Powered By Blogger

بدھ, اپریل 19, 2023

خانوادہ ھدی کے نو حفاظ کا تراویح میں قرآن مکملخانوادہ کے سر براہ مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی نے مبارکباد پیش کی ۔

خانوادہ ھدی کے نو حفاظ کا تراویح میں قرآن مکمل
خانوادہ کے سر براہ مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی نے مبارکباد پیش کی ۔
Urduduniyanews72
مظفر پور 18اپریل۔( عبدالرحیم بڑہولیاوی) ویشالی ضلع کے مشہور علمی خانوادہ ھدی کے نو حفاظ کرام نے  تراویح میں قرآن مجید مکمل سنا یا اس  پرمسرت موقع سے خانوادہ کے سرپرست تبلیغی جماعت سے منسلک جناب محمد نجم الہدی نجم ، سربراہ مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی نایب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھار کھنڈ اور بڑی تعداد میں اعز واقربا نے مبارکباد دی ۔اور خانوادہ کی اس حصول یابی پر مسرت کا اظہار کیا ۔قابل ذکر ہے کہ اس خانوادہ کا تذکرہ بڑے وقیع انداز میں ڈاکٹر امام اعظم نے اپنی تحقیقی وتاریخی کتاب انساب وامصار  میں کیا ہے۔اس کتاب میں خانوادہ ھدی کے انساب پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے ۔اس خانوادہ کے جن حفاظ کرام نے قران سنایا ان میں مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی اور مولانا مفتی محمد ظفر الہدی قاسمی نے زکریا کالونی سعد پورہ مظفر پور،مولانا تاج الہدی رحمانی نے انور پور حاجی پور۔مولانا وہاج الھدی قاسمی نے ویشالی ضلع کے منصور پور ہلیہ حافظ ذکو ان القمر مدنی نگر مہوا،حافظ ارقم منہاج نے چک چمیلی سراءے ،مولانا نظر الہدی قاسمی نے حسن پور گنگھٹی اور  خواتین میں رضیہ عشرت نے دارالعلوم سبیل السلام حیدرآباد اور شایستہ پروین نے زکریا کالونی مظفر پور میں تراویح میں قرآن مجید ختم کیا۔اس فہرست پر نظرڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان حفاظ کرام میں مفتی  ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب کے دو لڑکا ، دو بھتیجا،دو بڑے بھائی محمد ضیاء الہدی مرحوم کے پوتا ،نواسہ ،مفتی صاحب کی اک بیٹی اور ایک بہو زوجہ مولانا محمد ظفر الہدی شامل ہیں۔عصری تعلیم میں بھی یہ خانوادہ علاقے میں ممتاز ہے۔جس میں انجینیئر، پی ایچ ڈی ایم ،اساتذہ اور ڈاکٹر وغیرہ کثیر تعداد میں ہیں ،پورا خانوادہ علمی و ملی کاموں سے جڑا ہوا ہے ۔اور یہی اس خانوادہ کی شناخت ہے

راہل گاندھی نرغے میں __ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

راہل گاندھی نرغے میں __
urduduniyanews72
 مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
کانگریس پارٹی کے سب سے مضبوط لیڈر جناب راہل گاندھی ان دنوں قانونی شکنجے اور سیاسی نرغے میں ہیں، ان کے ایک بیان پرکہ ’’رقم لے کر بھاگنے والے سارے کا خاندانی لاحقہ مودی ہی کیوں ہیں‘‘ سورت کے چیف جوڈیشیل مجسٹریٹ ایچ ایچ ورما نے تعزیرات ہند کی دفعہ۰ 500؍ اور دفعہ 499؍ کے تحت ہتک آمیز قرار دے کر دوسال کی سزا سنائی ہے، اپیل کے لیے ایک ماہ کی مہلت دی اور ضمانت دے کر چھوڑ دیا، اگلے دن پارلیامنٹ سکریٹریٹ نے انہیںنا اہل قرار دے کر پارلیامنٹ کی رکنیت ختم کر دی ہے وہ کیرالہ کے واٹناڈ سے رکن پارلیامنٹ تھے،تیسرے دن انہیں سرکاری مکان خالی کرنے کا نوٹس تھما دیا گیا، سرکاری کام جب اتنی عجلت میں ہونے لگے تو سمجھنا چاہیے کہ دال میں کچھ کالا ہے کہ الیکشن کمیشن کواس سیٹ کو خالی مان کر انتخاب کرانے میں اپیل کی مدت کے ختم ہونے اور عدالت کے رخ کا انتظا رہے۔
 بات دس سال پرانی ہے ، جب للی تھامس معاملہ میں سپریم کورٹ نے 10؍ جولائی 2013ء کو عوامی نمائندگی قانونی 1951؍ کی دفعہ 8(2) کو رد کرکے فیصلہ دیا تھا، ممبران پارلیامنٹ واسمبلی کسی بھی مقدمہ میں دو سال کی سزا پاتا ہے تو فوری طور پر اس کی رکنیت ختم ہوجائے گی اور چھ سال تک وہ نہ تو امیدوار بن سکے گا اور نہ ہی ووٹ دے سکے گا، پہلے ایسانہیں تھا؛ بلکہ تین ماہ تک فیصلہ کے خلاف اوپر کی عدالت میں اپیل کرنے کی مہلت دی جاتی تھی ، اپیل جب تک زیر سماعت رہتی اس وقت تک رکنیت ختم نہیں ہوتی تھی، بلکہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے خلاف ریویو پٹیشن بھی دیا جا سکتا تھا، اور اس کی سماعت تک رکنیت بر قرار رہتی تھی ، مطلب یہ ہے کہ عدالتی چارہ جوئی کی ساری شکلیں ناکام ہوجاتیں تب رکنیت ختم ہوتی تھی۔
 من موہن سنگھ کی وزارت میں عدالت کے اس فیصلے کو بدلنے کے لیے آر ڈی ننس لانے کی کوشش کی گئی ، جسے راہل گاندھی نے ہی پارلیامنٹ میں بکواس قرار دے کر پھاڑ کر پھینک دیا تھا ، اگر وہ آر ڈی ننس پاس ہوجاتا تو آج راہل گاندھی کو یہ دن دیکھنا نہیں پڑتا، اس فیصلہ کے پہلے شکار لا لو پرشاد یادو ہوئے، 2013میں ان کی پارلیامنٹ کی رکنیت ختم ہوئی، جگدیش شرما ، رشید مسعود، مترسین یادو، اعظم خان، عبد اللہ اعظم کی رکنیت کو بھی اسی قانون کے تحت ختم کیا گیا، لکشدیپ کے لوک سبھا ممبر پی پی محمد فیضل کو بھی نکالا گیا، کیرالہ ہائی کورٹ نے فوری طور سے اس فیصلہ پر روک لگائی، معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے، لیکن ہائی کورٹ کے روک لگانے کے با وجود انہیں پارلیامنٹ میں گھسنے نہیں دیا جا رہا تھا، گذشتہ دنوں سپریم کورٹ میں اس کی سماعت ہوئی تھی تو فیصلہ کے قبل ہی پارلیامنٹ سکریٹریٹ ان کی رکنیت بحال کر دی ۔
 اس فیصلہ کا سیاسی پہلو زیادہ اہم ہے اور سب کی نگاہیں اسی پر لگی ہوئی ہیں، جس جملے پر سزا سنائی گئی ہے ، اس سے بڑے بڑے ہتک آمیز جملے ماضی میں مختلف سیاسی قائدین کے ذریعہ کہے جاتے رہے ہیں، کسی پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی، کیوں کہ وہ سب منظور نظر تھے، ماضی کے اوراق پلٹیے تو معلوم ہوگا کہ اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری باجپائی نے کہا تھا کہ’’ کیا وجہ ہے کہ مسلمان کسی کے ساتھ چین سے نہیں رہ سکتے‘‘، لال کرشن اڈوانی نے مسلمانوں کو ’’ہندو محمدی‘‘ کہنے کا مشورہ دیا تھا، اور کہا تھا کہ’’ تمام مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں، لیکن تمام دہشت گرد مسلمان ہیں‘‘، آر ایس ایس سر براہ ہندوستان کے تمام باشندوں کو ’’ہندو‘‘ کہتے نہیں تھکتے، سابق دو مرکزی وزراء نے عہدہ پر رہتے ہوئے تمام سیکولر لوگوں کو گالیاں دیتے ہوئے کہا تھا کہ’’ ملک کے تمام سیکولر لوگ ناجا ئز اولاد ہیں‘‘، فہرست بہت طویل ہے ، بہوجن سماج وادی پارٹی کی صدر کو طوائف ، دیش کے غداروں کو گولی مارو سالوں کو، یہ جملے بھاجپا کے دوسرے تیسرے درجہ کے لیڈران کے ہیں، سر فہرست رہنے والے بھاجپا قائدین کے بیان میں سونیا گاندھی کو کانگریس کی بیوہ ، کانگریس ایم پی ششی تھرور کی آنجہانی بیوی سونندا کو پچاس کروڑ کی گرل فرینڈ، سی اے اے، این آر سی کے خلاف تحریک چلانے کے بارے میں یہ کہنا کہ ’’دنگائی اپنے کپڑوں سے پہچانے جاتے ہیں‘‘ یہ اور اس قسم کے جملے بھی ہتک آمیز ہیں، جو ایک خاص طبقہ کو ذلیل کرنے کے لیے استعمال کیے گیے، کیا ان جملوں پر کاروائی نہیں ہونی چاہیے تھی ، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوسکا، گاج گری تو راہل پر، وہ بھی کرناٹک سے مقدمہ سورت ٹرانسفر کرانے کے بعد، اب بھاجپا اور کانگریس سڑکوں پر اتر رہے ہیں، بھاجپا اس جملے کو دلت مخالف کہہ کر عوام کے پاس جائے گی اور کانگریس عوام کو بتائے گی کہ راہل کی رکنیت کا ختم کرنا ایک سازش کے تحت ہے ، تاکہ وہ پارلیامنٹ میں مودی اور اڈانی کے رشتوں پر مزید روشنی نہ ڈال سکیں۔
 راہل گاندھی کے ساتھ پوری کانگریس اور اٹھارہ( 18) پارٹیاں کھڑی ہیں، معاملہ ہی کچھ ایسا ہے ، ابھی علامتی دھرنے اور احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا ہے، یہ زور بھی پکڑ سکتا ہے ، کانگریس کو اتنا فائدہ تو ضرور ہوا ہے کہ حزب مخالف اس فیصلے کے خلاف ایک آواز ہو گیا ہے ، ممتا بنرجی اور محبوبہ مفتی کانگریس سے دوری بنائے رہنے کے اپنے عزم کے باوجود اس معاملہ میں راہل کی حمایت میں بول رہی ہیں، سیاسی تجزیہ نگار یہ بھی کہتے ہیں کہ اگلے انتخاب میں کانگریس کو اس فیصلہ کی وجہ سے ہمدردی کا ووٹ بھی مل سکتا ہے، جیسا اندرا گاندھی کے ساتھ 1977کے بعد 1980میں ہوا تھا، اور اکثریت سے ان کی اقتدار میں واپسی ہوئی تھی ۔
 اس واقعہ کے بعد راہل گاندھی نے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں اڈانی اور وزیر اعظم کے رشتوں پر سوال اٹھائے ، بیس ہزار کروڑ روپے کہاں سے آئے؟ اس کو دہرایا اور کہا کہ ہم ساورکر نہیں ، گاندھی ہیں، گاندھی معافی نہیں مانگتے، یقینا راہل گاندھی ساور کر نہیں ہیں، لیکن یہ بھی سچ نہیں ہے کہ انہوں نے کبھی معافی نہیں مانگی، دو تین بارکی معافی تو ہم جیسوں کو بھی یاد ہے، آر ڈی ننس کی کاپی 2013میں انہوں نے پھاڑی تھی اس کی معافی انہوں نے 2018میں مانگی، 2018میںرافیل معاملہ پر پھنسنے کے بعد انہوں نے 2020میں معافی مانگی تھی2018میں ’’چوکیدار چور ہے‘‘ کہنے پر 2019میں وہ معافی مانگ کر بچے تھے، معافی مانگنے والے راہل گاندھی اکیلے نہیں ہیں، دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجری وال پر آنجہانی ارون جیٹھلی نے دس کروڑ روپے کا ہتک عزتی کا مقدمہ کیا تھا، تین سال بعد اروند کیجری وال نے تحریری معافی مانگ کر اس مقدمہ سے چھٹکارا پایا تھا، انہوں نے مختلف معاملات میں کپل سبل اور نتن گڈکری سے بھی معافی مانگ کر خودکو بچا یا تھا، لیکن اس معاملہ میں راہل گاندھی ایسا نہیں کر سکے اور پارلیامنٹ کی رکنیت سے ہاتھ دھونا پڑا۔ کہتے ہیں کہ کرکٹ اور سیاست میں کچھ نہیں کہا جا سکتاکہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، اس لیے انتظار کیجئے اور دیکھیے آگے آگے ہوتا ہے کیا۔

مافیا ڈان کون۔۔۔۔۔۔؟

مافیا ڈان کون۔۔۔۔۔۔؟ 
Urduduniyanews72
  ٹانڈہ۔ امبیڈکر نگر (یو،پی)آج قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن کےصدرمشہورادیب وشاعر اورصحافی انس مسرورانصاری نےاپنےاایک بیان میں کہاکہ عتیق احمداوران کےبھائی اشرف احمدکو اترپردیش کی بھاجپاحکومت نے بہت چالاکی، عیاری اور عدالتی جواب دہی سے بچنے کے لیے دونوں بھائیوں کے قتل کی سپاری دے کرانھیں منصوبہ بندطریقےسے قتل کروایا ہے۔انھوں نے کہا کہ جس دن عتیق اور اشرف کو قتل کیاجاناتھا،مجھے میرےایک بھاجپائی دوست نےصبح سویرے ہی بتا دیا تھا کہ آج عتیق اور اشرف کوگولی ماردی جائےگی۔ جب میں نے بے یقینی کااظہار کیا تو اس نے کہا۔۔دو بجے دن کی نیوز میں سن لینا،، 
 پھر وہی ہوا جو اس نےکہاتھا۔اس کا مطلب یہ ہےکہ گاؤں کےرہنے والےایک عام بھاجپائی کوبھی معلوم تھا کہ آج کیاہونےوالاہے۔خاص بھاجپائی لوگوں کی تو بات ہی الگ ہے۔ 
  عجیب بات ہےکہ سیکوریٹی کی موجودگی میں عتیق کے جسم میں آٹھ گولیاں اوراشرف  کے جسم میں پانچ گولیاں تین شوٹروں نےاتار دیں اورحفاظتی دستہ کھڑا تماشےدیکھتارہا۔ اور اب تحقیق اور کھوج بین کا ڈرامہ کیاجا رہاہے۔ سچ یہ ہےکہ سیکوریٹی کو بھی معلوم تھا کہ ابھی کیا کچھ ہونے والا ہے۔ 
 ان سے پہلے ان کےبیٹےاسداوراس کے ایک ساتھی کومڈبھیڑکےڈرامےمیں ماراجاچکاہے۔
یوپی کےسی،ایم آدتیہ ناتھ نےاپنا وعدہ پورا کر دکھایا کہ۔۔عتیق اوراس کے خاندان کو مٹی میں ملادوں گا،،سو ملادیا۔ 
 جنیداورناصرکوبغیرکسی قصورکےگاڑی میں بندکر کےزندہ جلادیاگیا۔ان کےقاتلوں کو سزا کیوں نہیں۔؟کیونکہ وہ بجرنگ دل کے لوگ ہیں جو آرایس ایس کےجنونیوں کی ایک جماعت ہے۔اس موقع پر انس مسرورانصاری نےبی،جے،پی پر سوال اٹھاتے ہوئے ان مجرموں کی ایک فہرست پیش کی جو آج بی،جے،پی حکومتوں میں بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں۔ 
جن کےکالےکارناموں سےدنیاواقف ہے۔ہندو انتہاپسندوں کومسلمانوں سے انتہائی نفرت ہے۔ضرور نفرت کرو لیکن نفرت کے انجام پر بھی ضرور غوروفکر کرلو۔۔۔،، 
   انھوں نے کہا کہ بھاجپاآرایس ایس کے اشارےپر آج پھر ملک کو توڑنے کی سیاست کررہی ہے۔اسی کواندھیرنگری،چوپٹ راج کہتے ہیں۔ 
    انھوں نے مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔۔ گنگا جمنی تہذیب کواٹھاکررکھوطاق میں اور اپنی اسلامی تہذیب کو اختیارکرو۔بہت ہوچکا۔۔بہت ہوچکا۔۔۔۔ اب اورنہیں۔اب  اورنہیں۔ دیکھو!سروں کی فصلیں پک چکی ہیں۔۔ کٹائی کا موسم آنےوالاہے۔اپنی آنکھیں کھولو ورنہ بے موت مار دئیے جاؤ گے۔اپنی قومی غیرت اورحمیت کوبیدارکرو۔اپنے اسلاف کےکارناموں کویادکرو۔ان کی روحوں کوشرمندہ نہ کرو۔۔اپنے ملک کو تباہی وبربادی سےبچاؤ۔یہ مجرموں اور لٹیروں کا راج ہے۔ 
سیکولرزم اورآئین کےسرناموں پر ان لوگوں نے موت کے دستخط کردئیے ہیں۔ اس سے پہلے کہ ان کی سیاہی خشک ہو جائے،ملک کو بچانے کی تدبیریں کرلو۔،، 
    انس مسرورانصاری نے ملک کی موجودہ عدلیہ پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے کہا:۔ 
   منصفی اب عدلیوں سے آگئی بازار تک
    لرزش  د ست و قلم ا و ر فیصلے ٹوٹے
 
  اپنےاپنےمسئلےہیں اپنی اپنی ہے صلیب
   آدمی پر سانحوں پر سانحے ٹوٹے ہوئے
     انھوں نے مزید کہا کہ۔۔ہم مانتے ہیں کہ عتیق ایک کریمنل اور مافیا ڈان تھالیکن ہر جرم کی سزادینےکااختیارعدالت کوہے۔سوال یہ بھی ہےکہ کیا عتیق اوراس کے کنبہ کو قتل کرنے میں اس لیے عجلت کی گئی تاکہ یہ معاملہ میڈیا میں خوب گرم ہوجائےاورپلوما کا معاملہ دب جائے۔؟ہم عتیق کی حمایت نہیں کرتے لیکن جو کچھ ہوا وہ غلط ہوااور
صرف مسلمان کے نام پر ہوا۔
   ذیل میں بھاجپائی کریمنلوں اورمافیاؤں  کی جوفہرست دی جارہی ہے وہ بہت مختصر ہے لیکن کیا یہ لوگ دودھ کےدھلےہوئے ہیں۔؟ 
 ان مجرموں کے خلاف ایکشن کب لیا جائے گا۔؟شاید کبھی نہیں۔ کیوں کہ وہ مسلمان نہیں،ہندو ہیں۔ ایسا کب تک چلے گا۔؟؟
     نام                   مقدمات         مقام
 کلدیپ سنگھ سنگر     28/     ( اناؤ ) 
 برجیش سنگھ           106/    (وارنسی)   
 دھننجے سنگھ            46/     (جونپور) 
 راجہ بھیا                 ۔31/     (پرتاپ گڑھ) 
 ڈاکٹراودئےبھان سنگھ ۔83/    ( بھدوہی) 
اشوک چندی                37/     (حمیرپور) 
وینیت سنگھ                34/     (چندوشی) 
برج بھوشن سنگھ        84/      ( گونڈہ) 
بلبل سنگھ                   53/      (بنارس) 
سونو سنگھ                 57/     (سلطانپور) 
مونو سنگھ                  48/    (سلطانپور) 
اجئےسنگھ سپاہی         81/     (مرزاپور) 
پنٹو سنگھ                   23/  (ضلع بستی) 
شنی سنگھ                   48/   (دیوریا) 
سنگرام سنگھ               58/    (بجنور) 
چنوسنگھ                     42/     (مہوہ) 
بادشاہ سنگھ                 88/     (مہوہ) 
   ہوگی مہراج۔!دودھ کےدھلےہوئے اپنےان کریمنل اورمافیادوستوں کےبارےمیں بھی کچھ کہئے۔۔۔ کہئےنا۔۔۔۔۔۔۔۔!؟چپ کیوں ہیں۔؟،، 
              جنرل سیکریٹری
                لاریب مومن
    قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن(رجسٹرڈ)  
 سکراول،اردوبازار،ٹانڈہ۔امبیڈکرنگر (یو،پی)

پیر, اپریل 17, 2023

ایم اے ظفر کا انتقال ___اردو صحافت کا بڑا نقصانمفتی محمد ثناءالہدی قاسمی

ایم اے ظفر کا انتقال ___اردو صحافت کا بڑا نقصان
مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی 
Urduduniyanews72
پٹنہ پریس ریلیز ( 17 اپریل 2023)
ہفت روزہ نقیب امارت شرعیہ کے مدیر اعلی،اردو میڈیا فورم اور کاروان ادب کے صدر،اردو کارواں کے نایب صدر مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی نے فاروقی تنظیم کے مدیر اور مالک ایم اے ظفر کے انتقال پر گہرے صدمے کا اظہار کیا ہے ۔مفتی صاحب نے فرمایا کہ اس خاندان سے میرے تعلقات انتہائی قدیم بلکہ دور طالب علمی سے رہے۔میں ان کے نامور والد مولانا فاروق الحسینی رح کی خدمت پر 1976میں جمیعت علماء کے اجلاس سمستی پو ر کے موقع سے مامور کیا گیا تھا ۔مولانا کے انتقال کے بعد بھاءی ایم اے ظفر سے بھی سلام و دعا رہی۔بعض رشتے دار کی شادی کے موقع سے مجھے نکاح پڑھانے کے لیے بھی انہوں نے  مدعو کیا ۔سب سے بڑی بات یہ تھی کہ وہ میری تحریر کے بڑے مداح تھے۔فاروقی تنظیم کے قارءین اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ کم وبیش ہر دن فاروقی تنظیم میں میرے مضامین چھپتے رہے۔کبھی کبھی تو دو دو مضامین لگا دیتے تھے پابندی سے اخبار کا پی ڈی ایف میرے واٹسپ پر ہر روز بھیجا کرتے تھے یہ ان کے تعلق اور محبت کی بات تھی۔ان کی محنت اور توجہ کے طفیل فاروقی تنظیم نے بہار اور جھار کھنڈ میں اپنی پہچان بنائی اور اس کے قاری کا حلقہ وسیع سے وسیع تر ہو تا گیا۔آج17اپریل کو انکے انتقال کی خبر آءی۔ان کا انتقال اردو صحافت کا بڑا نقصان ہے۔میں ان کے اہل خانہ فاروقی تنظیم کے تمام عملہ خصوصاً خورشید پرویز صدیقی اور فاروقی تنظیم کے قارءین کی خدمت میں تعزیت مسنونہ پیش کرتا ہوں اور  انکے لیے مغفرت اور ترقی درجات کی دعا کے ساتھ لواحقین کے لیے صبر جمیل اللہ سے مانگتا ہوں ۔

ایک نظم ملت اسلامیہ کے لیے /قتل گاہوں پہ ہے نیزوں پر سروں کی فصلیں تم جو خاموش رہو بھی تو لہو بولے گا ظلم کے پاؤں سے کچلی ہوئی ساکت لاشیں چپ نہ رہ پائیں گی اور وقت زباں کھولے گامنتظر وقت کے میدان میں آئے مظلومو! پنی جمعیت بیکس کو صف آراء کر لو أخرى معرکہء ظلم و صداقت ہو جائے سرنگوں ہو کے نہ تم جینا گوارا کر لو زندگی صرف سک کر نہیں جینے کے لیے موت، گرداب سے ڈرنا ہے سفینے کے لیےانس مسرور انصاری

ایک نظم ملت اسلامیہ کے لیے /

Urduduniyanews72

قتل گاہوں پہ ہے نیزوں پر سروں کی فصلیں تم جو خاموش رہو بھی تو لہو بولے گا ظلم کے پاؤں سے کچلی ہوئی ساکت لاشیں چپ نہ رہ پائیں گی اور وقت زباں کھولے گا

منتظر وقت کے میدان میں آئے مظلومو! پنی جمعیت بیکس کو صف آراء کر لو أخرى معرکہء ظلم و صداقت ہو جائے سرنگوں ہو کے نہ تم جینا گوارا کر لو زندگی صرف سک کر نہیں جینے کے لیے موت، گرداب سے ڈرنا ہے سفینے کے لیے

انس مسرور انصاری

جس چیز کی نسبت قرآن سے جڑ گئی اس چیز کی اہمیت بڑھ گئی :مولانا ومفتی سہیل احمد قاسمی۔

جس چیز کی نسبت قرآن سے جڑ گئی اس چیز کی اہمیت بڑھ گئی :مولانا ومفتی سہیل احمد قاسمی۔
Urduduniyanews72
جامعہ مسجد خواجہ پورہ پٹنہ میں نماز تراویح میں قرآن مجید بحسن خوبی اختتام پذیر ہوا

خواجہ پورہ پٹنہ مورخہ 17 اپریل (پریس ریلیز :محمد ضیاء العظیم) جامعہ مسجد خواجہ پورہ پٹنہ میں بروز اتوار 24/رمضان المبارک پچیس کی شب نماز تراویح میں قرآن مجید بحسن خوبی اختتام پذیر ہوا ،اس موقع پر چار اہم علماء کرام مولانا ومفتی سہیل قاسمی امارت شرعیہ پٹنہ ،مولانا نورالحق رحمانی ، مولانا محمد عظیم الدین رحمانی اور مولانا ایوب نظامی قاسمی ناظم مدرسہ صوت القرآن دانا پور پٹنہ کی نصیحت آموز خطاب ہوئے ، ساتھ ساتھ عفان ضیاء بن مولانا محمد ضیاء العظیم قاسمی کا رسم مکتب مولانا نورالحق رحمانی صاحب کے ذریعہ ہوا،
واضح رہے کہ جامعہ مسجد خواجہ پورہ پٹنہ میں ملک کے مشہور ومعروف عالم دین وصحافی مولانا عبد الواحد ندوی صاحب نے بڑے خوبصورت لب ولہجہ کے ساتھ پچیس شب میں نماز تراویح میں قرآن مجید سنایا ۔مولانا موصوف ایک نیک طبیعت عالم دین اور مشہور صحافی ہیں جنہوں نے اپنے نام یہ سعادت حاصل کی، اہلیانِ خواجہ پورہ نے مقتدیوں کی ضیافت میں عمدہ نظم ونسق کر رکھا تھا، خواجہ پورہ مسجد یہ شہر پٹنہ کے بیلی روڈ پر واقع ہے رمضان المبارک کے موقع پر یہاں چہل پہل میں اضافہ ہوا کرتا ہے، پنجگانہ ونماز تراویح میں نمازیوں کا ہجوم ہوتا ہے، مسافروں کے لئے بطور خاص افطار کا عمدہ نظم ونسق ہوتا ہے، ہر دن تقریباً ڈیڑھ سو روزہ دار یہاں افطار کرتے ہیں۔
یقیناً قرآن مجید لا ریب کتاب ہے ، فرقان حمید اور اللہ رب العزت کی با برکت کتاب ہے۔یہ رمضان المبارک کے مہینے میں لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر نازل فرمائی گئی۔رمضان المبارک بابرکت مہینہ کا نام ہے جس میں دنیا بھر کے مسلمان بڑے اہتمام سے روزہ رکھ کر اپنی بندگی کا اظہار کرتے ہیں، قرآن مجید تئیس سالوں کے عرصہ میں نبی ﷺپر اتارا گیا۔قرآن مجید ہماری زندگی کا سب سے قیمتی سرمایہ اور ضابطۂ حیات ہے۔ یہ جس راستے کی طرف ہماری رہنمائی کرے ہمیں اُسی راہ پر چلتے رہنا چاہیے۔ کیونکہ قرآن مجید ہماری دونوں زندگیوں کی بہترین عکاس کتاب ہے۔لہٰذا یہ قرآن ہمیں رہنمائی کرتے ہوئے کہتا ہے کہ مجھ پرایمان لانے، مجھے تلاوت کرنے، مجھے سمجھنے، اور مجھ پر عمل پیرا ہونے سے تم فلاح پاؤ گے، عزت و منزلت اور وقار حاصل کرو گےاور مجھ سے دوری کا نتیجہ دنیوی واخروی نعمتوں سے محرومی، ابدی نکامی اور بد بختی کے سوا کچھ نہیں ہے ۔

محب اردو حمید انور اور بک امپوریم __مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

محب اردو حمید انور اور بک امپوریم  __
Urduduniyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 ڈاکٹر محمد ممتاز فرخ نجمی بن حمید انور مرحوم خاصے پڑھے لکھے انسان ہیں، ڈبل ایم اے ، پی اچ ڈی اور ایل ایل بی کیے ہوئے ہیں، آبائی وطن میر غیاث چک ڈاکخانہ بر بیگھا ضلع نالندہ ہے، لیکن رہائش ان دنوں بی-۳، سکنڈ فلور اے ساجدہ گلیکسی اپارٹمنٹ نیو کجھور بنہ، پتھر کی مسجد پٹنہ ۶؍ ہے۔ بہار قانون ساز کونسل کے شعبہ اردو میں سیکشن افسر ہیں، فکر تو نسوی حیات وخدمات ان کی پی اچ ڈی کا مقالہ ہے، اور محب اردو حمید انور اور بک امپوریم ان کی تالیف، آخر الذکر میرے زیر مطالعہ ہے ، تین سو چھتیس (336)صفحات پر مشتمل یہ کتاب سات ابواب پر مشتمل ہے، کتاب کا آغاز عرض مرتب سے ہوتا ہے ، اس کے بعد جناب محمد شکیل استھانوی کی توقیت حمید انور ہے ، کتاب کا پہلا باب مضامین وتاثرات پر مشتمل ہے ، دوسرے تیسرے باب میں مشاہیر کے مکتوبات کو جگہ دی گئی ہے ، دوسرے باب میں تعلقات اور تیسرے باب میں تعزیت کے حوالہ سے مکتوبات کو جمع کیا گیا ہے ، دوسرے باب کے مکتوبات خود حمید انور صاحب کے نام ہیں ، جب کہ ان کے انتقال کے بعد تعزیتی خطوط  فطری طور پر ان کے صاحب زادگان کے نام ہیں، چوتھا باب منظومات ہے، جس میں علقمہ شبلی کے قطعہ تاریخ وفات اور پروفیسر راشد طراز کے خراج عقیدت کو جگہ دی گئی ہے، پانچویں باب میں حمید انور صاحب کی ڈائری کے منتخب حصہ کو شامل کیا گیا ہے ، چھٹے باب میں متفرقات اور ساتویں باب میں تصاویر کا البم ہے۔ ۲۰۲۲ء میں چھپی اس کتاب کی کمپوزنگ شادماں کمپیوٹر شاہ گنج پٹنہ نے کی ہے ، امتیاز انور فہمی کے زیر اہتمام روشان پرنٹرس دہلی کے مطبع سے چھپواکر ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی نے شائع کیا ہے، بک امپوریم سبزی باغ پٹنہ کا نام تقسیم کار کے طور پر درج ہے۔ 336صفحات کی قیمت 350/-روپے زائد ہے ، لیکن کیا کیجئے اردو کتابوں کی طباعت کے بعد مفت تقسیم اور بک سیلروں کو دی جانے والی کمیشن کا بار بھی ان ہی حضرات کو اٹھانا پڑتا ہے جو کتاب خرید کرپڑھا کرتے ہیں، کتاب کا انتساب حمید انور صاحب کے لیے دعاء مغفرت کی گذارش کے ساتھ معزز قارئین کے نام ہے ، ممتاز فرخ نجمی نے یہ ایک اچھی طرح ڈالی ہے، اس رسم میں قارئین کو ہی فراموش کر دیا جاتا ہے ، جن کے لیے کتاب لکھی جاتی ہے ، عموما انتساب مالداروں یا اساتذہ کرام کی طرف کیا جاتا ہے، جنہیں کتاب پڑھنے کی فرصت ہی نہیں ہوا کرتی ہے ۔
 کتاب کا نام محب اردو حمید انور کافی تھا، بک امپوریم جوڑنے کی وجہ سے بک امپوریم غالب ہو گیا ہے، اور حمید انور کی شخصیت کے دوسرے کئی پہلو دب سے گیے ہیں،ا یسا لگتا ہے کہ پوری زندگی انہوں نے بک امپوریم کی ترقی کے لیے کام کیا ، ہر مضمون نگارنے ادباء شعراء سے ان کے گہرے مراسم اور تعلقات کا ذکر کیا ہے، لیکن یہ مراسم بک امپوریم ہی کے حوالہ سے ہیں، یقینا بک امپوریم حمید انور صاحب کا میدان عمل رہا ہے، اور بہت سارے لوگ اسی حوالہ سے ان سے جڑے ، لیکن یہ ان کی زندگی کا صرف ایک پہلو ہے، دوسرے اوصاف وخصائل پر بھی بھر پور روشنی کی ضرورت تھی، جس کا اس کتاب میں فقدان محسوس ہوتا ہے، بعض مضمون نگاروں نے کچھ رقم کیا ہے تو وہ ضمنی محسوس ہوتا ہے ، اور قاری کی توجہ مبذول کرانے میں کامیاب نہیں ہے۔
 کتاب کے مرتب اور مرحوم کے صاحب زادہ ڈاکٹر محمد ممتاز فرخ نجمی کا عرض مرتب اس سے مستثنیٰ ہے، انہوں نے داستانی انداز میں اپنے والد کی کتاب زندگی کے اوراق کو الٹا تو الٹتے چلے گیے ، یہ پورا مضمون مرحوم حمید انور کی زندگی کو سمجھنے کے لیے انتہائی اہم ہے ، یہ بھی حقیقت ہے کہ اس طرح کوئی گھر کا بھیدی ہی لکھ سکتا تھا، ڈاکٹر محمد ممتاز فرخ نے عرض مرتب میںاپنے والد کی زندگی کا گہرا مطالعہ پیش کیا ہے ، یہ مطالعہ اس کتاب کا سب سے اہم مضمون ہے، یہ حمید انور صاحب کی مقبولیت کی بات ہے کہ ان پر بڑے ادباء شعراء نے بھی اس مجموعہ کے لیے قیمتی مضمون لکھے ہیں، انیس رفیع، رضوان اللہ آروی، سید احمد قادری، شبیر حسن شبیر ، ضیاء الرحمن غوثی، طلحہ رضوی برق، ظفر کمال ، ظہیر انور ، عاصم شہنواز شبلی، عبد الصمد ، عطا عابدی، قاسم خورشید، کوثر مظہری ،شکیل استھانوی، محمود عالم، مشرف عالم ذوقی، ڈاکٹر ممتاز احمد خان حاجی پوری ، مناظر عاشق ہرگانوی ، منور رانا وغیرہ جس شخصیت پر قلم اٹھا دیں تو اس کی معتبریت میں شبہہ کی گنجائش کہاں باقی رہتی ہے ، مکاتیب کے باب میں بھی علقمہ شبلی ، علی سردار جعفری، مظہر امام ، الیاس احمد گدی، حرمت الاکرام، ظہیر انور ، فضا بن فیضی، سلام بن رزاق ، مظفر حنفی ، حامدی کا شمیری، پروفیسر محمد حسن، اسلوب احمد انصاری، کلام حیدری ، شکیل الرحمن، شمس الرحمن فاروقی، عنوان چشتی، شمس مظفر پوری، رضا نقوی واہی، پروفیسر ظفر اوگانوی وغیرہ کے خطوط حمید انور مرحوم کے تعلقات کی وسعت اور قدر دانی کی غماز ہیں، اس باب میں مختلف عنوانات کے تحت علقمہ شبلی کی نظم خاصے کی چیز ہے ، جو انہوں نے’’ میرے ساتھی میرے حمید انور‘‘ کے حوالہ سے لکھی ہیں، ان میں واردات قلبی کا اظہار چھوٹی بحر میں سہل ممتنع کے ساتھ کیا گیا ہے ، اشعار کی بر جستگی ، سادگی اور ماجرا نگاری سے قاری متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا، اس باب کے بیش تر خطوط اچھے ہیں اور ان میں مکتوب نگاری کے فن کو برتا گیا ہے ، لیکن ان خطوط میں یکسانیت ہے، معاملات کا ذکر ہے، کتابوں کے نکلنے کا شکریہ ہے اور نئی کتابوں کے لیے مار کیٹ بنانے کی توقعات ہیں، ان خطوط کو سپاٹ بے رس تو نہیں کہا جا سکتا، لیکن ان میں جذبات کی شدت اور قلبی وارفتگی کی کمی کھٹکتی ہے، ایسا لگتا ہے کہ سب ضرورت کے بندے ہیں اور اپنی غرض سے حمید انور صاحب سے تعلقات بنائے ہوئے ہیں، یا بنائے رکھنا چاہتے ہیں، البتہ یہ ضرور ہے کہ مکتوب نگار کے اپنے اپنے اسلوب نے اسے اس لائق ضرور رکھا ہے کہ قاری اسے پڑھنے پر مجبور ہوجائے۔ تیسرے باب میں تعزیتی خطوط بھی کم وبیش انہیں حضرات کے ہیں اور سب نے حمید انور صاحب کی موت پر غم وافسوس کا اظہار کیا ہے، بعضوں نے ان سے تعلقات پر بھی روشنی ڈالی ہے، جس سے حمید انور صاحب کی ان حضرات کے نزدیک اہمیت کا پتہ چلتا ہے ، علقمہ شبلی سے مرحوم کا جو تعلق تھا وہ ایک اچھے دوست اور ساتھی کا تھا، انہوں نے ’’ماتم مرگ حمید انور خوش دل ‘‘ سے سن وفات 2000نکالی ہے، ایک دوسری تاریخ ہجری ہے جو’’ تربت میں حمید انور ‘‘ سے نکلتی ہے ۔ علقمہ شبلی نے حمید انور کی ذاتی خصوصیات کو تین اشعار میں نظم کیا ہے۔ 
دلدار تھا ، ہم دم تھا ، غم خوار تھا، مخلص تھا

 وہ ناز رفاقت تھا، اخلاص کا تھا پیکر 
رکھتا تھا خبر سب کی ہم درد تھا وہ سب کا 

 ایک اس کے نہ ہونے سے ماتم ہے بپا گھر گھر 
وہ خادم اردو تھا مخدوم ہمارا تھا

 گردش میں رہا برسوں ایسا تھا وہ اک ساغر
 پانچواں باب مرحوم کی ڈائری کے اقتباسات ہیں، جس میں انہوں نے سیاسی وسماجی جلسے مشاعرے اور نظم سے اپنی دلچسپی اور مطالعہ کے شوق کا اظہار کیا ہے، لائبریری سے تعلق اور اپنی امامت کا ذکر کیا ہے ، بچی کا غم ، ایوب صاحب، نہرو اور گرودت کی موت کا واقعہ بھی مع تاریخ درج ہے ، لیکن یہ اوراق بہت کم ہیں، ان کی ڈائری کے مزید اوراق کھولے جاتے تو مزید لعل وگہر قارئین تک پہونچانا ممکن ہوتا، متفرقات والا حصہ بھی معلوماتی ہے اور اس کے پڑھنے کا اپنا ایک مزہ ہے، آخر میں البم میں جو تصاویر ہیں وہ عمر کے بڑھتے ہوئے سائے اور سر گرمیوں کی روداد ہمیں سناتے ہیں، مجموعی طور پر کتاب لائق مطالعہ اور حمید انور صاحب کی زندگی کے نقوش کو جمع کرنے کی قابل قدر کوشش ہے۔
 حمید انور صاحب سے میری بھی ملاقات اور دید شنید تھی، میں ان دنوں مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور ویشالی میں استاذ تھا، مدرسہ میں ہی الماری میں ضرورت کے مطابق کتابیں رکھتا تھا، بچوں کی ضرورتیں پوری ہوتی تھیں، تجارتی معاملات اصلا کتاب منزل سے ہوا کرتا تھا، قاضی رئیس احمد صاحب مالک کتاب منزل اور استاذ مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ حیات سے تھے، نشست وبرخواست وہیں ہوا کرتی تھی، کوئی کتاب پسند آجاتی تو بک امپوریم سے بھی خرید لیتا ، لیکن حمید انور صاحب کے چہرے پر جو سنجیدگی مجھ سے بات کرتے وقت ہوتی اس کی وجہ سے کھل کر باتیں کرنے کا موقع کبھی نہیں ملا، اور نہ میں نے کبھی ہمت کی، عمر کا فاصلہ بھی اس میں مانع تھا، اس کتاب کو پڑھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ وہ کس طرح لوگوں سے گھل مل جاتے تھے، کاش میری بھی کوئی ملاقات ان سے اس قسم کی ہوتی۔ اے بسا آرزو کہ خاک شد

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...