Powered By Blogger

اتوار, نومبر 07, 2021

احمد نگر کے ہاسپٹل میں آتشزدگی ، 10 مریض فوت آئی سی یو میں رات دیر گئے آگ لگی ، شارٹ سرکٹ سے حادثہ ، وزیراعظم کا اظہار رنج

احمد نگر کے ہاسپٹل میں آتشزدگی ، 10 مریض فوت آئی سی یو میں رات دیر گئے آگ لگی ، شارٹ سرکٹ سے حادثہ ، وزیراعظم کا اظہار رنج

آئی سی یو میں رات دیر گئے آگ لگی ، شارٹ سرکٹ سے حادثہ ، وزیراعظم کا اظہار رنج
احمد نگر/نئی دہلی: مہاراشٹر کے احمد نگر کے سیول ہاسپٹل میں ہفتہ کو شارٹ سرکٹ کی وجہ سے آگ لگنے سے دس مریض فوت اور دس سے زیادہ زخمی ہوگئے ۔احمد نگر کے ضلع مجسٹریٹ راجیندر بھوسلے نے فون پر یواین آئی کو بتایا کہ حادثہ شارٹ سرکٹ کی وجہ سے ہوا۔ ہاسپٹل کے عملے نے آج یہاں بتایا کہ آگ انتہائی نگہداشت یونٹ (آئی سی یو) میں تقریباً 11.30 بجے لگی اور تیزی سے پورے کمرے میں پھیل گئی۔ کمرے میں تقریباً 25 کووڈ مریض داخل تھے ۔مہاراشٹر کے وزیر اعلی ادھو ٹھاکرے نے واقعے کی تحقیقات کا حکم دیا ہے ۔سات فائر ٹینڈرز کی مدد سے آگ پر قابو پالیا گیا ہے ۔وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ نے احمد نگر ہاسپٹل میں حادثے میں مریضوں کی موت پر غم کا اظہار کیا ہے ۔ وزیر اعظم مودی نے حادثے میں ہلاک ہونے والوں کے اہل خانہ سے تعزیت کا اظہار کیا ہے اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کی تمنا کی ہے ۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے کہا مہاراشٹر کے احمد نگر کے سیول ہاسپٹل میں پیش آنے والے دل دہلا دینے والے حادثے سے بہت تکلیف ہوئی ہے ۔ غم کی اس گھڑی میں میری تعزیت سوگوار خاندانوں کے ساتھ ہے اور میں زخمیوں کی جلد صحت یابی کیلئے دعا کرتا ہوں۔حکام نے بتایا کہ مریضوں کو دوسری جگہ منتقل کر دیا گیا ہے ۔ متعدد زخمیوں کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے ۔مہاراشٹر حکومت کے وزیر حسن مشرف نے کہا کہ اس واقعے میں دس افراد کی المناک موت ہوئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس کی تحقیقات کی جا رہی ہیں اور اگر غفلت پائی گئی تو ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔مشرف احمد شہر کے نگران وزیر ہیں۔


ہفتہ, نومبر 06, 2021

بریکنگ نیوزووٹر لسٹ میں اپنے ناموں کا اندراج ضرورکرالیں ، حق رائے دہی جمہوریت کی بقا وتحفظ کا سرچشمہ ہے : مولانا امین الحق عبد اللہ قاسمی

بریکنگ نیوزووٹر لسٹ میں اپنے ناموں کا اندراج ضرورکرالیں ، حق رائے دہی جمہوریت کی بقا وتحفظ کا سرچشمہ ہے : مولانا امین الحق عبد اللہ قاسمیکانپور(پریس ریلیز)ووٹر لسٹ میں ناموں کے اندراج وتصحیح کا کام جاری ہے، آج اتوار کا دن ہے اس موقع پر سبھی پولنگ بوتھوں پر بی ایل او موجود رہیں گے جن لوگوں نے اب تک اپنے ناموں کا اندراج نہیں کرایا ہے یا غلط اندراج کو درست نہیں کرایا ہے وہ بوتھوں پر جاکر فارم بھرکر اندراج یا تصحیح کا کام ضرور کرالیں اور جو لوگ دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں ان کے نام کٹوادیں اور کوشش کریں کہ 18برس کے ہونے والے لڑکے ولڑکیوں میں کوئی بھی چھوٹنے نہ پائے۔ حق رائے دہی جمہوریت کی بقا وتحفظ کا سرچشمہ ہے اس کی اہمیت وافادیت اور اس کے دور رس نتائج کو سمجھیں۔ان خیالات کا اظہار جمعیۃ علماء اترپردیش کے نائب صدر مولانا امین الحق عبد اللہ قاسمی نے کیا۔ مولانا عبداللہ قاسمی نے کہا کہ ووٹ دینا ہمارا جمہوری حق ہے اور جمہوریت کو مضبوط کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ اس جمہوری ملک میں ہمیں ووٹ دینے کا حق حاصل ہے، مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ ووٹر لسٹ میں ہمارا نام موجود ہو۔ اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ووٹر لسٹ میں اپنا نام شامل کرائیں، جس کے لئے رہائش اور شناختی ثبوت کے ساتھ الیکشن کمیشن کا وضع کردہ فارم بھرنا ہوتا ہے، جس کے بعد ووٹر لسٹ میں نام شامل ہوجاتا ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ ووٹر لسٹ میں نام شامل کرنے کی یہ مہم وقتاً فوقتاً ایک مخصوص مدت کے لئے شروع کی جاتی ہے۔ اس بار یہ مہم یکم/نومبر 2021 سے 30/نومبر 2021 تک جاری ہے۔ ان ایام کے دوران ووٹر لسٹ میں ناموں کے اندراج اور تصحیح کا کام کیا جارہا ہے۔ جن حضرات کا ووٹنگ لسٹ میں نام نہیں ہے، غلط درج ہوگیا ہے، شناختی کارڈ نہیں ہے، کھو گیا ہے یا خراب ہوگیا ہے، یا جن کی عمر 18/سال مکمل ہوگئی، ایسے تمام حضرات ووٹر لسٹ میں اپنے ناموں کا اندراج یا تصحیح کراسکتے ہیں نیز شناختی کارڈ حاصل کرسکتے ہیں۔آج مورخہ7نومبر بروزاتوار ہے اس موقع پر سبھی ووٹنگ بوتھوں پر حکومت کی طرف سے بی ایل او موجود رہیں گے جو حضرات ابھی تک اپنے ناموں کا اندراج یا تصحیح کا کام نہیں کراسکے ہیں وہ ضرور اس کام کو انجام دے لیں۔حکومت کی مقرر کردہ تاریخ ختم ہو جانے کے بعدیہ کام انتہائی مشکل سے ہوتاہے۔ مولاناعبد اللہ قاسمی نے زور دیتے ہوئے کہا کہ وقت رہتے ہوئے بیدارہوجائیں سارے ضروری کام چھوڑ کر اندراج کا کام ضرور کروائیں چاہے اس کے لئے ایک،دودن کے لئے دکان بند کرنی پڑے یا چھٹی لینی پڑے، مولانا نے صوبہ اترپردیش کے تمام اضلاع کے جمعیۃ کے عہدیداران واراکین سے کہا کہ وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ووٹر لسٹ میں اندراج کے کام کے لئے آمادہ کریں اور حتی المقدور اس کام میں ان کی مدد کریں۔

تریپورہ واقعہ میں مجرموں پر کارروائی کرنے کےلئے مسلم کمیونٹی اٹارسی نے وزارت داخلہ کے نام ایس ڈی ایم کو دیا میمورنڈم

تریپورہ واقعہ میں مجرموں پر کارروائی کرنے کےلئے مسلم کمیونٹی اٹارسی نے وزارت داخلہ کے نام ایس ڈی ایم کو دیا میمورنڈم

ہوشنگ آباد 06 نومبر (بی این ایس) کل 5 نومبر بروز جمعہ اٹارسی مسلم کمیونٹی کے لوگوں نے عارف خان (ضلع کانگریس سکریٹری) کی قیادت میں وزارت داخلہ کے نام ایک میمورنڈم ایس ڈی ایم صاحب اٹارسی کو پیش کیا۔ محمد فیروز خان چشتی نے بتایا کہ تریپورہ میں چند روز قبل مسلم کمیونٹی کے لوگوں کے گھروں اور مساجد کو نذر آتش کیا گیا اور پیغمبر اسلام کے خلاف نازیبا کلمات بولے گئے جو کہ سراسر غلط ہے۔ اس میں قصورواروں کے خلاف سخت ترین قانونی کارروائی کی جائے۔ عارف خان (کانگریس ضلع سکریٹری) نے کہا کہ ہمارا ملک بھارت ہمیشہ بھائی چارے کی علامت رہا ہے۔ یہاں تمام ہندو مسلم لوگ ایک دوسرے کے ساتھ پیار سے رہتے ہیں۔تریپورہ میں ہمارے ملک کے امن کو خراب کرنے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف فوری طور پر سخت کارروائی کی جانی چاہیے۔ میمورنڈم دینے والوں میں عیدگاہ مسجد صدر حبیب احمد خطری، تنظیم اصلاح المسلمین کے صدر فیروز خان چشتی، کانگریس کے ضلع سکریٹری عارف خان، چھنو بھائی، شیخ شکیل، امیر شالو، مولانا اعظم صاحب، مولانا توفیق رضا، شاکر رضا نوری صاحب، حفیظ مختار صاحب شامل تھے۔


قرآن کریم پڑھنے اور پڑھانے والے اللہ کے محبوب بندے ہیں

قرآن کریم پڑھنے اور پڑھانے والے اللہ کے محبوب بندے ہیں

ارحم نظمی کے تکمیل قرآن کریم کے موقع پر منعقد تقریب میں مفتی وقاص ہاشمی کاخطاب
دیوبند،6؍ نومبر(سمیر چودھری؍اردودنیانیوز۷۲)
محلہ ابوالمعالی میں واقع مدرسہ مدینۃ العلم میں تقریب ختم کلام اللہ کے موقع پر منعقدہ مجلس سے خطاب کرتے ہوئے مفتی وقاص ہاشمی نے قرآن کریم کی عظمت اور افضیلت پر روشنی ڈالی۔ کفیل الرحمن نظمی کے بیٹے ارحم نظمی کے کلام اللہ مکمل کرنے کی تقریب میں انہوںنے کہا کہ قرآن کی تعلیم دینے والا اور حاصل کرنے والا دونوں کا ہی اللہ کے محبوب بندوں میں شمار ہوتا ہے ۔ انہوںنے حاضرین کی توجہ تعلیم اور دین کی طرف مبذول کراتے ہوئے کہا کہ آج ہماری جملہ پریشانیوں کا سبب دین سے دوری ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہمارے کتنے ہی بھائی بہن قرآن کریم تک پڑھنا نہیں جانتے ، نمازوںکی طرف ان کی توجہ نہیں ہے ، اللہ اور اس کے رسولؐ کے بتائے ہوئے راستے سے کوسوں دور ہیں۔ اسی واسطے امت مسلمہ پر چاروں جانب سے عرصہ حیات تنگ کیاجارہاہے۔ مفتی وقاص نے کہاکہ ہمیں اپنے عقائد اور اعمال کی درستگی کی فکرکرنی چاہئے ۔ جب تک دین کی محبت اور اس کے تئیں رغبت ہمارے اندر پیدا نہیں ہوگی اس وقت تک سیدھا راستہ نہیں ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ اپنے اندر قرآن سیکھنے ، دین سیکھنے اور نماز پڑھنے کا جذبہ پیدا کرنا ہوگا تبھی آنے والی نسلیں دینی ماحول میں تربیت پاسکیں گی ۔ اس موقع پر مدرسہ کے استاذ قاری مظاہر نے حاضرین سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے بچوں کو قرآن سیکھنے کے لئے مدارس اورمکاتب میں بھیجیں ۔ انہوں نے اسکول جانے والے طلبہ سے بھی مخاطب ہوکر کہاکہ اسکول سے فارغ وقت نکال کر قرآن کو سیکھنے کا اہتمام کریں ۔ اس موقع پر ربیع ہاشمی، عاطف ہاشمی، ذاکر ،راشد قیصر، حافظ نصر الٰہی، رفیع، عبداللہ راہی، مظہر نامی، فہمی، طلحہ وغیرہ موجود رہے۔


کھگڑیا میں زمین تنازع میں مارپیٹ ، 4 زخمی : زمین پر رکھی اینٹ ہٹانے گئے لوگوں پر پڑوسیوں نے کیا حملہ

کھگڑیا میں زمین تنازع میں مارپیٹ ، 4 زخمی : زمین پر رکھی اینٹ ہٹانے گئے لوگوں پر پڑوسیوں نے کیا حملہ

کھگڑیا، 6 نومبر۔کھگڑیا کے چترگپت نگر تھانہ علاقہ کے رابڑی نگر میں ہفتہ کی صبح دوفریقوں کے درمیان جم کر لاٹھی۔ ڈنڈے چلے۔ واقعے میں ایک گروپ کے چار افراد شدید طور سے زخمی ہو گئے۔ جن کا علاج صدر اسپتال کھگڑیا میں کیا جا رہا ہے۔ زخمیوں میںرابڑی نگر رہائشی چندر شیکھر داس کے بیٹے سدھاکر کمار (17)، پورن داس کے بیٹے سنتوش کمار (30) ، ا?نجہانی رگھونندن داس کے بیٹے راہل کمار (25)اور ا?نجہانی اوپندرداس کے بیٹے کشور داس (40) شامل ہیں۔

اینٹ ہٹانے کو لیکر ہوا تنازعہ واقعہ کے سلسلے میں زخمی سدھاکر کمار نے بتایا کہ ہفتہ کی صبح سات بجے وہ اپنی زمین پر رکھی اینٹ کو ہٹانے گئے تھے۔ اس کے بعد ان کے پڑوسی یوگیندر داس ، وکیل داس اور ان کے دیگر ساتھیوں نے ان سب پر لاٹھی اور ڈنڈے سے حملہ کر دیا۔ جس سے ان لوگوں کے سر پھٹ گئے۔

زخمی سدھاکر کا الزام ہے کہ ان کا پڑوسی یوگیندر داس سدھاکر کے گھر کے سامنے والی زمین پر ا پنا دعویٰ کرتا ہے۔ اس معاملے پر اکثر جھگڑے ہوتے رہتے تھے۔ وہیں سدھاکر کا کہنا ہے کہ جب وہ ہفتہ کی صبح اپنی زمین سے اینٹ لانے گیا تو ان لوگوں نے حملہ کر دیا۔

ادھر معاملے میں چترگپت نگر تھانہ انچارج سنجیو کمار نے کہا کہ واقعہ کی اطلاع ملی ہے۔ متاثرہ کی درخواست پر کارروائی کی جائے گی۔


اتحادِ امت- مذہبی فریضہ اور سماجی ضرورتمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹہ

اتحادِ امت- مذہبی فریضہ اور سماجی ضرورت
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹہ

عبد الرحیم دربھنگہویاتحاد امت، شرعی اور سماجی ضرورت ہے جب کہ اختلاف رائے کا وجود فطری ہے ، اس لیے ہم شرعی ضرورت کے پیش نظر اتحاد امت کے پابند ہیں اور فکر ونظر کے اختلاف کے باوجود اتحاد امت اور وحدت امت کو اپنی ایمانی اور اسلامی زندگی کا نصب العین سمجھتے ہیں، اختلاف کلمۂ واحدہ کے ماننے والوں کے درمیان عقائد کا ہویا فروعی مسائل کا ،ادارے تنظیموں، جماعتوں یا جمیعتوں کا ہویا افراد کے مابین، ان کو عملی زندگی میں برتنے کے کچھ شرعی اصول وحدود ہیں، حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی نور اللہ مرقدہ فرمایا کرتے تھے کہ اختلاف کی سر حدوں کو پہچاننا چاہیے ، احکام ومسائل کے بیان کرنے میں احتیاط سے کام لینا چاہیے۔
یہاں اس بات کو خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ اتحاد امت کا مطلب تمام مذاہب ومسالک کا ادغام یا تمام مذاہب ومسالک سے مشترکہ چیزوں کو لے کر نیا مذہب بنانا نہیں ہے ؛ بلکہ اتحاد امت کا مطلب اپنے مسلک ومذہب پر عامل رہتے ہوئے دوسرے مسلک ومذہب والوں کا احترام اور فروعی مسائل کو نزاعی بنانے سے اجتناب ہے ؛ اسی طرح اختلاف رائے سے مراد وہ اختلاف وافتراق ہے جو امت اجابت کے درمیان ہے ،امت دعوت یعنی غیر مسلموں سے اتحاد مراد نہیں ہے ۔
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ مسلمان ایک امت ہیں، ان کے اتحاد کی بنیاد کلمہ ، قبلہ، کتاب اور رسول کا ایک ہونا ہے ،ان کے علاوہ عقیدۂ آخرت ،دخول جنت وجہنم، نماز ، روزہ، حج وزکوٰۃ کی فرضیت ، جہاد اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی مشروعیت میں سبھی متحد ومتفق ہیں؛ اس لیے مسلمان ایک امت ہیں؛ بلکہ اللہ تعالیٰ نے تو دو آسمانی مذاہب کے ماننے والے یہودی اور نصرانی تک کو بعض امور مشترکہ کی وجہ سے ایک امت کہہ کر ان کے خلجان اور خدشات کو دور کیا ،جس کا حاصل یہ ہے کہ جو دین اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا اور انبیاء سابقین جس دین کے حامل رہے ، وہ ایک ہی دین، دین توحید ہے اور جس ملت کے داعی رہے وہ ملت اسلام ہے ، لوگوں نے پھوٹ ڈال کر اصل دین کو پارہ پارہ کر دیا اور الگ الگ راہیں نکال لیں، نفسانی خواہشات اور اتباع ہویٰ کی وجہ سے لوگ فرقوں اور ٹکڑوں میں بنٹ گیے اور ہر فرقہ اپنے کو اچھا اور دوسرے کو گھٹیا اور ذلیل سمجھنے لگا ، رسولوں کی واضح ہدایات کو پس وپشت ڈال کر دین کو بازیچۂ اطفال بنادیاگیا اورآج اپنے عقائد وخیالات کو اصل دین کی جگہ دے کرہر گروہ مسرور وشادماں اور اپنی غفلت ، ضلالت اور جہالت کے نشے میں سرشار ہے ۔واقعہ یہ ہے کہ اس امت میں جو اختلاف وانتشار وتفرقہ بازی ہے وہ بڑی حد تک یہود ونصاریٰ کے باہمی تفرقہ واختلاف کی طرح ہے اور جس سے اللہ رب العزت نے سختی سے منع کیا ہے ۔
ہم اس سے باز نہیں آئے تو جتنی مصیبتیں آئیں، تھوڑی ہیں، آلام ومصائب ، قتل وغارت گری سب ہمارے اس افتراق وانتشار کا شاخسانہ ہے ، اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں ان حالات کے سلسلے میں متنبہ کیا تھا ، لیکن ہم نے اس پر غورنہیں کیا ، اللہ رب العزت کا ارشاد ہے ؛آپ کہیے کہ اس پر بھی وہی قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب تمہارے اوپر سے بھیج دے یا تمہارے پاؤں تلے سے یاکہ تم کو گروہ گروہ کرکے سب کو بھڑا دے اور تمہارے ایک کو دوسرے کی لڑائی چکھادے ، آپ دیکھیے تو سہی، ہم کس طرح دلائل مختلف پہلوؤں سے بیان کرتے ہیں، شاید وہ سمجھ جائیں‘‘۔
لیکن ہم سمجھ نہیں سکے ، ہم الجھے او ر الجھتے چلے گیے ، معتزلہ اور خوارج کے جھگڑے تو اب قصۂ پارینہ بن چکے ہیں؛ لیکن شیعہ، سنی ،سلفی ، غیر سلفی ،دیو بندی ، بریلی، مذہبی اور غیر مذہبی ، اسلام پسند اور لبرل طبقوں کے اختلافات نے ہمارا جینا دو بھر کر دیا ہے ،یہ عذاب کی اندرونی اور داخلی قسم ہے ، جو پارٹی بندی ، باہمی جنگ وجدال اور آپس کی خوں ریزی کی شکل میں امت مسلمہ پر مسلط ہے ، پورے عالم اسلام اور خود ہندوستان میں اس اختلافات کی وجہ سے جنگ وجدال ہی نہیں، قتل وغارت گری تک کی نوبت آگئی ہے ، مسجدوں میں بندوقیں چل رہی ہیں،پڑوسی ملک میں ہزاروں لوگ مارے جا چکے ہیں ، شام ، عراق یمن وغیرہ میں کئی لاکھ لوگ اپنے ملک اور علاقہ کو چھوڑ کر پناہ گزیں کیمپوں میں ہیں اور خانہ بدوشی کی زندگی گذار رہے ہیں ، ان کی بنیادی انسانی ضرورتیں بھی پوری نہیں ہو پا رہی ہیں، بہت سارے ملک ان کو پناہ بھی دینے کو تیار نہیں ہیں، ماضی میں کئی ملکوں کی سرحدوں سے انہیں کھدیڑا گیا اور کئی کشتیاں غرق آب ہو گئیں اور اس پر سوار پناہ گزیں سمندر کی کوکھ میں سما گیے ،بعض بچے کوپانی نے ساحل سمندر پر ڈال دیا اور بعض کی لاشوں کا پتہ نہیں چل سکا اور ہمیں اب بھی ہوش نہیں آ رہا ہے ۔
 اصلاً دین ایک ہے اور امت مسلمہ بھی ایک ہے ، نسلی ، لسانی،مسلکی اختلافات اور ملکوں کی سرحدوں کا کلمہ ٔ واحدہ اور دین کی بنیاد پر متحد ہونا امر مستبعد نہیں ہے ، اللہ نے دین کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے کا حکم دیا ہے جس قدر اس میں مضبوطی آئے گی ، اختلاف وانتشار دور ہوں گے ۔
واقعہ یہ ہے کہ اعتصام بحبل اللہ اور افتراق سے اجتناب؛ یہ اتحاد امت کی دو قرانی بنیادیں ہیں، ان بنیادوں سے گریز، ان اختلافات کوجنم دیتا ہے جو مذموم ہیں، اور جن کی وجہ سے ملت میں انتشار پیدا ہو گیا ہے ،’’ حبل اللہ‘‘ سے مراد بعضوں نے دین اور بعضوں نے قرآن کریم لیا ہے ، مقصود ایک ہی ہے ، آج مسلمانوں کے درمیان جو افتراق وانتشار ہے ، وہ قرآن کریم احادیث رسول اور شریعت مطہرہ سے دوری کا نتیجہ ہے ، اگر قرآن کریم ہماری زندگی میں آجائے اور وہ ہمارے سارے اعمال کا محور بن جائے تو اس امت کو ایک امت بننے سے نہیں روکا جا سکتا اور فروعی اختلافات اتحاد کے راستے میں رکاوٹ نہیں بنیں گے ۔
اختلافات قرونِ اولیٰ میں بھی تھے ، لیکن یہ آپسی مخالفت ، بغض وعناد ،کینہ کدورت اور جدال وقتال کی بنیاد نہیں بنتے تھے ، خود صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے جزوی اور فروعی مسائل میں اختلافات منقول ہیں، حضرت عائشہؓ غسل میں عورتوں کے جوڑا کھولنے کی قائل نہیں تھی اور اوپر سے پانی بہانا وہ بھی تین چلو کافی سمجھتی تھیں، بعض صحابہ سماع موتیٰ کے قائل تھے ، بعض مُردوں پر نوحہ کرنے سے مُردے پر عذاب کی بات کہا کرتے تھے ، جبکہ بعض دوسروں کا استدلال وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃً وِزْرَ اُخْرَیٰ(النجم : ۸۳) یعنی کسی دوسرے کابوجھ کوئی اٹھانے والا نہیں اٹھاتا،سے تھا کہ دوسرے کے گناہ کا بوجھ مُردے پر نہیں ڈالا جا سکتا ؛ کیونکہ ہر ایک کو اپنی اپنی جواب دہی خود کرنی ہوگی؛ ان اختلافات کے باوجود ایک دوسرے پر اعتماد اور ایک دوسرے کے احترام میں کبھی کوئی فرق نہیں آیا؛ بلکہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیکم اجمعین کے درمیان ہونے والے اختلافات باعث رحمت سمجھے جاتے تھے ، اس لیے کہ اس کی وجہ سے عمل کے دائرہ میں وسعت پیدا ہوتی تھی ۔
یہیں سے یہ بات بھی ثابت ہو گئی کہ شیعہ سنی کے بعض اختلافات اور تنازعات بنیادی اور اساسی ہونے کے باوجود اور شیعوں کے بعض فرقوں خارج ازاسلام اور بعض کے گمراہ قرار دینے کے باوجود کسی فریق کی طرف سے بے دریغ قتل وغارت گری، بد ترین جنگ وخوں ریزی کی اجازت شریعت اسلامیہ نہیں دیتی، ایک دوسروں کی مساجد، ادارے اور اہم مذہبی شخصیات کی توہین وقتل اسلامی مزاج سے میل نہیں کھاتا، اس لیے عالم اسلام کے مختلف ملکوں میں شیعہ سنی آویزش کو ختم کرنے اور بقاء باہم کے اصول کی روشنی میں میثاق مدینہ کو سامنے رکھ کر صلح وآشتی کا معاہدہ کرنا چاہیے ، اس معاملہ میں اصحاب فکر ودانش اور عام مسلمانوں کی اپنے حلقہ ٔ اثر میں کام کی استطاعت کے اعتبار سے الگ الگ ذمہ داری ہے ، علماء امن وآشتی کی راہ ہموار کرنے میں کلیدی رول ادا کریں اور عوام اپنے جذبۂ سمع وطاعت سے اس مہم کو کامیابی سے ہم کنار کریں۔
جیسا کہ اوپر عرض کیا جا چکا ہے ، جن ملکوں میں سنی اور شیعہ کی مشترک آبادیاں ہیں، وہ اپنے اپنے مسلک ومذہب پر عمل کریں اور بقاء باہم کے اصول پر کوئی معاہدہ کرلیں، شریعت نے پڑوسیوں ، ضعفاء اور انسانوں کو جو حقوق بحیثیت انسان عطا کیا ہے ، اس کا پاس ولحاظ رکھیں تو باہمی منافرت اور جنگ وجدال کو روکا جا سکتا ہے ؛چونکہ مختلف ملکوں کے احوال الگ الگ ہیں،اس لیے وہاں کے احوال کے واقفین علماء ومذہبی پیشواؤں کو اصول وآداب بنانے چاہیے ، در اصل علماء کے اختلاف کا ہی یہ سب شاخسانہ ہے ، عوام پہلے بھی علماء کی مانتی تھی اور اب بھی ماننے کو تیار ہے ۔
 حضرت امیر شریعت سادس مولانا سید نظام الدین صاحبؒ فرمایا کرتے تھے کہ امت کا اتحاد علماء کے اتحاد پر موقوف ہے ، علماء اور مذہبی پیشوا جب تک کسی بات پر اور کسی معاہدہ پر متفق نہیں ہوں گے ، یہ سلسلہ دراز ہوتاہی رہے گا، یہ سارے معاملات اور چپقلش کی وجہ یہ ہے کہ اب لوگوں نے ’’بقاء باہم‘‘ کے بجائے ’’تنازع للبقائ‘‘ کو محور ومرکز مان لیا ہے ، اسی لیے ہر بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو نگل جانا چاہتی ہے اور اپنے خلاف قوتوں سے مزاحم ہو کر اپنے وجود کو مستحکم رکھنے کے لیے کوشاں رہتی ہے ، اس لیے علماء کو عوام کے ذہن سے یہ بات نکال کر ’’بقاء باہم‘‘ کی اہمیت اجاگر کرنی ہوگی اور بتانا ہوگا کہ جنگ تو خود ایک مسئلہ ہے ، یہ مسئلہ کا حل کیا نکالے گی، خون کسی کا بہے ، نسل انسانی کا خون ہے آخر، سب کو سمجھانا ہوگا تبھی مختلف مذاہب اور مسلک کے لوگ پر امن زندگی گذار سکیں گے ؛ ورنہ برتری او رقبضہ کی جنگ میں سب کچھ خاکستر ہوتا چلا جائے گا، اس کا مطلب حق کے لیے جہاد سے انکار نہیں ہے ، جہاد کے جو شرائط شریعت میں مذکور ہیں اس کی ان دیکھی کرکے لڑی جانے والی جنگ کو جہاد قرار دینا شرعی طور پر صحیح نہیں ہے ، اس لیے اختلاف رائے کے باوجودہم سب کو ایک امت بن کر رہنا ہے ۔
 فروعی مسائل میں الجھنے اور ایک دوسرے کو بڑا بھلا کہنے اور قتل کرنے کے بجائے وحدتِ امت کے اسلامی تصور کو عام کیا جائے اور مختلف طبقات سے گذارش کی جائے کہ وہ اس حقیقت کو مان کر چلیں کہ مسلک عمل کے لئے ہے اور دین اسلام دعوت وتبلیغ کے لئے ۔

ایمیزون سے پاسپورٹ کور کا آرڈر کرنے پر کمپنی نے کور کے ساتھ کسی اور کا پاسپورٹ بھیج دیا

ایمیزون سے پاسپورٹ کور کا آرڈر کرنے پر کمپنی نے کور کے ساتھ کسی اور کا پاسپورٹ بھیج دیا

نئی دہلی _ کیرالہ کے وایناڈ ضلع میں ایک کامرس کمپنی کی جانب سے سنگین لاپرواہی کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ یہاں پر ای کامرس کمپنی ایمیزون نے ایک شخص کو پاسپورٹ کور کا آرڈر کرنے پر اسے پاسپورٹ کور کے ساتھ کسی اور کا اصلی پاسپورٹ بھی بھیج دیا۔

پہلے تو اس شخص نے اسے ڈمی پاسپورٹ سمجھا لیکن بعد میں جب اس نے غور سے دیکھا تو اس شخص کے ہوش اڑ گئے۔کیونکہ یہ ایک اصلی پاسپورٹ تھا تفصیلات کے مطابق ضلع وایناڈ کے کنیامبیٹا گاؤں کے رہنے والے متھن بابو نے 30 اکتوبر کو ای کامرس کمپنی ایمیزون سے پاسپورٹ کور کا آرڈر کیا تھا۔ دو دن بعد پاسپورٹ کور کی ہوم ڈیلیوری کمپنی کی جانب سے ان کے گھر پر کی گئی لیکن کور کے ساتھ اصلی پاسپورٹ بھی موجود تھا۔ متھن بابو نے پہلے تو اسے ڈمی پاسپورٹ سمجھا، لیکن جب اس نے اسے غور سے دیکھا تو یہ پڑوسی ضلع تھرسور کے محمد صالح نامی شخص کا تھا۔

متھن بابو نے کے مطابق محمد صالح نے پہلے ایمیزون سے پاسپورٹ کور کا آرڈر دیا تھا لیکن اس کے بعد شاید صالح نے کور میں پاسپورٹ رکھ کر دیکھا اور اسے کور پسند نہیں آیا۔جس پر اس نے اسے واپس کر دیا۔ اس دوران وہ اپنا پاسپورٹ نکالنا بھول گیا۔اور کمپنی نے یہ آرڈر متھن بابو کو بھیج دیا۔

میڈیا سے بات کرتے ہوئے متھن بابو نے بتایا کہ جب انہوں نے یہ اطلاع کمپنی کے کسٹمر کیئر کو دی تو جواب آیا کہ وہ آئندہ اس کا خیال رکھیں گے۔ اس کے بعد اس نے دستاویز پر دیے گئے پتے کی بنیاد پر پاسپورٹ کے مالک محمد صالح سے رابطہ کیا اور پاسپورٹ ان کے حوالے کر دیا۔


اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...