Powered By Blogger

بدھ, ستمبر 07, 2022

عدالت کے دروازے بند __مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

عدالت کے دروازے بند  __
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اردو دنیا نیوز ٧٢
 چیف جسٹس یو للت کی سر براہی میں جسٹس رویندر بھٹ اور جسٹس جے پی پار ڈی والا کی ایک بینچ نے بابری مسجد اور گجرات فسادات سے متعلق تمام گیارہ(۱۱) مقدمات کی فائلیں بند کر دینے کا حکم دیا ہے، ان مقدمات پر اب کوئی سماعت نہیں ہوگی، بابری مسجد انہدام کے موقع سے تو ہین عدالت کے مقدمات ہوئے تھے، اسے بھی بند کر دیا گیا ہے ، احسان جعفری قتل کیس میں ذکیہ جعفری حکومت سے مقدمات ہارتی اور اپیل کرتی رہی تھیں، اب اس کی بھی سماعت نہیں ہو سکے گی عدالت کے جج حضرات کی رائے تھی کہ ان مقدمات کی اب کوئی ضرورت نہیں ہے، مرور ایام کے ساتھ یہ مقدمات لائق سماعت نہیں رہے۔ اس فیصلے کا مطلب یہ ہے کہ جو ہو گیا وہ ہو گیا، عربی میں اسے مضی ما مضی کہتے ہیں ، یعنی کل پر خاک ڈالیے اور بھول جائیے جو کچھ آپ کے ساتھ ہوا، ماضی کی پریشان کن یادوں کو بھول جانا آسان نہیں ہوتا، اگر ہو بھی جائے تو انصاف کے تقاضے شاید پورے نہ ہوں۔
 اسی طرح کر ناٹک ہائی کورٹ نے ہبلی کی عیدگاہ میں گنیش چتھرتھی کی پوجا کرنے کی اجازت دیدی ہے، عدالت کی نظر میں یہ معاملہ اس قدر اہم تھا کہ رات کے ساڑھے بارہ بجے خصوصی عدالت بلا کر یہ فیصلہ سنایا گیا، کوشش تو بنگلور عیدگاہ میں بھی پوجا کے لیے کی جا رہی تھی، لیکن سپریم کورٹ نے اس کی منظوری نہیں دی ، عدالت کی نظر میں یہ غیر مناسب عمل ہے، لیکن کرناٹک ہائی کورٹ کو کس طرح یہ مناسب لگا کہ اس نے اس کی اجازت دے دی ۔
 اس قسم کے فیصلے یہ بتاتے ہیں کہ مسلمانوں کو یہاں دوسرے درجے کا شہری مانا جاتا ہے اور دستور میں دیے گیے حقوق تک کی ان دیکھی کرکے فیصلے سامنے آ رہے ہیں، اس سے مسلمانوں میں غم وغصہ پایا جاتا ہے، یہ غم وغصہ جب احتجاج کے طور پر سامنے آتا ہے تو پولیس ایکشن کے لیے تیار ہوتی ہے اور کئی لوگ موت کی نیند سلا دیے جاتے ہیں ، یہ ہے ہمارا آزاد بھارت، جس کی آزادی کا امرت مہوتسو ہم پورے جوش وخروش کے ساتھ منا رہے ہیں۔

ٹی راجہ سنگھ کی بکواس ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

ٹی راجہ سنگھ کی بکواس ___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اردو دنیا نیوز٧٢
 تلنگانہ اسمبلی میں بھاجپا کے رکن ٹی راجہ سنگھ کی آقا صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے حوالہ سے بکواس نے حیدر آباد ہی نہیں پورے ہندوستان کے مسلمانوں کے قلب وجگر کو چھلنی کر دیا ہے ، ٹی راجہ سنگھ مجرمانہ ذہنیت رکھتا ہے ، اس کے اوپر ایک سو ایک(۱۰۱) مقدمات پہلے سے درج ہیں، جس میں اٹھارہ(۱۸) مقدمات کا تعلق فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے سے ہے ، حیدر آباد میں اسے گرفتار کیا گیا، لیکن یہ گرفتاری ان دفعات کے تحت ہوئی تھی ، جس میں دفعہ ۴۱، اے کے تحت پولیس کو پہلے نوٹس دینا ہوتا ہے، پولیس نے چوں کہ یہ نہیں کیا تھا؛ اس لیے عدالت نے تکنیکی بنیاد پر اسے رہا کر دیا، اس رہائی کے نتیجے میں مسلمانوں کا غصہ پھوٹ پڑا اور شاہ علی بند سے احتجاج ومظاہرہ شروع ہوا،قدیم حیدر آباد کے چار مینار تک پہونچا،اس درمیان تین اجنبی لوگوں نے پولیس پر پتھر پھینک دیا، اور پولیس نے اپنا غصہ اتارنے کے لیے ہر وہ کام کیا، جو اس کی روایت رہی ہے، نوے (۹۰)مسلمان گرفتار ہوئے اور پولیس نے گھروں میں گھس کر ان کے مکینوں کو زد وکوب کیا، ایم آئی ایم کے صدر و رکن پارلیمان بیرسٹر اسد الدین اویسی نے کسی طرح ان کو پولیس کی گرفت سے آزاد کرایا اور اپنے کارکنوں کے ذریعہ ان کے گھروں تک پہونچانے کا قابل تعریف کام کیا۔
 نوجوانوں نے اس موقعہ سے جو نعرہ لگایا ، اس میں ایک یہ بھی تھا کہ گستاخ رسول کی یہی ہے سزا ، سر تن سے جدا ، سر تن سے جدا، اس نعرے کی وجہ سے آ ر ایس ایس اور بھاجپا کے لوگ بھی سڑکوں پر آئے اور ٹی راجا سنگھ جس کی پارٹی میں کوئی پکڑ نہیں تھی، راتوں رات ہیرو بن گیا، اس بکواس سے وہ یہی فائدہ اٹھانا چاہتا تھا، جو اسے مل گیا۔
 اس موقع سے حیدر آباد کے مساجد کے ائمہ نے انتہائی تحمل اور بر داشت سے کام لیا،انہوں نے اپنی میٹنگ میں یہ طے کیا کہ اس مسئلے پر جمعہ میں کوئی خطاب نہیں ہوگا، اس پر پورے حیدر آباد میں عمل ہوا، ٹی راجہ سنگھ قانونی کارروائی کی تکمیل کے بعد دو بارہ گرفتار ہو گیا، اس سے بھی مسلمانوں نے کچھ راحت محسوس کی، ٹی راجہ سنگھ کی گرفتاری کے دوسرے دن جمعہ تھا اگر مسجد کے منبر سے کوئی تقریر اس موضوع پر ہوجاتی تو مسلمانوں کو قابو میں رکھنا دشوار ہو جاتا اور نتیجہ قتل وغارت گری، خوں ریزی ، عصمت دری، دو کان ومکان کی بربادی کے سوا کچھ نہیں نکلتا، ائمہ ٔ مساجد حیدر آباد کے اس دانشمندانہ فیصلے نے ایک بڑے فساد کو واقع ہونے سے پہلے ہی روک دیا۔
 یقینا تو ہین رسالت بڑا جرم ہے اور شریعت میں اس کے لیے سزا بھی مقرر ہے، لیکن اس کے نفاذ کے لیے جو شرائط ضروری ہیں وہ ہندوستان میں نہیں پائے جاتے ، یہاں حدود وقصاص کا اجراء نہیں ہو سکتا، یہاں ایسے کسی عمل کا مطلب قانون اپنے ہاتھ میں لینا ہے، جس کی اجازت کوئی بھی نہیں دے سکتا، اس کا حل قانونی چارہ جوئی ہے ، پر امن احتجاج بھی اس ہوشیاری کے ساتھ کرنا چاہیے کہ مخالفین اس کے اندر گھس کر نئے مسائل پیدا نہ کریں۔
 اس سلسلے میں ملک کے علمائ، فقہاء اور مذہبی جماعتوں کو مل کر مضبوط لائحۂ عمل تیار کرنا چاہیے اور مسلمانوں کو اسی کی روشنی میں اقدام کرنا چاہیے تاکہ کسی بھی نا خوش گوار واقعہ سے بچا جا سکے ۔

مدارس کی حفاظت کاواحد راستہ

مدارس کی حفاظت کاواحد راستہ 
اردو دنیا نیوز٧٢
میرے عزیزو! 
 آج ہمارے دینی مدارس کے لیے ایک ہی راستہ ہے،اور وہ یہ کہ وہ زندگی کا استحقاق ثابت کریں، وہ یہ ثابت کریں کہ اگر وہ نہ رہے تو زندگی بے معنی ہوجائے گی، اور کم سے کم اس میں ایک بہت بڑا خلا پیدا ہوگا،جس کو اور کوئی پر نہیں کرسکتا، باقی رحم کی درخواست نہ کبھی دنیا میں سنی گئی ہے، نہ کبھی سنی جاسکتی ہے، اور یہ زمانہ تو جمہوریت کا ہے،اس میں تو اب بالکل اس کی گنجائش نہیں رہی کہ ہم یہ کہیں کہ بھائی ہمیں فلاں حکومت نے باقی رکھا،فلاں حکومت نے باقی رکھا، ہم فلاں دور میں باقی رہے،فلاں دور میں باقی رہے،آپ بھی ہمیں باقی رکھئیے، یا آپ یہ کہیں کہ ہم نے آزادی میں اتنا حصہ لیا تھا،ہمارا استحقاق ہے،اس کو اب دنیا ماننے کے لیے تیار نہیں ہے" (پاجاسراغ زندگی)
آج سے پچاس سال قبل حضرت علی میاں رحمۃ نے یہ باتیں دارالحدیث جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیرکی اپنی تقریر میں پیش کی ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے آج ہی حضرت اہل مدارس سے مخاطب ہیں اورموجودہ حالات کی روشنی میں نصیحت فر مارہے ہیں، 
اس تقریر کے ایک ایک جملہ میں کتنی صداقت اورسچائی ہے؟آج ہمارے سامنے کھل کر آگئی ہے۔اس وقت خاص نظریہ کی ملک میں بالا دستی ہوگئی ہے،ہم نے اتنے مدرسے بند کرادئے یہ بات بڑے فخر کے ساتھ کہی جارہی ہے، مدارس پر بلڈوزر چلے یہ خبر اخبارات کی زینت بن رہی ہے، ہر چہار جانب سے مدارس کو بند کرنے اور کرانے کی بات ہورہی ہے، ملک کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں مدارس کو بند کرنے کے لیے باضابطہ روٹ پلان طےکرلیا گیا ہے،اوراس سمت میں کام بھی شروع ہوگیا ہے،
یوپی حکومت نےان تمام مدارس کےسروےکا فیصلہ صادر کیا ہےجو سرکار سے مالی تعاون نہیں لیتے ہیں،آمدنی کے ذرائع کیا ہیں؟ ایسےسوالات پوچھے جارہے ہیں جس سے صرف حکومت کی نیت پر سوال کھڑا نہیں ہوتا ہے بلکہ صاف طور پر یہ واضح ہوتا ہے کہ مدارس اسلامیہ کو بند کرنے کی منظم کوشش ہے۔ملک کی ریاست آسام میں تین مدارس بلڈوزرسے منہدم کر دیے گئے ہیں،یہ سب کچھ ہمارے سامنے ہورہا ہے،ایسا بھی نہیں ہے کہ ہم اہل مدارس خاموش بیٹھے ہیں،ہم آئین کا حوالہ دیتے ہیں کہ اپنی پسند کے ادارے قائم کرنا مدارس قائم کرنا یہ ہمارا آئینی حق ہے، اس سے ہمیں کوئی روک نہیں سکتا ہے، مگر ہماری آواز صدا بصحرا ثابت ہورہی ہے، 
 ابھی گزشتہ کل کی بات ہے، دہلی میں" اجلاس تحفظ مدارس"  کے عنوان پر باضابطہ پروگرام منعقد کیا گیا،اسمیں پوری ریاست سے مدارس کےمہتمم صاحبان شریک ہوئے ہیں، حکومت سے گفت وشنید کی تجویز لی گئی ہے، مدارس کے ڈیڑھ سو سالہ کارناموں کا حوالہ دیکر اپنا مستقل وجود ثابت کیا گیا ہے، جنگ آزادی میں اہل مدارس کی قربانیاں گناکر اپنااستحقاق پیش کیاگیاہےاور رحم کی درخواست بھی کی گئی ہے، مگربقول حضرت علی میاں رحمۃ اللہ یہ حکومت ماننے کے لیے تیار نہیں ہے، ساری گزارشات بے کاراور ساری کوششیں بے سود ہورہی ہیں،سابقہ مشاہدہ یہی کہتا ہے، کوئی گزارش قبول ہوتی نظر نہیں آرہی ہے۔  بقول شاعر۰۰ کوئی امید بر نہیں آتی 
                      کوئی صورت نظر نہیں آتی 
اور۰۰۰ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی" کا مصداق بن گیا ہے ۔ایک سوال پھر آج یہ قائم ہوتا ہے کہ آخر اس مسئلہ کاحل کیا ہے؟
 حضرت علی میاں رحمۃ اللہ علیہ نے ملک ہند کے گہرے مطالعہ کے بعد یہاں مدارس کے وجود اور اس کی بقا کاواحد حل بتلایا ہے،یقین کے ساتھ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ آج بھی اگر مولانا کی کہی ہوئی بات پر اہل مدارس متحد ہوجاتے ہیں ،اور عمل میں اسے لے آتے ہیں، تو یہی اس مسئلہ کا دائمی حل نظر آتا ہے، اوربعید نہیں کہ پورے ملک کی ہدایت کا راز بھی اسی میں چھپا ہوا ہے،۔
قرآن کریم کی آیت سے استدلال کرتے ہوئے مولانا نے یہ کہا ہے کہ دریاؤں میں جوجھاگ اور پانی کا پھین ہوتا ہے وہ اڑجایا کرتا ہے، اورپانی جسمیں لوگوں کو نفع پہونچانے کی صلاحیت ہوتی ہے وہ زمین میں ٹھہر جاتی ہے۔یہ قرآنی نظام ہے جو فائدہ پہونچانے والی چیزیں ہوتی ہیں انہیں باقی رہنے کا حق ہوتا ہے اور وہ باقی رہتی ہیں، دنیا بھی اسی اصول کوتسلیم کرتی ہے۔آج اہل مدارس کو ماہرین پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔مولانا کہتے ہیں:" آپ کسی علم میں کسی فن میں اختصاص پیدا کرلیں،امتیاز پیدا کرلیں،دنیا آپ کا لوہا مانے گی،اور معاشی مسئلہ بھی حل ہو جائے گا، اور مدارس کا جو مسئلہ اس وقت ہمارے یہاں درپیش ہے، یہ سب ختم ہوجائے گا"(حوالہ سابق)
 مولانا اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ آج زمانہ انگریزی کا ہے،عربی زبان میں مہارت پیدا کرنے سے یہاں کیا ہوجائے گا، ملاحظہ کیجئے؛ آپ کہتے ہیں کہ طب یونانی کو زوال اس لیے ہے کہ ڈاکٹری آگئی ہے، ہومیو پیتھک آگئی ہے،اور جدید میڈیسن آگئی ہے، میں بالکل نہیں مانتا،طب یونانی کو اس لیے زوال ہوا کہ اب اس طرح کے طبیب نہیں پیدا ہوتے،۰۰۰۰اگر آج وہ پیدا ہوجائیں تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ان کے پاس ڈاکٹر جائیں، اس میں ذرا مبالغہ نہیں، آپ کے شہر کا سول سرجن جھک مار کر ان کے پاس جائے،(پاجاسراغ، ص:166)
دوسرا کام جس کی طرف حضرت علی میاں رحمۃ اللہ علیہ نے اہل مدارس کو متوجہ کیا ہے وہ دینی مکاتب کا قیام ہے،دراصل حضرت علی میاں رحمۃ اللہ کی نظر میں مکتب ہی مضبوط مدرسہ ہے جسے کوئی طاقت اکھیڑ نہیں سکتی ہے،
 حضرت کی زبان میں سنئے:
تیزی کے ساتھ ہندوستان بدل رہا ہے، ہر چیز کو نیشنلائز کیا جارہا ہے،۔۔۔مسلم یونیورسٹی کی باری آگئی، کل مدارس کی باری آسکتی ہے، تو اس کے لیے مکاتب کا جال بچھا دیجئے، اور مساجدکومسلمانوں کی زندگی کا مرکز بنایئے، سب سے آخر میں انقلاب کے قدم جہاں پہونچیں گے، وہ مسجدیں ہیں، اس لیے آپ ایسی جگہ اپنے مرکز بنایئے، جہاں دیر میں انقلاب پہونچے یاوہاں تک انقلاب پہونچتے پہونچتے قیامت آجائے، (حوالہ سابق )
مذکورہ دونوں باتیں اہل مدارس کے وجوداور بقا کےضامن ہیں، اس وقت اس پر منظم کوشش کی ضرورت ہے، ایک تیسری چیز جوحضرت علی میاں رحمۃ اللہ نے پچاس سال قبل مذکورہ بالا خطاب کے بعد شروع کیا ہے، وہ تحریک پیام انسانیت ہے،
آپ کی یہ تقریر ۱۹۷۳ء میں ہوئی ہے، اور سال کے اختتام پر ۱۹۷۴ء میں آپ نے الہ آباد کے پہلے اجلاس سے تحریک پیام انسانیت کا آغاز فرمایا ہے، اور اس تحریک کو ملک کی تمام دینی وملی تحریکوں کے لئے ضروری قرار دیا ہے،مولانا نے صاف صاف یہ کہا ہے کہ پیام انسانیت تحریک کے ذریعہ ہی اس ملک کی دھرتی کو ہموار کرسکتے ہیں، اور پھر اس پر ہمارا کوئی دینی وملی اور ادبی پروگرام منعقد ہوسکتا ہے،آج اہل مدارس کو اس کام کو اپنے وجود کی بقا کے لیے بھی کرنے کی ضرورت ہے۔

ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ
۷/ستمبر ۲۰۲۲ء

منگل, ستمبر 06, 2022

مدرسہ سروے میں پوچھے جانے والے سوالات*

*مدرسہ سروے میں پوچھے جانے والے سوالات*
اردو دنیا نیوز ٧٢
(1)مدرسہ کانام؟
(2) کونسی سنستھا(کمیٹی) مدرسہ کو چلاتی ہے؟
(3)مدرسہ کب بنا تھا؟
(4)مدرسہ کی زمین نجی ہے یا کرایہ کی؟
(5)بچوں کو مول بھوت سودھا(بنیادی سھولیات ) ملتی ہیں یانہیں؟
(6)مدرسہ میں پڑھنے والے طلبہ کی تعداد؟
(7)مدرسہ میں پڑھانے والے اساتذہ کی تعداد؟
(8)مدرسہ میں کیا پڑھایا جاتاہے یعنی نصاب کیا ہے؟
(9)غیر منظورشدہ مدرسوں کا ذریعہ آمدنی کیاہے؟
(10)مدرسہ میں پڑھنے والے بچے کسی اور اسکول میں پڑھتے ہیں یا نہیں؟
(مدرسہ کا تعلق کسی ngo(Non-governmental organization)
 یعنی غیر سرکاری ادارہ ۔یا سنستھاسے  ہے یا نہیں؟
یہ کل ۱۱ سوالات ہیں جو مدرسہ والوں سے کئے جائیں گے اس لئے ان کے جوابات تحریری شکل میں تیار رکھیں



 
پیش کردہ : 
حسین احمد قاسمی خادم دارالعلوم حسینیہ احمد پور شاہجہان پور وصدر جمعیة علماء ضلع شاہجہان پور یوپی

مائرہ سبطین کی یوم پیدائش کی دوسری سالگرہ پر رشتہ داروں نے دعاؤں سے نوازا

مائرہ سبطین  کی یوم پیدائش کی دوسری سالگرہ پر رشتہ داروں نے دعاؤں سے نوازا 
اردو دنیا نیوز٧٢
(حاجی پور 5 ستمبر  نمائندہ ) موضع بھیرو پور کے مشہور و معروف سابق استاد جناب شہاب الرحمن صدیقی صاحب کی نواسی  مائرہ سبطین بنت محمد سبطین نے 6 ستمبر 2022 ء بروز منگل اپنی عمر کے دو سال مکمل کر لیے۔ محض دو سال کی عمر میں ماشاءاللہ اس معصوم سی بچی کو کئ مسنون دعائیں ، اردو اور انگریزی کے حروف تہجی کے علاوہ چند الفاظ بھی ذہن نشیں ہیں ۔ ماشاءاللہ مائرہ سبطین بہت ہی زیادہ ذہین، اخلاق مند ، خوش مزاج اور چنچل ہے ۔ وہ اپنے گھر کے تمام افراد کی لاڈلی و چہیتی تو ہے ہی ساتھ ساتھ وہ اپنے خوش مزاجی اور چنچل پن کی وجہ کر تمام رشتہ داروں و پڑوسیوں کی بھی چہیتی ہے ۔ آج اس کی دوسری سالگرہ پر  نانا نانی ، والدین ، بڑے ابو ، گجو ، اور تمام چچا ، چچی ،    ماموں ممانی، خالہ خالو ، پھوپھا ، پھوپھی، بھائ بہن و تمام رشتہ داروں میں خوشی ہے اور تمام لوگوں نے اس کے بہتر صحت ، علم نافع ، دینداری اور بہتر مستقبل کی دعائیں دی ہیں ۔ مائرہ کے نانا جناب شہاب الرحمن صدیقی نے قارئین سے بھی  اپنی نواسی  کے روشن مستقبل کے لیے  دعا کی درخواست کی ہے ۔ یہ اطلاع مائرہ سبطین کے بڑے ماموں جان قمر اعظم صدیقی بانی و ایڈمن ایس آر میڈیا نے دی ہے ۔

مولانا یعقوب منشی اسماعیلؒ ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

مولانا یعقوب منشی اسماعیلؒ ___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اردو دنیا نیوز٧٢
مشہور ماہر فلکیات، نامور عالم دین، قرآن کریم کے عاشق، نمونۂ اسلاف، جامعہ اس روزلامیہ ڈابھیل کے سابق استاذ، شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی ؒ کے شاگرد رشید، درجنوں اداروں ، مساجد ، ومدارس کے سر پرست ، جامعہ علوم القرآن جمبوسر کے قیام کے محرک اور اس کے رکن حضرت مولانا محمد یعقوب قاسمی بن منشی اسماعیل (گجرات) کا برانوے (۹۲) سال  کی عمر میں ان کے وطن ثانی ڈیوزوری، یوکے میں انتقال ہو گیا، تاریخ ۱۹؍ محرم ۱۴۴۴ھ مطابق ۱۸؍ اگست ۲۰۲۲ء کی تھی، جنازہ کی نماز ڈیوری میں ادا کی گئی اور وہیں مقامی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، مولانا مرحوم کی ولادت چودہ محرم ۱۳۵۰ھ مطابق یکم جون ۱۹۳۱ء کو راندیر ضلع کے مشہور قصبہ کاوی میں ہوئی، ابتدائی تعلیم گاؤں کے مکتب میں حاصل کرنے کے بعد انہوں نے متداول نصابی کتابوں کوجامعہ اشرفیہ راندیر میں سبقاً سبقاً پڑھا، مختلف علوم وفنون اور عربی زبان وادب مضبوط صلاحیت پیدا کی، علمی تشنگی باقی تھی اس لیے دار العلوم دیو بند کا رخ کیا، اور یہاں کے نامور اساتذہ شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی ؒ سے صحیح بخاری، علامہ ابراہیم بلیاوی سے صحیح مسلم ، مولانا اعزاز علی امروہوی سے سنن ابود ؤد ، مولانا فخر الحسن ؒ سے سنن نسائی، مولانا ظہور احمد دیو بندی سے سنن ابن ماجہ پڑھی، ان کے درسی افادات سے فائدہ اٹھایا اور ۱۳۷۲ھ میں سند فراغ حاصل کیا۔
 تدریسی زندگی کا آغاز جامعہ اسلامیہ ڈابھیل گجرات سے کیا، کم وبیش دس سال یہاں درس وتدریس سے وابستہ رہے، اور فقہ واصول فقہ کی کتابیں زیر درس رہیں، ۱۹۶۴ء میں وہ امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ تشریف لائے اور حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ؒ سے کار قضا کی تربیت لی اور اس میں مہارت پیدا کی، امارت شرعیہ سے استفادہ کا تذکرہ وہ اپنی مجلسوں میں کیا کرتے تھے، میں نے یہ بات ان سے بلا واسطہ سنی ہے ، ہر ملاقات میں وہ اکابر امارت شرعیہ کا تذکرہ بھی بڑی محبت سے کیا کرتے، حضرت مولانا قاضی مجاہدالاسلام قاسمی رحمۃ اللہ کے تو وہ عاشق تھے، امارت شرعیہ سے قضا کی تربیت مکمل ہونے کے بعد ۱۵؍ رمضان ۱۳۸۵ھ مطابق ۱۹۶۶ء میں برطانیہ کا رخ کیا اور وہاں شمالی برطانیہ کے ایک قصبہ ڈیوزوری کو اپنا مستقر بنایا، برطانیہ میں عائلی مسائل کو اسلامی انداز میں حل کرنے کے لیے دار القضاء کے نظام کو رائج کیا، البتہ مقامی مصلحت کی وجہ سے یہ نام انہوں نے نہیں استعمال کیا۔ ۱۴۰۹ھ میں مجلس تحقیقات شرعیہ برطانیہ کو قائم کرکے اسے علمی تحقیقی ادارہ بنایا، ایک مسجد کی تعمیر کرائی ،جسے وہ دینی واسلامی تعلیم کے فروغ کے ساتھ دعوت وتبلیغ کے کاموں کے لیے بھی استعمال کرتے تھے، اس کام میں جو بے راہ روی آئی ہے اس پر تنبیہ بھی کرتے رہتے تھے۔
 برطانیہ میں ان کی شناخت ماہر فلکیات کی حیثیت سے تھی ، رویت ہلال اور برطانیہ کے اوقات صلوٰۃ کے بارے میں لوگ ان کی آراکی قدر کرتے تھے، گویہ مسئلہ وہاں ابھی بھی لا ینحل ہے، قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ؒ اور مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی ؒ نے برطانیہ کے اس قضیے کو حل کرنے کی بڑی کوشش کی، لیکن وہاں اٹھارہ اور بائیس ڈگری کا معاملہ طے نہ ہو سکا، جو اس مسئلہ کے حل کے لیے بنیادی چیز ہے ۔
 حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ؒ نے جب اسلامک فقہ اکیڈمی قائم کی تو اس کے سیمیناروں میں بہت پابندی سے شریک ہوا کرتے اور اپنے مقالہ کے ساتھ مناقشہ میں بھی خوب حصہ لیتے، دار العلوم ماٹلی والا بھروچ میں جب قاضی صاحب ؒ نے رویت ہلال پر سمینار کرایا تو کلیدی مقالہ ماہر فلکیات کی حیثیت سے انہوں نے پیش کیا تھا۔قاضی صاحب کے بعد ان کی توجہ کا مرکزمولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ تھے، ان کے دور میں بھی فقہی سیمیناروں میں ان کی شرکت ہوتی رہی۔
جیسا کہ مذکور ہوا، اللہ نے انہیں تحقیق وتصنیف کی مضبوط صلاحیت دی تھی، اوقات صلوٰۃ اور رویت ہلال سے خاص دلچسپی تھی، اسلامی ماہ اور رویت ہلال شریعت وعلم فلک کی روشنی میں ،برطانیہ میں صبح صادق کا وقت، برطانیہ میں اوقات نماز - مشاہدہ پر ایک نظر ، اوقات صوم وصلوٰۃ ، اسلامی نکاح وطلاق، برطانیہ واعلیٰ عرض البلاد پر صبح صادق وشفق کی تحقیق، ایصال ثواب کے لیے اجتماعی ختم قرآن وحدیث شریف کی شرعی حیثت، ان کی معروف اور مقبول کتابیں ہیں، مولانا کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کا عاشق بنایا تھا، فرصت کے سارے اوقات تلاوت قرآن میں صرف کیا کرتے ، میں نے اپنی بیش تر ملاقاتوں میں انہیں قرآن شریف کی تلاوت کرتے ہوئے پایا، تلاوت قرآن کے نورانی اثرات ان کے چہرے سے ہویدا تھے، وہ انتہائی وجیہ انسان تھے، لباس کے رکھ رکھاؤ نے انہیں اور بھی مرکز توجہ بنا دیا تھا۔
 میری ملاقات مولانا سے پہلی بار فقہی سمینار ہی میں ہوئی تھی ، پھر یہ تعلق بڑھتا گیا، امارت شرعیہ کا بھی کئی سفر انہوں نے کیا تھا، مسلسل ملاقات سے ایک تعلق خاطر ہو گیا تھا، پھر برطانیہ کا میرا سفر شروع ہوا، ڈیوزو ری کی طرف جانا ہوتا تو قیام ان کی مسجد میں ہی ہوتا، جمعہ کا دن ہوتا تو مسجد میں خطاب مجھ سے کرواتے۔فرصت ہوتی تو ایک وقت کی گھر پر دعوت بھی کرتے اور ممکنہ سہولت بہم پہونچانے کی کوشش کرتے، ۲۰۱۹ء میں میرا آخری بار سفر برطانیہ کا ہوا، وہ اس وقت انتہائی کمزور ہو چکے تھے، کمزوری کا اثر تمام اعضاء وجوارح اور قویٰ پر تھا، لیکن مختلف مسائل پر تبادلہ خیال کرنے کی کوشش کرتے رہے، انتقال سے قبل حافظہ نے ساتھ چھوڑ دیا تھا اور وہ بستر سے لگ گیے تھے، پھر موت کے فرشتے نے آواز لگائی اور انہوں نے رخصت سفر باندھ لیا۔
 مولانا نے بھر پور زندگی گذاری وہ جامعہ علوم القرآن جمبوسر گجرات کی بنا کے محرک تھے اور پوری زندگی اس کے استحکام کے لیے ہر سطح پر تعاون فرماتے رہے، اس طرح یہ غم مولانا مفتی احمد دیولہ دامت برکاتہم اور ان کے صاحبزادگان کا غم ہے، ہم مولانا مرحوم کے تمام پس ماندگان ، متعلقین کی خدمت میں تعزیت مسنونہ پیش کرتے ہیں او رمغفرت تامہ کی دعا پر اس مضمون کا اختتام کرتے ہیں۔

30 سال سے ڈیم میں ڈوبی مسجد اچانک باہر آگئی، لوگ جمع ہوگئے۔_________________________________

30 سال سے ڈیم میں ڈوبی مسجد اچانک باہر آگئی، لوگ جمع ہوگئے۔

_________________________________

اردو دنیا نیوز ٧٢

بہار کے نوادہ میں تین دہائیوں سے پانی میں ڈوبی ایک مسجد ملی ہے۔ 30 سال پانی میں رہنے کے باوجود مسجد کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ 3 دہائیوں سے پانی میں ڈوبی یہ مسجد نوادہ کے راجولی بلاک ہیڈکوارٹر سے 5 کلومیٹر دور پھولواریہ ڈیم کے قریب چندولی گاؤں کے قریب پوری طرح سے دکھائی دے رہی تھی۔ اس کے بعد مسجد کو دیکھنے کے لیے لوگوں کا ہجوم ہوگیا۔
مسجد کے نظر آنے کی خبر قریبی گاؤں میں آگ کی طرح پھیلی تو مختلف علاقوں سے مسلمان اپنے اہل خانہ کے ہمراہ مسجد دیکھنے کے لیے ڈیم پر پہنچنے لگے۔ یہ مسجد پچھلے کچھ دنوں سے موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔ کئی نوجوان ہاتھوں میں چپل لیے مٹی میں داخل ہوتے ہیں اور مسجد کو قریب سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
تاہم درمیان میں کیچڑ اور پانی کی وجہ سے وہ وہاں تک نہیں پہنچ پا رہے ہیں اور بہت دور سے واپس آ رہے ہیں۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ یہ مسجد 120 سال پرانی ہے، لیکن گزشتہ 30 سال سے مسجد مکمل طور پر پانی میں ڈوبی ہوئی ہے، اس کے باوجود مسجد کو کوئی نقصان نہیں پہنچا، یہ 1984 میں بنی تھی، اس سے پہلے بھی مسجد ہوا کرتی تھی۔ مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی ہے، یہ ڈیم حکومت نے زمین حاصل کرنے کے بعد تعمیر کیا، پھر ان جگہوں پر رہنے والے لوگ بے گھر ہو کر ہردیہ ڈیم کے ساتھ والے گاؤں میں آباد ہو گئے۔
محمد شمشیر کا کہنا تھا کہ ڈیم کی تعمیر کے بعد مسجد ایسی ہی رہ گئی تھی، پانی بھرنے کی وجہ سے مسجد کا صرف گنبد نظر آتا تھا، لیکن اب پانی کی سطح کم ہونے کی وجہ سے پوری مسجد نظر آ رہی ہے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...