Powered By Blogger

جمعہ, جولائی 08, 2022

قربانی کریں ، غریبوں کا خیال رکھیں اور ریاکاری سے بچیں

قربانی کریں ، غریبوں کا خیال رکھیں اور ریاکاری سے بچیں

(جاوید بھارتی اردو دنیا نیوز۷۲)

 تو ہر قوم اور ہر امت میں ایک مخصوص ایام میں

 قربانی متعین کی گئی ہے اس کے نام الگ الگ ہیں، طریقے و نظریات اور مقاصد الگ الگ ہیی

لیکن سب سے مشہور قربانی امت محمدیہ میں جو ساڑھے چودہ سو سال پہلے سے چلی آ رہی ہے وہ قربانی کی اصل شناخت ہے،، اور کیوں نہ ہو جب اللہ تبارک وتعالیٰ نے اعلان کردیا کہ اے میرے محبوب اب صبحِ قیامت تک تمہارے ہی دین کا ڈنکا بجے گا ہم نے تمہیں جو دعوت و تبلیغ کا کام دیکر دنیا میں بھیجا تو تم نے وہ پورا کردیا اب میرے نزدیک سب سے پسندیدہ دین،، دین اسلام ہے- آپ سے پہلے جتنے بھی انبیاء کرام دنیا میں ہم نے بھیجا سب کی شریعتیں منسوخ اب جسے کامیابی حاصل کرنا ہے تو اسے آپ کی شریعت پر عمل کرنا ہوگا،، اب آپ کا کلمہ پڑھنے والا ہی راہ نجات پاسکے گا آپ کے اسوۂ حسنہ کو اب ہم نے نمونہ عمل بنادیا ہے اس لئے اب کوئی دوسرا نمونہ لے کر ہمارے پاس کوئی پاور فل، بڑے سے بڑا امراء، رؤساء اور چودھری بھی آئے گا تو ہم اس نمونے کو ریجکٹ کر دیں گے- اب نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، قربانی سمیت دوسری تمام عبادتوں پر آپ کی مہر کا لگنا ضروری ہے کسی دوسرے کی مہر لگی ہوئی عبادت ہرگز قابل قبول نہیں ہوگی،، اس موقع پر کچھ لوگ سوال اٹھاتے ہیں کہ قربانی تو نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت نہیں ہے بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے تو اس پر عمل کیوں؟

انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ قربانی کو پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سنت نہیں کہا ہے بلکہ واضح طور پر فرمایا ہے وہ بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے کہ قربانی تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے اور اس سنت پر عمل کرنا تم سب کے لئے اور میری امت کے لئے ضروری ہے حضرت آدم علیہ السلام تو بلا تفریق مذہب و ملت پوری انسانیت کے لئے باپ ہیں ان کے بعد کسی نبی کو سب کے لئے باپ نہیں کہا ہے صحابہ کرام کو مخاطب کرکے جن کے بارے میں یہ کہا ہے کہ تمہارے باپ تو وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں کیونکہ جب حضرت ابراہیم کو نار نمرود میں ڈالا گیا تھا تو جبرئیل علیہ السلام نے ابراہیم علیہ السلام سے خواہش پوچھی تھی کہ بتاؤ میں اللہ کی بارگاہ میں پیش کروں گا تو ابراہیم علیہ السلام نے آگ کو ٹھنڈی کرنے کی خواہش کا اظہار نہیں کیا تھا بلکہ یہ کہا تھا کہ ہاں میری خواہش ہے اے جبرئیل رب کریم سے کہنا کہ تیرے خلیل کی خواہش یہ ہے کہ تو جسے

خاتم الانبیاء بناکر دنیا میں بھیجے تو وہ میری خاندان کا ہو،، بس یہی میری خواہش ہے تو جس طرح خاتم الانبیاء پوری امت کے لئے روحانی باپ ہیں،

مجازی باپ ہیں تو ان کا شجرہ نسب ابراہیم علیہ السلام سے ہے اسی وجہ سے ابراہیم علیہ السلام کی بلند ترین مقدس خواہش اللہ نے پسند بھی کیا اور پورا بھی کیا اور ابراہیم و حاجرہ علیہم السلام کی اداؤں کو بھی اللہ نے اتنا پسند کیا کہ حج کے ارکان میں شامل کرکے صبحِ قیامت تک کے لئے مقدس و بلند ترین بنا دیا صفا و مروہ کی سعی کرنا ، شیطان کو کنکریاں مارنا یہ ابراہیم و حاجرہ علیہم السلام کی ادا ہی تو ہے جن کو کئے بغیر حج مکمل نہیں ہو سکتا-

اب اب رہ گئی بات خود ہمارے طور طریقوں کی تو ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ کے یہاں گوشت، ہڈیاں، بوٹیاں نہیں پہنچتیں بلکہ نیت پہنچتی ہے، خلوص اور تقویٰ پہنچتا ہے اس لئے نیت صاف ہوناچاہیے قرب خداوندی مقصد ہوناچاہیے نام و نمود، شہرت، پرچار پرسار والی قربانی منہ پر ماردی جائے گی،، یہاں تو عجیب حال ہے ایک دوسرے کا قربانی کا جانور مضبوط اور کمزور ہے تو طنز کسا جاتا ہے مہنگے جانوروں کا خوب پرچار کیا جاتاہے،

روزانہ محفل لگاکر اپنی اپنی قربانیوں کی گنتی کرائی جاتی ہے، گھما گھما کر دیکھایا جاتا ہے، خود اپنے جانوروں کی قیمت بتا بتاکر داد و تحسین حاصل کرنے کی پوری کوشش کی جاتی ہے،، ایک طرف زید،، کی بیوی کہتی ہے کہ تم اتنا کمزور بکرا لائے ہو،، دیکھو ہمارا پڑوسی بکر،، خوب مہنگا بکرا لایا ہے تمہارا بکرا کمزور ہے اگر تم بھی مہنگا بکرا لاتے تو بکر،، کی طرح میں بھی باہر باندھ تی تم بھی باہر بیٹھے رہتے جو آتا اسے دکھلاتے، قیمت بتاتے تو اسے معلوم ہوتا پھر وہ بھی کسی کو بتاتا تو ہمارا کتنا نام ہوتا زید،، بولتا ہے کہ اپنی زبان بند رکھو کسی کو دکھانے کے لیے قربانی نہیں کی جاتی اللہ کی رضا کے لئے قربانی کی جاتی ہے دکھاوے کی قربانی سے کوئی فائدہ نہیں ہے،، ابھی میاں بیوی میں تکرار ہوہی رہی تھی کہ بکر بھی آجاتاہے اور کہتا ہے کہ یار تمہارا جانور بہت ہلکا ہے دیکھو میرا جانور کتنا بڑا ہے، کتنا مضبوط ہے ہر شخص تعریف کرنے کے لئے مجبور ہے آخر ہم دونوں دوست ہیں تو کام ایک جیسا کرنا چاہیے سنتے سنتے جب رہا نہیں گیا تو زید کا بیٹا بولتا ہے کہ تمہاری بات الگ ہے تم بڑے آدمی ہو ہمارے سامنے مجبوری ہے ہم اتنا ہی پاؤں پھیلا سکتے ہیں

جتنی بڑی ہماری چادر ہے اور دوسری بات کہ شائد تمہیں معلوم نہیں کہ صرف حج کے لیے نہیں بلکہ قربانی کے لیے بھی لین دین کا معاملہ صاف ہوناچاہیے، حساب کتاب آنا پائی چکتا ہوناچاہیے مگر تمہارا تو سارا معاملہ ہی الٹا ہے مزدوروں کی مزدوری روکے ہوئے ہو، حساب کرنے کے بعد بھی جو پیسہ نکلتا ہے وہ بھی نہیں دیتے ہو اور نصف درجن بکرا کی قربانی کرنے جارہے ہو رسول کائنات نے فرمایا ہے کہ مزدور کی مزدوری پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو اور تمہارا حال یہ ہے کہ مزدوروں کا خون چوس لینے کے بعد بھی مزدوری ادا نہیں کرتے ہو جب دو سگے بھائیوں کے درمیان دشمنی کی وجہ سے قربانی قبول نہیں ہوسکتی تو مزدوروں کی مزدوری روکنے کی وجہ سے قربانی کیسے قبول ہوسکتی ہے،، خدارا جھوٹ بولنا بند کرئیے تجارت میں جھوٹ بول بول کر تم نے آبادی کی رونق تک ختم کرڈالی خلوص کے ساتھ قربانی کرئیے، نیک نیتی کے ساتھ قربانی کرئیے بہت ہوگیا دکھاوا ایک دوسرے کو نیچا دکھانے سے باز آجائیے خود تم قربانی کا جانور خریدتے ہو تو اسے چلاکر، دوڑاکر، منہ کھول کر، اس کے بدن کے مختلف حصوں پر ہاتھ رکھ کر اور دباکر دیکھتے ہو کبھی کبھی وہ قربانی کا جانور بھی نظریں اٹھاکر تمہاری طرف دیکھتا ہے تو ذرا محسوس کرو کہیں وہ بھی یہ تو نہیں نہ کہہ رہا ہے کہ او مجھے دباکر دیکھنے والے، دوڑاکر دیکھنے والے تو میرے اندر تو عیب تلاش کررہا ہے ذرا اپنے عیبوں کو بھی دیکھ ، اپنے گریبان میں بھی جھانک کر دیکھ تو کتنا پاک صاف ہے اور تو کتنا رب کے قرآن اور نبی کے فرمان کا پابند ہے؟

آج کا مسلمان قربانی کے لئے جانوروں کو خریدنے کے بعد اسے سوشل میڈیا پر فیس بک پر،واٹس ایپ پر اپلوڈ کرتا ہے آخر اس کا مطلب اور مقصد کیا ہے نام و نمود و نمائش اور شہرت حاصل کرنا نہیں تو اور کیا ہے خدارا اپنے اندر خلوص اور نیک نیتی و للہت کا جذبہ پیدا کریں تاکہ ہماری آپ کی قربانی بارگاہِ الٰہی میں مقبول ہوسکے- حضرات ابراہیم و اسماعیل علیہم السلام کے واقعات کے ایک ایک پہلو پر غور کرئیے اپنے اندر تقویٰ پیدا کیجئے تاکہ ہماری قربانی کامیاب قربانی ہو اس کے لئے دنیا میں نمبر حاصل کرنے کی کوشش نہ کریں بلکہ وہ نمبر جسے خدا کا قرب کہا جاتا ہے،، وہ نمبر حاصل کریں اور وہی نمبر نجات کا ذریعہ ہے ورنہ اس کے برعکس تو پرانی کہاوت ہے کہ نیکی کر دریا میں ڈال

محمد مظاہر عرف ہیرا بابو ؒمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ، پھلواری شریف پٹنہ

محمد مظاہر عرف ہیرا بابو ؒ
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ، پھلواری شریف پٹنہ
(اردو دنیا نیوز۷۲)
جناب محمد مظاہر صاحب عرف ہیرا بابو بھی چل بسے، بڑی سرگرم زندگی انہوں نے گذاری ، کچھ دنوں سے صاحب فراش تھے، تشخیص کینسر کی ہوئی ، پھر رو بصحت ہونے لگے، مرنے سے چند دن قبل طبیعت بگڑی تو پارس ہوسپیٹل میں داخل کرایا گیا، وہاں سے وارثین مطمئن نہیں ہوئے تو راجہ بازار کے نیو روہوسپیٹل میں منتقل کیا گیا، ۸؍ جون ۲۰۲۲ء کو دن کے ۲؍ بجے دل کا دورہ پڑا اور تین بجکر پندرہ منٹ پر اس دنیا سے رخت سفر باندھ لیا، جنازہ کی نماز ۹؍ جون کودن کے دس بجے دانش اپارٹمنٹ سمن پورہ ، راجہ بازار پٹنہ میں امارت شرعیہ کے قائم مقام ناظم مولانا محمد شبلی قاسمی نے پڑھائی، اور سینکڑوں سو گواروں کی موجودگی میں ویٹنری کالج قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں اہلیہ ، دو لڑکی اور ایک لڑکے کو چھوڑا۔
 محمد مظاہر بن وافق حسین (م ۱۹۸۵) کا آبائی وطن بھاگرت پور پنڈول موجودہ ضلع مدھوبنی تھا، یہیں وہ ۱۶؍ جون ۱۹۴۳ء کو پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم گاؤں میں حاصل کرنے کے بعد پنڈول ہائی اسکول سے میٹرک تک کی تعلیم پائی، وہاں سے پٹنہ منتقل ہو گیے اور آئی کام اور بی کام کی تعلیم کامرس کالج پٹنہ سے حاصل کی ، ۱۹۶۲ء میں بی کام کیا، اور پھرمگدھ یونیورسیٹی کے لا کالج میں داخل ہوئے اور ۱۹۶۷ء میں وکالت کی تعلیم مکمل کی لیکن انہوں نے اسے کسی بھی مرحلہ میں ذریعہ معاش نہیں بنایا۔
 محمد مظاہر صاحب اپنے علاقہ میں ہیرا بابو کے نام سے مشہور تھے، ان کی نانی ہال سوبھن ضلع دربھنگہ تھی، شادی تاج پور موجودہ ضلع سمستی پور میں عبد الوہاب (م۱۹۸۸) بن عبد اللہ مختار کی دختر نیک اختر سے ہوئی تھی، معاشی تگ ودو کا آغاز انہوں نے ایل آئی سی کے ذریعہ کیا، لیکن علماء سے تعلق خصوصا مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی قاضی القضاۃ امارت شرعیہ سے رابطہ کی وجہ سے دو تین سال سے زائد اس کام سے جڑے نہ رہ سکے، اس وقت اسلامک فقہ اکیڈمی کا فیصلہ دفع ضرر ، رفع حرج کی وجہ سے ال آئی سی کرانے کی گنجائش کا نہیں آیا تھا اور اس کام کو منکرات کا ہی ایک حصہ سمجھاجاتا تھا، اس سے الگ ہو کر انہوں نے بہار اسکول اکزامنیشن بورڈ میں ملازمت اختیار کرلی، یہ ۱۹۷۵ء کا سال تھا، مسلسل وہاں کام کرتے رہے اور سبکدوشی کی عمر کو پہونچ کر ۲۰۰۱ء میں اس ملازمت سے رشتہ توڑا، پہلے تعلیم اور پھر ملازمت کی وجہ سے انہوں نے پٹنہ کو اپنا وطن ثانی بنایا، سبکدوشی کے بعد سے وہ حسن پیلیس سمن پورہ راجا بازار، پٹنہ میں قیام پذیر تھے۔
 محمد مظاہر صاحب کا رشتہ امارت شرعیہ سے بڑا مضبوط اور مستحکم تھا، واقعہ یہ ہے کہ امارت شرعیہ کے بے غرض اور بے لوث فدائین کی کوئی مختصر سی فہرست تیار کی جائے گی تو اس میں محمد مظاہر صاحب کا نام ضرور آئے گا، وہ امارت شرعیہ کے اکابر اور امراء شریعت سے عقیدت مندانہ تعلق رکھتے تھے، انہوں نے چار امراء شریعت کے دور میںامارت شرعیہ کے اغراض ومقاصد کو زمین پر اتارنے اور ان کے احکام کو عوام تک پہونچانے کے لیے سر گرام جد وجہد کی۔ عرصہ دراز سے امارت شرعیہ کی مجلس شوریٰ کے رکن تھے، وہ ۲۰۱۰ء سے ۲۰۱۳ء تک  مولانا منت اللہ رحمانی ٹیکنیکل انسٹی چیوٹ کی مجلس منتظمہ کے سکریٹری رہے اور اپنی توانائی سے جس قدر وہ اس ادارہ کو مضبوط کر سکتے تھے کیا، وہ عمر کے آخری دن تک امارت شرعیہ کی مجلس شوریٰ کے رکن بھی رہے،وہ آل انڈیا ملی کونسل کے قیام کے وقت سے ہی بحیثیت رکن اس سے جڑ گئے تھے اور بہار میں جناب راغب احسن ایڈوکیٹ ، مفتی نسیم احمد قاسمی، راقم الحروف (محمد ثناء الہدیٰ قاسمی) اور مولانا مشہود احمد قادری ندوی کے دور سکریٹری شپ میں بھر پور حصہ داری نبھائی، بعد میں وہ ایڈہاک کمیٹی ملی کونسل کے کنوینر بنے اوربہار انتخاب کے بعد ملی کونسل کے لیے بھی کام کرتے رہے ۔
 محمد مظاہر صاحب کی خدمت کا ایک بڑا میدان عازمین حج کی خدمت کا تھا، سبکدوشی سے قبل جز وقتی اور سبکدوشی کے بعد کل وقتی طور پر عازمین کو سفر حج پر روانہ کرنے سے قبل ان کے مسائل ومشکلات اور کاغذات کی تیاری میں کم از کم چار چیرمین کے دور میں پوری تندہی سے کام کرتے میں نے ان کو دیکھا ہے ، کبر سنی کے باوجود وہ بڑے چاق وچوبند رہتے اور اس قدر خدمت کرتے کہ نوجوان خادم الحجاج بھی پسینے پسینے ہوجاتے، کم از کم ایک ماہ وہ دن رات حج ہاؤس میں قیام پذیر ہوجاتے اور جو کام بھی انہیں دیا جاتا اس میں جی جان سے لگ جاتے۔
 تعلیم کے میدان میں بھی محمد مظاہر صاحب کی خدمات بڑی وقیع تھیں وہ ۱۹۸۵ء سے تا حال عبد الصمد اردوگرلس ہائی اسکول کے سکریٹری تھے ، لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ میں اس اسکول کی بڑی اہمیت رہی ہے، اس کے علاوہ انہوں نے ایک مدرسہ سلیم العلوم کے نام سے اپنے گاؤں بھاگرت پور پنڈول میں کھولا تھا، اسے انہوں نے مدرسہ بورڈ سے ملحق بھی کروالیا تھا، البتہ ابھی گرانٹ نہیں مل پائی تھی۔
 محمد مظاہر صاحب ان لوگوں میں تھے جن کا دل مسجد میں لٹکا ہوتا ہے، احادیث میں ایسے لوگوں کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے، وہ ۱۹۸۵ء سے ۲۰۰۹ء تک پٹنہ جنکشن مسجد کے سکریٹری رہے، ۲۰۲۱ء میں انہیں دوبارہ سکریٹری بنایا گیا، لیکن انہوں نے اپنی علالت طبع اور کبر سنی کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا، عام طور سے پٹنہ جنکشن مسجد کے ایک کمرہ میںنیچے محمد مظاہر صاحب، جناب ہارون رشید  مرحوم سابق چیرمین اقلیتی کمیشن اور صغیر احمد صاحب کی مجلس لگتی ، جیب خاص سے چائے وغیرہ کا دور چلتا، امارت شرعیہ کا کوئی کارکن یاذمہ دار پہونچتا تو اس کی بھر پور پذیرائی کرتے، انہوں نے مولانا اکرام صاحب جو ان کے وقت میں پٹنہ جنکشن مسجد کے امام تھے، کہہ رکھا تھا کہ امارت شرعیہ کی طرف سے کوئی اعلان آئے یا کوئی خطیب بھیجا جائے تو مجھ سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے ، اعلان کیجئے اور موقع دیجیے، چنانچہ جب کبھی ہم لوگ گیے، پٹنہ جنکشن کے منبر ومحراب ہم لوگوں کے حوالے ہوجاتے۔
میرا ان سے ذاتی تعلق امارت شرعیہ آنے کے قبل سے تھا، ہم لوگوں کا انتخاب ایک ساتھ حج ٹرینر کی حیثیت سے ہوا تھا، اور دہلی میں بچوں کے گھر میں ٹریننگ کے درمیان ہم لوگ ساتھ ساتھ رہے تھے، اس ملاقات اور تعلق کو وہ بہت اہمیت دیتے تھے، پھر جب ۳۰۰۳ء میں نائب ناظم کی حیثیت سے حضرت امیر شریعت سادس مولانا سید نظام الدین کے خصوصی حکم سے میں یہاں کام کرنے لگا تو گھنٹوں مختلف امور پر ہم لوگوں کا تبادلہ خیال ہوتا رہتا تھا، اور وہ ملی مسائل اور تعلیمی امور پر کھل کر اظہار خیال کیا کرتے تھے۔
محمد مظاہر صاحب چلے گیے، بڑی صداقت یہی ہے کہ جو آیا ہے اسے اس دنیا سے جانا ہے، اس حقیقت کو جاننے کے باوجود جدائی کا غم تو فطری ہے ، ہم سب ان کی جدائی سے غمگین ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، پس ماندگان کو صبرجمیل دے اور جن اداروں سے وہ متعلق تھے انہیں ان کا نعم البدل مل جائے، ہم سب کو اس کی دعا کرنی چاہیے۔ آمین یا رب العالمین وصلی اللہ علی النبی الکریم وعلیٰ آلہ وصحبہ اجمعین۔

جمعرات, جولائی 07, 2022

صاحب استطاعت مسلمانوں پر قربانی کرنا واجب ہے لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ ہمارے عمل سے کسی کو تکلیف نہ ہو

صاحب استطاعت مسلمانوں پر قربانی کرنا واجب ہے لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ ہمارے عمل سے کسی کو تکلیف نہ ہو
نئی دہلی: ۷؍جولائی ( پریس ریلیز اردو دنیا نیوز۷۲) ل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے اپنے صحافتی بیان میں کہا ہے کہ عید قرباں مسلمانوں کا نہایت اہم تہوار ہے، جو اللہ کے دو پیغمبروں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی یاد دلاتا ہے اور ہمیں اس جانب متوجہ کرتا ہے کہ ہم اللہ کی رضا کی خاطر ہر طرح کی قربانی کے لئے تیار رہیں اور عقیدۂ توحید پر ثابت قدم رہیں، اس موقع پر جانوروں کی قربانی بھی کی جاتی ہے، شریعت کا یہ حکم مالدار مسلمانوں سے متعلق ہے اور دنیا کے دوسرے مذاہب میں بھی اس کا تصور موجود ہے؛ لیکن قربانی کرتے ہوئے یہ بات ضروری ہے کہ ہم کوئی ایسا عمل نہ کریں جو دوسرے بھائیوں کے لئے دلآزاری کا سبب ہو، امن کو نقصان پہنچے، گندگی پھیلے، تعفن پیدا ہو، جانور کا متعفن حصہ سرِ راہ اور آبادیوں کے اندر پھینک دیا جائے، یہ ساری باتیں شریعت کے بھی خلاف ہیں اخلاق کے بھی اور قانون کے بھی، صحت کی حفاظت اور سماج کو بیماریوں سے بچانا سبھوں کی ذمہ داری ہے؛ اس لئے حکومت نے غلاظتوں کے پھینکنے کے لئے جو جگہ مقرر کی ہے، ان کو وہیں پھینکنا چاہئے، صفائی ستھرائی اور بھائی چارے کی برقراری کا خیال رکھنا چاہئے

ایک عورت کے نکاح کی خوبصورت کہانی

ایک عورت کے نکاح کی خوبصورت کہانی 
(اردو دنیا نیوز۷۲)
جب میرے بابا امّی کی شادی ہوئی تو بابا نے حق مہر کے طور پر امّی کے لیے سورۃ آلِ عمران حفظ کی اور جب میری شادی ہو رہی تھی تو بابا نے میرے شوہر کو بھی یہی کہا کہ وہ میرے حق مہر میں قرآن کی کوئی سورۃ حفظ کرے، اس کے بعد شادی کرنے کا کہا گیا۔

مجھے اپنے حق مہر کے لیے قرآن کی کوئی سورۃ کا انتخاب کرنے کے لیے کہا گیا تو میں نے سورۃ النّور کا انتخاب کیا۔ مجھے لگ رہا تھا یہ سورۃ حفظ کرنا بہت مشکل ہے۔ ایک طرف شادی کی تیاریاں ہو رہی تھی تو دوسری طرف میرے شوہر سورۃ حفظ کر رہے تھے ہر وقت ان کے ہاتھ میں قرآن ہوتا اور وہ سورۃ یاد کر رہے ہوتے۔

شادی سے کچھ دن پہلے میرے شوہر بابا کے پاس آئے سورۃ سنانے جو اُنہوں نے پوری حفظ کرلی تھی۔ بابا بار بار غلطی نکالتے اور شروع سے شروع کرنے کا بولتے۔ میرے شوہر نے آہستہ آواز میں تلاوت شروع کی، اتنا خوبصورت منظر میں کبھی نہیں بھول سکتی، میں اور میری امّی نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور میرے شوہر کی اگلی غلطی کے انتظار میں مُسکرانے لگی جس کے بعد انہیں پھر سے شروع کرنا پڑتا، پر میرے شوہر نے ایک بار میں پوری سورۃ سُنا دی، ایک لفظ بھی نہیں بھولے۔ سورۃ سُننے کے بعد میرے بابا نے انہیں گلے سے لگا لیا اور کہا کہ میں اپنی بیٹی کی شادی تم سے کروں گا۔ تم نے اس کا حق مہر ادا کردیا ہے۔

انہوں نے مجھے کوئی مالی حق مہر نہیں دیا نہ ہی ہم نے کوئی قیمتی زیور خریدے۔ انہوں نے مجھے کہا ہم دونوں کے درمیان حلف و معاہدے کے طور پر اللہ کے الفاظ کافی ہیں۔ اب میں سوچتی ہوں مستقبل میں میری بیٹی اپنے حق مہر کے لیے کونسی سورۃ کا انتخاب کرے گی؟

🌷 اگر ایسا حق مہر اور جہیز شادیوں پہ دیا جانے لگے تو ہر غریب کی بیٹی کی شادی آسانی سے ہو اور شادیاں کامیاب بھی ہوں کبھی کوئی گھر نہ اجڑے نہ ہی بہوئیں جہیز کے طعنوں سے تنگ آ کر خود کُشی کرے۔
#منقول

بقرعید سے پہلے حضرت مولانا کلیم صدیقی ، حافظ ادریس قریشی و ان کے رفقا سے ملاقات جیل میں کی داستان - ایڈوکیٹ اسامہ ندوی

بقرعید سے پہلے حضرت مولانا کلیم صدیقی ، حافظ ادریس قریشی و ان کے رفقا سے ملاقات جیل میں کی داستان - ایڈوکیٹ اسامہ ندوی
(اردو دنیا نیوز۷۲)
مسلمانان ہند بقر عید کی تیاریوں میں لگے ہیں اور چند روز کے بعد خوشیوں میں مشغول ہو جائیں گے،آج لکھنؤ جیل جانا ہوا ، حضرت مولانا کلیم صدیقی مدظلہ، حافظ ادریس قریشی صاحب مدظلہ، حاجی سلیم ڈرائیور ،ڈاکٹر عاطف بھائی سرفراز جعفری صاحبان سے ملاقات ہوئی ، ملاقات کے وقت حضرت مولانا نے باہر کے تمام احباب کی خیر و عافیت لی ،کچھ لوگوں کو نام لے لیکر معلوم کیا ۔ وطن عزیز پھلت کے بارے میں گاؤں والوں کے بارے میں معلوم کیا، حج بیت اللہ پر کون کون گیا ہے ؟جانے والوں سے دعاؤں کی درخواست کرنے کو کہا،باتوں باتوں میں مجھ سے پوچھنے لگے: گھر کب جاؤگے ؟ اس پر میں نے آہستہ سے کہہ دیا: حضرت ان شاء اللہ آپ کو لے کر جائیں گے،حضرت والا کی آنکھیں نم ہونے کو تھیں کہ میں نے ان سے نظریں چرا لیں ، حضرت والا نے کہا : جاؤ بیٹا بقرعید پر گھر جاؤ، وہاں کے حال احوال لو، گھر کی ضروریات دیکھو،ان شاء اللہ جلدی ہی باہر آئیں گے۔ پچھلے دس مہینوں میں عید الفطر کے بعد آج کی ملاقات پر جو کیفیت دیکھنے کو ملی، اس کو دیکھ کر میرے حواس قابو میں نہیں ہیں، لکھنؤ کی جھلسا دینے والی گرمی میں جیل کی صعوبتیں اور تکلیفیں برداشت کر رہے ہیں ،جیل کی سخت گرمی میں اگر حلق خشک ہوکر سوکھ جائے تو شربت تو دور کی بات ہے، فوری طور پر اپنی پیاس بجھانے اور حلق بھگونے کے لئے ٹھنڈا پانی بھی میسر نہیں ہے ،ملاقات کے وقت سر پر ٹوپی کو پانی میں بھگو کراور رومال کو گیلا کرکے اوڑھ کر آتے ہیں ، بظاہر تو چہرے پر خوشی ہوتی ہے لیکن ہمارا جو برا حال سلاخوں سے باہر رہتا ہے (کئی بار گرمی سے چکر آچُکے ہیں)دھوپ کی گرمی سے جیل کی پتھریلی اینٹیں پک جاتی ہیں،صحرائی زمین کے فرش کے بارے میں تصور سے ہی روح کانپ جاتی ہے۔ لکھنؤ میں جون جولائی کی ایسی گرمی ہے کہ پیلے پھول کالے پڑ گئے، جیل میں موسم گرماکی حرارت،دیوار اور فرش کی تپش ،سلاخوں کی حِدّت وتمازت ان بزرگوں کے حوصلوں کو کمزور نہیں کر رہی ہیں ،کیوں کہ یہ لوگ اپنے لئے فکر مند نہیں یہ باہر کے لوگوں کے لئے بے چین ہیں، جیل کی گرمی سے یہ مضطرب نہیں ہیں،اپنے رب کے فیصلے کو خوشی خوشی قبول کر رہے ہیں ،بھلے ہی جیل میں تکلیف اٹھا رہے ہوں لیکن کبھی زبان پر کوئی شکایت نہیں سننے کو ملتی ہے۔ جبکہ ہم عید کی خوشیاں منانے میں مصروف ہیں،یہ لوگ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہماری شناخت اور پہچان کے لئے ہیں، اسلام کے تحفظ اور دین کی بقا کے لئے ہیں، گھر کے چھوٹے چھوٹے بچے،بھائی بہن،بیوی ان کی راہ تکتے ہوئے خوشی بھرا تہوار اُن کے بغیر نہ چاہتے ہوئے گزاریں گے، لہذا راہ دعوت وعزیمت میں سنت یوسفی ادا کرنے والوں کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ جو بے گناہ مسلمان سلاخوں کے پیچھے بند ہیں اُن کی تو غیب سے مدد فرما اور اُنہیں با عزت بری کر دے۔ آمین يا رب العالمین

بدھ, جولائی 06, 2022

ذی الحجہ کے دس دن اوران کے اعمال

ذی الحجہ کے دس دن اوران کے اعمال
(اردو دنیا نیوز۷۲)
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ
ذی الحجہ کا مہینہ ہجری سال کا آخری مہینہ ہے ، اس مہینہ کے ابتدائی دس دنوں کے فضائل احادیث میں مذکور ہیں اور قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے سورۃ الفجر میں جن دس راتوں کی قسم کھائی ہے ، بیش تر مفسرین کی رائے یہی ہے کہ یہ ذی الحجہ کے شروع کے دس دن ہیں، ان میں خصوصیت سے نیک اعمال کی ترغیب دی گئی ہے ، یہ اعمال ذکر واذکار ، قیام اللیل اور روزوں کی صورت میں بھی ہو سکتے ہیں، ترمذی شریف کی ایک روایت میں جن کے راوی حضرت ابن عباس ؓ ہیں، منقول ہے کہ ذی الحجہ کے پہلے دس دنوں میں کیے گیے اعمال اللہ رب العزت کے نزدیک تمام ایام کی عبادت کے مقابل زیادہ محبوب ہیں، حضرت ابو قتادہ سے مرفوعا مروی ہے کہ ان ایام میں ایک دن کا روزہ پورے سال کے روزوں اور ایک رات کا قیام شب قدر کے قیام کی طرح ہے ۔(ترمذی وابن ماجہ)
 ذی الحجہ کے ان دس روز وشب میں مسلمانوں کو خصوصیت سے ذکر اللہ کا اہتمام کرنا چاہے، سورۃ الحج میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ مقررہ دنوں کے اندر اللہ کے نام کا ذکر کرتے رہو، محدثین ، مفسرین اور خود صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نزدیک یہ مقررہ دن ذی الحجہ ہی کے دس ایام ہیں، امام احمدبن حنبلؒ نے حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت نقل کی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ان دس دنوں میں کثرت سے لا الٰہ الا اللہ، اللہ اکبر اور الحمد للہ کہا کرو، امام بخاری ؒ نے حضرت عبد اللہ بن عمرؓ اور حضرت ابو ہریرہ ؓ کا یہ عمل بھی نقل کیا ہے کہ وہ تکبیر کہتے ہوئے بازار نکل جاتے اور دوسرے لوگ بھی ان کے ساتھ تکبیر کہنا شروع کر دیتے ۔
 دوسرا عمل جس کا حدیث میں ذکر ہے وہ یہ کہ جب ذی الحجہ کا چاند نظر آجائے تو جس کی جانب سے قربانی ہونی ہے افضل ہے کہ وہ اپنے بال اور ناخن نہ تراشے، عام مسلمانوں کو ہدایت ہے کہ نویں ذی الحجہ آئے تو اس دن نفلی روزہ رکھیں، حدیث میں ہے کہ نویں ذی الحجہ کے روزہ رکھنے سے ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں، نویںذی الحجہ سے ہی فجر کی نماز کے بعد سے ہر نماز کے بعد تکبیر تشریق اللہ اکبر اللہ اکبر لا الٰہ الا اللہ ،و اللہ اکبراللہ اکبر وللہ الحمد کا ورد شروع ہوجاتا ہے، عیدگاہ جانے میں بھی تکبیر کہی جاتی ہے، نماز کے بعد خطبہ میں بھی اللہ کی بڑائی بیان کرنے کا خصوصی اہتمام ہوتا ہے ۔ 
ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کی اسلام میں بڑی اہمیت ہے ، اس دن مسلمان دوگانہ ادا کرتے ہیں اور نماز کے بعد جانور کی قربانی کرتے ہیں، حدیث میں آتا ہے کہ قربانی کے تین ایام یعنی دس تا بارہ ذی الحجہ کو قربانی سے زیادہ اللہ کے نزدیک کوئی عمل زیادہ محبوب نہیں ہے ، تکبیر تشریق کا اہتمام تیرہ کی عصر تک کی جاتی ہے ، تاکہ ہر طرح کی بڑائی بشمول قیمتی جانوروں کی قربانی سے پیدا شدہ کبر ونخوت سے دل ودماغ پاک ہوجائیں۔
 قربانی کن جانوروں کی، کی جائے گی اس سے لوگ واقف ہیں،ا لبتہ جانوروں کے انتخاب میں مقامی حالات اور ملکی احوال کو سامنے رکھنا چاہیے، قربانی کی باقیات کو ادھر اُدھر پھینکنے سے تعفن اور بد بو پیدا ہوتی ہے جو آپ کے رہائشی علاقہ کی فضا کو آلودہ کرتا ہے اور راستوں سے گذرنے والے کو اس سے تکلیف پہونچتی ہے ، اسلام میں صفائی کو ایمان کا حصہ قرار دیا گیا ہے اور راستوں سے تکلیف دہ چیزوں کا ہٹا نا بھی صدقہ ہے، اس لیے اپنی آبادی میں اس کا خیال ضرور رکھنا چاہیے، ممکن ہوتو گاؤں والوں کی میٹنگ کرکے صفائی کے اہتمام کا ماحول بنانا چاہیے۔
 آپ کی قربانی کے گوشت میں آپ کے اعز واقربا، فقراء ومساکین کا بھی حصہ ہے ، کوشش کیجئے کہ شریعت کے مقررہ اصول کے حساب سے غربا تک قربانی کے گوشت کے تین حصوں میں سے ایک حصہ ضرور پہونچ چائے، تاکہ وہ بھی اللہ کی میزبانی کا لطف اٹھا سکیں، دیکھا یہ جا رہا ہے کہ بڑے کا گوشت تو کسی حد تک غرباء کو مل جاتا ہے، لیکن چھوٹے جانور کا بڑا حصہ ہماری فِرج کی زینت بن جاتا ہے اورہم مہینوںتک اس کا استعمال کرتے ہیں، اپنے حصہ کو محفوظ کر لیجئے، بُرا نہیں، لیکن اس کو محفوظ کرنے کے چکر میں غربا کا حصہ ہضم کرجانا شریعت کی نظر میں نا پسندیدہ ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے قربانی کے گوشت کو بھی دوسروں پر قربان نہیں کرنا چاہتے ، پھر کس طرح قربانی کا مزاج بنے گا۔
 یہی حال قربانی کے کھالوں کا ہے ، یقینا آپ اسے اپنے استعمال میں لا سکتے ہیں، لیکن اگر اس کو فروخت کردیا تو پھر اس کی قیمت کا استعمال آپ کے لیے جائز نہیں ہے، آپ اس سے نہ تو مسجد ومدرسہ کی عمارت کھڑی کر سکتے ہیں اور نہ ہی امام ومؤذن کی تنخواہ پر اسے صرف کر سکتے ہیں، اسے مستحقین زکوٰۃ تک پہونچانا لازم اور ضروری ہے ۔
 بہت سارے دانشور یہ بھی کہا کرتے ہیں کہ جانور ذبح کرنے کے بجائے اس رقم سے غرباء ومساکین کی مدد؛ بلکہ بعض لوگ ’’امپاور منٹ‘‘ کے لیے اس کے استعمال کی وکالت کرتے ہیں، یہ شریعت کے اسرار ورموز سے نا واقفیت کی دلیل ہے، ہر عمل کے اثرات الگ الگ ہوتے ہیں جس کو ہم لوگ سماج میں کھلی آنکھوں دیکھتے ہیں، مقویات کے استعمال سے بدن قوی ہوتاہے اور نشہ کا استعمال جسم کو کھوکھلا اور بہت سارے امراض میں مبتلا کرنے کا سبب بنتا ہے، اسی طرح نماز کی پابندی سے تکبر ختم ہوتا ہے، روزہ حرص ولالچ کو بیلنس کرتا ہے ، زکوٰۃ کی ادائیگی سے بخالت کی بیماری دور ہوتی ہے، اور حج سے امتیاز کی بیماری کا خاتمہ ہوتا ہے اسی طرح قربانی سے انسان کے اندر قربانی کا مزاج بنتا ہے اور وہ جان لیتا ہے کہ ہمارا اپنا کچھ نہیں ہے ، میری نمازیں، میری قربانیاں؛ بلکہ میری زندگی اور موت سب اس کا ئنات کے رب اللہ رب العزت کے لیے ہے ، اس لیے اسلام جب اور جس قسم کی قربانی کا طالب ہوگا، ہم اس کو دینے سے گریز نہیں کریں گے، اس موقع سے ہمیں حضرت ابراہیم نبینا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قربانی کو بھی یاد رکھنا چاہیے، جب انہوں نے اپنے لڑکے کی قربانی دینے کا عزم بالجزم اللہ کی رضا کے لیے کر لیا تھا، صبر کے پیکر حضرت اسماعیل علیہ السلام نے ذبح ہونا قبول کر لیا تھا؛ بلکہ ذبح کے طریقے بھی بتائے تھے کہ مجھے پیشانی کے بل لٹا ئیے تاکہ چہرے پر نظر پڑنے سے آپ کی شفقت پدری اس قربانی کی راہ میں حائل نہ ہو، چاقو حلقوم پر رکھدی گئی، لیکن اللہ صرف اپنے خلیل کی فدائیگی دیکھنا چاہتے تھے، یہ پورا ہو گیا تو ایک دوسرے جانور کی قربانی ہوئی حضرت اسماعیل بچ گیے اور حضرت ابراہیم خلیل اللہ امتحان میں کامیاب ہو گیے، کیسا عجب ہوگا یہ منظر اور عرش پر کیسا تہلکہ فرشتوں کے درمیان ہوا ہوگا، سوچ کر عقل کام نہیں کرتی، اس طرح قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے اس ابراہیم ؑکی جس پر ہم ہر نماز میں درود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھتے ہیں اور جس طرح برکت کی دعا آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کرتے ہیں، حضرت ابراہیم نبینا علیہ السلام کے لیے بھی کرتے ہیں، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ہی اسلام کے ماننے والوں کے لیے مسلمان نام رکھا ہے ۔
قربانی کے جانور کے ہر بال کے بدلے ایک نیکی ملتی ہے ، بھلا کوئی جانور کے بال گن سکتا ہے جس طرح جانور کے بالوں کی گنتی اللہ ہی جانتا ہے، اسی طرح قربانی پر اجر وثواب بھی اسی حساب سے اللہ رب العزت دیتے ہیں، قربانی کے یہ جانور پل صراط میں ہمارے لیے سواری کے کام آئیں گے اس لیے حکم دیا گیا کہ موٹے جانور کی قربانی کی جائے جس میں کوئی جسمانی عیب نہ ہو، یہاں پر یہ بات ذہن میں نہیں لائی جائے کہ چھوٹے جانور کس طرح انسان کا بوجھ بر داشت کریں گے اور بڑے جانور پر پل صراط پار کرنے کے لیے سات آدمی کس طرح لد جائیں گے ۔ جو اللہ معدوم چیزوں کو وجود بخش دیتا ہے اس کے لیے کیا بعید ہے کہ وہ ان جانوروں کو ضرورت کے مطابق توانا بنا دے اور ہم تیزی کے ساتھ پل صراط پار کر جائیں۔
لیکن اس کا سارا مدار دل کی کیفیات پر ہے ، قربانی اللہ کی رضا کے لیے کیا ہے تو سب کچھ ہو سکتا ہے، اور اگر دکھاوے، نمود ونمائش اور ریا کاری کے لیے کیا ہے تو وہ صرف گوشت کھانے کے ہی کام کا ہے، پل صراط پر ایسی قربانی کے کام آنے کا خیال چھوڑ دینا چاہیے۔ قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے صاف صاف ارشاد فرما دیا ہے کہ اللہ کے نزدیک قربانی کے جانور کا گوشت اور خون نہیں پہونچتا، اس کے نزدیک صرف تقویٰ کی قدر ہے او رتقویٰ دل کی اس کیفیت کا نام ہے جس میں اللہ کا خوف ، اللہ کی خشیت اور ڈر شامل ہو۔
 اس لیے قربانی کرنے کے بعد اپنے دل کو بھی ٹٹولنا چاہیے کہ کہیں وہ تقویٰ سے خالی تو نہیں ہے، یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ قربانی کرنے سے دین وشریعت پر اپنے مزاج کے تقاضوں کو قربان کرنے کا مزاج بنا، یا نہیں، قربانی کے جانور کی آنکھیں کھلی رہ کر آپ سے یہی دریافت کرتی ہیں کہ ہم نے تو اپنی جان قربان کر دی، لیکن کیا اس قربانی کا اثرتمہارے نفس امارہ پر بھی پڑا یا نہیں، اگر تمہارا نفس امارہ رضائے الٰہی کے لیے قربان ہو گیا تو ہماری جان کا جانا کار آمد ہو گیا۔
 قربانی اللہ کے لیے کی جاتی ہے ، اللہ کے نام سے کی جاتی ہے ، ہمارے یہاں یہ غلط اصطلاح رائج ہو گئی ہے کہ کس کے نام سے قربانی ہوگی، قربانی سب اللہ ہی کے نام سے ہوگی، ہر جانور کو ذبح کرتے وقت بسم اللہ اللہ اکبر کہا جائے گا، اس سلسلے میں صحیح تعبیر یہ ہے کہ کس کی طرف سے قربانی ہوگی، یاد رکھنا چاہیے کہ ہر ایسے مسلمان کی طرف سے قربانی ہوگی جو دسویں ذی الحجہ کی صبح کو چھ سو بارہ(۶۱۲) گرام تین سو ساٹھ (۳۶۰)ملی گرام یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی یا ستاسی(۸۷) گرام چار سو اسی (۴۸۰)ملی گرام یعنی ساڑھے سات تولہ سونا کا مالک ہو۔
 اس اعتبار سے ایک خاندان میں جتنے لوگ اتنی مالیت کے مالک ہوں گے ، سب کی طرف سے الگ الگ قربانی دینی ہوگی، صرف گھر کے گارجین کی طرف سے قربانی کافی نہیں ہوگی، گھر میں اگر بیوی ، بہو وغیرہ کے پاس اس قدر زیور یا بینک بیلنس ہے ، لڑکوں کے پاس حوائج اصلیہ کے علاوہ ا تنی قیمت کی کوئی چیز ہے تو اس کی طرف سے بھی قربانی واجب ہے، جس پر قربانی واجب ہے اسے اپنی طرف سے قربانی کرنی چاہیے ۔ قربانی کے بجائے اپنا عقیقہ کرنا یا مُردوں کے ایصال ثواب کے لیے قربانی کرنا ضروری نہیں ہے، عقیقہ ساتویںدن مشروع ہے، اس لیے یہ سوچ کر کہ دادا کا عقیقہ نہیں ہوا تھا، پہلے عقیقہ کریں ،پھر ان کی طرف سے قربانی ہو پائے گی، شرعی طور پر غلط ہے۔ قربانی کے ایام میں قربانی ہی کرنی چاہیے، استطاعت ہو تو اپنی طرف سے قربانی کے بعد مُردوں کی طرف سے بھی قربانی کریں تو حرج نہیں ہے، قربانی کے جانور میں عقیقہ کا حصہ لیا جا سکتا ہے، لیکن واجب قربانی کی ادائیگی کا پہلے خیال رکھنا ضروری ہے ۔

الحمدللہ آج بتاریخ/ ۶/جولائی بروز بدھ بوقت /۱۰ بجکر ۳۰ دن زوم ایپ پر تحفظ شریعتِ کے ممبران کے درمیان دوسری بارایک مٹینگ رکھی گئی

الحمدللہ آج بتاریخ/ ۶/جولائی بروز بدھ بوقت /۱۰ بجکر ۳۰ دن زوم ایپ پر تحفظ شریعتِ کے ممبران کے درمیان دوسری بارایک اہم مٹینگ رکھی گئی جوبیحدکارگرثابت ہوئی
(اردو دنیا نیوز۷۲)
تحفظ شریعت ویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ ارریہ بہار
جس کی زیرِ سرپرستی حضرت مولانا عبداللہ سالم قمرقاسمی چترویدی صاحب فرماۓ
زیر صدارت حضرت تحفظ کے کارگرسکریٹری جناب مولاناعبدالوارث صاحب مظاہری
زیر نظامت حضرت مولانافیاض احمدراھی صاحب نے کی
 جس میں مہمان خصوصی کے طورپر حضرت مولانا حافظ وقاری شہزاد صاحب اشاعتی قرآن مجید کی تلاوت فرمائی
شاعر اسلام حضرت مولانا شمس الزماں صاحب کشن گنجوی
خطیب العصر حضرت مولانامجاہدالاسلام مجیبی القاسمی صاحب 
مقرر ذیشان حضرت مولانا مفتی مجاہد الاسّلام صاحب جوکی ہاٹ ارریہ
   اور قاری محبوب رحمانی صاحب وقاری عظمت اللہ صاحب منصوری وقاری توصیف صاحب وقاری شاداب صاحب دہلوی وشاعراسلام قاری ابراردانش صاحب  کی بھی شرکت مستقل رہی اللہ آنے والے تیسری مٹینگ کوکامیاب کرےآمین یارب العالمین.

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...