Powered By Blogger

اتوار, مارچ 27, 2022

صحافت ایک مشن ہے، اس کا سیدھا رشتہ سماج سے: وجے کمار چودھری

صحافت ایک مشن ہے، اس کا سیدھا رشتہ سماج سے: وجے کمار چودھری
بھارت کے تعمیر نو میں اردو اخبارات کا اہم رول : شرون کمار
 اردو پر ہی نہیں بلکہ سبھی زبانوں کے اخبارات کو بحران کا سامنا:شیوانند تیواری
اردو صحافت کے دوسو سال مکمل ہونے پر اردومیڈیافورم بہار کے زیراہتمام سیمینار، گفتگوو مشاعرہ کا انعقاد
پٹنہ،صحافت ایک مشن ہے یہ منافع خوری کی چیز نہیں ہے۔ اس کا رشتہ سیدھے سماج سے ہوتا ہے۔ عام لوگوں کا بھلا جس میں ہو، سماج کے مسئلہ کو حکومت کی دہلیز تک پہنچانے اور حکومت کی پالیسیوں کو عوام تک پہنچانے کا نام صحافت ہے۔ مذکورہ باتیں وزیرتعلیم جناب وجے کمار چودھری نے اردو صحافت کے دو سوسال مکمل ہونے کے موقع پر آج اردو میڈیا فورم کے زیراہتمام بہار اردو اکادمی میں منعقد عظیم الشان تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ وزیرموصوف نے کہا کہ صحافت میں غلط چیزوں کی مذمت ہونی چاہئے اور صحیح چیزوں کی ستائش ہونی چاہئے۔ اس سے سماج میں تبدیلی آتی ہے۔ آج سوشل میڈیا کے آجانے سے بڑا چیلنج پیدا ہوگیا ہے۔ کیونکہ صحافت صرف حقیقت بیان کرتا ہے اور وہ عوام کو ڈائرکشن بھی دیتا ہے کہ اب کیا ہونا چاہئے۔ جبکہ سوشل میڈیا بغیر تحقیق کے صرف انفارمیشن دینے کا کام کرتا ہے۔ جس سے کبھی کبھی حالات بگڑ جاتے ہیں۔ باتیں بگڑتی تب ہیں جب میڈیا اہل کار خبریں پہنچانا چھوڑ خبریں فروخت کرنا شروع کردیتے ہیں۔ اور جب آپ کا نشانہ فروخت کرنا ہوجائے تو وہ سیدھے منافع سے جڑ جاتا ہے جس سے خبریں پراگندہ ہوتی ہیں اور آج کل تو الیکٹرانک میڈیا پر باضابطہ دانشور حضرات اسپانسرڈ بحث کرتے ہیں۔ جس سے روشن خیال لوگوں کا نقصان ہوتا ہے انہوںنے کہا کہ آج جب اردو میڈیا فورم دوسوسالہ جشن اردو صحافت منارہی ہے تو میں یہ عرض کروں کہ آج سے دو سو سال قبل کلکتہ سے اردو کا پہلا اخبار جام جہاں نما نکلا تھا جس کے مدیر اور مالک ہریہردت اور سدا سکھ دونوں ہندوتھے۔ 
انہوں نے کہا کہ اخبار صرف اخبارنہیں ہوتابلکہ صحافت ادب کی بنیاد ہوتی ہے جو ادب تہذیب سے جڑ جائے وہ سماج کو روشنی دکھانے کا کام کرتی ہے۔ سماج جب بے سمت ہوجاتا ہے تو ادب اس کو راستہ دکھاتی ہے اور ادب کی بنیاد صحافت ہے۔ انہوںنے خورشید اکبر کے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ یہ افواہ غلط ہے کہ ہائی اسکولوں سے اردو کی لازمیت ختم ہوگئی ہے اس لئے اردو کی لازمیت کو دوبارہ بحال کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ جس اسکول میں بھی اردو کے طلباءہوں گے وہاں اردو ٹیچر کو مامور کرنے کا کام کیا جائے گا۔ وزیرموصوف نے کہا کہ نتیش کمار حکومت اس ریاست کے عام لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے مسلسل کام کررہی ہے۔ اور ایمانداری سے کام کررہی ہے۔ خصوصا اقلیتی طبقہ کے مسائل کو حل کرنے کا بھی کام ہورہا ہے۔ باوجود اس کے اگر آپ لوگوںکو کسی بھی محکمہ سے شکایت ہے تو مجھ سے براہ راست مل کر مسائل رکھیں ۔ اس کا حل کیا جائے گا۔ 
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے دیہی ترقیات کے وزیرجناب شرون کمار نے کہا کہ بھارت کے تعمیر نو میں اردو اخبارات کا اہم رول رہا ہے۔ مولانا محمدعلی، جوہر، مولانا ابوالکلام آزاد، سر سیداحمد خان وغیرہ نے اپنے اخبارات کے ذریعہ آزادی کی جنگ لڑی اور عوام کو بیدار کیا۔ جس سے بھارت کو آزادی ملنے میں مدد ملی۔ انہوںنے کہا کہ جس طرح ہماری حکومت نے دیگر شعبوں میں کام کیا اسی طرح ہم لوگ اردو کی فلاح و بہبود کے لئے بھی کام کررہے ہیں۔ کیونکہ اردو بہت میٹھی اور شیریں زبان ہے۔ یہ ہندوستان کی زبان ہے بہار کے لوگ اپنی زبان سے بہت محبت کرتے ہیں۔بہار کی مٹی میں اتنی تاثیر ہے اگر بہار کے لوگوں کا امتحان آسمان پر بھی ہوجائے تو کامیاب ہو جائیں گے۔ انہوںنے کہا کہ وزیراعلی نتیش کمار صرف ووٹ کی سیاست نہیں کرتے وہ سب کو جوڑنے کا کام کرتے ہیں۔ اردو صحافت کے لئے جو لوگ بھی آگے چل رہے ہیں ان کے مسائل کو حل کیا جائے گا۔ 
راشٹریہ جنتا دل کے نائب صدر جناب شیوانند تیواری نے اپنے خطاب میں کہا کہ آج صرف اردو پر ہی نہیں بلکہ سبھی زبانوں کے اخبارات کو بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بد قسمتی سے اردو اور ہندی کا بٹوارہ ہوگیا ۔ اردو کو جب سے مسلمانوں کی زبان سمجھا جانے لگا۔ اسی وقت سے اردو صحافت بحران کا شکار ہوگئی۔ آج کل تو بہت سہولیات ہیں۔ لیکن ایک زمانہ تھا جب گاندھی جی چمپارن آئے تھے تو اس وقت خبروں کی ترسیل میں کافی دشواریاں تھیں۔ پھر بھی گاندھی کو گاندھی بنانے کا کام اردو صحافت نے کیا تھا۔ 
صدارتی خطبہ میں مفتی ثناءالہدی قاسمی نے کہا کہ اردومیڈیا فورم کی جانب سے دو سو سالہ جشن میں جو آوازیں اٹھی ہیں اسے حل کیا جائے گا۔ ہمیں خوشی ہے کہ فورم کی جانب سے جو آواز اٹھی ہے اس کو قبول کیا گیا۔ انہوںنے فورم کے تمام ارکان کا شکریہ ادا کیا کہ کورونا اور نامساعد حالات کے باوجود پروگرام کو منعقد کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ 
اردو میڈیافورم کے سرپرست اشرف فرید نے اردو صحافت کا منظرنامہ پیش کیا اور کہا کہ آج اردو اخبار نکالنا بہت ہی مشکل کام ہے ۔ اقتصادی پریشانیوں کی وجہ سے کئی اخبارات بند ہوگئے ہیں۔ لہذا انہوںنے اس جانب حکومت کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی۔ 
جلسہ کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا اور کنہہ مشق شاعر ناشاد اورنگ آبادی نے مہمانوں کے لئے استقبالیہ نظم پڑھی۔ نظامت کے فرائض اردو میڈیا فورم کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر ریحان غنی بحسن خوبی انجام دیتے ہوئے کہا کہ اگر اردو اخبارات میں بھی سلیقے سے رپورٹنگ کی جائے اور ایمانداری سے چیزیں رکھی جائیں تو حکومت کی توجہ مبذول ہوسکتی ہے۔ لہذا حکومت پر الزام لگانے کے بجائے ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا۔ انہوںنے اردو ، عربی ، فارسی کے پروفیسروں کی بحالی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک اردو اخبار کی جو رپورٹنگ کی وجہ سے ممکن ہوئی۔ اس موقع پر صحافت پر ڈاکٹر ذاکر حسین کی ایک ضخیم کتاب کا اجراءکیا گیا۔
اس موقع پر شاعری اور اردو صحافت کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے پٹنہ کالج کے سابق پرنسپل پروفیسر اعجاز علی ارشد نے کہا کہ شاعری اور صحافت میں بے حد گہرا رشتہ ہے۔ اگر یہ دونوں جڑواں بہنیں نہیں ہیں تو سہیلی ضرور ہیں۔ اور دونوں ایک دوسرے کی معاون ہیں۔ اگر شاعر اپنی مقبولیت کے لئے اخبار کا سہارالیتا ہے تو وہ عوامی بن جاتا ہے اور اخبارات بھی شہرت کا سبب بنتے ہیں۔ 
تقریب سے خطاب کرنے والوں میں مولانا مظہرالحق عربی فارسی یونیورسٹی کے سابق پرووائس چانسلرپروفیسر توقیر عالم، معمر صحافی محمد مظاہرالدین ایڈوکیٹ کے نام قابل ذکر ہیں۔ 
شکریہ کی تجویز اردومیڈیا فورم کے سکریٹری ڈاکٹرانوارالہدی نے پیش کی۔ اس موقع پر اردو میڈیا فورم کے نائب صدر ڈاکٹر اظہاراحمد، ڈاکٹر سیدشہبازعالم،سکریٹری اسحاق اثر،کنوینر رابطہ کمیٹی نواب عتیق الزماں، ضیاءالحسن،میڈیا کمیٹی کے کنوینر ساجد پرویز، انواراللہ، مبین الہدی، جاوید احمدنے پروگرام کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
 پروگرام میں شرکت کرنے والی اہم شخصیتوں میں انوارالحسن وسطوی، کلیم اشرف، شہنواز عطا، آفتاب احمد، راجیش کمار، محمد حسنین، محمد نعمت اللہ، اشرف استھانوی، سید مسعودالرحمان، ڈاکٹر اسلم جاوداں، ڈاکٹر عبدالواحد انصار، ڈاکٹر مکرم حسین ندوی، ڈاکٹر اشرف النبی قیصر، شاہ فیض الرحمان، کاشف رضا، کاشف احمد، نوشاداحمد، وغیر ہ کے نام قابل ذکرہیں۔
دوسرے اجلاس میں مشاعرہ کا انعقادکیا گیا جس میںپروفیسر اعجاز علی ارشد، اثرفریدی، افتخار عاکف، ناشاد اورنگ آبادی، معصومہ خاتون، نکہت آرا ، معین گریڈیہوی، بے نام گیلانی ندیم جعفری، ڈاکٹر شمع یاسمین نازاں، ڈاکٹر نسیم فرحانہ نے اپنی شاعری پیش کی۔

وقار کی حفاظت ____مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

وقار کی حفاظت ____
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار اپنی سنجیدگی ، تحمل ، برداشت اور بُرد باری کے لیے مشہور ہیں، انہوں نے مختلف ذہنیت کے لوگوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائی او راسے کامیابی کے ساتھ عرصہ سے چلا رہے ہیں، انہوں نے انتہائی جونیرتیجسوی یادو کو نائب وزیر اعلیٰ بنا کر بھی کام نکالا اور اب بھاجپا کے ساتھ مل کر بہار کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں، ہم نہیں کہہ سکتے کہ یہ اقتدار کی خواہش ہے یا بہار کی ضرورت ۔
 ان خصوصیات کے با وجود 14مارچ 2022کو وزیر اعلیٰ نے اپنا آپا کھو دیا اور اس بار وہ اسپیکر سے اسمبلی میں بھڑ گئے   ایک سوال کے جواب میں متعلقہ وزیر نے جو کچھ کہا اس سے اسپیکر مطمئن نہیں ہوئے ، معاملہ انہیں کے اسمبلی حلقہ کا تھا، انہوں نے جواب کے لیے اگلی تاریخ مقرر کر دی ، وزیر اعلیٰ اس وقت اسمبلی میں نہیں تھے، لیکن وہ کاروائی دیکھ رہے تھے ، انہوں نے اس کا نوٹس لیا اور انتہائی جذباتی ہو کر  اسمبلی حاضر ہوئے اور صدر نشیں (اسپیکر) پر برس پڑے، انہوں نے یہاں تک کہہ ڈالا کہ ’’سدن اس طرح نہیں چلے گا‘‘ انہوں نے اپنا وہ جملہ بھی دہرا یا کہ ہم کسی کو پھنساتے نہیں اور کسی کو بچاتے نہیں، یہ جن کا کام ہے وہ کر رہے ہیں، اسپیکر نے بار بار اپنی بات کہنی چاہی اور کہتے رہے کہ ’’آسن‘‘ کی بھی سنیے، لیکن وہ مسلسل بولے جاتے رہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اسمبلی میں صدر نشیں کی اس قدر بے عزتی پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی ، اس بات کا احساس وزیر اعلیٰ کو بھی ہوا اور صدر نشیں کو بھی ، وزیر اعلیٰ اس واقعہ کے بعد گورنر سے ملے او صدر نشیں اسمبلی کی کارروائی چلانے کے لیے اگلے دن حاضر نہیں ہوئے، یہ ان کی خفگی کا اظہار تھا، دوسرے دن بھی ہنگامہ کی وجہ سے کاروائی ملتوی کرنی پڑی۔
 اس سے قبل ایک بار اور وزیر اعلیٰ بے قابو ہو گیے تھے، موقع تیجسوی یادوکی تقریر پر اظہار خیال کا تھا، اس موقع سے پہلی بار اسمبلی نے وزیر اعلیٰ کو آپا کھوتے دیکھا تھا اور اسمبلی کے ارکان ہی نہیں ، میڈیا کے لوگ بھی انگشت بدنداں تھے کہ تیجسوی تو کل کا بچہ ہے ، آخر وزیر اعلیٰ کو کیا ہو گیا ہے ؟
 اسمبلی میں جو کچھ ہوا، بُرا ہوا، مسئلہ شخصی نہیں  ہے، شخصیتیں آتی جا تی رہتی ہیں ، مسئلہ عہدوں کے وقار کا ہے ، دائرے اور حدود کا ہے ، یہ دائرے ٹوٹ گیے او روقار کا لحاظ نہیں کیا گیا تو اسمبلی میں ارکان ہاتھا پائی او رکرسی میز الٹتے رہتے تھے ، اب صدر نشیں (اسپیکر) کی بھی کوئی نہیں سنے گا ، ایسے میں اسمبلی میں کارروائی چلانا مزید دشوار تر ہوجائے گا جو پہلے بھی کبھی آسان نہیں تھا۔

ہفتہ, مارچ 26, 2022

چھتیس گڑھ_بہار-جھارکھنڈ میں مدرسہ کے اساتذہ کو 4سال سے تنخواہ نہیں ملی،اقلیتی کمشن نے مرکز سے اپیل کی

چھتیس گڑھ_بہار-جھارکھنڈ میں مدرسہ کے اساتذہ کو 4سال سے تنخواہ نہیں ملی،اقلیتی کمشن نے مرکز سے اپیل کی

چھتیس گڑھ، بہار اور جھارکھنڈ میں مدرسہ کے اساتذہ کی تنخواہ پچھلے سال سے بقایا ہے۔ قومی اقلیتی کمیشن (این سی ایم) اس سلسلے میں مرکزی حکومت کو خط لکھے گا۔ این سی ایم کے رکن (قائم مقام صدر) سید شہزادی نے بتایا کہ انہوں نے اقلیتوں کی زمینی صورتحال جاننے کے لیے ان ریاستوں کا دورہ بھی کیا۔

شہزادی نے کہا، "ان ریاستوں میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ مدارس کے اساتذہ کو چار سال کی تنخواہ دینے سے انکار کیا گیا ہے۔ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ وزارت تعلیم کو ان کی 2018 تک کی ادائیگی کے اجراء کے حوالے سے ایک خط بھیجا گیا ہے۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے۔ اساتذہ کو دوبارہ خط لکھیں تاکہ ان کی تنخواہ جلد مل جائے۔

این سی ایم ممبر نے کہا کہ اگر ان کی فلاح و بہبود کا کوئی مطالبہ پورا نہیں ہوتا ہے، تو ہم اس کے لیے حکومت کو باقاعدہ یاددہانی بھیجتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یوپی کے رام پور میں مرکزی حکومت نے مدرسہ کے اساتذہ کو کچھ راحت دی ہے۔ تقریباً 200 اساتذہ کا اعزازیہ جاری کیا گیا ہے۔ ان کے کھاتوں میں رقم بھیجنے کا عمل شروع ہو گیا ہے۔

ضلع میں جدید کاری کے منصوبے میں 100 سے زائد مدارس شامل ہیں۔ مدارس میں جدید تعلیم کے لیے اساتذہ تعینات ہیں۔ لیکن اساتذہ کو تقریباً 53 ماہ سے اعزازیہ نہیں ملا۔ اس لیے مدارس میں جدید تعلیم دم توڑ رہی ہے۔ اساتذہ عرصہ دراز سے اعزازیہ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ مرکز نے ضلع کے 74 مدارس کے تقریباً 200 اساتذہ کو 2021-22 کے لیے مرکز کے حصہ کے 60 لاکھ روپے جاری کیے ہیں

ہم عصر شعری جہات___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

ہم عصر شعری جہات___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 بدر محمدی کے قلمی نام سے مشہور ڈاکٹر بدر الزماں (ولادت 2؍ نومبر1983) بن مرحوم ریاض علی ساکن چاند پور فتح ڈاک خانہ بریار پور ضلع ویشالی کا نام علمی ،ادبی وتنقیدی دنیا میں مشہور ومعروف ہے ، اکیسویں صدی کی دو دہائی کے درمیان ادب، شاعری اور تنقید وتبصرہ کے حوالہ سے جو چند نام ہمارے درمیان ابھر ے اور دیکھتے دیکھتے بساط علم وفن پر چھا گیے ان میں ایک نام بدر محمدی کا ہے ، ان کی غزلیات کا مجموعہ بنت فنون کا رشتہ 2011، تبصروں پرمشتمل امعان نظر 2015، غزلیات کا دوسر ا مجموعہ خوشبو کے حوالے 2017اور تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہم عصر شعری جہات 2021میں اشاعت پذیر ہوئے اور پذیرائی کی منزل طے کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں رہے ، 2012میں بہار اردو اکیڈمی اور 2018میں اتر پردیش اکیڈمی نے انہیں ایوارڈ دے کر ان کی ادبی خدمات کا اعتراف کیا۔
’’ ہم عصر شعری جہات‘‘ ان کی تازہ ترین تصنیف ہے، جو ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے اورجس کا اجراء ملک کی ریاستوں کے کئی مرکزی شہروں میں ہوچکا ہے، مختلف شہروں میں اجراء کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ مصنف کو قارئین کی کمی کا شکوہ نہیں ہوتا، اور کتاب اہل علم تک پہونچ جاتی ہے ، صورت حال اس قدر نا گفتہ بہہ ہے کہ مطبوعہ اردو کتابوں کو مستحقین تک پہونچا دینا یہ بھی بڑا کام لگتا ہے، قیمت بھی وصول ہوجائے تو نور علی نور ۔
 ہم عصر شعری جہات کا انتساب مصنف نے ان بہی خواہوں کے نام کیا ہے جنہوں نے تنقید نگاری کی طرف بدر محمدی کو راغب کیا، دو سو سولہ (216)صفحات پر مشتمل اس مجموعہ میں چوبیس مضامین ہیں، جن میں سعید رحمانی کی حمدیہ سحر کاری ، فرحت حسین خوش دل کی دعائیہ نظمیں نویدی کی نثری نعتوں پر ایک نظر ، طالب القادری کی نعتیہ شاعری، ناوک حمزہ پوری کی نظمیہ رباعیات، حافظ کرناٹکی کی قطعات نگاری، روٹی جیسا چاند کا دوہانگار، ف،س اعجاز کی چند پابند نظمیں، عطا عابدی کی ’’زندگی زندگی اور زندگی، اندھیرے میں نور کی نظمیں، ظہیر صدیقی کا شاعرانہ اختصاص، شگفتہ سہسرامی کی شعری شگفتگی ، حمید ویشالوی بحیثیت استاذ شاعر، صبا نقوی کی شعری جمالیات ، ضیاء عظیم آبادی کی شاعرانہ ضیا پاشی، اوج ثریا کے شاعر کی زمینی وابستگی ، علیم الدین علیم کی غزلوں کا رنگ وآہنگ ، سائے ببول کے اور اظہر نیر ، لفظ لفظ آئینہ اور اس کی تصویریں ، تیکھے لہجے کا شاعر : ظفر صدیقی، اشرف یعقوبی کا شعری آہنگ ، منظور عادل کا سرمایہ سخن، مینو بخشی کی اردو شاعری کرب نا رسائی کی شاعرہ شہناز شازی کی شاعری اور کتابوں کا تفصیلی جائزہ لیا ہے اور شعر وادب میں شاعر وشاعرات اور ان کی کتابوں کے رنگ وآہنگ اور مقام ومرتبہ کے تعین کی کامیاب کوشش کی ہے ، ہمارے یہاں عموما تنقید نگار شاعر کی فکری جہتوں پر تو کلام کرتے ہیں، جو نسبتاً آسان کام ہے، لیکن فنی جہتوں پر گفتگو یا تو کم ہوتی ہے یا بالکل نہیں ہوتی ہے۔ بدر محمدی کی تنقیدوں میں بھی فنی جہتوں پر گفتگو کی کمی کھٹکتی ہے۔ بدر محمدی خود شاعر ہیں، ان کا مطالعہ وسیع ہے اس لیے وہ فنی جہتوں پر بھر پور گفتگو کی اہلیت رکھتے ہیں، لیکن بیش تر مضامین میں یہ ان چُھوارہ گیا  ہے ، حالاں کہ انہوں نے خود اپنی اس تنقید کو جمالیاتی تنقید قراردیا ہے اور لکھا ہے کہ ’’جس میں فنی حسن کو معیار قرار دیا جاتا ہے" ۔
کتاب کا آغاز جہت اول سے ہوتا ہے جس میں بدر محمدی نے اپنی تنقیدی نگارشا ت کے اختصاص ، تنقید وتخلیق کے باہمی رشتے اور شاعری کے حوالہ سے اچھی گفتگو کی ہے اس سے  وسعت مطالعہ اور اس میں گہرائی اور گیرائی کا پتہ چلتا ہے ، ڈاکٹر اسلم حنیف ، ڈاکٹر حقانی القاسمی، ڈاکٹر آفتاب عالم صدیقی نے علی الترتیب امتزاج پسند ناقد، بدر محمدی ، نقد شعر اور بدر محمدی ، مشکل راہوں کا مسافر۔ بدر محمدی کے عنوان سے مصنف کی تنقیدی بصیرت، ان کے تنقیدی طریقہ کار اور ان کی تجزیاتی صلاحیتوں کے در وبست پر روشنی ڈالی ہے ۔ ڈاکٹر اسلم حنیف گنور بدایوں لکھتے ہیں کہ ’’بدر محمدی کے یہاں شعری جمالیات کی تفہیم وانشراح کا توضیحی انداز غالب نظر آتا ہے ، اور وہ فن پاروں میں مضمر مختلف پہلوؤں کی گرفت کے ہنر سے آگاہ ہیں۔(صفحہ 14)  حقانی القاسمی نے لکھا ہے کہ ’’انہوں نے تحسین شعر یا تفہیم شعر میں مثبت اور صحت مند رویہ اختیار کیا ہے اس سے ایک ایسا معاصر شعری منظر نامہ ترتیب پاتا ہے جو ہماری تنقید کو ایک نیا آئینہ دکھاتا ہے ۔(صفحہ 25)ڈاکٹر آفتاب عالم صدیقی کی رائے ہے کہ ’’بدر محمدی تنقیدی زبان کے استعمال پر دسترس رکھتے ہیں، اور اپنی بات سلیقے سے کہنے کا ہنر جانتے ہیں۔ (صفحہ31)شفیع مشہدی نے لکھا ہے کہ بدر محمدی کے مضامین میں معروضیت بھی ہے اور دیانت بھی، اور پروفیسر نجم الہدیٰ سابق صدر شعبہ اردو بہار یونیورسیٹی مظفر پور نے لکھا ہے کہ بدر محمدی صرف لفظوں کے در وبست سے کام نہیں لیتے، فکر انگیزی اور قدر شناشی کی زیریں لہر ہر جگہ صاف نظر آتی ہے ۔‘‘
یہ کتاب قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی کے مالی تعاون سے چھپی ہے ، اس لیے اس کی قیمت صرف ایک سو اڑتیس روپے ہے ، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی معیاری طباعت اور عمدہ مارکیٹنگ کے لیے مشہور ہے ، یہ کتاب ہر اعتبار سے عمدہ چھپی ہے، کاغذ طباعت، سیٹنگ ، پروف ریڈنگ اور جلد سازی سبھی کچھ معیاری ہے، بک امپوریم سبزی باغ پٹنہ 4سے یہ کتاب مل سکتی ہے ۔

یوگی آدتیہ ناتھ کی بطور چیف منسٹر یوپی دوسری بار حلف برداری

یوگی آدتیہ ناتھ کی بطور چیف منسٹر یوپی دوسری بار حلف برداری

یوگی کابینہ میں مسلم وزیر دانش انصاری بھی شامل

لکھنو: یوگی آدتیہ ناتھ نے دوسری بار یوپی کے چیف منسٹر عہدے کا آج حلف لے لیا ہے۔ اس کے علاوہ کیشو پرساد موریہ کو ایک بار پھر ڈپٹی چیف منسٹر کی ذمہ داری ملی ہے اور اس بار بھی ان کاسرکاری قد دوسرے نمبر کا ہوگا۔ وہیں یوگی حکومت کی پہلی مدت میں وزیر قانون کی ذمہ داری سنبھالنے والے برجیش پاٹھک کو دوسرا نائب وزیر اعلیٰ بنایا گیا ہے۔ وہیں، یوگی کابینہ 2.0 میں ذات پات کی برابری کا بھی پورا دھیان رکھا گیا ہے۔دانش آزاد انصاری مسلم نمائندہ وزیر ہیں ۔

یوگی آدتیہ ناتھ کی کابینہ میں اس بار 52 وزیر بنے ہیں۔ اس میں برہمن (8)، او بی سی (20)، شیڈول کاسٹ (8)، جاٹ (5) اور (6) ٹھاکر وزیر شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بھومیہار، ویشیہ، سکھ، کایستھ، پنجابی اور مسلم طبقے کو بھی نمائندگی دی گئی ہے۔ ویسے اس بار یوگی کے ساتھ دو نائب وزرائے اعلیٰ، 16 کابینی وزیر، 14 ریاستی وزیر (آزادانہ چارج) اور 20 ریاستی وزرا نے حلف اٹھایا ہے۔ حالانکہ اس کابینہ کی ایک خاص بات یہ رہی کہ ریاستی وزیرحج محسن رضا کی چھٹی کر دی گئی ہے اور ان کی جگہ پر دانش آزاد انصاری کو موقع دیا گیا ہے۔کابینی وزیر: سوریہ پرتاپ شاہی، سریش کمار کھنہ، سوتنتر دیو سنگھ، بی بی رانی موریہ، لکشمی نارائن چودھری، جے ویر سنگھ، دھرمپال سنگھ، نند گوپال گپتا نندی، بھوپیندر سنگھ چودھری، انل راج بھر، جتن پرساد، راکیش سچان، اروند کمار شرما، یوگیندر اپادھیائے، آشیش پٹیل اور سنجے نشاد۔

چیف منسٹر یوگی کی نئی کابینہ میں 52 وزراء
لکھنؤ: اترپردیش کی گورنر آنندی بین پٹیل نے یوگی آدتیہ ناتھ نے جمعہ کو ملک کی کثیر آبادی والی ریاست اترپردیش کے چیف منسٹر کی حیثیت سے دوسری بار حلف دلایا ہے ۔ ان کے ساتھ گورنر نے برجیش پاٹھک اور کیشو پرساد موریہ کو ڈپٹی چیف منسٹرس کا حلف دلایا۔ریاستی دارالحکومت لکھنؤ کے اکانا اسٹیڈیم میں منعقدہ حلف برداری تقریب میں گورنر آنندی بین نے 16کابینی وزراء، 14مملکتی وزراء (آزادانہ چارج) اور 20وزراء کومملکتی درجہ کی حیثیت سے حلف دلایا۔ تقریب میں وزیر اعظم نریندر مودی، بی جے پی کے صدر جے پی نڈا، وزیرداخلہ امیت شاہ سمیت متعدد مرکزی وزراء، بی جے پی حکمرانی والی ریاستوں کے وزراء کے علاوہ معروف سیاسی و سماجی شخصیات و بی جے پی کارکنان موجود رہے ۔یوگی کابینہ میں کابینی وزیر کی حیثیت سے حلف لینے والوں میں سریش کمار کھنہ، سوریہ پرتاپ شاہی،سوتنتر دیو سنگھ، بیبی رانی موریہ، لکشمی نارائن چودھری، جیویر سنگھ، دھرمپال سنگھ، نندگوپال گپتا نندی، بھوپیندر چودھری، انل راج بھر، جتن پرساد، سنجے نشاد شامل ہیں۔ وہیں مملکتی وزیر (آزادانہ چارج )کی حیثیت سے حلف لینے والو ں میں نتن اگروال،کپل دیواگروال، روندر جیسوال،سندیپ سنگھ، گلاب دیوی،گریش چندر یادو،دھرمویر پرجاپتی،اسیم ارون،جے پی ایس راٹھور،دیا شنکر سنگھ، نریندر کشیپ،دنیش پرتاپ سنگھ،ارون کمار سکسینا، دیا شنکر مشر'دیالو' کے نام شامل ہیں۔ 10مارچ کو یوپی اسمبلی چناؤ کے نتائج میں بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتوں نے 273سیٹوں پر جیت درج کیا تھا۔

جبکہ مملکتی وزراء میں مینکیشور سنگھ، دنیش کھٹک،سنجئے گوڑ، بلدیو سنگھ اولکھ،اجیت پال، جسونت سینی، رام کیشو نشاد،منوہر لال منو کوری،سنجئے گنگوار، برجیش سنگھ، کے پی ملک، سریش راہی،سومیندر تومر،انوپ پردھام والمیکی،پرتبھا شکلا،راکیش راٹھر گرو،رجنی تیواری،ستیش شرما، دانش آزاد انصاری،وجئے لکشمی گوتم نے حلف لیا ہے ۔دلچسپ ہیں کہ ستیش مہانا،رما پتی شاستری،جئے پرتاپ سنگھ،شری کانت شرما،سدھارتھ ناتھ سنگھ،آشوتوش ٹنڈن، ڈاکٹر نریندر سنگھ،رام نریش اگنیہوتری،سریش رانا،ڈاکٹر نیل کنٹھ تیواری،اشوک کٹاریا،شری رام چوہان ایسے نام ہیں جو سابقہ حکومت میں وزیر تھے لیکن اس بار انہیں یوگی کابینہ میں جگہ نہیں ملی ہے ۔جبکہ گلاب دیوی اور سندیپ سنگھ کو کو مملکتی وزیر سے مملکتی وزیر( آزدانہ چارج) کے عہدے پر پرموشن دیا گیا ہے سندیپ سنگھ کلیان سنگھ کے پوتے ہیں۔

*حافظ قرآن کی حفاظت کیجئے*

*حافظ قرآن کی حفاظت کیجئے*
مدرسہ شمس العلوم سیسونا گیاری میں دستاربندی حفاظ کرام اجلاس کے صدر جناب حضرت مولانا عبدالمنان صاحب نے اپنے صدارتی خطاب میں حفاظ قرآن کی حفاظت کی اپیل کی ہےاور اسے موجودہ وقت کی سب سے اہم ضرورت قرار دیا ہے۔
موصوف کہتے ہیں کہ آج قرآن کے حافظوں کو اچک لیاجارہا ہے۔ہر مدرسہ میں کچھ خاص قسم کےلوگ پہونچ رہےہیں اور حفاظ کرام کو معاشی ترقی کاسبز باغ دکھا کرمدارس سےدور کررہے ہیں۔جب کہ مدارس اسلامیہ کو ان جیسے ذہین افراد کی آج شدید ضرورت ہے۔ایسا شخص جو قرآن کے تیسوں پاروں کو حفظ کرسکتا ہےوہ بہترین معلم بن سکتا ہے اور نبی آخر الزماں کا سچا اور پکا جانشین بن کر دین کی تبلیغ کا فرض انجام دے سکتا ہے۔مدرسوں میں آج اچھے مدرسین نہیں ہیں۔بخاری شریف کا حق مدرسی ادا کرنے والے خال خال دستیاب ہیں۔اس تعلق سےایک بڑاسا خلاپیدا ہوگیا ہے۔ حافظ قرآن سے بڑی امید کی جاسکتی ہے۔ایک حافظ بہترین معلم ومدرس بن کرقران کریم کی حفاظت کا ذریعہ بنتا ہے،اور تھوڑی سی محنت میں عالم بن کراس خلا کو پر کرسکتا ہے،مزید انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔
 افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ان حفاظ کو ڈاکٹر انجینئر بننے کا سبز باغ دکھا کر مدارس اسلامیہ اورملت اسلامیہ ہندکے حق میں نا انصافی کی جارہی ہے۔یہ ایک یہودی چال ہے۔
میرے مدرسہ میں میرے غائبانہ میں کچھ لوگ پہونچے، میرے پاس فون آیا کہ حفاظ کرام کو لینے آئے ہیں، میں نے منع کردیا اور یہ بھی کہ دیا کہ آپ جیسے لوگوں کے خلاف میں جلسوں میں تقریر کروں گا،آج میں آپ کو ہوشیار کررہا ہوں اور خبردار کررہا ہوں کہ یہ یہودی سازش ہے،یہ دراصل اچھے ذہین اور باصلاحیت اساتذہ سے مدارس کو خالی کرنے کی ایک ناپاک کوشش ہے۔
یہ باتیں مولانا عبدالمنان صاحب قاسمی خلیفہ و مجاز حضرت شاہ ابرارالحق صاحب ہردوئی رحمۃ اللہ علیہ نےمجمع عام میں کہی ہے۔
ہمارے لئے سوچنے کی بات یہ بھی کہ مدارس میں پڑھنے والوں کی تعداد معمولی ہے۔بعض احباب کی زبانی صرف دوفیصد مسلم آبادی مدارس میں زیر تعلیم ہے۔اسمیں حفاظ کرام کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔اسی جماعت سے مساجد کی امامت کا کام لیا جاتا ہےاور رمضان المبارک کے موقع سے تراویح میں تکمیل قرآن کی سعادت ہمیں نصیب ہوتی ہے۔ تجربہ یہ بتلاتا ہے کہ جس حافظ صاحب نے اپنا میدان خالص  عصری اداروں کو فکر معاش کے لئے بنایا ہے وہ قرآن کریم مکمل محفوظ نہیں رکھ سکے ہیں، (الا ماشاءاللہ )
ایسے میں واقعی ہمارے لئے یہ سوچنے کی بات ہے۔مولانا موصوف کی تقریرسے یہ تشویش بھی پیدا ہوتی ہے کہ مساجد ومدارس جو دین کے قلعے ہیں،یہ آج اس طریق سےکمزور ہوتے جارہے ہیں اور کمزور ہاتھوں میں چلےجارہے ہیں۔اچھے انجینئر اور اچھے ڈاکٹرس کی آج کمی نہیں ہے، مگر ایک انقلابی امام اور اجتہادی صلاحیت کے حامل عالم کی ملک وملت کو آج شدید ضرورت ہے۔موجودہ حالات اورپیش آمدہ واقعات ومسائل کے حل کے لئے حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی حکمت مطلوب ہے۔ایک طرف جہاں قرآن کی آیات ازبر ہوں تو دوسری طرف اس آخری کتاب کےمعانی ومفاہیم پر گہری نظر ہو۔آیات احکام سے ہی نہیں بلکہ قرآنی قصص واقعات سے بھی وہ دعوت وہدایت کا فریضہ انجام دینے کا اہل ہو۔اس کے لئےایک حافظ سے زیادہ موزوں شخص اور کون ہوسکتا ہے جو قرآن کے ایک ایک لفظ اور ایک ایک حرف کو زبانی یادکرلیا ہے۔اب اسے قرآن کی وادیوں میں سفر کرنے کی ضرورت ہے۔مگر افسوس ہے کہ فکر معاش میں وہ زیر وزبر ہورہا ہے۔مولانا موصوف کی اس بات میں بڑا دم ہے اور وقت ہمارے پاس بہت ہی کم ہے۔اس عنوان پر باضابطہ ایک تحریک شروع کی جائے کہ "حافظ قرآن کی حفاظت کیجئے "۔
راقم الحروف
ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 
رابطہ  9973722710

جمعہ, مارچ 25, 2022

دنیاکی سب سے تیزچکن کھانے والی عورت سے ملئے

دنیاکی سب سے تیزچکن کھانے والی عورت سے ملئے

میلان: برطانیہ سے تعلق رکھنے والی خاتون نے ایک منٹ میں 19 چکن نگٹس کھا کر گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں اپنا نام درج کرالیا۔

گنیز بک کی ویب سائٹ نے خاتون کی ویڈیو شیئر کی اور بتایا کہ لیہ شٹ کیور کا تعلق برطانیہ کے ویسٹ مِڈلینڈز سے ہے جنہیں گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں کھانے کے پروگرام میں مدعو کیا گیا۔

یہ پروگرام اٹلی کے شہر میلان میں ہوا، شو میں لیہ نے ایک منٹ میں 20 نگٹس کھانے کا چیلنج قبول کیا، کھانے والے 19 نگٹس کا وزن 12.5 اونس تھا۔

برطانوی خاتون کوششوں کے باوجود بھی 20 نگٹس کھانے کا چیلنج پورا نہ کرسکیں لیکن وہ 19 نگٹس کھانے میں کامیاب رہیں جس کے بعد یہ ریکارڈ قائم ہوا۔

خاتون نے 2020 میں نیلا زائسر نامی خاتون کا بنایا گیا ریکارڈ توڑا جنہوں نے 10.51 وزن کے نگٹس کھائے تھے۔

لیہ شٹ کیور کا اس سے قبل بھی گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں نام ہے، انہوں نے ہاتھوں کا استعمال کیے بغیر برق رفتاری سے مفن کیک کھایا تھا، اس کے علاوہ انہوں نے تین گوشت کے بڑے ٹکڑے کھانے کا بھی ریکارڈ بنا رکھا ہے۔

لیہ کے نام ایک منٹ میں سب سے زیادہ ٹماٹر کھانے کا بھی اعزاز ہے۔ (ایجنسی)


اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...