Powered By Blogger

بدھ, مارچ 06, 2024

مثبت سوچ _____

مثبت سوچ _____Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 

انسانی زندگی میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے، مختلف قسم کے واقعات وحوادثات ذہن ودماغ پر اثر انداز ہوتے ہیں، ایسے موقع سے ذہن میں دو قسم کے خیالات پیدا ہوتے ہیں، ایک اس واقعہ کا منفی پہلو ہوتا ہے اور ذہن عموماً ادھرہی منتقل ہوتا ہے، اس منفی سوچ اور منفی اثرات سے انسان کے اندر مایوسی پیدا ہوتی ہے، کام کرنے کا جذبہ سرد پڑ جاتا ہے اور اس کا بہت سارا وقت یہ سوچتے ہوئے گذر جاتا ہے کہ ایساکیوں ہوا؟ یہ معاملہ تو میرے خلاف چلا گیا ، اس کی وجہ سے میری پریشانیاں بڑھیں، سوچنے کا دوسرا طریقہ اس واقعہ کا مثبت پہلو ہے، اس پہلو تک ذہن کی رسائی آدمی کو مفلوج نہیں کرتی بلکہ اس کے قوت عمل کو مہمیز کرتی ہے، اور بسا اوقات وہ ایسا کر گذرتا ہے ، جس کی توقع عام حالات میں اس سے نہیں لگائی جا تی ۔ ابھی حال میں مطالعہ میں ایک صاحب کا واقعہ آیا ، وہ سال کے آخری دن پورے سال کی حصولیابیوں کا جائزہ لے رہے تھے، جائزہ کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہونچے کہ یہ سال میرے لیے انتہائی بُراتھا، کیوں کہ انہیں ایک آپریشن کے نتیجے میں کئی ماہ بستر سے لگا رہنا پڑا تھا ، ساٹھ سال کی عمر ہو جانے کی وجہ سے وہ اپنی پسندیدہ ملازمت سے سبکدوش ہوچکے ، اسی سال ان کے والد اسی(۸۰) سال کی عمر میںراہئی آخرت ہو گیے ایک حادثہ میں بیٹا ایسا معذور ہوا کہ کئی ماہ اسے پلاسٹر کراکربستر پر پڑے رہنا پڑا، اس بیماری کی وجہ سے وہ امتحان کی بہتر تیاری نہیں کر سکا ، اور فیل ہو گیا ، ظاہر ہے اس سے بُرا سال اور کیا ہو سکتا ہے، اس منفی سوچ کے نتیجے میں وہ ذہنی اور دماغی طور پر پریشان رہنے لگے، لیکن جب ان کی رفیقہ حیات نے انہیں واقعات کا جائزہ لیا تو اس کا احساس تھا کہ یہ سال ہر اعتبار سے اچھا رہا ، اس لیے کہ برسوں سے پتّے کے درد سے پریشان میرے خاوند کو درد سے نجات مل گئی ،ا نہوں نے صحت وسلامتی کے ساتھ اپنی مدت ملازمت پوری کرلی اب وہ دفتری مصروفیات سے آزاد ہونے کی وجہ سے گھریلو معاملات پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں ، مکمل یکسوئی کے ساتھ لکھنے پڑھنے میں ان کا وقت لگ رہا ہے ، اس کا احساس تھا کہ میرے سسر لمبی عمر پا کر بغیر کسی پر بوجھ بنے اور غیر معمولی تکلیف اٹھائے دنیا سے رخصت ہوئے، میرا بیٹا ایک حادثہ میں بال بال بچ گیا،گاڑی جس طرح تباہ ہوئی اس طرح بیٹا بھی موت کے آغوش میں سو سکتا تھا، اللہ نے بڑا کرم کیا ، میرا بیٹا زیادہ معذور نہیں ہوا، بچ گیا ، گاڑی تو دوسری بھی آجائے گی ، اگر میر ابیٹا مر جاتا تو؟ اس نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس سال کو اللہ نے میرے لیے رحمت بنا کر بھیجا تھا ، آپ نے دیکھا واقعات وہی ہیں؛ لیکن نتائج الگ الگ اخذ کیے جا رہے ہیں، ایک منفی انداز میں تجزیہ کررہا ہے تو اسے پورے سال میں خرابی ہی خرابی نظر آتی ہے ، اور دوسرے کی سوچ مثبت ہے تو اس کو خیر ہی خیر پورے سال میں نظر آتا ہے، ظاہر ہے اس سوچ کا اثر اعمال پر بھی پڑتا ہے، منفی سوچ والا شکایتوں کے دفتر لے کر بیٹھ جائے گا اور مثبت سوچ والا کلمۂ شکر سے اپنی زبان کو تازگی بخشے گا ، اس لیے واقعات وحالات کا ایجابی اور مثبت اثر لینا چاہیے، زندگی بہتر انداز میں گذارنے کا یہی طریقہ ہے، آپ کے سامنے ایک گلاس ہے، جس میں تھوڑا پانی ہے، آپ اسے آدھا بھرا بھی کہہ سکتے ہیں، اور آدھا خالی بھی ، واقعاتی اعتبار سے دونوں صحیح ہے، لیکن اگر آپ اس گلاس کو جس میں پانی ہے، آدھا بھرا کہتے ہیں تو آپ کی سوچ مثبت ہے، اگر آپ اسے آدھا خالی کہتے ہیں تو یہ آپ کی منفی سوچ کی غماز ہے، اُگتے اور ڈوبتے سورج کا منظر یکساں ہوتا ہے، آپ کے سامنے تصویر رکھی گئی ، آپ نے کہا کہ یہ اُگتے سورج کی تصویر ہے، تو یہ آپ کی مثبت سوچ کی نشانی ہے ، کیوں کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ رات کی تاریکی دور ہو گئی اور آنے والا دن روشن اور تابناک ہے، لیکن اگر آپ نے اس تصویر میں سورج کو ڈوبتا ہوا سمجھا تو یہ آپ کی منفی سوچ کا مظہر ہے ، آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ سورج ڈوب رہا ہے، روشن دن کا خاتمہ ہوا، آگے تاریک رات ہے، اس سوچ کا اثرآپ کے قوت فکر وعمل پر پڑے گا ، تقریر وتحریر پر بھی پڑے گا ، اس کی وجہ سے آپ کے کہنے کا اسلوب اور الفاظ بھی بدلے گا ، گلزار دبستاں میں ایک کہانی لکھی ہے کہ بادشاہ نے خواب دیکھا کہ اس کے سارے دانت گر گیے ہیں، نجومی نے تعبیر بتائی کہ آپ کے سارے اعزواقرباء آپ کی زندگی میں مر جائیں گے ،بادشاہ نے کہا کہ اچھا میرا بیٹا ، میری بیوی، میرا بھائی سب مر جائے گا اور میں ان کا جنازہ اٹھانے کے لیے زندہ رہوں گا، بادشاہ نے اس نجومی کو قید کر دیا ، دوسرے کو بلایا ، اس نے مبارک سلامت کہہ کر پہلے تو بادشاہ کے ذہن پر پہلی تعبیر کے اثرات کو دور کیا ، پھر کہا کہ حضور اس کی تعبیر یہ ہے کہ پورے خاندان میں اللہ آپ کی عمر سب سے دراز کرے گا ، بادشاہ نے خوش ہو کر اسے موتیوں سے تولوا دیا ، بات وہی ہے، نتیجہ بھی وہی ہے، لیکن ایک موت کی بات کرتا ہے، جسے کم ہی لوگ پسند کرتے ہیں اور ایک زندگی کی اور درازی عمر کی بات کرتا ہے، جس کی خواہش ہر کس وناکس کو ہوتی ہے، تعبیر کا یہ فرق بھی مثبت منفی سوچ کو ظاہر کرتا ہے۔دفتری معاملات میں کچھ کام آپ سے لے کر دوسروں کو دیدیئے گئے ، منفی سوچ والا یہ کہے گا کہ میرے پَر کتر ے جا رہے ہیں اور دفتر میں مجھے بے وزن کیا جا رہا ہے ، مثبت سوچ والا اس واقعہ سے اس نتیجہ پر پہونچے گا کہ ہمارا دفتری بوجھ ہلکا ہو گیا ، اب ہم ان کاموں پر جو میرے ذمے رہ گیے ہیں، زیادہ توجہ اور محنت سے وقت لگا سکتے ہیں، جو ذمہ داریاں دوسروں کے حوالہ کر دی گئی ہیں، اس شخص کی اگر سوچ مثبت ہو گی تو وہ اسے آزمائش اور امتحان سمجھ کر اٹھائے گا، اور اس اضافی ذمہ داری کی وجہ سے اس کے اندر آمریت اور حاکمیت کا مزاج نہیں پیدا ہوگا، لیکن اگر سوچ منفی ہے تو اس کے اندر کبر ونخوت ، حاکمت اور آمریت کا مزاج پیدا ہوگا جو دیر سویر خود اس کے لیے مہلک ثابت ہو گا ، ملکوں کی تاریخ اور سماجی مشاہدات تو یہی بتاتے ہیں۔

منگل, مارچ 05, 2024

مولانا قاری احمد اللہ صاحب بھاگلپوری (یادوں کے چراغ)

مولانا قاری احمد اللہ صاحب بھاگلپوری  
  (یادوں کے چراغ)
Urduduniyanews72 
  ✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ 
مشہور خادم قرآن ، استاذ الاساتذہ، جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل کے صدر القراء ’’بڑے قاری صاحب‘‘ کے نام سے عالمی شہرت یافتہ ، فنا فی القرآن، قرآن کریم صحت کے ساتھ پڑھنے کو تحریک کا رنگ دینے والے عظیم انسان حضرت مولانا قاری احمد اللہ صاحب بھاگلپوری نے 29؍ رجب المرجب 1445ھ مطابق 10؍ فروری 2024ء بروز ہفتہ اس دنیا کو الوداع کہہ دیا، وہ وضو کے لیے اٹھے تھے، اور گر گیے، جس کی وجہ سے ناک سے بہت سارا خون نکل گیا، آئی سی یو میں داخل کیا گیا ، صحت قدرے بحال ہوئی ، خون کا آنا رک گیا، لیکن ہارٹ اٹیک ہوا، آکسیجن کم ہوتا چلا گیا ، قلب کی حرکت صرف پندرہ فی صد رہ گئی تھی ، وینٹیلیٹر پر ڈالا گیا ، آواز بند ہو گئی، سانس اکھڑ گئی، اور آنکھوں نے بند ہو کر اس دنیا سے رخ موڑ لینے کا پیغام سنا دیا ، ہزاروں معتقدین ، شاگر اور محبین دیکھتے رہ گیے ، آنکھوں نے آنسوؤں سے غسل کیا، سورت اسپتال سے گھر اور گھر سے جامعہ اسلامیہ تک کا سفر عقیدت مندوں کے کاندھوں پر ہوا، بعد نماز مغرب حضرت کے جلیل القدر شاگرد مفتی محمد عباس بسم اللہ نے جنازہ کی نما زپڑھائی اور ڈابھیل کے مقامی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں اہلیہ، دو لڑکے اور دو لڑکیوں کو چھوڑا، صاحب زادہ کا نام اسعد اللہ اور سعود اللہ ہے، مولانا سعوداللہ نے امارت شرعیہ کے المعہد العالی سے تدریب افتاء وقضاء کیا ہے اور والد کے ساتھ ڈابھیل میں ہی قیام کرتے ہیں، مولانا اسعد اللہ بھاگل پور میں ایک مدرسہ کے مہتمم ہیں، جو حضرت مولانا قاری احمد اللہ صاحب کا قائم کردہ ہے، تین بھائی اور دو بہن تھیں، آپ بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔
 مولانا قاری احمد اللہ صاحب بن حاجی معارف حسین (1977ء) بن فضیل کریم بن تعلیم حسین بن بھِکاری شیخ بن جان محمد 12؍ ربیع الاول 1336ھ مطابق 15؍ اپریل 1944ء کو اپنے آبائی گاؤں کرن پور ، ضلع بھاگلپور میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم گاؤں میں حاصل کرنے کے بعد حفظ قرآن کا آغاز مدرسہ اصلاح المسلمین چمپا نگر بھاگلپور میں قاری عبد الرشید صاحب کے پاس کیا اور تکمیل مدرسہ شاہی مراد آباد میں قاری ابراہیم کی درسگاہ سے ہوئی، کچھ تعلیم جامعہ رحمانی مونگیر میں ہوئی ا ور ہدایہ تک کی تعلیم دار العلوم دیو بند میں پائی، وہاں سے دوبارہ مدرسہ شاہی آگیے اور یہیں سے 1393ھ مطابق 1973ء میں سند فراغ حاصل کیا، آپ کے نانا کا نام شرافت خاں اور نانی بطول النساء تھیں جو، جواکھر، ڈاکخانہ سمستی پور، تھانہ شاہ کنڈ، ضلع بھاگلپور کے رہنے والے تھے، شادی 25؍سال کی عمر میں گاؤں میں ہی اپنی پھوپھی کی لڑکی سے کرن پور میں ہوئی، آپ کو دلچسپی شروع سے ہی قرآن کی تلاوت سے رہی، چنانچہ مدرسہ شاہی مرادآباد کے نامور استاذ قاری کامل صاحب سے تجوید وقراء ت کے رموز میں مہارت تامہ حاصل کی۔
 تدریسی زندگی کا آغاز جامعہ اسلامیہ ڈابھیل گجرات سے 11؍ شوال 1394ء میں کیا، 1982ئ؁ میں انقلاب دارالعلوم کے بعد جب حضرت مولانا قاری عبد اللہ سلیم صاحب امریکہ کو اپنا مستقر بنالیا تو دارالعلوم دیوبند کے ارباب حل وعقد کی نگاہ حضرت قاری احمداللہ صاحب تک پہونچی اور وہ دارالعلوم دیوبند منتقل ہوگئے، لیکن ڈابھیل کی محبت جو سودائے قلب میں ان کے جاگزیں تھی، وہ دارالعلوم دیوبند کی محبت پر غالب آگئی اور وہ صرف ایک سال دار العلوم دیو بند کے شعبہ قرأت کو اپنی خدمت دے سکے اور پھر سے وہ ڈابھیل چلے آئے اور پوری زندگی خدمت قرآن میں لگادی، تا آں کہ خالق کائنات نے انہیں اپنے پاس بلا لیا، قاری صاحب خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ کے صحیح مصداق تھے، وہ حقیقتاً خادم قرآن تھے،ا نہوں نے کئی نسلوں کو قرآن کریم صحت کے ساتھ پڑھنا سکھایا ، دا رالقرآن کفلیتہ اور جامعہ اشاعت الاسلام اکل کنواں میں جو قرآن پر محنت ہو رہی ہے اس میں ان کا خون جگر بھی شامل ہے۔
قاضی صاحب کو اللہ رب العزت نے انتہائی خوبصورت اور وجیہ بنایا تھا، اکاسی (81) سال کی لمبی عمر کے بعد بھی ان کے چہرے سے قرآن کریم کی خدمت کا نور جھلکتا نہیں چھلکتا تھا۔انہوں نے ہزاروں کی تعداد میں قراء ومجودین بنائے، خصوصا گجرات میں صحت کے ساتھ قرآن پڑھنے اورپڑھانے کا جو ماحول بنا وہ ان کی کد وکاوش اور جد وجہد کا عظیم مظہر ہے، آج جو لوگ بھی اس طرف اس کام سے جُڑے ہوئے ہیں وہ بالواسطہ یا بلا واسطہ ان کے شاگرد ہیں۔
 اللہ تعالیٰ نے تصنیف وتالیف کا بھی اچھا شعور بخشا تھا، پچیس کتابیں انہوں نے تیار کیں، ان میں سے بیش تر تجوید وقرأت سے متعلق ہیں، ان میں مرقاۃ التجوید، مراء ۃ التجوید، معلم الصبیان فی قواعد تجوید القرآن (چھپے)، کتاب التلخیص فی قواعد تجوید، مبادیات قراء ات، تلخیص العالی فی القراء ات السبع من طریق الشاطیہ والتیسیر، التحفۃ المکیۃ فی القراء ات الثلاث من طریق الدرۃ المضیۃ وتجسیر التسیر، تحفۃ النظر شرح طبیۃ النشر فی القراء ات الحشر کتاب التکبیر، اسلام میں قرآن مجید کا مقام خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔
اس کے علاوہ قواعد الصرف (دو اجزائ) الدروس الاساسیۃ فی تعلیم اللغۃ العربیۃ (دوجز) درسی نصابی کتابیں ہیں، ان کے علاوہ تیرہ کتابیں تجوید وقراء ت اور سات کتابیں نحو وصرف اور عربی تعلیم سے متعلق غیر مطبوعہ ہیں، شاگردوں کے ساتھ یہ بھی ان کے لیے صدقہ جاریہ ہیں۔
حضرت قاری صاحب سے میری صرف چار ملاقاتیں تھیں، پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ دارالعلوم دیوبند میں استاذ ہوکر آئے، اس زمانہ میں، میں افتاء کا طالب علم تھا اور جمعیۃ الطلبہ کا جنرل سکریٹری، یہ ملاقات حضرت کو پورے طورپر محفوظ تھی اور نام بھی ان کو یاد ہوگیا تھا، دوسری ملاقات ڈابھیل میں ہوئی، ایک ملاقات دارالقرآن جمبوسر میں اسلامک فقہ اکیڈمی کے سمینار کے موقعہ سے ہوئی تھی اور آخری ملاقات 2016ئ؁ میں امارت شرعیہ میں ہوئی تھی، ان کے چھوٹے صاحب زادہ مولانا سعد اللہ بھی ان کے ساتھ تھے، جب میرا سفر امیر شریعت سادس کے ساتھ گجرات کا ہوا تھا اور تمام قابل ذکر جامعات میں جانا ہوا تھا، اسی موقع سے جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل بھی جانا ہوا، عصر بعد حضرت کے حجرے میں ملاقات ہوئی، اور خرد نوازی کا جو نقش اس دن دل پر قائم ہوا، وہ آج تک باقی ہے ۔
یہ چوتھی ملاقات تھی، انہوں نے بھاگلپور میں ایک مدرسہ قائم کیا تھا، اس کا رجسٹریشن کرانا چاہتے تھے، مجھ سے جو رہنمائی ہو سکی، کر دیا تھا، حضرت نے بہت دعائیں دیں اورصاحب زادہ کو تلقین کیا کہ مدرسہ اور اس کے متعلقات کی قانونی اور دستوری تحفظ کے لیے وہ مجھ سے رابطہ میں رہیں، لیکن پھر بات آئی گئی ہو گئی ، ایک بار مدرسہ کے جلسہ میں بھی یا دکیا تھا، لیکن میں اپنی مشغولیت کی وجہ سے وہاں حاضر نہ ہو سکا، جس کا مجھے آج تک افسوس ہے ۔
 انہوں نے آخری وقت میں اپنے شاگردوں کو جو وصیت کی وہ یہ کہ ’’گاؤں گاؤں گھومو اور مسلمانوں کو مکتب کے ذریعہ قرآن پاک سے جوڑو، اس کے سوا عزت کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے، نوجوان فضلاء کو اس جانب خصوصی طور پر متوجہ کرو، ان کی ذہن سازی کرو کہ مرتے دم تک قرآن کی خدمت میں لگے رہیں‘‘۔ اپنے تین شاگرد قاری حمزہ ، قاری اسحاق اور قاری رضوان سے فرمایا : ’’دیکھو ایک نصیحت یاد رکھنا اپنی زندگی کا کوئی ایک گھنٹہ بھی ایسا نہ گذرنے دینا جو قرآن سننے یا پڑھنے سے خالی ہو۔ یہ بھی فرمایا کہ ہم تو اساتذۃ سے کہتے ہیں کہ مکتب سے ہی عربی زبان سکھانا شروع کر دو، جب بچے ساری زبانیں سیکھتے ہیں تو عربی کیوں نہیں سیکھیں گے ۔
 اللہ تعالیٰ حضرت کی مغفرت فرمائے اور ان کے پس ماندگان ، شاگرد اور متعلقین کو صبر جمیل کی دولت سے مالا مال کرے، رحمۃ اﷲ رحمۃ واسعۃ

ہفتہ, مارچ 02, 2024

خوف خدا- گناہوں سے روکنے کی شاہ کلید

خوف خدا- گناہوں سے روکنے کی شاہ کلید 
Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی 
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ 
============================
 انسان ، انسان ہی ہے فرشتہ نہیں ، اس سے خطا کا صدور ہوتا ہے ، شیطان معصیت کی طرف اس کی رہنمائی کرتا رہتا ہے، نفس امارہ اسے خواہشات دنیا کی لذتوں اور بازار کی چکا چوند کی طرف کھینچتا رہتا ہے ، اس کی فطرت میں خیر وشر کی قوت رکھی گئی ہے ، اسی لیے غلبہ کبھی فسق وفجور اور معصیت کا ہوجاتا ہے اور بندہ وہ کر گذرتا ہے ، جس سے اللہ رب العزت نے بچنے اور نہ کرنے کا حکم دیا ہے ، کبھی یہ معصیت اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ آدمی اس پر ڈھیٹ ہوجاتا ہے اور پوری ڈھٹائی کے ساتھ اللہ کی نا فرمانی کی دلدل میں پھنستا چلا جاتا ہے ، پھر اس کی آنکھ ، کان ،دل ودماغ پر گناہوں کثافت اس قدر چڑھ جاتی ہے کہ وہاں سے اس کی واپسی ممکن نہیں ہوتی اور جہنم اس کا مقدر بن جاتا ہے ۔
 معصیت کی اس فطرت اور گناہو ں کی لذت سے بچنے میں جو چیز سب سے زیاد مؤثر ہے وہ خوف خدا ہے، یہ ’’ماسٹر کی‘‘ اور شاہ کلید ہے ،یہ جب کسی کے دل میں پیدا ہوجائے تو اس کے دل کی دنیا بدل جاتی ہے ، اس کے سوچنے کا انداز بدلتا ہے اور اس کی معاشرت ، رکھ رکھاؤ ، بول چال ، اعمال وافعال میں ایسی تبدیلی آتی ہے کہ لوگ کھلی آنکھوں دیکھ کر محسوس کر لیتے ہیں کہ یہ اللہ سے ڈرنے والا انسان ہے، اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں بار بار ڈر نے کا حکم دیا ہے اور فرمایا کہ جو اللہ کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈر ا وہ دوجنت کا مستحق ہوگا، سورۃ اعراف ۵۴؍میں ہے کہ جو لوگ اللہ رب العزت سے ڈرتے ہیں، ان کے لیے ہدایت ورحمت ہے۔ سورۃ بینۃ :۸؍ میں ہے کہ اللہ رب العزت کی خوشنودی اس کو حاصل ہے اور وہ اللہ سے خوش ہے جو رب سے ڈرتا ہے، ڈر کی یہ صفت انسان کے اندر معرفت رب کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے ، اسی لیے اللہ رب العزت کا یہ بھی فرمان ہے کہ علم والے ہی اللہ سے ڈرتے ہیں۔ (سورۃ فاطر : ۲۸)
 اس لیے بندوں کو جنت کی طلب میں خوف خدا کے ساتھ زندگی گذارنی چاہیے تاکہ اس کی آخرت سنور جائے، اللہ رب العزت نے بندوں کو یہ بھی ہدایت دی کہ سنوکم ہنسو، روؤو زیادہ ، اس لیے کہ جو کچھ تم کرتے ہو اس کا یہی تقاضہ ہے۔حضرت امام احمد بن حنبل فرمایا کرتے تھے کہ خوف خدا نے مجھے کھانے پینے سے روک دیا ہے ، اس لیے مجھے اب اس کی خواہش نہیں ہوتی، قیامت کے دن جن سات آدمیوں کو عرش کے سایے میںجگہ ملے گی ، ان میں ایک وہ بھی ہوگا جو اللہ رب العزت کے عذاب اور بد اعمالی پر وعیدوں کو یاد کرکے دنیا میں رویا کرتا تھا، حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ دو آنکھیں ایسی ہیں جن کو دوزخ کی آگ نہیں چھوئے گی ، ایک اللہ کے خوف سے دیر رات رونے والی آنکھیں اور دوسری وہ جو سرحد کی نگہبانی کے لیے بیدار رہی ہو، حضرت عبد اللہ بن عمر وبن عاص کا قول ہے کہ مجھے ایک ہزار دینار صدقہ کرنے سے زیادہ پسندیدہ اللہ کے خوف سے ایک قطرہ آنسو کا بہنا ہے ، حضرت عوف بن عبد اللہ کہا کرتے تھے کہ مجھے یہ روایت پہونچی ہے کہ اللہ کے خوف سے نکلنے والا آنسو جسم کے جس حصے کو لگ جائے اس پر دوزخ کی آگ کو اللہ نے حرام کر دیا ہے ، ایک حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ فرماتے ہیں کہ میری عزت وجلال کی قسم میں اپنے بندے کو دو خوف میں مبتلا نہیں کر سکتا ، جو دنیا میں مجھ سے بے خوف رہے گا میں اسے آخرت میں ڈراؤں گا اورجو دنیا میں مجھ سے ڈرے گا اس کو آخرت میں امن وامان اور اطمینان دوں گا، اللہ رب العزت کا ارشاد ہے: تم ان کافروں سے مت ڈرو اور میرا خوف رکھو اگر تم مؤمن ہو (آل عمران : ۱۷۵) ایمان والوں کی علامت میں سے ایک اللہ کے خوف کو قرار دیا گیا (المومنون: ۵۷) اور حکم ہو امجھ ہی سے ڈرو۔ (البقرۃ: ۴۰) اور اتنا ڈرو جتنا اس سے ڈرنے کا حق ہے، (آل عمران: ۱۰۲) اور تم ڈرنے کی جس قدر استطاعت رکھتے ہو، اتنا ڈرو۔ ترمذی شریف میں ایک روایت ہے جس کو انہوں نے حسن قرار دیا ہے ، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ سے ڈر نا کسی خاص جگہ یا مکان سے متعلق نہیں ہے بلکہ جہاں بھی رہو اللہ سے ڈرتے رہو۔ دل کو آباد رکھنے کے لیے اللہ کا خوف ضروری ہے ، جس دل میں اللہ کا خوف نہ ہو وہ ویران اور بنجر زمین کی طرح ہے، اسی لیے حضرات ابنیاء کرام علیہم السلام اور صحابہ واولیاء عظام کثرت سے رویا کرتے تھے، حضرت آدم اورنوح علیہما السلام کے بارے میں حضرت حسن بصری کا قو ل ہے کہ وہ تین سو سال تک روتے رہے، حضرت داؤد ، حضرت یحیٰ کی گریہ زاری کا بھی یہی حال تھا، اس گریہ زاری کے اثرات ان کے رخسار اور زمین پر بھی پڑا کرتے تھے او رچہرے آنسوؤں کے مسلسل بہنے سے زخمی ہوجایا کرتے تھے، صحابہ کرام کے خوف خدا سے رونے کے واقعات کتابوں میں مرقوم ہیں خصوصا حضرات خلفاء راشدین اپنی تمام تر عظمت کے باوجود اللہ کے خوف سے اس قدر روتے تھے کہ اس کی نظیر ملنی مشکل ہے، بعض طبیبوں نے اولیاء کرام کو مشورہ دیا کہ آپ کی آنکھیں اچھی ہو سکتی ہیں، اگر آپ رونا چھوڑ دیں، انہوں نے اس مشورہ کو ماننے سے انکار کر دیا، اور فرمایا کہ اس آنکھ میں کوئی خیر نہیں جو نہ روئے، بعض بزرگوں کے بارے میں منقول ہے کہ خوف خدا سے روتے روتے ان کی بینائی چلی گئی ، اور بعضوں کی آنکھوں سے آنسو کے بجائے خون بہنے لگا ۔
 حضرت عائشہ ؓ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حال نقل کیا ہے کہ آپ راتوں کو بہت گریہ زاری کرتے تھے، ایک رات اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے انہوں نے کہا کہ جب آپ کی اگلی اور پچھلی لغزشوں کو اللہ نے معاف کر دیا ہے، پھر آپ اس قدر کیوں روتے ہیں، ارشاد فرمایا کہ کیا میں اللہ کا شکر گذار بندہ نہ بنوں ۔
 ہر رونا خوف خدا سے نہیں ہوتا کبھی خوشی میں بھی آنسو نکل آتے ہیں، اور کبھی حزن وملال ، درد وغم ، رنج والم کی وجہ سے بھی رونا آتا ہے ، یہ فطری چیز ہے، ان رونے میں سب سے بہترین رونا اللہ کے خوف سے رونا ہے ، البتہ یہ رونا دکھلاوے اورلوگوں کے سامنے رقیق القلب کے اظہار کے لیے نہ ہو، کیوں کہ دکھاوے کے لیے رونا اللہ سے قربت کے بجائے بُعد اور دوری پیدا کرتا ہے ۔
 اللہ کے خوف سے رونا اس لیے بھی ضروری ہے کہ کوئی بھی یقین کے ساتھ اپنی مغفرت اور دخول جنت کے بارے میں مطمئن نہیں ہو سکتا کیوں کہ اس پر مختلف حالتیں طاری ہوتی ہیں اوربعض موقعوں سے وہ معصیت سے خود کو بچا نہیں پاتا، اس لیے بندوں کو اللہ کی پکڑ سے ڈرنا چاہیے ، اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ اللہ کی پکڑ سے کوئی بے فکر نہیں ہوتا الا یہ کہ اس کی شامت ہی آگئی ہو ، گناہوں میں ملوث ہونے کے باوجود اگر کسی کو دنیاوی عیش وآرام حاصل ہے اور مرفہ حال ہے تو اس کو خدا کی قربت سمجھنے کی غلطی نہیں کرنی چاہیے، کیوں کہ اللہ رب العزت کا طریقہ ڈھیل دینے کا بھی ہے ، بالآخر اللہ کی پکڑ آتی ہے اور یقینا اللہ کی پکڑ بڑی سخت ہے، اس لیے سوء خاتمہ سے ڈرنا چاہیے، گناہوں پر جری نہیں ہونا چاہیے، عمل میں اخلاص پیدا کرنا چاہیے اور عمل نفاق سے بالکلیہ بچنا چاہیے کہ یہ سوء خاتمہ کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے ۔ خوف انسان پر مسلط ہوتا ہی رہتا ہے، وہ رات کی تاریکی میں اپنے سایے سے بھی ڈرجاتا ہے ، عورتیں تھوڑی تھوڑی بات پر رونا شروع کر دیتی ہیں، یہاں خوف سے مراد ایسا خوف ہے جو انسان کو گناہوں سے روک دے اور اللہ ورسول کی اطاعت کی طرف راغب کر دے ۔
 اللہ کا خوف دل میں پیدا ہو اس کے لیے ضروری ہے کہ آدمی ہر کام اخلاص کے ساتھ کرے ، اللہ کی رضا کے استحضار کے ساتھ کرے، غور وفکر اور سمجھ کر قرآن کریم کی تلاوت کیا کرے، اللہ کے نیک بندوں کی سیرت وسوانح کا مطالعہ کیا کرے اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ ایمان والے تو ایسے ہوتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کا ذکر آتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں۔ (الانفال : ۲)  گناہوں کے ارتکاب سے بچناچاہیے کیوں کہ گناہ گار کے دل سے اللہ کا خوف نکل جاتا ہے ، ان ظالموں اور فاسقوں کے احوال کو پڑھ کر عبرت پکڑنا جن کو اللہ نے ہلاک کر دیا اور وہ شہروں میں جائے پناہ تلاشتے ہی رہے، علماء کے با اثر بیان سننا کہ یہ بھی ’’از دل خیزد بردل ریزد‘‘ کا مصداق بن کر دل کی دنیا بدلنے میں کیمیا اثر ہے، اور سب سے آخری ترکیب یہ ہے کہ رات کی تاریکی اور تنہائی میں گڑگڑا کر اللہ سے اس کی مغفرت اور معرفت طلب کی جائے ، اس لیے کہ ساری توفیق اللہ کی جانب سے ہوا کرتی ہے ۔ جگر مراد آبادی نے کہا ہے : 
اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس بات نہیں 
 فیضان محبت عام سہی عرفان محبت عام نہیں

شعبہ اردو نیوکالج، بزمِ اسوسی ایشن کے زیر اہتمام یوم اردو و مشاعرہ کا انعقاد

شعبہ اردو نیوکالج، بزمِ اسوسی ایشن کے زیر اہتمام یوم اردو  و  مشاعرہ کا انعقاد
 اردو کی بقا اور تحفظ کے لیے ہم سب کو متحد ہو کر کام کرنا ہوگا: مقررین کا اظہارخیال 
Urduduniyanews72 

چینئی(ساجدندوی) شعبہئ اردو نیوکالج کے طلباء کی انجمن بزم اردو اسوسی ایشن کے زیر اہتمام بتاریخ 29/ فروری 2024کو یوم اردو  و  مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا جس کا آغاز بی اے اردو کے طالب علم محمد فیضان کی تلاوت کلام پاک سے ہوا اورمحمد نفیس نے نعت کا نذرانہ پیش کیا۔صدر شعبہ اردو ڈاکٹر سیدسجاد عنایت نے استقبالیہ کلمات پیش فرمایا جبکہ پروگرام کی نظامت شعبہ اردو کے اسسٹنٹ پروفیسر ساجد حسین ندوی نے کی۔کالج کے پرنسپل ڈاکٹر ایم اسرار شریف نے اپنے افتتاحیہ کلمات میں کہا کہ اردو زبان دنیا کی دس بڑی زبانوں میں سے ایک ہے اور پوری دنیا میں اس زبان کو پڑھنے، لکھنے اوربولنے والوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ دیکھنے کومل رہاہے۔ مہمان خصوصی اور مسلم ایجوکیشنل اسوسی ایشن آف سدن انڈیا(میاسی) کے سکریٹر جناب الیاس سیٹھ صاحب نے اپنے خطاب میں کہا کہ شعبہ اردو نیو کالج کا قیام1951میں ہوا اور اپنے قیام کے اول روز یہ سی ہی یہ شعبہ فعال اور متحرک ہے دن بدن اردو تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کی تعداد میں اضافہ دیکھنے کو مل رہاہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میاسی نے اردو کو گھر گھر پہونچانے کا عزم کیا ہے اوراس عزم کو پورا کرنے کے لیے جنوری 2024میں فری آن لائن اردو کلاسیس کاآغاز کیا گیا جس میں فی الحال 50 سے زائد طلباء و طالبات زیر تعلیم ہیں جس میں ہرعمر کے خواتین وحضرات شامل ہیں۔میاسی اردو اکیڈمی کے چیئر مین جناب اے محمد اشرف صاحب نے سامعین کو مخاطب کرکے کہا کہ اردو سب سے پیاری اور میٹھی زبان ہے، اس زبان کے ساتھ کسی اور زبان کی ملاوٹ غیر مناسب ہے۔ آج یہ رواج عام ہوتا جارہاہے کہ اردو الفاظ کے ساتھ یہ انگلش الفاظ کا استعمال بڑے زور وشور کے ساتھ کیا جارہاہے جو بالکل بھی مناسب نہیں ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ جب اردو بولی جائے تو اس میں خالص اردو الفاظ کا ہی استعمال ہو کسی اور زبان کے الفاظ کواس میں شامل نہ کیا جائے۔ میاسی اردو اکیڈمی کے کنوینر جناب محمد روح اللہ صاحب نے اپنے صدارتی کلمات میں کہا کہ زبانیں کوئی بھی ہو ہر زبان کو سیکھنا چاہیے، زبان کی تعلیم کا مقصد نوکری حاصل کرنا نہیں، بلکہ اپنے اخلاق کو سنوارنا اور قوم کی خدمت کرنا ہے۔ جنوب ہند نے ہمیشہ اردو کی خدمت کی ہے اور اردو کوآگے بڑھانے میں اہم رول ادا کیا  ہے۔ اردو کاسب سے پہلا صاحب دیوان شاعر قلی قطب شاہ کا تعلق بھی جنوب ہند سے تھا۔ڈاکٹر حیات افتخار صاحب سابق صدر شعبہ اردو، قائد ملت کالج، چینئی نے اردو زبان کی اہمیت وافادیت پر ایک طویل خطبہ پیش کیا جس میں انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں بولی زبان صرف صرف اردو ہی ہے، یہی زبان بولی اور سمجھی جاتی ہے، جسے لوگ جانے انجانے میں ہندی کا نام دے دیتے ہیں حالانکہ ہندی جو لکھی جاتی ہے وہ بولنے میں کبھی استعمال نہیں ہوتی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر مشترکہ طور پر دونوں زبانوں کا کوئی نام ہوسکتا ہے تو وہ ہندوستانی زبان ہے۔ خطابات کے بعد بابائے اردو تمل ناڈو جناب علیم صبا نویدی اور روزنامہ مسلمان کے سابق نائب مدیر عثمان غنی جنہوں نے بے لوث اردو کی خدمت کی تھی ان دونوں احباب کا حال ہی انتقال ہوا، ناظم مشاعرہ ساجد حسین ندوی نے ا ن دونوں کی خدمات کا مختصر تذکرہ کرتے ہوئے ان کو خراج عقیدت پیش کیا اورڈاکٹر سید سجادعنایت دونوں حق میں مغرفت کی دعائیں۔
اس کے بعد مشاعرہ کا آغاز ہوا جس کی صدارت جناب محمد روح اللہ صاحب نے کی۔شعراء نے خوبصورت لب ولہجہ میں اپنے غزلیہ اشعار سے سامعین کو محظوظ کیا اور خوب داد حاصل کئے۔شعرا میں شاہد مدراسی،ماہر مدراسی، سراج شانہ، ایوب مدراسی، صداء لآمری کے علاوہ نیوکالج کے طلبا میں سے طاہر بجلی اور فاضل شریف نے بہترین غزلیں پیش کی۔اس یوم اردو و مشاعرہ میں شہر کے عمائدین، ادباء و شعراء، وائس پرنسپل پروفیسر محمد اکمل و ڈاکٹر عبداللہ محبوب، میاسی کے اعزازی ایس ایم سلیم، اسسٹنٹ سکریٹری منیر الدین شیریف، ایزیکٹیو ڈائریکٹر اشتیاق احمد کے علاوہ کالج کے اساتذہ اور طلباء بڑی تعداد میں موجود تھے۔ پروگرام کو کامیاب بنانے میں شعبہ کے اساتذہ ڈاکٹر غیاث احمد، ڈاکٹر طیب خرادی، پروفیسر سید شبیر حسین، پروفیسر سید باقر عباس، پروفیسر ساجد حسین اور طلباء نے بھرپور تعاون کیا۔اخیر شعبہ اردو کے ڈیپارٹمنٹ سکریٹری محمد شعیب نے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور پروگرام اختتام پذیر ہوا۔

چک غلام الدین ہائی اسکول(ویشالی) میں انتخاب بیداری مہم کے تحت ڈرائینگ مقابلہ کا انعقاد ۔

چک غلام الدین ہائی اسکول(ویشالی) میں انتخاب بیداری مہم کے تحت ڈرائینگ مقابلہ کا انعقاد ۔
Urduduniyanews72 
چک غلام الدین ہائی اسکول 02/ مارچ 2024 (پریس ریلیز:محمد ضیاء العظیم )   "چک غلام الدین ہائی اسکول" انتخاب بیداری مہم کی مناسبت سے ایک ڈرائنگ مقابلہ (Drawing Competition) کا انعقاد کیا گیا۔اس پروگرام میں شریک تمام طلبہ وطالبات  نے بڑی دلچسپی کے ساتھ ، انتخاب سے متعلق، نقاشی ،پینٹنگ،آرٹ اینڈ کرافٹ وغیرہ میں حصہ لیا ۔ ۔ پروگرام میں طلبہ وطالبات کو الگ الگ گروپ میں تقسیم کئے گئے تھے، سبھوں نے ووٹ سے متعلق نقاشی، پینٹنگ وغیرہ بناکر ووٹ دینے سے متعلق مثبت پیغام دیا ۔
اس موقع پر طلبہ وطالبات سے خطاب کرتے ہوئے محترم ابھے کمار استاذ چک غلام الدین ہائی اسکول (فزیکل ایجوکیشن) نے انتخاب کی اہمیت و افادیت بتاتے ہوئے کہا کہ ہم ایک جمہوری ملک میں رہتے ہیں جہاں عوام اپنے ووٹ کے ذریعہ حکومت کا انتخاب کرتی ہے، ووٹ دینا ہمارا بنیادی حق ہے، ووٹ کے ذریعہ ہم ہندوستانی شہری ہونے کا ثبوت دیتے ہیں ۔ آپکا ووٹ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ووٹ جمہوری سماج ومعاشرے میں ایک طاقتور اورمثبت ہتھیار ہے، ووٹ کے ذریعےآپ اپنی حکومت پراپنی ملکیت کا احساس پیدا کر سکتے ہیں ووٹنگ ہمیں ملک، حلقے یا امیدوارکے بارے میں اپنے خیالات وتاثرات کے اظہار کا بہترین ذریعہ  ہے، آپ اپنے پسندیدہ امیدوار کو ووٹ دے کر ایوان میں اقتدار پیدا کرتے ہیں ۔
پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں جن لوگوں نے اپنا تعاون دیا ان کی فہرست اس طرح ہے، ستیش کمار، ببیتا کماری، انورادھا کماری، آبھا کماری، دیپک کمار پنڈت، محمد ضیاء العظیم ، کے نام مذکور ہیں ۔

منگل, فروری 27, 2024

سلام ورحمت قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن (انڈیا) کی روداداپنی

محترم ناظرین وقارئین۔!
اردودنیانیوز۷۲ 
                          سلام ورحمت
     قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن (انڈیا) کی روداداپنی ترتیب کےآخری مرحلہ میں ہے۔مصروفیات کےسبب کسی تخلیق پر تبصرہ شائع نہ ہوسکےتومعذوری سمجھ کرمعاف کیجئے گا۔امید کی جاتی ہےکہ آپ اردوتحریک سے نہ صرف منسلک رہیں گے بلکہ اپنے دوست واحباب کو بھی تحریک سے جوڑیں گے۔آپ کا اجتماعی انسلاک تحریک کی طاقت ہے۔اس تحریک نے گزشتہ آٹھ سالوں میں اردو زبان وادب۔ عصر ی علوم اوردینیات میں جو بھی عملی خدمات انجام دی ہیں،اس کی کسی قدر تفصیل آپ روداد میں پڑھ سکیں گے۔اگرآپ سمجھیں گے کہ ملک وملت کےلیےکچھ کام ہو رہا ہے جسےاور بڑےپیمانےپرہوناچاہىئےتوآپ ہماری حوصلہ افزائی فرمائیں گے۔ ہمیں اپنے قیمتی مشوروں سےنوازیں گے۔یہ آپ کا اپنا ادارہ  ہےاورحکومتِ اترپردیش کے شعبہء تعلیم سےمنظورشدہ ہے۔ہمیں ایک بڑی اجتماعی طاقت کے ساتھ اسےآگےبڑھاناہے۔آپ کاہرممکن تعاون ضروری ہے۔جزاک ﷲ فی الدارین۔ شادوآبادرہیں۔ آمین۔۔۔۔۔۔۔ 

                        انس مسرورانصاری                    قومی اردوتحریک فاؤنڈیشن (انڈیا)رجسٹرڈ۔
رابطہ/9453347784/

ہفتہ, فروری 24, 2024

تاب ِسخن (تعارف تبصرہ)

تاب ِسخن (تعارف تبصرہ)
Urduduniyanews72 
     ✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 

غالب ؔ نے کہا تھا ''کچھ شاعری ذریعہ عزت نہیں مجھے''، حالاں کہ غالب کی زندگی سے شاعری کو نکال دیا جائے تو گوشت وپوست کے ایک انسان کے سوا کچھ نہیں بچتا، البتہ یہ بات علماء پر صادق آتی ہے، طبقہ علماء میں بڑے بڑے شعراء پیدا ہوئے، لیکن انہوں نے شاعری کو کبھی بھی ذریعہ عزت نہیں بنایا، ماضی کو چھوڑ یے حال میں ہی مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کو ہی دیکھ لیجئے، کتنی اچھی شاعری ہے، لیکن ان کی شہرت وعزت قطعاً اس کی ممنون نہیں ہے، شعر وادب سے علماء کی اس بے اعتنائی کی وجہ سے ان کے کلام ادھر اُدھر منتشر ہوتے رہے، خود انہیں کبھی جمع کرنے، بلکہ سجو کر رکھنے کا بھی خیال نہیں آیا، جس کی وجہ سے علماء طبقہ کے بڑے بڑے شعراء، شعر وادب کے حوالہ سے گوشہ گم نامی میں پڑے رہے اور ان کا شعری سرمایہ زمانہ کید ست برد سے محفوظ نہیں رہ سکا، بلکہ بڑی حد تک ضائع ہو گیا، میں ایسے کئی علماء کو جانتا ہوں، لیکن یہاں فہرست سازی کا نہ موقع ہے اور نہ ہی ضرورت۔

''تاب سخن ''کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے، یہ مولانا سید مسرور احمد مسرور (ولادت 1950وفات 21اگست 2022) کا مجموعہ کلام ہے۔وہ دارالعلوم سبیل السلام حیدر آباد سے 1986میں جڑے اور زندگی کے کم وبیش پینتیس سال یہیں گذار دیے، وہ اچھے کاتب تھے اور کتابت انہوں نے دار العلوم دیو بند سے سیکھی تھی، اس لیے زیادہ وقت کتابت اور بچوں کو خوش خطی سکھانے میں گذرا،حیدر آباد جانے سےقبل ایک زمانہ تک امارت شرعیہ کے ہفت روزہ نقیب کی کتابت  وہی کیا کرتے تھے، امیر شریعت سادس مولانا سید نظام الدین سے وطنی قربت بھی تھی، مولانا سید مسرور کے والد چھپرہ سے نقل مکانی کرکے کوٹھی ضلع گیا منتقل ہو گیے تھے، جہاں  انکی سسرال تھی، امیر شریعت سادس کے گاؤں گھوری گھاٹ سے یہ بہت قریب ہے، یہیں پلے بڑھے، مدرسہ عبیدیہ کوٹھی اور مدرسہ قاسمیہ گیا سے تعلیم وتربیت حاصل کی، دیو بند کا رخ کیا، وہاں سے کتابتِ  کا فن سیکھا اور پوری زندگی اسی کام میں لگا دیا۔
 شعر وادب کا ذوق اکتسابی نہیں، وہبی تھا، طبیعت موزوں تھی، مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی کی، جن میں نعت، تہنیت، منقبت، سپاس نامے، الوداعی نظمیں، سہرے، نغمہائے شادی، خراج عقیدت اور متفر ق چیزیں شامل ہیں، لیکن ان کو مرتب کرنے، جمع کرنے اور با قاعدہ محفوظ رکھنے کا خیال ان کے دل میں کبھی نہیں آیا، اس لیے ان کی زندگی میں مولانا محمد سراج الہدیٰ ندوی ازہری کے بار بار کے تقاضے کے باوجود وہ اس پر آمادہ نہیں ہوئے اور بالآخر موت نے انہیں آلیا۔
ان کے گذرنے کے بعد مولانا سراج الہدیٰ ندوی ازہری جو میرے برادر زادہ،داماد اور خانوادہ ہدی کے گل سرسبد ہیں، نے ان کے وارثین سے کسی کسی طرح ان کے اشعار کو حاصل کیا، جو کام ان کی زندگی میں آسان تھا وہ ان کے بعد مشکل ہو گیا اور اس کے لیے مولانا  ازہری کو جو جگر کادی کرنی پڑی، اس کا اندازہ کچھ انہیں لوگوں کو ہوگا جو اس قسم کے کام سے دلچسپی رکھتے ہوں اور کبھی اس قسم کی خارزار وادی سے ان کا گذرہوا ہو۔
مولانا محمد سراج الہدیٰ ندوی ازہری اگر صرف ان کے اشعار جمع کر دیتے تو یہ بھی بہت تھا، لیکن ا نہوں نے ایک غیر ضروری شرط اپنے اوپر لگائی کہ اسے تاریخ کے اعتبار سے مرتب کرنا ہے، یعنی جس تاریخ کو ان اشعار کا مولانا پر نزول ہوا، اس کی رعایت ترتیب میں کریں گے، اس نے اس کام کو ان کے لیے مزید دشوار کر دیا، بلکہ کہنا چاہیے کہ یہ تکلیف ما لا یطاق کے قبیل سے تھا، جو ان کی محنت میں مزید اضافے کا باعث ہو گیا، بہر کیف انہوں نے اپنی بے پناہ مشغولیات جن میں درس وتدریس، وعظ وخطابت، بچوں کی پرورش وپرداخت،متعلقین اور معتقدین کے تقاضوں کی تکمیل کے ساتھ اس کام کو بھی پایہ تکمیل تک پہنچا دیا۔
مولانا محمد سراج الہدیٰ کی نظر حدیث وفقہ، تفسیر پر گہری ہے، ان کی تفسیر دو جلدوں میں شائع بھی ہو چکی ہے، اس کے ساتھ ا ن کا ادبی ذوق بھی بالیدہ ہے، انہوں نے اس سے قبل حضرت مولانا سید محمد شمس الحق صاحب ؒ سابق  شیخ الحدیث جامعہ رحمانی مونگیر کے اشعار بھی ”کلام شمس“ کے نام سے جمع کیا ہے، اس میں بھی ان کی محنت لائق ستائش ہے، لیکن اب تک یہ کتاب شائع نہیں ہو سکی ہے، مولویوں کے پاس اتنی اضافی رقم نہیں ہوتی جو کتاب کی طباعت کی متحمل ہو سکے اور غیرت وخود داری کا احساس کسی کے سامنے دست تعاون دراز کرنے سے مانع ہوتا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ اب تک ''کلام شمس'' طبع نہیں ہوسکی۔
مولانا مرحوم کی شاعری اچھی ہے، لیکن وہ کسی نہ کسی موقع سے لکھی گئی ہے، جس میں اپنی خواہش کم اور دوسروں کی خواہش کا احترام زیادہ ہے، اشعار میں ندرت اور فکر میں رفعت کے باوجود تہنیت، سہرے، خراج عقیدت وغیرہ کے بعض اشعار ایک دوسرے سے تو ارد کا مظہر ہیں، میں جانتا ہوں ایک جیسے خیالات اور مصرعے جب دو شاعروں کے یہاں مماثل ہو جاتے ہیں تو توارد کہلاتا ہے، مولانا کے یہاں جو کچھ ہے اس کے لیے صحیح لفظ تکرار ہے، لیکن تکرار کہنے میں سوئادب معلوم ہوتا ہے، اس لیے اسے توارد سے تعبیر کیا ہے، کوئی فکر اگر شاعر پر غالب آگئی، اور وہ بار بار اس کا اعادہ کرنے لگے تو اسے توارد کہنے میں حرج نہیں معلوم ہوتا، گوا دبی پنڈتوں کے یہاں یہ زیادہ صحیح نہیں سمجھاجاتا، توارد پر اگر اعتراض ہو تو آپ اسے احباب کے تقاضوں کی تکمیل بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ توارد کبھی بعض الفاظ کو الٹ پلٹ کر اور کبھی بعض مصرعوں کو بڑھا کر بھی سامنے آتا ہے، اصل میں تہنیت، سہرے، خراج عقیدت میں ”مضامین نو کے انبار“ کا موقع نہیں ہوتا، اس کی لفظیات بھی محدود ہوتی ہیں، اور خیالات میں وسعت کی بھی کمی ہوتی ہے، لن ترانی اور ایران توران کی ہانکنے کا مولانا کا مزاج نہیں تھا، اس لیے ان اصناف میں عام طور پر یکسانیت کا احساس ہوتا ہے، اور صحیح  اور سچی بات یہی ہے کہ وہ ان اصناف میں '' مضامین نو'' کا انبار نہیں لگا سکے ہیں، اور ہر آدمی یہ کام کر بھی نہیں سکتا، اب میرانیس پیدا نہیں ہوں گے جو مضامین نو کے انبار لگا تے تھے، اور خرمن کے خوشہ چینوں کو خبر کرنے کی تلقین بھی کیا کرتے تھے۔
 مولانا محمد سراج الہدیٰ ندوی ازہری ہم سب کی جانب سے شکر یہ کے مستحق ہیں، انہوں نے مولاناسید مسرور احمد مسرور کے کلام کو مرتب کرکے ان کو ضائع ہونے سے بچالیا، اللہ تعالیٰ سے اس مجموعہ کے قبول عام وتام،مولانا مرحوم کی مغفرت اورمولانا سراج الہدیٰ ندوی ازہری کے علمی کاموں میں وسعت اور صحت وعافیت کے ساتھ درازئ عمر کی دعا پر اپنی بات ختم کرتا ہوں۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...