Powered By Blogger

بدھ, جولائی 26, 2023

مولانا سہیل احمد ندوی __:ایسی موت جس پر رشک آیے✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

مولانا سہیل احمد ندوی __:ایسی موت جس پر رشک آیے
اردودنیانیوز۷۲ 
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھار کھنڈ کے نائب ناظم ،امارت شرعیہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر ٹرسٹ کے جنرل سکریٹری ،دارالعلوم الاسلامیہ امارت شرعیہ کے سکریٹری مولانا سہیل احمد ندوی کا آج 25جولایی 2023 کو کٹک سے120کلو مٹر دور بحالت سجدہ ظہر کی نماز میں انتقال ہو گیا۔جنازہ کی ایک نماز بعد نماز عصر کٹک میں دارالقضا کے صحن میں ہویی۔جنازہ پٹنہ لا یا جارہا ہے تدفین آبائی گاؤں بگہی مغربی چمپارن میں ہوگی  پٹنہ میں بھی جنازہ 12بج کر 15 منٹ پر امارت شرعیہ پھلواری شریف  کے احاطے میں ادا کیا جائے گا ۔
مولانا سہیل احمد ندوی بن شکیل احمد کی ولادت بگہی موجودہ ضلع مغربی چمپارن کے ایک زمین دار گھرانے میں 60سال قبل ہویی۔ ان کے پردادا شیخ عدالت حسین،مجاہد آزا دی ، گاندھی جی، مولانا ابوالمحا سن محمد سجاد کے رفقاء میں تھے،دارالعلوم دیوبند میں عربی درجات کی تعلیم حاصل کی ۔دارالعلوم کے قضیہ نامرضیہ کے زمانے میں وہ دارالعلوم چھوڑ کر ندوۃ العلماء لکھنؤ چلے آءے اور یہیں سے عالمیت کی تکمیل کی تکمیل کی فراغت کے معا بعد وہ امارت شرعیہ میں کارکن کی حیثیت سے بحال ہوءے۔پہلے معاون ناظم،پھر نائب ناظم ،اس کے بعد ٹرسٹ کے سکریٹری منتخب ہوءے۔مفتی جنید صاحب کے بعد دارالعلوم الاسلامیہ امارت شرعیہ کے ناظم بناءے گیے  اور زندگی کی آخری سانس تک ان عہدوں کے تقاضے کو پورا کر تے رہے۔کٹک کا سفر بھی یو سی سی کے خلاف بیداری مہم کے لیے کیا تھا،راور کیلا سے وہ آج ہی کٹک پہونچے تھے۔120کلو میٹر دور ایک اجتماع کو خطاب کیا ظہر کی نماز کے لیے وضو کیا
نماز میں شریک ہوءے،بہلی رکعت کے دوسرے سجدے میں جان جاں آفریں کے سپرد کر دیا،سدا رہے نام اللہ کا۔دین کے کام کے لیے سفر۔مسافرت کی موت اور وہ بھی سجدے  میں مغفرت اور بخشش کے کتنے اشارے اللہ نے جمع کر دیے تھے
 میں آج سے کوءی 20سال قبل مدرسہ احمدیہ ابابکر  پور سے حضرت امیر شریعت سادس کے حکم پر امارت شرعیہ آیا اس زمانے میں وہ معاون ناظم تھے۔انہوں نے زمانہ دراز تک قاضی نورالحسن میموریل اسکول کے سکریٹری کی حیثیت سے کام کیا اور ابھی بھی وہ  اس عہدہ پر متمکن تھے۔وہ جری،ملنسار،اور انتظامی امور کے ماہرتھے۔پلاننگ, منصوبہ بندی اور ان پر عمل درآوری کی شکلوں پر انکی گہری نظر تھی،کءی لوگ انہیں دفتر میں بھیا کہا کرتے تھے۔ایڈ جسٹمنٹ کی غیر معمولی صلاحیت ان میں تھی،وہ ہر دور میں امراء شریعت کے معتمد رہے۔دفتر کے کارکنان ان کی صلاحیت کے قایل تھے۔راقم الحروف سے ان کے تعلقات مخلصانہ تھے،امارت شرعیہ کے کاموں کو آگے بڑھانے میں ہم ایک دوسرے  کےمعاون ہوا کرتےتھےاور مشاورت سے کام آگے بڑھتا تھا،
آج بھی ہم لوگوں نے صبح8بجے دیر تک زوم پر مشورہ کیا تھا ،کیا معلوم تھا کہ یہ آخری ملاقات ہوگی۔اللہ مغفرت فرمائے پس ماندگان کو صبر جمیل اور امارت شرعیہ کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے ۔ابھی غم تازہ ہے۔
کچھ کہ سناءینگے جو طبیعت سنبھل گءی

✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار ، اڈیشہ وجھارکھنڈ

ابوالمحاسن مولانا محمد سجادؒ
 اور
Urudduinyanews72
مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ ___
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار ، اڈیشہ وجھارکھنڈ
امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ کا قیام 19/ شوال1339 ھ =26 جون 1921ء کو ہوا تھا، اس وقت بانی امارت شرعیہ مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد کی عمر اکتالیس (41) سال (ولادت صفر 1299ء دسمبر1881ئ) تھی، اور مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی (ولادت 1318ھ-1900ء وفات 2 اگست1962ئ) عمر کے اعتبار سے اکیس(21) سال کے تھے، امارت شرعیہ کے قیام کے بعد1922ء میں انہوں نے دارالعلوم دیو بند سے سند فراغت پائی، مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد جمعیت علماء کے قیام کی مجلس امرتسر میں شریک تھے، اس سے قبل خلافت کانفرنس دہلی میں بھی ابوالمحاسن مولانا محمدسجاد نے شریک ہو کر تقریر فرمائی تھی، بقول سحبان الہند مولانا احمد سعید دہلوی اس تقریر کوسن کر’’کوئی آنکھ اور کوئی دل ایسا نہیں تھا جس نے اثر قبول نہ کیا ہو‘‘ (حیات سجاد مضمون مولانا احمد سعید دہلوی) 
سحبان الہندمولانا احمد سعید دہلوی (ولادت1306 ھ=1888ئ) اور مولانا محمد سجاد کی عمر میں صرف نو (9) سال کا فاصلہ تھا، اس کے باوجود مولانا احمد سعید نہ صرف ان سے عقیدت و محبت رکھتے تھے؛ بلکہ باپ کی طرح سمجھتے تھے، چنانچہ لکھتے ہیں: ’’مولا نا مجھ سے اپنی اولاد کی طرح محبت کرتے تھے اور میں بھی ان کی عزت اور ان کا احترام باپ کی طرح کرتا تھا اور بعض جلسوں میں میں نے ان کی موجودگی میں ان تعلقات کا اظہار بھی کیا تھا‘‘ (حیات سجاد) جب سحبان الہند مولانا احمد سعید (م3 جمادی الثانیہ 1379 ھ=4 دسمبر1959ئ) کا عمر میں زیادہ تفاوت نہ ہونے کے باوجود یہ حال تھا تو مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی سے تعلقات کی نوعیت کیا رہی ہوگی، اسے بآسانی سمجھا جاسکتا ہے۔ مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد جمعیت علماء ہند کے ذمہ داروں کے ہر دور میں دست راست رہے، جمعیت علماء بھی ان کی ملی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی تھی اور ان کے مشورے سے کام آگے بڑھتا تھا، ایک زمانہ تک بہار کی حد تک جمعیت علماء اور امارت شرعیہ تو جڑواں تنظیمیں تھیں، یہ تعلق اور انسلاک اس قدر تھا کہ جمعیت علماء کے اس وقت کے صدر شیخ الاسلام حضرت مولاناحسین احمد مدنی رحمتہ اللہ علیہ نے لکھنؤ اجلاس کے بعد ایک سرکلر کے ذریعہ بہار میں جمعیت علماء کو ہدایت دی تھی کہ’’وہ زکوۃ کی رقومات حاصل کرنے کی کوشش نہ کریں؛ بلکہ مسلمانوں کو سمجھا ئیں کہ وہ زکوۃ اور صدقات کی رقم حسب معمول امارت شرعیہ کے بیت المال کو ادا کرتے رہیں‘‘ مولانا نورالدین بہاری (جو اس وقت جمعیت علماء کے ناظم تھے)نے ایک مکتوب کے ذریعہ جمعیت علماء بہار کے ذمہ داران کو اس سے مطلع کیا تھا، اس تعلق کے نتیجے میں دونوں تنظیموں کے ارکان بھی تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ ایک ہی ہوا کرتے تھے، چنانچہ جمعیت علماء ہند کے ذریعہ شروع کی گئی بیش تر تحریکات مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد کے زرخیز ذہن کی پیداوار تھی، بلکہ اس زمانہ میں بیش تر تحریری کام مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد ہی کیا کرتے تھے،مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد’’جمعیت علماء ہند کی میٹنگوں میں پابندی سے شریک ہوتے تھے، وہ جمعیت علماء ہند کے دل اور دماغ تھے، 1938ء میں جب مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ندوۃ المصنفین کے قیام کے بعد مولانا مفتی عتیق الرحمن صاحب کی دعوت پر کلکتہ سے جامعہ عربیہ امروہہ اورپھر مستقل طور پر دہلی منتقل ہوئے تو جمعیت علماء کی سرگرمیوں کے وہ کل وقتی ساتھی بن گئے، اس درمیان انہوں نے مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ کوقریب سے دیکھا، ان کی فکری اور علمی عظمت کے قائل ہوئے، اس وقت سے امارت شرعیہ کے ہر کاموں میں حسب ضرورت و سہولت مجاہد ملت کا تعاون ملتا رہا، مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ نے مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ کے بارے میں لکھا ہے:’’جماعت کے ذمہ دار ارکان اور میں نے بارہا یہ منظر دیکھا ہے کہ جب کسی مسئلہ پر حضرت مولانا محمد سجاد صاحب دلائل و براہین و فقہی بصیرت کے ساتھ بحث فرماتے تو حضرت مفتی(کفایت اللہ)صاحب بھی بے حد متاثر ہوتے اور ان کے علمی تبحر کا اعتراف کرتے ہوئے بے ساختہ ان کی زبان سے کلمات تحسین نکل جاتے (حیات سجاد ص 148) 
مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی نے بانی امارت شرعیہ مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ سے اپنی پہلی ملاقات اور تعارف پر بھی روشنی ڈالی ہے،لکھتے ہیں’’حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد صاحب‘‘نائب امیر شریعت بہار سے میرا تعارف جمعیت علماء ہند کے واسطے سے ہوا تھا، ان کو دہلی میں سب سے پہلے جمعیت علماء کی ایک مجلس مشاورت میں دیکھا اپنے قریب بیٹھنے والوں سے دریافت کیا تو انہوں نے مولانا مرحوم کا تعارف کرایا اور نہ صرف یہ بلکہ میرے اور مولانا کے درمیان تعارف با ہمی کا رشتہ بن گئے اس وقت سے اور تادم وفات حضرت مولانا سے انتہائی ربط و ضبط قائم رہا (حیات سجاد) جمعیت علماء ہند اور امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ کے اسی اشتراک عمل کا نتیجہ تھا کہ جمعیت علماء ہند کے اجلاس مراد آباد کی صدارت مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ نے کی اور اس میں وہ تاریخی خطبہ دیا جس کو مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ نے اسلامی سیاست کی لائبریری میں انسائیکلو پیڈیا قرار دیا ہے۔ 1929ء میں سول نافرمانی کی تحریک شروع ہوئی تو مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ کو نائب امیر شریعت بہار مولانا محمد سجاد کے ساتھ عملی طور پر کام کرنے کا موقع ملا، محلہ بلی ماران کی تاریک گلی میں ادارہ حربیہ‘‘ کے کاموں کی انجام دہی کے لیے جب مولانا محمد سجادؒ مقیم ہوئے تو مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ جو پہلے ہی سے مولانا کے علم و فکر کے مداح اور قدرداں تھے، ان کے دست و باز و؛ بلکہ نفس ناطقہ بن کر سامنے آئے، مولانا سجاد نے انہیں ادارہ حربیہ کے رضا کار ان کا کمانڈر بنا رکھا تھا، ان کے ذمہ گھوم گھوم کر اس تحریک کا جائزہ لینا اور اس کی کامیابی کے لئے جدو جہد کرنی تھی، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ؒنے اس تحریک کو کامیاب کرنے کے لئے مولا نا سجادؒ کی ہدایت کے مطابق دورے کئے، جس کے بڑے دور رس اثرات ملک پر پڑے اور آزادی کی طرف تیزی سے قدم بڑھتا چلا گیا، اس موقع سے تحریک کے کئی شرکاء بشمول مولانا محمد میاں صاحبؒ گرفتار ہوئے، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، مولانا محمد سجاد کی طے کردہ حکمت عملی کی وجہ سے گرفتاری سے بچتے رہے؛ لیکن بالآخر کچھ دنوں کے لئے انہیں بھی جیل جانا پڑا، اس کے بعد جمعیت علماء کی جانب سے جو بھی تحریک چلائی گئی مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ، مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ کے ساتھ دست بازو بن کر کام کرتے رہے، بہار میں امارت شرعیہ نے جمعیت علماء ہند کی تحریکات کو آگے بڑھانے کا کام کیا کیوں کہ بہار کی حد تک امارت اور جمعیت کے کاموں میں تفریق نہیں تھی، ایک زمانہ میں حضرت مولانا عبد الصمد رحمانی (م10 ربیع الثانی1392 ھ=14 مئی1973ئ) امارت شرعیہ کے نائب امیر شریعت بھی تھے اور جمعیت علماء  بہار کے صدر بھی، اس سے قبل مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد جمعیت علماء بہار اور مرکزی جمعیت کے ناظم اور امارت کے نائب امیر شریعت کی حیثیت سے کام کرتے رہے تھے۔ 
ملک میں شاردا ایکٹ کے خلاف تحریک چلی، مدح صحابہ کے لئے ایجی ٹیشن ہوا، مجلس تحفظ ناموس شریعت قائم ہوئی، آزاد ہند کا دستور اساسی بنایا گیا، سیاسی انتخابات میں شرکت کی تجویز پاس ہوئی، چھپرہ بہار میں جمعیت علماء کی سیاسی کانفرنس ہوئی، یوم فلسطین منایا گیا، نظارت اور امارت شرعیہ کا مسودہ تیار ہوا، واردھا تعلیمی اسکیم کا تجزیہ کیا گیا، ہندور پورٹ کے بائیکاٹ کا فیصلہ ہوا، سب میں فکر، قلم اور بڑی حد تک قیادت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد ؒکی تھی؛ لیکن ان تحریکات کو کامیاب کرنے میں ہر سطح پر جمعیت علماء اور امارت شرعیہ بہار کے ارکان خصوصاً مجاہد ملت حضرت مولانا سیوہاروی کی عملی قوت کا بڑا دخل تھا، تاآنکہ مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد رحمۃ اللہ علیہ کا17 شوال المکرم 1359ھ =18 نومبر1940ء کو انتقال ہو گیا۔ رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ 
بانی امارت شرعیہ کے انتقال کے بعد بھی مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ؒکا تعلق امارت شرعیہ اور بانی امارت شرعیہ سے باقی رہا، چنانچہ جب حضرت مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانیؒ نے مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد ؒکے مقالہ حکومت الٰہی کو مولانا کے انتقال کے بعد 1941ء میں شائع کرنا چاہا تو مجاہد ملت نے بے پناہ مشغولیت کے باوجود اس کتاب کے لئے وقیع مقدمہ لکھا، اس مقدمہ میں انہوں نے اس مقالہ کی خصوصیات اور مندرجات پر تفصیلی گفتگو کی، مجاہد ملت کو مولانامحمد سجاد سے جو تعلق خاطر تھا اور مولانا کی صلاحیت کے وہ جس قدر معترف تھے، اس کا اظہار انہوں نے اس مقدمہ میں برجستہ اور برملا کیا ہے۔ لکھتے ہیں: 
’’اسی مقدس جماعت میں ایک زبر دست عالم ہم فکر، مدبر اور قانون شریعت اور قانون سیاست کی اس جامع ہستی کو دیکھتے ہیں، جو قوت گویائی میں اگر چہ’’ وَاحلُل عُقدَۃً مِّن لِّسَانِی‘‘ کا منظر پیش کرتی ہے، لیکن قوت و فکر و عمل میں بسطتہ فی العلم کا پیکر نظر آتی ہے۔ مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد (نائب امیر شریعت صوبہ بہار) ہندوستان کے ان چیدہ علماء متبحرین میں سے تھے، جو ہندوستان کی مشترک سیاسیات میں حصہ دار ہونے کے باوجود ’’حکومت الٰہیہ‘‘کے اس نصب العین کو کبھی فراموش نہیں کرتے تھے جو ان کی جدو جہد کا حقیقی مرکز ومحور تھا (حکومت الٰہی طبع ثانی) مجاہد ملت نے اس کتاب پر مقدمہ لکھنے کو اپنی سعادت قرار دیا ہے اور اس کا اختتام ان جملوں پر کیا ہے۔ ’’ہم کو یقین ہے کہ تمام اسلامی مساعی حضرت مولانا کی روح کی شادمانی اور طمانیت کا باعث ہوں گی اور بلاشبہ مولانا کے یہ تمہیدی کلمات کو آغاز کار کے طور پر ہمیشہ’’سعی مشکور سمجھا جائے گا‘‘۔(ص32) 
امارت شرعیہ کے دو امراء شریعت کے انتخاب کے موقع سے سید الملت مولانا سید محمد میاںؒ اور سحبان الہند مولانا احمد سعید دہلوی بطور مشاہد شریک ہوئے تھے، چوتھے امیر شریعت سید شاہ مولانا منت اللہ رحمانی ؒکے انتخاب کے موقع سے 24 مارچ 1957ء کو مرکزی جمعیت سے مشاہد کے طور پر مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی جو اس وقت جمعیت علماء  ہند کے ناظم اعلیٰ تھے، تشریف لائے، اس موقع سے نائب امیر شریعت مولانا عبد الصمد رحمانیؒ نے جو امیر شریعت ثالث کے وصال کے بعد (مثل امیر شریعت کام کر رہے تھے) طریقہ کار کی وضاحت حضرت مولانا ریاض احمد صاحب (م1382 ھ =1962ئ) صدر مجلس کی اجازت سے سات سو (700)مدعوئین کے سامنے کی اور ان سے گذارش کیا کہ آپ حضرات اس عظیم منصب کے لئے نام پیش کریں؛ چنانچہ چار نام آئے نائب امیر شریعت مولانا عبد الصمد رحمانی نے اپنا نام واپس لے لیا اور اسے خارج از بحث قرار دیا؛ بقیہ تین نام حضرت مولانا سید شاہ امان اللہ صاحب سجادہ نشیں خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف پٹنہ، مولاناسید شاہ منت اللہ رحمانی سجادہ نشیں خانقاہ رحمانی مونگیر اور حضرت مولانا سید نظام الدین صاحبؒ خانقاہ مجیبیہ کے رہ گئے، مولانا عبد الصمد رحمانی کی تجویز تھی کہ یہ سب نام ایسے پیش کئے گئے ہیں جن کا احترام صوبہ بہار کے ہر طبقہ میں ہے، اس لیے اس اجلاس میں ناموں کی وجہ ِترجیح پر بحث نہ کی جائے، اس پر پھر یہ سوال کھڑا ہوا کہ جن کے نام پیش کئے گئے ہیں؟ ان کے اوصاف بھی بیان کئے جائیں یا نہیں، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی شروع سے مجلس میں موجود تھے چنانچہ انہوں نے کہا: 
’’ان بزرگوں کے ناموں پر وجہ ترجیح کی حیثیت سے تو بحث نہ کی جائے، مگر محرک اور مؤید صاحب ایسا کر سکتے ہیں کہ اپنے پیش کردہ ناموں سے متعلق بغیر تقابل کے ان کے اوصاف حمیدہ اور اہمیت پر روشنی ڈالیں (ماخوذ: چوتھے امیر شریعت کے انتخاب کی مختصر کاروائی) 
مجاہد ملت کی اس تجویز کو سب نے پسند کیا ’’ چنانچہ مولانا مقبول احمد صدیقی اور مولانا عبد الرحمن صاحب ہر سنگھ پوری نے اپنے ذریعہ پیش کردہ ناموں کے سلسلے میں وضاحت فرمائی کہ وہ اس منصب کے لائق ہیں اور کسی نقطہ نگاہ سے ان کا انتخاب بہتر ہوگا ۔(امارت شرعیہ دینی جد و جہد کا روشن باب از مفتی ظفیر الدین مفتاحی) 
یہ تفصیل تاریخی طور پر دونوں بزرگوں کے تعلقات اور ہم آہنگی پر روشنی ڈالتی ہے اور ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ان حضرات کے درمیان ملی کاموں میں کس قدر توافق تھا، اور وہ دونوں کس قدر انہماک اور مستعدی کے ساتھ ملت کے کاموں کو انجام دیا کرتے تھے، 
حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کا وصال 1962ء میں ہوا اور کہنا چاہیے کہ’’ آں قدح بشکست و آں ساقی نہ ماند‘‘ یعنی وہ پیالہ ٹوٹ گیا اور پلانے والا نہ رہا، اس طرح وہ زمانہ گذر گیا اور وہ بات ہی ختم ہو گئی۔

محرم الحرام اور یوم عاشورہ**🖋️🖋️ اسرار عالم قاسمی، کشن گنج، بہارمتعلم: دار العلوم سبیل السلام حیدرآباد

**محرم الحرام اور یوم عاشورہ**
Urudduinyanews72
🖋️🖋️ اسرار عالم قاسمی، کشن گنج، بہار
متعلم: دار العلوم سبیل السلام حیدرآباد

ہم اور آپ سنہ 1444ھ سے نکل کر ایک نئے سال 1445ھ میں داخل ہو چکے ہیں، اللّٰہ تعالی کے نزدیک ایک سال میں کل بارہ ماہ ہوتے ہیں، جن میں چار ماہ کو عظمت و حرمت والا مہینہ کہا گیا ہے، ان میں ایک محرم الحرام بھی ہے، اور یہ حسنِ اتفاق ہے کہ یہی مہینہ سنہ ہجری کا نقطۂ آغاز بھی ہے، کم علم اور دکھاوا کرنے والے لوگ نئے سال کے آغاز پر مبارک بادیاں پیش کرتے ہیں، جس کی شریعت مطہرہ میں کوئی اہمیت نہیں ہے؛ بلکہ اگر آئندہ چل کر رواج بن جانے کا خدشہ ہو کہ لوگ اسے ضروری سمجھنے لگیں تو بدعت کا حکم لگایا جائے گا، اسلامی ہجری تاریخ کا اہتمام کرنا فرض کفایہ ہے، جس سے عام لوگ ناواقف ہیں، یہ تو بہت سارے ممالک میں اہلِ مدارس کا احسان ہے کہ امت کی جانب سے فرض کفایہ ادا کر رہے ہیں۔
ہر سال کا آمد و رفت؛ بلکہ ہر ہر سکنڈ اور ہر ہر منٹ کا آنا جانا، ہمیں یہ کہہ کر جھنجھوڑتا ہے کہ اس دنیا میں کسی بھی شَے کو دوام و ثبات حاصل نہیں ہے؛ بلکہ ہر شَے اپنی فنائیت کی جانب گامزن ہے، نئے سال کی آمد پر جشن منانے کی بجائے ہمیں اپنے نفس کا محاسبہ کرنا چاہیے کہ آیا ہم نے سالِ ماضی کیا کیا گل کھلائے ہیں؟
اگر ہماری زندگی رب کی مرضیات پر گذری ہے تو اس رب کریم کا شکر بجا لائیں کہ اسی کی توفیق سے یہ سب کچھ ہوا ہے، اور اگر ہماری زندگی راہ راست سے ہٹ کر گذری ہے تو توبہ استغفار کریں اور آئندہ صراطِ مستقیم پر چلنے کا عزم مصمم کریں۔
محرم الحرام اپنی فضیلت و برکت اور عظمت و حرمت کے لحاظ سے منفرد حیثیت رکھتا ہے اور یہ عظمت و حرمت اس مہینے کو دو وجہوں سے ملی ہے۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ اللّٰہ رب العزت نے جن چار مہینوں کو حرمت والا مہینہ شمار کیا ہے، ان میں ایک ماہ محرم بھی ہے، بقیہ تین مہینے ذوالقعدہ ذوالحجہ اور رجب المرجب ہیں،
دوسری وجہ یہ ہے کہ اس مہینے کو اس کے روزوں کی بابت فضیلت و اہمیت حاصل ہے، حدیث شریف میں ہے کہ جب رمضان المبارک کے روزے فرض نہیں ہوئے تھے، تو یہی یومِ عاشورہ کے روزے فرض تھے؛ لیکن جب رمضان کے روزوں کی فرضیت ہوئی تو عاشورہ کے روزوں کی فرضیت منسوخ ہوگئی؛ لیکن اب بھی اس کے مسنون و مستحب ہونے کا انکار نہیں کیا جا سکتا ہے؛ کیوں کہ بہت سی احادیث میں یوم عاشورہ کے روزوں کی فضیلت آئی ہے؛ لیکن کچھ مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ اس مہینے کی عظمت سیدنا حسین رضی اللّٰہ عنہ کی شہادت کی وجہ سے ہے؛ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا رتبہ اس مہینے میں شہادت کی وجہ سے بڑھ گیا ہے، تو کسی حد تک صحیح ہوگا، اس واقعۂ کربلا سے پہلے ماہِ محرم میں کئی بڑے بڑے واقعات تاریخ اسلام میں پیش آئے ہیں، مثلاً: غزوۂ خیبر محرم سنہ7ھ میں پیش آیا، اور اس غزوے میں مسلمانوں کو فتح و کامرانی نصیب ہوئی، ماہِ محرم سنہ14ھ میں جنگِ قادسیہ پیش آیا اور تین دن کے مسلسل مڈ بھیر کے بعد مسلمانوں کو فتح و کامرانی نصیب ہوئی، ماہِ محرم سنہ21ھ میں حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ فاتحانہ انداز سے مصر میں داخل ہوئے، ماہِ محرم سنہ24ھ میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کو تمام صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کے مشورے سے خلافت کے عہدے پر فائز کیا گیا، ایسے اور بھی بہت سے واقعات پیش آئے ہیں؛ لیکن شہادتِ حسین رضی اللہ عنہ کو لے کر واویلا مچانا، اور خلافِ شرع کام کرنا، یہ کہاں کی عقلمندی ہے؟ کچھ لوگ اپنی تقریر اور وعظ کو لچھے دار اور لچکدار بنانے کے لیے یومِ عاشورہ کی مناسبت سے طرح طرح کے واقعات بیان کرتے ہیں جن کو مضبوط تاریخی سند حاصل نہیں ہے، غیر مستند انداز میں منقول ہوتے چلے آرہے ہیں،
مثلاً: وہ یہ کہتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام کو محرم کی دسویں تاریخ کو آسمان سے زمین پر اتارا گیا اور اسی دن ان کی توبہ قبول ہوئی، حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ سے اسی دن نجات ملی، حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جودی پہاڑ پر اسی دن ٹھہری، حضرت عیسی علیہ السلام کو آسمان پر اسی دن اٹھایا گیا، ان واقعات کی کوئی مضبوط سند نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس ماہِ محرم کے جملہ ایام میں یومِ عاشورہ کو اہمیت حاصل ہے؛ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص عاشورہ کا روزہ رکھتا ہے، اللّٰہ تعالیٰ اس کے پچھلے ایک سال کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے،(صحیح مسلم: 1162)۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم یومِ عاشورہ کے روزہ رکھنے کا اہتمام فرماتے تھے، آپ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم جب تک مکہ مکرمہ میں رہے مسلسل اس دن کا روزہ رکھتے رہے، مدینہ آنے کے بعد آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ یہود و نصاری بھی اس دن کا روزہ رکھتے ہیں، آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا، تو انہوں نے بتایا کہ حضرت موسی علیہ السلام کو اسی دن فرعون کے چنگل سے آزادی ملی اور اسی دن فرعون غرق ہوا، تو آپ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم یومِ عاشورا کا روزہ رکھو، اور اس میں یہود کی مخالفت کرو، اور اس سے ایک دن پہلے یا اس کے ایک دن بعد کا روزہ رکھو، (مسند احمد)۔ مختلف روایات کو دیکھتے ہوئے علامہ ابن القیم، حافظ ابن حجر اور علامہ یوسف بنوری علیہم الرحمۃ نے لکھا ہے کہ یوم عاشورا کے روزے کے تین مراتب ہیں: سب سے ادنیٰ مرتبہ یہ ہے کہ صرف دس محرم الحرام کا روزہ رکھا جائے، اس سے اونچا مرتبہ یہ ہے کہ اس کے ساتھ نو محرم کا بھی روزہ رکھا جائے، اور اس سے اونچا مرتبہ یہ ہے کہ ان دونوں کے ساتھ گیارہ کا بھی روزہ رکھ لیا جائے۔ بعض روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دسویں محرم کو حلال آمدنی سے اپنے کنبہ پر اکل و شرب میں فراخ دلی سے کام لینا وسعت رزق کا ذریعہ ہے،(رواہ رزین وغیرہ)
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ یہ مہینہ انتہائی عظمت و برکت اور مقام و مرتبہ کے اعتبار سے منفرد حیثیت رکھتا ہے؛ لیکن کچھ لوگ اس کی برکات سے فائدہ حاصل کرنے کی بجائے بدعات و رسومات میں پڑ کر اس کے حقیقی فضائل سے محروم ہو جاتے ہیں، مثلاً: تعزیہ بناتے ہیں، مجالس منعقد کرتے ہیں،اس میں نوحہ اور ماتم کرتے ہیں ،بعض لوگ تو اس مہینے کو غم کا مہینہ سمجھتے ہیں، اس میں بعض خوشی کے کام کو ناجائز اور مکروہ سمجھتے ہیں، اور اسی طرح اس دن اس کام کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے کہ لوگوں کو کھانا کھلایا جائے، پانی پلایا جائے اور وہ یہ کہتے ہیں کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ بھوک اور پیاس کی شدت کے وقت شہید کیے گئے تھے، اس سے آپ کی پیاس بجھ جائے گی، اور ڈھول تاشے بجا کر ناچ گانا کرتے ہیں، یہ خلافِ شریعت ہے، اس دن تو سبیل لگانے اور کھانا کھلانے کی بجائے روزہ رکھنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ آخر میں بارگاہ رب العزت میں دست بدعا ہوں کہ یا الہ العالمین! پوری امت مسلمہ کی ان تمام بدعات و رسومات سے حفاظت فرما اور اس کے فضائل و برکات سے مستفید ہونے کی توفیق مرحمت فرما ، آمین ثم آمین۔
********** _________ **********
*نوٹ: تھوڑا وقت نکال کر خود بھی پڑھیں اور صدقۂ جاریہ کی نیت سے شیئر بھی کریں؛ تاکہ امت کی اصلاح ہو۔*

منگل, جولائی 25, 2023

مولانا سہیل احمد ندوی کا انتقال ایک ناقابل تلافی نقصان:کاروان ادب

مولانا سہیل احمد ندوی کا انتقال ایک ناقابل تلافی نقصان:کاروان ادب
Urudduinyanews72
حاجی پور (پریس ریلیز/25جولایی)
امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ کے نائب ناظم مولانا سہیل احمد ندوی جو یو سی سی کی مہم پر کٹک کے سفر پر تھے وہیں ظہر کی نماز کے دوران حالت سجدہ میں جان جان آفریں کے سپرد کر دی - اناللہ وانا الیہ راجعون مولانا موصوف کے اچانک انتقال پر کاروان ادب کے صدر مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی اور جنرل سیکرٹری انوارالحسن وسطوی نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ مولانا سہیل احمد ندوی کا انتقال امارت شرعیہ کے لئے ایک ناقابل تلافی نقصان ہے مولانا موصوف نے تقریباً ربع صدی سے امارت شرعیہ کے نائب ناظم کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دے رہے تھے فی الحال وہ  مولانا سجاد میموریل ہاسپٹل ،مولانا منت اللہ ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ اور دارالعلوم السلامیہ کی اہم ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے تھے،مولانا بڑی ہمت اور حوصلے کے انسان تھے اور نا مساعد حالات میں بھی حالات کا سامنا کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے مرحوم ایک مجاہد آزادی خاندان سے تعلق رکھتے تھے ،خدا سے دعاء ہے کہ اللّٰہ مرحوم کی خدمات کو قبول فرماکر انہیں جنت میں جگہ دے ۔ان کے پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے اور امارت شرعیہ کو ان کا بدل عطا فرمائے ۔کاروان ادب کے جن ذمہ داروں نے مولانا کے انتقال پر  اپنی تعزیت کا اظہار کیا ہے ان میں محمد ظہیر الدین نوری،نسیم الدین صدیقی ایڈووکیٹ ،سید مصباح الدین احمد،مولانا قمر عالم ندوی،ماسٹر عظیم الدین انصاری ،ڈاکٹر ذاکر حسین ،شاہنواز عطا،عبدالرحیم برہولیاوی ،پروفیسر واعظ الحق ،پروفیسر حسن رضا،ارشد ندوی،ماسٹر عبدالقادر ،صد رعالم ندوی ،مولانا نظر الہدیٰ قاسمی ،ڈاکٹر عارف حسن وسطوی ،ڈاکٹر لطیف احمد خان ،ڈاکٹر منظور حسن اور قمر اعظم صدیقی کے نام شامل ہیں

بڑا انکشاف، ہندوستان آنے کیلئے سیما حیدر نے بنائے تھے دو منصوبے، پہلے میں ہی ہوگئی کامیاب، جانئے کیا تھ دوسرا پلان

بڑا انکشاف، ہندوستان آنے کیلئے سیما حیدر نے بنائے تھے دو منصوبے، پہلے میں ہی ہوگئی کامیاب، جانئے کیا تھ دوسرا پلان

نئی دہلی : اردودنیانیوز۷۲; پاکستان سے غیر قانونی طور پر ہندوستان آئی سیما حیدر کے بارے میں آئے روز نئے نئے انکشافات ہو رہے ہیں۔ دریں اثنا نئی معلومات سامنے آئی ہیں کہ سیما حیدر نے ہندوستان آنے کے لئے دو منصوبے بنائے تھے۔ ذرائع کے مطابق سیما غلام حیدر نے پاکستان سے ہی ہندوستان میں داخل ہونے کا بڑا منصوبہ بنالیا تھا۔ سب سے پہلے اس نے نیپال کے 15 دن کے سیاحتی ویزا کے لئے اپلائی کیا اور اسے آسانی سے 15 دنوں کا سیاحتی ویزا مل بھی گیا۔ کیونکہ اس سال 10 مارچ کو ہی سیما تقریباً 7 دنوں کا ویزا لے کر نیپال آئی تھی اور 17 مارچ تک سچن کے ساتھ رہی تھی، جس کا اس کو دوبارہ نیپال کا ویزا حاصل کرنے میں فائدہ ملا ۔

پیر, جولائی 24, 2023

گھریلوکشیدگی اوربچوں کی نشوونما ✍️✍️✍️ ٭انس مسرورانصاری

گھریلوکشیدگی اوربچوں کی نشوونما
Urudduinyanews72
 ✍️✍️✍️        ٭انس مسرورانصاری
میاں بیوی میں کتنی ہی محبت اورخلوص واپنائیت کیوں نہ ہولیکن کبھی کبھی ،کسی نہ کسی وجہ سے اختلافِ رائے کے سبب توتو،میں میں ،ہوہی جاتی ہے۔کہتے ہیں کہ روٹھنے اورمنانے کے بغیرازدواجی زندگی میں حقیقی لطف ومسرت بھی تونہیں۔ 
میاں بیوی کے درمیان اَن بن کی صورت میں گھریلوکام کاج کے لیے سب سے اہم رول اداکرتے ہیں ننھے بچے۔یہ معصوم بچے فریقین کے درمیان ترجمانی کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ممی کوپاپاسے کوئی ضرورت آن پڑے یاپاپاکو ممی سے کوئی کام ہو توننھے میاں پکڑے جاتے ہیں۔ 
‘‘ببلو!ذرااپنے پاپاسے کہوکہ فلاں چیز لانی ہے۔آفس سے ذراجلدی آجائیں گے۔ہمیں کہیں جاناہے۔ببلو!اپنے پاپاسے کہوناشتہ تیارہے۔پاپاسے پوچھوکہ رات کے کھانے میں کیارہے گا۔؟میں ذراپڑوس میں بڑی آپاکے گھرجارہی ہوں۔اپنے پاپاسے کہومیزپرکھانالگادیاہے،کھالیں گے۔’’وغیرہ وغیرہ۔پاپاکوممی سے کچھ کہناہے توببلوسے کہاجائے گا۔‘‘بیٹا!ہمارے شرٹ کی بٹن ٹوٹ گئی ہے،ممی سے کہوبٹن لگادیں۔شام کوذرادیرسے واپس آؤں گا،ممی کوبتادو۔ممی سے کہوکل صبح مجھے کہیں جاناہے،ناشتہ کرکے جاؤں گا۔’’وغیرہ وغیرہ۔ایسے ہرموقع پرببلومیاں کی حیثیت بہت بڑھ جاتی ہے۔والدین کے لیے وہ بہت زیادہ اہم ہوجاتے ہیں۔انھیں ضرورت سے زیادہ پیارکیاجانے لگتاہے۔اُن کی ہرفرمائش کوفوراََپوراکیاجاتاہے۔میاں،بیوی کے درمیان وہ رابطے کاواحدذریعہ ہوتے ہیں۔ببلومیاں کوبھی حیرت ہوتی ہے کہ آخرمعاملہ کیاہے کہ انھیں کبھی اُدھربھیجاجاتاہے اورکبھی اِدھر!وہ پیغام رسانی کاکام حسن وخوبی سے انجام دیتے رہتے ہیں۔اس درمیان ببلومیاں کی طبیعت خراب ہوجاتی ہے یاگھرمیں کوئی مہمان آجاتاہے یاکوئی غیرمعمولی واقعہ ہوجاتاہے تومیاں،بیوی کے درمیان کشیدگی خودبخودختم ہوجاتی ہے اورلگتاہی نہیں کہ ان میں اَن بن تھی۔ 
یہ گھریلوکشیدگی مہذّب اورتعلیم یافتہ گھرانوں کی ہے۔لیکن جب یہی کشیدگی ناخواندہ یانیم خواندہ گھرانوں میں پیداہوتی ہے توآخری تان گالی گلوج اورمارپیٹ پرٹوٹتی ہے۔کشیدگی اورتناؤکے درمیان اگرفریقین میں کوئی بیمارپڑجاتاہے یاکوئی بچہ علیل ہوجاتاہے یاگھرمیں کوئی غیرمعمولی واقعہ پیش آجاتاہے توگھرکی فضارفتہ رفتہ معمول پرآجاتی ہے۔پھروہی روزوشب پھروہی زندگی۔کبھی کبھی تھوڑی سی گھریلوکشیدگی کھٹّے میٹھے لمحوں کااحساس دلاتی ہے۔میاں بیوی کے تعلق کومستحکم بھی کرتی ہے اورپیارومحبت میں اضافے کاسبب بھی ہوتی ہے۔ازدواجی زندگی میں مزید خوش گواریت پیداہوتی ہے۔لیکن جب یہی کشیدگی تسلسل اورتواتراختیارکرلیتی ہے توفریقین کے آپسی اختلافات اورکشیدگی کے مضراورمنفی اثرات سب سے زیادہ بچوں پر پڑتے ہیں۔گھریلوکشیدگی سے گھرکی فضامیں ہروقت جو ایک تناؤ،سنسنی خیزخاموشی،اُداسی اورمتوقع مہابھارت کی سی کیفیت ہوتی ہے،وہ بچوں کی ذہنی وجسمانی نشوونماکے لیے زہرِقاتل ہوتی ہے۔ 
گھریلوکشیدگی کے اس ماحول میں بچے ہراساں،خاموش،اداس،غم زدہ اورمتفکررہتے ہیں۔ہمہ وقت اُن پرخوف ودہشت اورایک طرح کی بے چارگی و محرومی اورمایوسی طاری رہتی ہے۔والدین کے درمیان متوقع مہابھارت کی وجہ سے معصوم بچے ہروقت خائف ،گم سم اورخاموش رہتے ہیں۔چونکہ بچوں کواپنے والدین سے وہ پیار،وہ محبتیں اورشفقتیں نہیں مل پاتیں جن کے وہ مطلوب،متلاشی اورتمنّائی ہوتے ہیں اورجو ان کی ضرورت اوران کا حق ہیں۔والدین کی بے توجہی کے سبب اُن میں متعددنفسیاتی امراض پیداہوجاتے ہیں۔ہروقت چہلیں کرنا،کھیناکودنا،ہنسناہنسانابچوں کی فطرت ہوتی ہے لیکن جب فضااورماحول ناخوش گوارہوتے ہیں توبچوں کی ذہنی و فطری قوت اچھی طرح بیدارنہیں ہوپاتی۔ان میں اضافہ نہیں ہوپاتا۔صلاحیتوں کے سوتے خشک ہونے لگتے ہیں۔گھریلوکشیدگی کے درمیان خوف ودہشت،اُداسی اورخاموشی کی حالت میں پرورش پانے والے بچے ذہنی ونفسیاتی اورجسمانی امراض کی وجہ سے کبھی کوئی بڑاکارنامہ انجام نہیں دے پاتے۔وہ بزدل اورڈرپوک ہوجاتے ہیں ۔مایوسی انہیں اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔اُن میں احساسِ کمتری کے جذبات شدّت کے ساتھ عودکرآتے ہیں۔اُن کے افعال اورفیصلے جذباتی ہوتے ہیں۔والدین کی توجہ سے محروم بچے ایک طرح سے ذہنی طورپرناکارہ ہوتے ہیں اوراحساسِ محرومی اُ ن کی پوری زندگی کو سانحاتی بنادیتاہے۔وہ بڑے ہوکر ایک ناکام زندگی جیتے ہیں۔ 
نفسیات کے ماہرین کامتفقہ فیصلہ ہے کہ ایسے کشیدہ اورناخوش گوارماحول میں پرورش پانے والے بچے زندگی میں کبھی کوئی کارنامہ انجام نہیں دے سکتے۔ 
بچوں کی جسمانی وذہنی نشوونمامیں خوش گوارگھریلوفضابہت زیادہ معاون ومددگارہوتی ہے۔اس لیے جن گھروں میں فضاکسی بھی وجہ سے کشیدہ اورمکدّرہوان گھروں کے افرادکی بڑی ذمّہ داری ہے کہ وہ نئی نسل پررحم کریں۔خاندان کی فلاح وبہبوداوربہتری کے لیے مصالحت اوردرگزرکاراستہ اختیارکریں۔بچو ں کے ساتھ شفقت اورمحبت سے پیش آئیں۔نئی نسل کوتباہ وبرباد ہونے سے بچائیں
۔ موڈکتنابھی خراب کیوں نہ ہومگرجب گھرمیں داخل ہوں تومسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ داخل ہوں۔اپنے بچوں کے ساتھ کچھ وقت ضرورگزاریں۔اسکول کاہوم ورک دیکھیں۔تعلیم کے معاملے میں اُن کاحوصلہ بڑھائیں۔بچوں کی ضرورتوں کاپوراخیال رکھیں۔انھیں محسوس نہ ہونے دیں کہ اُن سے غفلت برتی جارہی ہے یااُنھیں نظراندازکیاجارہاہے۔اس حقیقت کوکبھی فراموش نہ کریں کہ گھریلوماحول ہی انسان کی کردارسازی کرتاہے۔اچھایابُرابناتاہے۔اپنے بچوں کوکامیاب دیکھناچاہتے ہیں تواُن کی رہنمائی کریں اور اُن کے ساتھ پوراپوراتعاون کریں۔ 
٭٭ 

            * انس مسرؔورانصاری 
                   قومی اردوتحریک فاؤنڈیشن 
 سکراول،اردوبازار،ٹانڈہ۔امبیڈکرنگر224190(یو،پی) 
                     رابطہ/9453347784/َ

عربی زبان وادب سے بے توجہیمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار ، اڈیشہ وجھارکھنڈ

عربی زبان وادب سے بے توجہی
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار ، اڈیشہ وجھارکھنڈ
 عربی زبان وادب کے امتیازات وخصوصیات میں سب سے بڑی خصوصیت اس کا قیامت تک باقی رہنا ہے، کیوںکہ یہ اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کی زبان ہے، اور اللہ نے اپنے کلام کی حفاظت ’’اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہُ لَحَافِظُوْنَ‘‘ کہہ کر خود لے لی ہے، اور جب قرآن کریم کو محفوظ رہنا ہے تو کتاب کی زبان عربی مبین کو کیوں کر ختم کیا جا سکتا ہے، دنیا کی بہت ساری زبانوں کا وجود باقی نہیں رہا یا وہ لکھنے بولنے کی زبان کے بجائے میوزیم میں پائی جانے والی زبان بن گئی ہے، عربی زبان وادب کے ساتھ ایسا ہونے کا کہیں کوئی شائبہ نہیں ہے۔
اس کی دوسری خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ ہماری علمی ، ادبی، مذہبی اور ثقافتی زبان ہے، بہت سارے ملکوں کی یہ عوامی اور سرکاری زبان ہے، جس کی وجہ سے عربی زبان پر قدرت رکھنے والوں کے لیے معاش کے حصول کے بہترین مواقع یہاں حاصل ہیں، یہی وجہ ہے کہ بر صغیر ہندو پاک اور بنگلہ دیش کے باشندگان بڑی تعداد میںان ممالک میں حصول روزگار کے کے لیے فروکش ہیں اور بر صغیر ہی کیا، دنیا کے ہر ملک سے لوگ یہاں معاش کی تلاش میں آتے ہیں، اور روزگار سے لگ کر نہ صرف اپنے خاندان کی کفالت کرتے ہیں، بلکہ یہ ہندوستان اور دوسرے ملکوں کے لیے غیر ملکی زر مبادلہ کی شکل میں اپنے اپنے ملک کے معاشی نظام کومستحکم کرنے کا بڑا ذریعہ ہیں، آپ کو یاد ہوگا کہ ماضی قریب میں سری لنکا اور پاکستان میں زر مبادلہ کے ذخیرہ کی کمی کی وجہ سے کیسے حالات پیدا ہو گیے تھے، ایسا اس لیے ہوا کہ غیر ملک کو سامان در آمد اور بر آمد کرنے میں ملکی کرنسی کے بجائے غیر ملکی زر مبادلہ کی ضرورت پڑتی ہے، عرب ممالک میں کام کرنے والے اس ضرورت کی تکمیل کرتے ہیں۔
 اس زبان کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ ہمارا بڑا علمی ذخیرہ قرآن وحدیث، تفسیر وفقہ اور ادب کا اس زبان میں محفوظ ہے، یہ ایک مالدار زبان ہے ا س لیے کہ جتنی تعبیرات اور ایک شئی کے لیے جتنے الفاظ کمیت وکیفیت کے تغیر وتبدل کو واضح کرنے کے لیے اس زمان میںموجود ہیں، ایسا کسی دوسری زبان میں نہیں ہے۔
ان خصوصیات وامتیازات نیز اہمیت کا تقاضہ ہے کہ اسے مدارس اسلامیہ اور یونیورسیٹیوں میں زندہ زبان کی حیثیت سے پڑھایا جائے، اور اس قدر مہارت پیدا کردی جائے کہ وہ طلبہ کی عام بول چال کی زبان بن جائے، صرف عبارتوں کے سمجھنے، مسائل کے حل کرنے اور جزئیات کو ذہن نشیں کرانے کی زبان کی حیثیت اسے نہ دی جائے، بلکہ اسے بول چال کی زبان مشق وتمرین کے ذریعہ بنائی جائے، اس کے لئے ضروری ہے کہ تقلیدی اور روایتی انداز کو ترک کرکے براہ راست اس زبان میں لکھایا، پڑھا یا جائے، انداز ترجمہ کا نہ ہو بلکہ طریقۂ تعلیم میں میڈیم عربی رکھا جائے تو یہ کام انتہائی آسان ہوجائے گا۔ 
بد قسمتی سے ہمارے مدارس اسلامیہ اور دانش گاہوں میں عربی ادب کو ایک مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا ہے، جس سے کتابیں حل ہوجاتی ہیں اور امتحان میں لڑکے کامیاب بھی ہوجاتے ہیں، لیکن ان کے اندر بول چال اور لکھنے کی مضبوط صلاحیت نہیں پیدا ہوتی، مشق وتمرین اور عربی بول چال کا ماحول بنا کر اس کام کو بحسن وخوبی انجام دیا جاسکتا ہے، اس کے لیے ماہر اساتذہ کی بھی ضرورت ہے، جو مدارس میں تنخواہ انتہائی کم ہونے کی وجہ سے نہیں مل پاتے۔ ہماری درسگاہوں سے جو قیمتی جواہر نکلتے ہیں اور عربی زبان وادب میں ممتاز ہوتے ہیں وہ حصول معاش کے لیے عرب کا رخ کر تے ہیں یا یونیورسیٹیوں کی راہ لیتے ہیںاور ہمارے مدارس کو اچھے اساتذہ نہیں مل پاتے، ہم اچھی تنخواہ اور سہولت دے کر عربی زبان وادب کے ماہرین کو اس کام پر لگا سکتے ہیں، معاملہ عربی ادب کو قرآن واحادیث کے زبان کے ناطے خصوصی توجہ کا ہے، عربی میں مہارت سے نصوص کا سمجھنا اور سمجھانا آسان ہوگا، اور ہم اس کو دوسری زندہ زبانوں کی طرح برت سکیںگے، یہ بھی ایک کام کرنے کا ہے جس سے دنیا کی فراہمی کے ساتھ ساتھ آخرت کی دولت بھی نصیب ہوگی، خانقاہ رحمانی مونگیر میں حضرت امیر شریعت دامت برکاتہم نے ایسا نظام بنایا ہے کہ حفظ کے بچے عربی زبان بولنے پر قادر ہوجاتے ہیں، خواہش مند لوگوں کو اس نظام کو قریب سے جا کر دیکھنا اور سمجھناچاہیے اورممکن ہو تو اسے ہر مدرسہ میں رائج کرنا چاہیے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...