Powered By Blogger

ہفتہ, فروری 11, 2023

مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی کے ’ یادوں کے چراغ ‘تعارف و تبصرہ/شکیل رشید

مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی کے ’ یادوں کے چراغ ‘
تعارف و تبصرہ/شکیل رشید
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار ، خوب لکھتے ہیں ، اور اچھا لکھتے ہیں ۔ کچھ پہلے جب مولانا کی دو کتابیں ’ یادوں کے چراغ ‘ جِلد اوّل و جِلد دوم مجھے ملیں تو ان سے اپنی ایک ملاقات یاد آگئی ۔ پہلی اور اب تک کی آخری ملاقات ، لیکن ہمیشہ کے لیے یاد رہ جانے والی ملاقات ۔ میں کسی تقریب میں شرکت کے لیے ململ گیا تھا ، وہاں سے پٹنہ دوپہر کے وقت واپسی ہوئی تو یہ الجھن سامنے تھی کہ ممبئی کے لیے رات کا سفر ہے ، وقت کہاں گذارا جائے ۔ امارت شرعیہ پھلواری شریف کا صرف نام سنا تھا ، کبھی جانا نہیں ہوا تھا ، ایک بس پکڑ کر وہاں پہنچا ، عادل فریدی سے ملاقات ہوئی ، اس کے بعد مولانا ملے اور انہوں نے ’ میزبانی ‘ کے سارے فرائض اپنے ذمہ لے لیے ، اور سفر میرے لیے آسان بنا دیا ۔ آج اتنے دنوں بعد شکریہ کا موقعہ ملا ہے ، بہت بہت شکریہ مولانا محمد ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب !  
مولانا محترم کے مضامین دینی ، اخلاقی اور معاشرتی ، ادبی و سیاسی غرضیکہ ہر موضوع پر ملک بھر کے اخبارات میں شائع ہوتے رہتے ہیں ، اور پڑھے جاتے ہیں ۔ ان مضامین کی ایک بڑی خوبی ان کا اسلوب اور لفظوں کا انتخاب ہے ۔ اسلوب رواں ہے ، زبان سلیس لیکن عمومی نہیں ، اور موضوع بھلے بار بار کا آزمایا ہوا ہو ، لیکن لکھنے کے انداز میں نیا پن ۔ مولانا کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ اردو زبان و ادب کی تمام اصناف پر لکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ، مثال کے طور پر زیر تعارف و تبصرہ کتاب ’ یادوں کے چراغ ‘ ہی کو لے لیں ، اس کے مضامین اردو ادب کی ایک اہم صنف ’ خاکہ ‘ کے تحت آتے ہیں ۔ خاکہ یعنی کسی کی حیات و خدمات کو یوں لوگوں کے سامنے پیش کرنا کہ انہیں وہ شخصیت ، جس کی حیات و خدمات پیش کی جا رہی ہیں ، اپنی آنکھوں کے سامنے چلتی پھرتی ہوئی نظر آئے ۔ اس کتاب میں مولانا محترم نے ، دو جِلدوں میں ۱۱۱ شخصیات کے خاکے پیش کیے ہیں ۔ خاکوں کو ، دونوں ہی جِلدوں میں ، چار ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ پہلی جِلد میں ابواب کی تقسیم اِن عنوانات کے تحت ہے ’ علماء و مشائخ ‘ ، ’ سیاسی ، سماجی و ادبی شخصیات ‘ ، ’ بھولے بِسرے لوگ ‘ اور ’ رشتہ دار ‘۔ دوسری جِلد میں ابواب کے عنوانات میں تھوڑا سا فرق ہے ، پہلا باب تو وہی ہے ’ علماء و مشائخ ‘ لیکن دوسرے باب کا تبدیل شدہ عنوان ہے ’ شعراء ، ادباء ، سیاست داں اور صحافی حضرات ‘ ، تیسرے باب کا عنوان ہے ’ بھولے بِسرے لوگ ‘ اور چوتھا باب ہے ’ تم سلامت رہو ہزار برس ‘۔ دونوں ہی جِلدوں میں جن علماء و مشائخ کے خاکے ہیں اُن کی تعداد ۶۳ ہے ، ان میں مولانا ابوالمحاسن محمد سجّاد ؒ ، مولانا منت اللہ رحمانی ، قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ؒ ، مولانا ابرارالحق ہردوئی ، مولانا فضیل احمد قاسمی ؒ، مولانا سیّد عبداللہ حسنی ندوی ؒ اور مولانا سیّدنظام الدین ؒ اور دیگر اکابر علماء و مشائخ کے نام شامل ہیں ۔ ان اکابر علماء پر لکھتے ہوئے مولانا محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نے کہیں بھی اپنے قلم کو بہکنے نہیں دیا ہے ، نہ ہی کسی کی تعریف حد سے بڑھ کر کی ہے ، اور نہ ہی کسی کے احترام کو ہاتھ سے جانے دیا ہے ۔ ایک مثال مولانا ابرار الحق ہردوئی ؒ کی ملاحظہ کریں : ’’ حضرت مولانا فطر تا نفاست پسند تھے ، یہ نفاست ، لباس ، وضع قطع ، چال ڈھال ہی میں نہیں مسجد ومدرسہ کی تعمیرات تک میں نظر آتی ہے ، وہ شعائر اسلام کو خوبصورت دیکھنا پسند کرتے تھے ، علماء کی قدردانی ان کی فطرت تھی ، ظاہری وضع قطع پر بھی خاصہ دھیان دیتے تھے ، اصول کی شدت کے ساتھ پابندی حضرت تھانوی ؒکے یہاں سے ورثہ میں ملی تھی ، پوری زندگی اسے برتتے رہے ، اصول کی پابندی میں جو سہولت ہوتی ہے ، اسے وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں ، جنہوں نے اس کا مزہ چکھا ہے ، کچھ لوگ اس شدت پسندی پر لیت ولعل کیا کرتے ہیں ، لیکن جس نے اس کا مزہ ہی نہ چکھا ہو اس کی تعریف کیا ، تنقید کیا ؟‘‘
اکابر کے اِن خاکوں میں ، ہندوستان کے ہر اس دور کی ، جس دور کے یہ اکابر تھے ، تاریخ بھی آ گئی ہےاور خراب حالات میں بزرگوں کا عمل بھی سامنے آ گیا ہے ۔ قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ؒ کے خاکہ کی ایک مثال دیکھیں : ’’ ابھی ہم لوگ بہار پہنچ کر دَم بھی نہیں لینے پائے تھے کہ بابری مسجد کے انہدام کا وہ المناک واقعہ پیش آیا ، جس نے یہاں کے سیکولر دستور ، آئین کی بالا دستی ، اور جمہوریت پر سوالیہ نشان لگا دیا ، قاضی صاحب نے دہلی میں کیمپ کر لیا اور مسلمانوں کو صبر و ضبط ، نظم و استقامت اور جوش کے بجائے ہوش کا ایسا درس دیا جو پورے ملک میں محسوس کیا گیا ، ایک منفرد اور اچھوتی آواز ، اس موقع سے انھوں نے صبر پر استقامت کے لیے روزہ کی تجویز رکھی ، جس پر بڑی تعداد میں مسلمانوں نے عمل کیا ۔‘‘ مولانا منت اللہ رحمانیؒ کے خاکے میں مسلم پرسنل لا کی حفاظت کی تحریک کا ذکر کرتے ہوئے مولانا مرحوم کے یہ تاریخی جملے ، مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نے تحریر کر دیے ہیں ، شاید اب پھر اِن جملوں کو دوہرانے کا وقت قریب آ رہا ہے ، ملاحظہ کریں : ’’ میں اس کے لیے تیار ہوں کہ ہماری گردنیں اڑا دی جائیں ، ہمارے سینے چاک کر دیے جائیں ۔ مگر ہمیں یہ برداشت نہیں کہ ’ مسلم پرسنل لا ‘ کو بدل کر ایک ’ غیر اسلامی لا ‘ ہم پر لاد دی جائے ، ہم اس ملک میں باعزت قوم اور مسلم قوم کی حیثیت سے زندہ رہنا چاہتے ہیں ۔‘‘
سیاسی شخصیات میں ابراہیم سلیمان سیٹھ ، کرنل محبوب احمد ، ایم شمیم جرنلسٹ ، اور اے پی جے عبدالکلام جیسی شخصیات شامل ہیں ۔ مفتی صاحب نے صرف ایک جملے میں سلیمان سیٹھ کی شخصیت اور ملّت و قوم کے لیے ان کے جذبے کو نظروں کے سامنے لا دیا ہے ، وہ لکھتے ہیں ، ’’ ٹیپو کے مزار پر جب دعا کے لیے ہاتھ اٹھے تو ہم سب کی آنکھیں نم تھیں ، لیکن سیٹھ صاحب بلک بلک کر رو رہے تھے ۔ ‘‘ ڈاکٹر عبدالکلام کے بارے میں لکھتے ہیں ،’’ جب وہ خانقاہ رحمانی مونگیر پہنچے تو انہوں نے سورہ فاتحہ کی تلاوت فرمائی اور کہا کہ میری تعلیم بھی مدرسہ میں ہوئی ہے ، سائنس میں نے قرآن سے سیکھا ہے اور اس کتاب ِ مقدس نے میری زندگی پر گہرا اثر ڈالا ہے ۔ ‘‘  
جِلد دوم کے باب چہارم میں ایک خاکہ مولانا سیّد ولی رحمانیؒ پر ہے ، یہ اس وقت لکھا گیا تھا جب مولانا حیات تھے ۔ لکھتے ہیں ’’ وہ ایک تحریکی مزاج آدمی ہیں اور جس کام کا بیڑہ اٹھا لیتے ہیں اسے پایۂ تکمیل تک پہنچاکر دَم لیتے ہیں ، استقلال ، استقامت ، عزم بالجزم اور ملّت کے مسائل کے لیے شب و روز متفکّر و سرگرداں رہنا حضرت مولانا کی خاص صفت ہے ، وہ ایک اصول پسند انسان ہیں اور دوسروں کو بھی اصول پسند ؛ بلکہ اصولوں پر عامل دیکھنا پسند کرتے ہیں ، مزاج میں سنجیدگی ہے ، لیکن موقع بموقع اپنی ظرافت سے مجلس کو زعفران زار بھی بنانا انہیں خوب آتا ہے ۔‘‘ ایک خاکہ مفتی صاحب نے اپنی والدہ پر لکھا ہے ’ ماں کے قدموں تلے ‘ یہ ایک شاندار بلکہ یادگار خاکہ ہے ، چند سطریں ملاحظہ کریں ، ’’ والدہ کبھی بھی کسی کو گھر سے باسی منھ بغیر ناشتہ کے نہیں جانے دیتی تھیں چاہے اسے رات کے تین بجے ہی کیوں نہ نکلنا ہو ، ۱۷، جون ۲۰۰۸ء کو قطر جانے سے قبل میں ان سے ملنے گیا تھا ، صبح کو اہلیہ میرا کپڑا صاف کرنے میں مشغول تھیں ۔ دفتر کے لیے نکلنے کا وقت ہو رہا تھا ، انہیں لگا کہ یہ بغیر ناشتہ کیے چلا جائے گا ، خود اٹھ کر انہوں نے آٹا گوندھا ، روٹی سبزی پکائی اور مجھے کھلا کر گھر سے نکلنے دیا ، یہ آخری کھانا تھا جو میں ان کے ہاتھ کا بنا ہوا کھا کر گھر سے نکلا تھا ۔ مجھے کیا پتہ تھا کہ اب میں ان کی صورت نہیں دیکھ سکوں گا۔‘‘
پہلی جِلد کا ’ مقدمہ ‘ ’ ملّی اتحاد ‘ کے معاون مدیر صفی اختر نے تحریر کیا ہے ، وہ لکھتے ہیں ، ’’ ’ یادوں کے چراغ ‘ مجموعہ ٔ مضامین کا ایک ایسا گلدستہ ہے جس کی خوشبو سے دلوں میں تازگی اور دماغ میں فرحت انبساط کی تیز لہر دوڑتی ہے اوران خطوط پر اپنی زندگی سنوارنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ، گہرائی سے مطالعہ کریں تو صاحب کتاب کی اپنی زندگی کا پَرتو بھی اس میں نظر آئے گا ۔‘‘ اس جِلد کے پیش لفظ میں مفتی صاحب نے ، اُن سے ، جن کے خاکے لکھے ہیں ، اپنی محبت کا اظہار اِن لفظوں میں کیا ہے ، ’’ یادوں کے اس چراغ کو جلانے کے لیے مجھے اپنا خونِ جگر جلانا پڑا ہے ۔ محبت کرنے والی اِن شخصیتوں کی یادوں نے مجھے بار بار رلایا ہے ۔ قلم اٹھایا اور رکھا ہے ۔ کئی کئی دن ہمّت جٹانے میں لگے ہیں تب یہ سطور لکھے جا سکے ہیں ۔‘‘ یہ جِلد ’ رحمانیہ ٹرسٹ اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ ، گیاری ، دربھنگہ ‘ سے شائع ہوئی ہے ، اس کے صفحات دو سو ہیں اور قیمت ایک سو روپیہ ہے ۔
دوسری جِلد میں مولانا محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نے ’ ابتدائیہ ‘ میں بہت صحیح لکھا ہے کہ ’’ خاکے چاہے زندوں کے ہوں یا مُردوں کے ، احوال و آثار جس کے بھی ذکر کیے جائیں ، اس کا مقصد محض ان کے احوال و کوائف کا جاننا نہیں ہوتا ؛ بلکہ یک گونہ ان کے حالات پڑھ کر اپنی زندگی کو صحیح رخ اور صالح سمت میں ڈالنا ہوتا ہے ۔‘‘ یہ خاکے ہم سب کی ، اپنی زندگیوں کو صحیح رخ پر ڈالنے میں ، رہنمائی کرتے ہیں ۔ مفتی صاحب کی نثر کے بارے میں کتاب کے سرورق کے فلیپ پر معروف فکشن نگار شفیع مشہدی نے اپنے خیالات کا اظہار اِن لفظوں میں کیا ہے ، ’’ تحریر میں شگفتگی کے ساتھ ساتھ اخلاص کی خوشبو بھی موجود ہے اور پڑھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ وہ شخصیت آپ کے سامنے ہے ، یہ اعلیٰ نثر نگاری کا معجزہ ہے ۔‘‘  
دوسری جِلد ’ ارم پبلشنگ ہاؤس ، دریا پور پٹنہ ‘ سے شائع ہوئی ہے ،اس کے صفحات ۲۸۸ ہیں اور قیمت چار سو روپیہ ہے ۔ یہ دونوں کتابیں مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی سے رابطہ کرکے منگوائی جا سکتی ہیں ۔ رابطے کا نمبر کسی کتاب میں نہیں دیا گیا ہے ۔

عبرت ناک اور حیرت انگیز __مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

عبرت ناک اور حیرت انگیز __
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
 اڈانی کی کمپنیوں کے حصص کی قیمتیں اس قدر تیزی سے گری ہیں کہ وہ دنیا کے تیسرے نمبر سے مالداری میں ساتویں نمبر پراور ہندوستان میں پندرہویں نمبرپر آگیا ہے ، نیٹ انڈرسن جو ایک امریکی گاڑی ڈرائیور کا بیٹا ہے کی ہنڈن برگ ریسرچ کمپنی نے اڈانی کی تجارتی کمپنیوں کا ایسا کچا چٹھا لوگوں کے سامنے رکھ دیا کہ حصص کی قیمتیں دھڑام سے زمین پر آ رہیں، اور اڈانی گروپ کو صرف دو دن میں چار لاکھ کروڑ روپے کا گھاٹا لگ گیا اور کروڑوں روپے عوام کے ڈوب گیے ، سب سے زیادہ چونا لائف انشورنش کار پوریشن کو لگا، عوامی زمرے کے اس ادارہ کے تئیس(23) ہزار کروڑ پانی میں گیے، پہلے اڈانی گروپ میں کار پوریشن کی سرمایہ کاری سات ہزار کروڑ روپے کی تھی ، لیکن مرکزی حکومت کی کرم فرمائیوں کے طفیل 2023ءمیں سرمایہ کاری دس گنا زیادہ بڑھادی گئی اور اس کی سرمایہ کاری اکاسی(81) ہزار کروڑ تک جا پہونچی ، اسٹیٹ بینک آف انڈیا نے اس کمپنی کو جو قرض دیا تھا اس کا تناسب چالیس (40)فی صد کا ہے ، جب کہ اڈانی کی پانچ (5)بڑی کمپنیوں پر بیس(20) کھرب روپے کا قرض ہے ، کمپنی کے یہ روپے چاہے بینک کے ہوں، لائف انسورنس کے ہوں یا بلا واسطہ عوام کے ، سب میں عوام ہی قربان ہوتے ہیں اور ساہو کار سونے کی چمک اترنے کے باوجود چاندی کرنے میں مشغول ہوتے ہیں۔
 ہنڈن برگ ریسرچ کمپنی اگر ہندوستان کی ہوتی اور ہندوستان میں ہوتی تو حکومت کی ایجنسیاں انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ ، انکم ٹیکس، سی بی آئی، ریاستی پولیس اور آئی بی، اس کی ایسی خبر لیتے کہ نیٹ ایڈرسن اب تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوتا اور الکٹرونک میڈیا اس کو دیش کا غدار اور غیر ملکی ایجنٹ قرار دے کراس کی کردار کشی میں ایک دوسرے سے آگے نکل جاتا اور حکومت ٹیکسوں میں کمی، اس کی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ، ان کے ہاتھ قومی اثاثوں کی فروخت اور مزید ٹھیکے دے کر اڈانی کو آسمان کی بلندیوں تک پہونچا نے کا کام کرتی، لیکن دقت یہ ہے کہ ریسرچ کمپنی اور اس کا مالک دونوں امریکی ہے، اور حکومت ہند اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی، کمپنی کی دیدہ دلیری کا یہ عالم ہے کہ وہ سینہ ٹھوک کر اڈانی سے اٹھاسی (88) سوالات کے جواب مانگتی ہے ، اڈانی کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے ، رہ گئی ریسرچ کمپنی پر مقدمہ کی دھمکی تو وہ اس کے لیے ہر وقت تیار ہے ۔
 عوام کو دھوکہ میں رکھنا اور دھوکہ دینا دونوں نا پسندیدہ عمل ہے، بعض صورتوں میں یہ قابل مواخذہ اور لائق سزا جرم ہے ، لیکن ہمیں خوب معلوم ہے کہ اڈانی سے نہ تو کوئی مو اخذہ ہوگا اور نہ ہی اسے سزادی جائے گی ،بلکہ بہت ممکن ہے کہ اس معاملہ سے نجات دلانے کے لیے اسے مزید قرض مل جائے، یا وہ خود کو دیوالیہ قرار دے کر ساری جمع پونجی لے کر دوسرے ملک چلا جائے، اور اطمینان سے زندگی بسر کرے ۔ آخر حکومت نے ہر شد مہتہ، تیلگی اور رام دیو انٹر نیشنل کا کیا بگاڑ لیا۔

جمعہ, فروری 10, 2023

مردم شماری میں تاخیر__مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

مردم شماری میں تاخیر__
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم  امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
 حکومت بہار نے ذات پر مبنی مردم شماری کا کام شروع کر رکھا ہے، پہلے دورمیں خانہ شماری کے بعد اپریل سے مردم شماری کا عمل ذات کی بنیاد پر شروع کیا جائے گا، حکومت بہار کو بڑی راحت سپریم کورٹ کے ذریعہ اس عمل کے خلاف عرضی خارج کرنے سے ملی ہے ، اگر مدعی سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق ہائی کورٹ کا رخ نہیں کرتا تو پھر طویل عرصہ کے بعد ذات کی بنا پر مردم شماری کا کام بہار میں مکمل کیا جا سکے گا، حکومت بہار کی اس دلیل میں دم ہے کہ ہم مردم شماری نہیں ذات شماری کروا رہے ہیں؛ تاکہ پس ماندہ برادریوں کے منصوبے اور رز رویشن کا کام حقیقی اعداد وشمار کو سامنے رکھ کر کیا جاسکے۔
مردم شماری کا کام حکومت ہند کو بھی کرنا ہے، ملکی پیمانے پر یہ کام ہر دس سال پر پابندی سے ہوتا آ رہا تھا، یہ پہلا موقع ہے کہ اس کام میں تاخیر ہو رہی ہے، اس کام کو 2020 میں شروع ہونا تھا، لیکن کرونا اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہو سکا، 2021 کے بعد زندگی معمول پر آگئی تھی اور اس کام کو شروع ہوجانا چاہیے تھا، لیکن اب تک یہ کام موخرخر ہوتا جا رہا ہے ، 2024 میں پارلیامنٹ کے انتخاب کا مرحلہ ہوگا، اور سارا عملہ اس کام میں ابھی سے لگ رہا ہے ، ایسے میں یہ معاملہ مزید ٹل جائے گا، کیوں کہ مردم شماری کرنے والوں کی دوسری مشغولیت ہوگی، اور ان کے لیے مردم شماری کے کام کرنا کسی طرح ممکن نہیں ہوگا۔
 ہمارے یہاں روایت پنج سالہ منصوبوں کی رہی ہے ، مردم شماری سے ملک کی آبادی اور ان کی معاشی ، سماجی اور تعلیمی حالات کا حکومت کو علم ہوتا ہے اور اسی بنیاد پر فلاحی اسکیمیں بنائی جاتی ہیں اور منصوبے طے کیے جاتے ہیں، 2024 تک اس کام کے مو خر کرنے کا مطلب ہو گا کہ اس دہائی کا پہلا پنج سالہ منصوبہ حقیقی بنیادوں پر بن ہی نہیں سکے گا، اور ملک کی آبادی ، مسائل، ضروریات وغیرہ سے ہم پورے پانچ سال غافل رہیں گے اور پہلے سے چلی آرہی معلومات کی بنیاد پر ہی فیصلہ لینے کی پوزیشن میں ہوںگے ، ظاہر ہے یہ ملک کے لیے نقصان دہ ہوگا، اس لیے حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر اس کام کو شروع کرائے ، تاکہ صحیح اور حقیقی بنیادوں پر منصوبہ بندی کے کام کو آگے بڑھایا جا سکے۔

جمعرات, فروری 09, 2023

گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں ___✍️مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی

گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں ___
اردودنیانیوز۷۲ 
✍️مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ (9431003131)
    وقت انتہائی قیمتی چیز ہے، جو لمحات گذر جاتے ہیں وہ دوبارہ واپس نہیں آتے، اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ اللّٰہ رب العزت نے قران کریم میں مختلف جگہوں پرصبح،رات، دن، دوپہر اور زمانہ کی قسم کھائی ہے، اسی طرح احادیث میں بھی فراغ وقت کو اہمیت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو، بڑھاپے سے پہلے جوانی کو، بیماری سے پہلے صحت کو، محتاجی سے پہلے تونگری کو، مصروفیت سے پہلے فراغت کو اور موت سے پہلے زندگی کو(حاکم المستدرک 4رقم الحدیث 7846) اسی لیے وقت کو سونے سے زیادہ قیمتی کہا گیا ہے۔ ہماری زندگی کا جووقت گذر جاتا ہے اور ہم اس میں کوئی تعمیری یاملی کام نہیں کرپاتے تو سمجھنا چاہیے کہ وہ ضائع ہوگیا، اسی لیے حضرات صحابہ کرام، ائمہ عظام اور علمائے ذی احترام رحمہم اللہ نے ہمیشہ وقت کی قدر کی اور لمحہ لمحہ کام میں صرف کیا، جامعہ رحمانی مونگیر کے سابق شیخ الحدیث حضرت مولانا سید محمد شمس الحق صاحب ؒ سے مرض وفات میں میری ملاقات ہوئی، میں نے ان سے نصیحت کی درخواست کی تو فرمایا: وقت کی قدر مرنے کے وقت معلوم ہوتی ہے، ایک بڑے مفکر کا قول ہے کہ جو وقت کو ضائع کرتا ہے، وقت اسے ضائع کردیتاہے۔
اللہ رب العزت نے وقت کا ذخیرہ سب کو برابر فراہم کیا ہے، ایسا نہیں کہ غریب کے پاس وقت کم ہے اور امیر کے پاس زیادہ، جس طرح سورج کی روشنی غریب و امیرسب پر یکساں پڑتی ہے، اسی طرح وقت بھی سب کے پاس یکساں ہے، ہر ایک کو چوبیس گھنٹے ہی عطا کیے گیے، ہر گھنٹے کے ساٹھ منٹ سب کے لیے مقرر ہیں، اب اسے کوئی سُو کر گذار دے یا جاگ کر گذار دے، نیک عمل میں صرف کرے یا بد عملی کے لیے استعمال کرے۔ یہ استعمال کرنے والے کی مرضی پر منحصر ہے۔
اللہ رب العزت نے ہمارے اوقات کو منظم کرنے کے لیے سارے ارکان اسلام کو وقت کے ساتھ فرض کیا، نماز، روزے، حج، زکوٰة سب کے اوقات مقرر ہیں۔ نماز وقت کی پابندی کے ساتھ فرض ہے، روزے کے لئے مہینہ مقرر کیا، مہینہ اوقات کے مجموعہ کا ہی دوسرا نام ہے، زکوٰة کے لیے موجود مال پر سال گذرنے کی قید لگائی اور حج کے لیے پانچ دن مقرر فرمائے۔ کسی بھی رکن کو انسانوں کی مرضی کے تابع نہیں کیا، بلکہ اوقات کے تابع کیا، اگراس نظام الاوقات کی پابندی کوئی نہیں کرتا تو” فرض“ اس پر” قرض“ ہوجاتاہے، جسے بعض عبادتوں میں” قضا“ سے تعبیر کرتے ہیں اور حج میں وقت کی پابندی نہ کی جائے تو اس سال کی حد تک تو وہ فوت ہی ہوجاتا ہے، زندگی کا کیا بھروسہ، اگلے سال ملے یا نہ ملے۔ تمام دفاتر میں بھی کام کے اوقات متعین ہوتے ہیں اور اس میں سستی اور کوتاہی معیوب ہونے کے ساتھ قابل تعزیر جرم بھی قرار پاتا ہے۔
وقت کی حفاظت کے لیے ضروری ہے کہ ایک نظام الاوقات بنایا جائے، صبح سے شام تک، بلکہ سونے سے قبل تک اس دن جو کچھ کرنا ہے اس کو یادداشت میں نوٹ کرلیا جائے اور اسی کے مطابق رات و دن عمل کیا جائے۔ جو ذمہ داریاں آپ کو دی گئی ہیں اور جو کام کے اوقات مقرر ہیں اس کو بھی اپنے نظام الاوقات کا حصہ بنائیے اور اس کے خلاف کرنے کی عادت مت ڈالیے، کبھی نظام الاوقات میں وقتی واقعات و معاملات اور کسی غیر متوقع حادثات کی وجہ سے تبدیلی ہوسکتی ہے، یہ نظام فطرت ہے، لیکن ہر دن نظام الاوقات کے مطابق کام نہ انجام پائے تو یہ وقت کی ناقدری کے زمرے میں آئے گا، اسی لیے دفاتر میں حاضری میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے اور سارے کام وقت پر انجام دینے چاہیے۔ اگر آپ نے وقت کا لحاظ نہیں رکھا تو بڑے نقصانات کا سامنا کرنا پڑسکتاہے، مثلاً آپ نے بجلی بل وقت پر ادا نہیں کیا تو اسے سود کے ساتھ اضافی جمع کرنا پڑے گا، امتحان کے موقع سے آپ بروقت نہیں پہونچے تو آپ امتحان دینے سے محروم رہ گیے ، اسٹیشن وقت پر نہیں پہونچے تو ٹرین چھوٹ جائے گی۔ کیوں کہ ٹرین کو آپ کا انتظار نہیں ہوگا۔وقت کی پابندی نہ کرنے سے موقع بھی ہاتھ سے نکل جاتا ہے، اس لیے کہ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا اور گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں۔اور جب وقت نکل جاتا ہے یا ہمیں دیر ہوجاتی ہے تو ہم ذہنی تناؤ کے شکار ہوتے ہیں جس سے ہم اپنے مفوضہ کاموں کو اچھی طرح انجام دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے، اس کے علاوہ ہمیں اپنے ذمہ داروں کے سامنے جھوٹ بولنا پڑتا ہے، حیلے تراشنے پڑتے ہیں، یقینا بعض لوگ ہمارے درمیان ایسے ہیں جو جھوٹ اس صفائی سے بولتے ہیں کہ ہم سچ اس قدر صفائی سے نہیں بول پاتے، جھوٹ صفائی سے ہویا صفائی دینے کے لیے ہو، ہر حال میں مذموم ہے اور جھوٹوں پر اللّٰہ کی لعنت تو قرآن کریم سے ثابت ہے۔ ایک کام وقت پر نہیں ہوا تو پورے دن کا نظام بے وقت ہوکر رہ جاتاہے۔ میں نے اپنے استاذ حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالن پوریؒ سابق شیخ الحدیث دار العلوم دیوبند کو دیکھا کہ اگر وہ ہم جیسے چھوٹے یا بہت بڑے آدمی کی بھی دعوت کرتے تو صاف صاف بتاتے کہ میرے یہاں دن کا کھانا فلاں وقت ہوتا ہے۔ اور اس پر سختی سے عامل ہوتے، بڑوں کی دعوت ہوتی تو شاگردوں کو یہ بات اچھی نہیں لگتی تھی، ایک بار کسی نے پوچھ لیا تو فرمایا کہ ایک دعوت کے لیے پورے دن کے نظام کو بدلا نہیں جاسکتا، عافیت ہر دو کے لیے اسی میں ہے کہ وقت کی پابندی کی جائے، وقت کی پابندی ان کے یہاں اس قدر تھی کہ کثیر العیال تھے، لیکن کبھی ان کے گھر سے بچوں کے رونے کی آواز نہیں سنی گئی، ایک بار دریافت کیا تو فرمایا: رونے والا بچہ ہر وقت کسی نہ کسی کی گود میں رہتا ہے، اس کا نظام بنا ہوا ہے، پھر وہ کیوں روئے گا۔ دار العلوم ندوة العلماء لکھنؤ کے مہتمم حضرت مولانا سعید الرحمن اعظمی دامت برکاتہم اس کبرسنی اور ضعف و نقاہت کے عالم میں بھی وقت کے اس قدر پابند ہیں کہ ان کی آمد و رفت دیکھ کر آپ گھڑی ملاسکتے ہیں۔ ہمارے اکابر میں نظام الاوقات کی پابندی میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کا بھی جواب نہیں تھا، تبھی ان کے لیے تصنیفات و تالیفات میں وقت لگانا ممکن ہوا اور ہر فن میں انہوں نے کتابیں تصنیف کیں، وہ تو آنے والے مہمانوں سے بھی دریافت کرتے تھے کہ کب تک قیام رہے گا، پھر اسی اعتبار سے اس کے کام کے لیے وقت نکالتے، ایک بار شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن صاحبؒ ان کے مہمان ہوئے تو ان سے اجازت لے کر بیان القرآن لکھنے کے لیے اٹھ گئے، پھر جلدہی واپس ہوئے، حضرت شیخ الہندؒ نے دریافت کیا تو فرمایا: ناغہ نہ ہو اس لیے چند سطور لکھ کر آگیا۔ حضرت مولانا سید محمد شمس الحق صاحبؒ سابق شیخ الحدیث جامعہ رحمانی مونگیر کو دیکھا کہ وہ اپنے بچوں سے بھی گفتگو وقت کی پابندی سے کرتے تھے، جس سے بات کرنی ہوتی اس کو خبر کراتے کہ اتنے بج کر اتنے منٹ پر تم سے بات کرنی ہے، فرماتے کہ اس طرح کرنے سے وقت بھی منضبط رہتا ہے اور بات کی اہمیت بھی سمجھ میں آتی ہے۔ امیر شریعت سادس مولانا سید نظام الدین رحمة اللہ کو دیکھا کہ وہ وقت کی پابندی کا غیر معمولی اہتمام کرتے، کبھی کبھی یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ وہ جلسہ گاہ پہونچ گیے تیاری مکمل نہیں تھی منتظم کا بھی پتہ نہیں تھا، لیکن جو وقت دیا گیا تھا اس کے مطابق وہ پہونچ گیے، یہی طرز عمل موجودہ امیر شریعت مفکر ملت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم کا ہے، ہم میں سے کسی کو تاخیر ہوسکتی ہے، لیکن حضرت تاخیر نہیں کرتے۔ یہ ایک اچھی صفت ہے، جس کو ہر انسان کو اپنا نا چاہیے۔
آج جو وقت میں بے برکتی کا رونا رویا جاتاہے، اس کی وجہ وقت کی ناقدری ہے، ہر آدمی شکوہ کناں ہے کہ میرے پاس وقت نہیں ہے، بہت ایسے لوگ بھی وقت نہیں ہے کی بات کرتے ہیں جن کے احوال کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ وہ یوں ہی مشغول ہیں، انگریزی میں اسے (Busy for Nothing)کہتے ہیں، واقعہ یہ ہے کہ وقت تو ہے ہی، ہم اس کا استعمال صحیح سے نہیں کرپاتے، اس لیے وقت نہیں ہے کا احساس ہوتاہے۔ وقت کا صحیح مصرف لیجئے، چائے کی دکانوں پر گپ بازی میں وقت ضائع نہ کیجئے، موبائل پر فضولیات میں وقت مت لگائیے غیر ضروری مجلس لگانے اور فضول بیٹھکوں سے احتراز کیجئے اور ان اوقات کو تعمیری کاموں میں لگائیے تو ہر کام بروقت ہوگا اور وقت میں ایسی برکت ہوگی، جس کا آپ تصور نہیں کرسکتے اس لیے اس مصرعہ کو حرز جاں بنالینا چاہیے۔
ع گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں

بدھ, فروری 08, 2023

قرآن کا اصل معلم رحمان ہے*✍️ ہمایوں اقبال ندوی( ارریہ ، بہار )

*قرآن کا اصل معلم رحمان ہے*
اردودنیانیوز۷۲ 
✍️ ہمایوں اقبال ندوی
( ارریہ ، بہار ) 

آج اسکول کے بچوں کا ایک ہاسٹل دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی ہے، یہ شہر ارریہ کے ملت نگر میں کوسی کنارے واقع ہے، اس کا نام "الرحمن بوائز ہاسٹل" ہے، یہاں درجہ حفظ کی تعلیم شروع کی گئی ہے، جناب حضرت مولانا قاری نیاز احمد صاحب قاسمی و جناب مولانا شاہجہاں صاحب ندوی اور ناچیز کی موجودگی میں بسم اللہ خوانی ہوئی ہے، مجھے بتایا گیا کہ پہلے بھی یہاں کے دوبچے ہاسٹل ہی میں رہ کرحافظ  قرآن ہوئےہیں، دراصل اسی حصولیابی سے حوصلہ پاکر ذمہ داروں نے باضابطہ درجہ حفظ کا کلاس شروع کیا ہے، اسکول کے ہاسٹل کے لئے یہ ایک مثالی کام ہے، اس کا نام بھی قرآنی ہے،  "الرحمن "یہ اللہ کا وصفی نام ہے ، قرآن کریم میں اس نام سے باضابطہ ایک سورة نازل ہوئی ہے،ارشاد ربانی ہے، 
"رحمان نے قرآن کی تعلیم دی، اسی نے انسان کوپیدا کیا، اسی نے اس کو بولنا سکھایا " (الرحمن )

مذکورہ سورة میں اللہ رب العزت نے انسانوں پراپنے بہت سارے احسانات گنوائے ہیں، اور اپنی نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے،قابل غور بات یہ ہے کہ سب سے پہلی نعمت قرآن کا ذکر گیا ہے،اور فرمایا "رحمان نے قرآن سکھایا ہے"،

 قرآن خدا کی تمام نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت ہے،اس کمزور انسان کو حامل قرآن بنادینایہ کوئی آسان بات نہیں ہے اور نہ ہی  انسانوں کے بس کا یہ کام ہے، یہ خدا ہی کرسکتا ہےکہ ایک کمزور سی ہستی کو قرآن جیسی عظیم اور اونچی چیز کے لائق بنادے، اورآسمانوں و پہاڑوں سے زیادہ بھاری چیز قرآن کا حامل بنادے، درحقیقت یہ کام رحمان کا ہے،اور قرآن کا اصل معلم رحمان ہی ہے _

الرحمن بوائز ہاسٹل کے ذمہ داران واقعی قابل مبارکباد ہیں کہ انہوں نے اس ادارہ کو خدا کی طرف منسوب کرکے قرآن کی تعلیم کا اسےسامان بنادیا ہے، نام کی برکت یہاں قرآنی تعلیم کی شکل میں  یہاں سے ظاہر ہورہی ہے،آج آدمی اپنی معمولی کاوش اور کوشش کو اپنے نام سے یا اپنے بچوں اور بیوی یا باپ کے نام سے منسوب کرتاہےاور انوار وبرکات سے خالی رہتا ہے، بالخصوص ہمارے تعلیمی اداروں سے خدا کے نام کی خوشبو آنی چاہیے، قرآن کی پہلی آیت میں اسی بات کی تلقین کی گئی ہے ، اللہ کے نام سے تعلیم کی ابتدا ہونی چاہیے۔

ایک موقع پر استاد گرامی جناب مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے فرمایا؛ہم مدرسہ کو اسکول تو نہیں بناسکتے ہیں، مگر اسکول میں قرآن کی تعلیم کانظم کرکے اسے مدرسہ بناسکتے ہیں،موجودہ وقت میں چار فیصد طلبہ ہی مدارس اسلامیہ میں ہیں، بقیہ ۹۶/فیصد مسلم بچے اکیڈمی اور اسکول میں زیر تعلیم ہیں۔انمیں اکثریت دین کی ابتدائی تعلیم سے محروم ہیں، دین کی بنیادی باتوں سے بھی ناواقف ہیں،انہیں پڑھا لکھا سمجھا جاتا ہے جبکہ وہ نماز وضو کا طریقہ بھی نہیں جانتے ہیں، اس وقت کام کا یہ بڑاوسیع میدان ہے،

قرآن کے علم سے عصری اداروں کو آراستہ کرنا موجودہ وقت کا شدید ترین تقاضا ہے، 
آج باطل اسلام کو مغلوب کرنے کے درپے ہے، اپنے حریف کو اپنے دلائل کے زور سے پست کرنے کی طاقت اسی کتاب میں اللہ نے رکھی ہے، ارشاد ربانی ہے؛

"اور بیشک یہ قرآن ایک ایسی کتاب ہےجو غالب ہے،باطل نہ اس کے سامنے سے اور نہ اس کے پیچھے سے اس کے پاس آئے گا،ایک حکمت والے اور خوبیوں والے کی طرف سے اترا،(حم السجده )

اور دنیا کی رہبری ونمائندگی بھی اسی کتاب سے ہی کی جاسکتی ہے، خدا کا فرمان ہے؛
برکت والا وہ ہے جس نے حق وباطل میں امتیاز کرنے والی کتاب اپنے بندوں پر اس لئے اتاری کہ وہ تمام دنیا کو بیدار اور ہشیار کرے، (فرقان )

تیرے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب 
گرہ کشا  ہے  نہ  رازی  نہ  صاحب کشاف

زندگی کا مزاج ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

زندگی کا مزاج ___
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
جمال ندولوی (ولادت 1944 ) بن محمد نہال الدین مرحوم نثر نگاری اور شاعری دونوں سے جڑے رہے ہیں، لکھتے اور چھپتے رہے ہیں، شاعری میں انہں متین عمادی، جماد الدین ساحل اور قوس صدیقی سے شرف تلمذ رہا ہے، قوس صدیقی کے شاگرد ہونے کے با وجود جمال ندولوی کے یہاں ساختیات اور تشکیلیات کے قبیل کے الفاظ نہیں پائے جاتے ، وہ اپنے فکر وخیال کو اشعار میں ڈھالنے کے لیے روز مرہ کے مستعمل الفاظ کا استعمال کرتے ہیں، جن سے معنی کی ترسیل کا کام بہتر اور عمدہ انداز میں ہوتا ہے۔
”زندگی کا مزاج“ ان کا دوسرا مجموعۂ کلام ہے، اس کے قبل 2015ءمیں ان کا پہلا مجموعہ کلام ”کشکول صدا“ کے نام سے آیا تھا، اس دوسرے مجموعہ کا نام ”زندگی کا مزاج“ غیر ادبی اور غیر شاعرانہ ہے، اس میں جاذبیت اور کشش نہیں ہے، اس کا نام رقص حیات، عکس خیال وغیرہ ہوتا تو قارئین کی توجہ زیادہ مبذول ہوتی، لیکن اب تو جمال ندولوی صاحب دنیا سے رخصت ہو چکے ، اسے کون بدلے گا۔
 جمال ندولوی کی شاعری پر ان کے استاذ متین عمادی نے لکھا ہے:
”میں یہ نہیں کہتا کہ جمال ندولوی کا طرز سخن لا جواب ہے اور نہ یہ کہتا کہ ان کی شاعری بہت اعلیٰ درجہ کی ہے.... یہ بھی نہیں کہ ان کی شاعری کو بالکل نظر انداز کر دیا جائے۔ (کشکول صدا4-5)
متین عمادی نے دوسرے مجموعہ کے زیادہ خوبصورت زیر اثر اور تخیلات کے دامن کے مزید وسیع ہونے کی توقع کا اظہار کیا تھا، اب ان کا یہ دوسرا مجموعہ طباعت کے مرحلہ میں ہے، جس کے لیے ان کے بڑے صاحبزادے نیر اعظم مدیر ومالک ہفتہ وار اخبار ”آئینہ جمال“ کو شاں ہیں، اللہ کرے اشاعت کے مراحل جلد طے ہوجائیں۔
 ”زندگی کے مزاج“ میں حمد ، نعت، غزل، قطعہ، رخصتی نامہ، جمہوریت، آزادی، وطن سے محبت، متین عمادی اور جمیل مظہری کی شاعری پر نظمیں شامل ہیں، میرے سامنے جو مسودہ ہے اس میں غزل اور نظم کے حصوں کو الگ الگ نہیں کیا گیا ہے، کہیں نظم کے بعد غزل ہے اور کہیں غزل کے بعد نظم، چوں کہ کتاب طباعت کے مرحلے سے ابھی نہیں گذری ہے، اس لیے اس کی اصلاح کی جا سکتی ہے۔
حمد ونعت کے اشعار روایتی قسم کے ہیں، اللہ رسول کے بارے میں ایک مو ¿من کا جو خیال ہونا چاہیے اس کی جلوہ گری حمد ونعت میں پائی جا رہی ہے، نعت کے بارے میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جمال ندولوی نے اسے مناجات ہونے سے بچالیا ہے، ورنہ عموما شعرائ کے یہاں نعت کی ڈور مناجات سے مل جاتی ہے اور عقیدت ومحبت میں اس باریک فرق کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا جا تا اور عبد ومعبود کا فرق جاتا رہتا ہے، جمال ندولوی نے اس فرق کو ملحوظ رکھ کر اچھی مثال قائم کی ہے۔
 مجموعہ کی غزلیات میں بہت سارے اچھے اشعار ہیں، جن میں مذہبی افکار ، عصری حسیت ، عشق ومحبت کی داستان سبھی کچھ موجود ہے، اسلام میں عمل کا مدار نیتوں پر ہے، خلوص عمل کے مقبول ہونے اور ریا عمل کے مردود ہونے کا سبب بنتا ہے، جمال نے اس حقیقت کو غزل کے ایک شعر میں بیان کیا
خلوص دل ہو گر شامل عمل مقبول ہوتا ہے
 ریا کا جس پر غلبہ ہو عمل بے کار جاتا ہے
 اسی غزل میں حقیقت پر مبنی یہ شعر بھی پڑھ لیجئے:
مسلسل ایک حالت پر کبھی رہتی نہیں دنیا
ہمیشہ جیتنے والا بھی اک دن ہار جاتا ہے
ہندوستان کے موجودہ حالت کی عکاسی اسی غزل کے ایک اور شعر میں ملتی ہے۔
کسی کی جھوٹی سچی سب دلیلیں رنگ لاتی ہیں
 ہمارا خون بھی بہہ جائے تو بے کار جاتا ہے
 جس غزل سے اس مجموعہ کا نام مقرر کیا گیا ہے، اس کے چند اشعار قلب وذہن کو اپنی طرف کھینچتے ہیں اور اس حقیقت کو واشگاف کرتے ہیں کہ اب دوست بھی قابل اعتماد نہیں رہے، اس دور میں جب دوست ہی گھر سے بلا کر دوست کو قتل کر دیتے ہیں، جمال ندولوی کے اس شعر کی سچائی کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے۔
 سارے چہرے لہو لہان ملے
کتنا زخمی ہے دوستی کا مزاج
 جمال کہتے ہیں کہ حالات جیسے بھی ہوں، ہم تو مو من ہیں اور مومن کا مزاج بندگی کا ہوتا ہے اور وہ بھی صرف خدا کی بندگی کا اس لیے اس کا سر کہیں دوسری جگہ جھک ہی نہیں سکتا۔(بقیہ صفحہ ۴۱پر)
میں کہیں سر جھکا نہیں سکتا
دل میں رکھتے ہیں بندگی کا مزاج
 بندگی کا یہ مزاج ہمیں آخرت سے قریب کرتا ہے اور اس احساس کو تقویت پہونچاتا ہے کہ مرنے کے بعد سب کچھ یہیں رہ جائے گا اور بندہ اللہ کے یہاں خالی ہاتھ ہی جائے گا۔
آخر وہ خالی ہاتھ گیا دیکھ لو جمال
حاصل کیا تھا اس کے جو سامان رہ گیا
 جمال ندولوی کے یہاں بعض ترکیبیں بہت خوبصورت انداز میں شعر میں ڈھل گئی ہیں، خوشیوں کی جاگیریں اور غم کی سلطانی کو ایک ہی شعر میں دیکھیے اور اس ادبی صنعت کی بر جستگی پر سر دھنیے:
تمہیں خوشیوں کی جاگیریں مبارک
 مجھے غم کی سلطانی بہت ہے
 اور یہ شعر بھی اس غزل کا بہت خوب ہے:
پرندے زخم کھا کر اڑ رہے ہیں
ہواو ¿ں کو پشیمانی بہت ہے
 یہ چند اشعار بطور نمونہ درج کیے گیے، ورنہ جمال ندولوی کے اس مجموعہ میں اس قسم کے اشعار بہت ہیں،جن میں تخیل کی رفعت، فکر کی ندرت، فن کی جولانی پورے طور پر موجود ہے جس سے قارئین کے دل ودماغ پر اس کے اچھے اثرات مرتب ہو نے کی توقع ہے۔
 جمال ندولوی اللہ کو پیارے ہوگیے، ان کے صاحب زادہ نیر اعظم اس کی طباعت کی طرف متوجہ ہوئے اور والد کے کلام کو ضائع ہونے سے بچالیا، اس کے لیے وہ ہم سب کی جانب سے شکریہ کے مستحق ہے، ایسی اولاد قسمت والوں کو ہی ملا کرتی ہے۔

بابا رام دیوکےنام۔۔۔۔۔!* * انس مسرورانصاری

بابا رام دیوکےنام۔۔۔۔۔!*
اردودنیانیوز۷۲ 
      * انس مسرورانصاری
    
    گزشتہ دنوں راجستھان میں منعقدہ ایک مذہبی تقریب میں بابا نام دیو مہراج اپنے بھاشن میں اسلام اورمسلمانوں کے خلاف خوب گرجےبرسے۔یہاں تک کہ پسینے سے ان کا سارا بدن بھیگ گیا۔تمام تر مذہبی اخلاقیات کو ہوا میں اڑاتے ہوئےانھوں نےشعائراسلام کا مذاق اڑایا۔روزہ،نماز،داڑھی،ٹوپی وغیرہ کے تعلق سے بدترین بکواس کی اور اپنی جہالت کا بھرپور مظاہرہ کیا۔،ہمارے یہاں ایک مثل مشہور ہے۔۔سوف توسوف،چھلنی بھی ہنسے جس کے بہتر(72)چھید۔
          باباجی۔!آپ کی سیوامیں یہ پروچن پیش کرتا ہوں کہ آپ پرلے درجہ کے بیوقوف اور نادان ہیں۔جس۔یوگا۔کےبل بوتے پر آپ نے شہرت حاصل کی،آئیے ہم بتاتے ہیں کہ یوگا کیاہے۔؟آپ کو خود اپنے دھرم کےبارےمیں کچھ نہیں معلوم تودوسرےدھرموں کےبارے میں اپنی رائے اوروچاردھارائیں اپنے پاس رکھیں۔اسے بہنےسےروکیں۔آپ تو ایک ڈھونگی سادھوہیں۔آرایس ایس کے ایجنٹ۔جس کے موجودہ سربراہ موہن بھاگوت ہیں۔انھوں نے بھی اپنےایک حالیہ بیان میں کہا تھا کہ دنیا میں سناتن دھرم سب سے اچھا دھرم ہے۔،،
     آپ ان کےچیلاہوتے ہوئے بھی ان سے چار قدم آگے نکل گئے۔واہ۔۔۔ واہ۔۔ جواب نھیں اس جہالت کا۔یہ تونریندمودی اورامت شاہ کے اقتدار کی مہربانیاں ہیں(اندھوں کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی)کہ آج آپ اربوں میں کھیلنےلگے اور بڑی بڑی باتیں کرنےلگے۔ورنہ ماضی کی طرح حال میں بھی آپ سائکل ٹیوب کےپنکچربنارہےہوتے۔۔خفانہ ہوں۔بریکٹ بند محاورہ انجانے میں زبان پر آ گیا۔۔    
        اگرہم سناتن دھرم کی حقیقت بیان کرنے لگیں تو آپ کوپسینے چھوٹ جائیں۔لیکن ہم بدتمیز ہیں نہ غیرمھذب اور نہ بےغیرت۔۔ہمارا دین اسلام ہمیں اس کی اجازت نہیں دیتا۔گروجی !شایدآپ کو معلوم نہ ہو کہ اسلام دھرم ایک تبلیغی دھرم ہے۔اس لیے اس کے پھیلاؤکوروکانہیں جاسکتا۔ سناتن دھرم ایک غیر تبلیغی مذہب ہےاوراسے پھیلایا نہیں جاسکتا۔البتہ ذاتی طور پر ہم آپ سےچند سوالات ضرورکریں گے۔سب سے پہلے ہم آپ کو یہ گیان دینا چاہتے ہیں کہ آپ کا دھرم، ویدک دھرم،ہرگز نہیں ہے۔یہ تو کوئی اور ہی دھرم ہےجس کے آپ اپاسک اورپرچارک ہیں۔ذرا اپنی دھارمک پستکوں اور ویدوں کادھیان پوروک ادھن کرلیں،پھر ہم آپ سے تفصیلی گفت گو کریں گے۔پہلے آپ یہ بتائیں کہ کیا کوئی دھرم ایسا بھی ہے جس نےاسلام دھرم سے بغاوت کر کے ایک نئے مذہب کی صورت اختیارکی ہو۔؟چودہ صدیوں میں ایک بھی مسلمان ایسا ظاہر نہ ہوا جس نے اسلام سے بغاوت کر کے کسی اور نئے مذہب کا اعلان کیاہو۔میرادعواہے کہ آپ ایک مثال بھی نھیں دےسکتے۔کیونکہ پوری دنیا میں ایسا کوئی دھرم ہےہی نھیں۔ 
۔پھر یہ بتائیں کہ مہاتما گوتم بدھ نے سناتن دھرم سےبغاوت کر کے ایک نئے دھرم کی استھاپناکیوں کی۔؟آپ کے دھرم میں انھوں نے کیا خرابی پائی۔؟؟آپ جانتے ہوں گے،اس میں بھی ہمیں شک ہے۔آپ کو اپنے دھرم کا اتھاس تک نھیں معلوم۔۔کیاہم بتائیں کہ مہاتما گوتم بدھ،مھاویرسوامی اورگرونانک جی کے علاوہ بھی بہت سارے رشیوں، منیوں نے سناتن دھرم سےبغاوت اورتیاگ کے بعد نئے نئےدھرموں کی بنیادکیوں رکھی۔۔؟اگرآپ نے تاریخ پڑھی ہوتی تو اسلام مخالف بیانات سےگریز کرتے۔کیوں کہ آپ کی چھلنی میں خود72/چھید ہیں۔باباجی۔!پہلے اپنے گریبان میں منھ ڈال کر دیکھو پھرکسی دوسرے دھرم کےبارے میں کچھ کہو۔ آپ کی تاریخ اور اصلیت بتاتی ہےکہ ویدک دھرم سے آپ کا کوئی تعلق نہیں ہے۔اس پرتوبرہمنوں نےنا جائزقبض جمالیاتھا۔ویدوں کےخلاف بھگوان اوربھگتوں کےدرمیان دیوار بن کر کھڑےہو گئے تھے۔انھوں نےاپنےحلوےپوری کےلیے۔۔منو سمرتی،کاسہارالیا۔اس کومضبوتی سےپکڑ لیا اور ویدوں کوچھوڑ دیا۔اس کے پڑھنے لکھنے اور دیکھنےتک پر پابندی لگادی۔یہ تومسلمانوں کا احسان ہےکہ یہاں آنے کے بعد انھوں نے صدیوں سےبند پڑے ویدوں اوربنیادی مذہبی کتابوں کےعلوم کوعام کیا۔دوسرے مذاہب کی بنیادی کتابوں کے ترجمےکیے۔۔منوسمرتی،، ہی ایک ایسی دھارمک پستک ہےجوبلاشرکت غیرے برہمنوں کو مذہبی اور سیاسی اقتدارحاصل کرنے میں بھرپورمددکرتی ہے۔برہمنیت نےاس سے خوب خوب فائدے اٹھائے۔انسانوں کوچار ورنوں میں بانٹ دیا۔چار طبقوں میں تقسیم کردیااورتین طبقوں کو اپنی خدمت کاپابند بنادیا۔برہمنوں کی سازش کامیاب رہی۔اس آکاش کےنیچےاوراس دھرتی کےاوپربھگوان کے بعد انسان سے بڑا کوئی نہیں۔وہ بھگوان جونرنکارہے۔لیکن آپ انسانوں سے نفرت کرتےہیں اور جانوروں کی پوجا کراتے ہیں۔۔ذات پات چھوت چھات اونچ نیچ اورسماج کے کمزور طبقوں کےساتھ ظالمانہ سلوک،شدت پسند برہمنیت کی بے رحمی اور خودغرضی نے انسانوں کوحیوانوں میں تبدیل کردیا۔ انسانوں پر ہونے والے مظالم اور برہمنی استحصال مہاتما گوتم بدھ سے دیکھا نہ گیا۔انھوں نے برہمنی دھرم سے کنارہ کشی اختیارکی اوراپدیش دیا کہ مانو جاتی ایک سمان۔بھگوان نرنکارہے۔وہ ایک ہے۔تریسٹھ ہزاردیوتانہیں ہوسکتے۔دیویادیوتا بس وہی ایک ہے۔مانواور بھگوان کےبیچ کوئی دوسرا نھیں۔۔یعنی خدا اوربندوں میں تعلق براہ راست ہے۔کسی واسطہ اوروسیلہ کی ضرورت نھیں۔بھگوان سے مانگنےاورپانے کےدرمیان کوئی تیسرانہیں۔۔بنرجنم کوئی چیز نہیں۔وغیرہ وغیرہ۔۔۔اس کےہزاروں سال بعد گرو 
نانک جی نے گوتم بدھ کےان اقول کی تصدیق کی۔برہمنیت پر یہ ایسی کاری ضرب تھی جس سے وہ بلبلا اٹھی۔گوتم بدھ کے اس نظریہ کو برہمنیت نے سختی کےساتھ مسترد کردیا۔اس کی بھرپور مخالفت کی۔چالاک برہمنوں کو لگاکہ اگریہ نظریہ مقبول ہو گیا تو مذہبی اورسیاسی اقتداران کے ہاتھو ں سے جاتا رہے گا۔برہمنوں نےاس نظریہ کی شدت کےساتھ مخالفت اورمذمت کی اوربودھ دھرم کے ماننے والوں پراتنےمظالم توڑے کہ خدا کی زمین ان پرتنگ ہو گئی۔ بودھ دھرم کے ماننے والوں کے خلاف نفرت انگیز فتوے جاری کیے کہ کسی بدھسٹ کے برتن میں کھاناپینا،ایسا ہی ناپاک ہےجیسےکسی کتے کی کھال میں کھانا، پینا۔وغیرہ۔۔۔لیکن زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھاکہ زمانہ نے کروٹ بدلی۔ کئی راجوں مہاراجوں اور کالنگاکی لڑائی میں ایک لاکھ انسانوں کی لاشوں کو دیکھ کراشوک اعظم نے اپنےآبائی دھرم کوتیاگ دیا اور گوتم بدھ کے امن واہنسا وادی دھرم کواپنا لیا۔۔
           ذرا اپنی تاریخ پڑھ لیجیےباباجی! کہ جب تک بودھ دھرم کومقتدرطبقہ کی سرپرستی حاصل رہی،برہمنیت کا کیسابراحال رہا۔اپنےہی زخموں کوچاٹنےاورفرضی تبسم زیرلب کےسیواکوئی چارہ ء کار نہ تھا۔زخم کھاکرمسکراناکوئی برہمنیت سے سیکھے۔پھر اشوک اعظم اوراس کے وارثین کےبعدآپ نے بودھ دھرم کے ماننے والوں کےساتھ کیسا سلوک کیا۔؟ان کواتناستایا اور ان کےخلاف اتنی نفرت پھیلائی کہ آخرکار انھیں د یش نکالادید یا۔بدھسٹ اپنی رہائش گاہیں،اپنی عبادت گاہیں چھوڑکرمختلف ملکوں کی طرف ہجرت پر مجبورہوگئےجہاں آج وہ آبادہیں۔ انھیں یہ ملک چھوڑناپڑا۔برہمنیت!یعنی آپ کو سکون مل گیا۔
        مہاویر سوامی کےماننےوالےجینیوں کے ساتھ بھی آپ نےکچھ اچھاسلوک نہیں کیا۔اس کی تفصیل الگ ہے۔ان کےساتھ بھی وہی کچھ کیاجوبدھسٹوں کےساتھ کیاتھا۔۔
        کیا آپ تاریخ کودہراناچاہتے ہیں۔؟اور اب وہی کچھ مسلمانوں کے ساتھ کرناچاہتے ہیں جو آپ کی مذہبی روایت رہی ہے۔وہی مظالم، نا انصافیاں ،نفرت انگیزیاں،جو آپ کی دھارمک پرم پراہے۔۔۔حقیقت یہ ہےکہ ہمیشہ کی بھوکی برہمنیت کبھی اتنی کشادہ ظرف اور کشادہ قلب نہیں رہی کہ اپنے آس پاس کسی اور مذہب کو برداشت کرپاتی۔اسے ہمیشہ خوف رہتا ہے کہ جب بھی کوئی اصلاحی مذہبی تحریک کھڑی ہوگی تواس کے اپاسک بھاگ کھڑے ہوں گے۔
            یہ لوجہاد۔تبدیلیءمذہب۔نکاح،طلاق، نقاب،یکساںسول کوڈوغیرہ کے مسائل جو کھڑے کیےگئےہیں،ان کی حقیقت کو ہم خوب جانتےہیں۔یہ کوئی اور چیزنھیں بلکہ پرانا برہمن وادی خوف ہے۔۔مگربابارام دیوجی۔!آپ یہ کبھی نہ بھولیں کہ آپ تاریخ کودہرانہیں سکتے۔ نہ اسے ختم کرسکتےہیں۔البتہ اس حقیقت کو تسلیم کرلیں کہ یہ مسلمان قوم ہے۔گری پڑی حالت میں بھی اپنے وطن اور قوم کی حفاظت کرناخوب جانتی ہے۔ذرا مذہبی پابندیاں اٹھاکرتودیکھو۔سناتن دھرم کے تنگ دائروں میں جکڑے ہوئے برادران وطن اسلام کی آغوش میں پناہ لینے کےلیےبےتاب ہیں۔۔۔۔۔۔۔ بات بہت آگےتک نجائے گی ورنہ ہم آپ سے اوربہت ساری باتیں کرتےگروجی۔!
      ۔۔اک ذراچھیڑیئےپھردیکھئیےکیاہوتاہے،، آخیرمیں علامہ شفیق جونپوری کاایک شعرسنئے اورسردھنئے۔عبرت بھی حاصل کیجئے۔۔۔    
      نکالیں سیکڑوں نہریں کہ پانی کچھ تو کم ہوگا
     مگر پھر بھی مرےدریاکی طغیانی نہیں جاتی

             آپ کا شبھ چنتک
          انس مسرورانصاری
                               05-2-2023
       قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن
  سکراول،اردوبازار،ٹانڈہ۔امبیڈکرنگر (یو،پی) 
         رابطہ/ 9453347784

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...