Powered By Blogger

بدھ, دسمبر 22, 2021

کام کے طریقے ____✍️‌مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ ہم جب کسی کام کو شروع کرتے ہیں

کام کے طریقے ____
✍️‌مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 ہم جب کسی کام کو شروع کرتے ہیں ، یا کسی تقاضے کو پورا کرنے پر آتے ہیں تو ہم میں بڑا جوش وجذبہ ہوتا ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ دنوں کاکام گھنٹوں اور گھنٹوں کا کام منٹوں اور سکنڈوں میں کر ڈالیں، اس جذبہ سے کام تیزی سے آگے بڑھنے لگتا ہے، وقت گذرنے کے ساتھ ہم اس جذبہ وجوش کو باقی نہیں رکھ پاتے، جس کی وجہ سے یاتو کام میں سست رفتاری آجاتی ہے اور کبھی جوش وجذبہ کے سرد پڑجانے کی وجہ سے کام رک جاتا ہے، کام کوپھر سے رفتار دینے کے لیے ضروری ہے کہ ہدف روز کا مقرر کرلیں اور دھیرے دھیرے دن بھر میں اس ہدف تک پہونچنے کی کوشش کریں،اگر آپ نے تیز دوڑنا شروع کیا تو آپ جلد ہی تھک ہار کر بیٹھ جائیں گے، اور ہدف ادھورا رہ جائے گا، آپ نے سنا ہی ہوگا کہ دھیمے چلنے والا کچھوا خرگوش کی اڑن چال پر غالب آگیا تھا۔
 اب اگر آپ کام کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں تو آپ کو اپنے کام کا بھی جائزہ لینا چاہیے کہ کہیں ہم نے مقاصد کے اعتبار سے کم تر چیز کا انتخاب تو نہیں کر لیا ہے، اگر وہ کم تر نہیں ہے تو اس پر غور کرنا چاہیے کہ کام کا جوش وجذبہ کیوں اختتام پذیر ہوا اور کیوں زندگی پرانی لیکھ پر چلنے لگی، کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ہم جس مقصد اور منزل کو پانے کے لیے یہ کام کر رہے تھے وہ ہماری ترجیحات میں نہیں تھیں، ہم ایسے ہی کسی کی ترغیب سے اس کام میں لگ گیے تھے، اگر ایسا ہے توفورا اس کام کو چھوڑ کر دوسرے کام کا انتخاب سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے، اور اس کا سلوگن یہ ہونا چاہیے کہ’’ ہم چاہتے نہیں‘‘، ہمیں ہر قیمت پر یہ’’ چاہیے‘‘ آپ کی ’’چاہت‘‘ آپ کی خواہش کا مظہر ہے، جب کہ’’ چاہیے‘‘ آپ کے عزم بالجزم کی طرف اشارہ کرتا ہے،اور یہ بتاتا ہے کہ آپ اسے حاصل کرکے ہی دم لیں گے۔
 اس عزم کے پہلے اپنے کاموں کی فہرست سازی کیجئے، پھر ہر کام کے بارے میں اپنے ذہن ودماغ سے پوچھیے کہ اس کام کو آپ کیوں کرنا چاہتے ہیں، کام شروع کرنے سے پہلے جو مثبت اور منفی جواب ملے اس کو ایک نوٹ بک میں درج کرتے رہیں، پھر فیصلے سے پہلے ان اسباب ووجوہات کا جائزہ لیں اور جائزہ میںجو کام سمجھ میں آئے اس کا آغاز کر دیں، اس طرح آپ کسی کام کا آغاز شعوری طور پر کر سکیں گے، اور آپ کے جوش وجذبہ میں کمی نہیں آئے گی، اس کے برعکس اگر آپ نے بلا سوچے سمجھے کام کا آغاز کر دیا تو آپ کا دماغ اس سے متاثر ہوگا، اور دماغ سے چلنے والی لہریں ہی اعضاء وجوارح اور قویٰ کو متحرک رکھا کرتی ہیں، اور عمل پر ابھارتی ہیں،جب دماغ سے اعضا کو کوئی ہدایت نہیں ملے گی؛ کیوں کہ اس میں آپ کی دلچسپی نہیں ہے تو کام یا تو سست پڑجائے گا یا رک جائے گا۔
 آپ جب کام سے مطمئن ہوگیے تو ہتھیلی پر سرسوں جمانے کا کام مت کیجئے، کیوں کہ یہ نا ممکن ہوتا ہے، اپنے فیصلے کوعملی رنگ وروپ بخشنے کے لیے منصوبہ بندی کیجئے، منصوبہ بندی میں کام کے درمیان پیش آنے والی پریشانیوں اور مشکلات کا بھی خیال رکھیے، اگر آپ نے ان رکاوٹوں کو منصوبہ سازی میں ملحوظ نہیں رکھا تو ممکن ہے ان رکاوٹوں کے سامنے آنے سے آپ مضمحل اور دل بر داشتہ ہوجائیں اور کام سے آپ کا دل پِھر جائے، لیکن اگر آپ نے پہلے سے ان رکاوٹوں کو ملحوظ رکھا ہے تو آپ سوچیںگے کہ اس کام میں یہ رکاوٹ تو آنی ہی تھی، ہم اس کو دور کرکے آگے بڑھ سکتے ہیں، آپ سوچیں گے کہ راستے کبھی بند نہیں ہوتے، ہر بند راستے کے بغل سے ایک متبادل راستہ ہوتا ہے، ہم اس رکاوٹ کو متبادل راستے کا استعمال کرکے دور کرلیں گے اور منزل تک پہونچ کر دم لیں گے۔
 آپ نے جو بھی نشانہ مقرر کیا ہے، اس کو خود کلامی کے انداز میں دہراتے رہنا بھی آپ کی قوت عمل کو مہمیز کرتا ہے، ہر صبح جب اٹھیے تو معمولات سے فراغت کے بعد خود کلامی کے انداز میں کہیے کہ’’ ہم اس کام کو پایہ تکمیل تک پہونچانے کے لیے پابند عہد ہیں اور ہم انشاء اللہ ایسا کرکے رہیں گے‘‘ آپ محسوس کریں گے کہ آپ کی اس خود کلامی نے آپ کے اندر نئی توانائی اور طاقت پیدا کر دی ہے اور آپ پہلے سے زیادہ کام کی تکمیل کے سلسلے میں پُر عزم ہو گیے ہیں۔

منگل, دسمبر 21, 2021

ووٹر شناختی کارڈ کو آدھار سے مربوط کرنے کا بل منظور

ووٹر شناختی کارڈ کو آدھار سے مربوط کرنے کا بل منظور

ترمیمی بل کو لوک سبھا کی ندائی منظوری ۔ ووٹرس کی حیثیت سے رجسٹریشن کے لئے سال میں چار مواقع دستیاب

نئی دہلی : لوک سبھا نے پیر کو انتخابی قوانین (ترمیمی) بل 2021 ء منظور کرلیا جس کے تحت ووٹر شناختی کارڈس کو آدھار کے ساتھ مربوط کرنے کی گنجائش مل گئی ہے ۔ یہ بل ندائی ووٹ کے ذریعہ منظور کیا گیا ۔ اس بل میں گنجائش ہے کہ الکٹورل رجسٹریشن آفیسرس اُن لوگوں سے آدھار نمبر طلب کرسکتے ہیں جو اپنی شناخت ثابت کرنے کے مقصد سے بطور ووٹرس اپنا رجسٹریشن کرانا چاہتے ہیں ۔ اس میں یہ گنجائش بھی ہے کہ انتخابی فہرست میں پہلے سے جو نام موجود ہیں اُن کی جانچ کے لئے بھی الکٹورل رجسٹریشن آفیسرس آدھار نمبرس طلب کرسکتے ہیں۔ نیز ایک سے زیادہ حلقے کی انتخابی فہرست میں یکساں نام کے ووٹرس پائے جائیں تو اُن کے درمیان تخصیص کے لئے بھی آدھار نمبرس طلب کئے جاسکتے ہیں۔ ساتھ ہی اس ترمیمی بل میں یہ وضاحت بھی کردی گئی ہے کہ آدھار نمبر پیش کرنے میں کسی بھی فرد کی ناکامی انتخابی فہرست میں اُس کے نام کی عدم شمولیت کی وجہ نہیں بنے گی ۔ دیگر دستاویزات کی جانچ کرتے ہوئے اُسے پہلے کی طرح انتخابی فہرست میں شامل کیا جاسکتا ہے ۔ اس طرح ووٹر شناختی کارڈس کو آدھار سے مربوط کرنا فی الحال رضاکارانہ نوعیت کا عمل ہے ۔ آج کا منظورہ بل قانون عوامی نمائندگی 1950 اور 1951 کے بعض دفعات میں ترمیم کرتا ہے ۔ ووٹر شناختی کارڈ کو آدھار سے مربوط کرنے کا بنیادی مقصد یکساں فرد کا مختلف مقامات پر انتخابی فہرستوں میں اپنے نام کی شمولیت کا تدارک کرنا ہے ۔ آر پی ایکٹ 1950 ء کے سیکشن 14 میں ترمیم اہل افراد کے لئے ووٹروں کے طورپر رجسٹریشن کے سلسلہ میں کوالیفائی ہونے کی چار تواریخ فراہم کریگی ۔ موجودہ طورپر ہر سال یکم جنوری ہی واحد تاریخ ہے جس کے اعتبار سے درخواست قبول کی جاتی ہے ۔ یکم جنوری کو یا اُس سے قبل 18 سال کے ہونیو الے افراد ووٹروں کے طورپر اپنا رجسٹریشن کرواسکتے ہیں۔ اُس کے بعد 18 سال کے ہونے والوں کو رجسٹریشن کے لئے پورا ایک سال انتظار کرنا پڑتا تھا جو آج کے بل کی منظوری کے بعد نہیں ہوگا ۔

امارت شرعیہ کے مقاصدکونئے عزم وحوصلہ کے ساتھ آگے بڑھانا ہم سب کی ذمہ داری : حضرت امیر شریعت مساجد کو نظام تعلیم کا مرکز بنانے اور نئی قومی تعلیمی پالیسی کے منفی و مثبت اثرات کا تجز ) Policy Impact Analysis ( کرنے کی ضرورت امارت شرعیہ بہار ، اڈیشہ وجھارکھنڈ

امارت شرعیہ کے مقاصدکونئے عزم وحوصلہ کے ساتھ آگے بڑھانا ہم سب کی ذمہ داری : حضرت امیر شریعت مساجد کو نظام تعلیم کا مرکز بنانے اور نئی قومی تعلیمی پالیسی کے منفی و مثبت اثرات کا تجز ) Policy Impact Analysis ( کرنے کی ضرورت امارت شرعیہ بہار ، اڈیشہ وجھارکھنڈپٹنہ

امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ وجھارکھنڈ کی مجلس شوریٰ امارت شرعیہ کی سالانہ میٹنگ کانفرنس ہال امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ میں امیر شریعت بہار، اڈیشہ وجھارکھنڈ حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب مد ظلہ العالی کی صدارت میں منعقد ہوئی ۔جس میں حضرت امیر شریعت نے اپنے صدارتی خطاب میں فرمایا کہ ملک کے بدلتے ہوئے منظر نامے میں امارت شرعیہ کو اکابر کی متعین کردہ سمت میں تیز رفتاری اور نئے طریقے سے آگے بڑھانا ہمارا مقصد ہے، اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ امارت شرعیہ کی خدمات میں مزید وسعت اور تاثیر پیدا کی جائے۔جہاں ذیلی دار القضائ قائم ہوں ، وہاں صرف کار قضائ نہ انجام دیا جائے بلکہ وہ ایک ہمہ جہت خدمت کا مرکز(Service Hub) بھی ہو، وہاں دار ا لقضائ کے ساتھ شفاخانہ، مکتب، اطلاعات عامہ کا سنٹر وغیرہ بھی قائم کیا جائے ۔ حضرت امیر شریعت نے تمام شعبہ جات کی کارکردگی کی تحسین کرتے ہوئے فرمایا کہ جدید آلات اور ٹیکنالوجی سے بھی دفاتر کو مزین کیا جائے گا ۔ تمام شعبہ جات کے طریقہ کار میں بہتری اورکارکردگی میں اضافہ

(Process Improvement and Efficiency)کی سمت میں ہم آگے بڑھیں گے، یہ آئندہ کچھ سالوں میں ہمارا ترجیحی ہدف ہے۔ انہوں نے امارت شرعیہ کے تحت چلنے والے مکاتب اور اسکولوں کے لیے جدید نصاب بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ایسا نصاب تیار کیا جائے جو بچوں کی عمر کے لحاظ سے ہو اوریہ نصاب بچوں کی نفسیات کے ماہرین کے مشورے سے تیار کیاجائے۔انہوں نے نئی قومی تعلیمی پالیسی 2020کے مثبت اور منفی پہلوؤں کا جائزہ لینے اور پالیسی کے مثبت ومنفی اثرات کاتجزیہ(Policy Impact Analysis) کے لیے ماہرین تعلیم اور ماہرین قانون کی ایک کمیٹی بنانے اور این آر سی کے معاملات کو قانونی اور عوامی سطح پر دیکھنے کے لیے علاحدہ علاحدہ کمیٹی بنانے کی منظوری بھی دی۔ انہوں نے امارت شرعیہ کے شعبہ جات کی رپورٹ اوراور اس شعبے کے ذمہ داروں کی طرف سے پیش کیے گئے آئندہ کے اہداف کو پوری قوت کے ساتھ آگے بڑھانے کا ارادہ ظاہر کیا۔ انہوں نے دینی نصاب تعلیم میں توسیع اور تعلیم کو ایک یونٹ کی شکل میں دیکھتے ہوئے تعلیمی نظام بنانے کی ضرورت پر زور دیاا ور فرمیا کہ اس وقت دینی مکاتب کے نظام کو وسیع تر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ مساجد کو اس کا مرکز بنایا جائے۔بعض مقامات پر اس کا موثر نظام چل رہا ہے۔

نائب امیر شریعت حضرت مولانا محمد شمشاد رحمانی صاحب نے فرمایا کہ بچوں کی نفسیات کے پیش نظر مکاتب کے لیے نصاب اور طریقۂ کار کا خاکہ امیر شریعت سابع حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحبؒ کے مشورے سے مرتب کیا گیا تھا ، جو کمیٹی تشکیل پا رہی ہے ، ان کے سامنے یہ خاکہ بھی رہے تو بہتر ہے۔حضرت نائب امیر شریعت نے یہ بھی کہا کہ وفاق المدارس الاسلامیہ سے جو مدرسے جڑے ہوئے ہیں ان کی تعداد میں اضافہ کیا جائے اور اس سلسلہ میں مدارس کے ذمہ داروں سے بات کی جائے۔

قائم مقام ناظم مولانا محمد شبلی القاسمی صاحب نے تمہیدی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امارت شرعیہ کے تمام شعبے حضرت امیر شریعت کی فعال قیادت میں ترقی کی راہ پر گامزن ہیں۔اللہ کے فضل و کرم سے مشکل حالات میں بھی امارت شرعیہ نے ملت کی صحیح سمت میں رہنمائی کی ،اور اس وقت یہ ادارہ حضرت امیر شریعت کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نئے عزم و حوصلے کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے ۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ حضرت امیر شریعت کی ہدایت پر ہر شعبہ کے یکسالہ اہداف و مقاصد بھی رپورٹ میں درج کیے گئے ہیں ، جس سے آپ محسوس کریں گے کہ امارت شرعیہ کی ملک و ملت کے حساس مسائل پر بھی گہری نظر ہے۔اس موقعہ پر نظامت کی رپورٹ کے ذیل میں جملہ شعبہ جات کی یک سالہ کارکردگی پر اجمالی روشنی ڈالی اور ماضی کے فیصلوں پر عملی پیش رفت کا خاکہ بھی پیش کیا۔قاضی شریعت مولانا محمد انظار عالم قاسمی صاحب نے دار القضائ کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے مرکزی اور ذیلی دار القضاء کی کارکردگی سے متعلق اعداد وشمار پیش کیے ، انہوں نے آئندہ کے اہداف کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ امسال دس دارالقضاء کے قیام کا ارادہ ہے جس میں سے الحمدللہ دو دار القضاء قائم ہو چکے ہیں، اور دو کا قیام جلد ہی عمل میں آئے گا۔ جہاں جہاں دارالقضاء کی زمین ہے ، وہاں چار منزلہ عمارت تعمیر ہوگی اور دار القضاء کے ساتھ شفاخانہ، مکتب اور قاضی شریعت وکارکنان کے لیے رہائش گاہ بھی بنانے کا منصوبہ ہے۔ اس کے علاوہ قضائ کی اہمیت لوگوں تک پہونچانے کی شکل تلاش کرنا، وقف نامہ ، وصیت نامہ، ہبہ وغیرہ دار القضاء میں بن سکتا ہے ، اس کے لیے عوام میں بیداری لانا بھی ہمارے آئندہ ایک سالہ اہداف میں شامل ہے۔مولانا مفتی محمد سہراب ندوی صاحب نائب ناظم صاحب نے شعبۂ تبلیغ و تنظیم کی رپورٹ پیش کی ، انہوں نے شعبہ سے متعلق آئندہ کے اہداف ومنصوبے بیان کرتے ہوئے کہا کہ آنے والے سالوں میں مبلغین کی تعداد میں اضافہ کر کے اس کی تعداد سو تک پہونچانے، بیس مقامات پر وفود کے دورے کرنے، پورنیہ،کشن گنج، کٹیہار اور ارریہ کے علاوہ مزید چار اضلاع میں نقبائ کے اجتماعات منعقد کرنا ، شعبہ تنظیم کے دفتر کو جدید تقاضوں سے لیس کرنا اور اس کی افادیت کو بڑھانا ہمارے آئندہ کے اہداف میں شامل ہے۔مولانا مفتی محمد ثنائ الہدیٰ قاسمی صاحب نے نقیب، شعبۂ تعلیم، مکاتب، تحفیظ القرآن ، وفاق المدارس الاسلامیہ اور مولانا منت اللہ رحمانی اردو ہائی اسکول آسنسول کی رپورٹ پیش کی اور ان شعبہ جات کے تعلق سے آئندہ کے اہداف و منصوبے بھی بیان کیے جن میں اس سال ایک سو مکاتب کا قیام ، اساتذہ کی تربیت کے پروگراموں کا انعقاد ، وفاق کی سند کو ملک کی اہم یونیورسٹیوں سے منظوری اہم اہداف میں شامل ہے۔، مولانا مفتی سہیل احمد قاسمی صاحب صدر مفتی نے دار الافتاء کی رپورٹ پیش کی، جبکہ مفتی سعید الرحمن قاسمی صاحب نے دارا لافتاءکی افادیت کو بڑھانے کے لیے کئی اہم منصوبوں کو پیش کیا، جن میں دار الافتائ کو ڈجیٹلائز کرنا اہم ہے۔مولانا سہیل احمد ندوی نائب ناظم امارت شرعیہ نے امارت شرعیہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ کے تحت چلنے والے اداروں ، مولانا سجاد میموریل اسپتال اور دارا لعلوم الاسلامیہ کی رپورٹ اور اہداف و منصوبے پیش کیے۔ مولانارضوان احمد ندوی صاحب نے شعبۂ نشر و اشاعت و کتب خانہ کی رپورٹ پیش کی، جبکہ مولانا محمد ابو الکلام شمسی صاحب نے امارت پبلک اسکول رانچی وگریڈیہہ کی رپورٹ پیش کی اور مجوزہ اسکولوں کے قیام کے سلسلہ میں اہداف و منصوبوں کو اراکین کے سامنے رکھا۔

اس میٹنگ میں جناب مولانا ابو طالب رحمانی، جناب مولانا ظفر عبد الروؤف رحمانی، مولانا ڈاکٹر عتیق الرحمن صاحب، جناب راغب احسن ایڈووکیٹ صاحب، جناب جاوید اقبال ایڈووکیٹ صاحب، جناب انجینئر محمد فہد رحمانی صاحب، جناب مولانا ڈاکٹر محمد یاسین قاسمی صاحب، جناب ذاکر بلیغ صاحب ایڈووکیٹ، جناب ممتاز احمد صاحب انجینئر کھگڑیا، جناب الحاج مولاناعارف صاحب رحمانی ، جناب ماسٹر محمد انوار صاحب بیگوسرائے، جناب الحاج اکرام الحق صاحب ارریہ، مولانا بدر احمد مجیبی، مولانا مطیع الرحمن مدنی سلفی ، مولانا اعجاز احمد صاحب دربھنگہ سابق چیئر مین مدرسہ بورڈ، جناب ارشاد اللہ صاحب چیئر مین سنی وقف بورڈ ، جناب احمد اشفاق کریم صاحب ایم پی راجیہ سبھا ، جناب مولانا مفتی توحید مظاہری، مولانا عبد السبحان صاحب دہلی، مولانا قمر انیس قاسمی ، مولانا مشتاق صاحب یکہتہ، جناب احسان الحق صاحب سوپول ، جناب ظفر عالم سہرسہ سابق ایم ایل اے نے زیر بحث ایجنڈو ں میں قیمتی آرا پیش کیں ، ان آرا کی روشنی میں درج ذیل تجاویز منظور ہوئیں۔

-1مکاتب کے لیے ایک نیا نصاب بنایا جائے ، جو بچوں کی عمر کے لحاظ سے ہو اور وہ بچوں کی نفسیات کے ماہرین کے مشورہ سے بنایا جائے ۔نصاب کے لیے ایک نصاب کمیٹی بھی تشکیل دی جائے ۔-2مکاتب کے اساتذہ کی تربیت کا بھی ایک نظام بنایا جائے، جو لوگ اس کے ماہرین ہیں اور اساتذہ کو ٹریننگ دینے کا کام کرتے رہے ہیں ، ان سے اس سلسلہ میں مدد لی جائے۔-3نئی قومی تعلیمی پالیسی 2020کا جائزہ لینے کے لیے ماہرین تعلیم اور ماہرین قانون کی ایک کمیٹی بنائی جائے جو پوری پالیسی کے مثبت اور منفی اثرات کا جائزہ

âPolicy Impact Analysis

á کرکے اس کے منفی و مثبت اثرات پر مشتمل مکمل رپورٹ پیش کرے۔ قومی تعلیمی پالیسی پر دوسرے اداروں نے جو مشورے دیے ہیں ان کو بھی آر ٹی آئی کی مدد سے نکلوا لیا جائے۔-4دار القضاء کے تعلق سے یہ اعداد و شمار اکٹھے کیے جائیں کہ کتنے مقدمات ایسے ہیں جو ایک دن سے ایک مہینے کے اندر میں حل ہو ئے ہیں اور ان کو عوام کے سامنے پیش کیا جائے ۔-5 دار القضاء کے اعداد وشمارکو عام کیا جائے اور اور اس کی اہمیت لوگوں کو بتائی جائے تاکہ اس کی طرف رجوع بڑھے۔-6 قضاۃ کا وکلائ کے ساتھ باہمی رابطہ کا نظام بنایا جائے تاکہ ایک دوسرے سے استفادہ کر سکیں۔سال میں دو یا تین بار ان کی آپس میں میٹنگ ہو۔ -7 دار القضاء کی قانونی حیثیت سے بھی لوگوں کو آگاہ کیا جائے۔-8تمام مبلغین کا نام اور موبائل نمبر ارکان ٹرسٹ کو مہیا کرایا جائے۔-9مساجد میں مکتب قائم کرنے کو ہدف بنایا جائے اور اس کے لیے عوام کو متوجہ کیا جائے ۔-10 ایک پلاننگ کمیٹی حضرت امیر شریعت مد ظلہ کی قیادت میں بنائی جائے جو اس چیز کا جائزہ لے کہ کون کون سے کام ترجیحی بنیاد پر کرنے چاہئیں ۔ پروجیکٹ اور منصوبہ بندی کے ساتھ کاموں کو کیاجائے، کسی بھی پروجیکٹ کو شروع کرنے سے پہلے ہم اس کے شروع کرنے پر آنے والے اخراجات کا پہلے سے نظم کریں، پھر پروجیکٹ کو شروع کریں ۔جو کام قوم وملت کی فلاح کے لیے زیادہ مفید ہیں ، انہیں ترجیح دی جائے ۔ایک ساتھ بہت سارے کاموں میں ہاتھ نہ ڈالا جائے بلکہ وہی کام شروع کیا جائے جس کو ہم کامیابی کے ساتھ پورا کرسکتے ہیں۔اس کے لیے کام کرنے والوں کا ایک ورک شاپ کیا جانا چاہئے۔

امارت شرعیہ کی مجلس شوریٰ کا اجلاس مولانا مفتی مجیب الرحمن قاسمی بھاگل پوری کی تلاوت کلام پاک سے ہوا، اس کے بعد مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب نے تجویز تعزیت پیش کی اور مرحومین کی مغفرت اور بلندیٔ درجات کی دعا کی گئی۔جناب مولانا منظر رحمانی صاحب نے امیر شریعت سابع حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب علیہ الرحمہ کے سانحۂ ارتحال پر منظوم تعزیت پیش کی۔ اس سے قبل مورخہ 18دسمبر 2021روز سنیچر کو مجلس عاملہ و ارکان ٹرسٹ امار ت شرعیہ کی مشترکہ میٹنگ دو نشستوں میں منعقد ہوئی ۔جس کا آغاز مولانا محمد اسعد اللہ قاسمی صاحب کی تلاوت کلام پاک سے ہوا، اورمختلف ایجنڈوں پر گفتگو ہوئی ۔ آخر میں یہ نشست حضرت امیر شریعت کی دعا پر مجلس اختتام پذیر ہوئی۔مجلس عاملہ کے اجلاس میں مولانا ڈاکٹر عتیق الرحمن قاسمی کی کتاب''عورت قرآن کریم میں''کا اجراء بھی حضرت امیر شریعت اور معزز اراکین کے ہاتھوں عمل میں آیا۔ مجلس شوریٰ کے اجلاس میں مذکورہ بالا حضرات کے علاوہ جناب انوار الحسن وسطوی ویشالی،مولانا مظاہر عالم صاحب ویشالی،مرزا حسین بیگ، مولانا محمد عالم قاسمی،مولانا سعود عالم قاسمی جمشید پور، مولانا جاوید اختر ندوی لکھنؤ، مولانا فیاض احمد قاسمی مدھوبنی، مولانا وحید الزماں صاحب پورنیہ، مولانا احسان الحق قاسمی روہتاس، قاری شعیب صاحب نوادہ، مولانا امجد بلیغ رحمانی ارریہ، مولانا عبد الماجد رحمانی ارریہ، مولانا ڈاکٹر شکیل احمد قاسمی پٹنہ،مولانا ابو الکلام قاسمی شمسی پٹنہ، مولانا مشیر الدین قاسمی مونگیربھی شریک اجلاس رہے۔اجلاس کی نظامت مولانا محمد شبلی القاسمی صاحب قائم مقام ناظم امارت شرعیہ نے انجام دی

حکومت نکاح کی عمر متعین کرنے سے باز رہے مولانا خالد سیف اللہ رحمانی _ ( جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ) _ کا بیان

حکومت نکاح کی عمر متعین کرنے سے باز رہے مولانا خالد سیف اللہ رحمانی _ ( جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ) _ کا بیان

نئی دہلی: ۲۰؍دسمبر ۲۰۲۱ء
جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے اپنے پریس نوٹ میں کہا ہے کہ نکاح انسانی زندگی کی ایک اہم ضرورت ہے؛ لیکن نکاح کس عمر میں ہو، اس کے لئے کسی متعین عمر کو پیمانہ نہیں بنایا جا سکتا، اس کا تعلق صحت وتندرستی سے بھی ہے اور سماج میں اخلاقی اقدار کے تحفظ اور سوسائٹی کو اخلاقی بگاڑ سے بچانے سے بھی؛ اسی لئے نہ صرف اسلام بلکہ دیگر مذہب میں بھی نکاح کی کوئی عمر متعین نہیں کی گئی ہے، اس کو عاقدین اور اُن کے سرپرستوں کی صوابدید پر رکھا گیا ہے، اگر کوئی لڑکا یا لڑکی ۲۱؍سال سے پہلے نکاح کی ضرورت محسوس کرتا ہے اور نکاح کے بعد عائد ہونے والے واجبات کو ادا کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے تو اس کو نکاح سے روک دینا ظلم اور ایک بالغ شخص کی شخصی آزادی میں مداخلت ہے، سماج میں اس کی وجہ سے جرائم کو بڑھاوا مل سکتا ہے، ۱۸؍ سال یا ۲۱؍ سال شادی کی کم سے کم عمر متعین کر دینا اور اس سے پہلے نکاح کو خلاف قانون قرار دینا نہ لڑکیوں کے مفاد میں ہے، نہ سماج کے لئے بہتر ہے؛ بلکہ اس سے اخلاقی قدروں کو سخت نقصان پہنچ سکتا ہے،ویسے بھی کم عمر میں نکاح کرنے کا رجحان آہستہ آہستہ ختم ہو رہا ہے؛ لیکن بعض دفعہ ایسے حالات آتے ہیں کہ مقررہ عمر سے پہلے ہی نکاح کر دینے میں لڑکی کا مفاد ہوتا ہے؛ اس لئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ایسے بے فائدہ بلکہ نقصاندہ قانون بنانے سے باز رہے۔

جاری کردہ:
*ڈاکٹر محمد وقار الدین لطیفی*
(آفس سکریٹری)

پیر, دسمبر 20, 2021

دہلی میں کم از کم درجہ حرارت معمول ڈگری کم ، 3.2 ڈگری سیلسیس درج سے پانچ

دہلی میں کم از کم درجہ حرارت معمول ڈگری کم ، 3.2 ڈگری سیلسیس درج سے پانچ

نئی دہلی، 20 دسمبر (یو این آئی) دہلی میں سردی کی لہر جاری ہے پیر کی صبح یہاں کم از کم درجہ حرارت 3.2 ڈگری سیلسیس ریکارڈ کیا گیا، جو معمول سے پانچ درجے کم ہے ہندوستانی محکمہ موسمیات نے پیر کے لیے دہلی میں یلو الرٹ جاری کیا اور 24 یا 25 دسمبر کو یہاں ہلکی بارش کی پیش گوئی کی ہے محکمہ موسمیات کی پیشن گوئی کے مطابق 21 دسمبر تک ہندوستان کے شمال مغربی علاقوں میں شدید سردی کی لہر کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ پیر کو کم سے کم درجہ حرارت 3 ڈگری سیلسیس اور زیادہ سے زیادہ 19 ڈگری سیلسیس رہنے کا امکان ہے۔

پیر کی صبح دہلی کی ہوا کا معیار انتہائی خراب درجے میں درج کیا گیا تھا۔ پیر کو ہوا کا معیار بھی انتہائی خراب کیٹیگری میں ریکارڈ کیا گیا جس کا اے کیو وائی 327 تھا جبکہ اتوار کو ہوا کا معیار اے کیو وائی 290 کے ساتھ انتہائی خراب زمرے میں تھا۔

سسٹم آف ائر کوالٹی ویدر فورکاسٹنگ اینڈ ریسرچ (ایس اے ایف اے آر) کے مطابق آج صبح 10 بجےپی ایم 2.5 اور پی ایم 10 بالترتیب 133 اور 222 درمیانے درجے میں انتہائی خراب ریکارڈ کیے گئے۔

جہیز میںرقم کا مطالبہ ' نکاح سے قبل دلہے کی پٹائی

جہیز میںرقم کا مطالبہ ' نکاح سے قبل دلہے کی پٹائیلکھنو: اتر پردیش کے علاقے غازی آباد کے ایک شادی خانہ میں جہیز میں لاکھوں روپئے کا مطالبہ کرنے پر سسرالی افراد نے دلہے کی زبردست پٹائی کردی ۔ دلہے کے گھر والوں کی جانب سے نکاح سے قبل جہیز کی مد میں لاکھوں روپے کا مطالبہ کیا گیا جس پر پر دلہن کے گھر والوں نے دلہے کی پٹائی کردی۔ میڈیا کے مطابق نکاح کی تقریب سے عین قبل دلہے کے والد نے مبینہ طور پر 10 لاکھ روپے کا مطالبہ کیا اور دھمکی دی کہ اگر مطالبہ پورا نہ ہوا تو وہ بارات واپس لے جائیں گے۔رپورٹس کے مطابق دلہن کے اہل خانہ پہلے ہی 3 لاکھ روپئے نقد اور ایک لاکھ روپے کی ہیرے کی انگوٹھی دے چکے تھے لیکن دلہا کے گھر والے پھر بھی مطمئن نہیں تھے۔دلہن کے گھر والوں نے دلہے کے گھر والوں کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ نہیں مانے جس پر دلہن کے اہل خانہ اور مہمانوں کو غصہ آگیا اور انہوں نے دلہا کو مارا اور پیٹنا شروع کردیا۔ میڈیا کے مطابق دلہن کے اہل خانہ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اس شخص کی پہلے بھی 2،3 شادیاں ہوچکی ہیں۔

اتوار, دسمبر 19, 2021

نئی نسل کا نمائندہ شاعر : جمیل اختر شفیقتحریر....انور آفاقی ،دربھنگہ

نئی نسل کا نمائندہ شاعر : جمیل اختر شفیق

تحریر....انور آفاقی ،دربھنگہ 

گلاب جہاں بھی کھلے اپنی خوشبو کی وجہ سے دور دور تک اپنے ہونے کا احساس دلاتا ہے ، لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے اور لوگ اس کی طرف کھنچے  چلے جاتے ہیں ۔ ٹھیک اسی طرح جب کبھی ایک شاعر کا کوئی بھی خوبصورت شعر قاری کی نظر سے گزرتا ہے یا اس کی سماعت سے ٹکراتا ہے تو پھر اس کی طرف نہ صرف متوجہ ہوتا ہے بلکہ اس کے کلام کے مطالعے کا خواہاں بھی ہوتا ہے۔ ایسی ہی کیفیت و حقیقت کا تجربہ مجھے اس وقت ہوا جب یہ شعر  ؂ 
چراغ بن کے اندھیروں میں اک زمانے تک
 میں جگنوؤں کو  پریشان  کرنے  والا ہوں
 میری نگاہوں سے گزرا تو سیدھا دل میں اترتا ہوا محسوس ہوا ۔ معلوم ہوا کہ یہ شعر ایک نوجوان شاعر جمیل اختر شؔفیق کا ہے ۔ پھر جمیل سے ملاقات  کی خواہش پیدا  ہوئی ۔ اور اتفاقا میری یہ خواہش  22 جولائی 2019 کو پوری بھی ہو گئی جب وہ میرےگھر تشریف لائے اور خوبصورت تحفہ اپنا شعری مجموعہ  "دھوپ کا مسافر" بڑے خلوص و محبت سے پیش کیا ۔ ہر چند کہ یہ ملاقات بڑی مختصر سی تھی مگر اس مختصر ملاقات ہی میں انہوں نے اپنی نفیس شخصیت کا ایسا نقش چھوڑا جو کبھی دھندلا نہیں ہو سکتا۔ اسی مختصر سی ملاقات ہی میں مجھے یہ بھی محسوس ہوا کہ وہ ایک صاف گو اور حق پسندنوجوان شاعر  ہیں جس کی گفتگو میں ندرت اور جس کی فکر میں تازگی بھری ہوئی ہے ۔
جمیل اختر شفیق کا مجموعہ کلام  " دھوپ کا مسافر " میرے ہاتھوں میں ہے جو اپنے نام کی وجہ سے قارئین کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے میں یقینا کامیاب ہوگا اس کا مجھے یقین ہے کیونکہ اس نام میں بڑی کشش و جاذبیت ہے ۔غور کیجئے تو یہ نام  انسان ، اس کی زندگی اور دنیا کا استعارہ ہے ۔ 207 صفحات کے اس مجموعہ کلام میں صفحہ تین پر انتساب ہے جو انہوں نے اپنے والدین کے نام کیا ہے ۔ صفحہ چار سے بارہ تک فہرست اور پھر صفحہ 13 پرحرف آغاز کے تحت ان کا تعارفی مضمون " میری خوددار طبیعت کا تقاضا ہے الگ " ہے ،جس میں انہوں نے اپنا تفصیلی تعارف پیش کیا ہے ۔ پھر تقریبا پچاس صفحات پر نو ادباء و شعراء کے  اس شعری مجموعہ پر تاثرات و خیالات ہیں جو شؔفیق کو جاننے اور سمجھنے میں معاون ثابت ہوں گے ۔ صفحہ 81 سے 207 تک 110 غزلیں ہیں. گرد پوش کے اندرونی صفحات پر مختصر مگر گرانقدر آراء ہیں جو انور جلال پوری اور علامہ جلال الدین قاسمی کے رشحاتِ قلم کا نتیجہ ہے۔ بیک کور پر ناصر ناکاگاوا ، تنویر پھول اور ابن عظیم فاطمی کی مختصر تحریریں ہیں ۔
حرفِ آغاز کے تحت شؔفیق اپنی دادی جان کی باتوں کو جو ان کے حافظے میں محفوظ ہیں  ، کا ذکر کچھ اس انداز میں کیا ہے کہ ہر قاری کو پڑھتے ہوئے اپنی آنکھوں میں نمی کا احساس ضرور ہوگا ۔وہ لکھتے ہیں: "کتنی بار دادی کی آنکھیں اشک بار ہوئی ہونگی کتنا ان کا کلیجہ پسیجا ہوگا احساسات  کی کن کن زمینوں سے وہ گزری ہو نگی ۔ جب تک وہ حیات سے رہیں کبھی انہوں نے مجھے خود سے الگ نہیں کیا "۔؂
زمانہ ہو  گیا دادی  کو  چھوڑے قبر  میں لیکن
ابھی بھی ایسا لگتا ہے مجھے لوری سناتی ہیں
مندرجہ بالا شعر اپنی دادی مرحومہ کے لئے شفیق کا بہترین نذرانہ عقیدت اور ان سے انسیت و محبت کاتجدید نامہ ہے۔
کتاب نہایت خوب صورت ہے جسے فائن آرٹ پرنٹنگ پریس سیتامڑھی نے چھاپا ہے۔
جمیل اختر شؔفیق کا آبائی وطن سیتاجی کی جنم بھومی، سیتامڑھی ہے جو قدیم متھلا کا حصہ بھی 
مانا جاتا ہے۔ وہ ضلع سیتامڑھی کے مشہور باجپٹی بلاک سے قریب ایک چھوٹے سے قصبہ سنڈ وارہ میں 10 فروری 1987 ء کو اس دنیائے آب و گل میں تشریف لائے ۔ وہ اپنے والدین اور دادی صاحبہ کی خاص نگہداشت میں پروان چڑھتے رہے  ۔ بچپن میں اپنی امی سے پر ترنم نظموں اور لوریوں کو سنا جب عنفوان شباب  کو پہنچے تو بھی لور یوں کی بازگشت کانوں میں رس گولتی رہی ، گونجتی رہی لہذا ابھی وہ 17 سال ہی کے  ہوئے تھے کہ طبیعت شاعری کی طرف مائل ہوگئی اور پہلا شعر ؂ 
ترے چہرے کی نصرت سے بہت کچھ جان لیتا ہوں
  ترا   جو  بھی  ارادہ  ہے   اسے   پہچان   لیتا  ہوں

کہا ۔ اور پھر شاعری کا ایسا چسکا لگا کہ باضابطہ شعر کہنے  لگے ۔ شاعری میں جس صاحب فکر و فن سے اصلاح سخن لی ان کا اسمِ گرامی ابوالبیان رفعت ہے جن کا شمار استاد شعرا میں ہوتا ہے ۔ دھیرے دھیرے شاعری سے اس قدر الفت بڑھی کہ شاعری ان  کا جنون بن گئی ۔ ان کو شاعری میں زندگی کی رمق اور درد و الم کا ساتھی مل گیا اور شاعری  ان کے وجود کا جزولاینفک بن گئی۔
       شاعری شؔفیق کے یہاں نہ تصنع اوقات ہے اور نہ ہی تفریح کا سامان ۔ کیونکہ ایک حساس شاعر و ادیب کو یہ زیب بھی نہیں دیتا ۔ شاعری ان کے ہاں ایک مقدس فریضہ ایک عبادت کی طرح ہے تب ہی تو وہ کہ اٹھتے ہیں؂
میں نے برسوں ،کی ریاضت  تو  ہنر آیا ہے
 میری غزلوں میں نہیں یوں ہی اثر آیا ہے

شؔفیق کی شاعری کے مطالعہ سے محسوس ہوتا ہے کہ اس نوجوان شاعر نے اپنی کم عمری ہی میں زندگی کا گہرا مشاہدہ بہت غور اور قریب سے کیا ہے  اور پھر دل کے درد کو شعر میں ڈھال کر  دنیا کے سامنے پیش کر دیا ہے ۔ زندگی کی ان تمام  کڑوی  سچائیوں کے مشاہدہ کے باوجود  اس نے اپنی شاعری کو  تلخی اور کڑواہٹ سے متاثر نہیں ہونے دیا  بلکہ اپنے لہجے میں پہلے شیرنی ، نرمی محبت کو گوندھ کر دل کو موہ لینے والا انداز اپنایا پھر شعر خلق کیا ہے۔ اس میں محبت کے ساتھ ساتھ ایک دھیمی دھیمی آنچ کا احساس بھی ہوتا ہے یہی آنچ  قارئین کو یک گونہ اپنا پن کا احساس بھی دلاتی ہے اور شاعر کو اس کی اپنی شناخت کا وسیلہ بھی عطا کرتی ہے۔
خواب کی سڑک ،  درختوں کا بھرم ،  یاد کی سڑک ، درد کا صندل ، غموں کے مکان ، غموں کی بھیڑ ، نوازشوں کے سمندر ۔
مندرجہ بالا تراکیب پر دھیان دیجئے ، غور کیجئے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ وہ تراکیب ہیں جو شؔفیق نے اپنی شاعری کے لئے وضع کر کے اپنے اشعار میں ندرت اور دلکشی پیدا کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اس نرم و نازک  لب و لہجہ اور خوبصورت تراکیب کے شاعر کے چند اشعار بطور نمونہ ملاحظہ فرمائیں؂

شؔفیق  اس   کے   تصور   کا  یہ  اثر  دیکھو 
حسین خواب کی سڑکوں پے چل رہا ہے بدن  

کتنے پھل پھول ، درختوں کا بھرم ٹوٹ گیا
جب  مرے  ذہن میں  افکار  کے  دانے  نکلے

جب مجھے چھوڑ کے بے وقت نکل جاؤ گے
تم  مری یاد کی  سڑکوں پہ پھسل جاؤ گے

ہم  نے غزل   پہ   درد  کا  صندل  لگا  لیا
ممکن نہیں کچھ بھی بتائیں زباں سے ہم

کب تک شؔفیق لاش کی صورت پڑے رہیں 
 نکلیں گے ایک روز غموں کے مکان سے ہم 

غموں کی بھیڑ میں دنیا نے ساتھ چھوڑ دیا 
 خوشی  ملی تو  مسلسل رہا   نشانے  پر

نوازشوں کے  سمندر  بہائے  پھرتے ہو
بلا سبب بھی گلے سے لگائے پھرتے ہو

شفیق نے اپنی غزلوں میں لفظ" زندگی" کو سب سے زیادہ استعمال کیا ہے اور جس کی مجموعی تعداد  تقریبا  تیس ہے ۔ ان کی یہ " زندگی " اپنی تمام تر گوناگوں کیفیتوں کے ساتھ ان کے اشعار میں نمایاں طور پہ نظر آتی ہے ۔ زندگی کے مختلف پہلوؤں پہ ان کے اشعار کو پڑھ کر  زندگی کی سچائیوں کا سامنا ہوتا ہے۔ ایسی زندگی جس میں دکھ درد ہے ، جس میں شام و سحر ہے ، جس میں سردیوں کی ٹھٹھرتی ہوئی راتوں میں اخبار پر سوتے ہوئے مفلس بچے کی بے چینیاں ہیں ، جس میں  چٹائیوں پر زندگی گزارنے والے بے بس و لاچار انسان کے آنسو ہیں اور جس میں دو وقت کی روٹی کے لیے تگ و دو کرتے ہوئے مجبور و بے کس ڈھیروں انسانوں کی سسکیاں سنائی دیتی ہیں ۔ انسانی حیات اور زندگی کا المیہ ، سماج میں بے سہارا دبے کچلے لوگوں کی کراہ ، مظلوموں کی کرب میں ڈوبی آہ  ، زندگی کئی رنگوں میں نظر آتی ہے ۔ آئیےچند اشعار ملاحظہ فرمائیے؂
آج سوکھی ہوئی  روٹی پہ  قناعت کرلو
زندگی یوں بھی مری جان بسر ہوتی ہے

زندگی نے کر  دیا ہے لا کھڑا  اس  موڑ پر 
سب گزرتے ہیں جہاں سے ٹوکتا کوئی نہیں

ہم کو مخمل پہ کبھی نیند  نہیں آئے گی
زندگی اپنی  چٹائی  پہ  بسر  ہوتی  ہے۔

درد سینے میں پھر اٹھا ہے کیا
زندگی سچ میں اک سزا ہے کیا 

زندگی تجھ سے محبت ہے نہ جانے کتنی 
 ہم  تیرا  بوجھ  بہر حال  اٹھانے  نکلے

چیخ کر میں تھک گیا ہوں زندگی کے خوف سے
 کس قدر  سہما  ہوا  ہوں  دیکھتا  کوئی  نہیں

تمہارے  شہر  میں  کتنے  غریب  بچے ہیں
 سڑک پہ آج بھی پیپر بچھا کے سوتے ہیں

وہ اپنے گاؤں کی رسمیں نبھا کے سوتے ہیں 
غریب  لوگ  چٹائی  بچھا  کے  سوتے   ہیں 

زندگی کا اور روپ دیکھیں ۔۔۔۔۔۔؂
کوئی مرجائے  کہاں ان  کو  خبر ہوتی ہے
زندگی جن کی نمائش میں بسر ہوتی ہے

ہم زندگی کے  ساتھ جدھر سے گزر گئے
دشمن تمام دیکھ کے صدمے سے مر گئے

اس طرح  زندگی بھی گزر جائے گی
وہ  اگر  میرے  گھر  آنے  جا نے  لگے 

اگر تم زندگی بن کر مری سانسوں میں بس جاتے
کبھی فرصت نہیں  ملتی تمہیں آنسو  بہانے کی 

حوصلے اپنے نہ ٹوٹے ہیں نہ ٹوٹیں گے شؔفیق
 زندگی  بوجھ  اگر  ہے  تو  چلو  ڈھوتے ہیں

زندگی  بھلے  جی لے معتبر  نہیں  ہوتا 
جو کبھی پڑوسی سے باخبر نہیں ہوتا

شاعر بہت حساس ہوتا ہے لہذا جو وہ محسوس کرتا ہے اپنی شاعری کے توسط سے قارئین کی نذر کر دیا ہے ۔ان کی طبیعت میں خودداری اور انا کا عنصر غالب ہے جس کا اندازہ ان کے اشعار سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں ؂
میری خودداری کہ میں نے گھاس تک نہیں ڈالی 
 اس کی کم ظرفی کے وہ جاتا ہے نیتا کی طرف

میری  خود دار   طبیعت   کا   تقاضہ  ہے  الگ
 کیسے یہ سر کسی کم ظرف کا شانہ ڈھونڈے 

 ملے  خیرات میں  عہدہ  تو فورا دور مت جانا
 یہی ایک بھول قائد سے قیادت چھین لیتی ہے

ہمیں کچھ لوگ اپنے عہد کا باغی سمجھتے ہیں
 سبب  یہ  ہے  امیر  شہر  کو  سجدہ نہیں کرتے

اپنے دکھ درد پر آنسو کی نمائش نہ کیا کر 
زخم تو زخم ہے کچھ روز میں بھر جائے گا

ہم جس سماج اورمعاشرے میں رہتے ہیں  اس میں دوست اور دشمن دونوں پائے جاتے ہیں ۔ دشمنوں کے رویے اور سلوک سے سامنا بھی ہوتا ہے اور ہم دفاعی طور پراس سے نپٹنے کے لئے تیار بھی رہتے ہیں مگر جب اپنےدوست احباب اور رشتہ دار بھی دشمنی اور شازشیں کرنے لگیں تو تکلیف اور ملال کا ہونا فطری امر ہے۔۔۔لہذا ایسے حالات میں ایک شاعر کس طرح اپنے احساس و جذبات کو شعری پیکر میں  ڈھالتا ہے 
اسکی جھلک شؔفیق کی شاعری میں کچھ اس طرح 
ملتی ہے؂
کبھی دشمنوں کی عداوتیں کبھی دوستوں کی ہیں سازشیں 
یہ جو سلسلہ ہے عذاب کا کبھی ایک پل کو رکا نہیں

ہمارے دوست کی عادت ہے دشمنوں جیسی 
کبھی کبھی تو وہ قصدا  بھی بھول کرتا ہے

غیر  تو  غیر   ہیں  اپنوں  کو  یہ احساس نہیں 
 میرے اندر کی گھٹن جان سے مارے گی مجھے

جمیل اختر شؔفیق بہار کے ان چند کامیاب نوجوان شعراء میں ہیں جن کی شاعری کے مطالعہ کے بعد یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ان کا مستقبل تابناک ہے۔ اللہ کرے ان کا شعری ذوق یوں ہی پروان چڑھتا رہے اور جلد ہی ان کا دوسرا مجموعہء کلام ہمارے ہاتھوں میں ہو-

     (بشکریہ روزنامہ اودھ نامہ، دہلی، لکھنؤ )

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...