Powered By Blogger

پیر, اگست 01, 2022

مولانا ڈاکٹر محمد عالم قاسمی کی تصنیف "نقوش تابندہ" کا رسم اجرا

مولانا ڈاکٹر محمد عالم قاسمی کی تصنیف "نقوش تابندہ" کا رسم اجرا
پٹنہ یکم اگست (پریس اعلانیہ اردودنیانیوز۷۲) گزشتہ دنوں مولانا ڈاکٹر محمد عالم قاسمی، جنرل سیکریٹری آل انڈیا ملی کونسل بہار کی تازہ ترین تصنیف "نقوش تابندہ" کے رسم اجرا کی تقریب آل انڈیا ملی کونسل بہار کی آفس پھلواری شریف پٹنہ میں منعقد ہو ئ، جس میں معززین شہر، اراکین ملی کونسل و دیگر حضرات شریک ہوئے،
 مفکر اسلام حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی قومی نائب صدر آل انڈیا ملی کونسل نے فرمایا کہ یہ کتاب عمدہ مضامین و قیمتی مقالات کا مجموعہ ہے، جس سے دینی رہنمائی اوربہت سے موضوعات پر وقیع معلومات میں اضافہ ہوتا ہے، دعا ہے کہ مولانا کی دیگر تصانیف کی طرح اس کو بھی قبولیت عامہ حاصل ہو، ڈاکٹر مولانا عتیق الرحمن قاسمی صدر آل انڈیا ملی کونسل بہار نے اس عمدہ تصنیف پر اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ مولانا محمد عالم قاسمی کو لکھنے پڑھنے کا عمدہ ذوق ہے اس لیے انکے قلم گہر بار سے معیاری کتابیں منصہء شہودپر آتی رہتی ہیں، اللہ تعالیٰ اسے شرف قبولیت بخشے،
جبکہ مولانا ڈاکٹر نور السلام ندوی نے تفصیل سے اس کتاب پر اپنا تبصرہ پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ ڈاکٹر مولانا محمد عالم قاسمی بہار کے ان ممتاز علماء کرام میں سے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے تحریر و تقریر کا عظیم ملکہ عطا فر مایا ہے، اس کتاب میں مضامین بہت عمدہ اور معلوماتی ہیں، دینی و ادبی ودیگر معلومات کا یہ بہترین گلدستہ ہے، خاص طور پر اس کتاب کے عرض مصنف میں اردو ادب کے حوالے سے مختصر لفظوں میں ادبی تاریخ پر عمدہ روشنی ڈالی گئی ہے، اسی طرح قرآن مجید کے اردو تراجم پر بہت سیر حاصل بحث کی گئی ہے، اور اردو صحافت پر بھی گرانقدر مبسوط مقالہ ہے اس طرح بہت سے اہم مضامین اس میں شامل ہیں اس عمدہ تصنیف پر مولانا موصوف کو دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں، انکے علاوہ اس تقریب میں شرکت والے حضرات کے اسمائے گرامی ہیں جناب ڈاکٹر عارف الاسلام، گورنمنٹ طبی کالج پٹنہ، جناب اعجاز شعیب، مولانا ڈاکٹر سجاد احمد ندوی، مولانا محمد اکرم قاسمی پتونا، مدھوبنی ،مولانا فاروق قاسمی گیا، مولانا مفتی جمال الدین قاسمی پٹنہ، اور ظفر عالم پٹنہ وغیرہ قابل ذکر ہیں.

شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات

شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
(اردو دنیا نیوز ۷۲)

 حافظ ، قاری ، مولانا اقبال حیدر ندوی بن سید سلیم الدین حیدر (ولادت ۲۶؍ جنوری ۱۹۷۹ء ساکن سید ٹولہ استھانواں ضلع نالندہ بہار امام وخطیب مسجد سید ٹولہ استھانواں کثرت سے لکھتے ہیں ان کے مضامین ملک کے مؤقر ماہنامے، روزنامے اور ہفتہ وار جرائد ورسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں،  زیر مطالعہ کتاب ان کے منتخب مضامین کا مجموعہ ہے، کتاب پانچ ابواب اسلامیات، اخلاقیات، شخصیات، سائنسی علوم اور صحت وتندرستی پر مشتمل ہے، باب کی سرخی نہیں لگائی گئی ہے ، لیکن مضامین کی درجہ بندی ابواب کی طرح ہی کی گئی ہے،جس سے قاری بآسانی اپنے مطلب کے مضامین تک رسائی حاصل کر سکتا ہے، یہ کل پچپن (۵۵)مضامین ہیں، جو مختلف عنوانات پر مشتمل ہیں، اپنی تحریری خدمات کی وجہ سے مولانا موصوف کم از کم نو ایوارڈ واعزازات اپنے نام کر چکے ہیں۔
 مضامین کی درجہ بندی کے ساتھ سات افراد کی تحریریں مصنف اور اس کے مندرجات کی علمی قدر وقیمت کی تعیین کے لیے شامل کتاب ہیں ، اول نمبر پر تعارفی خاکہ ہے جس کے مرتب کا نام درج نہیں ہے، اس لیے غالب گمان یہ ہے کہ ’’بقلم خود‘‘ ہے، مقدمہ حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی، پیش لفظ مولانا انیس الرحمن قاسمی سابق ناظم امارت شرعیہ ، کچھ باتیں اس کتاب کے بارے میں پروفیسر شہزاد انجم، تفکرات ڈاکٹر آفتاب احمد منیری ، حرف ادراک شاہ نواز حیدر شمسی اور عرضِ مؤلف خود مولانا اقبال حیدر ندوی کے قلم سے ہے ، کتاب کا انتساب مصنف نے اپنے نانا مشہور عالم دین مولانا قاری سید فصیح احمد صاحب اور نانی سیدۃ بازغۃ النہار کے نام کیا ہے جو ان دونوں شخصیات سے ان کے قلبی تعلق اور وارفتگی کی غماز ہے، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی سے چھپی یہ کتاب دو سو چھپن (۲۵۶)صفحات پر مشتمل ہے اور صرف ڈھائی سو کی تعداد میں چھپی ہے، قیمت دو سو روپے ہے، ملنے کے پتے کتاب پر نصف درجن سے زائد درج ہیں، اگر آپ پٹنہ میں ہیں تو بُک امپوریم سبزی باغ، نالندہ میں ہیں تو مصنف کے پتے سے حاصل کر سکتے ہیں۔ 
جہاں تک کتاب کے مندرجات کا سوال ہے تو اس کے بارے میں شاہنواز حیدر شمسی نے لکھا ہے کہ ’’موضوعات ومضامین کی نوعیت ، مواد کی جاذبیت، اسلوب کی دلکشی، زبان وبیان کی برجستگی وبے ساختگی ، اصول وعزائم کی پابندی ، دور اندیشی ومعاملہ فہمی کی پیوستگی کے باعث با معنی اور پُر معیار ہے‘‘ (صفحہ ۲۹) آفتاب احمد منیری لکھتے ہیں، ’’اس کتاب کی ایک اور نمایاں خوبی مصنف کا اسلوب نگارش ہے، انہوں نے دین کے بنیادی شعائر سے لے کر اصلاحی مضامین کی پیش کش میں پے چیدہ الفاظ سے گریز کرتے ہوئے عام فہم زبان استعمال کی ہے‘‘ (صفحہ ۲۲) شہزاد انجم صاحب لکھتے ہیں ’’اس کتاب کی نثر سادہ، زبان سلیس اور عام فہم ہے، جسے کوئی بھی شخص آسانی سے پڑھ کر سمجھ سکتا ہے ، مولانا اقبال حیدر اپنی باتوں کو آسان لفظوں میں بیان کرنے کا ہنر جانتے ہیں (صفحہ ۱۷) مولانا انیس الرحمن قاسمی سابق ناظم امارت شرعیہ لکھتے ہیں’’اپنی تحریری صلاحیت کو بھی قوم وملت کے نفع کے لیے استعمال کرکے یہ ثابت کر دیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو جو علم وفن دیا ہے وہ اس کا شکر ادا کرتے اور اس کو برتنے کے فن سے واقف ہیں (صفحہ ۱۲) مرشد امت حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی دامت برکاتہم نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ لوگوں کو ان کے مضامین سے نفع پہونچے گا۔
 کتاب کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا کامطالعہ وسیع ہے اور ان میں گہرائی وگیرائی ہے ، انہوں نے جن موضوعات پر بات کی ہے، سلیقہ سے کی ہے ، ان مضامین میں انہوں نے رطب ویابس سے پر ہیز کیا ہے ، صارفیت اور مشغولیت کے اس دور میں طویل مضامین اور ضخیم کتابوں کو پڑھنے کی فرصت کسے ہے؟ اس لیے اب لوگ مجموعہ مضامین کو ہی کتابی شکل دینے لگے ہیں، ہر مضمون ایک اکائی ہے ، فرصت کے مطابق پڑھیے اور قسطوں میں کتاب ختم کیجئے، ’’شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات‘‘ کی ترتیب بھی مصنف نے اسی نقطہ نظر سے کی ہے اور اس میں وہ کامیاب ہیں، مولانا اقبال حیدر ندوی نے جتنا لکھا ہے یہ اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہے ، ایسی کئی جلدیں ان کے مضامین کی اور تیار ہو سکتی ہیں، اللہ کرے وہ اس کام کو آگے بڑھاسکیں۔

تحفظ شریعت و ویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ و پلاسی ارریہ کا محرم الحرام حقائق، فضائل اور خرافات و بدعات کے عنوان پر سلسلہ وار پروگرام

تحفظ شریعت و ویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ و پلاسی ارریہ کا محرم الحرام حقائق، فضائل اور خرافات و بدعات کے عنوان پر سلسلہ وار  پروگرام
(اردو دنیا نیوز۷۲)
ماشاءاللہ تحفظ شریعت و ویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ و پلاسی ارریہ کا محرم الحرام حقائق، فضائل اور خرافات و بدعات کے عنوان پر سلسلہ وار  پروگرام  مورخہ 31 / جولائی 2022  مقام مدرسہ دارالعلوم دریتیم عیدگاہ کامت ہاٹ زیرصدارت حضرت الحاج مولانا لعل محمد صاحب مہمان خصوصی حضرت مولانا حسیب الرحمان صاحب کامت، مفتی محمد جمشید عادل صاحب قاسمی ، حضرت مولانا محمد سلمان کوثر صاحب قاسمی، مولانا محمد صابر صاحب قاسمی، مولانا عبدالرحمن صاحب قاسمی، مولانا محمد مدثر صاحب، مولانا محمد طلحہ مظاہری،  عبدالوارث مظاہری ،اور تنظیم کے اکثر ممبران موجود رہے

اتوار, جولائی 31, 2022

عوامی مقام پرنمازسے روکناسپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی ہے : ادارہ شرعیہ

عوامی مقام پرنمازسے روکناسپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی ہے : ادارہ شرعیہ


(پٹنہ اردو دنیا نیوز ۷۲)

مرکزی ادارہ شرعیہ کے صدرو سابق ایم پی مولاناغلام رسول بلیاوی نے ملک میں اسٹیشن،ایئرپورٹ ودیگرعوامی مقام پرنمازکی ادائیگی کوروکنےاورقانونی کاروائی کرنےپرسخت مذمت کرتے ہوئے کہاکہ یہ وہ لوگ کررہے ہیں جواپنے کو ملک پرستی کادعوی کرتے ہیں حالانکہ ان جھوٹے دعویدران ملک پرستوں کو ملک کی عدلیہ پربھی اعتمادنہیں ہیں۔اگر وہ اپنے دعوے میں سچے ہیں تو انہیں چاہیے کہ سن 1994 میں سپریم کورٹ میں اسماعیل قادری کی عرضی پردیئے گئے فیصلے کوٹھیک سے پڑھناچاہئے اور اس کے نفاذ پرقائم رہناچاہئے۔صاف لفظوں میں لکھاہے کہ نماز کےلئےمسجدکاہی ہوناضروری نہیں کہیں بھی ادا کی جاسکتی ہے اور یہ اختیار ملک کی آزادی کے قبل سے ہے اوراس کی تائیدی بھی آئیں ہندنے کی ہے۔اس کے باوجودجبرا نمازپرروک لگانے کا اقدام ملک کے امن وامان کی فضاء کومسموم ومکدربنانے اورملک کی اکثریت طبقے کومشتعل کرنے کی مہم قطعی طور پر ملک کے مفادمیں نہیں ہے۔

بلیاوی نے کہاہے کہ سپریم کورٹ کے 1994ء کے فیصلےکی خلاف ورزی کرنے کاواضح مطلب ہے کہ عدلیہ کواپنے اقتدارکادھونس دکھانا۔

مرکزی ادارہ شرعیہ کے صدرنے کہاہے کہ اس سلسلہ میں ادارہ شرعیہ کے لیگل سیل کی نشست مورخہ 10 اگست 2022 کو دہلی میں ہوگی اور وکلاءسے مشورہ کرکے قانونی چارہ جوئی کافیصلہ لیاجائےگا۔

بلیاوی نے واضح طورسے کہاکہ کسی حکومت اورتنظیموں کےنماز مخالف رویہ کی مسلمان پرواہ کئے بغیراپنے مذہب پرعمل پیرا رہیں گے۔

ادارہ شرعیہ نے عدلیہ اورحکومت کے ذمہ داران سے اپیل کیاہے کہ اس طرح کی حرکتوں سے ملک کاوقار داغدار ہورہاہے اس پرقدغن لگایاجائے۔

اتفاق و اتحاد کے ساتھ مرتے دم تک مسلمان رہوشمشیر عالم مظاہری دربھنگوی

اتفاق و اتحاد کے ساتھ مرتے دم تک مسلمان رہو
شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی
 امام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار 
(اردو دنیانیو۷۲)
قرآن مقدس میں رب ذوالجلال نے سچے مسلمانوں کی بہت ساری صفتیں بیان فرمائی ہیں ان میں ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ ہر دوسرے مسلمان کے سامنے جھک جانے والا اس کی محبت و عزت کرنے والا ہوتا ہے ہاں اسلام کے مخالفین کا وہ بھی مخالف ہوتا ہے نا ممکن ہے کہ کسی مسلمان سے اسے دلی عداوت ہو اور کسی کافر سے دلی محبت۔ ناممکن ہے کہ وہ پابند صوم و صلوٰۃ نہ ہو۔  خدا کی غلامی کا نور اس کے چہرے پر ہوتا ہے اور رب کی رضامندی کی طلب اس کے دل میں رہتی ہے ۔
خدا کی توحید اور اس کے سچے رسول اللّٰہ ﷺ کی رسالت کو مان لینے کے بعد سب سے بڑا فریضہ یہ ہے کہ آپس میں مسلمان ایک رہیں، ایک دوسرے کا سہارا بن جائیں، کسی کی مخالفت، حسد، اور پردہ دری میں نہ رہیں ۔
براء بن عازب و ابن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ نے ایک مرتبہ نہایت پر جوش خطبہ سنایا جس میں بآواز بلند فرمایا اور آواز اس قدر بلند تھی کہ پردہ نشین خواتین نے گھروں کے اندر بھی آپ کی یہ آواز سن لی فرمایا کہ اے وہ لوگو جو زبانی تو ایمان لائے ہو لیکن دلوں میں اب تک ایمان پیوست نہیں ہوا تم مسلمانوں کو ایذاء نہ پہنچاؤ،  انہیں عار نہ دلاؤ، ان کی لغزشیں نہ ٹٹولو، نہ مسلمانوں کی غیبتیں کرو،  نہ انکی پوشیدگیوں کے پیچھے پڑو، جو اپنے کسی مسلمان بھائی کی پوشیدگی کی ٹٹول،اور ٹوہ کے پیچھے پڑے گا، اللہ تعالیٰ اس کے پوشیدہ عیوب کے پیچھے پڑ جائے گا،  اور یقین مانو کہ جس کے عیوب کے پیچھے اللہ تعالی پڑ جائے اسے رسوا اور بد نام کر کے ہی رہے گا یہاں تک کہ خود اس کے گھر میں بھی اس کی بدنامی رسوائی اور فضیحتی ہو جائے گی ۔ ایک مرتبہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی نظر جب کعبہ پر پڑی تو بے ساختہ کہہ اٹھے کہ بلا شک و شبہ تو بہت بڑی عزت اور حرمت والا ہے لیکن جتنی تیری حرمت و عزت و عظمت ہے بخدا اس سے کہیں زیادہ خدا کے نزدیک ایک ایماندار کی آبرو اور اس کی حرمت و عزت و عظمت ہے مومن کو بے عزت کرنے والا کعبۃ اللّٰہ کے ڈھانے والے سے بھی زیادہ گنہگار ہے (بیہقی ،ترمذی،ابو داؤد) 
جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حجۃ الوداع کے موقع پر رسولِ اکرم ﷺ  نے فرمایا اے لوگو تمہارا رب یکتا اکیلا اور ایک ہی ہے لوگو تم سب ایک باپ کے بیٹے ہو۔ سنو!  کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں، نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی بزرگی ہے، نہ سرخ سیاہ سے افضل ہے، نہ سیاہ سرخ پر کوئی فوقیت رکھتا ہے، ساری بزرگی کا  مدار تقوی پر اور اللہ کے ڈر پر ہے سنو قرآن فرماتا ہے تم میں سب سے زیادہ بزرگی والا خدا کے نزدیک وہ ہے جس کے دل میں اس کا لحاظ اور تقویٰ سب سے زیادہ ہو خدا کے بندو مجھے جواب دو میں نے احکامِ خدا کی تبلیغ تم میں کردی؟ سب نے جواب دیا کہ ہاں یا رسول اللہ بے شک آپ نے فرمان خدا پوری امانت داری کے ساتھ ہمیں پہنچا دئیے تو آپ نے فرمایا اب تم میں سے جو موجود ہیں ان پر فرض ہے کہ جو موجود نہیں انھیں بھی میری یہ حدیث پہنچا دیں پھر آپ نے فرمایا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں آپس میں خون، مال، عزت، سب حرام ہیں نہ مسلمان کا ہاتھ مسلمان پر اٹھنا چاہیے، نہ اس کا مال مارنا چاہیے اور نہ اس کی آبروریزی کرنی چاہیے (بیہقی ، ترغیب وترہیب) 
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میدان عرفہ میں رسول اللّٰہ ﷺ نے جو خطبہ دیا تھا اس میں یہ بھی فرمایا تھا کہ اے لوگو اونٹوں کے بھگانے اور گھوڑوں کے دوڑانے میں ہی نیکی کا انحصار نہیں بلکہ درمیانی چال سے اپنی سواریوں کو لے جاؤ ضعیف و کمزور لوگوں کا خیال رکھو ان سے میل رکھو اور کسی مسلمان کو تکلیف نہ پہنچاؤ (غنیۃ الطالبین)
رسولِ خدا ﷺ نے فرمایا اس خدا کی قسم جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں خدا کی وحدانیت اور میری رسالت کی گواہی دینے والے کا قتل سوائے ان تین جرموں کے حلال نہیں ایک تو وہ جو اسلام کو چھوڑ دے جماعت مسلمین سے الگ ہو جائے، دوسرا وہ جو شادی شدہ ہو پھر زناکاری کرلے، تیسرا وہ جو ناحق کسی کو مار ڈالے پس مسلمان ہوجانے کے بعد امن خداوندی میں آجاتا ہے اور آخرت کے درجے بھی پالیتا ہے (مسند احمد)
رسولِ اکرم ﷺ  نے فرمایا اے قریشیو اس امر خلافت کے والی میرے بعد تم ہی ہو پس نہ مرنا مگر اس حال میں کہ تم مسلمان ہو خدا کی رسی کو مل جل کر مضبوط تھا مے رہنا اور ان کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے تفرقہ اور اختلاف کیا اس کے بعد کہ ان کے پاس دلیلیں آ چکیں انہیں یہی حکم دیا گیا تھا کہ اللہ کی عبادت کریں خلوص کے ساتھ یکطرفہ ہو کر اور نمازوں کو قائم رکھیں اور زکوٰۃ ادا کرتے رہیں یہی مضبوط اور سچا اور قائم دین ہے (طبرانی)
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ہمارا مجمع جمع تھا رسول اللّٰہ ﷺ  بھی تشریف فرما تھے آپ ہنس دئیے اور خوب ہنسے عمر رضی اللہ عنہ نے آپ سے وجہ ہنسی دریافت کی تو آپ نے فرمایا میری امت کے دو شخص خدا کے سامنے گھٹنوں کے بل گر گئے اور ایک نے کہا خدایا اس میرے بھائی سے میرا بدلہ دلوا اللہ تعالی نے اس سے فرمایا کہ اپنے بھائی کا بدلہ دے اس نے جواب دیا کہ الہی اب تو میرے پاس کوئی نیکی بھی باقی نہیں رہی تو اس شخص نے کہا میرے گناہ اس پر لاد دئیے جائیں یہ بیان فرماتے ہوئے رسول اللّٰہ ﷺ رو دئیے آنسو نکل آئے اور فرمانے لگے کہ یہ دن بہت ہی عظمت اور سختی والا دن ہے آج ہر شخص کی یہی چاہت ہوگی کہ کسی اور پر اس کا بوجھ لاد دیا جائے الغرض اب ارحم الرحمین فرمائے گا کہ اے بدلے کے طالب اپنی نگاہ تو اٹھا اوپر کی جنتوں کو دیکھ یہ دیکھے گا اور کہے گا الہی یہ کیا؟ شہر کے شہر صرف چاندی کے بنے ہوئے ہیں بڑے بڑے زبردست محلات محض سونے کے بنے ہوئے ہیں جن پر موتی جڑے ہوئے ہیں خدایا یہ تو کسی نبی کی یا صدیق کی یا کسی شہید کی منزل ہوگی جناب باری تعالی فرمائے گا بلکہ یہ بکاؤ ہے جو اس کی قیمت دے وہ لے یہ کہے گا خداوند بھلا اس کی قیمت کون ادا کر سکتا ہے اللہ تعالیٰ فرمائے گا جو ظلم تیرے مسلمان بھائی نے تجھ پر کیا ہے جس کا بدلہ تو طلب کر رہا ہے  اسے تو معاف کر دے یہی اس کی قیمت ہے اب تو اس کی کلی 
 کلی کھل جائے گی بڑی خوشی سے کہے گا میں نے معاف کر دیا اللہ تعالیٰ فرماۓ گا جاؤ اپنے بھائی کا ہاتھ تھام لو اور تم دونوں اس جنت میں چلے جاؤ ۔
کیسی پاک شریعت ہے، کتنے عدل و انصاف کے قانون ہیں، کیسے پر امن اصول ہیں، جب سب انسان برابر ہیں، جب کہ سب ایک ماں باپ کی اولاد ہیں، جبکہ شریعت نے ایک خالص سید و سردار، اور ایک کپڑا بننے والے، اور جوتی گانٹھنے والے، اور تیل بیچنے والے، اور بادشاہت کرنے والے کو، ایک ہی درجے میں رکھ کر عام مساوات قائم کردی 
مسلمانو کسی ایماندار کو گالی دینا فاسق بننا ہے، مومن کو قتل کرنا کافر ہونا ہے، مومن کی غیبت کرنا خدا کی نمک حرامی کرنا ہے، مومن کے مال کی عزت بھی اس کی جان کی عزت کے برابر ہے،  اوروں کی تقصیریں معاف کرو، اللہ تعالی تمہارے گناہ بخش دے گا، دوسروں کی خطاؤں سے درگزر کرو جناب باری تعالیٰ تمہاری لغزشیں معاف فرما دے گا، غصہ پی جایا کرو اللہ تعالیٰ بہت بڑا اجر وثواب عنایت فرماۓ گا، جو لوگ مصیبت پر صبر کریں اللہ تعالیٰ انہیں اجر اور بدلہ اور عوض دیتا ہے

ہفتہ, جولائی 30, 2022

نئے ہجری سال کا پیغام ہجری کلنڈر کو رواج دیجئے

نئے ہجری سال کا پیغام ہجری کلنڈر کو رواج دیجئے 
اردو دنیا نیوز ۷۲
        ایم رحمانی
مدرسہ اسلامیہ بیت العلوم چمپارن 

        آج ہجری تقویم کے اعتبار سے سال کا آخری دن ہے اور آخری تاریخ  ہے ، آج کا سورج جیسے ہی غروب ہوگا نئے اسلامی ہجری سال کا آغاز ہوجائے گا ۔ اور ہم سب نئے اسلامی سال میں داخل ہو جائیں گے یعنی ۱۴۴۳ھج ختم ہوکر۱۴۴۴ھج کی شروعات ہوجائے گی ۔ ایمان والوں کے لئے ہجری اسلامی سال اور تاریخ کی بڑی اہمیت ہے ۔ واقعہ ہجرت سے اسلامی سال اور تاریخ کی شروعات بہت ہی معنی خیز ہے ۔ اس لئے کہ ہجرت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا وہ مبارک واقعہ ہے، جو نہ صرف مسلمانوں کی ایثار اور جانثاری و فداکاری کا اوج کمال ہے ، بلکہ یہ اسلام کے ظہور و غلبہ کا نقطئہ آغاز بھی ہے ،اسی بنا پر حضرات صحابہ کرام نے اسلامی کلینڈر کے لئے اسی واقعہ کو بنیاد و اساس بنایا اور یہ ہجری کلینڈر ھجری تقویم سے موسوم ہوا ۔ علماء اور حضرات اہل علم نےلکھتے ہیں،،کہ مسلم معاشرہ میں ھجری تقویم کے رواج کو باقی رکھنا فرض کفایہ کی حیثیت اور درجہ رکھتا ہے اس لئے کہ اس سے متعدد عبادتیں متعلق ہیں ،،۔ 
مگر افسوس افرنگیوں کی تقلید میں ہم ایسے اندھے ہو گئے ہیں اور مغربی تہذیب کے سیل رواں میں ایسے بہہ گئے ہیں اور مسلمانون کی مرعوبیت اور اس طوفان کے مقابلے سپر اندازی نے نوبت یہاں تک پہچا دی ہے کہ آج زیادہ تر مسلمان نوجوان بلکہ بوڑھے اور ادھیڑ ھجری مہینوں کے نام سے بھی واقف نہیں اور یہ جاننے والے تو اور کم ہیں کہ اسلامی تقویم کی بنیاد کیا ہے ؟ یہ کیوں کر وجود پذیر ہوئی اور واقعئہ ہجرت ہی سے اس کلینڈر کی ابتداء کرنے میں کیا حکمت اور پیغام ہے ؟ 
اس بے توجھی بے التفاتی اور نا آگہی کا نتیجہ ہے کہ جتنے کلینڈر جنتریاں اور ڈائریاں چھپتی ہیں وہ سب بھی مسیحی عیسوی تقویم کا لحاظ کرتے ہوئے ۔ 
ضرورت ہے کہ ہم مسلمان ھجری تاریخ کی اہمیت کو جانیں اور سمجھیں اور بلا ضرورت شدیدہ اس تقویم اور سنہ کو چھوڑ کر دوسرے سنہ کو فوقیت اور ترجیح نہ دیں، الا یہ کہ جہاں ہم مجبور ہیں غیروں کے ماتحت اور پابند ہیں،یا جہاں دفتری نظام شمسی کلنڈر کے مطابق انجام دینا مجبوری ہو۔
ہم کو یہ یاد رکھنا اور سمجھنا چاہیے کہ ھجری تاریخ سے سنہ کی ابتداء اور آغاز کا فیصلہ ۱۷ ھج میں ہوا اس وقت سے اب تک صحابئہ کرام اور ہمارے اسلاف قمری مہینوں اور سنہ ہجری کا اہتمام کرتے رہے ہیں اور مسلمانون کو بھی اس کے التزام کی تعلیم دیتے رہے ہیں کیونہ من جملہ شعائر اسلام سے ہے ۔ قمری مہینوں کے نام زبان وحی و نبوت سے ادا ہوئے ہیں اور سنہ ہجری کے بارے میں معلوم ہو کہ ایک مہتم بالشان واقعہ کی یاد گار ہے ۔

حج عشق الٰہی کا مظہر اور ایک جامع عبادت

حج عشق الٰہی کا مظہر اور ایک جامع عبادت
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ
(اردو دنیانیوز۷۲)
حضرت مولانا نور الحق رحمانی استاذ المعہد العالی امارت شرعیہ کو اللہ رب العزت نے علم وعمل کی دولت سے مالا مال کیا ہے، فقہ، حدیث اور عربی زبان وادب پر ان کی گہری نظر ہے ، عرصہ دراز سے فقہی کتابوں کا درس ان کے ذمہ رہاہے ان دنوں وہ تدریب افتاوقضاء کے طلبہ کو مختلف علوم وفنون کا درس دیا کرتے ہیں، وہ استاذ الاساتذہ ہیں اللہ رب العزت نے ان کے وقت میں بڑی برکت عطا فرمائی ہے ، لغویات سے دو راور فضولیات سے نفور کی وجہ سے ان کا سارا وقت مطالعہ، تدریس، اصلاح معاشرہ کے خطابات وغیرہ میں گذرتا ہے، وقت میں برکت کی وجہ سے ہی، ڈیڑھ درجن سے زائد کتابیں انکی طبع ہو چکی ہیں، جن میں موسوعۃ فقہیہ کا اردو ترجمہ، اسلامی عدالت کا عربی ترجمہ ، نظام قضاء الاسلامی بھی شامل ہے، خواتین پر ان کی تین کتابیں سیرت عائشہ ، عورت اسلامی شریعت میں، نیز تعدد ازدواج حقائق کے آئینے میں طبع ہو کر مقبول ہو چکی ہیں۔
 مولانا کی تازہ ترین تالیف’’ حج عشقِ الٰہی کا مظہر اور ایک جامع عبادت‘‘ ہے، نام تھوڑا طویل ہو گیا ہے ، لیکن اس طوالت کی وجہ سے نام سے کتاب کے مندرجات تک اجمالی رسائی ہو جاتی ہے ،’’ عشق ‘‘کا لفظ اتنا سو قیانہ ہو گیا ہے کہ اللہ، رسول اور متعلقہ عبادت کے ساتھ جوڑنے میں مجھے انشراح نہیںہوتا ، عشق کے سوقیانہ لفظ ہونے کی وجہ سے ہی ، اس حقیر کے ناقص مطالعہ میں قرآن واحادیث میں یہ لفظ استعمال میں نہیں آیا، حالاں کہ صحابہ کرام سے زیادہ جاں سپاری اور محبت میں وارفتگی کس کے پاس ہو سکتی ہے ۔
 کتاب کے شروع میں کلمات تبریک امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم ، حرف چند نائب امیر شریعت حضرت مولانا محمد شمشاد رحمانی اور مقدمہ مولانا مفتی سعید الرحمن قاسمی مفتی امارت شرعیہ اور مولانا محمد ایوب نظامی ناظم مدرسہ صورت القرآن دانا پور کا ہے ، ان حضرات کی تحریروں میں مولانا کی علمی خصوصیات اور اس کتاب کی اہمیت کا ذکر ملتا ہے ، جس سے کتاب پڑھنے سے پہلے قاری کے ذہن میں اس کتاب کی اہمیت اور قدر ومنزلت بیٹھ جاتی ہے۔
کتاب در اصل پانچ مضامین کا مجموعہ ہے ، پہلا مضمون حج عشق الٰہی کا مظہر ، دوسرا حج ایک جامع عبادت، تیسرا سفر حج کا توشہ اور چوتھا عمرہ کا عملی طریقہ ہے، ان میں کے دو مضامین سفر حج کا توشہ اور حج ایک جامع عبادت نقیب میں طبع ہو چکا ہے ۔اور اس کے قاری کے لیے گاہے گاہے باز خواں کی طرح ہے۔
 اس کتاب میں حج کے فضائل ومسائل پر تفصیلی مواد موجود ہے، اس سے عازمین حج کو حج کی ادائیگی میں سہولت ہوگی اور بہت سارے اعمال میں وہ غلطیوں سے بچ جائیں گے ، اس کتاب میں ایک چھٹا مضمون مدینہ منورہ کی زیارت کے حوالہ سے ہے جو مولانا کے صاحب زادہ مولانا فیض الحق قاسمی استاذ مدرسہ تحفیظ القرآن سمن پورہ ، راجا بازار پٹنہ کے قلم سے ہے اور قیمتی ہے، کاش مولانا مکہ میں جن مقامات کی زیارت کی خواہش ہوتی ہے، اس پر بھی روشنی ڈال دیتے تو تشنگی باقی نہیں رہتی ، یقینا شرعی طور پر وہ حج کا حصہ نہیں ہیں، لیکن آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس سے جُڑے سارے مقامات ہمارے لیے اہمیت کے حامل ہیں اور خواہش ہوتی ہے کہ سر کے آنکھو ں سے ان کی بھی زیارت ہوجاتی۔
 مولانا نور الحق رحمانی صاحب چوں کہ زمانہ دراز سے عازمیں حج کی تربیت بھی کرتے رہے ہیں، اس لیے اس کتاب میںمولانا کی گفتگو کا بڑا محور وہ تجربات ہیںجو انہوں نے خود حج کے سفر سے حاصل کیے اور لوگوں کو مسائل سمجھانے کے درمیان جس کی ضرورت انہوں نے محسوس کی ، اس طرح یہ کتاب مختصر اور جامع ہے اور اس کی اہمیت وافادیت مسلم ہے، یہ عازمین کے لیے توشۂ حج اور مولانا کے لیے توشۂ آخرت ہے۔
 کتاب کی اس اہمیت وافادیت کی وجہ سے کتاب کی ترتیب، پروف ریڈنگ اور سیٹنگ پر خصوصی توجہ کی ضرورت تھی، عموما کتاب میں مؤلف کا پیش لفظ پہلے اور تقریظ وتاثرات پر مشتمل مضامین بعد میں ہوتے ہیں، اس کتاب میں پیش لفظ درمیان میں آگیا ہے، شروع میں حضرت امیر شریعت اور نائب امیر شریعت کے کلمات تبریک اور حرف چند ہیں، پھر پیش لفظ کے بعد مولانا محمد ایوب نظامی کی تقریظ ہے، نائب امیر شریعت کے حرف چند میں ان کا نام مضمون کے آخر میں درج ہونے سے رہ گیا ہے ، سیٹنگ کے نقص کی وجہ سے کتاب کا حوض اور حاشیہ کا تراش وخراش بھی کم وبیش ہو گیا ہے ، پروف ریڈنگ میں اغلاط کثرت سے رہ گیے ہیں، اس کا آغاز صفحہ ۲؍ سے ہوتا ہے ، جہاں صفحات کی تعداد حروف میں ایک سو بتیس اور عدد میں ایک سو چھتیس درج ہے، مفتی سعید الرحمن صاحب کے مقدمہ اور کتاب کے دوسرے مندرجات میں بھی اغلاط کی کثرت ہے ،بعض جگہوں پر مولانا اس طرح کھوجاتے ہیں کہ انہیں اپنا سفر حج یاد آجاتا ہے اور وہ ایک جملہ لکھ کر دوسری بات شروع کر دیتے ہیں۔ اس عبارت کو دیکھیے۔
’’ ہر حاجی بسوں کا کرایہ پہلے ادا کرچکا ہوتا ہے پھر منی سے طواف زیارت کے لیے مکہ آمد ورفت بھی سرنگ ہی کے ذریعہ ہوئی اور آسانی سے دس ذی الحجہ کو چاروں عمل رات باہ بجے تک انجام پا گیے، پھر دس ذی الحجہ کا دن ‘‘۔( صفحہ ۶۵) اس طرح کی عبارتیں اس کتاب میں کئی ہیں، مولانا لکھتے لکھتے کھو جاتے ہیں، اپنے سفر حج کا تذکرہ کرنے لگتے ہیں، پھر معا خیال آتا ہے تو آگے بات شروع کر دیتے ہیں، یہ معاملہ جذب وکیف کا ہے، اس طرح کی عبارتوں کو اسی پس منظرمیں دیکھنا چاہیے، اس کا ایک دوسرا رخ اپنے تجربہ کا ذکر بھی ہے، پچاس روپے دے کر مکتبہ القاضی پھلواری شریف قاضی نگر سے اس کتاب کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...