Powered By Blogger

ہفتہ, مارچ 02, 2024

خوف خدا- گناہوں سے روکنے کی شاہ کلید

خوف خدا- گناہوں سے روکنے کی شاہ کلید 
Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی 
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ 
============================
 انسان ، انسان ہی ہے فرشتہ نہیں ، اس سے خطا کا صدور ہوتا ہے ، شیطان معصیت کی طرف اس کی رہنمائی کرتا رہتا ہے، نفس امارہ اسے خواہشات دنیا کی لذتوں اور بازار کی چکا چوند کی طرف کھینچتا رہتا ہے ، اس کی فطرت میں خیر وشر کی قوت رکھی گئی ہے ، اسی لیے غلبہ کبھی فسق وفجور اور معصیت کا ہوجاتا ہے اور بندہ وہ کر گذرتا ہے ، جس سے اللہ رب العزت نے بچنے اور نہ کرنے کا حکم دیا ہے ، کبھی یہ معصیت اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ آدمی اس پر ڈھیٹ ہوجاتا ہے اور پوری ڈھٹائی کے ساتھ اللہ کی نا فرمانی کی دلدل میں پھنستا چلا جاتا ہے ، پھر اس کی آنکھ ، کان ،دل ودماغ پر گناہوں کثافت اس قدر چڑھ جاتی ہے کہ وہاں سے اس کی واپسی ممکن نہیں ہوتی اور جہنم اس کا مقدر بن جاتا ہے ۔
 معصیت کی اس فطرت اور گناہو ں کی لذت سے بچنے میں جو چیز سب سے زیاد مؤثر ہے وہ خوف خدا ہے، یہ ’’ماسٹر کی‘‘ اور شاہ کلید ہے ،یہ جب کسی کے دل میں پیدا ہوجائے تو اس کے دل کی دنیا بدل جاتی ہے ، اس کے سوچنے کا انداز بدلتا ہے اور اس کی معاشرت ، رکھ رکھاؤ ، بول چال ، اعمال وافعال میں ایسی تبدیلی آتی ہے کہ لوگ کھلی آنکھوں دیکھ کر محسوس کر لیتے ہیں کہ یہ اللہ سے ڈرنے والا انسان ہے، اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں بار بار ڈر نے کا حکم دیا ہے اور فرمایا کہ جو اللہ کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈر ا وہ دوجنت کا مستحق ہوگا، سورۃ اعراف ۵۴؍میں ہے کہ جو لوگ اللہ رب العزت سے ڈرتے ہیں، ان کے لیے ہدایت ورحمت ہے۔ سورۃ بینۃ :۸؍ میں ہے کہ اللہ رب العزت کی خوشنودی اس کو حاصل ہے اور وہ اللہ سے خوش ہے جو رب سے ڈرتا ہے، ڈر کی یہ صفت انسان کے اندر معرفت رب کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے ، اسی لیے اللہ رب العزت کا یہ بھی فرمان ہے کہ علم والے ہی اللہ سے ڈرتے ہیں۔ (سورۃ فاطر : ۲۸)
 اس لیے بندوں کو جنت کی طلب میں خوف خدا کے ساتھ زندگی گذارنی چاہیے تاکہ اس کی آخرت سنور جائے، اللہ رب العزت نے بندوں کو یہ بھی ہدایت دی کہ سنوکم ہنسو، روؤو زیادہ ، اس لیے کہ جو کچھ تم کرتے ہو اس کا یہی تقاضہ ہے۔حضرت امام احمد بن حنبل فرمایا کرتے تھے کہ خوف خدا نے مجھے کھانے پینے سے روک دیا ہے ، اس لیے مجھے اب اس کی خواہش نہیں ہوتی، قیامت کے دن جن سات آدمیوں کو عرش کے سایے میںجگہ ملے گی ، ان میں ایک وہ بھی ہوگا جو اللہ رب العزت کے عذاب اور بد اعمالی پر وعیدوں کو یاد کرکے دنیا میں رویا کرتا تھا، حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ دو آنکھیں ایسی ہیں جن کو دوزخ کی آگ نہیں چھوئے گی ، ایک اللہ کے خوف سے دیر رات رونے والی آنکھیں اور دوسری وہ جو سرحد کی نگہبانی کے لیے بیدار رہی ہو، حضرت عبد اللہ بن عمر وبن عاص کا قول ہے کہ مجھے ایک ہزار دینار صدقہ کرنے سے زیادہ پسندیدہ اللہ کے خوف سے ایک قطرہ آنسو کا بہنا ہے ، حضرت عوف بن عبد اللہ کہا کرتے تھے کہ مجھے یہ روایت پہونچی ہے کہ اللہ کے خوف سے نکلنے والا آنسو جسم کے جس حصے کو لگ جائے اس پر دوزخ کی آگ کو اللہ نے حرام کر دیا ہے ، ایک حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ فرماتے ہیں کہ میری عزت وجلال کی قسم میں اپنے بندے کو دو خوف میں مبتلا نہیں کر سکتا ، جو دنیا میں مجھ سے بے خوف رہے گا میں اسے آخرت میں ڈراؤں گا اورجو دنیا میں مجھ سے ڈرے گا اس کو آخرت میں امن وامان اور اطمینان دوں گا، اللہ رب العزت کا ارشاد ہے: تم ان کافروں سے مت ڈرو اور میرا خوف رکھو اگر تم مؤمن ہو (آل عمران : ۱۷۵) ایمان والوں کی علامت میں سے ایک اللہ کے خوف کو قرار دیا گیا (المومنون: ۵۷) اور حکم ہو امجھ ہی سے ڈرو۔ (البقرۃ: ۴۰) اور اتنا ڈرو جتنا اس سے ڈرنے کا حق ہے، (آل عمران: ۱۰۲) اور تم ڈرنے کی جس قدر استطاعت رکھتے ہو، اتنا ڈرو۔ ترمذی شریف میں ایک روایت ہے جس کو انہوں نے حسن قرار دیا ہے ، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ سے ڈر نا کسی خاص جگہ یا مکان سے متعلق نہیں ہے بلکہ جہاں بھی رہو اللہ سے ڈرتے رہو۔ دل کو آباد رکھنے کے لیے اللہ کا خوف ضروری ہے ، جس دل میں اللہ کا خوف نہ ہو وہ ویران اور بنجر زمین کی طرح ہے، اسی لیے حضرات ابنیاء کرام علیہم السلام اور صحابہ واولیاء عظام کثرت سے رویا کرتے تھے، حضرت آدم اورنوح علیہما السلام کے بارے میں حضرت حسن بصری کا قو ل ہے کہ وہ تین سو سال تک روتے رہے، حضرت داؤد ، حضرت یحیٰ کی گریہ زاری کا بھی یہی حال تھا، اس گریہ زاری کے اثرات ان کے رخسار اور زمین پر بھی پڑا کرتے تھے او رچہرے آنسوؤں کے مسلسل بہنے سے زخمی ہوجایا کرتے تھے، صحابہ کرام کے خوف خدا سے رونے کے واقعات کتابوں میں مرقوم ہیں خصوصا حضرات خلفاء راشدین اپنی تمام تر عظمت کے باوجود اللہ کے خوف سے اس قدر روتے تھے کہ اس کی نظیر ملنی مشکل ہے، بعض طبیبوں نے اولیاء کرام کو مشورہ دیا کہ آپ کی آنکھیں اچھی ہو سکتی ہیں، اگر آپ رونا چھوڑ دیں، انہوں نے اس مشورہ کو ماننے سے انکار کر دیا، اور فرمایا کہ اس آنکھ میں کوئی خیر نہیں جو نہ روئے، بعض بزرگوں کے بارے میں منقول ہے کہ خوف خدا سے روتے روتے ان کی بینائی چلی گئی ، اور بعضوں کی آنکھوں سے آنسو کے بجائے خون بہنے لگا ۔
 حضرت عائشہ ؓ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حال نقل کیا ہے کہ آپ راتوں کو بہت گریہ زاری کرتے تھے، ایک رات اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے انہوں نے کہا کہ جب آپ کی اگلی اور پچھلی لغزشوں کو اللہ نے معاف کر دیا ہے، پھر آپ اس قدر کیوں روتے ہیں، ارشاد فرمایا کہ کیا میں اللہ کا شکر گذار بندہ نہ بنوں ۔
 ہر رونا خوف خدا سے نہیں ہوتا کبھی خوشی میں بھی آنسو نکل آتے ہیں، اور کبھی حزن وملال ، درد وغم ، رنج والم کی وجہ سے بھی رونا آتا ہے ، یہ فطری چیز ہے، ان رونے میں سب سے بہترین رونا اللہ کے خوف سے رونا ہے ، البتہ یہ رونا دکھلاوے اورلوگوں کے سامنے رقیق القلب کے اظہار کے لیے نہ ہو، کیوں کہ دکھاوے کے لیے رونا اللہ سے قربت کے بجائے بُعد اور دوری پیدا کرتا ہے ۔
 اللہ کے خوف سے رونا اس لیے بھی ضروری ہے کہ کوئی بھی یقین کے ساتھ اپنی مغفرت اور دخول جنت کے بارے میں مطمئن نہیں ہو سکتا کیوں کہ اس پر مختلف حالتیں طاری ہوتی ہیں اوربعض موقعوں سے وہ معصیت سے خود کو بچا نہیں پاتا، اس لیے بندوں کو اللہ کی پکڑ سے ڈرنا چاہیے ، اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ اللہ کی پکڑ سے کوئی بے فکر نہیں ہوتا الا یہ کہ اس کی شامت ہی آگئی ہو ، گناہوں میں ملوث ہونے کے باوجود اگر کسی کو دنیاوی عیش وآرام حاصل ہے اور مرفہ حال ہے تو اس کو خدا کی قربت سمجھنے کی غلطی نہیں کرنی چاہیے، کیوں کہ اللہ رب العزت کا طریقہ ڈھیل دینے کا بھی ہے ، بالآخر اللہ کی پکڑ آتی ہے اور یقینا اللہ کی پکڑ بڑی سخت ہے، اس لیے سوء خاتمہ سے ڈرنا چاہیے، گناہوں پر جری نہیں ہونا چاہیے، عمل میں اخلاص پیدا کرنا چاہیے اور عمل نفاق سے بالکلیہ بچنا چاہیے کہ یہ سوء خاتمہ کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے ۔ خوف انسان پر مسلط ہوتا ہی رہتا ہے، وہ رات کی تاریکی میں اپنے سایے سے بھی ڈرجاتا ہے ، عورتیں تھوڑی تھوڑی بات پر رونا شروع کر دیتی ہیں، یہاں خوف سے مراد ایسا خوف ہے جو انسان کو گناہوں سے روک دے اور اللہ ورسول کی اطاعت کی طرف راغب کر دے ۔
 اللہ کا خوف دل میں پیدا ہو اس کے لیے ضروری ہے کہ آدمی ہر کام اخلاص کے ساتھ کرے ، اللہ کی رضا کے استحضار کے ساتھ کرے، غور وفکر اور سمجھ کر قرآن کریم کی تلاوت کیا کرے، اللہ کے نیک بندوں کی سیرت وسوانح کا مطالعہ کیا کرے اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ ایمان والے تو ایسے ہوتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کا ذکر آتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں۔ (الانفال : ۲)  گناہوں کے ارتکاب سے بچناچاہیے کیوں کہ گناہ گار کے دل سے اللہ کا خوف نکل جاتا ہے ، ان ظالموں اور فاسقوں کے احوال کو پڑھ کر عبرت پکڑنا جن کو اللہ نے ہلاک کر دیا اور وہ شہروں میں جائے پناہ تلاشتے ہی رہے، علماء کے با اثر بیان سننا کہ یہ بھی ’’از دل خیزد بردل ریزد‘‘ کا مصداق بن کر دل کی دنیا بدلنے میں کیمیا اثر ہے، اور سب سے آخری ترکیب یہ ہے کہ رات کی تاریکی اور تنہائی میں گڑگڑا کر اللہ سے اس کی مغفرت اور معرفت طلب کی جائے ، اس لیے کہ ساری توفیق اللہ کی جانب سے ہوا کرتی ہے ۔ جگر مراد آبادی نے کہا ہے : 
اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس بات نہیں 
 فیضان محبت عام سہی عرفان محبت عام نہیں

شعبہ اردو نیوکالج، بزمِ اسوسی ایشن کے زیر اہتمام یوم اردو و مشاعرہ کا انعقاد

شعبہ اردو نیوکالج، بزمِ اسوسی ایشن کے زیر اہتمام یوم اردو  و  مشاعرہ کا انعقاد
 اردو کی بقا اور تحفظ کے لیے ہم سب کو متحد ہو کر کام کرنا ہوگا: مقررین کا اظہارخیال 
Urduduniyanews72 

چینئی(ساجدندوی) شعبہئ اردو نیوکالج کے طلباء کی انجمن بزم اردو اسوسی ایشن کے زیر اہتمام بتاریخ 29/ فروری 2024کو یوم اردو  و  مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا جس کا آغاز بی اے اردو کے طالب علم محمد فیضان کی تلاوت کلام پاک سے ہوا اورمحمد نفیس نے نعت کا نذرانہ پیش کیا۔صدر شعبہ اردو ڈاکٹر سیدسجاد عنایت نے استقبالیہ کلمات پیش فرمایا جبکہ پروگرام کی نظامت شعبہ اردو کے اسسٹنٹ پروفیسر ساجد حسین ندوی نے کی۔کالج کے پرنسپل ڈاکٹر ایم اسرار شریف نے اپنے افتتاحیہ کلمات میں کہا کہ اردو زبان دنیا کی دس بڑی زبانوں میں سے ایک ہے اور پوری دنیا میں اس زبان کو پڑھنے، لکھنے اوربولنے والوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ دیکھنے کومل رہاہے۔ مہمان خصوصی اور مسلم ایجوکیشنل اسوسی ایشن آف سدن انڈیا(میاسی) کے سکریٹر جناب الیاس سیٹھ صاحب نے اپنے خطاب میں کہا کہ شعبہ اردو نیو کالج کا قیام1951میں ہوا اور اپنے قیام کے اول روز یہ سی ہی یہ شعبہ فعال اور متحرک ہے دن بدن اردو تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کی تعداد میں اضافہ دیکھنے کو مل رہاہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میاسی نے اردو کو گھر گھر پہونچانے کا عزم کیا ہے اوراس عزم کو پورا کرنے کے لیے جنوری 2024میں فری آن لائن اردو کلاسیس کاآغاز کیا گیا جس میں فی الحال 50 سے زائد طلباء و طالبات زیر تعلیم ہیں جس میں ہرعمر کے خواتین وحضرات شامل ہیں۔میاسی اردو اکیڈمی کے چیئر مین جناب اے محمد اشرف صاحب نے سامعین کو مخاطب کرکے کہا کہ اردو سب سے پیاری اور میٹھی زبان ہے، اس زبان کے ساتھ کسی اور زبان کی ملاوٹ غیر مناسب ہے۔ آج یہ رواج عام ہوتا جارہاہے کہ اردو الفاظ کے ساتھ یہ انگلش الفاظ کا استعمال بڑے زور وشور کے ساتھ کیا جارہاہے جو بالکل بھی مناسب نہیں ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ جب اردو بولی جائے تو اس میں خالص اردو الفاظ کا ہی استعمال ہو کسی اور زبان کے الفاظ کواس میں شامل نہ کیا جائے۔ میاسی اردو اکیڈمی کے کنوینر جناب محمد روح اللہ صاحب نے اپنے صدارتی کلمات میں کہا کہ زبانیں کوئی بھی ہو ہر زبان کو سیکھنا چاہیے، زبان کی تعلیم کا مقصد نوکری حاصل کرنا نہیں، بلکہ اپنے اخلاق کو سنوارنا اور قوم کی خدمت کرنا ہے۔ جنوب ہند نے ہمیشہ اردو کی خدمت کی ہے اور اردو کوآگے بڑھانے میں اہم رول ادا کیا  ہے۔ اردو کاسب سے پہلا صاحب دیوان شاعر قلی قطب شاہ کا تعلق بھی جنوب ہند سے تھا۔ڈاکٹر حیات افتخار صاحب سابق صدر شعبہ اردو، قائد ملت کالج، چینئی نے اردو زبان کی اہمیت وافادیت پر ایک طویل خطبہ پیش کیا جس میں انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں بولی زبان صرف صرف اردو ہی ہے، یہی زبان بولی اور سمجھی جاتی ہے، جسے لوگ جانے انجانے میں ہندی کا نام دے دیتے ہیں حالانکہ ہندی جو لکھی جاتی ہے وہ بولنے میں کبھی استعمال نہیں ہوتی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر مشترکہ طور پر دونوں زبانوں کا کوئی نام ہوسکتا ہے تو وہ ہندوستانی زبان ہے۔ خطابات کے بعد بابائے اردو تمل ناڈو جناب علیم صبا نویدی اور روزنامہ مسلمان کے سابق نائب مدیر عثمان غنی جنہوں نے بے لوث اردو کی خدمت کی تھی ان دونوں احباب کا حال ہی انتقال ہوا، ناظم مشاعرہ ساجد حسین ندوی نے ا ن دونوں کی خدمات کا مختصر تذکرہ کرتے ہوئے ان کو خراج عقیدت پیش کیا اورڈاکٹر سید سجادعنایت دونوں حق میں مغرفت کی دعائیں۔
اس کے بعد مشاعرہ کا آغاز ہوا جس کی صدارت جناب محمد روح اللہ صاحب نے کی۔شعراء نے خوبصورت لب ولہجہ میں اپنے غزلیہ اشعار سے سامعین کو محظوظ کیا اور خوب داد حاصل کئے۔شعرا میں شاہد مدراسی،ماہر مدراسی، سراج شانہ، ایوب مدراسی، صداء لآمری کے علاوہ نیوکالج کے طلبا میں سے طاہر بجلی اور فاضل شریف نے بہترین غزلیں پیش کی۔اس یوم اردو و مشاعرہ میں شہر کے عمائدین، ادباء و شعراء، وائس پرنسپل پروفیسر محمد اکمل و ڈاکٹر عبداللہ محبوب، میاسی کے اعزازی ایس ایم سلیم، اسسٹنٹ سکریٹری منیر الدین شیریف، ایزیکٹیو ڈائریکٹر اشتیاق احمد کے علاوہ کالج کے اساتذہ اور طلباء بڑی تعداد میں موجود تھے۔ پروگرام کو کامیاب بنانے میں شعبہ کے اساتذہ ڈاکٹر غیاث احمد، ڈاکٹر طیب خرادی، پروفیسر سید شبیر حسین، پروفیسر سید باقر عباس، پروفیسر ساجد حسین اور طلباء نے بھرپور تعاون کیا۔اخیر شعبہ اردو کے ڈیپارٹمنٹ سکریٹری محمد شعیب نے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور پروگرام اختتام پذیر ہوا۔

چک غلام الدین ہائی اسکول(ویشالی) میں انتخاب بیداری مہم کے تحت ڈرائینگ مقابلہ کا انعقاد ۔

چک غلام الدین ہائی اسکول(ویشالی) میں انتخاب بیداری مہم کے تحت ڈرائینگ مقابلہ کا انعقاد ۔
Urduduniyanews72 
چک غلام الدین ہائی اسکول 02/ مارچ 2024 (پریس ریلیز:محمد ضیاء العظیم )   "چک غلام الدین ہائی اسکول" انتخاب بیداری مہم کی مناسبت سے ایک ڈرائنگ مقابلہ (Drawing Competition) کا انعقاد کیا گیا۔اس پروگرام میں شریک تمام طلبہ وطالبات  نے بڑی دلچسپی کے ساتھ ، انتخاب سے متعلق، نقاشی ،پینٹنگ،آرٹ اینڈ کرافٹ وغیرہ میں حصہ لیا ۔ ۔ پروگرام میں طلبہ وطالبات کو الگ الگ گروپ میں تقسیم کئے گئے تھے، سبھوں نے ووٹ سے متعلق نقاشی، پینٹنگ وغیرہ بناکر ووٹ دینے سے متعلق مثبت پیغام دیا ۔
اس موقع پر طلبہ وطالبات سے خطاب کرتے ہوئے محترم ابھے کمار استاذ چک غلام الدین ہائی اسکول (فزیکل ایجوکیشن) نے انتخاب کی اہمیت و افادیت بتاتے ہوئے کہا کہ ہم ایک جمہوری ملک میں رہتے ہیں جہاں عوام اپنے ووٹ کے ذریعہ حکومت کا انتخاب کرتی ہے، ووٹ دینا ہمارا بنیادی حق ہے، ووٹ کے ذریعہ ہم ہندوستانی شہری ہونے کا ثبوت دیتے ہیں ۔ آپکا ووٹ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ووٹ جمہوری سماج ومعاشرے میں ایک طاقتور اورمثبت ہتھیار ہے، ووٹ کے ذریعےآپ اپنی حکومت پراپنی ملکیت کا احساس پیدا کر سکتے ہیں ووٹنگ ہمیں ملک، حلقے یا امیدوارکے بارے میں اپنے خیالات وتاثرات کے اظہار کا بہترین ذریعہ  ہے، آپ اپنے پسندیدہ امیدوار کو ووٹ دے کر ایوان میں اقتدار پیدا کرتے ہیں ۔
پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں جن لوگوں نے اپنا تعاون دیا ان کی فہرست اس طرح ہے، ستیش کمار، ببیتا کماری، انورادھا کماری، آبھا کماری، دیپک کمار پنڈت، محمد ضیاء العظیم ، کے نام مذکور ہیں ۔

منگل, فروری 27, 2024

سلام ورحمت قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن (انڈیا) کی روداداپنی

محترم ناظرین وقارئین۔!
اردودنیانیوز۷۲ 
                          سلام ورحمت
     قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن (انڈیا) کی روداداپنی ترتیب کےآخری مرحلہ میں ہے۔مصروفیات کےسبب کسی تخلیق پر تبصرہ شائع نہ ہوسکےتومعذوری سمجھ کرمعاف کیجئے گا۔امید کی جاتی ہےکہ آپ اردوتحریک سے نہ صرف منسلک رہیں گے بلکہ اپنے دوست واحباب کو بھی تحریک سے جوڑیں گے۔آپ کا اجتماعی انسلاک تحریک کی طاقت ہے۔اس تحریک نے گزشتہ آٹھ سالوں میں اردو زبان وادب۔ عصر ی علوم اوردینیات میں جو بھی عملی خدمات انجام دی ہیں،اس کی کسی قدر تفصیل آپ روداد میں پڑھ سکیں گے۔اگرآپ سمجھیں گے کہ ملک وملت کےلیےکچھ کام ہو رہا ہے جسےاور بڑےپیمانےپرہوناچاہىئےتوآپ ہماری حوصلہ افزائی فرمائیں گے۔ ہمیں اپنے قیمتی مشوروں سےنوازیں گے۔یہ آپ کا اپنا ادارہ  ہےاورحکومتِ اترپردیش کے شعبہء تعلیم سےمنظورشدہ ہے۔ہمیں ایک بڑی اجتماعی طاقت کے ساتھ اسےآگےبڑھاناہے۔آپ کاہرممکن تعاون ضروری ہے۔جزاک ﷲ فی الدارین۔ شادوآبادرہیں۔ آمین۔۔۔۔۔۔۔ 

                        انس مسرورانصاری                    قومی اردوتحریک فاؤنڈیشن (انڈیا)رجسٹرڈ۔
رابطہ/9453347784/

ہفتہ, فروری 24, 2024

تاب ِسخن (تعارف تبصرہ)

تاب ِسخن (تعارف تبصرہ)
Urduduniyanews72 
     ✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 

غالب ؔ نے کہا تھا ''کچھ شاعری ذریعہ عزت نہیں مجھے''، حالاں کہ غالب کی زندگی سے شاعری کو نکال دیا جائے تو گوشت وپوست کے ایک انسان کے سوا کچھ نہیں بچتا، البتہ یہ بات علماء پر صادق آتی ہے، طبقہ علماء میں بڑے بڑے شعراء پیدا ہوئے، لیکن انہوں نے شاعری کو کبھی بھی ذریعہ عزت نہیں بنایا، ماضی کو چھوڑ یے حال میں ہی مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کو ہی دیکھ لیجئے، کتنی اچھی شاعری ہے، لیکن ان کی شہرت وعزت قطعاً اس کی ممنون نہیں ہے، شعر وادب سے علماء کی اس بے اعتنائی کی وجہ سے ان کے کلام ادھر اُدھر منتشر ہوتے رہے، خود انہیں کبھی جمع کرنے، بلکہ سجو کر رکھنے کا بھی خیال نہیں آیا، جس کی وجہ سے علماء طبقہ کے بڑے بڑے شعراء، شعر وادب کے حوالہ سے گوشہ گم نامی میں پڑے رہے اور ان کا شعری سرمایہ زمانہ کید ست برد سے محفوظ نہیں رہ سکا، بلکہ بڑی حد تک ضائع ہو گیا، میں ایسے کئی علماء کو جانتا ہوں، لیکن یہاں فہرست سازی کا نہ موقع ہے اور نہ ہی ضرورت۔

''تاب سخن ''کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے، یہ مولانا سید مسرور احمد مسرور (ولادت 1950وفات 21اگست 2022) کا مجموعہ کلام ہے۔وہ دارالعلوم سبیل السلام حیدر آباد سے 1986میں جڑے اور زندگی کے کم وبیش پینتیس سال یہیں گذار دیے، وہ اچھے کاتب تھے اور کتابت انہوں نے دار العلوم دیو بند سے سیکھی تھی، اس لیے زیادہ وقت کتابت اور بچوں کو خوش خطی سکھانے میں گذرا،حیدر آباد جانے سےقبل ایک زمانہ تک امارت شرعیہ کے ہفت روزہ نقیب کی کتابت  وہی کیا کرتے تھے، امیر شریعت سادس مولانا سید نظام الدین سے وطنی قربت بھی تھی، مولانا سید مسرور کے والد چھپرہ سے نقل مکانی کرکے کوٹھی ضلع گیا منتقل ہو گیے تھے، جہاں  انکی سسرال تھی، امیر شریعت سادس کے گاؤں گھوری گھاٹ سے یہ بہت قریب ہے، یہیں پلے بڑھے، مدرسہ عبیدیہ کوٹھی اور مدرسہ قاسمیہ گیا سے تعلیم وتربیت حاصل کی، دیو بند کا رخ کیا، وہاں سے کتابتِ  کا فن سیکھا اور پوری زندگی اسی کام میں لگا دیا۔
 شعر وادب کا ذوق اکتسابی نہیں، وہبی تھا، طبیعت موزوں تھی، مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی کی، جن میں نعت، تہنیت، منقبت، سپاس نامے، الوداعی نظمیں، سہرے، نغمہائے شادی، خراج عقیدت اور متفر ق چیزیں شامل ہیں، لیکن ان کو مرتب کرنے، جمع کرنے اور با قاعدہ محفوظ رکھنے کا خیال ان کے دل میں کبھی نہیں آیا، اس لیے ان کی زندگی میں مولانا محمد سراج الہدیٰ ندوی ازہری کے بار بار کے تقاضے کے باوجود وہ اس پر آمادہ نہیں ہوئے اور بالآخر موت نے انہیں آلیا۔
ان کے گذرنے کے بعد مولانا سراج الہدیٰ ندوی ازہری جو میرے برادر زادہ،داماد اور خانوادہ ہدی کے گل سرسبد ہیں، نے ان کے وارثین سے کسی کسی طرح ان کے اشعار کو حاصل کیا، جو کام ان کی زندگی میں آسان تھا وہ ان کے بعد مشکل ہو گیا اور اس کے لیے مولانا  ازہری کو جو جگر کادی کرنی پڑی، اس کا اندازہ کچھ انہیں لوگوں کو ہوگا جو اس قسم کے کام سے دلچسپی رکھتے ہوں اور کبھی اس قسم کی خارزار وادی سے ان کا گذرہوا ہو۔
مولانا محمد سراج الہدیٰ ندوی ازہری اگر صرف ان کے اشعار جمع کر دیتے تو یہ بھی بہت تھا، لیکن ا نہوں نے ایک غیر ضروری شرط اپنے اوپر لگائی کہ اسے تاریخ کے اعتبار سے مرتب کرنا ہے، یعنی جس تاریخ کو ان اشعار کا مولانا پر نزول ہوا، اس کی رعایت ترتیب میں کریں گے، اس نے اس کام کو ان کے لیے مزید دشوار کر دیا، بلکہ کہنا چاہیے کہ یہ تکلیف ما لا یطاق کے قبیل سے تھا، جو ان کی محنت میں مزید اضافے کا باعث ہو گیا، بہر کیف انہوں نے اپنی بے پناہ مشغولیات جن میں درس وتدریس، وعظ وخطابت، بچوں کی پرورش وپرداخت،متعلقین اور معتقدین کے تقاضوں کی تکمیل کے ساتھ اس کام کو بھی پایہ تکمیل تک پہنچا دیا۔
مولانا محمد سراج الہدیٰ کی نظر حدیث وفقہ، تفسیر پر گہری ہے، ان کی تفسیر دو جلدوں میں شائع بھی ہو چکی ہے، اس کے ساتھ ا ن کا ادبی ذوق بھی بالیدہ ہے، انہوں نے اس سے قبل حضرت مولانا سید محمد شمس الحق صاحب ؒ سابق  شیخ الحدیث جامعہ رحمانی مونگیر کے اشعار بھی ”کلام شمس“ کے نام سے جمع کیا ہے، اس میں بھی ان کی محنت لائق ستائش ہے، لیکن اب تک یہ کتاب شائع نہیں ہو سکی ہے، مولویوں کے پاس اتنی اضافی رقم نہیں ہوتی جو کتاب کی طباعت کی متحمل ہو سکے اور غیرت وخود داری کا احساس کسی کے سامنے دست تعاون دراز کرنے سے مانع ہوتا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ اب تک ''کلام شمس'' طبع نہیں ہوسکی۔
مولانا مرحوم کی شاعری اچھی ہے، لیکن وہ کسی نہ کسی موقع سے لکھی گئی ہے، جس میں اپنی خواہش کم اور دوسروں کی خواہش کا احترام زیادہ ہے، اشعار میں ندرت اور فکر میں رفعت کے باوجود تہنیت، سہرے، خراج عقیدت وغیرہ کے بعض اشعار ایک دوسرے سے تو ارد کا مظہر ہیں، میں جانتا ہوں ایک جیسے خیالات اور مصرعے جب دو شاعروں کے یہاں مماثل ہو جاتے ہیں تو توارد کہلاتا ہے، مولانا کے یہاں جو کچھ ہے اس کے لیے صحیح لفظ تکرار ہے، لیکن تکرار کہنے میں سوئادب معلوم ہوتا ہے، اس لیے اسے توارد سے تعبیر کیا ہے، کوئی فکر اگر شاعر پر غالب آگئی، اور وہ بار بار اس کا اعادہ کرنے لگے تو اسے توارد کہنے میں حرج نہیں معلوم ہوتا، گوا دبی پنڈتوں کے یہاں یہ زیادہ صحیح نہیں سمجھاجاتا، توارد پر اگر اعتراض ہو تو آپ اسے احباب کے تقاضوں کی تکمیل بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ توارد کبھی بعض الفاظ کو الٹ پلٹ کر اور کبھی بعض مصرعوں کو بڑھا کر بھی سامنے آتا ہے، اصل میں تہنیت، سہرے، خراج عقیدت میں ”مضامین نو کے انبار“ کا موقع نہیں ہوتا، اس کی لفظیات بھی محدود ہوتی ہیں، اور خیالات میں وسعت کی بھی کمی ہوتی ہے، لن ترانی اور ایران توران کی ہانکنے کا مولانا کا مزاج نہیں تھا، اس لیے ان اصناف میں عام طور پر یکسانیت کا احساس ہوتا ہے، اور صحیح  اور سچی بات یہی ہے کہ وہ ان اصناف میں '' مضامین نو'' کا انبار نہیں لگا سکے ہیں، اور ہر آدمی یہ کام کر بھی نہیں سکتا، اب میرانیس پیدا نہیں ہوں گے جو مضامین نو کے انبار لگا تے تھے، اور خرمن کے خوشہ چینوں کو خبر کرنے کی تلقین بھی کیا کرتے تھے۔
 مولانا محمد سراج الہدیٰ ندوی ازہری ہم سب کی جانب سے شکر یہ کے مستحق ہیں، انہوں نے مولاناسید مسرور احمد مسرور کے کلام کو مرتب کرکے ان کو ضائع ہونے سے بچالیا، اللہ تعالیٰ سے اس مجموعہ کے قبول عام وتام،مولانا مرحوم کی مغفرت اورمولانا سراج الہدیٰ ندوی ازہری کے علمی کاموں میں وسعت اور صحت وعافیت کے ساتھ درازئ عمر کی دعا پر اپنی بات ختم کرتا ہوں۔

جمعہ, فروری 23, 2024

وہ ایک رات _____

وہ ایک رات _____
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ 
شعبان کا مہینہ اسلامی تاریخ میں خصوصی اہمیت کا حامل ہے ، اس لیے کہ اسی ماہ میں حضرت حسین ؓ کی ولادت ہوئی ، اسی ماہ میں حضرت حفصہ ؓ سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح ہوا ، مسجد ضرار کی حیثیت اسی ماہ میں واضح ہوئی اور اسے نذر آتش کیا گیا ، اسی مہینہ میں تحویل قبلہ کا واقعہ پیش آیا اور اسی مہینہ میں مسیلمہ کذاب کے وجود سے دنیا پاک ہوئی ؛ لیکن اسلام میں اس کی اہمیت ایک اہم رات کی وجہ سے ہے ، جسے شب براء ت کہتے ہیں، یعنی جہنم سے گلو خلاصی کی رات ، اس رات کو اللہ کی خاص رحمت نازل ہوتی ہے اور سارے ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرنے کے لیے آواز لگائی جاتی ہے ، خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اس آواز کے ساتھ اپنی ضرورتیں بارگاہ ایزدی میں پیش کرکے دامن مراد حصولیابیوں سے بھر لیتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ اگر تو نے ہمارا شمار بد بختوں میں کر لیا ہے تو اسے مٹادے اور ہمیں نیک بختوں میں لکھ لے اور اگر ہمیں نیک بختوں میں لکھ رکھا ہے تو اسے بر قرار رکھ؛ کیونکہ تیرے ہی پاس لوح محفوظ ہے، اس رات رحمت کی باد بہاری چلتی ہے ، مغفرت کے پروانے تقسیم ہوتے ہیں اور جہنم سے گلو خلاصی عمل میں آتی ہے ، گویا پورے سال بندہ رحمت خدا وندی کی تلاش میں رہتا ہے ، لیکن اس رات میں رحمت خدا وندی بندوں کو تلاش کرتی ہے ، اور ضرورت مندوں کی ضروتیں پوری کی جاتی ہیں، اس فضیلت والی رات میں بھی بعض محروم القسمت اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے محروم رہ جاتے ہیں، مختلف احادیث میں ان کا ذکر آیا ہے  اس فہرست میں کینہ رکھنے والا ، مشرک ، نا حق خون کرنے والا ، قطع تعلق کرنے والا ، ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے والا ، غیب کی باتیں بتانے والا ، کاہن ، نجومی ، ماں باپ کی نا فرمانی کرنے والا ، شراب کا عادی، ظلماً ٹیکس وصولنے والا اور باجہ بجانے والا، سود کھانے والا ، چغل خور، زانی ، گستاخ رسول، شامل ہے،یہ فہرست مکمل نہیں ہے ، تحقیق سے اور بھی کچھ لوگوں کا اضافہ ہو سکتا ہے، ہر آدمی کو اس پر غور کرنا چاہیے کہ وہ کسی ایسے اعمال بد کا شکار تو نہیں ہے ، جس کی وجہ سے اس رات میں بخشش سے محرومی اس کا مقدر ہے ۔ 
 اس رات کے فضائل بے شمار ہیں، احادیث میں روزے رکھنے اور نمازیں پڑھنے کا بھی ذکر ہے ، لیکن اس کی خاص رکعات اور پڑھنے کا کوئی خاص طریقہ مذکور نہیں ہے ، اس لیے یہ کہنا کہ اس رات میں سو رکعت نفل پڑھی جائے اور ہر رکعت میں دس دس بار قل ھو اللہ پڑھیں، صحیح نہیں ، اس نماز کو ۴۴۸ھ میں بیت المقدس میں عام لوگوں کی قربت کے حصول کے لیے بعض ائمہ مساجد نے شروع کرایا تھا ، دھیرے دھیرے اس نے جڑ پکڑ لیا ، اس نماز کے ساتھ قوم براقعہ نے چراغاں کا اضافہ کیا اس کے علاوہ یہ اور بہت سارے منکرات پر مبنی تھا ، اس لیے علماء نے اسے بدعت سے تعبیر کیا ہے ، عرب میں اس بدعات کو ختم کرنے کے لیے جد وجہد کی گئی اور بالآخر آٹھویں صدی ہجری میں عربوں کے یہاں اس بدعت کا خاتمہ ہو گیا ۔ لیکن ہندوستان میں چراغاں، رت جگے، اجتماعی قرآن خوانی، ایصال ثواب کی مجلسوں کا قیام ، حلوہ بنانا، بانٹنا اور کھانا آج بھی رائج ہے ، چراغوں کے ساتھ پٹاخوں کی بھی کثرت ہوتی ہے اور بالکل غیر مسلموں کی دیوالی کا سا منظر ہوتا ہے ، ظاہر ہے اس عمل کا کوئی تعلق شریعت سے نہیں ہے اور اگر کسی قوم کی مشابہت اختیار کر نے کی ممانعت کو سامنے رکھیں تو یہ ممنوعات کے ذیل میں ہی آئے گا ؛ اس لیے ہمیں اس سے بچنا چاہیے یہ شرعی تقاضوں کے زیادہ قریب ہے ۔
 اس لیے اس رات میں عبادت کا اہتمام کرنا اور پندرہویں شعبان کا روزہ رکھنا تو ثابت ہے ،قبر ستان کی حاضری سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا، اس رات کی فضیلت سے متعلق احادیث مسلم ، ترمذی، ابو داؤد ، نسائی، دار می، مؤطا ، ابن ماجہ اور مسند احمد میں مذکور ہے، اور اس کثرت سے ہیں کہ اس کے ثبوت میں کلام نہیں کیا جا سکتا ہے ، البتہ شریعت کے مدارج کو سمجھنا چاہیے اور اسے مستحب سمجھ کر ادا کرنا چاہیے، سماج میں اگر کوئی مسلمان اس رات کی فضیلت کا انکار کرتا ہے، روزہ نہیں رکھتا ہے تو اس پر لعن طعن کرنا اور اس کو جھگڑے کا سبب بنا نا قطعاً درست نہیں ہے، اسی طرح اس رات کو لہو ولعب میں گذارنا نہیں چاہیے، پٹاخہ ، آتش بازی اور چراغاں سے گریز کرنا چاہیے، کیوں کہ یہ سب شیطانی کام ہیں، جس سے عبادت کے فوائد کا خاتمہ ہو جاتا ہے ۔

پیر, فروری 19, 2024

علماء کرام اور ائمہ عظام موجودہ زمانے کے تقاضے کے مطابق دعوتی فریضہ انجام دیں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

علماء کرام اور ائمہ عظام موجودہ زمانے کے تقاضے کے مطابق دعوتی فریضہ انجام دیں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
Urduduniyanews72 
پٹنہ (پریس ریلیز )19 فروری 

ملی کونسل سے ملت کی امیدیں وابستہ ہیں ، آل انڈیا ملی کونسل کے ریاستی دفتر میں صدر مسلم پرسنل لا بورڈ کا بصیرت افروز خطاب

آج صبح دس بجے آل انڈیا ملی کونسل کے ریاستی دفتر پھلواری شریف ،پٹنہ میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی قومی نائب صدر آل انڈیا ملی کونسل کی آمد پر علماء، ائمہ کرام اور دانشوران کی ایک خصوصی نشست منعقد ہوئی جس کی صدارت خود صدر بورڈ نے کی ۔ مولانا کی آمد پر آل انڈیا ملی کونسل کے قومی نائب صدر حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی اور دیگر عہدے داران و اراکین نے والہانہ استقبال کیا ۔ جنرل سکریٹر ی ملی کونسل بہار مولانا ڈاکٹر محمد عالم قاسمی ومولانا محمد ابو الکلام شمسی جوائنٹ جنرل سکریٹری ملی کونسل بہار نے شکرو امتنان کی علامت کے طور پر گلدستہ محبت پیش کیا ، جب کہ مولانا انیس الرحمن قاسمی نے شال پوشی کے ذریعہ عزت افزائی کی۔ مولانا انیس الرحمن قاسمی نے اپنے استقبالیہ کلمات میں ملک کو در پیش چیلنجز کی طرف صدر بورڈ کی توجہ مبذول کرائی  اور علماء کرام و ائمہ کرام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم علماء کی ذمہ داری ہے کہ ہم اس زبان میں گفتگو کریں ، جسے ہماری نئی نسل آسانی سے سمجھ سکے۔ مسجد میں ہونے والی تقریریں ایسی زبان میں ہو نی چاہئیں جو طلبہ، عصری تعلیم یافتہ لوگوں اور عوام کی سطح کے مطابق ہو ۔ اپنے صدارتی خطاب میں حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے فرمایا کہ اس دور میں میڈیا اور ذرائع ابلاغ کی بہت اہمیت ہے ، خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنی دعوتی مہم کا آغاز کیا تو صفا کی چوٹی پر چڑھ کر آپ نے ہر قبیلہ کا نام لے لے دعوت دی ، جو اس وقت کا سب سے بڑا ذریعہ ابلاغ تھا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عکاظ کے میلے میں ، حج کے اجتماعات میں دعوت دین کافریضہ  انجام دیا ۔ جب کہ ان بازاروں میں بہت سارے غیر شرعی عمل ہوا کرتے تھے لیکن طبعی کراہت کے باوجود آپ ان مقامات پر تشریف لے گئے اور لوگوں کو اسلام کی دعوت دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شاہان عرب و عجم کو دعوتی خطوط لکھے ، جن کی تعداد ڈاکٹر حمید اللہ کے بقول چار سو سے زائد ہے ، جس میں شاہ چین کو بھیجا گیا خط بھی شامل ہے۔ انہوں نے مزید فرمایا کہ علامہ سرخسی نے لکھا ہے کہ ایک صحابی نے قرآن کریم کا فارسی زبان میں ترجمہ کیا، جب کہ ایک تابعی نے قرآن حکیم کا سندھی زبان میں ترجمہ کیا جو کہ اس وقت بر صغیر ہندو پاک کی زبان تھی ۔ خود اللہ تعالی نے نبیوں کی بعثت کے سلسلہ میں فرمایا ہے کہ وہ جس قوم کی طرف مبعوث کیے گئے انہیں کی زبان میں بات کرتے تھے ۔ اس لیے علماء ، ائمہ کرام اور داعیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ قوم جو زبان سمجھتی ہے ،ا س میں اللہ اور اس کے رسول کا پیغام پہونچانے کی کوشش کریں ۔ ہر مسجد میں علماء اور ائمہ کے لیے انگلش اور ہندی اسپیکنگ کورس چلایا جانا چاہئیے اگر علماء کرام تہیہ کر لیں تو یہ نظام آسانی سے چل سکتا ہے ۔ صدر بورڈ نے مزید کہا کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے دائرہ کار کو اکابر نے نہایت ہی سنجیدہ بحث اور غور و فکر کے بعد محدود رکھا ہے ، لیکن آل انڈیا ملی کونسل بورڈ کے مشن کی تکمیل  کے لیے قائم کی گئی اور آپ کہہ سکتے ہیں کہ آل انڈیا ملی کونسل مسلم پرسنل لا بورڈ کا تکملہ ہے ۔ الحمد للہ مختلف ریاستوں خاص کر کے کرناٹک اور بہار میں ملی کونسل گراں قدر خدمات انجام دے رہی ہے اور بڑی فعال ہے ۔  مولانا رحمانی نے ہندوستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں فرمایا کہ حالات مشکل ضرور ہیں لیکن مایوس ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ، 1857 اور 1947 کے حالات اس سے زیادہ مشکل تھے ، اس وقت ہمارے پاس وسائل کی کمی تھی ، اپنے تعلیمی و ملی ادارےانگلیوں پر گنے جا سکتے تھے ،  آج اللہ کا شکر ہے کہ بڑی تعداد دینی و عصری تعلیمی گاہیں اور ملی ادارے موجود ہیں جو ملت کی ترقی اور خدمت اور اسلام کے دفاع کے لیے ہمہ تن کوششیں کر رہے ہیں ۔ انہوں نے علماء کو مخاطب کرتے ہوئے بطور خاص فرمایا کہ وہ قوم ترقی نہیں کر سکتی جو ہر چیز میں دوسرے کی محتاج ہو ، اس لیے ہمیں ملت کو  ہر اعتبار سے خود کفیل بنانے کی کوشش کر نی چاہئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں جہاں مسجد نبوی کی بنیاد رکھی اور مدرسہ قائم کیا وہیں آپ نے مدینہ مارکیٹ کی بھی بنیاد ڈالی اور صحابہ کو حکم دیا کہ وہ اپنا سامان تجارت میں مدینہ کی مارکیٹ میں لائیں اور یہیں سے اپنی تجارت کو فروغ دیں ۔ مولانا نے کہا کہ دعوت کے لیے انفرادی کوششیں اجتماعی کوششوں سے زیادہ اہم ہیں ، اور اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل مدینہ کے ساتھ معاہدے کو اپنا اسوہ بنائیں ، جس کی تین اہم بنیادیں تھیں ، مسلمانوں کا آپس میں مواخاۃ یعنی برادرانہ تعلق اور غیر مسلموں سے موالات یعنی ان کے ساتھ حسن سلوک  اور رواداری، ظلم کے خلاف متحدہ کوششیں اور معاشرتی امن و امان کا قیام ۔ اگر ان بنیادوں پر ہم نے اپنی کوششوں کو آگے بڑھا یا تو یقیناً اس ملک میں محبت و بھائی چارے کی فضا قائم ہو گی اور میڈیا کے ذریعہ گھولے جانے والے زہر کا تریاق ہو گا ۔ 
اس سے قبل مولانا ابو الکلام قاسمی شمسی نائب صدر آل انڈیا ملی کونسل بہار نے حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب کا استقبال کرتے ہوئے کہا کہ حضرت کی شخصیت اور مسلم پرسنل لا بورڈ ، آل انڈیا ملی کونسل جیسی تنظیمیں ملت کا سرمایہ ٔ افتخار ہیں ، انہوں نے موجودہ حالات کے پیش نظر بورڈ کو مسلمانوں کی مکمل رہنمائی کرنے اور خاص طور پر سیاسی استحکام پر توجہ دینے کا مشورہ دیا۔ نشست کا آغاز مولانا  جمال الدین قاسمی کی تلاوت سے ہوا  اوراختتام  صدر مجلس کی دعا پر ہوا ۔ جبکہ نظامت کے فرائض مولانا مفتی محمد نافع عارفی کارگزار جنرل سکریٹری آل انڈیا ملی کونسل بہار نے انجام دیے۔ اس نشست میں جن اہم شخصیات نے شرکت کی ان میں مولانا مفتی سہیل احمد قاسمی صدر الحمد ادارہ خدمت خلق، مولانا عبد الباسط ندوی سکریٹری المعہد العالی پھلواری شریف، مولانا نور الحق رحمانی استاذالمعہد العالی، جناب سلام الحق صاحب رکن آل انڈیا ملی کونسل، جناب نجم الحسن نجمی رکن آل انڈیا ملی کونسل ، جناب عباس قاسمی دار العلوم سبیل الفلاح جالے، مولانا عبد الماجد قاسمی ڈائرکٹر الفلاح انگلش عربک اسکول پھلواری شریف، مولانا مظفر رحمانی  دار العلوم سبیل الفلاح جالے،جناب پروفیسر شمس الحسین ، مولانا محمد جابر مظاہری امام الامین مسجد اگزبیشن روڈ،جناب نوشاد اعظم، محمد محبوب عالم خلیل پورہ، مولانا سید مبشر نجمی معہد عمر بن خطاب، مولانا لطف الرحمن قاسمی معہد قاسم ، مولانا سید عادل فریدی سکریٹری ملی کونسل بہار،مولانا رضاء اللہ قاسمی نائب سکریٹری ابو الکلام ریسرچ فاوئنڈیشن،مولانا ریاض الدین قاسمی پھلواری شریف، مولانا منظر قاسمی، مولانا محمد عثمان ، مولانا شمس الحق مظاہری ، جناب مکرم صاحب دربھنگہ، مولانا احترام الرحمن قاسمی بیگو سرائے، مولانا قاری انور قاسمی معہد ام ہانی پھلواری شریف، مولانا رضوان عالم دیگھا، شوکت علی رضوی جنرل سکریٹری ملی کونسل پٹنہ، ضیاء الحسن صاحب  خلیل پورہ، مولانا سلیم الدین قاسمی امام جامع مسجد ہارون نگر، جناب سید ظفر حسین قاضی نگر، مولانا محمد عمار ومولانا فضیل صاحب الفلاح اسکول پھلواری شریف، محمد عامر صاحب، محمد صفوان حسن ہارون نگر، سالک سعد اللہ ،مولانا فیروز احمد، سعید انصاری صاحب  پھلواری شریف،مولانا مرسل جامعی، مولانا شکیل احمد نیپال،مولانا محمد مختار ندوی دار العلوم سبیل الہدایہ رائے پور نیپال، مولانا رستم صاحب مدھوبنی، مولانا عامر سہیل سجادی، مولانا عمر فارو ق المعہد، مولانا وجاہت ، مولانا سلیم الدین ، اختر عتیق مظاہر ی امام جامع مسجد دیگھا ، مولانا ا بو نصر ہاشم ندوی، مولانا انیس الرحمن قاسمی،  مولانا نجم الہدیٰ قاسمی، مولانا فیضان قاسمی،  مولانا نسیم احمد، حافظ خالد سعید، انجینئر محفوظ الرحمن  وغیرہ کے اسماء گرامی شامل ہیں۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...