Powered By Blogger

پیر, فروری 13, 2023

گورنمنٹ طبی کالج و اسپتال پٹنہ میں یونانی ڈے کی شاندار تقریب ۔

گورنمنٹ طبی کالج و اسپتال پٹنہ میں یونانی ڈے کی شاندار تقریب ۔
اردودنیانیوز۷۲ 
گورنمنٹ طبی کالج پٹنہ میں یوم یونانی کے موقع پر مختلف پروگرام کا انعقاد کیا گیا، واضح ہو کہ یونانی ڈے 11 فروری کو حکیم اجمل خان کی یاد میں انکی یوم پیدائش کی مناسبت سے منایا جاتا ہے, اس موقع پر سب سے پہلے پروگرام کی شروعات 27 جنوری کو سائنٹیفک لکچرز کے ذریعہ ہوئی اور یہ31 جنوری تک جاری رہا, جس کی تحت کالج کے پی جی اسکالرس نے ,حکیم اجمل خان,حکیم کبیرالدین,اور طب یونانی سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا ،
 جب کہ پروگرام کا دوسرا حصہ اسپورٹس ویک پر مشتمل تھا، جس کا باضابطہ افتتاح 1 فروری کو معزز وزیر قانون جناب ڈاکٹر شمیم احمد کے ہاتھوں ہوا جو 7 فروری تک جاری رہا,جس کے تحت مختلف قسم کے کھیلوں کا انعقاد کیا گیا,جسمیں کرکٹ, والی بال کبڈی, ٹیبل ٹینس, لوڈو, کیرم بوڑڈ, ٹگ آف وار, شطرنج, میوژیکل چیر, ڈم شیراژ, مہندی کمپیٹیشن شامل تھے۔ جس میں یوجی اور پی جی کے طلبہ نے بڑھ چڑھکر حصہ لیا۔
علاوہ ازیں پروگرام کا تیسرا حصہ کلچرل پروگرام پر مشتمل تھا، جس کی شروعات 8 فروری کو مشہور آرتھوپیڈک سرجن جناب ڈاکٹر اکرام صاحب کے ذریعہ ہوا اور یہ 10 فروری کی شام تک جاری رہا، جس کے تحت طلبہ و طالبات نے غزل گوئی , تخلیقی مشاعرہ, قوالی, ڈرامہ, پوسٹر پریژینٹیشن,اسٹینڈاپ کامیڈی,اور دیگر کلچرل پروگرام پیش کیے, جس میں طلبہ و طالبات کی خاصی دلچسپی دیکھی گئی، اور تمام اساتذہ اور کالج کے ذمہ داروں نےبھی طلبہ و طالبات کی بھر پور حوصلہ افزائی کی۔
 اور پروگرام کا آخری حصہ ساتویں یونانی ڈے پر مشتمل تھا ۔ جسکی صدارت معزز وزیر قانون حکومتِ بہار جناب شمیم احمد صاحب نے کی، اور بطور مہمان اعزازی جناب ڈاکٹر شیام سندر سنگھ اور دیگر مہمانان موجود رہے، جنھوں نے طلبہ سے خطاب کر تے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ہمیں اپنی پیتھی کو آگے بڑھانے کیلئے کوششیں کرنی چاہئے۔۔۔۔۔
تمام مہمانان نے ونر طلبہ و طالبات کو انعامات سے سرفاراز کیا۔ آخر میں انجمن خدام طب کے سکریٹری محمد ساحل نے تمام مہمانان کا شکریہ ادا کیا , کا لج کے ترانہ اور نیشنل انتھم کے ذریعہ پروگرام کا اختتام ہوا۔

" دوبدو" ادبی مکالمہ) انور آفاقی - - - - ایک جائزہ اسلم چشتی ( پونے) انڈیا

( " دوبدو" ادبی مکالمہ) انور آفاقی - - - - ایک جائزہ 
اسلم چشتی ( پونے) انڈیا 
اردودنیانیوز۷۲ 
 09422006327

انٹرویو انگریزی لفظ ہے - صحافت میں اس کا استعمال کثرت سے ہوتا ہے - اس لفظ کو اُردو والے مکالمہ،. کبھی ملاقات تو کبھی مصاحبہ لکھتے ہیں تو کبھی انٹرویو - بہرحال ہے یہ صحافت کا ہی جُز چاہے اسے صحافت کی ایک صنف ہی کہہ لیں - یہ عموماً سوال و جواب کی شکل میں ہوتا ہے - کچھ لوگ اسے مضمون کے پیکر میں بھی ڈھال لیتے ہیں - انٹرویو کے بارے میں ایک غلط فہمی جڑ پکڑتی جا رہی ہے کہ سوال کرنے والے کا قد چھوٹا اور جواب دینے والے کا قد بڑا ہوتا ہے جب کہ ایسا ہرگز نہیں ہے - کچھ سوال کرنے والے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جواب دینے والے کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں - مطلب یہ کہ سوال کرنے والا اتنا ہی اہم ہوتا ہے جتنا کہ جواب دینے والا - یہ بات مَیں یوں ہی نہیں کہہ رہا ہوں سینکڑوں انٹرویوز پڑھنے کے بعد کہہ رہا ہوں - اس کی ایک مثال " دوبدو" ادبی مکالمہ ہے جس میں سوال کرنے والے انور آفاقی ہیں - جن کی شخصیت ادبی دنیا میں مستحکم ہے - انہوں نے بے حد سنجیدگی اور سلیقے سے مکالمے قائم کیے ہیں بقول ڈاکٹر عبدالحئ - 
      " انور آفاقی کے زیادہ تر انٹرویو شخصی ہیں اور ذاتیات کا احاطہ کرتے ہیں - جن شخصیات کے انٹرویو لیے گئے ہیں ان کے بارے میں مکمّل معلومات دے دی گئی ہیں - اگر کوئی اسکالر اس شخصیت پر کچھ لکھنا چاہتا ہے تو اس کتاب سے اسے کافی مدد ملے گی" 
[ کتاب ہذا ص 11 ڈاکٹر عبدالحئ ] 
اس اقتباس سے مَیں پوری طرح متفق ہوں کیونکہ میں نے" دوبدو " کا ورق ورق مطالعہ کیا ہے اور شخصیات کے بارے میں مُجھے جو معلومات ہوئی ہیں وہ میرے مطالعہ کے تجربے میں اضافہ ہے - 

176 صفحات کی اس کتاب میں ڈاکٹر عبدالحئ کا مضمون رہبری کا درجہ رکھتا ہے اور یہ مضمون انٹرویوز پڑھنے کی تحریک قاری کو دیتا ہے اور جب قاری کتاب پڑھ لیتا ہے تو شخصیات کے بارے میں ان کی تحریروں کے متعلق انکشافات تو ہوتے ہی ہیں ساتھ میں اُردو زبان اور ادب کے ماضی اور حال کا منظر نامہ قاری کے سامنے آ جاتا ہے اور قاری کے ادبی شعور کو تازہ دم کر دیتا ہے - 
انور آفاقی نے اپنی بات کے تحت اپنے بارے میں کتاب کے قاری کو بہت کچھ بتایا ہے جو کچھ بتایا ہے نہایت ہی انکساری سے بتایا ہے اس میں اس کتاب کو لکھنے کے محرکات بھی پیش کیے گئے - شخصیات سے ملاقاتوں کا ذکر بھی کیا - " اپنی بات" آخری صفحہ کے پہلے پیراگراف میں مکالمے کی روایت اور اہمیت پر گفتگو کی ہے جو من و عن پیشِ خدمت ہے - 
           " مکالمے کی روایت کوئی نئی نہیں ہے - زمانہ قدیم میں افلاطون کے مکالمے مشہور ہوئے بلکہ سچّی بات تو یہ ہے کہ مکالمے کی روایت بعض حوالوں سے اس سے بھی پہلے سے ملتی ہے - یہ وہ روایت ہے جس کے توسط سے ہم کسی ادیب، شاعر، دانشور اور فنکار کے اندر جھانکنے کی کوشش کرتے ہیں، ان سے تبادلہء خیال کرتے ہیں جس کے نتیجے میں بہت ساری ایسی باتیں سامنے آتی ہیں جس سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے اور بعض دفعہ ذہنو پر پڑے ہوئے تالے کھلتے ہیں اور پھر بصیرت و آگہی کی ایسی دنیا سامنے آتی ہے جس سے نئی نسل مستفیض ہوتی ہے "
( ص 9 ، کتاب ہذا، اپنی بات، انور آفاقی) 
              اس اقتباس سے ظاہر ہُوا کہ انور آفاقی کی ادبی سوچ کتنی صالح ہے اور یہ بھی پتہ چلا کہ ان کا مقصد بلند و بالا اس طرح ہے کہ یہ انٹرویوز کے ذریعے آگہی کی روشنی ادب کے تاریک گوشوں میں پھیلانا چاہتے ہیں - 
       انور آفاقی نے انٹرویو کے لیے کوئی غیر معمولی مشہور و مقبول شخصیات کا انتخاب نہیں کیا انہوں نے اپنی ترجیحات کے مطابق آفتاب احمد آفاقی ، خلیق الزماں نصرت، سلیم خان شمیم قاسمی، عبدالمنان طرزی، مجیر احمد آزاد، منصور خوشتر، نور شاہ اور وحشی سعید جیسے فعّال اور اپنے فن میں یکتا قلمکاروں کو ترجیح دی - اور ان سے ایسے سوالات پوچھے کہ جوابات دینے والوں نے اپنے بارے میں وہ سب کچھ بتا دیا جسے لوگ شاید کم ہی جانتے ہوں یا نہیں جانتے ہوں - 
           انور آفاقی کی یہ کتاب " دوبدو" کئی اعتبار سے ایک اہم کتاب سمجھی جائے گی یہ کتاب انور آفاقی کی تخلیقی، تحقیقی صلاحیتوں کو بھی ظاہر کرتی ہے اور ان کی ادبی دوستی کی بھی غمّازی کرتی ہے - جن شخصیات سے انہوں نے انٹرویو لیے ہیں ان کے قد و قامت کا بھی اندازہ اس کتاب سے ہوتا ہے - 
                    انور آفاقی سے اُمّید ہے کہ وہ اور بھی ہمعصر قلمکاروں سے انٹرویوز لے کر ادبی صحافت کو وقار بخشیں گے - اس کتاب پر جتنا بھی لکھا جائے کم ہے - لیکن ناچیز اکتفا کرتے ہوئے انور آفاقی اور مشمولات میں شامل شخصیات کو تہہِ دل سے مبارک باد پیش کرتے ہوئے انور آفاقی کے ایک پُر عزم شعر پر اپنی گفتگو ختم کرتا ہوں - 
درد اور ٹیس سے مر جاتے ہیں کیسے کچھ لوگ 
مَیں نے زخموں کے سمندر میں سکوں پایا ہے 

Aslam Chishti flat no 404 shaan Riviera aprt 45 /2 Riviera society wanowrie near jambhulkar garden pune 411040

سید عادل گڈو بھائی گلستان محلہ پھلواری شریف پٹنہ کی بھانجی ارم وارثی کو گولڈ میڈل ملنے پر جامعہ عربیہ دارالعلوم محمدیہ کی جانب سے مبارکبادی و دعائیہ محفل کا انعقاد

سید عادل گڈو بھائی گلستان محلہ پھلواری شریف پٹنہ کی بھانجی ارم وارثی کو گولڈ میڈل ملنے پر جامعہ عربیہ دارالعلوم محمدیہ کی جانب سے مبارکبادی و دعائیہ محفل کا انعقاد
  اردودنیانیوز۷۲ 


پھلواری شریف پٹنہ مورخہ 13/فروری
 محمد ضیاء العظیم (پریس ریلیز) 
تعلیم انسان کو تہذیب سکھاتی ہے، اس کے اخلاق و کردار کو سنوار کر اسے زندگی گزارنے کے سلیقے بخشتی ہے، اس کے اندر حوصلہ، جذبہ، اور جرات گفتار ورفتاربھی پیدا کرتی ہے۔ یہ انسان کو احساسِ سود و زیاں عطا کرتی ہے اور کھرے اور کھوٹے میں تمیز کرنے کا شعور بخشتی ہے۔ یہ بات یقینی ہے کہ سماج ومعاشرہ میں اگر کوئی ایک فرد کامیاب ہوتا ہے تو گویا پورا سماج ومعاشرہ کامیاب کہلاتا ہے۔ ایسی ہی مثال اس وقت ابھر کر ارم وارثی بنت مظفر عالم پٹنہ جو کہ پٹنہ ویمینس کالج کی طالبہ ہیں سامنے آئی ہے،
ارم وارثی پٹنہ ویمینس کالج میں بی ایس سی کی طالبہ ہیں جنہوں نے پورے کلاس میں امتیازی نمبر لاکر گولڈ میڈل حاصل کی ہے،
پٹنہ ویمینس کالج میں منعقد ایک تقریب میں انہیں مائکرو بایولاجی کے شعبہ میں ٹاپر قرار دیتے ہوئے گولڈ میڈل سے نوازا گیا ۔
اس موقع پر سید عادل گڈو بھائی کو جامعہ عربیہ دارالعلوم محمدیہ کے ناظم مفتی محمد نور العظیم مظاہری نے مبارکبادی پیش کرتے ہوئے جامعہ میں ایک دعائیہ تقریب کا اہتمام کیا، جس میں تعلیم اور اہمیت تعلیم پر علماء کرام نے روشنی ڈالی،
مبارکبادی پیش کرنے والوں میں مولانا محمد عظیم الدین رحمانی ،مولانا محمد ضیاء العظیم قاسمی، قاری عبدالواجد ندوی ،قاری ماجد، مفتی جلاء العظیم وغیرہ کا نام مذکور ہے،

اتوار, فروری 12, 2023

تلاش گمشدہ

تلاش گمشدہ
اردودنیانیوز۷۲ 
محمد معصوم ابن محمد میکائیل مرحوم
عمر 15/سال
ساکن پرسا گڑھی تھانہ جدیہ بازار تروینیی گنج، ضلع سوپول بہار،
متعلم :- شاخ جامعہ رحمانی شجاعل پور مونگیر (بہار)
یہ بچہ بروز سوموار 6/فروری 2023 کی صبح 9/بجے سے لاپتہ ہے،
اگر کہیں یہ نظر آئے، یا اس کا سراغ لگے تو از راہ کرم اس نمبرات پر رابطہ کرکے اطلاع دیں گے،
7319803589
9608750465
8757710017
9155745674
توصیف اقبال ندوی (سوپول)

مولانا شفیق قاسمی ؒ __✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

مولانا شفیق قاسمی ؒ __
اردودنیانیوز۷۲ 
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
  امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ کی مجلس شوریٰ کے سابق رکن، کانگریس اقلیتی سیل ضلع بیگوسرائے ، غیر منقسم مونگیر جمعیت علماءکے سابق صدر، جامعہ رشیدیہ بیگو سرائے کے بانی ، مدرسہ بدر الاسلام کے سابق استاذ حضرت مولانا شفیق عالم قاسمی براسی (82) سال کی عمر میں قلب کے آپریشن کے بعد اپنے مالک حقیقی سے جاملے، اطلاع کے مطابق دوروز قبل انہیں دل کا دورہ پڑا تھا، میڈی ورسل ہوسپیٹل میں ڈاکٹر نلنی رنجن کی نگرانی میں علاج شروع ہوا، پیس میکر لگانے کی تجویز آئی، چنانچہ فوری کارروائی شروع ہوئی اور آپریشن ہو گیا، پیس میکر لگا دیا گیا، لیکن بے ہوشی دور نہیں ہوئی 23 جنوری 2023 مطابق یکم رجب 1444ھ بوقت سات بجے شام حادثہ پیش آگیا، اہلیہ پہلے ہی انتقال کر گئی تھیں، پس ماندگان میں تین بیٹے، محمد افروز، ڈاکٹر معراج الحق، محمد اعزاز اور پانچ لڑکیوں کو چھوڑا، ان میں سے ایک نامور عالم دین، بڑے محقق، مفسر اور لجنة اتحاد علماءالمسلمین قطرکے مفتی مولانا خالد حسین نیموی کے نکاح میں ہیں، مولانا خالد حسین نیموی امارت شرعیہ کے دار العلوم الاسلامیہ کے سابق اور مدرسہ بدر الاسلام بیگو سرائے کے موجودہ استاذ ہیں۔
 چوکہ ان کی رہائش ہرّک بیگو سرائے میں تھی ، اس لیے دوسرے دن ڈھائی بجے جنازہ کی نماز ہرک میں ادا کی گئی اور ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں ہرّک قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، جنازہ کی امامت ان کے داماد مولانا مفتی خالد حسین نیموی نے فرمائی، امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم کے حکم سے مفتی سعید الرحمن صاحب مفتی امارت شرعیہ کی قیادت میں امارت شرعیہ کے ایک مو قر وفد نے تدفین میں شرکت کی اور حضرت امیر شریعت کا پیغام سوگوار خاندان تک پہونچایا۔یکم فروری 2023 کو منعقد بیگوسرائے کی ایک تعزیتی مجلس میں احقر محمد ثناءالہدیٰ قاسمی کی بھی شرکت ہوئی اور بُجھے ہوئے دل سے کچھ تعزیتی کلمات کہے گیے۔
 مولانا شفیق عالم قاسمی بن مقصود عالم کی جائے پیدائش نیما چاند پورہ ضلع بیگو سرائے ہے۔ 1940 میں اسی گاؤں میں آ پ نے آنکھیں کھولیں، ناظرہ دینیات اور ابتدائی فارسی کی تعلیم مدرسہ بشارت العلوم نیما میں حافظ وقاری محمد صدیق ؒ صاحب سے حاصل کرنے کے بعد ڈھاکہ (موجودہ ضلع بنگلہ دیش) میں حضرت مولانا محمد اللہ صاحب عرف حافظ جی حضور خلیفہ حضرت تھانوی ؒ کے سامنے حفظ قرآن کے لیے زانوے تلمذ تہہ کیا اور چودہ پارے ان سے حفظ کیے، وہاں سے پھر مولانا محمد ادریس نیموی ؒ کی تحریک پر پہلے مدرسہ تجوید القرآن مونگیرمیں مولانا سعد اللہ بخاری صاحب کی زیر سر پرستی تعلیم حاصل کی اور پھر جامعہ رحمانی مونگیر میں داخلہ لیا، ایک سال وہاں قیام کے بعد پھر جامعہ عربیہ قرآنیہ لال باغ ڈھاکہ (موجودہ بنگلہ دیش)چلے گیے اور حافظ جی حضور کی زیر سر پرستی قاری مفیض الرحمن نواکھالی اور حافظ نور الہدیٰ سے حفظ قرآن کی تکمیل اور دور کے مراحل طے کیے، اس کے بعد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی، علامہ ظفر احمد تھانوی اور مولانا احتشام الحق تھانوی کے دست مبارک سے آپ کے سر پر دستار باندھی گئی۔
 عربی کی تعلیم کا آغاز مدرسہ بدر الاسلام بیگو سرائے سے ہوا، یہاں آپ نے 60-1956کے دوران عربی اول سے عربی پنجم تک کی تعلیم پائی، 1961میں آپ دار العلوم دیو بند تشریف لے گیے، 1964تک آپ کا وہاں قیام رہا، انہوں نے بخاری شریف فخر المحدثین حضرت مولانا فخر الحسنؒ سے پڑھی ، آپ کو اس وقت کے بڑے علماءومشائخ کی خدمت کا موقع ملا اور آپ نے سب سے کسب فیض کیا، مسلسلات حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی اور حجة اللہ البالغہ کا درس قاری محمد طیب صاحب رحمہما اللہ سے لیا، دوران طالب علمی بلکہ دار العلوم دیو بند جانے سے قبل ہی آپ کا نکاح مشہور حکیم اور معالج حکیم یٰسین صاحب کی اکلوتی صاحب زادی صفورہ خاتون سے ہو گیا تھا۔
 دیو بند سے واپسی کے بعد آپ نے تدریسی زندگی کا آغاز اپنی مادر علمی مدرسہ بدر الاسلام بیگوسرائے سے کیا، ملی، سماجی اور سیاسی سر گرمیوں میں مشغولیت کی وجہ سے بعد میں بدر الاسلام کی تدریسی زندگی کو آپ نے خیر باد کہہ دیا ، لیکن کم وبیش بیس سالوں تک مدرسہ کی خدمت صدر کی حیثیت سے کرتے رہے۔ جمعیت علماءکے پلیٹ فارم سے بحیثیت صدر وسکریٹری مولانا کی خدمات انتہائی وقیع ہیں، سیاست کی بات کریں تو کانگریس اقلیتی سیل کے صدر کی حیثیت سے مدتوں خدمات انجام دیں، تدریسی زندگی کو خیر باد کہنے کے بعد ذریعہ معاش تجارت کو بنایا اور اس میں اس قدر نام کمایا اور شہرت حاصل کی کہ بیگو سرائے چیمبر آف کامرس کے صدر منتخب ہوئے۔ امارت شرعیہ کی شوری کے ممبر رہے اور وفود کے دوروں کے موقع سے ان کا خصوصی تعاون ہمیشہ امارت شرعیہ کو ملتا رہا ، پوری زندگی ، توانائی اور انرجی ملت کے لیے وقف کر دیا، جامعہ رشیدیہ بیگو سرائے قائم کرکے دینی تعلیم کی ترویج واشاعت کا انتظام کیا، بہت سارے مکاتب ومدارس کے سر پرست ونگراں رہے، اللہ نے خوب کام لیا، عزت بھی دی اور شہرت بھی دی ، جہاں رہے نیک نام رہے، اور آخری حد تک اپنی صلاحیت کو صالحیت کے ساتھ دینی خدمات کے لیے وقف رکھا۔
 مولانا سے میری ملاقات پرانی تھی، بیگو سرائے میں مولانا کا قائم کردہ جامعہ رشیدیہ وفاق المدارس الاسلامیہ امارت شرعیہ سے منسلک ہے، کبھی جائزہ یا کسی اور پروگرام میں جانا ہوتا تو مولانا سے ملاقات ضرور کرتا، مولانا اسم بامسمی تھے، شفیق نام تھا اور چھوٹوں پر شفقت بہت کیا کرتے تھے، میری آخری ملاقات گذشتہ ماہ ہی دہلی میں ہوئی تھی، موقع مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن اور فخر المحدثین مولانا سید فخر الحسن رحمہما اللہ پر سمینار کا تھا، جو صد سالہ تقریب کے عنوان سے جمعیت علماء(مولانا محمود مدنی گروپ) نے کروایا تھا، مولانا نے اس سمینار میں انتہائی جذباتی انداز میں مولانا فخر الحسن صاحب پر اپنا مقالہ سنا یا تھا، ان کے ساتھ مولانا خالد نیموی بھی تھے، دستر خوان پر ہم لوگ الگ سے ان کی باتوں سے مستفیض ہوتے رہے ، ان کے اندر بزرگانہ خشکی نہیں تھی، اور نہ ہی بزرگی کا رعب تھا، اس لیے ہم لوگ کھل کر باتیں کرتے رہے، مولانا خالد حسین نیموی سے میں نے اسی مجلس میں یہ درخواست بھی کی تھی کہ ان کی سوانح جو آپ نے مرتب کرنا شروع کیا تھا اور جس کی کئی قسطیں سوشل میڈیا پر آئی بھی تھیں کو مکمل کر دیں، تاکہ مولانا کی زندگی میں ہی یہ کام مکمل ہوجائے، مفتی خالد حسین صاحب نے وعدہ بھی کیا تھا کہ دہلی سے جا کر لگوں گا، لیکن کیا معلوم تھا کہ اس کتاب کی تکمیل کے قبل ہی ان کی حیات کا آخری ورق الٹ جائے گا اور ہم سب ان کے فیوض وبرکات سے محروم ہو جائیں گے۔ گذشتہ دنوں تعزیتی جلسہ میں جانا ہوا تو کئی مقررین نے اپنی تقریر میں اس بات کا ذکر کیا کہ وہ میری تحریروں کے بڑے مداح تھے اور اپنے عزیز و رفقاءکو اسے پڑھنے کی تلقین کیا کرتے، بعضوں کو وھاٹسپ کے ذریعہ خود منتقل کرتے۔میں یادوں کے چراغ ضرور جلاتا ہوں ، لیکن مولانا طلحہ نعمت ندوی کی رائے ہے کہ میں اسے مرثیہ بنانے سے گریز کرتاہوں اور کسی کی جدائی پر ماتم کا میرا مزاج نہیں ہے ، لیکن کیا کروں مولانا کی جدائی پر کلیجہ منہ کو آتا ہے اور جب ہم دور والوں کا یہ حال ہے تو ان کے بچوں پر کیا گذر رہی ہوگی ، مولانا خالد حسین نیموی پر کیا گذر رہی ہوگی، جن کے کم سنی میں والد کے گذر جانے کے بعد سارا کچھ ایک والد کی طرح انہوں نے کیا تھا، اور مفتی صاحب سے کی زندگی پر سکون رہے اس کے لیے اپنی تربیت یافتہ لخت جگر ان کے نکاح میں دیا۔ اب مفتی صاحب زیادہ کون اس بات کو جانے گا کہ صبرآتے آتے آتا ہے، لیکن صبر صدمہ اولیٰ کے وقت کا ہی معتبر ہے، روپیٹ کر تو سب کو صبر آجاتا ہے۔
 اللہ پورے خاندان اور مفتی خالد صاحب ان کی اہلیہ، مولانا کے تلامذہ، رفقاءاور معتقدین کو صبر وثبات کی توفیق بخشے، مولانا مرحوم کی مغفرت فرمائے، ان کی خدمات کا بہتر بدلہ عطا فرمائے۔ آمین۔

تسمیہ جونئیر ہائی اسکول میں سالانہ جلسہ کا انعقاد

تسمیہ جونئیر ہائی اسکول میں سالانہ جلسہ کا انعقاد
اردودنیانیوز۷۲ 
تسمیہ جوئیر ہائی اسکول میں ۳۱ واں سالانہ جلسہ کا انعقاد ہوا۔ اس موقع پر اسکول کے صدر ڈاکٹر ایس فاروق ( صدر تسمیہ آل احمد یا ایجوکیشنل اینڈ سوشل ویلفیر سوسائی کی ریلی ) نے مہمان اسوسی جناب آئی لی والے مالی سال اول گیار راہ میں اس پر اے آر آن از نالی دارد) اور مہمان ای دلار جناب ڈاکٹر محمد فاروقی (سابت الگ اور ڈی آرتھوپے تک پاس ) کا استقبال پھولوں کا گلدستہ اور یاد گارانتان پیش کر کے کیا۔ پروگرام کا آغاز دریں وائی کے

طالب اعظم اس کی حلاوت کلام پاک سے ہوا۔ جس کا اردو اور انگریزی میں ترین استوار ہے اور اگر اور جہاں نے کیا ۔ العلم اسعد ترجمہ، آمنہ درجہ اقراء سارا اور زویا نے اپنی آواز میں نعت نبوی پیش کی اسکول کے پرنسپل جاوید مظہر نے اسکول کی سالانہ رپورٹ پیش کی۔ جس میں انہوں نے تعلیمی نظام ۲۳ ۲۰۲۲ کی سرگرمیوں کے بارے میں بتایا اور اسکول کے مستقبل کے پان سے بھی اللہ ہی کو آگاہ کیا۔ اس موقع پر اسکول کی دیگر میں انور کا بھی ملتان کیا کیا جو وان ایڈیشن ہے۔ جس میں گزرے ہوئے سال کے طلبہ و طالبات کی کارکردگی کو پیش کیا جاتا ہے۔ کلچر پروگرام میں درجہ اہل ۔ کے ۔ جی کے بچوں نے میرے میں دو ہاتھ اللہ دائیں کر کے سب کا دل جیت لیا۔ اللہ ہی کے جی کے بیجوں نے لکڑی کی کالی ہر ایکشن کے ساتھ لائیں کیا اور نہ انور کے گرداب نے یہ ہندوستان " حب الوطنی گیت سے سب کو خوش کیا۔ درجہ ۳-۱۴اور ۶ کے طلبہ و طالبات نے خوبصورت گیت استاد محترم " پیش کیا۔ درجہ ۱۵ اور ے کے گروپ نے پہلے ہی کو اہور ہے آجاؤں میں میری خدایا اثر دئے پیش کیا۔ جس نے بھی کو چند باتی کردیا۔ دریا جی کی لڑکیوں نے ہم پنیاں اسلام کی پیش کیا۔ اور ا سکے اور اورٹی کے ارکان نے بعد وہ مسلم سکھ۔ جہانی اتحاد پر اشاروں کے بعد سے خاموشی اور اس میں کیا۔ ابا جی کے گروپ نے انگریزی ارامہ ان دا کورٹ آف ہیلتھ' پیش کیا۔ کبھی بچوں نے اپنی اپنی پیشکش کے ذریعہ کوئی نہ کوئی پیغام دیا کسی نے اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کیا، کسی نے اپنی پیشکش کے ذریعے انگرین کی یادوں کو تازہ کیا تو کسی نے ڈان کی محبت اور استاد کا دہی اور ان کی محبت کیوں کیا۔ ایسے ہی کچھ نے اپنی تلاش کے ذریعے اللہ سے دعا مانگی اور کچھ نے اسلام میں بیٹیوں کی اہمیت کو بتایا ۔ کسی نے اپنے ملک کی طاقت کو بتایا کی ہندو مسلم سکھ عیسائی ہم بھی اپنے ملک کی طاقت ہیں اور انگریزی ڈارمہ میں صفائی اور صحت دونوں کیا ایسے سائلی جیسا کہ ہمارے اسلام میں ان ممانی کو آرمانیان اور صحت کو نئی بات بتایا گیا ہے۔ جس نے سب کی حوصلہ افزائی کی۔ اس کے بعد اسکول کے امتیازی نمبر حاصل کرنے والے طالبات تو یہ دلشاد، فاطمه پروین، جمیرا، زویا شیرین ، اقراء ، اصلی جمیرا، اقتصی صوفیہ، مہوش کو ٹرافی اور سرٹیفیکٹ اور ایک ہزار رو ہو سکے پی کے سے تو از کر ان کی حوصلہ انوالی کی کی۔ اس کے ساتھ ہی عمل حاضری میں دور ہے۔ کے ۔ جی کے لھا کی صدراتی بہار ہو کے دو طالبہ نیا اور خانہ درجہ کی کی شبدین، در مدتی کی اصولی اتھارٹی کی ملیہ نے اسکول میں بغیر چینی کے سال کو پورا کیا۔ ساتھ ہی اسکول کے پرتال جارہے مظہر اور اسکول کے پیپر سرعین خان نے بھی پورے سال مکمل حاضری کی رانی اور سر کا کالے حاصل کیا۔ اس موقع کا ایک آرٹ اور کرائے اور سائنس کی نمائش بھی لگائی گئی ۔ آرے اور کرافتے میں ہونے سٹائل یا شک ہوں، دریائے گلاس پینینگ چالیس سے لے پائے ان پریس فوٹو فریم و خمیر و ریکار سامان سے کیا چیز وں کو نمایا کیا گیا۔

سائیس لائن میں مال دکھائے گئے اور ان کے بارے میں بتایا گیا جس میں بچوں نے مال استر کار آف آئی۔ کویل داره نگ، دار سائیکل ، نمائش پایدان کوئی رنگ اکیس مسلمہ آلو چیک کرنا اللہ ور لاک بالی وغیرہ کے اربھائی صلاحیتوں کو دکھایا۔ کبھی مہمانان نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ مہمان خصوصی آئی پی پانڈے نے بچوں سے اپنی تعلیم پر توجہ دینے پر زور دیا۔ انہوں نے کہاں کہ بچوں میں خود اعتمادی ضرور کی ہے اس لئے اپنے اندر اور اعتمادی پیدا کہتے ۔انہوں نے والدین کا کی بچوں کے لئے گھر میں تعلیم کا حمد وماحول پیدا کرنے کو کہا۔ مہمان رہی انکار آئی پی پانڈے نے کہا کہ تعلیم وہ ہے جو انسان کو کھلی آنکھوں سے خواب دیکھنا سکھاتی ہے جو کھلی آنکھوں سے خواب نہیں دیکھتے میرے خیال میں ان کو تعبیر بھی کبھی نہیں ملے گی انھوں نے کہا تربیت سکھاتی ہے جتنا د امن ہے اس میں زندہ رہنا ہے۔ ،

اپنے صدارتی خطاب میں کہا اپنی د بنیادی تعلیم پر زور دیا انھوں نے کہا کہ علم کا سیکھنا ہر مرد اور عورت کے لئے فرض ہے ایک اچھے انسان سے ایک اچھے معاشرے کی ابتدا ہوتی ہے اور اس سب کے لئے یا احتمال ہونا ضروری ہے اور تعلیم نہیں جینے کا سلیقہ سکھاتی ہے دینے کا طریقہ بتاتی ہے تعلیم ہمارے عوام کے لئے اور اس وطن کی ترقی کے لئے بہت ضروری ہے اپنی تمام ضرورتوں کو کم کر کے اپنے بچوں کو تعلیم دیں تعلیم صرف نوکری کے لئے نہیں بلکہ ادب کے لئے ہوتی چاہئے ۔ پروگرام کے انتقام پر اسکول کے پرنسپل جاوید مظہر نے سب مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور اس موقع پر شہر کے اسکولوں کے پرنسپل علاقہ کے معزز لوگ اسکول کا اتاقت زبیر احمد مولانا محمد شوکت محمد مرسین ، محمد پر دین محمد شاه ریا، لاکه صحت آزاد باشه ، خوش نصیب و درخشان پردین ، رقیه باتور امر ین انصاری بازی کی اسانید مریم اسید میاں ماتم فاطمہ کا کلمہ وغیرہ موجودہ ہے۔ کیوں کے در پہ کھانے کے انسان کبھی لگائے گئے ۔ جس کا بھی نے لحق المداواة

سمستی پور کالج میں اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی (اسٹڈی سینٹر) کے زیر اہتمام میٹنگ کا انعقاد

سمستی پور کالج میں اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی (اسٹڈی سینٹر) کے زیر اہتمام میٹنگ کا انعقاد 
اردودنیانیوز۷۲ 
سمتی پور (پریس ریلیز) 11 /فروری 
 سمستی پور میں اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی (IGNOU) اسٹڈی سینٹر کے زیراہتمام، جولائی سیشن 2022 - 23 کے لیے میٹنگ کا انعقاد کوآرڈینیٹر ڈاکٹر کنال کی قیادت میں کیا گیا۔
 کالج کے پرنسپل ڈاکٹر ستین کمار نے روایت کو مدنظر رکھتے ہوئے پروگرام کے آغاز میں چراغ روشن کیا، اس کے بعد IGNOU اسٹڈی سینٹر سمستی پور کے کوآرڈینیٹر ڈاکٹر کنال نے میٹنگ کی صدارت کی، ڈاکٹر ستین کمار اعزاز کے طور پر شال اور پھول کے مالے سے استقبال کیا ۔ اس کے بعد، کوآرڈینیٹر ڈاکٹر کنال جی نے استقبالیہ کمالات سے میٹنگ کا آغاز کیا ۔ پروگرام کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے، ڈاکٹر اکیلا جی، بی لِب، IGNOU کے ایک اسٹڈی سینٹر کے کونسلر کو مدعو کیا گیا، جنہوں نے اپنی تقریر میں " یونیورسٹی کی تعلیم کی خود انحصاری شکل" خود مطالعہ، خود ترقی کے نعرے پر زور دینے کے ساتھ ساتھ لائبریری سائنس کے مطالعہ کی مشکلات اور ان کے حل پر تفصیلی گفتگو کی۔اس کے بعد ڈاکٹر درگیش رائے جی، ڈاکٹر راہل منہر۔ اور جناب راج دیو ، جناب پرمود ، جناب ششی شیکھر وغیرہ نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم کی روایت کے مطابق آخر میں اپنی صدارتی تقریر میں ڈاکٹر ستین کمار نے اطمینان کا اظہار کیا۔ دنیا کے سب سے بڑے تعلیمی پلیٹ فارم IGNOU کے اس اسٹڈی سنٹر میں طلباء کی بڑھتی ہوئی تعداد کے ساتھ ساتھ تعلیمی بیداری خود احتسابی جیسے اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ دنیا کی اس خود کفیل روایت کی روشنی میں آڈیٹوریم میں موجود طلباء نے دوسروں کو بھی اس سے جوڑنے کا عزم کریں ۔
اور IGNOU کی تعلیم وترقی ترقی پر خصوصی گفتگو کی ، بین الاقوامی سطح پر بھی تعلیمی نظام ترقی کی راہیں کس طرح ہموار ہوں ان پر خصوصی توجہ دلائی ۔
سمستی پور کے IGNOU کے نئے کوآرڈینیٹر ڈاکٹر کنال جی کے کام کرنے کے انداز کی تعریف کی اور آج کی تحریکی میٹنگ کے مقاصد پر روشنی ڈالی اور آخر میں اس اسٹڈی سنٹر کے تمام کارکنوں کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی پرانی نسل کے لوگوں سے سیکھیں تاکہ اس مرکز کے طلباء اس سے زیادہ فائدہ اٹھاسکیں۔ ڈاکٹر خورشید احمد خان نے محفل میں تمام شرکاء کا کا شکریہ ادا کیا۔اور آخر میں قومی ترانے کے ساتھ پروگرام کا اختتام ہوا۔ڈاکٹر منوہر پاٹھک نے پروگرام کی نظامت کی۔کالج کے تمام اساتذہ کرام سمیت اس میٹنگ میں سینکڑوں کی تعداد میں غیر تدریسی عملہ اور طلباء موجود تھے۔
اس پروگرام کا آخری پڑاؤ سوال و جواب کے ذریعہ طلباء سے مکالمہ قائم کرنا تھا جسے اسٹڈی سینٹر میں موجود کونسلرز نے انجام دیا۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...