Powered By Blogger

منگل, جون 28, 2022

گھر میں لگی آگ میں زندہ جلے میاں ۔ بیوی

گھر میں لگی آگ میں زندہ جلے میاں ۔ بیوی

آگ میں جھلسے 38 سالہ دلار چند کی بھی حالت تشویشناک

موتیہاری ، 28 جون (اردو دنیا نیوز۷۲) ۔ضلع کے پٹاہی بلاک علاقہ میں واقع ننفروا پنچایت کے وارڈ نمبر -6 کے ایک مکان میں پیر کی دیر رات آگ لگنے کے واقعہ میں شوہر اور بیوی زندہ جل گئے ۔ مرنے والوں میں 60 سالہ گنیش مہتو اور 55 سالہ گنگاجلی دیوی بتائی جاتی ہے۔ جبکہ گھر کا ایک فرد 38 سالہ دلار چند مہتو شدیدطور سے جھلس گئے ۔ ان کی حالت بدستور تشویشناک ہے۔

آتشزدگی کے واقعہ میں اشیائے خوردونوش سمیت لاکھوں روپے مالیت کا سامان جل کر خاکستر ہوگیا۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق بتایا جاتا ہے کہ گنیش مہتو ایک معذور شخص تھا۔ پیر کی دیر رات ان کے گھر میں اچانک آگ لگ گئی ۔ ان کی بیوی گنگاجلی دیوی اپنے شوہر کو بچانے آئی۔ لیکن دونوں آگ کی زد میں آکر ہلاک ہوگئے ۔ آگ کے شعلے اتنے زوردار تھے کہ جب تک لوگ کچھ سمجھ پاتے آگ نے پورے گھر کو اپنی زد میں لے لیا۔حالانکہ اس کی اطلاع پر محکمہ فائر ڈ کی ٹیم گاؤں والوں کے پاس پہنچ گئی۔ ٹیم نے واٹر کینن کے ذریعے آگ پر قابو پالیا۔ اس دل دہلا دینے والے واقعے کے بعد گاؤں والے حیران رہ گئے۔ واقعہ میں لاکھوں روپے مالیت کی املاک کے تباہ ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔ سرکل افسر سوربھ کمار نے کہا کہ متاثرہ خاندان کو ہر ممکن سرکاری مدد فراہم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ واقعہ کے بعد گاؤں والے خوفزدہ ہیں۔

مساجد کے اندر کوچنگ سینٹر کھولیں ! -نقی احمد ندوی

مساجد کے اندر کوچنگ سینٹر کھولیں ! -نقی احمد ندوی(اردو دنیا نیوز۷۲)
ہمارے ملک میں کتنے ایسے انٹرنس ایگزامس اور امتحانات ہوتے ہیں جن کی تیاری کے لیے بچوں کو کسی بڑے شہر کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ ہم اپنے شہر کی جامع مسجدوں میں کوچنگ سینٹر قائم کریں جہاں پر مسلم طلباء NEET, JEEوغیرہ کے مسابقاتی امتحانات کی تیاری کرسکیں۔ شہر کے کسی جامع مسجد میں JEEاور کسی دوسری میں NEET کی تیاری کا نظم و نسق ہو، تاکہ بچوں کو باہر جانے کی ضرورت نہ پڑے۔ اس کے لیے بھی معقول فیس رکھی جاسکتی ہے جو دوسرے اداروں سے انتہائی کم اور معمولی ہو جس سے اسٹوڈنٹس کو بھی فائدہ ہو اور مسجد کو بھی۔ کوچنگ سینٹر کھولنے کے لیے بہت زیادہ کمروں یا جگہ کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ مسجد کے ایک دو کمرے بہت آسانی سے استعمال کرکے کوئی بھی کوچنگ سینٹر کھولا جاسکتا ہے۔ ساتھ ہی مسجد کی لائبریری میں ایسے اگزامس کی تیاری کی کتابیں رکھی جائیں جس سے طلباء مستفید ہوں۔ اگر ایسی لائبریری قائم کی جائے تو بیشتر لوگ اور طلباء ایسی کتابیں لاکر مسجدوں میں خود بہ خود رکھنا شروع کردیں گے جس سے ہمارے طلباء مستفید ہوتے رہیں گے۔
مسجدوں کے اندر کوچنگ سینٹر کھولنا نہ تو مشکل کام ہے اور نہ کوئی نئی بات ہے۔چنئی کی ایک مسجد نے UPSCکا کوچنگ سینٹر کھول کر ایک ایسا نمونہ پیش کردیا ہے جسے ذمہ داران مساجد نمونہ کے طور پربخوبی استعمال کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی مساجد میں ایسے کوچنگ سنٹرس کا انتظام ہوگا جس کا ہم سب کو علم نہیں۔ ہم یہاں چنئی کی کوچنگ سنٹر پر ایک مختصر رپورٹ جو ٹائمز آف انڈیا میں شائع ہوئی تھی پیش کرتے ہیں:

اناملائی میں واقع مکہ مسجد کے امام مولانا شمس الدین قاسمی آج فخر محسوس کررہے ہیں کہ ان کی پہلی ہی کوشش بار آور ہوئی ہے۔ انھوں نے مسجد ہی کے اندر آئی اے ایس کے امتحان میں شریک ہونے والے طلباء کے لیے ایک ٹریننگ اکیڈمی کا آغاز کیا تھا، 2011ء میں Azhagiya Kadan IASاکیڈمی کے نام سے انھوں نے مسجد کے تیسرے فلور پراس اکیڈمی کا آغاز کیا تھا۔ جس میں شروع میں صرف 26طلباء تھے۔ آج انھیں طلباء میں ایک محمد اشرف جی ایس نے پہلی ہی دفعہ میں UPSCاگزام پاس کرلیا ہے اور 1032رینک حاصل کیا ہے۔

مولانا شمس الدین کا کہنا ہے کہ ملک میں کوئی ایسی مسجد نہیں پائی جاتی جو اپنے احاطہ میں مسجد کے اندر سول سروسیز کی ٹریننگ اکیڈمی چلاتی ہو۔ یہ اکیڈمی مفت کوچنگ، قیام و طعام، کتابیں اور اسٹڈی میٹریل مہیا کراتی ہے۔ یہ اکیڈمی سالانہ چالیس لاکھ روپئے اس پر خرچ کرتی ہے۔ اور یہ فنڈ اسی کمیونٹی کے لوگ مہیا کرتے ہیں۔

اشرف پہلے چنئی میٹرو ریل لمیٹڈ میں کام کرتے تھے، انھوں نے اپنی نوکری چھوڑ کر سول سروسز جوائن کرنے اوراپنے بچپن کے خواب کو پورا کرنے کا ارادہ کیا۔ اشرف سیوا گنگا ضلع میں واقع کرائے کوڈی کے رہنے والے ہیں جہاں ان کے والد ایک ویلڈنگ ورکشاپ چلاتے ہیں۔ انھوں نے 2011ء میں انّا یونیورسٹی سے انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی، گریجویشن کے بعد انھوں نے 28000ماہانہ کی تنخواہ پر CMRLجوائن کرلی۔

اشرف ان 28طلباء میں شامل تھے جن کو اکیڈمی نے 1200درخواست کنندگان میں سے منتخب کیا تھا۔ اشرف نے 2012ء میں مسجد کی اکیڈمی میں داخلہ لیا۔ اور مئی 2013ء میں سول سروسز کے امتحان میں شرکت کی۔ گرچہ ان کا رینک 1032آیا ہے مگر کمیونٹی کیلوگ اس کو ایک شاندار کامیابی کے طور پر مانتے ہیں۔ مستقبل میں یہ اکیڈمی مسلم نوجوانوں کے لیے ایک مشعل راہ کا کام کرے گی۔

مولانا شمس الدین نے کہا کہ اشرف کی کامیابی سے مسلم طلباء کی ہمت افزائی ہوئی ہے، ہم طلباء سے اکیڈمی جوائن کرنے کی اپیل کرتے ہیں۔ فی الحال ہمارے پاس 50طلباء ہیں مستقبل میں 100 طلباء کوکوچنگ کرانے کا ارادہ ہے۔

اشرف کا ماننا ہے کہ مسجد کی اکیڈمی ہی کی وجہ سے وہ کامیاب ہوسکے ہیں۔ لوگوں کو اپنے بچوں کو ملک کے باہرمزدوری کرنے کے لیے بھیجنے کی ذہنیت کو بدلنی چاہیے۔ اس کے بجائے انہیں اچھی تعلیم دینی چاہیے۔ اشرف کا خیال ہے کہ IASمیں مسلمانوں کا تناسب صرف 2%ہے، اس قسم کی اکیڈمیوں کے ذریعے اس تناسب کو بڑھایا جاسکتا ہے۔ ٹائمز آف انڈیا، 13جون، 2014،

اگر چنئی کی ایک مسجد ہندوستان کے سب سے مشکل ترین امتحان سول سروسز کی تیاری اپنی مسجد کے اندر کراسکتی ہے تو کیا آپ اپنی مسجد میں میٹرک، JEEیا NEET کی تیاری نہیں کراسکتے؟ کس نے آپ سے کہا کہ مسجدیں صرف دینی تعلیمات کے پڑھنے کے لیے وجود میں آئی ہیں۔ یہ وہ مرکز ہے جس کا صحیح استعمال آپ کی قوم کی تقدیر بدل سکتا ہے۔

صرف ہندوستان کے اندر مسجد کو عصری تعلیم کے لیے استعمال نہیں کیا گیا ہے بلکہ برطانیہ کی مسجد میں خالص ٹیکنیکل تعلیم مسجد کے اندر ہورہی ہے۔ وہاں کی مسجد میں نوجوانوں کو ایسے ہنر سکھائے جاتے ہیں جو ان کی معاش کا ذریعہ اور وسیلہ بن سکے۔

واشنگٹن میں ایک مسجد ہے جس کا نام مسجد محمدؐ ہے، اس اسکول میں نوجوانوں کے لیے ہفتہ کے آخر میں اسکول چلایا جاتا ہے، لیڈر شپ پروگرام کا انعقاد کیا جاتا ہے اور ساتھ ہی حفظ کرایا جاتا ہے۔ مسجد والوں نے فل ٹائم اسکول کھولنے کا بھی منصوبہ بنارکھا ہے۔

ہمیں اپنے ملک میں بھی پوری دانشمندی کے ساتھ اپنے نبی پاکؐ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی مسجدوں کو تعلیم کا مرکزبنانے کی ضرورت ہے۔ اگر ایسا کرنے میں آپکامیاب ہوجاتے ہیں تو یقین مانئے کہ آپ کے علاقہ میں آپ کی مسجد ایک ایسا انقلاب برپا کرنے میں ممد و معاون ہوسکتی ہے جو ہماری قوم کے ساتھ ساتھ ہمارے ملک کی بھی تعمیر و ترقی میں ایک سنگ میل ثابت ہوگا۔

ملازمتوں کے وعدے_____

ملازمتوں کے وعدے_____(اردو دنیا نیوز۷۲)
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ، پھلواری شریف پٹنہ
 بھاجپا کی مودی حکومت کے اب کم وبیش ڈیڑھ سال باقی ہیں، انتخاب سر پر ہے ، اس لیے وزیر اعظم نے اعلان کیا ہے کہ ڈیڑھ سال (جو بچے ہوئے ہیں) اس میں سرکاردس لاکھ لوگوں کو نوکری دے گی، اگر مودی جی کے دوسرے فیک جملوں کی طرح یہ صرف جملہ بازی نہ ہو تو یہ ایک بڑا اعلان ہے اور اسے زمین پر اتار دیا گیا تو آئندہ انتخابات میں اس کا فائدہ بھی بی جے پی کو ملے گا، گواس وقت بھی عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہوگی کہ ہر سال جو دو کروڑ ملازمت کا وعدہ آپ نے کیا تھا اس کا کیا رہا ، آٹھ سال میں سولہ کروڑ کی نوکری کی جگہ صرف دس لاکھ کیا معنی رکھتا ہے ۔
سنٹر فار انڈین اکاڈمی کے سروے کے مطابق ہندوستان میں بے روزگاری کی شرح ۳ئ۷ ؍ فیصد ہے، ہر سال ۲ ء ۱؍ کروڑ بے روزگاروں کا اضافہ ہوجاتا ہے، کیوں کہ ان کی عمر ملازمت کی ہوجاتی ہے، مرکزی حکومت کے پاس چالیس لاکھ سات ہزار (4007000)آسامیاں منظور شدہ ہیں، جن میں اکتیس لاکھ اکانوے ہزار (3191000)جگہ پر لوگ کام کر رہے ہیں، آٹھ لاکھ ستاسی ہزار آسامیاں اب بھی خالی پڑی ہیں۔ ۲؍ دسمبر ۲۰۲۱ء کو پارلیامنٹ میں جو جانکاری دی گئی تھی اس کے مطابق ریلوے میں دو لاکھ سینتیس ہزار دو سو پنچانوے (237295)وزارت داخلہ میں ایک لاکھ اٹھائیس ہزار آٹھ سو بیالیس (128842)محکمہ ڈاک میں نوے ہزار پچاس (90050)شہری دفاع میں دو لاکھ سینتالیس ہزار پانچ سو دو (247502)اور محکمہ انکم ٹیکس میں چھہتر ہزار تین سو ستائیس (76327)آسامیاں خالی ہیں، اگر ان تمام آسامیوں پر بحالی ہوجاتی ہے جو آسان نہیں ہے تو بھی دس لاکھ کی تعداد پوری نہیں ہوگی، الا یہ کہ وزیر اعظم پہلے کی طرح پکوڑے اور ٹائر پنکچر کو بھی روزگار میں شامل کر لیں، حالاں کہ اس کی شمولیت کے بعد بھی یہ سوال اپنی جگہ باقی رہے گا کہ کیا یہ خود کار نظام معاش بھی مرکزی سرکار کی ملازمت کے دائرے میں ہوتا ہے۔
 اس کے علاوہ سرکار نے برّی ، بحری اور فضائی افواج میں بھی چار سال کے لیے چھیالیس ہزار جوانوں کی بھرتی کا اعلان کیا ہے ، اس میں چھ ماہ کی تربیت بھی شامل ہے، اسے اگنی پتھ کا نام دیا گیا ہے،چار سال گذارنے کے بعد پچیس فی صد نوجوانوں کو مستقل ملازمت کا حصہ بنایا جائے گا اور بقیہ پچھہتر فی صد نوکری سے ہٹا دیے جائیں گے، ان کا مستقبل کیا ہوگا؟ اگنی پتھ کے ذریعہ بحال جوانوں کو اگنی ویر کا نام دیا گیا ہے، وزیر داخلہ امیت شاہ نے اعلان کیا ہے کہ ایسے جوانوں کو نیم فوجی دستوں میں ترجیحی بنیادوں پر بحال کیا جائے گا، وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ انہیں چار سال کے بعد پنشن تو نہیں البتہ گیارہ لاکھ زائد کا پیکیج دیا جائے گا، جس سے وہ کوئی بھی منافع بخش کاروبار کر سکیں گے، اسی طرح یہ بھی قابل غور ہے کہ ایسے جوان جن کو معلوم ہے کہ وہ چار سال کے بعد ہٹا دیے جائیں گے ، مستعدی اور دل جمعی سے کام کر سکیں گے ، ؟ اور ایسے غیر مستعد جوانوں سے ملک اور فوج کا کیا بھلا ہوگا۔اس اعلان کے دوسرے دن ہی احتجاج اور مظاہرے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے، ایسے نوجوان جنہوں نے فوج میں ملازمت کے حصول کی ساری کاروائیاں مکمل کر لی ہیں اور انہیں جوائننگ لیٹر نہیں ملا ہے، سڑکوں پر آگیے ہیں، بہار کے بکسر، بیگو سرائے اور مظفر پور میں اس تحریک کاروں کے اثرات کچھ زیادہ ہی دیکھنے کو ملے، اس اسکیم سے اختلاف فوج میں بھرتی ہونے والے جوانوں ہی کو نہیں، ان ماہرین کو بھی ہے جو فوج میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے ہیں، ہندوستانی فوج کے سابق نائب سر براہ لیفٹنٹ جنرل رونت سنگھ کا کہنا ہے کہ چار سال کے اندر ان کے اندر ملک کے لیے جان قربان کرنے کا جذبہ ہی پیدا نہیں ہوگا، ایک دوسرے سابق نائب آرمی چیف کی رائے ہے کہ جو مدت فوجی تربیت کے لیے مقرر کی گئی ہے وہ نا کافی ہے، اتنی کم مدت میں سخت ترین تربیت دینا ممکن ہی نہیں ہے۔
 عام لوگوں کا خیال یہ ہے کہ جس طرح اسرائیل میں سبھی کو فوجی تربیت لینی ضروری ہوتی ہے اور یہ مدت وہاں دو سال کی ہے، اسی طرح ہندوستانی حکومت یہاں ایک تجربہ کرنا چاہتی ہے، دھیرے دھیرے اس کا دائرہ وسیع کیا جائے گا، یہ ہوئی نہ بات آم کے آم گٹھلیوں کے دام کی۔

ریاست کے ہر اسمبلی حلقہ میں 10 تا 20 فیصد بوگس ووٹ

ریاست کے ہر اسمبلی حلقہ میں 10 تا 20 فیصد بوگس ووٹ

انتخابی نظام کو شفاف بنانے ووٹر لسٹ کو آدھار سے مربوط کرنے کا آغاز

حیدرآباد ۔۲۸جون ( اردو دنیا نیوز۷۲) انتخابی نظام کو باقاعدہ بنانے راہ ہموار ہوگئی ۔ ریاست کے ہر اسمبلی حلقہ میں 10 تا 20 فیصد فرضی ووٹ ہونے کے خدشات ہیں ۔ فہرست رائے دہندگان میں ایک ووٹر کے ایک سے زائد ناموں کے اخراج کیلئے مرکز نے ووٹر لسٹ کو آدھار کارڈ سے مربوط کرنے احکامات جاری کئے ہیں جس سے فرضی ووٹ کے حذف ہونے کے قوی امکانات ہیں لیکن اس فیصلے پر سیاسی جماعتو ں کو اعتراضات ہیں مگر اس عمل سے انتخابی عمل شفاف ہونے کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں ۔ تعلیم ، روزگار اور دوسری سرگرمیوں کیلئے ایک مقام سے دوسرے مقام بالخصوص شہری علاقوں کو ہجرت کرنا عام بات ہے ۔ تلنگانہ کے کئی اضلاع سے عوام شہر حیدرآباد کے علاوہ دوسرے مقامات کو منتقل ہوگئے ہیں ۔ اس کے علاوہ بھی پڑوسی ریاستو ں آندھراپردیش ، کرناٹک ، مہاراشٹرا اور دوسری ریاستو ں سے بھی لوگ حیدرآباد پہنچ رہے ہیں اور یہاں مقیم ہیں ۔ جب بھی ووٹر لسٹ میں سے ناموں کے اندراج کا موقع فراہم کیا جاتا ہے یہ لوگ حیدرآباد کے علاوہ دیگر مقامات پر نام ووٹر لسٹ میں درج کرا رہے ہیں یا سیاسی جماعتوں کی جانب سے ان کے ناموں کا اندراج کیا جارہا ہے جبکہ قانون یہ ہیکہ اگر نئے ناموں کا اندراج کیا جارہا ہے ایسے ووٹرس کی ذمہ داری ہے کہ پہلے وہ جن مقامات پر مقیم تھے وہاں ووٹر لسٹ سے اپنے نام کوخارج کرائے لیکن ووٹرس اس پر عمل نہیںکررہے ہیں ۔ کارپوریشن اسمبلی اور لوک سبھا انتخابات میں یہاں حق رائے دہی سے استفادہ کررہے ہیں ۔ گرام پنچایت کے انتخابات میں آبائی گاؤں پہنچ کر ووٹ کر رہے ہیں ۔ بوگس رائے دہی کو روکنے 1993ء میں ٹی این سیشن جب چیف الیکشن کمشنر تھے انہوں نے ووٹر لسٹ میں رائے دہندوں کی تصاویر کو یقینی بنایا تھا لیکن سیاسی جماعتوں نے بوگس رائے دہی کیلئے دوسرے مقامات کے شہریو ں کے ساتھ شہر کے پتہ پر بوگس ووٹر شناختی کارڈ بنالیا اور پہلے پولنگ بوتھ پر قبضہ کرتے ہوئے صرف آدھے گھنٹے میں تمام ووٹ ڈال لیا جاتا تھا جو امیدوار یا جماعت طاقتور ہوتی تھی وہ اس میں کامیاب ہوجاتی تھی ۔ اس کو روکنے کیلئے الکٹرانک ووٹنگ مشین متعارف کرائی گئی ہے تاہم پہلے آدھے گھنٹہ میں تمام ووٹ ڈال لئے جاتے تھے الکٹرانک ووٹنگ مشین میں ایک بوتھ میں موجود ایک ہزار ووٹ ڈالنے کیلئے کم از کم چار گھنٹے درکار ہوتے ہیں ایسے میں پولیس وہاں پہنچ کر بوگس رائے دہی کو رکوانے میں کسی قدر کامیاب ہوئی ہے ۔ اس کے بعد الکٹرانک ووٹنگ مشین پر بھی خدشات کا اظہار کیا گیا ۔ کئی رائے دہندوں اور سیاسی جماعتوں نے الکٹرانک ووٹنگ مشینوں سے چھیڑ چھاڑ ہونے ایک امیدوار کو ووٹ دینے پر دوسرے امیدوار کے حق میں ووٹ جانے کی شکایت کی جس کے بعد ای وی ایم کے ساتھ وی وی پیاڈ جوڑا گیا جس سے رائے دہندوں کو ووٹ دینے کے بعد پتہ چل جاتاہے تاکہ اس کا ووٹ کس کے حق میں گیا ہے ، پھر بھی فہرست رائے دہندگان میں ایک رائے دہندے کے ایک سے زائد ناموں کی موجودگی کا جائزہ لینے کے بعد انہیں فہرست رائے دہندگان سے خارج کرنے اور انتخابی نظام کو باقاعدہ بنانے کیلئے ووٹر لسٹ کو آدھار کارڈ سے جوڑنے کا فیصلہ کیا ہے ۔اگر اس فیصلے پرمناسب عمل آوری ہوتی ہے تو ووٹر لسٹ سے بڑے پیمانے پر ڈوپلیکیٹ ناموں کے اخراج کا امکان ہے ۔ اس معاملہ میں پارلیمنٹ میں موجود قوانین میں ترمیمات کرنے کے بعد مرکزی حکومت نے نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے ۔ احکامات وصول ہوتے ہی ریاستی الیکشن کمیشنوں کی جانب سے اس پر عمل آوری کا آغاز ہوگا ۔ ن

پیر, جون 27, 2022

بھوجپور میں ایک ہی خاندان کے پانچ افراد کو ماری گولی، گاؤں میں خونی واردات کے بعد خوف وہراسبھوجپور

بھوجپور میں ایک ہی خاندان کے پانچ افراد کو ماری گولی، گاؤں میں خونی واردات کے بعد خوف وہراس
بھوجپور
، 27 جون(اردو دنیا نیوز۷۲)۔ بھوجپور ضلع کے جگدیش پور تھانہ علاقہ کے پپرا گاؤں میں خونی کھیل ہوا ہے۔ یہاں زمین جوتنے کے بعد تنازعہ کو لیکر ایک ہی خاندان کے پانچ افراد کو گولی مار دی گئی ہے۔ تمام زخمیوں کو فوراً علاج کے لیے آرہ صدر اسپتال لایا گیا ہے۔ وہیں گاؤں میں اس خونی واردات کے بعد محکمہ پولیس میں کھلبلی مچ گئی ہے۔ اطلاع ملتے ہی پولیس موقع پر پہنچ گئی اور تفتیش شروع کر دی۔

معاملہ میں بتایا گیا کہ پپرا رہائشی تپیشور سنگھ اور منا سنگھ عرف رام جی سنگھ کے درمیان کھیت جوتنے کو لے کر جھگڑا ہوا تھا۔ اس کے بعد دونوں طرف سے ہاتھا پائی کے بعد معاملہ آگے بڑھا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک طرف کے لوگوں نے دوسری طرف کے لوگوں پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ اس گولہ باری میں پانچ افراد گولی لگنے سے بری طرح زخمی ہو گئے۔

واقعے میں زخمی ہونے والے انکت کمار نے بتایا کہ ہم منا سنگھ کے گھر تنازعہ کی شکایت کرنے گئے تھے کہ اس دوران منا سنگھ کے بیٹوں منوج اور سروج نے اندھا دھند فائرنگ کر کے 5 افراد کو زخمی کر دیا۔ فائرنگ کے واقعہ کے بعد دبنگوں کے ذریعہ علاج کےلئے اسپتال بھی نہیں آنے دیا جارہا تھا۔ پولیس نے زخمیوں کو اسپتال میں داخل کرایا۔

وہیں پولیس نے پورے واقعہ کی جانچ شروع کر دی ہے۔ زخمیوں کا علاج کر رہے صدر اسپتال کے سرکاری ڈاکٹر نے بتایا کہ پانچ لوگوں کو جگدیش پور ریفرل اسپتال سے ریفر کیا گیا ہے، جن کو گولی لگی ہے۔ اس وقت تمام لوگوں کا ایکسرے کروا کر بہتر علاج کیا جا رہا ہے۔ زمین تنازعہ پر دونوں فریقین کے درمیان پرتشدد تصادم کے واقعہ کو لیکر جب سینئر پولیس افسران سے بات کرنے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے فی الحال آن کیمرہ بات کرنے سے انکار کردیا۔

برینگ نیوز افسر شاہی ___

 برینگ نیوز افسر شاہی ___
(اردو دنیا نیوز۷۲ )
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ، پھلواری شریف پٹنہ
 ہندوستان میں حکومت، وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ اور ضلع مجسٹریٹ کے ذریعہ چلایا جا تا ہے ، ضلع مجسٹریٹ کو چھوڑ کر وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کی کرسی پر براجمان ہونے کے لیے کوئی معیار مقرر نہیں ہے ، بس عوام نے اسے چن کر بھیجا ہو، یا جو ہارنے کے بعد بھی عوام کی مرضی کے خلاف پارٹی کی پسند پر راجیہ سبھا  یا ودھان پریشد کا رکن بن گیا ہو ، کبھی کبھی تو ہارا ہوا آدمی بھی وزیر بنا دیا جاتا ہے اور عوام کی مرضی کا مذاق اڑایا جاتا ہے، چھ ماہ تک وہ بغیر کسی ایوان کا ممبر رہے حکومت کر سکتا ہے ،پھر اس منتخب شخص کے لیے پڑھا لکھاہونا بھی ضروری نہیں ہے ، وہ ’’لکھ لوڑھا پڑھ پتھر‘‘ بھی ہو سکتا ہے ، یہ بھی ممکن ہے کہ قانون سے واقفیت کے بغیر کسی کو وزیر قانون بنا دیا جائے، اور جس نے تعلیم کے میدان میں کوئی سند نہ حاصل کی ہو وہ وزیر تعلیم بنا دیا جائے اور عوام اس کی تعلیمی سند کھوجتی رہ جائے۔
 اس صورت حال کا بڑا فائدہ بیورو کریٹ اور افسران اٹھاتے ہیں، اسی لیے آئی ایس ، آئی پی اس اور سول سروسز کا امتحان جب کوئی پاس کر تا ہے تو اس کے لیے مبارکباد یوں کا سلسلہ دراز ہوتا ہے ، خاندان والوں کے لیے یہ انتہائی فخر اور خوشی کی بات ہوتی ہے ،ا نہیں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا بیٹایا بیٹی حکمراں جماعت کا ایک اہم حصہ بن گیا ہے اور وہ بہت سارے معاملات پر اپنی صلاحیت سے اثر انداز ہوسکتا ہے، ظاہر ہے ان حضرات کے کام کرنے کے لیے بھی کچھ اصول وضوابط مقرر ہیں اور انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا دائرہ کار کیا ہے ، اس دائرہ کار میں سب سے اہم کام فائل کی نوٹنگ اور ڈرافٹنگ ہے؛ اس لیے کہ فائل اسی تحریر کے سہارے آگے بڑھتی ہے اور بہت کم معاملات میں اس کے خلاف فیصلہ ہوپاتا ہے ، اگر وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم اس کے خلاف ہیں تو اس ڈرافٹ کو بدل دینا ہوتا ہے ، پھر حاکم کی منشا کے مطابق نوٹس تیار ہوتے ہیں اور پھر حکم تحریر ہوتا ہے ، اب یہ ان کی صلاحیت پر منحصر ہے کہ وہ کس کو کس طرح گھما پھرا دیتے ہیں۔
 بعض ایماندار افسروں کو چھوڑ کر عموما ان کا رویہ پبلک کے ساتھ متکبرانہ ہوتا ہے وہ ان کی بات کو ٹھیک سے سنناکسر شان سمجھتے ہیں، اتناہی نہیں وہ اپنے عہدے کا سہارا لے کر بہت سارے غلط کام کر ڈالتے ہیں، ایسا ہی ایک معاملہ دہلی کے تیاگ راج اسٹیڈیم کا سامنے آیا ہے ، دہلی سرکار میں انکم ٹیکس محکمہ کے سکریٹری کھروا ر پر الزام ہے کہ وہ شام کو اسٹیڈیم میں اپنے کتے کو سیر کرانے کے لیے تربیت لینے والے کھلاڑیوں کو باہر نکال دیا کرتے تھے ، کوچ بھی اس کی زد میں آتے تھے، ظاہر ہے یہ اپنے عہدے کا بے جا استعمال ہے، چنانچہ جب یہ خبر عام ہوئی تو کھروار کا تبادلہ لداخ اور ان کی آئی اے ایس اہلیہ کو اروناچل پردیش منتقل کیا گیا۔
 انڈین اکسپریس کی ایک خبر کے مطابق ایر انڈیا جواب ٹاٹا گروپ کے پاس ہے، اس میں کئی افسران اکنومی ٹکٹ لیکر بزنس کلاس میں جا بیٹھتے تے، حالاں کہ بزنس کلاس کا کرایہ بہت زیادہ ہوتا ہے، شہری ہوابازی محکمہ کے افسران کے لیے تو یہ روز کا معمول اور روز مرہ کی بات ہے، عہدے کے غلط استعمال کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ پولس والوں کو غیر ضروری تشدد کا حکم دیا جائے، جیسے ان دنوں ہندوستان کے مختلف شہروں میں ہو رہا ہے ۔
 اس افسوسناک صورت حال اور غلط رویہ سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ ان پر لگام کسا جائے اور ان پر نگاہ رکھی جائے تاکہ وہ من مانا ڈھنگ سے کام کرکے عوام کے لیے پریشانی کا باعث نہ بنیں۔

ناخن پالش اور لپ اسٹک لگانا کفار کی تقلید ہےشمشیر عالم مظاہری دربھنگوی

ناخن پالش اور لپ اسٹک لگانا کفار کی تقلید ہے
شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی
(اردو دنیا نیوز۷۲)
جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار 
انگریزوں کی ایک سو سالہ  غلامی کی وجہ سے ہم شدید قسم کے احساسِ کمتری کا شکار ہو چکے ہیں اس لئے ہمارے لوگوں میں مغربی فیشن اپنانے کا بہت زیادہ رجحان پایا جاتا ہے خواہ وہ فیشن ہمارے حالات، ہماری تہذیب و ثقافت، اور ہمارے یہاں کے موسم کے مدوجزر سے میل کھاتا ہو یا نہ کھاتا ہو، اس میں ہمارے لئے جسمانی راحت ہو یا نہ ہو ہمارے مالی وسائل ہمیں اس کی اجازت دیں یا نہ دیں لیکن ہمارے اندر چھپا ہوا غلام ہمیں اپنے سابق آقاؤں کی شکل و صورت بنانے اور لباس میں ان جیسی تراش خراش اپنانے پر مجبور کردیتا ہے اور اہل مغرب کا حال یہ ہے کہ وہ کسی ایک فیشن پر زیادہ ٹکتے ہی نہیں چنانچہ بعض اوقات عجیب مضحکہ خیز صورت سامنے آتی ہے ہمارا ماڈرن طبقہ بڑے ذوق شوق سے ایک فیشن کو اپناتا ہے تو خبر آتی ہے کہ یہ فیشن تو اب مغرب میں متروک ہو چکا ہے اور یورپ میں جس قسم کے فیشن اپنائے جارہے ہیں ان کا اندازہ اس خبر سے بخوبی ہوسکتا ہے 
 انیس سو ترانوے ء  (1993) میں فیشن کی ایک ماڈل مس ہیلن نے چوبیس انڈوں کا ہیٹ پہنا اور دوسری ماڈل مس چیری نے فرائی پین سر پر فٹ کر لیا تمام دنیا کے رسائل اور اخبارات نے ان کی تصاویر چھاپ کر ہیٹ زدہ خواتین کو ترغیب دی کہ وہ بھی سروں پر انڈے آملیٹ بنانے کا فرائی پین باندھیں بہت خوبصورت لگیں گی۔  اور اب تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ اہل مغرب کو کوئی نیا فیشن سوجھ نہیں رہا اس لیے آج کل ان میں جانوروں جیسی شکلیں بنانے اور حیوانوں کی طرح ننگا رہنے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے اور ایسی سوسائٹیاں وجود میں آ چکی ہیں جہاں ستر اور پردہ پوشی کا تصور بھی محال ہے۔  اگر آپ فیشن پرستی کی بیماری کا غور سے جائزہ لیں تو آپ کو اس میں اسراف بھی ملے گا اور عیش پسندی بھی ملے گی اس کے علاوہ اس میں احساسِ کمتری غیروں کی نقالی اپنی ثقافت سے وحشت بلکہ نفرت اور اپنے آپ کو نمایاں اور انوکھے انداز میں پیش کرنے کے جذبات کارفرما دکھائی دیں گے ہمارے یہاں فیشن پرستی کی جو وبا پھیلی ہے وہ کسی ایک شعبے تک محدود نہیں رہی بلکہ اس نے شکل و صورت سے لباس تک زبان سے کھانے پینے کے طور طریقوں تک اور شادی بیاہ سے زندگی کے عام معاملات تک ہر چیز کو اپنے حلقۂ اثر میں لے لیا ہے ۔کس کس فیشن کا رونا رویا جائے ہم تو سر سے پاؤں تک فیشن میں غرق ہوتے جا رہے ہیں ایسا لگتا ہے کہ ہمارا کلچر ہماری ثقافت ہماری اسلامی روایات شرعی فرائض و واجبات اور پیاری پیاری سنتیں فیشن کے سیلاب میں بہہ جائیں گے ۔
عورتوں کو مہندی لگانے کا حکم
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ہند بنت عتبہ نے حضور صلی اللہ وسلم سے عرض کیاکہ مجھے بیعت کر لیجئے آپ نے فرمایا کہ میں تم کو اس وقت تک بیعت نہیں کروں گا جب تک کہ تم مہندی لگا کر اپنے ہاتھوں کی صورت نہ بدلو گی تمہارے ہاتھ اس وقت کسی درندے کے سے ہاتھ معلوم ہوتے ہیں (سنن ابی داؤد)
یہ ہند بنت عتبہ ابو سفیان کی بیوی تھیں فتح مکہ کے دن اسلام لائیں اور اسی دن قریش کی دوسری بہت سی عورتوں کے ساتھ پہلی بیعت کی عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کی اس حدیث میں ہندہ کی طرف سے جس بیعت کی درخواست کا ذکر ہے بظاہر یہ انہوں نے بعد میں کسی وقت کی ہے اور اسی موقع پر حضور نے ان کو ہاتھوں میں مہندی لگانے کی یہ ہدایت فرمائی ۔ دوسری بعض روایات میں اور بھی بعض عورتوں کا ذکر ہے جن کو آپ نے مہدی استعمال کرنے کی اسی طرح تاکید فرمائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ہدایت و تعلیم سے اسلامی شریعت کا یہ نقطۂ نظر معلوم ہوگیا کہ عورتوں کو جائز حد تک زینت اور سنگھار کے اسباب استعمال کرنے چاہئیں 
ناخن پالش کی بلا
ناخنوں سے متعلق دو بیماریاں عورتوں میں خصوصاً نوجوان لڑکیوں میں بہت ہی عام ہوتی جارہی ہیں ایک ناخن بڑھانے کا مرض کا دوسرا ناخن پالش کا۔  ناخن بڑھانے سے آدمی کے ہاتھ بالکل درندوں جیسے ہوتے ہیں اور پھر ان میں گندگی بھی رہ سکتی ہے جس میں جراثیم پیدا ہوتے ہیں اور مختلف النوع بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دس چیزوں کو ( فطرت) میں شمار کیا ہے ان میں ایک ناخن تراشنا بھی ہے پس ناخن بڑھانے کا فیشن انسانی فطرت کے خلاف ہے جس کو مسلم خواتین کافروں کی تقلید میں اپنا رہی ہیں مسلم خواتین کو اس خلافِ فطرت تقلید سے پرہیز کرنا چاہیے ۔
دوسرا مرض ناخن پالش کا ہے ۔
حق تعالیٰ شانہٗ نے عورت کے اعضاء میں فطری حسن رکھا ہے ناخن پالش کا مصنوعی لبادہ محض غیر فطری چیز ہے، پھر اس میں ناپاک چیزوں کی آمیزش بھی ہوتی ہے وہی ناپاک ہاتھ کھانے وغیرہ میں استعمال کرنا طبعی کراہت کی چیز ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ناخن پالش کی تہہ جم جاتی ہے اور جب تک اس کو صاف نہ کر دیا جائے پانی نیچے نہیں پہنچ سکتا اس صورت میں نہ وضو ہوتا ہے نہ غسل آدمی نا پاک کا ناپاک رہتا ہے جو تعلیم یافتہ لڑکیاں اور معزز نمازی عورتیں کہتی ہیں کہ ناخن پالش کو صاف کئے بغیر وضو ہو جاتا ہے وہ غلط فہمی میں مبتلا ہیں اس کو صاف کئے بغیر آدمی پاک نہیں ہوتا نہ نماز  ہو گی نہ تلاوت جائز ہوگی 
ناخن پالش اور جدید سائنس ۔
ناخن بھی جسم انسانی کی طرح زندہ ہیں انہیں بھی آکسیجن اور ہوا کی ضرورت ہوتی ہے یہ پانی کے طلب گار ہوتے ہیں اگر انہیں کوئی تکلیف پہنچے تو تمام جسم ان سے متاثر ہوتا ہے۔  ایک خاتون کو ہاتھوں پر دانے خارش اور پیپ دار پھنسیاں تھیں بہت علاج کرائے لیکن افاقہ نہ ہوا ایک ماہر امراض جلد کے پاس گئیں موصوف عمر رسیدہ اور بہت ماہر مانے جاتے تھے ڈاکٹر صاحب مریضہ کا معائنہ کر کے فرمانے لگے آپ ناخن پالش کتنے عرصے سے استعمال کر رہی ہیں مریضہ کہنے لگی گزشتہ ساڑھے پانچ سالوں سے اور مرض کو کتنا عرصہ ہوا ہے مریضہ نے جواب دیا پانچ سال سے مسلسل مرض موجود ہے ڈاکٹر صاحب نے فرمایا آپ  ناخن پالش لگانا چھوڑ کر پھر مناسب مختصر علاج کریں مریضہ کا کہنا ہے کہ صرف تیسرے ہفتے میں مکمل صحت یاب ہوگئی ۔
کرومو پیتھی کا اصول ۔
 کرومو پیتھی کے ماہرین کے مطابق رنگ انسانی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں اور انسان جس رنگ کو بار بار دیکھتا ہے اس کا اثر اس کی زندگی پر غالب ہوتا ہے چونکہ اکثر ناخن پالش سرخ رنگ کی ہوتی ہے اور یہ رنگ اشتعال، غصہ، اور بلڈ پریشر ہائی کرتا ہے اس لئے وہ لوگ جو پہلے سے اس مرض میں مبتلا ہوں ان کے امراض میں فوری اضافہ ہوجاتا ہے اور صحت مند آدمی بھی آہستہ آہستہ ان امراض کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔ انسانی صحت اور تندرستی کے لئے ہر رنگ کا ایک منفرد مزاج ہوتا ہے۔ موجودہ فیشن نے مختلف ناخن پالش کے استعمال کی ترغیب دی ہے ان مختلف رنگوں کی الرجی عام آدمی کے لئے بھی ناقابل برداشت ہے تو کیا ایک مریض برداشت کر سکے گا؟  ناخن پالش مسامات کو بند کر دیتی ہے مزید چونکہ ناخن پالش میں رنگ دار کیمیکل ہوتے ہیں اس لئے یہ کیمیکل بے شمار امراض کا باعث بنتے ہیں خاص طور پر اس کا اثر جسم کے ہارمونری سسٹم پر بہت برا پڑتا ہے جس سے خطرناک زنانہ امراض پیدا ہوتے ہیں
الغرض ناخن پالش اور لپ اسٹک مسلم خواتین کے لئے استعمال کرنا نہ شرعاً جائز ہے اور نہ ہی سائینسی اعتبار سے درست ہے اسلام نے خواتین کے لئے گھر میں آرائش حسن ( صرف اپنے خاوند کے لئے) سے منع نہیں فرمایا لیکن اس کے لئے مصنوعی اور زہریلی ادویات میک اپ کی شکل میں ہمیشہ نقصان دہ ہیں اور اب تو جدید اور پڑھا لکھا طبقہ میک اپ سے دلبرداشتہ ہو کر پھر سے سادگی کی طرف لوٹ رہا ہے ۔
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا ۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...