Powered By Blogger

ہفتہ, جولائی 30, 2022

تحفظ شریعت ویلفیئر سوسائٹی جوک ہات ارریہ محرم الحرام کا سلسلہ وار پروگرام جاری ہے

تحفظ شریعت ویلفیئر سوسائٹی جوک ہات ارریہ محرم الحرام کا سلسلہ وار پروگرام جاری ہے
(اُردو دنیا نیوز۷۲)
ماشاءاللہ سلسلہ وار پروگرام کا آج رحیمی جامع مسجد سنگورا میں منعقد ہوئی زیر صدارت حضرت قاری محمد الیاس صاحب مہتمم مدرسہ محمودیہ ہاٹ گاؤں مقرر خصوصی حضرت مولانا محمد کونین صاحب مظاہری ، و مفتی محمد نعیم صاحب قاسمی ، و مفتی محمد مبشر صاحب مظاہری ، اور مفتی محمد صدام حسین صاحب ماہ محرم الحرام کے متعلق فضائل ،  بدعت وخرافات پر مدلل بیان فرمایا اس پروگرام میں شریک رہے ، مولانا محمد ذوالفقار ، مولانا محمد تنزیل الرحمان ، قاری عبدالقدوس ،قاری محمد شاہد صاحب ،حافظ انوار الحق ،مولانا محمد وثیق ،قاری اسامہ ،حافظ شہباز ، وغیرہ موجود رہے

جمعہ, جولائی 29, 2022

ہندوستان کی نئی صدر جمہوریہ ___

ہندوستان کی نئی صدر جمہوریہ ___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
(اردو دینا نیوز ۷۲)
بالآخر دروپدی مرمو ہندوستان کی نئی صدر جمہوریہ منتخب ہو گئیں، انہوں نے اپنے حریف اور حزب مخالف کے متفقہ امیدوار یشونت سنہا کو بھاری اکثریت سے شکست دی، جمہوریت میں صلاحیتوں کی قدر نہیں ہوتی، فیصلے سروں کو گن کر کیے جاتے ہیں، اور سر گننے کے عمل میں دروپدی مرمو جیت گئیں، یہ در اصل صلاحیت پر طبقہ واریت کی جیت ہے، ذات پات، قبائلیت اور ووٹ کی سیاست کی جیت ہے، ورنہ صحیح اور سچی بات یہ ہے کہ صلاحیت اور سیاست میں وزن کے اعتبار سے یشونت سنہا ہر اعتبار سے دروپدی مرمو پر فائق تھے، لیکن اب امیدوار جن چیزوں کو سامنے رکھ کر منتخب کیاجاتا ہے ، یشونت سنہا اس کسوٹی پر پورا اتر نہیں پائے اور انہیں ہار کا منہہ دیکھنا پڑا۔
 دروپدی مرمو صدر جمہوریہ ہونے کے ساتھ ہندوستان کی خاتون اول بھی بن گئی ہیں، صدر کے عہدہ کی وجہ سے اب ان کی رہائش پارلیامنٹ ہاؤس کے سامنے والے پہاڑی پر واقع ساڑھے چار ایکڑ اراضی پر پھیلے اس عمارت میں ہوگی، جس میں تین سو چالیس کمرے، چون بیڈ روم، دفاتر، باورچی خانے، پوسٹ آفس دنیا بھر میں مشہور مغل گارڈن ، کھیل کے میدان اور دربار ہال ہیں، دربار ہال تک پہونچنے کے لیے بتیس زینے چڑھنے پڑتے ہیں، مرکزی حصہ کے اوپر واقع اس کا گنبد ایک سو ستہر (۱۷۷) فٹ بلند وبالا ہے۔
 دروپدی مرمو کی ولادت جون ۱۹۵۸ء میں اڈیشہ کے ضلع میور بھنج کے ایک چھوٹے سے سنتھالی گاؤں اوپر بیڈا میں ہوئی، ان کی تعلیم بی اے تک ہے، ان کے آنجہانی شوہر شیام چرن مرمو تھے، جو اپنے بیٹے کے حادثاتی موت کا صدمہ برداشت نہیں کر سکے اوردنیا سے سدھارے، دروپدی مرمو بھی اپنے دو بیٹیوں ، شوہر، ماں اور بڑے بھائی کی ایک سال کے اندر مر جانے سے ٹوٹ گئی تھیں، لیکن انہوں نے خود کو سنبھالا ورزش کے مختلف طریقوں کو اپنا کر اعصاب مضبوط کیے اور سیاسی ، سماجی میدان کار کو اپنے لیے منتخب کیا۔
 انہوں نے اڈیشہ کے سکریٹریٹ میں کلرک کی نوکری سے اپنے کیریر کا آغاز کیا، اس میں طبیعت نہیں جمی تو انہوں نے اسکول میں معلمی کا پیشہ اختیار کیا، ۱۹۹۷ء میں وہ اڈیشہ کے رائے رنگ پور ضلع میں بی جے پی کے ٹکٹ پر کونسلر منتخب ہوئیں، تین سال بعد بی جے پی کے ٹکٹ پر اسمبلی پہونچیں، ۲۰۰۰ء میں بھاجپا اور بیجو جنتا دل کی مخلوط حکومت میں وہ پہلی بار وزیر بنیں، ۲۰۱۵ء میں وہ مودی حکومت کی جانب سے جھارکھنڈ کی پہلی خاتون گورنر بنائی گئیں، اور اب ۲۰۲۲ء میں صدارتی محل ان کے استقبال کے لیے تیار ہے ۔
دروپدی مرمو کھانے پینے کے اعتبار سے سبزی خور ہیں، ان کا نفسیاتی مطالعہ کرنے والوں کا کہنا ہے کہ وہ ایک جذباتی خاتون ہیں، لیکن موقع کے اعتبار سے انہیں اپنے فیصلے پر جمنا بھی آتا ہے، اللہ کرے وہ ہندوستان کے روایتی ربر اسٹامپ صدر کی فہرست میں سر فہرست نہ بنیں، فی الوقت نیک خواہشات ہی پیش کی جا سکتی ہیں، وقت بتائے گا کہ وہ کیسی صدر جمہوریہ ہیں؟
صدر جمہوریہ کا جو عہدہ ہے وہ مذکر اور مؤنث دونوں کے لیے اردو میں استعمال ہوتا ہے، اسی طرح راشٹر پتی ایک قانونی اصطلاحی ہے، جسے لفظ مذکر مؤنث کے خانہ میں نہیں بانٹا جاتا ، اس کا مطلب یہ ہ کہ خاتون راشٹر پتی کو بھی راشٹر پتی ہی کہا جائے گا۔

تنظیم تحفظ شریعت ویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ و پلاسی کی جانب سے ماہِ محرم الحرام کے حقائق، فضائل اور خرافات و بدعات کے عنوان سے پروگراموں کا سلسلہ جاری ہے.

تنظیم تحفظ شریعت ویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ و پلاسی کی جانب سے ماہِ محرم الحرام کے حقائق، فضائل اور خرافات و بدعات کے عنوان سے پروگراموں کا سلسلہ جاری ہے
(اردو دنیا نیوز ۷۲)
. ان پروگراموں کا مقصد اصلیہ بالکل صاف اور واضح ہے.  عوام الناس کو اس مہینے کے متعلق صاف صاف لفظوں میں حقائق کو بیان کرنا اور بتلانا ہے. چشمہ شریعت کو نچوڑ کر اس کا خلاصہ پیش کرنا ہے. کسی شاعر نے کہا ہے کہ " حقیقت روایات میں کھو گئی، یہ امت خرافات میں کھو گئی. 
آج مدرسہ امدادالعلوم عیدگاہ ہردار بھیلا گنج کا پروگرام اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی.  جلسہ میں علاقائی علماء کے ساتھ ساتھ دور دراز سے علماء کرام تشریف لائے جنہوں نے مسلمانوں کی ایک جم غفیر کو خطاب کیا. پروگرام کے کنوینر جناب مولانا عبدالوارث مظاہری صاحب نے نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تنظیم کی جانب سے ہر سال تقریباً دس سے پندرہ پروگرام خصوصاً ان علاقوں میں کیا جاتا ہے جہاں پر لوگوں میں ناواقفیت اور کم خواندگی ہے. پروگراموں کے تاریخوں کا تعین پہلے ہی کر دیا جاتا ہے اور سوشل میڈیا کے ذریعہ تاریخوں کا اعلان نکال دیا جاتا ہے جس سے لوگوں میں پہلے سے ہی مزاج بنا ہوا ہوتا ہے. اور شوق اور جذبہ کے ساتھ شریک ہر کر  مثبت اثرات کے حامل ہوتے ہیں. ان پروگراموں سے عوام الناس میں محرم الحرام کے مہینے سے قبل ہی ایک حقیقی پیغام پہنچ جاتا ہے جس کے بہترین نتائج ملتے ہیں.  آج کے پروگرام میں خصوصاً
 حضرت مولانا محمد سلمان کوثر صاحب مظاہری دولت پور ، مولانا محمد طاہر صاحب مظاہری دھنپورہ ، مولانا محمد کونین صاحب مظاہری بارا استمبرار ، حافظ محمد عابد راہی ،مفتی محمد اطہر حسین قاسمی صاحب محمد پور  مولانا محمد تنزیل الرحمن ، قاری مظفر صباء  قاری محمد امتیاز ، قاری عبدالقدوس ، مولانا محمد مسری بارااستمبرار قاری محمد ابوذر غفاری مہتمم مدرسہ امداد العلوم عیدگاہ ہردار بھیلا گنج حافظ عبدالسلام ، مولانا محمد عابد صاحب مظاہری ، مولانا محمد منہاج ، اور تنظیم کے اکثر ممبران موجود تھے

سال نوکی آمد -مرحبامفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

سال نوکی آمد -مرحبا
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
(اردو دنیا نیوز ۷۲)
۱۴۴۳ھ گذر ا جا رہا ہے اور ہم ۱۴۴۴ھ میں داخل ہونے والے ہیں، یعنی نئے سال کا سورج ہماری زندگی کے مہہ وسال سے ایک سال اور کم کرنے والا ہے ، ہم موت سے اور قریب ہو گیے ، انسان بھی کتنا نادان ہے وہ بڑھتی عمر کا جشن مناتا ہے، مبارک بادپیش کرتا ہے ، قبول کرتا ہے اور بھول جاتا ہے کہ ہماری عمر جس قدر بڑھتی ہے ، موت اور قبر کی منزل قریب ہوتی رہتی ہے اور بالآخر وقت موعود آجاتا ہے اور آدمی قبر کی آغوش میں جا سوتا ہے۔ جو لوگ صاحب نظر ہیں اور جن کے ذہن میں فکر آخرت رچی بسی ہوئی ہے، وہ گذرے ہوئے سال سے سبق لیتے ہیں ، اعمال کا محاسبہ کرتے ہیں، نئے سال کا استقبال تجدید عہد سے کرتے ہیںکہ آئندہ ہماری زندگی رب مانی گذرے گی ، من مانی ہم نہیں کریں گے ، اس عہد پر قائم رہ کر جو زندگی وہ گذارتے ہیں وہ رب کی خوش نودی کا سبب بنتا ہے اور اس کے نتیجے میں بندہ جنت کا مستحق ہوتا ہے۔
 نئے سال کی آمد پر ہم لوگ نہ محاسبہ کرتے ہیں اور نہ ہی تجدید عہد ، بلکہ ہم میں سے بیش تر کو تو یاد بھی نہیں رہتاکہ کب ہم نئے سال میں داخل ہو گیے، عیسوی کلینڈر سب کو یادہے، بچے بچے کی زبان پر ہے، انگریزی مہینے فرفر یاد ہیں ، چھوٹے چھوٹے بچے سے جب چاہیے سن لیجئے؛ لیکن اسلامی ہجری سال ، جو اسلام کی شوکت کا مظہر ہے، اس کا نہ سال ہمیں یاد رہتا ہے اور نہ مہینے ، عورتوں نے اپنی ضرورتوں کے لئے کچھ یاد رکھا ہے، لیکن اصلی نام انہیں بھی یاد نہیں بھلا ،بڑے پیراور ترتیزی ، شب برأت، خالی، عید ، بقرعید کے ناموں سے محرم صفر ، ربیع الاول ، ربیع الآخر، جمادی الاولیٰ ، جمادی الآخر، رجب ، شعبان، رمضان ، شوال ذیقعدہ اور ذی الحجہ جو اسلامی مہینوں کے اصلی نام ہیں ، ان کو کیا نسبت ہو سکتی ہے ، ہماری نئی نسل اور بڑے بوڑھے کو عام طور پر یا تو یہ نام یاد نہیں ہیں اور اگر ہیں بھی تو ترتیب سے نہیں ، اس لیے ہمیں اسلامی مہینوں کے نام ترتیب سے خود بھی یاد رکھنا چاہیے اور اپنے بچوں کو بھی یاد کرانا چاہیے، یاد رکھنے کی سب سے بہتر شکل یہ ہے کہ اپنے خطوط اور دوسری تحریروں میں اسلامی کلینڈر کا استعمال کیا جائے۔پروگرام اور تقریبات کی تاریخوں میں بھی اس کا استعمال کیا جائے ، کیونکہ بعض اکابر اسے شعار اسلام قرار دیتے ہیں اور شعار کے تحفظ کے لیے اقدام دوسری عبادتوں کی طرح ایک عبادت ہے۔
 ہجری سال کی تعیین سے پہلے، سال کی پہچان کسی بڑے واقعے سے کی جاتی تھی ۔ جیسے قبل مسیح ،عام الفیل ، عام ولادت نبوی وغیرہ، یہ سلسلہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے وقت تک جاری تھا ، حضرت عمر ؓ نے اپنے عہد خلافت میں مٰنمجلس شوریٰ میں یہ معاملہ رکھا کہ مسلمانوں کے پاس اپنا ایک کلینڈر ہونا چاہیے ۔ چنانچہ مشورہ سے یہ بات طے پائی کہ اسلامی کلینڈر کا آغاز ہجرت کے واقعہ سے ہو، چنانچہ سال کا شمار اسی سال سے کیاجانے لگا، البتہ ہجرت کا واقعہ ربیع الاول میں پیش آیا تھا ،لیکن سال کا آغاز محرم الحرام سے کیا گیا ، کیونکہ یہ سال کا پہلا مہینہ زمانہ جاہلیت میں بھی تھا۔اس طرح اسلامی ہجری سال کا آغاز محرم الحرام سے ہوتا ہے۔
 محرم الحرام ان چا ر مہینوں میں سے ایک ہے ، جس کا زمانہ جاہلیت میں بھی احترام کیا جاتا تھا، اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا کہ مہینوں کا شمار اللہ کے نزدیک بارہ ہیں اور یہ اسی دن سے ہیں، جس دن اللہ رب ا لعزت نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا ، ان میں چار مہینے خاص ادب کے ہیں ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چار مہینوں کی تفصیل رجب ، ذیقعدہ ، ذی الحجہ اور محرم بیان کی ہے ، پھر حضرت ابو ذر غفاری ؓ کی ایک روایت کے مطابق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ تمام مہینوں میں افضل ترین اللہ کا وہ مہینہ ہے جس کو تم محرم کہتے ہو ، یہ روایت سنن کبریٰ کی ہے ، مسلم شریف میں ایک حدیث مذکور ہے کہ رمضان کے بعد سب سے افضل روزے ماہ محرم کے ہیں ، اس ماہ کی اللہ کی جانب نسبت اور اسے اشہر حرم میں شامل کرنا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اس مہینے کی فضیلت شہادت حسین کی وجہ سے نہیں ، بلکہ بہت پہلے سے ہے ۔ 
 اسی مہینے کی دس تاریخ کو یوم عاشوراء کہا جاتا ہے ، رمضان المبارک کے روزے کی فرضیت کے قبل اس دن کا روزہ فرض تھا ، بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق قریش بھی زمانۂ جاہلیت میں عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے، خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس روزہ کا اہتمام فرماتے تھے، یہودیوں کے یہاں اس دن کی خاص اہمیت ہے ، کیوں کہ اسی دن بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات ملی تھی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ ہجرت کرکے تشریف لے گیے تو یہودیوں کو یوم عاشوراء کا روزہ رکھتے دیکھا ، معلوم ہوا کہ یہودی فرعون سے نجات کی خوشی میں یہ روزہ رکھتے ہیں ، آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ہم یہودیوں سے زیادہ اس کے حقدار ہیں کہ روزہ رکھیں ، لیکن اس میںیہودیوں کی مشابہت ہے ، اس لیے فرمایا کہ تم عاشورا کا روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو ، اس طرح کہ عاشوراء سے پہلے یا بعد ایک روزہ اور رکھو۔ علامہ عینی کے مطابق اسی دن حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی ،حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ سے اور حضرت یوسف علیہ السلام کنویں سے باہر آئے، حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی اسی دن واپس ہوئی ، حضرت داؤد علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام دنیا میں تشریف لائے، حضرت ایوب علیہ السلام کو مہلک بیماری سے نجات ہوئی، حضرت سلیمان علیہ السلام کو خصوصی حکومت ملی ، اور ہمارے آقا مولیٰ صلی اللہ  علیہ وسلم کو اسی دن ’’ غفر لہ ما تقدم من ذنبہ ‘‘کے ذریعہ مغفرت کا پروانہ عطا کیا گیا ۔ اس طرح دیکھیں تو یہ سارے واقعات مسرت وخوشی کے ہیں اور اس دن کی عظمت وجلالت کو واضح کرتے ہیں،اس لیے اس مہینے کو منحوس سمجھنا ، اوراس ماہ میں شادی بیاہ سے گریز کرنا نا واقفیت کی دلیل ہے اور حدیث میں ہے کہ بد شگونی کوئی چیز نہیں ہے ۔ 
یقینا اس دن حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی اہل خاندان کے ساتھ شہادت تاریخ کا بڑاا لم ناک، کرب ناک اور افسوس ناک واقعہ ہے، جس نے اسلامی تاریخ پر بڑے اثرات ڈالے ہیں، اس کے باوجود ہم اس دن کو بُرا بھلا نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی ماتم کر سکتے ہیں، اس لیے کہ ہمارا عقیدہ ہے حضرت حسین ؓ اور ان کے خانوادے اللہ کی راہ میں شہید ہوئے ، حق کی سر بلندی کے لیے شہید ہوئے اور قرآن کریم میںان حضرات کے بارے میں ارشاد ہے کہ جو اللہ کے راستے میں قتل کردیے گئے انہیں مردہ مت کہو ، بلکہ وہ زندہ ہیں، البتہ تم ان کی زندگی کو سمجھ نہیں سکتے ، قرآن انہیں زندہ قرار دیتا ہے ، اور ظاہر ہے ہمیں تومُردوں پر بھی ماتم کرنے ، گریباں چاک کرنے ، سینہ پیٹنے اور زور زور سے آواز لگا کر رونے سے منع کیا گیاہے، پھر جو زندہ ہیں، ان کے ماتم کی اجازت کس طور دی جا سکتی ہے ۔ ایک شاعر نے کہا ہے   ؎
روئیں وہ، جو قائل ہیں ممات شہداء کے ہم زندۂ جاوید کا ماتم نہیں کرتے
اس دن حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی یاد میں تعزیے نکالے جاتے ہیں، تعزیہ نکالنے کی اجازت تو شیعوں کو چھوڑ کر کسی کے یہاں نہیں ہے ، پھر جس طرح تعزیہ کے ساتھ نعرے لگائے جاتے ہیںیاعلی، یا حسین ؓ یہ تو ان حضرات کے نام کی توہین لگتی ہے ، حضرت علی ، کے نام کے ساتھ کرم اللہ وجہہ اور حضرت حسین کے نام کے ساتھ رضی اللہ عنہ لگانا عظمت صحابہ کا تقاضہ اور داماد رسول اور نواسہ رسول کے احترام کا ایک طریقہ ہے ۔ لیکن جلوس میں اس کی پرواہ کس کو ہوتی ہے ، اس طرح ان حضرات کا نام ٹیڑھا میڑھا کرکے لیتے ہیں کہ ہمارے باپ کا نا م اس طرح بگاڑ کرکوئی لے تو جھگڑا رکھا ہوا ہے ، بے غیرتی اور بے حمیتی کی انتہا یہ ہے کہ اسے کار ثواب سمجھا جا رہا ہے ، دیکھا یہ گیا ہے کہ اس موقع سے جلوس کے ساتھ بعض جگہوں پر رقاصائیں رقص کرتی ہوئی چلتی ہیں، عیش ونشاط اور بزم طرب ومسرت کے سارے سامان کے ساتھ حضرت حسین کی شہادت کا غم منایا جاتا ہے، اس موقع سے شریعت کے اصول واحکام کی جتنی دھجیاں اڑائی جا سکتی ہیں، سب کی موجودگی غیروں کے مذاق اڑانے کا سبب بنتی ہے ، اور ہمیں اس کا ذرا بھی احساس وادراک نہیں ہوتا ۔
جلوس کے معاملہ میں ہمیں ایک دوسرے طریقہ سے بھی غور کرنے کی ضرورت ہے ، تاریخ کے دریچوں سے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ حضرت حسین رضی اللہ علیہ کی شہادت کے بعد اس خانوادہ میں بیمار حضرت زین العابدین اور خواتین کے علاوہ کوئی نہیں بچا تھا ،یہ ایک لٹا ہوا قافلہ تھا ، جس پریزیدی افواج نے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے تھے، ان کے پاس جلوس نکالنے کے لیے کچھ بھی نہیںبچا تھا، تیر ،بھالے ، نیزے اورعَلم تو یزیدی افواج کے پاس تھے، حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا سر نیزے پر تھا اوریزیدی بزعم خود اپنی فتح وکامرانی کاجلوس لیکر یزیدکے دربار کی طرف روانہ ہوئے تھے، ہمارے یہاںجلوس میں جو کروفراور شان وشوکت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے ، یہ کس کی نقل کی جا رہی ہے؟ ذرا سوچئے کھلے ذہن سے سوچیے تو معلوم ہوگا کہ ہم کسی اور کی نقل کر رہے ہیں، حسینی قافلہ کی تو اس دن یہ شان تھی ہی نہیں، اس لیے مسلمانوں کو ایسی کسی بھی حرکت سے پر ہیز کرنا چاہیے ، ایسے جلوس میں نہ خود شامل ہوں اور نہ اپنے بچوںکو اس میں جانے کی اجازت دیں۔

جمعرات, جولائی 28, 2022

اردو زبان کے فروغ اور بقا کیلئے بچوں کو اردو تعلیم دلانا ضروری: احمد محمود

اردو زبان کے فروغ اور بقا کیلئے بچوں کو اردو تعلیم دلانا ضروری: احمد محمود


۔ اردو ڈائریکٹوریٹ کے زیر اہتمام شین مظفر پوری اور سہیل عظیم آبادی یاد گاری تقریبات کا انعقاد

پٹنہ، 28 جولائی(اردو دینا نیوز ۷۲)۔ شین مظفر پوری قومی سطح کے مشہور اور مقبول افسانہ نگار، بہترین ناول نگاراوربلند پائے کے صحافی تھے۔ انہوں نے بہت کم مدت میں ہی بڑی شہرت اور عزت حاصل کر لی۔ شین مظفر پوری میں بے پناہ تخلیقی صلاحیت تھی۔ وہ زود نویس تھے۔ کثرت سے مضامین اور افسانے لکھے۔ وہ با صلاحیت صحافی تھے۔ ایسے عظیم المرتبت بلند پایہ شخصیت کی پوری زندگی مختلف قسم کی پریشانیوں اور معاشی الجھنوں میں گزری ۔انہوں نے زندگی کے بہت سارے کرب کو جھیلا۔ نہایت عسرت و تنگی میں اپنی زندگی بسر کی۔ ان خیالات کا اظہار محکمہ کابینہ سکریٹریٹ، اردو ڈائریکٹوریٹ کے زیر اہتمام ابھیلیکھ بھون، بیلی روڈ میں منعقد ''شین مظفرپوری اور سہیل عظیم آبادی یادگاری تقریبات'' میں دانشوارانِ علم و ادب نے اپنے مقالے میں کیا۔

تقریب کی صدارت سابق صدر لینگویجز ایس سی آر ٹی بہار و عالمی شہرت یافتہ تخلیق کار ڈاکٹر قاسم خورشید نے کی۔ اپنے صدارتی خطاب میں انہوں نے نہایت موثر ڈھنگ سے تفصیلی اظہار خیال کے دوران زور دیا کہ شین مظفر پور ی ایک نابغہ عصر فکشن نگار تھے انہوں نے زندگی کے طویل سفر کو اپنی تحریروں کا مسکن بنایا ۔ انہوں نے آزادی سے پہلے تقسیم کے درد کو، ترقّی پسندی کے عروج کو، اور آزادی کے بعد ہونے والی تبدیلیوں کو بہت شدّت سے محسوس کیا اور اسے خوبصورتی سے اپنے فکشن کا موضوع بنایا ۔ ڈاکٹر خورشید نے اس سیشن میں پیش کردہ مقالے پر بھی مدلل تبصرہ کیا اور ڈاکٹر ابوبکر رضوی ڈاکٹر علاءالدین خان اور حذیفہ شکیل کو خصوصی مبارک باد پیش کی۔

پروگرام کا آغاز شمع افروزی کے ذریعہ ہوا۔ استقبالیہ و تعارفی کلمات پیش کرتے ہوئے اردو ڈائرکٹوریٹ کے ڈائرکٹر احمد محمود نے کہا کہ آج ہم لوگ دو عظیم شخصیتوں کی یاد گاری تقریبات کا انعقاد کرکے انہیں خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں۔ اردو ڈائریکٹوریٹ کے زیر اہتمام سال بھر میں 22 عظیم شخصیات پر یاد گاری تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ اسی سلسلے کی کڑی کے طور پر آج ہم لوگ دو عظیم افسانہ نگار شین مظفر پوری اورسہیل عظیم آبادی کو یاد کر رہے ہیں۔

احمد محمود نے کہا کہ یہ دونوں عظیم شخصیتیں ایسی ہیں جنہوں نے قومی و بین الاقوامی سطح پر اپنی نمایاں شناخت قائم کیں اور بہار کا نام روشن کیا۔ انہوں نے کہا کہ شین مظفر پوری نے جہاں مالی تنگی اور عسرت بھری زندگی کے باوجود لوگوں میں اپنی خاص پہچان بنائی اوراپنےافسانے اور ناول کے ذریعہ اردو زبان و ادب کو فروغ دینے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ نیز انہوں نے یہ ثابت کیا کہ ضروری نہیں کہ انسان باضابطہ تعلیم حاصل کرکے یا اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد ہی زبان و ادب کا کوئی بڑا کام کر سکتا ہے یا پھر وہی لوگ زبان وادب کی خدمت کر سکتے ہیں جنہوں نے بڑی بڑی ڈگریاں حاصل کی ہوں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ شین مظفر پوری کے افسانے اور ناول نیز ان کی صحافتی خدمات اس بات کی تردید کرتی ہیں۔ جناب احمد محمود نے سہیل عظیم آبادی کے حوالے سے بھی مختصر مگر جامع باتیں کہیں ۔ انہوں نے کہا کہ سہیل عظیم آبادی کا شمار ہندستان کے بڑے افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے عالمی سطح پرخود کو متعارف کرایا۔ ان کے افسانوں کا ترجمہ کئی یوروپی ممالک میں بھی کیا گیا جو مقبول عام وخاص رہاہے۔

ڈائرکٹر موصوف نے اردو ڈائرکٹوریٹ کی ایک اہم اور خاص کاکرکردگی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اردو ڈائرکٹوریٹ کا آن لائن اردو لرننگ پروگرام کافی سود مند اور افادہ بخش ثابت ہو رہا ہے۔ ابھی آن لائن کا چوتھا بیچ مکمل ہوا ہے ۔جلد ہی تقسیم اسناد تقریب کا انعقاد کرکے ہم انہیںاسناد اور اعزاز سے نوازیں گے۔ پھر فوراً بعد نئے بیچ میں داخلہ کی کارروائی شروع ہوگی۔

اس مشترکہ یاد گاری تقریب میںڈاکٹر ابو بکر رضوی، صدر شعبہ اردو،ٹی پی ایس کالج، پٹنہ،ڈاکٹر علاء الدین خان، اسسٹنٹ پروفیسر ، جے پی یونیورسٹی، چھپرہ، حذیفہ شکیل، معروف ناقد و ادیب، پٹنہ نے اپنے بیش قیمتی مقالے میںشین مظفر پوری کے شخصیت اور خدمات کے مختلف پہلوئوں پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ تقریب کے دوسرے سیشن میں سہیل عظیم آبادی یاد گاری تقریب کا انعقاد ہوا۔

تقریب کی صدارت پروفیسر فاروق احمد صدیقی ، سابق صدر شعبہ اردو بی آر اے بہار یونیورسٹی ، مظفر پور نےفرمائی۔ پروفیسر فاروق صدیقی نے اپنے صدارتی خطاب میں سب سے پہلے سبھی مقالہ خواں ڈاکٹر ہمایوں اشرف، صدر شعبہ اردو ، ونوبا بھاوے یونیورسٹی ہزاری باغ، ڈاکٹر صفدر امام قادری ، سابق صدر شعبہ اردو ،کالج آف کامرس ، آرٹس اینڈ سائنس ، پٹنہ اور ڈاکٹر جلال اصغر فریدی ، معروف ادیب و ناقد ، مظفر پور کے مقالے پر تجزیہ و تبصرہ پیش کیا ۔ انہوں نے سہیل عظیم آبادی کی شخصیت اورکارنامے پر بھی مختصر مگر جامع روشنی ڈالی۔ تقریب کی نظامت حسیب الرحمن انصاری نے بحسن و خوبی انجام دیا۔ ڈائرکٹر احمد محمود کے تشکراتی کلمات سے تقریب کا اختتام ہوا۔

بیگوسرائے : قرض کی ادائیگی کے دباؤ سے پریشان طالبہ نے کی خودکشی

بیگوسرائے : قرض کی ادائیگی کے دباؤ سے پریشان طالبہ نے کی خودکشی
بیگوسرائے ، 28 جولائی (اردو دنیا نیوز ۷۲)۔ بیگوسرائے میں والد کی بیماری اور مالی تنگی سے پریشان ایک طالبہ نے پھانسی لگا کر خود کشی کر لیا۔ واقعہ نیما چاند پورہ تھانہ علاقہ کے چاند پورہ گاؤں کا ہے ، متوفی طالبہ چاند پورہ گاؤں رہائشی گنیش مہتو کی بیٹی کاجل کماری ہے

واقعہ کے بارے میں گاؤں والوں نے بتایا کہ کاجل کماری کے والد گنیش مہتو لیور ٹیومر میں مبتلا ہیں اور اپنی بیوی کے ساتھ علاج کے لیے بریلی گئے ہوئے ہیں۔ یہاں کاجل کماری گاؤں میں اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ رہ کر گریجویشن پارٹ ون اورپارا میڈیکل کی تیاری کر رہی تھی۔ علاج اوراہل خانہ کی گزر بسر کے لئے والدین نے خود ایس ایچ جی سے قرض لیا تھا۔ لیکن بیماری کی وجہ سے سیلف ہیلپ گروپ میں بروقت قسط جمع نہیں کرا سکے تھے اور کئی قسط ڈیوز میں چل رہا تھا۔

قرض کی واپسی کے لیے دباؤ ڈالنے پر اس نے گھر میں رکھا اناج بیچ کر کچھ رقم ادا کی تھی۔ لیکن کاجل پر فینانس کمپنی کی طرف سے قرض کی قسط سمیت پوری رقم جمع کرانے کے لیے مسلسل دباؤ تھا۔ لیکن والدین کے علاج میں مصروف ہونے کی وجہ سے کاجل قرض ادا کرنے سے قاصر تھی اورعلاج کے لیے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے والد بھی بریلی میں علاج کروانے سے قاصرہیں۔ گھر میں کھانے کا بھی مسئلہ تھا۔ اسی دباؤ میں آکر کاجل نے دیررات اپنے گھر میں پھانسی لگا کر خودکشی کرلی۔

سوئے بھائی نے جب بہن کو پھندے میں لٹکتے دیکھ کر شورمچایا تو لوگوں کا ہجوم اکھٹا ہوگیا۔ واقعہ کی اطلاع ملتے ہی پولیس نے لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے صدراسپتال بیگوسرائے بھیج دیا اور سنجیدگی سے تحقیقات شروع کردی۔ گاؤں والوں نے بتایا کہ کاجل کے بھائیوں میں سے ایک کی موت گزشتہ سال 27 جولائی کوتالاب میں ڈوبنے سے ہوئی تھی۔ اس کے بعد بھائی کی موت کے ٹھیک ایک سال مکمل ہونے کی رات اس نے اپنے گھرمیں پھانسی لگا کر خودکشی کرلی۔

گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ کاجل پڑھائی میں بہت تیزتھی اور اس نے میٹرک اورانٹر فرسٹ ڈویزن سے پاس کیا تھا۔ وہ کچھ بننا چاہتی تھی لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا، پڑھائی میں بہت ذہین لڑکی کے بے وقت انتقال سے گاؤں میں غم کی لہر دوڑ گئی۔ واقعہ کی اطلاع متوفی کے والدین کو دے دی گئی ہے۔

اب 10 ہزار روپے سے زیادہ کی نقد رقم نکالنے پر او ٹی پی نمبر درج کرنا لازمی _ ایس بی آئی کے نئے رولس

اب 10 ہزار روپے سے زیادہ کی نقد رقم نکالنے پر او ٹی پی نمبر درج کرنا لازمی _ ایس بی آئی کے نئے رولس
حیدرآباد_ 28 جولائی ( اردودنیانیوز۷۲) اسٹیٹ بینک آف انڈیا (SBI) اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کر رہا ہے کہ صارفین دھوکہ دہی کا صارفین شکار نہ ہوں۔ اس سلسلہ میں ایس بی آئی نے کہا ہے کہ اے ٹی ایم سے 10 ہزار روپے سے زیادہ کی نقد رقم نکالنے کے لیے، صارفین کو 'بینک میں رجسٹرڈ موبائل نمبر' پر بھیجے گئے او ٹی پی کو داخل کرنا ہوگا۔اب تک یہ رات 10 بجے کے بعد ضروری تھا لیکن اب 24 گھنٹے رہے گا ۔اگر صارف کا موبائل فون نمبر صحیح طریقے سے رجسٹرڈ نہیں ہے تو اے ٹی ایم سے کیش نہیں نکالا جا سکے ۔ گا۔ ایک OTP کے ذریعے ایک ہی لین دین کیا جا 
سکتا ہے۔
ایس بی آئی نے صارفین کے لئے ایک خوشخبری بھی دی ہے اگر کسی صارف کے بینک اکاؤنٹ میں ایک لاکھ روپے سے زیادہ ہیں تو ایسی صورت میں اے ٹی ایم سے کئی مرتبہ نقد رقم نکال سکتا ہے اس کے لئے کوئی چارج ادا کرنے نہیں ہوں گے۔ اگر رقم ایک لاکھ سے کم ہے تو صرف 5 مفت لین دین کی اجازت ہے۔ دوسرے بینکوں کے اے ٹی ایم سے صرف 3 بار مفت رقم نکالنے کی اجازت ہے۔ اس سے آگے، ہر ٹرانزیکشن پر چارج لگے گا

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...