Powered By Blogger

ہفتہ, جولائی 29, 2023

جواہر نوودیہ ودیالیہ كی چھٹویں جماعت میں داخلے كے لیے فارم بھرنا شروع ہو چکا ہے ۔

جواہر نوودیہ ودیالیہ كی چھٹویں جماعت میں داخلے كے لیے فارم بھرنا شروع ہو چکا ہے ۔
اردودنیانیوز۷۲ 
فارم بھرنےکی آخری تاریخ 10؍اگست 2023 ہے۔
آپ جانتے ہوں گے كہ یہ بھارت كے ٹاپ موسٹ گورنمنٹ ریذیڈینشل اسکولز میں سے ایک ہے۔
اس کی برانچ ہر ضلعے میں ہوتی ہے۔ اِس اسکول میں چھٹویں جماعت تا 12ویں جماعت تک ایجوکیشن بالکل فری ہے۔
نوودیہ ودیالیہ کے الومنائی کی تعداد 17‬لاکھ سے زیادہ ہے، ایک اندازے كے مطابق آج تک 2500 ؍سیول سروینٹ سینٹرز میں اور 10،000 ؍سے زیادہ اسٹیٹ گورنمنٹ میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
ایڈمیشن ٹیسٹ پانچویں جماعت كے طلبہ دے سکتے ہیں، یہ ٹیسٹ 22 لینگویجز میں ہوتا ہے، جس میں اردو بھی شامل ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے كہ اردو اسکول كے اسٹوڈنٹ اِس امتحان میں نہیں بیٹھتے۔ 
ہیڈ ماسٹرس، ٹیچرز ؛ اسٹوڈنٹس اور ان کے پیر ینٹس کو اِس اسکول كے فائدے معلوم ہونا چاہیے۔ جب كہ اِس اسکول میں پڑھنے كے بہت فائدے ہیں۔ ان اسکولز میں لڑکیوں کا الگ انتظام ہوتا ہے۔ یہ بچیوں كے لیے کافی محفوظ اسکول ہے۔ دیہات كے بچوں كے لیے یہ اسکول بہت شاندار ہے۔
ان اسکولز میں ایڈمیشن كے لیے اسکولز ، پیرینٹس، این جی او، مختلف جماعتیں ، اسٹوڈنٹ آرْگْنائِیزیشن، سوشل ایکٹیوسٹ ، امامِ مساجد اور پولیٹیکل لوگوں کا دلچسپی لینا ضروری ہے۔ ہرکوئی اپنے نام سے سوشل میڈیا میں اِس اسکول میں داخلہ فارم بھرنے کی اپیل کرے۔ جیسے ہَم لوگ عید کی مبارک باد دیتے ہیں۔
ہر اردو اسکول میں تیسری جماعت سے اِس امتحان کی تیاری کرائی جائے۔ جیسا کہ دوسرے میڈیم كے اسکولز کرتے ہیں۔
اردو ٹیچرز ایسوسی ایشن اور تعلیمی بیداری مہم اِس میں بہت بڑا رول ادا کر سکتی ہیں۔ ہماری ان سے درخواست ہے كہ وہ اپنی طرف سے اپیل جاری کریں۔
اِس امتحان کی کوئی فیس نہیں ہوتی ہے ، فارم آن لائن بھرا جاتاہے۔
ہر ذمے دار شخص سے درخواست ہے كہ آنے والے 15 ؍دنوں تک اِس كے اشتہار کو اپنے اسٹیٹس پر رکھیں۔
5ویں کلاس کے ہر والدین، ٹیچرز اور ہیڈماسٹرس سے گزارش ہے کہ خود خصوصی دلچسپی لےکر اِس امتحان میں بچوں کو ضرور بیٹھائیں۔ اِس میسیج کو پورے ملک میں فارورڈ کریں۔

جمعہ, جولائی 28, 2023

بہار: گوپال گنج میں ہائی ٹینشن تار کی زد میں آیا محرم جلوس، 11 افراد جھلسے، 4 کی حالت سنگین

بہار: گوپال گنج میں ہائی ٹینشن تار کی زد میں آیا محرم جلوس، 11 افراد جھلسے، 4 کی حالت سنگین

اردودنیانیوز۷۲ 

بہار کے گوپال گنج ضلع واقع اچاکا گاؤں علاقہ میں جمعہ کے روز محرم کی نویں تاریخ کو نکالے جا رہے جلوس کے دوران بڑا حادثہ ہوا۔ جلوس کے ساتھ چل رہے تعزیہ کے وہاں ہائی ٹینشن تار کی زد میں آ جانے سے جلوس میں شامل کم از کم 11 افراد جھلس گئے۔ ان میں سے 4 کی حالت سنگین بتائی جا رہی ہے۔ سبھی زخمیوں کو علاج کے لیے اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔گوپال گنج پولیس کے مطابق جمعہ کو تعزیہ جلوس میں ہرپور صفی ٹولہ گاؤں کے کئی نوجوان ہاتھوں میں لاٹھی، ڈنڈے، درخت کی ٹہنی اور ہرے بانس کو لے کر شامل ہوئے۔ دھرم چک گاؤں کی طرف جلوس ملان کے لیے جا رہا تھا۔ بتایا جا رہا ہے کہ اس دوران نوجوان جیسے ہی دھرم چک گاؤں کی طرف بڑھے، تبھی اوپر سے گزر رہے 11 ہزار کے وی اے بجلی کے تار کے رابطے میں تعزیہ آ گیا۔ اس سے 10 سے زیادہ نوجوان اچانک بیہوش ہو کر سڑک پر گر گئے اور زخمی ہو گئےاس واقعہ کے بعد علاقہ میں افرا تفری کی حالت پیدا ہو گئی۔ سبھی زخمیوں کو آناً فاناً میں علاج کے لیے صدر اسپتال بھیجا گیا۔ حادثے کی خبر پا کر ضلع مجسٹریٹ ڈاکٹر نول کشور چودھری اور پولیس سپرنٹنڈنٹ سورن پربھات صدر اسپتال پہنچے۔ افسران نے متاثرین کے علاج کے بارے میں ڈاکٹروں سے جانکاری لی۔ جھلسے ہوئے لوگوں سے بھی حادثہ کے بارے میں معلومات حاصل کی ضلع مجسٹریٹ نے اس واقعہ کے تعلق سے بتایا کہ محرم کا جلوس نکالنے کی اطلاع انتظامیہ کو نہیں دی گئی تھی، جس وجہ سے بجلی کی فراہمی نہیں کاٹی گئی تھی۔ انھوں نے کہا کہ سبھی زخمیوں کو علاج کے لیے صدر اسپتال بھیجا گیا ہے۔ زخمیوں کی حالت معمول پر ہے۔ سبھی زخمی خطرے سے باہر ہیں۔ ڈاکٹروں کو بہتر علاج کی ہدایت دے دی گئی ہے۔

Muharram 2023: یوم عاشورہ کی فضیلت و اہمیت

Muharram 2023: یوم عاشورہ کی فضیلت و اہمیت

اردودنیانیوز۷۲ 

عاشورہ، جسے یوم عاشورہ بھی کہا جاتا ہے، عاشورہ اسلامی کیلنڈر کا پہلا مہینہ محرم کی دسویں تاریخ کومنا یا جاتا ہے۔ یہ لفظ عربی زبان کے لفظ دس نمبر سے ماخوذ ہے۔ عاشورہ کا دن اسلام کی تاریخ میں ایک خاص اہمیت کا حامل ہے اور دنیا بھر میں اسے مختلف طریقوں سے منایا جاتا ہے۔ روایتی طور پر محرم ان چار مقدس مہینوں میں سے ایک ہے جس میں لڑائی کی اجازت نہیں ہے۔ 680 عیسوی میں دس محرم کی تاریخ کو عراق کے کربلا میں پیغمبر اسلامﷺ کے نواسے امام حسینؓ کی شہادت ہوئی تھی،اسی لئے ہر سال دس محرم الحرام کو مسلمان حضرت امام حسینؓ کے تئیں اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔

معرکہ کربلا


عاشورہ کے دن کا سب سے یادگار واقعہ جنگ کے دوران امام حسینؓ اور تقریباً 70 افراد کی شہادت ہے۔ کربلا کی جنگ یزید اول کی فوج اور امام حسین کی قیادت میں ایک چھوٹی فوج کے درمیان لڑی گئی۔ یہ جنگ 10 اکتوبر 680 کو ہوئی جو ہجری کیلنڈر کے مطابق 61 ہجری میں 10 محرم ہے۔


تاریخی جنگ سے پہلے امام حسین علیہ السلام دشمنوں کے محاصرے میں تھے۔ انہوں نے امام حسینؓ کے کیمپ کے اردگرد پانی کے تمام ذرائع پر قبضہ کر لیا اور انہیں پانی سے محروم کر دیا۔ جب انہوں نے ہتھیار نہیں ڈالے تو امام اور ان کے ساتھیوں کو تین دن تک پانی اور غذا سے محروم رکھا گیا اور پھر دشمنوں کی ایک بڑی فوج نے ان پر حملہ کیا۔ انتہائی بھوکے اور پیاسے ہونے کے باوجود انہوں نے پوری قوت سے جنگ لڑی اور اس جنگ میں امام حسین اور ان کے تین ماہ کے بچے سمیت بہت سے لوگ جام شہادت نوش کر گئے۔ اس جنگ میں بہت سے لوگوں نے اسلام کی سر بلندی اوراعلاء کلمتہ اللہ کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔

بھارت ایکسپریس۔


بھارت ایکسپریس۔


بھارت ایکسپریس۔


بھارت ایکسپریس۔


بھارت ایکسپریس۔


بھارت ایکسپریس۔


بھارت ایکسپریس۔


بھارت ایکسپریس۔


بھارت ایکسپریس۔


بھارت ایکسپریس 

جمعرات, جولائی 27, 2023

مدارس اسلامیہ اور عصری تقاضے، ایک مطالعہ۔✍️✍️✍️ محمد ضیاء العظیم قاسمی ،برانچ اونر ضیائے حق فاؤنڈیشن پٹنہ

مدارس اسلامیہ اور عصری تقاضے، ایک مطالعہ۔
اردودنیانیوز۷۲ 
✍️✍️✍️ محمد ضیاء العظیم قاسمی ،برانچ اونر ضیائے حق فاؤنڈیشن پٹنہ
موبائل نمبر 7909098319
مدارس اسلامیہ اور عصری تقاضے ڈاکٹر محمد حفظ الرحمن کی ایک شاہکار تصنیف ہے جو اردو ڈائریکٹوریٹ کی اشاعتی امداد سے شائع کی گئی ہے ۔
کتاب دیکھ کر ہی مصنف محترم کی کاوش اور محنت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔
دو سو صفحات پر مشتمل اس کتاب کی کمپوزنگ نورالدین محمد قاسمی نے کی، اس کی طباعت سن 2021 میں ہوئی، تین سو روپے کی یہ کتاب مرکز المعارف حضرت بشارت کریم سیتا مڑھی بہار، اور مدرسہ بحر العلوم مظفر پور بہار سے حاصل کی جا سکتی ہے ۔
مصنف نے کتاب دو حصوں میں تقسیم کی ہے ،
حصہ اول (نصاب تعلیم) جس میں پانچ عناوین ہیں،
فہرست عناوین حصہ اول 
1  موجودہ علمی تحدیاں اور مدارس اسلامیہ
2  مشترکہ تعلیمی لائحہ
3  تخصص فی الاساسیہ
4 تخصص فی الإقتصاد
5  تخصص فی علم الاجتماع

حصہ دوم میں (مشورے اور گزارشیں) گیارہ عناوین ہیں، 

فہرست عناوین حصہ دوم 
1  انگریزی کے اساتذہ کی قلت کا مسئلہ
2  فارسی کتب سے استفادہ میں مشکلات
3   انگریزی داں علماء اور مدارس ومساجد
4  نصاب میں تبدیلی کے مثبت اثرات
5   اتحاد ملت اور مدارس اسلامیہ
6    ہماری ترجیحات میں تبدیلی ضروری
7   مدارس اسلامیہ اور عصری تعلیم
8    اسلامی اقامت خانہ کا قیام
9    دینی وأخلاقی تربیت
10  مدارس اور مسجد کی نام گزاری
11    اختتامیہ

مصنف نے کتاب کا انتساب اپنے والدین کے نام کیا ہے ۔
کتاب کی تقریظ مشہور ومعروف اور مقبول عالم دین مولانا احمد بیگ ندوی، سابق استاذ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ ،اور ماہر تعلیم مولانا بدیع الزماں ندوی قاسمی بانی و مہتم جامعہ فاطمہ للبنات مظفر پور،بہار نے لکھی ہے، جس میں مصنف کے طرز تحریر، اسلوب تحریر، اور خاصیت تحریر کا بہترین جائزہ لیتے ہوئے مثبت تاثرات سے نوازتے ہوئے ان موضوعات پر اپنے اطمنان کا اظہار کیا ہے ۔
بعدہ سطور اولین میں مصنف محترم نے ہندوستان کی قدیم تاریخ (1857) میں ہندوستانی تہذیب وثقافت کے ساتھ ساتھ تعلیم پر اس کے مرتب ہونے والے اثرات کا تذکرہ کیا ہے،
نیز کتاب میں شامل مضامین، وجہ تالیف وتصنیف، اور ان تمام دوست واحباب، خویش واقارب کا شکریہ ادا کیا ہے جنہوں نے اس تصنیفی سفر میں ان کی حوصلہ افزائی کی ہے ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ آخری عنوان اختتامیہ میں مجموعی طور پر کتاب کے تمام مضامین کا خلاصہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے، انہوں نے مدارس اسلامیہ کی اہمیت و افادیت اور موجودہ دور میں اس کی ضرورت و مقاصد کے سلسلے میں بڑی خوبصورتی کے ساتھ دلچسپ پیرائے میں مدلل بیان کرکے اس تصنیف کو با مقصد بنانے کی بھر پور سعی کی ہے ۔
یقیناً انسانوں کی ترقی وکامیابی تعلیم میں پوشیدہ ہے، تعلیم وہ زیور ہے جو طرز زندگی، اصول بندگی، اور سلیقۂ زیست سے متعارف کراتا ہے ۔
دنیا کے تمام علوم وفنون کی اصل اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو وہ قرآن مجید کی تعلیمات اور اس کے مفاہیم ہیں، اللہ رب العزت نے اس کے نزول کے آغاز ہی میں تعلیم کی ترغیب دلائی ہے، اور تعلیم کا مقصد صرف یہ ہے کہ معرفت الہی پیدا ہو جائے، تعلیم خواہ جو بھی ہو لیکن اس کے حصول کا مقصد معرفت الہی ہو یہی تقاضۂ تعلیم ہے ۔سیدنا ابوالبشر آدم علیہ السلام کو اشرف المخلوقات بناتے ہوئے فرشتوں کو سجدے کا حکم دیا، اس کا پس منظر بھی تعلیم ہی ہے ۔ "مدارس اسلامیہ اور عصری تقاضے"اس تصنیف میں موصوف محترم نے مدارس اسلامیہ کی تعلیمات کے ساتھ ساتھ ان کے تعلیمی نصاب پر بھی گفتگو کی ہے، اور ساتھ یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ مدارس اسلامیہ کے نصاب میں عصری تقاضوں کے پیش نظر ترمیم واضافہ کی اشد ضرورت ہے اور یقیناً آپ نے جن پہلوؤں کی نشاندہی کی ہیں ان پر اہل مدارس کو غور وفکر کے ساتھ ساتھ مستقل اور مستقبل کے لئے لائحۂ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ مدارس اسلامیہ کے طلبہ وطالبات دنیاوی معلومات کی نا واقفیت کی بنا پر احساس کمتری کا شکار نہ رہیں ۔
 عام طور پر مدارس اسلامیہ میں طلبہ وطالبات کے لیے جن علوم دینیہ کو نصاب میں شامل کیا جاتا ہے ان میں شعبۂ حفظ و قرأت،دینیات ،عالمیت کورس کے دوران قرآن مجید، تفسیر قرآن، احادیث، فقہ، اصول فقہ، منطق فلسفہ، تاریخ وسیرت، عربی، اردو، فارسی زبان وادب وغیرہ ہے، جبکہ چند مدارس نے عصری بنیادی تعلیم کا بھی نظم ونسق کیا ہے ،ابتدائی انگریزی، ہندی، اور حساب وغیرہ کی بھی تعلیم دے رہے ہیں جو کہ ایک اچھی پہل اور شروعات ہے،
لیکن یہ نصاب تعلیم اور نظام تعلیم موجودہ دور کے لئے ناکافی ہے، بلکہ اس میں ترمیم واضافہ کی ضرورت ہے، ان سب باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے مدلل اورمثبت انداز میں ایک لائحۂ عمل تیار کیا جانا چاہیے ۔
کتاب کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں جس سے کتاب کے مضامین ومفاہیم اور مقاصد با آسانی سمجھے جا سکتے ہیں ۔۔۔
اقتباس ۔۔۔۔  "میڈیکل کالج اور مینیجمینٹ کالج میں ملکی قانون کا کچھ حصہ پڑھایا جاتا ہے،لیکن اس کی تدریس کے لئے وہی حصے منتخب کئے جاتے ہیں جو ان حضرات کے کیریئر میں معاون ہو سکتے ہیں، کیونکہ قانون کو درس میں شامل کرنے کا مقصد یہاں عدالتوں کے لئے وکلاء اور ججز فراہم کرنا نہیں بلکہ قانون سے ناواقفیت ان کے اپنے میدان میں جن نقصانات کا باعث ہو سکتی ہے ان سے بچانا ہوتا ہے"
پس اسی مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے مشترکہ تعلیمی لائحہ میں ایک ایسی کتاب تصنیف کرکے نصاب میں شامل کیا جانا چاہئے جو اس ضرورت کو پوری کر سکے۔
اس کتاب میں آئین ہند کے چند اہم ابواب جیسے بنیادی حقوق (fundamental rights)، بنیادی فرائض (fundamental duties)، رہنما اصول (directive principles) اور کچھ اہم دفعات، اس کے علاوہ سول کوڈ اور کرمنل کوڈ کا بنیادی فرق، پرسنل لاء اور سول کوڈ کی قانونی حیثیت، وقف ایکٹ اور اوقاف مینیجمینٹ کا قانونی و انتظامی طریقۂ کار، پرائیویٹ ڈیفینس کی اہمیت اور قانونی حدود وغیرہ اجمالی طور پر شامل ہوں۔ اسی کے ساتھ یہ ضروری ہوگا کہ سول پروسیجر اور کرمنل پروسیجر کی مکمل معلومات انہیں فراہم کیا جائے اور ایف آئی آر اور استغاثہ کی عملی مشق کرا دی جائے، تاکہ فارغین مدارس  امت کے تحفظ کا کام بہتر طور پر ادا کر سکیں اور ہر سطح پر اوقاف کی حفاظت کرنے اور انھیں نفع بخش بنانے کا کام منظم طور پر انجام پانے لگے۔
تجربہ کار قانون دانوں کی نگرانی میں ایسی کتاب تیار کی جانی چاہئے اور پھر بدلتے ہوئے وقت کے ساتھ اس کی تجدید بھی ہوتی رہے، تاکہ قانون میں آئی ترمیم اسے بے فائدہ نہ کردے۔۔۔
مزید کتاب کے مضامین کو سمجھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضروری ہے، اہل علم ودانشوران  سے ہماری گزارش ہے کہ اس کتاب کا مطالعہ کرکے مدارس اسلامیہ کے تئیں جن پہلوؤں پر نشاندہی کی گئی ہیں ان پر توجہ دے کر مدارس اسلامیہ کی تعلیم کو مضبوط ومستحکم بنانے کی کوشش کی جائے ۔
ہم اپنی جانب سے اور ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے مصنف کی اس کاوش پر انہیں مباکباد پیش کرتے ہیں اور ان کے حق میں دعا گو ہیں کہ اللہ ان کی اس تصنیف کو قبول فرمائے، آمین ثم آمین

محرم الحرام __اسلامی ہجری سال کا پہلا مہینہ✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

محرم الحرام __اسلامی ہجری سال کا پہلا مہینہ
اردودنیانیوز۷۲ 
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ(9431003131)
1444ھ گذرگیا اور ہم 1445ھ میں داخل ہوگیے، یعنی نئے سال کا سورج ہماری زندگی کے مہہ وسال سے ایک سال اور کم ہوگیا ہے ، ہم موت سے اور قریب ہو گیے ، انسان بھی کتنا نادان ہے وہ بڑھتی عمر کا جشن مناتا ہے، مبارک بادپیش کرتا ہے ، قبول کرتا ہے اور بھول جاتا ہے کہ ہماری عمر جس قدر بڑھتی ہے ، موت اور قبر کی منزل قریب ہوتی رہتی ہے اور بالآخر وقت موعود آجاتا ہے اور آدمی قبر کی آغوش میں جا سوتا ہے۔ جو لوگ صاحب نظر ہیں اور جن کے ذہن میں فکر آخرت رچی بسی ہوئی ہے، وہ گذرے ہوئے سال سے سبق لیتے ہیں ، اعمال کا محاسبہ کرتے ہیں، نئے سال کا استقبال تجدید عہد سے کرتے ہیں کہ آئندہ ہماری زندگی رب مانی گذرے گی ، من مانی ہم نہیں کریں گے ، اس عہد پر قائم رہ کر جو زندگی وہ گذارتے ہیں وہ رب کی خوش نودی کا سبب بنتا ہے اور اس کے نتیجے میں بندہ جنت کا مستحق ہوتا ہے۔
 نئے سال کی آمد پر ہم لوگ نہ محاسبہ کرتے ہیں اور نہ ہی تجدید عہد ، بلکہ ہم میں سے بیش تر کو تو یاد بھی نہیں رہتاکہ کب ہم نئے سال میں داخل ہو گیے، عیسوی کلینڈر سب کو یادہے، بچے بچے کی زبان پر ہے، انگریزی مہینے فرفر یاد ہیں ، چھوٹے چھوٹے بچے سے جب چاہیے سن لیجئے؛ لیکن اسلامی ہجری سال ، جو اسلام کی شوکت کا مظہر ہے، اس کا نہ سال ہمیں یاد رہتا ہے اور نہ مہینے ، عورتوں نے اپنی ضرورتوں کے لئے کچھ یاد رکھا ہے، لیکن اصلی نام انہیں بھی یاد نہیں بھلا ،بڑے پیر اور ترتیزی ، شب برأت، خالی، عید ، بقرعید کے ناموں سے محرم صفر ، ربیع الاول ، ربیع الآخر، جمادی الاولیٰ ، جمادی الآخر، رجب ، شعبان، رمضان ، شوال ذیقعدہ اور ذی الحجہ جو اسلامی مہینوں کے اصلی نام ہیں ، ان کو کیا نسبت ہو سکتی ہے ، ہماری نئی نسل اور بڑے بوڑھے کو عام طور پر یا تو یہ نام یاد نہیں ہیں اور اگر ہیں بھی تو ترتیب سے نہیں ، اس لیے ہمیں اسلامی مہینوں کے نام ترتیب سے خود بھی یاد رکھنا چاہیے اور اپنے بچوں کو بھی یاد کرانا چاہیے، یاد رکھنے کی سب سے بہتر شکل یہ ہے کہ اپنے خطوط اور دوسری تحریروں میں اسلامی کلینڈر کا استعمال کیا جائے۔پروگرام اور تقریبات کی تاریخوں میں بھی اس کا استعمال کیا جائے ، کیونکہ بعض اکابر اسے شعار اسلام قرار دیتے ہیں اور شعار کے تحفظ کے لیے اقدام دوسری عبادتوں کی طرح ایک عبادت ہے۔
 ہجری سال کی تعیین سے پہلے، سال کی پہچان کسی بڑے واقعے سے کی جاتی تھی۔ جیسے قبل مسیح ،عام الفیل ، عام ولادت نبوی وغیرہ، یہ سلسلہ حضرت ابو بکر صدیق کے وقت تک جاری تھا ، حضرت عمرفاروق  نے اپنے عہد خلافت میں مجلس شوریٰ میں یہ معاملہ رکھا کہ مسلمانوں کے پاس اپنا ایک کلینڈر ہونا چاہیے۔ چنانچہ مشورہ سے یہ بات طے پائی کہ اسلامی کلینڈر کا آغاز ہجرت کے واقعہ سے ہو، چنانچہ سال کا شمار اسی سال سے کیاجانے لگا، البتہ ہجرت کا واقعہ ربیع الاول میں پیش آیا تھا ،لیکن سال کا آغاز محرم الحرام سے کیا گیا ، کیونکہ یہ سال کا پہلا مہینہ زمانہ جاہلیت میں بھی تھا۔اس طرح اسلامی ہجری سال کا آغاز محرم الحرام سے ہوتا ہے۔
 محرم الحرام ان چا ر مہینوں میں سے ایک ہے ، جس کا زمانہ جاہلیت میں بھی احترام کیا جاتا تھا، اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا کہ مہینوں کا شمار اللہ کے نزدیک بارہ ہیں اور یہ اسی دن سے ہیں، جس دن اللہ رب ا لعزت نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا ، ان میں چار مہینے خاص ادب کے ہیں ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چار مہینوں کی تفصیل رجب ، ذیقعدہ ، ذی الحجہ اور محرم بیان کی ہے ، پھر حضرت ابو ذر غفاری ؓکی ایک روایت کے مطابق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ تمام مہینوں میں افضل ترین اللہ کا وہ مہینہ ہے جس کو تم محرم کہتے ہو ، یہ روایت سنن کبریٰ کی ہے ، مسلم شریف میں ایک حدیث مذکور ہے کہ رمضان کے بعد سب سے افضل روزے ماہ محرم کے ہیں ، اس ماہ کی اللہ کی جانب نسبت اور اسے اشہر حرم میں شامل کرنا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اس مہینے کی فضیلت شہادت حسین کی وجہ سے نہیں ، بلکہ بہت پہلے سے ہے۔ 
 اسی مہینے کی دس تاریخ کو یوم عاشوراء کہا جاتا ہے ، رمضان المبارک کے روزے کی فرضیت کے قبل اس دن کا روزہ فرض تھا ، بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق قریش بھی زمانۂ جاہلیت میں عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے، خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس روزہ کا اہتمام فرماتے تھے، یہودیوں کے یہاں اس دن کی خاص اہمیت ہے ، کیوں کہ اسی دن بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات ملی تھی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ ہجرت کرکے تشریف لے گیے تو یہودیوں کو یوم عاشورا کا روزہ رکھتے دیکھا ، معلوم ہوا کہ یہودی فرعون سے نجات کی خوشی میں یہ روزہ رکھتے ہیں ، آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ہم یہودیوں سے زیادہ اس کے حقدار ہیں کہ روزہ رکھیں ، لیکن اس میں یہودیوں کی مشابہت ہے ، اس لیے فرمایا کہ تم عاشورا کا روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو ، اس طرح کہ عاشورا سے پہلے یا بعد ایک روزہ اور رکھو۔ علامہ عینی کے مطابق اسی دن حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی ،حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ سے اور حضرت یوسف علیہ السلام کنویں سے باہر آئے، حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی اسی دن واپس ہوئی ، حضرت داؤد علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام دنیا میں تشریف لائے، حضرت ایوب علیہ السلام کو مہلک بیماری سے نجات ہوئی، حضرت سلیمان علیہ السلام کو خصوصی حکومت ملی ، اور ہمارے آقا مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی دن ’’ غفر لہ ما تقدم من ذنبہ ‘‘کے ذریعہ مغفرت کا پروانہ عطا کیا گیا۔ اس طرح دیکھیں تو یہ سارے واقعات مسرت وخوشی کے ہیں اور اس دن کی عظمت وجلالت کو واضح کرتے ہیں،اس لیے اس مہینے کو منحوس سمجھنا ، اوراس ماہ میں شادی بیاہ سے گریز کرنا نا واقفیت کی دلیل ہے اور حدیث میں ہے کہ بد شگونی کوئی چیز نہیں ہے۔ 
یقینا اس دن حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی اہل خاندان کے ساتھ شہادت تاریخ کا بڑاا لم ناک، کرب ناک اور افسوس ناک واقعہ ہے، جس نے اسلامی تاریخ پر بڑے اثرات ڈالے ہیں، اس کے باوجود ہم اس دن کو بْرا بھلا نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی ماتم کر سکتے ہیں، اس لیے کہ ہمارا عقیدہ ہے حضرت حسین  اور ان کے خانوادے اللہ کی راہ میں شہید ہوئے ، حق کی سر بلندی کے لیے شہید ہوئے اور قرآن کریم میں ان حضرات کے بارے میں ارشاد ہے کہ جو اللہ کے راستے میں قتل کردیے گئے انہیں مردہ مت کہو ، بلکہ وہ زندہ ہیں، البتہ تم ان کی زندگی کو سمجھ نہیں سکتے ، قرآن انہیں زندہ قرار دیتا ہے ، اور ظاہر ہے ہمیں تومْردوں پر بھی ماتم کرنے ، گریباں چاک کرنے ، سینہ پیٹنے اور زور زور سے آواز لگا کر رونے سے منع کیا گیاہے، پھر جو زندہ ہیں، ان کے ماتم کی اجازت کس طور دی جا سکتی ہے۔ ایک شاعر نے کہا ہے 
روئیں وہ، جو قائل ہیں ممات شہداء کے ہم زندہ جاوید کا ماتم نہیں کرتے
اس دن حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی یاد میں تعزیے نکالے جاتے ہیں، تعزیہ نکالنے کی اجازت تو شیعوں کو چھوڑ کر کسی کے یہاں نہیں ہے ، پھر جس طرح تعزیہ کے ساتھ نعرے لگائے جاتے ہی یاعلی، یا حسین  یہ تو ان حضرات کے نام کی توہین لگتی ہے ، حضرت علی ، کے نام کے ساتھ کرم اللہ وجہہ اور حضرت حسین کے نام کے ساتھ رضی اللہ عنہ لگانا عظمت صحابہ کا تقاضہ اور داماد رسول اور نواسہ رسول کے احترام کا ایک طریقہ ہے۔ لیکن جلوس میں اس کی پرواہ کس کو ہوتی ہے ، اس طرح ان حضرات کا نام ٹیڑھا میڑھا کرکے لیتے ہیں کہ ہمارے باپ کا نا م اس طرح بگاڑ کرکوئی لے تو جھگڑا رکھا ہوا ہے ، بے غیرتی اور بے حمیتی کی انتہا یہ ہے کہ اسے کار ثواب سمجھا جا رہا ہے ، دیکھا یہ گیا ہے کہ اس موقع سے جلوس کے ساتھ بعض جگہوں پر رقاصائیں رقص کرتی ہوئی چلتی ہیں، عیش ونشاط اور بزم طرب ومسرت کے سارے سامان کے ساتھ حضرت حسین کی شہادت کا غم منایا جاتا ہے، اس موقع سے شریعت کے اصول واحکام کی جتنی دھجیاں اڑائی جا سکتی ہیں، سب کی موجودگی غیروں کے مذاق اڑانے کا سبب بنتی ہے ، اور ہمیں اس کا ذرا بھی احساس وادراک نہیں ہوتا۔
جلوس کے معاملہ میں ہمیں ایک دوسرے طریقہ سے بھی غور کرنے کی ضرورت ہے ، تاریخ کے دریچوں سے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ حضرت حسین رضی اللہ علیہ کی شہادت کے بعد اس خانوادہ میں بیمار حضرت زین العابدین اور خواتین کے علاوہ کوئی نہیں بچا تھا ،یہ ایک لٹا ہوا قافلہ تھا ، جس پریزیدی افواج نے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے تھے، ان کے پاس جلوس نکالنے کے لیے کچھ بھی نہیں بچا تھا، تیر ،بھالے ، نیزے اورعَلم تو یزیدی افواج کے پاس تھے، حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا سر نیزے پر تھا اوریزیدی بزعم خود اپنی فتح وکامرانی کاجلوس لیکر یزیدکے دربار کی طرف روانہ ہوئے تھے، ہمارے یہاں جلوس میں جو کروفراور شان وشوکت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے ، یہ کس کی نقل کی جا رہی ہے؟ ذرا سوچئے کھلے ذہن سے سوچیے تو معلوم ہوگا کہ ہم کسی اور کی نقل کر رہے ہیں، حسینی قافلہ کی تو اس دن یہ شان تھی ہی نہیں، اس لیے مسلمانوں کو ایسی کسی بھی حرکت سے پر ہیز کرنا چاہیے ، ایسے جلوس میں نہ خود شامل ہوں اور نہ اپنے بچوں کو اس میں جانے کی اجازت دیں۔

بدھ, جولائی 26, 2023

مولانا سہیل احمد ندوی __:ایسی موت جس پر رشک آیے✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

مولانا سہیل احمد ندوی __:ایسی موت جس پر رشک آیے
اردودنیانیوز۷۲ 
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھار کھنڈ کے نائب ناظم ،امارت شرعیہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر ٹرسٹ کے جنرل سکریٹری ،دارالعلوم الاسلامیہ امارت شرعیہ کے سکریٹری مولانا سہیل احمد ندوی کا آج 25جولایی 2023 کو کٹک سے120کلو مٹر دور بحالت سجدہ ظہر کی نماز میں انتقال ہو گیا۔جنازہ کی ایک نماز بعد نماز عصر کٹک میں دارالقضا کے صحن میں ہویی۔جنازہ پٹنہ لا یا جارہا ہے تدفین آبائی گاؤں بگہی مغربی چمپارن میں ہوگی  پٹنہ میں بھی جنازہ 12بج کر 15 منٹ پر امارت شرعیہ پھلواری شریف  کے احاطے میں ادا کیا جائے گا ۔
مولانا سہیل احمد ندوی بن شکیل احمد کی ولادت بگہی موجودہ ضلع مغربی چمپارن کے ایک زمین دار گھرانے میں 60سال قبل ہویی۔ ان کے پردادا شیخ عدالت حسین،مجاہد آزا دی ، گاندھی جی، مولانا ابوالمحا سن محمد سجاد کے رفقاء میں تھے،دارالعلوم دیوبند میں عربی درجات کی تعلیم حاصل کی ۔دارالعلوم کے قضیہ نامرضیہ کے زمانے میں وہ دارالعلوم چھوڑ کر ندوۃ العلماء لکھنؤ چلے آءے اور یہیں سے عالمیت کی تکمیل کی تکمیل کی فراغت کے معا بعد وہ امارت شرعیہ میں کارکن کی حیثیت سے بحال ہوءے۔پہلے معاون ناظم،پھر نائب ناظم ،اس کے بعد ٹرسٹ کے سکریٹری منتخب ہوءے۔مفتی جنید صاحب کے بعد دارالعلوم الاسلامیہ امارت شرعیہ کے ناظم بناءے گیے  اور زندگی کی آخری سانس تک ان عہدوں کے تقاضے کو پورا کر تے رہے۔کٹک کا سفر بھی یو سی سی کے خلاف بیداری مہم کے لیے کیا تھا،راور کیلا سے وہ آج ہی کٹک پہونچے تھے۔120کلو میٹر دور ایک اجتماع کو خطاب کیا ظہر کی نماز کے لیے وضو کیا
نماز میں شریک ہوءے،بہلی رکعت کے دوسرے سجدے میں جان جاں آفریں کے سپرد کر دیا،سدا رہے نام اللہ کا۔دین کے کام کے لیے سفر۔مسافرت کی موت اور وہ بھی سجدے  میں مغفرت اور بخشش کے کتنے اشارے اللہ نے جمع کر دیے تھے
 میں آج سے کوءی 20سال قبل مدرسہ احمدیہ ابابکر  پور سے حضرت امیر شریعت سادس کے حکم پر امارت شرعیہ آیا اس زمانے میں وہ معاون ناظم تھے۔انہوں نے زمانہ دراز تک قاضی نورالحسن میموریل اسکول کے سکریٹری کی حیثیت سے کام کیا اور ابھی بھی وہ  اس عہدہ پر متمکن تھے۔وہ جری،ملنسار،اور انتظامی امور کے ماہرتھے۔پلاننگ, منصوبہ بندی اور ان پر عمل درآوری کی شکلوں پر انکی گہری نظر تھی،کءی لوگ انہیں دفتر میں بھیا کہا کرتے تھے۔ایڈ جسٹمنٹ کی غیر معمولی صلاحیت ان میں تھی،وہ ہر دور میں امراء شریعت کے معتمد رہے۔دفتر کے کارکنان ان کی صلاحیت کے قایل تھے۔راقم الحروف سے ان کے تعلقات مخلصانہ تھے،امارت شرعیہ کے کاموں کو آگے بڑھانے میں ہم ایک دوسرے  کےمعاون ہوا کرتےتھےاور مشاورت سے کام آگے بڑھتا تھا،
آج بھی ہم لوگوں نے صبح8بجے دیر تک زوم پر مشورہ کیا تھا ،کیا معلوم تھا کہ یہ آخری ملاقات ہوگی۔اللہ مغفرت فرمائے پس ماندگان کو صبر جمیل اور امارت شرعیہ کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے ۔ابھی غم تازہ ہے۔
کچھ کہ سناءینگے جو طبیعت سنبھل گءی

✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار ، اڈیشہ وجھارکھنڈ

ابوالمحاسن مولانا محمد سجادؒ
 اور
Urudduinyanews72
مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ ___
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار ، اڈیشہ وجھارکھنڈ
امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ کا قیام 19/ شوال1339 ھ =26 جون 1921ء کو ہوا تھا، اس وقت بانی امارت شرعیہ مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد کی عمر اکتالیس (41) سال (ولادت صفر 1299ء دسمبر1881ئ) تھی، اور مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی (ولادت 1318ھ-1900ء وفات 2 اگست1962ئ) عمر کے اعتبار سے اکیس(21) سال کے تھے، امارت شرعیہ کے قیام کے بعد1922ء میں انہوں نے دارالعلوم دیو بند سے سند فراغت پائی، مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد جمعیت علماء کے قیام کی مجلس امرتسر میں شریک تھے، اس سے قبل خلافت کانفرنس دہلی میں بھی ابوالمحاسن مولانا محمدسجاد نے شریک ہو کر تقریر فرمائی تھی، بقول سحبان الہند مولانا احمد سعید دہلوی اس تقریر کوسن کر’’کوئی آنکھ اور کوئی دل ایسا نہیں تھا جس نے اثر قبول نہ کیا ہو‘‘ (حیات سجاد مضمون مولانا احمد سعید دہلوی) 
سحبان الہندمولانا احمد سعید دہلوی (ولادت1306 ھ=1888ئ) اور مولانا محمد سجاد کی عمر میں صرف نو (9) سال کا فاصلہ تھا، اس کے باوجود مولانا احمد سعید نہ صرف ان سے عقیدت و محبت رکھتے تھے؛ بلکہ باپ کی طرح سمجھتے تھے، چنانچہ لکھتے ہیں: ’’مولا نا مجھ سے اپنی اولاد کی طرح محبت کرتے تھے اور میں بھی ان کی عزت اور ان کا احترام باپ کی طرح کرتا تھا اور بعض جلسوں میں میں نے ان کی موجودگی میں ان تعلقات کا اظہار بھی کیا تھا‘‘ (حیات سجاد) جب سحبان الہند مولانا احمد سعید (م3 جمادی الثانیہ 1379 ھ=4 دسمبر1959ئ) کا عمر میں زیادہ تفاوت نہ ہونے کے باوجود یہ حال تھا تو مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی سے تعلقات کی نوعیت کیا رہی ہوگی، اسے بآسانی سمجھا جاسکتا ہے۔ مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد جمعیت علماء ہند کے ذمہ داروں کے ہر دور میں دست راست رہے، جمعیت علماء بھی ان کی ملی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی تھی اور ان کے مشورے سے کام آگے بڑھتا تھا، ایک زمانہ تک بہار کی حد تک جمعیت علماء اور امارت شرعیہ تو جڑواں تنظیمیں تھیں، یہ تعلق اور انسلاک اس قدر تھا کہ جمعیت علماء کے اس وقت کے صدر شیخ الاسلام حضرت مولاناحسین احمد مدنی رحمتہ اللہ علیہ نے لکھنؤ اجلاس کے بعد ایک سرکلر کے ذریعہ بہار میں جمعیت علماء کو ہدایت دی تھی کہ’’وہ زکوۃ کی رقومات حاصل کرنے کی کوشش نہ کریں؛ بلکہ مسلمانوں کو سمجھا ئیں کہ وہ زکوۃ اور صدقات کی رقم حسب معمول امارت شرعیہ کے بیت المال کو ادا کرتے رہیں‘‘ مولانا نورالدین بہاری (جو اس وقت جمعیت علماء کے ناظم تھے)نے ایک مکتوب کے ذریعہ جمعیت علماء بہار کے ذمہ داران کو اس سے مطلع کیا تھا، اس تعلق کے نتیجے میں دونوں تنظیموں کے ارکان بھی تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ ایک ہی ہوا کرتے تھے، چنانچہ جمعیت علماء ہند کے ذریعہ شروع کی گئی بیش تر تحریکات مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد کے زرخیز ذہن کی پیداوار تھی، بلکہ اس زمانہ میں بیش تر تحریری کام مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد ہی کیا کرتے تھے،مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد’’جمعیت علماء ہند کی میٹنگوں میں پابندی سے شریک ہوتے تھے، وہ جمعیت علماء ہند کے دل اور دماغ تھے، 1938ء میں جب مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ندوۃ المصنفین کے قیام کے بعد مولانا مفتی عتیق الرحمن صاحب کی دعوت پر کلکتہ سے جامعہ عربیہ امروہہ اورپھر مستقل طور پر دہلی منتقل ہوئے تو جمعیت علماء کی سرگرمیوں کے وہ کل وقتی ساتھی بن گئے، اس درمیان انہوں نے مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ کوقریب سے دیکھا، ان کی فکری اور علمی عظمت کے قائل ہوئے، اس وقت سے امارت شرعیہ کے ہر کاموں میں حسب ضرورت و سہولت مجاہد ملت کا تعاون ملتا رہا، مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ نے مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ کے بارے میں لکھا ہے:’’جماعت کے ذمہ دار ارکان اور میں نے بارہا یہ منظر دیکھا ہے کہ جب کسی مسئلہ پر حضرت مولانا محمد سجاد صاحب دلائل و براہین و فقہی بصیرت کے ساتھ بحث فرماتے تو حضرت مفتی(کفایت اللہ)صاحب بھی بے حد متاثر ہوتے اور ان کے علمی تبحر کا اعتراف کرتے ہوئے بے ساختہ ان کی زبان سے کلمات تحسین نکل جاتے (حیات سجاد ص 148) 
مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی نے بانی امارت شرعیہ مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ سے اپنی پہلی ملاقات اور تعارف پر بھی روشنی ڈالی ہے،لکھتے ہیں’’حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد صاحب‘‘نائب امیر شریعت بہار سے میرا تعارف جمعیت علماء ہند کے واسطے سے ہوا تھا، ان کو دہلی میں سب سے پہلے جمعیت علماء کی ایک مجلس مشاورت میں دیکھا اپنے قریب بیٹھنے والوں سے دریافت کیا تو انہوں نے مولانا مرحوم کا تعارف کرایا اور نہ صرف یہ بلکہ میرے اور مولانا کے درمیان تعارف با ہمی کا رشتہ بن گئے اس وقت سے اور تادم وفات حضرت مولانا سے انتہائی ربط و ضبط قائم رہا (حیات سجاد) جمعیت علماء ہند اور امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ کے اسی اشتراک عمل کا نتیجہ تھا کہ جمعیت علماء ہند کے اجلاس مراد آباد کی صدارت مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ نے کی اور اس میں وہ تاریخی خطبہ دیا جس کو مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ نے اسلامی سیاست کی لائبریری میں انسائیکلو پیڈیا قرار دیا ہے۔ 1929ء میں سول نافرمانی کی تحریک شروع ہوئی تو مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ کو نائب امیر شریعت بہار مولانا محمد سجاد کے ساتھ عملی طور پر کام کرنے کا موقع ملا، محلہ بلی ماران کی تاریک گلی میں ادارہ حربیہ‘‘ کے کاموں کی انجام دہی کے لیے جب مولانا محمد سجادؒ مقیم ہوئے تو مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ جو پہلے ہی سے مولانا کے علم و فکر کے مداح اور قدرداں تھے، ان کے دست و باز و؛ بلکہ نفس ناطقہ بن کر سامنے آئے، مولانا سجاد نے انہیں ادارہ حربیہ کے رضا کار ان کا کمانڈر بنا رکھا تھا، ان کے ذمہ گھوم گھوم کر اس تحریک کا جائزہ لینا اور اس کی کامیابی کے لئے جدو جہد کرنی تھی، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ؒنے اس تحریک کو کامیاب کرنے کے لئے مولا نا سجادؒ کی ہدایت کے مطابق دورے کئے، جس کے بڑے دور رس اثرات ملک پر پڑے اور آزادی کی طرف تیزی سے قدم بڑھتا چلا گیا، اس موقع سے تحریک کے کئی شرکاء بشمول مولانا محمد میاں صاحبؒ گرفتار ہوئے، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، مولانا محمد سجاد کی طے کردہ حکمت عملی کی وجہ سے گرفتاری سے بچتے رہے؛ لیکن بالآخر کچھ دنوں کے لئے انہیں بھی جیل جانا پڑا، اس کے بعد جمعیت علماء کی جانب سے جو بھی تحریک چلائی گئی مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ، مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ کے ساتھ دست بازو بن کر کام کرتے رہے، بہار میں امارت شرعیہ نے جمعیت علماء ہند کی تحریکات کو آگے بڑھانے کا کام کیا کیوں کہ بہار کی حد تک امارت اور جمعیت کے کاموں میں تفریق نہیں تھی، ایک زمانہ میں حضرت مولانا عبد الصمد رحمانی (م10 ربیع الثانی1392 ھ=14 مئی1973ئ) امارت شرعیہ کے نائب امیر شریعت بھی تھے اور جمعیت علماء  بہار کے صدر بھی، اس سے قبل مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد جمعیت علماء بہار اور مرکزی جمعیت کے ناظم اور امارت کے نائب امیر شریعت کی حیثیت سے کام کرتے رہے تھے۔ 
ملک میں شاردا ایکٹ کے خلاف تحریک چلی، مدح صحابہ کے لئے ایجی ٹیشن ہوا، مجلس تحفظ ناموس شریعت قائم ہوئی، آزاد ہند کا دستور اساسی بنایا گیا، سیاسی انتخابات میں شرکت کی تجویز پاس ہوئی، چھپرہ بہار میں جمعیت علماء کی سیاسی کانفرنس ہوئی، یوم فلسطین منایا گیا، نظارت اور امارت شرعیہ کا مسودہ تیار ہوا، واردھا تعلیمی اسکیم کا تجزیہ کیا گیا، ہندور پورٹ کے بائیکاٹ کا فیصلہ ہوا، سب میں فکر، قلم اور بڑی حد تک قیادت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد ؒکی تھی؛ لیکن ان تحریکات کو کامیاب کرنے میں ہر سطح پر جمعیت علماء اور امارت شرعیہ بہار کے ارکان خصوصاً مجاہد ملت حضرت مولانا سیوہاروی کی عملی قوت کا بڑا دخل تھا، تاآنکہ مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد رحمۃ اللہ علیہ کا17 شوال المکرم 1359ھ =18 نومبر1940ء کو انتقال ہو گیا۔ رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ 
بانی امارت شرعیہ کے انتقال کے بعد بھی مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ؒکا تعلق امارت شرعیہ اور بانی امارت شرعیہ سے باقی رہا، چنانچہ جب حضرت مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانیؒ نے مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد ؒکے مقالہ حکومت الٰہی کو مولانا کے انتقال کے بعد 1941ء میں شائع کرنا چاہا تو مجاہد ملت نے بے پناہ مشغولیت کے باوجود اس کتاب کے لئے وقیع مقدمہ لکھا، اس مقدمہ میں انہوں نے اس مقالہ کی خصوصیات اور مندرجات پر تفصیلی گفتگو کی، مجاہد ملت کو مولانامحمد سجاد سے جو تعلق خاطر تھا اور مولانا کی صلاحیت کے وہ جس قدر معترف تھے، اس کا اظہار انہوں نے اس مقدمہ میں برجستہ اور برملا کیا ہے۔ لکھتے ہیں: 
’’اسی مقدس جماعت میں ایک زبر دست عالم ہم فکر، مدبر اور قانون شریعت اور قانون سیاست کی اس جامع ہستی کو دیکھتے ہیں، جو قوت گویائی میں اگر چہ’’ وَاحلُل عُقدَۃً مِّن لِّسَانِی‘‘ کا منظر پیش کرتی ہے، لیکن قوت و فکر و عمل میں بسطتہ فی العلم کا پیکر نظر آتی ہے۔ مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد (نائب امیر شریعت صوبہ بہار) ہندوستان کے ان چیدہ علماء متبحرین میں سے تھے، جو ہندوستان کی مشترک سیاسیات میں حصہ دار ہونے کے باوجود ’’حکومت الٰہیہ‘‘کے اس نصب العین کو کبھی فراموش نہیں کرتے تھے جو ان کی جدو جہد کا حقیقی مرکز ومحور تھا (حکومت الٰہی طبع ثانی) مجاہد ملت نے اس کتاب پر مقدمہ لکھنے کو اپنی سعادت قرار دیا ہے اور اس کا اختتام ان جملوں پر کیا ہے۔ ’’ہم کو یقین ہے کہ تمام اسلامی مساعی حضرت مولانا کی روح کی شادمانی اور طمانیت کا باعث ہوں گی اور بلاشبہ مولانا کے یہ تمہیدی کلمات کو آغاز کار کے طور پر ہمیشہ’’سعی مشکور سمجھا جائے گا‘‘۔(ص32) 
امارت شرعیہ کے دو امراء شریعت کے انتخاب کے موقع سے سید الملت مولانا سید محمد میاںؒ اور سحبان الہند مولانا احمد سعید دہلوی بطور مشاہد شریک ہوئے تھے، چوتھے امیر شریعت سید شاہ مولانا منت اللہ رحمانی ؒکے انتخاب کے موقع سے 24 مارچ 1957ء کو مرکزی جمعیت سے مشاہد کے طور پر مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی جو اس وقت جمعیت علماء  ہند کے ناظم اعلیٰ تھے، تشریف لائے، اس موقع سے نائب امیر شریعت مولانا عبد الصمد رحمانیؒ نے جو امیر شریعت ثالث کے وصال کے بعد (مثل امیر شریعت کام کر رہے تھے) طریقہ کار کی وضاحت حضرت مولانا ریاض احمد صاحب (م1382 ھ =1962ئ) صدر مجلس کی اجازت سے سات سو (700)مدعوئین کے سامنے کی اور ان سے گذارش کیا کہ آپ حضرات اس عظیم منصب کے لئے نام پیش کریں؛ چنانچہ چار نام آئے نائب امیر شریعت مولانا عبد الصمد رحمانی نے اپنا نام واپس لے لیا اور اسے خارج از بحث قرار دیا؛ بقیہ تین نام حضرت مولانا سید شاہ امان اللہ صاحب سجادہ نشیں خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف پٹنہ، مولاناسید شاہ منت اللہ رحمانی سجادہ نشیں خانقاہ رحمانی مونگیر اور حضرت مولانا سید نظام الدین صاحبؒ خانقاہ مجیبیہ کے رہ گئے، مولانا عبد الصمد رحمانی کی تجویز تھی کہ یہ سب نام ایسے پیش کئے گئے ہیں جن کا احترام صوبہ بہار کے ہر طبقہ میں ہے، اس لیے اس اجلاس میں ناموں کی وجہ ِترجیح پر بحث نہ کی جائے، اس پر پھر یہ سوال کھڑا ہوا کہ جن کے نام پیش کئے گئے ہیں؟ ان کے اوصاف بھی بیان کئے جائیں یا نہیں، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی شروع سے مجلس میں موجود تھے چنانچہ انہوں نے کہا: 
’’ان بزرگوں کے ناموں پر وجہ ترجیح کی حیثیت سے تو بحث نہ کی جائے، مگر محرک اور مؤید صاحب ایسا کر سکتے ہیں کہ اپنے پیش کردہ ناموں سے متعلق بغیر تقابل کے ان کے اوصاف حمیدہ اور اہمیت پر روشنی ڈالیں (ماخوذ: چوتھے امیر شریعت کے انتخاب کی مختصر کاروائی) 
مجاہد ملت کی اس تجویز کو سب نے پسند کیا ’’ چنانچہ مولانا مقبول احمد صدیقی اور مولانا عبد الرحمن صاحب ہر سنگھ پوری نے اپنے ذریعہ پیش کردہ ناموں کے سلسلے میں وضاحت فرمائی کہ وہ اس منصب کے لائق ہیں اور کسی نقطہ نگاہ سے ان کا انتخاب بہتر ہوگا ۔(امارت شرعیہ دینی جد و جہد کا روشن باب از مفتی ظفیر الدین مفتاحی) 
یہ تفصیل تاریخی طور پر دونوں بزرگوں کے تعلقات اور ہم آہنگی پر روشنی ڈالتی ہے اور ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ان حضرات کے درمیان ملی کاموں میں کس قدر توافق تھا، اور وہ دونوں کس قدر انہماک اور مستعدی کے ساتھ ملت کے کاموں کو انجام دیا کرتے تھے، 
حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کا وصال 1962ء میں ہوا اور کہنا چاہیے کہ’’ آں قدح بشکست و آں ساقی نہ ماند‘‘ یعنی وہ پیالہ ٹوٹ گیا اور پلانے والا نہ رہا، اس طرح وہ زمانہ گذر گیا اور وہ بات ہی ختم ہو گئی۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...