹر سرما
آپ اور ڈاکٹر اسلام دونوں کا تعلق ایک ہی سرزمین سے ہے – آسام کی خوبصورت ریاست میں آپ دونوں نے ہی ایک ہی قانون ساز اسمبلی کے لیے عوامی نمائندوں کے طور پر کام کیا ہے، بیچلر، پی جی اور ڈاکٹریٹ کی مساوی ڈگریاں حاصل کی ہیں۔ آپ نے اپنی تعلیمی لیاقت میں ایل ایل بی کے ذریعہ ایک اضافہ بھی کیا ہے، انہوں نے انگریزی زبان اور ادب میں ڈپلوما کرکے اپنی قابلیت میں اضافہ کیا ہے۔ آپ نے گوہاٹی ہائی کورٹ میں وکیل کی حیثیت سے خدمات انجام دی ہیں اور انہوں نے گوہاٹی یونیورسٹی میں بطور لیکچرر خدمات انجام دی ہیں۔ ان کے علاوہ، وہ ایک حافظ قرآن اور ایک عالم دین بھی ہیں، اور آپ سے زیادہ زبانوں میں گفتگو کرسکتے ہیں۔ پھر آپ اپنے اور مدرسہ کے فارغ التحصیل حافظ وڈاکٹر رفیق الاسلام قاسمی کے درمیان تعلیمی لیاقت کی سطح کو کس پیمانے سے ناپنا چاہتے ہیں!
محترم ڈاکٹر سرما،
مدرسہ کے خلاف آپ کا سارا استدلال بالکل بے بنیاد ہے۔ آپ کی چالاکی سے تیار کردہ پوری منصوبہ بندی حقیقتاً غلط خطوط پر مبنی اور عام لوگوں کے لیے پوری طرح گمراہ کن ہے۔ براہ کرم اپنے ضمیر سے پوچھیں اور مدرسہ اور ہماری ریاست – آسام کی 36 فیصد مسلم آبادی کے حوالے سے اپنے حالیہ بیانات کا خود جائزہ لیں۔ ہم آپ کو ایک فعال اور متحرک رہنما کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں جو اپنی ریاست کے تمام شہریوں کو یکساں نظریہ سے دیکھتا ہے اور دانشوروں کے مابین (جب علمی مباحثے ہو رہے ہوں وہاں بھی) بلند سطح پر کھڑا ہو اور اعلی اخلاقی اقدار کا مظاہرہ کر رہا ہو۔ آپ کی جانبدارانہ سیاست نہ صرف مایوس کن ہے بلکہ اس غریب ریاست (آسام) کی اور اس کی تعلیم کے لیے بھی انتہائی نقصان دہ ہے۔
آخری بات، لیکن بس اتنا ہی نہیں، ڈاکٹر سرما، آئیے حکومت- این پی او کے مشترکہ منصوبے کے تحت آسام اور ہندوستان کی بہتری اور فلاح کے لیے مل کر کام کریں اور موجودہ مدارس سے ڈاکٹر اور انجینئر تیار کرنے کے اپنے خواب کو پورا کریں، اگر آپ واقعی مثبت اور منفعت بخش کام کرنے کے لیے مخلص ہیں۔ آسام کے موجودہ مدرسہ کے تعلیمی نظام میں تبدیلی لانے کے خواہاں ہیں تو آپ کو صرف دو کام کرنے کی ضرورت ہے – (الف) براہ کرم آسام میں تمام 700 سے زیادہ ریاستی مالی اعانت سے چلنے والے مدارس کے لیے سائنس اور ریاضی کے لیے دو خصوصی اساتذہ کا تقرر کردیں اور ان میں سے کسی ایک کو بند کیے بغیر اور (ب) ریاست آسام میں مطلوبہ تعداد میں میڈیکل اور انجینئرنگ کالج کے قیام کی کوششیں شروع کردیں۔ میں اور میری ٹیم تعلیم کے شعبے میں NPO پارٹنر کے طور پر آپ کے لیے رضاکارانہ طور پر کام کریں گے اور پروجیکٹ کے آغاز کے محض چار برسوں میں مدارس کے سینکڑوں طلباء کو NEET اور JEE امتحانات میں امتیازی نمبروں کے ساتھ کامیاب کرانے کے لیے تیار کر لیں گے۔ یقین جانیں، ڈاکٹر سرما، ہم یہ کر سکتے ہیں جیسا کہ میں گزشتہ 25 سالوں سے تعلیم کے شعبے سے منسلک ہوں اور یہ منصوبہ بہت زیادہ لاگت اور افرادی قوت کی ضرورت کے بغیر ہی شاندار نتائج لائے گا۔ یہ ممکنہ طور پر ہمارے آسام کو تعلیم میں ممتاز مقام، فیصلہ ساز اور ہندوستان میں تعلیم کا مرکز بنا سکتا ہے۔
اس قوم کے تعلیمی ادارے کے طور پر لفظ مدرسہ، دوسری سب سے زیادہ آبادی والی مذہبی کمیونٹی کے طور پر مسلمان اور اس ملک کی تقریباً 15 فیصد آبادی؛ اور دنیا بھر میں 1.8 بلین مسلمانوں کے ساتھ ایک بڑے عالمی مذاہب کے طور پر مادر وطن ہندوستان کا اثاثہ ہے اور ایک عوامی نمائندہ اور ریاست کے سربراہ کے طور پر آپ کو انہیں مصیبت میں ڈالنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ اس لفظ سے یا اس سے ملتے جلتے الفاظ کے ذریعہ توہین آمیز تبصرے اسلامو فوبیا سے متاثر ہونے کی علامت کے سوا کچھ نہیں ہے- ڈاکٹر سرما۔ براہ کرم اس تصور اور اس سوچ کو ترک کردیں اور اپنے ذاتی عمل یا قانون سازی کے ذریعے، ان میں سے کسی کو بھی نقصان پہنچائے بغیر، صدیوں میں اور بڑی مشقت کے ساتھ پروان چڑھائے گئے قوم کے تعلیمی انفراسٹرکچر میں اضافہ کریں۔ ہم آپ سے صرف ایک کال کے فاصلے پر ہیں، آئیے اپنے آباؤ اجداد کے خون پسینے، محنت و جانفشانی اور ان کے ذریعہ وقف کی گئیں بیش قیمتی اراضی اور تعمیراتی انفراسٹرکچر پر کھڑے علم کے مندر کو بنائیں، اسے خدارا منہدم نہ کریں۔
مجھے امید ہے کہ یہ ’کھلا خط‘ آپ تک ضرور پہنچے گا اور موضوع کے حوالے سے آپ کی مخلصانہ اور مثبت انداز میں کی جانے والی خود احتسابی و خود شناسی کے ذریعہ آپ کی شخصیت اور سوچ کو تبدیل کرے گا۔
دل کی گہرائیوں کے ساتھ آپ کا بہت بہت شکریہ!۔

فقط محمد برہان الدین قاسمی، ایڈیٹر: ایسٹرن کریسنٹ، ممبئی

#اگنی_پتھ_اور__مسلمان

*#اگنی_پتھ_اور__مسلمان*
 صورتحال انتہائی سنگین ہوچکی ہے، ایک پولیس والے کو "اگنی پتھ " مظاہرین نے سسرام میں گولی ماردی ہے، آرا کے ٹکٹ کاؤنٹر سے ڈھائی لاکھ روپے لوٹ لیے، ۲۰۰ سے زائد ٹرین سروسز متاثر ہوچکی ہیں، یہ سب اگنی پتھ اسکیم کےخلاف احتجاج کررہے مظاہرین کے وحشیانہ کارنامے ہیں، لیکن مجال ہے جو کوئی میڈیا والا، سرکار یا سیکولر خیمہ انہیں دہشتگرد، غنڈہ گردی کہہ سکے، مسلمان کہیں احتجاج کرے تو پہلے تو سیکولر، لبرل، اپوزیشن پارٹیوں کے ہندو سیاستدانوں سمیت مسلمانوں کے انٹلکچوئل بھی اُن مسلمانوں کو مذاکرات سے معاملات حل کرنے کا گیان بانٹنے چلے آتے ہیں، اور اگر مسلمانوں کے کسی احتجاج میں غلطی سے پتھربازی کی کوئی ادنٰی واردات انجام دینے میں شرپسند کامیاب ہوجائیں تو یہ سب لوگ میڈیا والوں کےساتھ ملکر مسلمانوں کو امن خراب کرنے والا اور ہِنسک قرار دینا شروع کردیتے ہیں، کتنے ذلیل دوغلے اور خبیث ہیں یہ لوگ مسلمانوں کو لےکر ! 

لوٹ مار، آگ زنی، عوامی املاک کی بربادی، ننگی گالیاں، بیہودگی، بدامنی اور بربریت کےساتھ کون سی قوم اپنا غصہ اتارتی ہے یہ پوری دنیا دیکھ رہی ہے،  یہ اپنی "بربر" روایات کا مظاہرہ بار بار کرچکے ہیں، جاٹ آندولن سے لے کر پٹیل آندولن تک، ریل نوکریوں کے مظاہروں سے لے کر فوج بھرتی معاملہ تک ہندوتوا تہذیب کی واضح نمائش ہے، بلاتکاری بابا رام رجیم کے ہندو بھکتوں کے انتہائی پرتشدد مظاہرے کونسی بربر تہذیب کی گواہی ہیں؟ قدیمی برہمنی دور کی تاریخ پڑھیے، 

 تشدد، آگ زنی، بیہودگی بربریت اور آبادیوں کو تاخت و تاراج کرنے کی تہذیب کن کی ہے یہ بالکل دو۔دو چار کی طرح سامنے ہے، لیکن مجال ہے کہ اتنے سارے شواہد کےباوجود کوئی سیکولر ہندو اپنے گریبان میں جھانکے اور اپنی قوم کی اصلاح کا بیڑا اٹھائے، 
 البتہ نام نام سیکولر و انٹلکچوئل مسلمانوں کا طبقہ مسلمانوں کو صرف احتجاج کرنے کی وجہ سے ہی تشدد اور انتہاپسندی کے الزامات دے دیتا ہے، پتھراؤ کے اکا دکا واقعات کی بناء پر پوری قوم کو احمق اور دنگائی مزاج بتانے لگتے ہیں، جبکہ یہ کئی بار ثابت ہوچکاہے کہ مسلمانوں کے احتجاج سے پتھراؤ بھی سَنگھ کی منصوبہ بند کوشش کا نتیجہ رہاہے، حکومت کو پتا ہے کہ ان کے لیڈران میں وہ گٹس نہیں ہے اسلیے حکومت بھی پولیس کو کھلی چھوٹ دےدیتی ہے اور پولیس بھی مسلمان دانشوروں کے اس مزاج سے واقف ہے اسلئے اُن کے مظاہروں پر فائرنگ کردی جاتی ہے
اسی معذرت خواہانہ رویے نے پوری ۳۰ کروڑ کی مسلمان آبادی کو متشدد، ہِنسا وادی اور دہشتگرد جہادیوں کے طورپر مشہور کردیا ہے جس کا تکلیف دہ پہلو یہ ہےکہ ہندوستانی گراؤنڈ پر یہ ۳۰ کروڑ کی آبادی سب سے زیادہ پرامن قوم ہے، اس نے تشدد اور ناجائز طورپر طاقت کی نمائش کا راستہ کبھی بھی اختیار نہیں کیا 
 جبکہ احتجاج کے دوران تشدد کسے کہتےہیں؟ یہ کل " اگنی پتھ " آندولن کے ذریعے پھر سے صاف ہوچکاہے، اور ایسے وحشیانہ تشدد کی مثال مسلمانوں کے کسی بھی احتجاج کےدوران نہیں ملتی ہے، لیکن ماتم نہ کیجیے تو اور کیا کیجیے کہ پھر بھی سرکار کی نظر میں مسلمان دہشتگرد تو ہے ہی بعض سیکولر اور انٹلکچوئل مسلمانوں کےدرمیان مسلمان دنگائی بھی ہے، اس ذہنیت کےساتھ آپ ہندوستان جیسے ملک میں اپنے حقوق حاصل کرنا تو درکنار ان کی لڑائی بھی لڑ نہیں سکتےہیں، اسے نوٹ کرلیجیے ۔

 ایک بار پھر صاف ہوچکاہے کہ تشدد، پتھراؤ اور اشتعال کبھی بھی کوئی مسئلہ نہیں رہا اس ملک میں، مسئلہ آپکا مسلمان ہونا ہے_! 
*✍: سمیع اللہ خان*

اگنی پتھ ' کے خلاف مظاہرہ سے ریلوے بہار میں اسٹیشنوں پر تباہی ، 45 ٹرینیں رد

اگنی پتھ ' کے خلاف مظاہرہ سے ریلوے بہار میں اسٹیشنوں پر تباہی ، 45 ٹرینیں ردفوج بھرتی کو لے کر مجوزہ اگنی پتھ اسکیم کو لے کر بہار میں مظاہرین کے ذریعہ لگاتار تیسرے دن خوب ہنگامہ آرائی ہے۔ ریاست کے مختلف ریلوے اسٹیشنوں پر توڑ پھوڑ اور ہنگامہ ہوا، کئی ٹرینوں کو آگ لگا دی گئی۔ جمعہ کے روز ریلوے اسٹیشنوں پر ہونے والے پرتشدد مظاہرے کے سبب ایسٹ سنٹرل ریلوے میں ٹرینوں کی آمد و رفت بری طرح سے متاثر ہوئی ہے۔ اس درمیان ایسٹ سنٹرل ریلوے نے 45 ٹرینوں کو رد کر دیا ہے جب کہ کئی ٹرینوں کا راستہ بھی بدلا گیا ہے۔ ریلوے نے مختلف ریلوے اسٹیشنوں کے لیے ہیلپ لائن نمبر بھی جاری کیا ہے۔
اگنی پتھ منصوبہ کے خلاف جمعہ کی صبح سے ہی بہار میں مظاہرے نے مختلف ریلوے اسٹیشنوں پر پہنچ کر ہنگامہ شروع کر دیا۔ کئی مظاہرے اپنے چہرے چھپائے ہوئے تھے تاکہ ان کی شناخت نہ ہو سکے۔ اس دوران مظاہرین نے خوب توڑ پھوڑ کی۔ سمستی پور، لکھی سرائے، سوپول میں ٹرینوں کے نذر آتش کیے جانے کی خبریں موصول ہو رہی ہیں

ایسٹ سنٹرل ریلوے کے چیف پبلک رلیشن افسر ویریندر کمار نے جمعہ کو بتایا کہ دھرنا اور مظاہرہ کی وجہ سے ٹرینوں کی آمد و رفت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اب تک 45 ٹرینوں کو رد کیا گیا ہے جب کہ 17 ٹرینوں کا راستہ بدلا گیا ہے یا پھر منزل سے پہلے ہی اسے روک دیا گیا ہے۔ ویریندر کمار نے یہ بھی بتایا کہ ڈالٹن گنج، کوڈرما، دھنباد، کھگڑیا، حاجی پور، برونی، سہرسہ، دربھنگہ، گیا سمیت کئی اسٹیشنوں کے لیے ہیلپ لائن نمبر جاری کیے گئے ہیں جہاں لوگ فون کر کے حالات کی جانکاری لے سکتے ہیں۔

غیرت : ایک اچھی انسانی صفتمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ

غیرت : ایک اچھی انسانی صفت
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ
غیرت انسان کے ان اوصاف میں ہے، جو ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہے، غیرت کی وجہ سے بہن ، بیوی ، بیٹی، ماں اور وطن تک کی عزت وآبرو کا تحفظ ہوتا ہے ، یہ غیرت محبت کی بنیاد پر ہوتی ہے ،جس سے جتنی محبت ہوتی ہے ، آدمی اس کے سلسلے میں اتنا ہی با غیرت ہوتا ہے ، مسلمانوںکو اپنی جان ، عزت وآبرو ، ماں باپ سب سے زیادہ محبت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوتی ہے ، یہ ہمارے دین وایمان کا حصہ ہے، جب تک کسی کی محبت دنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ نہ ہو کوئی انسان کامل مسلمان نہیں ہو سکتا، محبت رسول کے سلسلے میں قرآن کریم اور احادیث رسول میں واضح ہدایات موجود ہیں اور ان کا تقاضہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں کوئی بھی گستاخی کرتا ہے تو اسے سخت سزا ملنی چاہیے، کسی خاص پارٹی سے نکال کر اسے تحفظ فراہم کرنا اس کے جرم کی سزا نہیں ہے، نفرت پھیلانے اور مسلمانوں کی دلآزاری کے جرم میں ہندوستان کے موجودہ قوانین میں جو سزا ہے وہ بھی دی جاتی تو غصہ کچھ ٹھنڈا ہوتا، لیکن اب غصہ کی یہ آگ ہندوستان کے ساتھ مسلم ممالک تک پھیل گئی ہے، یہ ہماری غیرت کا تقاضہ ہے کہ ہم ناموس رسالت کے تحفظ اور امہات المومنین کے تقدس کی بقاکے لیے ہندوستانی قانون کے دائرہ میں جو کچھ کر سکتے ہوں کریں، ہمیں حکومت کو یہ باور کرانا چاہیے کہ ہم سب کچھ برداشت کر تے رہے ہیں ،لیکن نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ ہے کہ ہم اس کو کسی بھی حال میں بر داشت نہیں کر سکتے، یہ معاملہ ایسا ہے جس پر ہم صبر کرہی نہیں سکتے، حکومت جتنی جلدی اس بات کو سمجھ لے ملک کے حق میں بہتر ہوگا، یہ تو رہی نبی صلی اللہ علیہ کی محبت اور غیرت کی بات، بے غیرت انسان کو ان چیزوں کی فکر نہیں ہوتی ، کسی کے ساتھ کچھ نا زیبا سلوک ہوجائے ، کسی کی عزت وآبرو داؤپر لگ جائے ، بے غیرت انسان کی پیشانی پر بل نہیں آتا ، او روہ ہر حال میں جو کچھ ہے اور جیسا کچھ ہے، قبول کرتا رہتا ہے ، لیکن با غیرت انسان، خاندان اور ملک وملت کی عزت کو بٹہ لگتا نہیں دیکھ سکتا ، اور اس کے بس میںجو کچھ ہوتا ہے کر گذرتا ہے، اس معاملہ میں عربوں کی غیرت وحمیت ضرب المثل رہی ہے ، مشہور ہے کہ ایک میاں بیوی کا جھگڑا مہر کی رقم کی مقدار پر ہو گیا ، معاملہ قاضی کے پاس گیا ، قاضی نے گواہ طلب کیا اور گواہ نے یہ شرط لگائی کہ پہلے عورت کا حجاب اتارا جائے؛ تا کہ میں اس کا چہرہ دیکھ کر بتاؤں کہ یہی عورت ہے، جس کے نکاح میں، میںموجود تھا، بس اتنی بات پر شوہر کی غیرت جاگ اٹھی ، وہ اس بات کو بر داشت نہیں کر سکا کہ اس کی بیوی کا چہرہ غیر مرد دیکھے، اس نے کہا: قاضی صاحب یہ نہیں ہو سکتا ، میری بیوی جتنے مہر کا دعویٰ کر رہی ہے میں اس کو دوں گا ، لیکن کوئی دوسرا اس کا چہرہ دیکھے یہ میرے لیے ناقابل بر داشت ہے ، بیوی نے شوہر کی یہ غیرت وحمیت دیکھی تو اس نے سارا مہر قاضی کو گواہ بنا کر ہی معاف کر ڈالا اور دونوں ہنسی خوشی گھر آگیے، غیرت کے اس قسم کے بہت سارے واقعات سے کتابیں بھری ہوئی ہیں۔
 آج بھی انسانوں میں غیرت باقی ہے، وہ اپنے خاندان کی عزت کے لیے سب کچھ داؤ پر لگا دیتا ہے ، اور معاملہ قتل وخوں ریزی تک جا پہونچتا ہے ، ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ غیرت کے حوالے سے کچھ اور باتیں کی جائیںآپ کویاد ہو گا کہ پاکستانی ماڈل قندیل بلوچی کے بارے میں یہ خبر آئی تھی کہ اس کے بھائی نے اس کی بے راہ روی کو دیکھ کر اس قندیل کو ہی بجھا دیا جو کبھی عمران خان سے شادی کی خواہش ظاہر کرتی ، کبھی اس کے اندر شاہد آفریدی کی قربت کی بھوک جاگتی اور کبھی ورلڈ کپ چمپین پاکستان کے بننے پر بر ہنہ ناچنے کا اعلان کرتی ، اس کی غلط حرکت اور اعلانات سے پورے خاندان کو شرمندگی اٹھانی پڑ رہی تھی، چنانچہ اس کے بھائی نے فوزیہ عظیم عرف قندیل بلوچ کو قتل کر دیا ۔
 غیرت کے نام پر قتل یا تشدد کے واقعات ہندوستان میں بھی وقوع پذیر ہوئے ہیں، پاکستان میں اس کا تناسب بہت ہے، اعداد وشمار کے حوالہ سے دیکھیں تو پاکستان میں ۱۹۹۹ء سے ۲۰۰۴ء تک چار ہزار ، ۲۰۰۵ء میں ایک ہزار، ۲۰۰۷ء میں انیس سو سنتاون افراد غیرت کے نام پر قتل کیے گیے ، اقوام متحدہ کی رپورٹ پر اعتماد کریں تو معلوم ہو گا کہ ہر سال پانچ ہزار خواتین اس غیرت کے نام پر موت کے گھاٹ اتاردی جاتی ہیں ، جبکہ بی بی سی کی رپورٹ اس سے چار گنا زیادہ یعنی بیس ہزار کی ہے ، ان میں زیادہ تر خواتین ہوتی ہیں؛ مگرمردوں کے قتل کے واقعات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ۔
 یہ حالات کیوں پیدا ہوئے ہیں؟ اور ہمارے لڑکے لڑکیاں غیرت وحمیت ، حیا وشرم کی چادر اتار کر بے غیرتی اور بے حیائی پر کیوںاتر آتی ہیں، اس کے اسباب کا جائزہ بھی لینا ضروری ہے، آج صورت حال یہ ہے کہ ثقافت اور کلچر کے نام پر ہمارے تعلیمی اداروں میں ناچ گانے عام ہیں ، چھوٹی چھوٹی بچیوں کو اسٹیج پر ناچنے کی مشق شروع سے ہی کرائی جاتی ہے ، موسیقی کی دھنوں اور گانے کے بول پر ان کے پاؤں تھرکنے لگتے ہیں، اسکولوں میں جویونی فارم بچیوں کو دیا جارہا ہے ، وہ ٹخنے سے اوپر تک کا اسکرٹ ہے، یہ کبھی کبھی اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ آگے جھکنے کی شکل میں پیچھے سے بے پردگی ہوجاتی ہے ، یہی حال لڑکوں اور نوجوانوں کے پینٹ کا ہے ، عموماًمسجدوں میں یہ نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ سجدے میں جانے کے بعد ستر پیچھے سے کھل جاتا ہے ، نماز پر اس کا اثر پڑتا ہے یا نہیں، اس بحث سے قطع نظر دیکھیں تو بھی یہ کیسی بے شرمی کی بات ہے ، اس کے علاوہ عصری تعلیمی اداروں میں مہمانوں کا استقبال کرنے کے لیے جوان لڑکیوں کو کھڑا کیا جاتا ہے ، گلدستہ اور بو کے پیش کرنا ہو تو عورتوں اور لڑکیوں کا انتخاب کیا جاتا ہے ، بعض اداروں میں بھی اب اس قسم کے مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں ، معزز مہمانوں کو ان کی نشست گاہ تک لے جانے کے لیے بھی خواتین اور لڑکیوں کا ہی استعمال کیا جاتا ہے اور اسے عزت افزائی کا بڑا ذریعہ سمجھا جاتا ہے ، یہ تو گھر سے باہر کا ماحول ہے ، گھر کے اندر ڈش انٹینا کے ذریعہ پھیلائی جا رہی فحاشی موبائل اور انٹر نیٹ پر ہزاروں فحش صفحات ، فحش ویڈیو کلپ یہ سب مل کر ہمارے لڑکے لڑکیوں سے حیا کی چادر اتروا دیتے ہیں ، اس کے علاوہ ماڈلنگ کی چکا چوندھ، کپڑے چھوٹے کرکے اور اتار کر زیادہ کمانے کی ہوس بے غیرتی کے دلدل میں دھنسنے پر مجبور کر دیتی ہے ، اب اگر بھائی ، باپ  ماں اور گھر کے دوسرے لوگوں میں غیرت وحیا باقی ہے تو ان کے لیے یہ سوہان روح ہوتا ہے ، اپنے بچیوں کی حرکات وسکنات سے وہ گھٹن محسوس کرتا ہے ، سماج میں اس کی بے وقعتی ہوتی ہے ، اس پر آوازے کسے جاتے ہیں ، ان سب کا اثر کبھی کبھی غیرت وحمیت کے نام پر قتل کی شکل میں سامنے آتا ہے۔
بر صغیر ہندوپاک کے تناظر میں دیکھیں تو ان ممالک کے اپنے قوانین ہیں ، تعزیرات کی اپنی دفعات ہیں اور ان میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے ، یوں بھی قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا کسی طور درست نہیں ہے ۔ لیکن ہم ان اسباب وعلل کو دور کرنے کے لیے کام کر سکتے ہیں اور اس میں کہیں بھی قانون رکاوٹ نہیں ہے ، اس لیے غیرت کے نام پر انتہا پسندی کے بجائے ہمیں سماج میں ایک ایسا ماحول بنا نا چاہیے اور تعلیمی اداروں سے لے کر گھر تک ایسا تربیتی نظام پروان چڑھانا چاہیے کہ حیا، غیرت وحمیت ہماری زندگی کا لازمی حصہ بن جائے کوئی کسی کی توہین کرنے کی جرأت نہ کرے،اس کے لیے سماج کے ہر طبقے کو آگے آنا ہوگا، صرف انسانی حقوق کے تحفظ اور اظہار رائے کی آزادی کے نام اس قسم کی حرکتوں کو برداشت نہیں کیا جا سکتا ۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...