Powered By Blogger

بدھ, مارچ 15, 2023

ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے حاجی زین العابدین بارسوئ کٹھیار کا 9/سالہ پوتا عزیزی شمس العابدین بن عزیزی ریاض السالکین کو تکمیلِ حفظ قرآن کریم پر مبارکبادی و دعائیہ محفل کا انعقاد

ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے حاجی زین العابدین بارسوئ کٹھیار کا 9/سالہ پوتا عزیزی شمس العابدین بن عزیزی ریاض السالکین کو تکمیلِ حفظ قرآن کریم پر مبارکبادی و دعائیہ محفل کا انعقاد
Urduduniyanews72

پھلواری شریف پٹنہ مورخہ15/مارچ 2023 (پریس ریلیز :محمد ضیاء العظیم) قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی وہ مقدس، محترم، معتبر اور پاکیزہ کتاب ہے جو جن وانس کی رشد وہدایت اورہنمائی کے لئے  نازل کی گئی ہے ۔ اسے چھونا، اسے دیکھنا، اسے  پڑھنا، اسے سمجھنا، اس پر عمل پیرا ہونا، اس کے پیغامات دوسروں تک پہنچانا یہ سب باعث اجراوثواب،اور سعادت مندی کے ساتھ ساتھ تقرب الی اللہ کے اور دنیا و آخرت کی کامیابی کا بڑا ذریعہ ہے ۔ کیوں کہ یہ کتاب محفوظ تھی، ہے،اور رہے گی،  اس کے حفاظت ضمانت کی ذمہ داری خود اللہ رب العزت نے لی ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے,, اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّكۡرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰـفِظُوۡنَ ۞
ترجمہ:
 بیشک ہم نے ہی قرآن نازل کیا ہے اور بیشک ہم ہے اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ (الحجر :9)
اللہ رب العزت قرآن مجید کی حفاظت اورتلاوت سماعت اپنے مخصوص بندوں کے ذریعہ کراتے ہیں، انہیں مخصوص اور چنندہ بندوں میں حافظ قرآن ہیں جو اپنے سینے میں مکمل قرآن مجید محفوظ کرتے ہیں۔یقیناً تیس پارے کا حفظ کرکے اپنے سینے میں محفوظ رکھنا یہ بھی قرآن مجید کے معجزات میں سے ایک معجزہ ہے، قرآن مجید دنیا کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی، سنی جانے والی کتاب ہے ۔اس وقت شمس العابدین بن ریاض السالکین عمر 9/سال سرخیوں میں ہیں انہوں نے دو سال سے بھی کم مدت میں تکمیلِ حفظ قرآن کریم کی سعادت حاصل کرکے ایک مثال قائم کی ہے ۔
واضح رہے کہ ریاض السالکین مشہور ومعروف شخصیت ،مردم شناس حاجی زین العابدین صاحب کا پوتا ہے، جس نے دو سال سے کم مدت میں تکمیلِ حفظ قرآن کریم کرکے ایک عظیم تاریخ رقم کی ہے ۔
اس موقع پر ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے ایک دعائیہ تقریب کا اہتمام جامعہ عربیہ دارالعلوم محمدیہ البا کالونی پھلواری شریف پٹنہ میں کیا گیا ۔فاؤنڈیشن کے تمام اراکین نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے بچے کے حق میں دعائیں دیں،
 فاؤنڈیشن کی چئیر پرسن ڈاکٹر صالحہ صدیقی نے کہا کہ قرآن کے معجزات میں سے ایک معجزہ یہ بھی ہے کہ ایک معصوم سا بچہ جس کی عقل فہم وفراست ابھی پوری طرح بیدار بھی نہ ہوئی ہے اور وہ اپنے سینے میں مکمل قرآن مجید محفوظ کرچکا ، یقیناً اللہ اپنی کتاب کی حفاظت اپنے بندوں کے ذریعہ کراتے ہیں،جو اس کتاب کے تقدس و پاکیزگی اور کلام الٰہی ہونے کی واضح دلیل ہے ۔محمد ضیاء العظیم قاسمی برانچ اونر ضیائے حق فاؤنڈیشن نے بچہ کے دادا حاجی زین العابدین صاحب کو مبارکبادی پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ بچہ قوم وملت کے لئے عظیم سرمایہ ہیں، ہمیں چاہیے کہ ان بچوں کی خوب حوصلہ افزائی کریں اور ان کی تعلیم وتربیت کے لئے مزید بہتر سے بہتر نظم ونسق کریں۔
مفتی محمد نورالعظیم مظاہری نے بھی بچہ کو خوب دعاؤں سے نوازتے ہوئے کہا کہ ہم سب کے لئے یہ سعادت کی بات ہے کہ ہمارے بہت ہی محترم حاجی زین العابدین صاحب کا پوتا بہت کم عمر اور کم عرصے میں حفظ قرآن کرکے ایک مثال قائم کی ہے، ہم ان خصوصی طور پر ان کے والدین اور دادا کو مبارکبادی پیش کرتے ہیں اور عمومی طور پر پوری قوم وملت کو ۔
ماہر نفسیات حافظ شارق خان ڈائریکٹر نظام العلوم فاؤنڈیشن سمن پورہ پٹنہ نے بھی بیحد خوشی ومسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خوش نصیب ہیں ان کے والدین جن کی اولاد نے اپنے سینے میں قرآن محفوظ کیا ۔
آخر میں دعا کے ساتھ مجلس کا اختتام ہوا۔

منگل, مارچ 14, 2023

تحفظ شریعت کی جانب سے استقبال رمضان کے تعلق سے پروگراموں کا سلسلہ*

*تحفظ شریعت کی جانب سے استقبال رمضان کے تعلق سے پروگراموں کا سلسلہ*
Urduduniyanews72
تحفظ شریعت و ویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ و پلاسی کی جانب سے بعنوان استقبال رمضان المبارک پروگراموں کا ایک سلسلہ ترتیب دیا گیا ہے. جس کا مقصد صرف ایک مہتم بالشان عبادت روزہ کی اہمیت و افادیت سے عوام الناس کو آگاہ کرانا ہے.
اس لادینیت اور پرفتن دور میں نوجوان طبقہ خصوصاً مزدور طبقہ کے ذہنوں میں روزے کی اہمیت دھندلا سا ہوگیا ہے اور اس عبادت کی روحانی اور جسمانی فوائد سے بے خبر ہوتے جا رہے ہیں، کچھ لوگ تو اس قدر بے پرواہ ہوگئے ہیں کہ ان کی زبانیں اس عبادت کے خلاف چل رہی ہے اور علی الاعلان بغاوت پر اتر آئے ہیں.
ان حالات کے مد نظر تحفظ شریعت کی پوری ٹیم کمربستہ ہو کر الگ الگ بستیوں کے مساجد میں بعد نمازِ عشاء پروگرام کر رہی ہے.
الحمدللہ آج کا پروگرام کامیاب رہا مدینہ جامع مسجد پارکاکن  مہمان خصوصی حضرت مولانا فیاض احمد راہی صاحب مقرر بے مثال حضرت قاری زاہد مسری صاحب کاکن زیر قیادت قاری محمد منظور صاحب بوریا زیر نگرانی 
تحفظ شریعت کی جانب سے استقبال رمضان کے تعلق سے پروگراموں کا سلسلہ
آج مورخہ 14/ مارچ 2023 بروز منگل مدینہ جامع مسجد پارکاکن زیر نگرانی مولانا عبدالحق عظیمی ڈاریکٹر العظیم پبلک اسکول پارکاکن،و جناب ممبر سہیل احمد صاحب متولی مدینہ جامع مسجد پار کاکن اس کے علاوہ علاقے کے اکثر لوگ موجود تھے 
عبدالوارث مظاہری
9686759181

مضمون نگارمفتی محمد ثناءالہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ جھارکھنڈ اور ہفت روزہ نقیب کے مدیر ہیں)

سنیاس سے اقتدار تک  __
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
سنیاسی ہندی کا لفظ ہے،اس کے معنی ہندو فقیر، تارک الدنیا کے آتے ہیں، ہندو مذہبی افکار وروایات کے مطابق سنیاسی اس کو کہتے ہیں، جس نے دنیا اور علائق دنیا سے ترک تعلق کر لیا ہو، شادی بیاہ نہ کیا ہو، بال بچوں کے جنجال سے پاک ہو، پہاڑ کی چوٹی اور گوفاوء میں سب سے الگ تھلگ ہو کر زندگی گذار رہا ہو اور اپنے مذہبی تصورات ومعتقدات کی بنیاد پر بھگوان کی پوجا پاٹ اور جاب میں سارا وقت لگا رہا ہو، کوئی آجائے تو اس کے دکھ درد دور کرنے کے لیے بھگوان سے پرارتھنا کرے، کوئی آشرواد چاہے تو اسے آشرواد دیا جائے، آشرواد دینے کے بھی الگ الگ طریقے ان کے پاس رائج ہیں، کوئی سر پر ہاتھ رکھ کر آشرواد دیتا ہے اور کوئی چرنوں میں جھکا کر اپنی تپسیا کی اہمیت لوگوں کے دلوں میں ڈالتا ہے،بعض سادھو سنتوں کو سر پر پاؤ رکھ کر آشرواد دیتے ہوئے بھی دیکھا گیا ہے۔
 ان سنیاسیوں اور سادھو سنتوں کی بھی الگ الگ تہذیب اور اپنے گرو ¿وں کے اپدیش اور ہدایت کے مطابق جینے کا الگ الگ انداز ہوتا ہے، ان میں سے بعض کے سروں پر لمبی جٹائیں ہوتی ہیں، جنہیں وہ مخصوص انداز میں اپنے سروں پر لپیٹے ہوتے ہیں، بعض بدن کے نچلے حصے کو کپڑوں سے ڈھکتے ہیں اور ناف سے اوپر کا حصہ ہر موسم میں کھلا رہتا ہے، جاڑا گرمی برسات ہر موسم میں ان کے جسم کپڑوں سے خالی رہتے ہیں، مسلسل ایسا کرنے کی وجہ سے ان کا جسم موسم کی شدت اور تیزی کو بر داشت کرنے کا عادی ہوجاتا ہے، بالکل اسی طرح جس طرح ہمارے جسم کا جو حصہ ہر موسم میں کھلا رہتا ہے اس پر سردی گرمی کا اثر بہت نہیں پڑتا، جب کہ جو اعضاءکپڑے میں رہتے ہیں، ان کو ہر موسم میں الگ الگ کپڑوں کی طلب ہوتی ہے، بعض سادھو ¿ں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ جسم کے نچلے حصے کو بھی بالکل کھلا چھوڑ دیتے ہیں، یا برائے نام کپڑا ہوتا ہے، جس سے آگے پیچھے کے اعضاءڈھکتے ہیں، کمبھ اشنان کے موقع سے سادھو ¿ں اور سنیاسیوں کے جواکھاڑے نکلتے ہیں ان میں ایک بڑی تعداد ایسے سادھو ¿وں کی ہوتی ہے جو مادر زاد ننگ دھڑنگ ہوتے ہیں، اور ان کے پیچھے عقیدت مندوں کا ایک قافلہ ہوتا ہے، ان کے عقیدت مند یہ سمجھتے ہیں کہ بابا نے بھگوان کا اوتار لے لیا ہے اور بھگوان کو دنیا وی چیزوں کی کیا ضرورت ہے،ا ن کے خیال میں ایشوریہ شکتی کی وجہ سے ان کا سارا کام چلتا ہے، سنیاسی ہونے کے ان ہی تصورات کی وجہ سے رام جی کا شمار سنیاسی میں نہیں ہوتا، کیوں کہ انہوں نے سیتا جی سے شادی رچائی تھی اور ان کے دو بیٹے بھی تھے، اس لئے ان کے خیال میں مردوں میں سب سے اچھے مرد پروش اتم، ہونے کے با وجود وہ سنیاسی نہیں ہیں۔
ترک دنیا کا یہ تصور دوسرے مذاہب کے پیشواؤں میں بھی پایا جاتا ہے، بودھ جی نے بھی راج پاٹ چھوڑ کر ایشور کی طرف جب رخ کیا تو دنیاوی علائق سے اپنے کو پاک کر لیا، بیوی بچوں کو بھی چھوڑ دیا اور گیا میں گیان دھیان کو اپنی زندگی کا مقصد بنالیا، برسوں بعد کہتے ہیں کہ انہیں گیان ملا اور اس گیان کو لے کر وہ گھومتے رہے اور مستقل ایک مذہب کی بنیاد ڈالی، گیان کے بعد بھی انہوں نے بیوی بچوں کی طرف رخ نہیں کیا۔
لیکن گذشتہ دو تین دہائیوں میں ہندوؤں کے یہاں سنیاسیوں میں بھی دنیا اور لوگوں پر حکومت کرنے کا سیاسی طریقہ رائج ہو گیا ہے، سادھو سنتوں نے یہ سوچا کہ جب ہمارے آشرواد سے لوگ پارلیامنٹ اور اسمبلیوں میں پہونچ جاتے ہیں، ہمارے سپورٹ سے ہمارے انویائی عقیدت مندووٹ دے کر انہیں سنگھاشن تک پہونچا دیتے ہیں تو یہ سکھ ہم کیوں نہیں حاصل کر سکتے، اپنے مٹھوں سے وہ باہر آگیے اور ان کے ماننے والوں نے آسانی سے انہیں اقتدار تک پہونچا دیا، اوما بھارتی سادھوی پر تگیہ اور اب آدتیہ ناتھ یوگی سب نے اقتدار تک پہونچے کے لیے اپنے سنیاسی ہونے کا فائدہ اٹھا یا، رائے دہندگان کو اپنی طرف مائل کرنے کے لئے دوسرے مذاہب کے خلاف گرم گرم تقریریں کیں اور اپنے بیانات سے لوگوں کو باور کرایا کہ ہندو دھر م خطرے میں ہے، عام ہندوؤں میں اس احساس کو جگانے کی وجہ سے ملک میں عدم رواداری کا ماحول خطرناک حد تک بڑھا،گو ¿ کشی او ردوسرے عنوانات سے قتل وخوں ریزی کا بازار گرم ہوا اور افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ سارا کام دھرم اور مذہب کے نام پر کیا گیا اور ان لوگوں نے کیا، جنہوں نے اپنی زندگی کا ادھیش اور مقصد صرف اور صرف پوجا ارچنا قرار دے رکھاتھا، ہندو مذہبی تصورات اور میتھا لوجی کے مطابق یہ دنیا وی لوبھ کی طرف سنیاسیوں کو لے جا رہا ہے، یہ ان کے مذہب کے خلاف ہے۔
رہ گیی ہندو دھرم کے خطرہ میں ہو نےکی بات تو اس کے محض پرو پیگنڈہ ہو نے سے کوئی با شعور اد می انکار نہیں کر سکتا۔میں بھکتوں کی بات نہیں کرتا۔جب ملک کے سارے کلیدی عہدے اور وزیر اعلی کی کرسی تک پر ہندو ہی براجمان ہوں۔ایسے میں انہیں آخر کس سے خطرہ ہے۔خطرہ تو انہیں مسلمانوں کے آٹھ سو سالہ دور اقتدار میں بھی نہیں رہا۔مسلمانوں میں رواداری اور رعایا کے تئیں ذمہ داری کے احساس کی وجہ سے غیر مسلم اقلیتوں نے پر سکون زندگی گذاری۔اور اپنے طویل دور اقتدار میں کبھی نفرت کے ماحول کو پنپنے نہیں دیا۔جب کہ آج چند سالہ دور اقتدار میں ملک نفرت کے آتش فشاں کے دہانے پر کھڑا ہوا ہے اوریہ آتش فشاں ملک کے الگ الگ حصوں میں پھٹ کر خرمن امن و سکون کو خاکستر کرتا رہتا ہے۔راہل گاندھی کے بھارت جوڑو یاترا کو نفرت کے بازار میں محبت کی دوکان کھولنے کے عمل سے بھی کوئی فرق نہیں پڑ ےگا۔
جہاں تک اسلام اور مسلمانوں کا معاملہ ہے، ہمارے یہاں ترک دنیا کا کوئی تصور نہیں ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا کہ اسلام میں رہبانیت ترک دنیا نہیں ہے، یہاں تو شادی بیاہ بھی کرنی ہے، بال بچوں کی پرورش وپر داخت بھی کرنی ہے، سماج، پڑوس، ملک اور ملت کی خدمت میں زندگی کھپا دینی ہے، اپنی زندگی اللہ کی مرضیات کے مطابق گذارنی ہے اور دوسروں کو بھی اس کام کے لیے تیار کرنا ہے، اللہ کے حکم کی تعمیل ہو، اس کے لیے حکومت کے حصول کی کوشش بھی کرنی ہے، اور اقامت کے ساتھ خلافت الٰہی کو روئے زمین پر نافذ کرنے کی سعی مسلسل کرنی ہے،ا سی وجہ سے سیاست ہمارے یہاں شجر ممنوعہ نہیں ہے، جس کے گرد پھٹکا نہ جائے، سیاست میں گندگیوں کے داخل ہونے کی وجہ سے مذہبی لوگ اس سے بیزار نظر آتے ہیں، لیکن ہماری ذمہ داری جس طرح دوسرے شعبوں میں پاکیز گی لانے کی ہے، اسی طرح سیاست کو بھی صحیح رخ دینے کے لیے ملی جذبہ سے سرشار لوگوں کو آگے آنے کی ضرورت ہے، بالکل سنجیدگی کے ساتھ، سوچ سمجھ کر، مضبوط حکمت عملی کے ذریعہ، جذباتی نعرے اور وقتی جوش نے ہر دور میں ملت کو نقصان پہونچا یا ہے اور اب بھی یہ نقصان دہ ہے، تاریخ کا یہ کیسا المیہ ہے کہ جو سنیاسی تھے، وہ سنگھاسن تک پہونچ رہے ہیں اور جنہیں اس روئے زمین کی خلافت سپرد کی گئی تھی وہ اعلان کرتے نظر آتے ہیں کہ ہمارا سیاست سے کچھ لینا دینا نہیں ہے، جب کہ اس دور میں جب بقول مولانا ابوالکلام آزاد گونگے بول رہے ہیں اور بہرے سننے لگے ہیں، ہمیں بھی منصوبہ بندی کرنی چاہیے کہ ہندوستان میں ملت اسلامیہ کے مستقبل کو تابناک بنانے اور ظلم وستم کی گرم بازاری روکنے کے لیے کیا کچھ کرنا ممکن ہے۔
(مضمون نگارمفتی محمد ثناءالہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ جھارکھنڈ اور ہفت روزہ نقیب کے مدیر ہیں)

پیر, مارچ 13, 2023

*تحفظ شریعت کی جانب سے استقبال رمضان کے تعلق سے پروگراموں کا سلسلہ*

*تحفظ شریعت کی جانب سے استقبال رمضان کے تعلق سے پروگراموں کا سلسلہ*
Urduduniyanews72
تحفظ شریعت و ویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ و پلاسی کی جانب سے بعنوان استقبال رمضان المبارک پروگراموں کا ایک سلسلہ ترتیب دیا گیا ہے. جس کا مقصد صرف ایک مہتم بالشان عبادت روزہ کی اہمیت و افادیت سے عوام الناس کو آگاہ کرانا ہے.
اس لادینیت اور پرفتن دور میں نوجوان طبقہ خصوصاً مزدور طبقہ کے ذہنوں میں روزے کی اہمیت دھندلا سا ہوگیا ہے اور اس عبادت کی روحانی اور جسمانی فوائد سے بے خبر ہوتے جا رہے ہیں، کچھ لوگ تو اس قدر بے پرواہ ہوگئے ہیں کہ ان کی زبانیں اس عبادت کے خلاف چل رہی ہے اور علی الاعلان بغاوت پر اتر آئے ہیں.
ان حالات کے مد نظر تحفظ شریعت کی پوری ٹیم کمربستہ ہو کر الگ الگ بستیوں کے مساجد میں بعد نمازِ عشاء پروگرام کر رہی ہے.
الحمدللہ آج دو جگہ پروگرام ہوا اور دونوں جگہ کامیاب رہا پہلا پروگرام مسجد لطیفی ہروا میں مہمان خصوصی حضرت مولانا عبدالسلام عادل ندوی، قاری عبدالواحد ،حافظ مبشر ، حافظ محمد معروف ، قاری محمد معصوم رحیمی اور گاؤں کے دیگر افراد شریک رہے 
دوسرا پروگرام مدنی مسجد چوک والی بوریا مہمان خصوصی حضرت مولانا محمد سرور صاحب قاسمی، قاری محمد اجمل، قاری محمد منظور، حافظ سعود اور بوریا گاؤں کے اکثر لوگ موجود تھے اللہ تعالیٰ سے سبھی دوستوں کی قربانی کو قبول فرمائے آمین ثم آمین 
عبدالوارث مظاہری
9686759181

شکر گزاری ____مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمینائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

شکر گزاری ____
Urduduniyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
اللہ رب العزت نے اس کائنات کو بنایا اور وہ تمام چیزیں فراہم کیں جو اسباب کے درجہ میں زندگی گذارنے کے لیے ضروری ہیں، پھر جب یہ کائنات سج دھج کر انسان کے رہنے کے لائق ہوئی تو حضرت آدم علیہ السلام اور ماں حوا کو روئے زمین پر بھیجا؛ تا کہ اس دنیا میں نسل انسانی کو فروغ ہو اور یہ کائنات آباد و شاداب رہے، چنانچہ انسانوں نے پوی دنیا کو آباد کیا، قدرت نے جو زمین میں مخفی صلاحیتیں رکھی تھیں ان کو کام میں لا کر اسے ترقی کے بام عروج پر پہونچا دیا، اب انسان ظلوم و جہول یہ سمجھتا ہے کہ یہ سب میں نے کیا اور یہ ساری رونق ہمارے دم سے ہے، وہ یہ بھولتا جا رہا ہے کہ یہ ساری چیزیں اللہ نے ہمارے لیے مسخر کی تھیں، اس لیے ہم اس کو کام میں لا کر نیا جہان بناتے رہے، لیکن اگر اللہ ہوا کو روک دیتا، آکسیجن ہماری ناک سے نہیں گذرتا، پانی کے سوتے خشک ہو جاتے، زمین سے غلے نہیں اگتے اور ارد گرد کا ماحول خراب ہو تا تو ہم یہاں کام کیا کرتے؟ اپنی ہی زندگی دشوار تھی، ایسے میں انسان گھٹ گھٹ کر مر جا تا، اللہ رب العزت نے اپنی ان نعمتو ں کے بارے میں واضح کیاکہ اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو نہیں کر سکتے، اللہ تعالیٰ نے سورہ رحمن میں اپنی مختلف قسم کی نعمتوں کا بار بار ذکر کیا اور فرمایاکہ تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤگے۔
ان نعمتوں کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اللہ رب العزت کا شکر ادا کریں کہ اس نے ہمارے لیے ان چیزوں کو مسخر کر دیا، اللہ رب العزت نے اس شکر گذاری پر نعمتوں میں اضافہ کا اعلان کیا ہے اور ناشکری پر سخت عذاب کی وعید وارد ہوئی، لیکن انسان انتہائی نا شکرا واقع ہوا ہے، عام حالات میں ان نعمتوں کی طرف اس کا ذہن منتقل ہی نہیں ہو تا،خیال اس وقت آتا ہے جب اک ا ک بوند پانی اور ایک ایک سانس کی لمبی قیمت چکانی ہوتی ہے اور تب جا کر انسان کی سمجھ میں آتا ہے کہ اگر ہم پوری زندگی ساری کائنات کی نعمتوں کو چھوڑ کر انہیں دو چیزوں کی شکر گذای میں اپنا سب کچھ قربان کر دیں تو بھی شکر ادا کرنے کا ہم حق ادا نہیں کر سکتے، واقعہ یہ ہے کہ دنیا کے سارے درخت کا قلم اورتمام سمندر کے پانی کو روشنائی کے طور پر استعمال کر لیں تو بھی مالک حقیقی اور پروردگار عالم کا حق ہم ادا نہیں کر سکتے، اس لیے بندہ کو چاہئے کہ وہ ہر حال میں شکر ادا کرتا رہے، مصیبت آئے تو صبر کرے اور آسائش میں ہو تو شکر کرے، پھر اس شکر کی ادائیگی کی توفیق بھی اللہ نے دی، اس لیے اس توفیق پر بھی شکر اداکرے اور کرتا رہے، فلاسفہ کے یہاں دور و تسلسل ممنوع اور محال ہو تو ہوا کرے، اللہ رب العزت کے شکر کے باب میں تو تسلسل ہی اصل ہے، ہر دم، ہر آن اور ہروقت اللہ کی تعریف میں رطب اللسان رہے،یہی اللہ کا حق ہے اور بندے کی سر بلندی کا مدار و معیاربھی اسی پر ہے۔

اتوار, مارچ 12, 2023

*نور اردو لائبریری میں حاضری

*نور اردو لائبریری میں حاضری 
Urdudunyanews72
*(نور اردو لائبریری حسن پور گنگھٹی بکساواں ویشالی)*

 امداد اللہ قاسمی
*استاذ: نینی تال پبلک اسکول گوپال گنج بہار*

             میں فطری طور پر دو چیزوں کا رسیا ہوں یا یوں کہ لیں  ذکر الہی کے بعد جو دو چیزیں مجھے بہت محبوب ہیں وہ یہ ہیں
اچھی کتابیں
اور اچھی موسیقی 
میری روح کی تسکین ان تین چیزوں سے ہی ہوتی ہے 
آخر الذکر پر سوال کئے جاسکتے ہیں لیکن انسانی نفسیات سے چھٹکارا بھی بڑی مشکل چیز ہے 
و للناس فیما یعشقون مذاہب 
لوگوں کی چاہتیں مختلف ہوتی ہیں  

بہر کیف *نور اردو لائبریری* میں آکر میری کیفیت وہی ہے جو ایک شدید پیاسے کو  پانی کے مل جانے پر  ہوتی ہے
بہار کی مردم خیز زمین نے سینکڑوں جیالے اور قلم کے دھنی کو پیدا کیا جو اپنے زمانے میں چندے ماہتاب اور چندے آفتاب بن کر ابھرے 
راسخ عظیم آبادی سے لیکر کلیم عاجز تک ایک سلسلہ ہے جو اپنے زمانے میں امام اور مستند استاد مانے گئے 
کلیم الدین احمد کے اس تبصرے نے تو کہ غزل ایک نیم وحشی صنف سخن ہے پوری اردو دنیا میں ایک نئی بحث کا دروازہ کھول دیا 
راسخ عظیم آبادی اور میر کے اس واقعے سے  شاید ہی کوئی ادب کا طالب علم  ناآشنا ہوگا  کسی کو خاطر میں نہیں لانے والے میر سے جب راسخ ملنے پہنچے تو میر نے انکار کر دیا 
بہار کے اس باکمال شاعر نے کاغذ کے ایک ٹکڑے پر کوئیلے سے ایک شعر لکھا
*خاک ہوں پر طوطیا ہوں چشم مہرو ماہ کا* 
*آنکھ والا رتبہ سمجھے مجھ غبار راہ کا*
اور دربان کے معرفت بھیج دیا میر نے جب شعر پڑھا فرک اٹھے اور دوڑتے ہوئے باہر آئے اور راسخ کو گلے سے لگایا 

یہ سلسلہ بہار کے مذہبی طبقوں نے بھی بخوبی انجام دیا ہے 
*علامہ شبلی* کے ہونہار شاگرد *علامہ سید سلیمان ندوی* ہوں یا دارلعلوم کے باکمال سپوت *مولانا مناظر احسن گیلانی*  اور درجنوں نام ایسے مل جائیں گے ، خوشی کی بات یہ ہے کہ ہمارے عہد میں بہت ہی خوبصورتی کے ساتھ  *حضرت مفتی ثناء الہدی صاحب قاسمی دامت برکاتہم نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڑیسہ جھارکھنڈ*  جو کہ ادبی دنیا کے لئے ایک جانا پہچانا نام ہے ہندوستان کے مختلف معتبر اخبارات و رسائل میں حضرت کے مضامین چھپتے بھی ہیں اور مذہبی اور ادبی دنیا حضرت کی کاوشات کو قدر کی نگاہوں سے دیکھتی بھی ہے اس سلسلہ کو آگے بڑھائے ہوئے ہیں 

دوچار امیدوں کے دئیے اب بھی ہیں روشن 
ماضی کی حویلی ابھی ویران نہیں ہے 
حضرت مفتی صاحب کی تحریر میں دین اور ادب کا حسین امتزاج ہے  جو اقبال؛  اکبر الہ آبادی مولانا آزاد  مولانا دریا بادی علامہ شبلی مناظر احسن گیلانی  وغیرہ کی تحریروں میں ملتا ہے مزید ایک اہم کارنامہ نور اردو لائبریری کا قیام ہے آج  رفیق محترم  قاضی ظفر الہدی صاحب کی معیت میں کتابوں کے اعتبار سے اس عظیم لائبریری کو دیکھنے اور کچھ استفادےکا موقع  ملا
جس کا حسن یہ ہےکہ  دینی اور ادبی کتابوں کا ایسا ذخیرہ جمع ہو گیا ہے جو بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے  
خدا سے  دعا ہے کہ حضرت مفتی صاحب کی اس کاوش کو شرف قبولیت سے نوازے 
اور مزید ترقیات سے نوازے۔ آمین

جمعہ, مارچ 10, 2023

پاکی وصفائی ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

پاکی وصفائی ___
Urduduniyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
مثل مشہور ہے کہ ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی، ٹھیک اسی طرح چمکتے ہوئے برتن، میلوں سے پاک کپڑے اور خوبصورت زیب تن لباس دیکھنے میں جتنے بھلے لگتے ہوں اور ان کو پہن کر آپ کو اپنے ہینڈ سم ہونے کا جس قدر گمان ہوتا ہو، لیکن ضروری نہیں ہے کہ وہ پاک بھی ہوں، صفائی اور چیز ہے، پاکی اور چیز، بازار میں کھانے پینے کی دوکانوں پر جوبرتن ہوتے ہیں وہ عموما دیکھنے میں صاف ستھرے رہتے ہیں، اوسط قسم کے مسلم ہوٹلوں میں اس میں کمی نظر آتی ہے، بلکہ کہا جاتاہے کہ دہلی میں جامع مسجد کے سامنے جو بریانی بکتی ہے وہ ایسے دیگوں میں پکتی ہے، جس میں خوردبین سے بہادر شاہ ظفر کے دور کے ذرات تلاش کیے جا سکتے ہیں، یقینا یہ مبالغہ ہے، لیکن کسی دل جلے نے یہ بات وہاں کے دیگوں کی گندگی کو دیکھ کر ہی کہی ہوگی، اسکے بر عکس غیر مسلم بھائی کی دکانوں کے برتن اور لائن ہوٹل پر استعمال کیے جانے والے ظروف صاف ستھرے دکھائی دیتے ہیں، لیکن یہ پاک بھی ہیں، اعتماد سے نہیں کہا جا سکتا، اس لیے کہ ان ہوٹلوں پر استعمال شدہ برتن جہاں رکھے جاتے ہیں وہاں عموما کتے اس کی باقیات کے ساتھ برتن کو بھی چاٹ چاٹ کر صاف کر دیتے ہیں، کتوں کے ذریعہ صفائی کا یہ عمل برتن کو ناپاک کر دیتا ہے، کتوں کی زبان اور لعاب سے جو برتن صاف کیا گیا ہو اس کو ہمارے یہاں کم از کم تین بار دھونے کا حکم ہے، بلکہ روایتوں میں یہ بھی آیا ہے کہ اسے سات مرتبہ دھو یا جائے، اور آٹھویں مرتبہ مٹی سے دھویا جائے، تاکہ برتن کی پاکی کے ساتھ وہ جرثومے بھی مر جائیں اور صاف ہو جائیں، جو کتوں کے لعاب میں ہوتے ہیں اور انسان کو بیمار کر سکتے ہیں، یہ معاملہ صرف ہوٹل کا ہی نہیں، اسکولوں کا بھی ہے، اسکولوں میں جو مڈڈے میل دیا جاتا ہے، اس میں کچھ برتن تو وہ ہوتے ہیں جو طلبہ وطالبات اپنے ساتھ لاتے ہیں، اور کچھ برتن بعض اسکولوں میں طلبہ کو کھانے کے لیے دیے جاتے ہیں، کھانے کے بعد انہیں باہر جو ٹھا رکھ دیا جاتا ہے، تاکہ باورچی یا باورچن آرام سے اسے دھوئے، لیکن دیکھا یہ جا رہا ہے کہ ان کے دھونے سے پہلے کتے اسے اپنی زبان سے صاف کر دیتے ہیں، جب صفائی ہو گئی تو دھونے والا عملہ صرف اس پر پانی بہا دیتاہے، پانی بہانے کے اس عمل سے برتن صاف دکھائی تو دیتا ہے، لیکن وہ پاک نہیں ہوتا اور نہ جانوروں کے منہہ میں جو جراثیم ہوتے ہیں، اس سے وہ محفوظ ہوتا ہے، اگلے دن طلبہ وطالبات جب اسی برتن میں کھاتے ہیں تو یہ جراثیم بچوں کو لگ جاتے ہیں اور بچے بیمار پڑ جاتے ہیں، اسی قسم کا ایک معاملہ سنبھل کے شہزادی سرائے پرائمری اسکول کا اخبارات کی زینت بنا ہے، جب صحافیوں نے اس اسکول کا دورہ کیا تو اسکول میں کوئی موجود نہیں تھا اور مڈڈے میل کے لیے مستعمل برتنوں کو آوارہ جانور چاٹ رہے تھے، یہ ایک واقعہ صحافیوں کے سامنے آیا اور انہوں نے اسے خبر بنا دیا۔ واقعہ یہ ہے کہ بہت سارے اسکولوں کا یہی حال ہے، مڈڈے میل کھا کر بیمار پڑنے کے واقعات کثرت سے سامنے آتے ہیں، سانپ کے بچوں اور چھپکلی تک کھانے سے نکلنے پر اب کسی کو تعجب نہیں ہوتا۔ یہ حالات اس لیے پید اہوئے کہ جو احتیاط کھانا پکانے اور برتن کو پاک وصاف رکھنے کے لیے کیا جانا چاہیے اس سے پہلو تہی کرنا، اسے نظر انداز کرنا عام سی بات ہے، اور کوئی کسی کا ہاتھ پکڑ نے کو تیار نہیں ہے۔
اسلام میں صفائی اور پاکی دونوں مطلوب ہے، بعض اکابر کو یہ کہتے سنا کہ جس طرح پانی کی موجیں اور شجر وحجر ذکر الٰہی میں مشغول ہوتے ہیں، اسی طرح صاف کپڑے بھی اللہ کی تسبیحات بیان کرتے ہیں، فرمایا کہ یہی وجہ ہے کہ جب کپڑا صاف ہوتا ہے تو گرمی کم لگتی ہے اور جب میلا ہوجاتا ہے تو ذکر موقوف ہوجاتا ہے، اسی لیے گندے کپڑے میں گرمی زیادہ لگتی ہے، کپڑے تسبیح پڑھتے ہیں یا نہیں یہ تو بڑوں کے ادراک واحساس کا معاملہ ہے، لیکن گرمی کم اور زیادہ لگنے کی بات تو تجربہ سے ثابت ہے، اسلام میں صفائی کو ایمان کا حصہ قرار دیا گیا ہے، صفائی کے ساتھ بدن، کپڑے، مکانات اور جگہوں کا پاک ہونا بھی شریعت میں مطلوب ہے، یہ پاکی نہ پائی جائے تو ہماری عبادتیں درست نہیں ہوں گی، اس لیے ضروری ہے کہ صاف ستھرا بھی رہا جائے اور یہ صفائی ستھرائی پاکی کے ساتھ ہو۔
 بد قسمتی سے مسلم محلوں کی پہچان آج گندگی بن گئی ہے، معاملہ آوارہ جانوروں کے برتن چاٹنے کا ہی نہیں، ان گندگیوں کا بھی ہے جو بڑی آسانی سے ہم سڑکوں اور نالیوں میں ڈال دیتے ہیں، یہ عمل ہمارے ایمانی تقاضوں کے منافی ہے، اس سے فضائی آلودگی اور مختلف قسم کی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں، ان بیماریوں سے بچنے او رسماج کو بچانے کے لیے صفائی اور پاکی کے بارے میں ہمیں بہت حساس ہونے کی ضرورت ہے اور ان جگہوں پر کھانے اور وہاں کی اشیاء کے استعمال سے پر ہیز کرنے کی بھی ضرورت ہے جہاں اس حد تک احتیاط نہیں کیا جاتا ہے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...