Powered By Blogger

پیر, نومبر 29, 2021

علی سردار جعفری کے یوم پیدائش پر خصوصی تحریر،تحریر - خرّم ملک كيتھویپٹنہ، بہار،آج ہی کے دن29 نومبر 1913 کو علی سردار جعفری اترپردیش کے گونڈہ ضلع کے بلرامپور میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے لکھنؤ میں ایک مذہبی ماحول میں پرورش پائی تھی۔ تعلیمی اعتبار سے انہوں نے لکھنؤ یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا

علی سردار جعفری کے یوم پیدائش پر خصوصی تحریر،

تحریر - خرّم ملک كيتھوی
پٹنہ، بہار،
آج ہی کے دن29 نومبر 1913 کو علی سردار جعفری اترپردیش کے گونڈہ ضلع کے بلرامپور میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے لکھنؤ میں ایک مذہبی ماحول میں پرورش پائی تھی۔ تعلیمی اعتبار سے انہوں نے لکھنؤ یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا 

علی سردار جعفری کا شمار ترقی پسند ادبی تحریک سے وابستہ اردو کے عظیم شاعروں میں ہوتا ہے، وہ بہ یک وقت ایک اچھے شاعر اور نقاد کی حیثیت سے ادب میں پہچانے گئے، وہ بے مثال مقرر ہیں، سیاسی رہنما بھی اور ادبی نظریہ ساز بھی،
وہ بنیادی طور پر نظم کے شاعر تھے لیکن انہوں نے غزلیں بھی کہیں، وہ سادہ گو اور سلیس شاعری کے دلدادہ رہے، رفعت سروش انکی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں 
"سردار جعفری عنفوان شباب میں اپنے اس شعر کے ساتھ مطلع شاعری پر طلوع ہوئے،
"دامن جھٹک کے منزل غم سے گزر گیا
اٹھ اٹھ کے دیکھتی رہی گرد سفر مجھے"
کہا جاتا ہے کہ وہ آٹھ سال کی عمر میں انیس کے مرثیے کے 1000 اشعار پڑھ سکتے تھے، 
انہوں نے مختصر کہانیاں بھی لکھیں، 
انہوں نے شکسپیئر کے کچھ ڈراموں کا بھی ترجمہ کیا، 

 ترقی پسند تحریک میں سب سے پہلا نام سجاد ظہیر کا آتا ہے لیکن علی سردار جعفری ترقی پسند تحریک کے روحِ رواں کی حیثیت کے طور پر جانے جاتے ہیں، 

وہ خود کہتے ہیں کہ:
"تحریک، تنظیم اور تخلیق کا باہمی رشتہ ہے، 

وہ ملک میں امن و شانتی کی فضا بھی قائم کرنا چاہتے تھے
نغمہ نگار کے طور پر انکے مختصر کاموں میں دھرتی کے لال 1946 اور پردیسی 1957 شامل ہیں،
1948 سے 1978 کے بیچ انکے شعری مجموعے شائع ہوئے ہیں
1- نئی دنیا کو سلام (1948)
2-خون کی لکیر، امن کا ستارہ, ایشیا جاگ اٹھا (1951)
3-پتھر کی دیوار (1953)
4- ایک خواب اور, پیراہن شرر (1965)
5- لہو پکارتا ہے (1965)
انہیں اسکے علاوہ اودھ کی خاک حسین، صبح فردا، میرا سفر اور انکے آخری شعری مجموعے"سرحد" جسے اس وقت کے وزیراعظم جناب اٹل بہاری واجپائی نے اپنے لاہور سفر کے دوران رکھا تھا، وزیراعظم نے سردار جعفری صاحب کو بھی اپنے ساتھ چلنے کو کہا لیکن علالت کی وجہ سے وہ لاہور سفر میں شرکت نہیں کر سکے،

ایوارڈز اور احترام

فراق گورکھپوری (1969) اور قرت العین حیدر(1989) کے بعد گیان پیٹھ ایوارڈ (1997) کو  حاصل کرنے والے وہ صرف تیسرے اردو شاعر تھے. انہوں نے پدم شری  (1967)، جواہر لال نہرو فیلوشپ (1971)، سمیت کئی دیگر اہم اعزازات اور اعزاز بھی وصول کیے تھے،  پاکستان حکومت اقبال مطالعہ (1978) کے لئے گولڈ تمغے (1978)، اترپردیش اردو اکیڈمی ایوارڈ کے لئے شاعری، مخدوم ایوارڈ، فیض احمد فیض ایوارڈ، مدھیہ پردیش حکومت سے اقبال سمان ایوارڈ اور مہاراشٹر حکومت سے سینٹ دیوانشور ایوارڈ بھی حاصل کیا،

انکی شاعری وہ شاعری ہے جو رہتی دنیا تک قائم و دائم رہے گی جب تک اردو ادب سے محبت کرنے والے زندہ رہیں گے تب تک انکو سردار جعفری یاد آتے رہیں گے، انکی شاعری کا کینوس بہت وسیع ہے جو انکو ادب کی دنیا میں تا حیات زندہ جاوید رکھے گی
آپ 1948 میں سلطانہ منہاج سے رشتہِ ازدواج میں منسلک ہوئے،

آپ 1 اگست 2000 کو حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے اس دار فانی سے کوچ کر گئے،

ڈاکٹر ممتاز احمد خان کی رحلت - ملی تعلیمی تحریک کا بڑا نقصانمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہعلی گڈھ مسلم یونیورسٹی کے سابق پرووائس چانسلر، بابائے تعلیم، الامین تعلیمی تحریک ، الامین ایجوکیشنل سوسائٹی، الامین میڈیکل کالج ، بیجا پور، الامین لا کالج اور الامین اسکول بنگلورو کے بانی وقائد ڈاکٹر ممتاز احمد خان تقریبا پچاسی سال اس دنیا میں گزار کر ۲۷؍ مئی ۲۰۲۱ء کو سفر آخرت پر روانہ ہو گئے

ڈاکٹر ممتاز احمد خان کی رحلت - ملی تعلیمی تحریک کا بڑا نقصان
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
علی گڈھ مسلم یونیورسٹی کے سابق پرووائس چانسلر، بابائے تعلیم، الامین تعلیمی تحریک ، الامین ایجوکیشنل سوسائٹی، الامین میڈیکل کالج ، بیجا پور، الامین لا کالج اور الامین اسکول بنگلورو کے بانی وقائد ڈاکٹر ممتاز احمد خان تقریبا پچاسی سال اس دنیا میں گزار کر ۲۷؍ مئی ۲۰۲۱ء کو سفر آخرت پر روانہ ہو گئے، انہوں نے زندگی کو پل پل جیا، اور سن شعور کے بعد پوری زندگی مسلمانوں کے اندر تعلیم کو عام کرنے، عصری تعلیم کو فروغ دینے میںلگادی اور الامین کا شہرہ ملک وبیرون میں پھیل گیا ، درازی عمر اور ضعف وناتوانی کی وجہ سے ادھر کچھ دنوں سے وہ الامین کے کاموں میں سر گرم حصہ داری نہیں نبھا رہے تھے، جس کا ان کو انتہائی افسوس تھا، زندگی بھر کام کرنے والا اگر کسی وجہ سے معذورسا ہو گیا ہو تو اس کی گھٹن اور اس کا کرب دیدنی ہوتا ہے، ڈاکٹر صاحب کی بھی یہی حالت تھی، چند ہفتوں سے ان کی بیماری نے شدت اختیار کر لی تھی ، اچ بی ایس اسپتال میں علاج کے بعد دو تین دن قبل ہی وہ گھر لوٹے تھے، لیکن زندگی نے ساتھ نہیں دیا اور قضا وقدر نے اپنا کام کر دیا۔ تدفین ان کی وصیت کے مطابق الامین رہائشی اسکول ہوسکوٹے کے احاطہ میں مسجد ممتاز سے قریب عمل میں آئی، بعد نماز جمعہ مسجد ممتاز سے متصل جنازہ کی نماز ادا کی گئی ۔
ڈاکٹر ممتاز احمد خان ۶؍ ستمبر ۱۹۳۵ء میں پونے مہاراشٹر میں پیدا ہوئے، ان کے والد کا نام یوسف اسماعیل خان اور ان کی والدہ کا نام سعادت النساء تھا، جنہوں نے علی گڈھ مسلم یونیورسٹی سے بی اے تک تعلیم حاصل کی تھی ، والد لایر (وکیل) تھے، ان کی تعلیم بھی علی گڈھ میں ہی ہوئی تھی،انہوں نے پرائمری اسکول کی تعلیم آل سینٹ پرائمری اسکول تروچی راپلی تمل ناڈو اور ہائی اسکول کی تعلیم بشپ ہیبر ہائی اسکول پتورتروچراپلی تمل ناڈو اور پی یو سی کی تعلیم سینٹ جوزف کالج ترچی رابلی سے پائی،انہوں نے اسٹائلی میڈیکل کالج مدراس یونیورسٹی سے ۱۹۶۳ء میں ام بی بی اس اور اسٹائل کالج چنئی سے سر جری میں ام اس کیا تھا، انہوںنے شروع کے دو سال معالج کی حیثیت سے خدمت انجام دی، لیکن جلد ہی تعلیمی کاموں سے اس طرح جڑ گئے کہ ان کے لیے مریضوں کو دیکھنے کے لیے وقت نکالنا مشکل ہو گیا، چنانچہ پورے طور پر انہوںنے اپنے کو الامین تعلیمی تحریک کے لیے وقف کر دیا ، ۱۹۶۶ء میں جب ان کی عمر صرف اکتیس سال تھی ، جنوبی ہند میں تعلیمی انقلاب پیدا کرنے کے لیے الامین سوسائٹی قائم کیا، اس تحریک کے تحت ایک سو ستہتر سے زائد تعلیمی ادارے ملک بھر میں چل رہے ہیں، وہ صحافت کے میدان میں بھی انقلاب لانا چاہتے تھے، اس نقطۂ نظر سے انہوں نے سیاست حیدر آباد کو فروغ دیا اور اس کو ملک کے بڑے اخباروں میں لا کھڑا کرنے میں کلیدی رول ادا کیا۔
۲۷؍ دسمبر ۱۹۶۴ء کو بنگلورکی محترمہ زریں تاج صاحبہ سے وہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے لڑکی اور ایک لڑکا اللہ نے عطا کیا، سب کی اچھی تعلیم وتربیت ڈاکٹر صاحب نے کی اور وہ سب مختلف میدانوں میں سرگرم عمل ہیں۔
 ڈاکٹر ممتاز احمد خان نے پوری زندگی ہر سطح پر تعلیم کے فروغ میں لگادی ، وہ جنوبی ہند کے سر سید کہے جاتے تھے، انہیں کئی بار پارلیامنٹ کا ٹکٹ اور راجیہ سبھا کی رکنیت پیش کی گئی، لیکن انہوں نے صاف انکار کر دیا انہوں نے فرمایا کہ میں پورے ہندوستان میں کا م کرنا چاہتا ہوں، کسی خاص حلقہ میں محدود ہوجانا میرے لیے ممکن نہیں، یہ بڑے دل گردے کی بات تھی، اس کے قبل انہوں نے اچھی خاصی ملازمت سے استعفا دے دیا تھا، وہ تعلیم کے کام کو آگے بڑھانے کے لئے جنون میں مبتلا تھے، اور اس کام کے لیے کسی حد تک جانے کو تیار تھے، وہ خالص اسلامی ذہن ودماغ رکھتے تھے، صوم وصلوٰۃ کے پابند تھے اور مسجد کے بلند وبالا مینار اور تقدس ان کے دل ودماغ میں اس قدر جا بستے تھے کہ انہوں نے رہائشی اسکول کے احاطہ میں اپنی آفس ایسی جگہ بنائی تھی ، جہاں سے مسجد ان کی نظر کے سامنے ہو، انہوں نے اپنے ذریعہ قائم تعلیمی اداروں میں اسلامی ماحول اور دینیات کی تعلیم کا معقول نظم کیا اور ان کی تربیت پر خصوصی توجہ دی۔
 وہ ایک تعمیری ذہن کے مالک تھے، فرمایا کرتے تھے کہ بندہ جب اپنی تلاش میں تھک جاتا ہے تو اللہ کی نصرت ومدد ضرور آتی ہے، اس لیے راستے کے نشیب وفراز کو دیکھنے کے بجائے ہمیشہ منزل پر نظر رکھنی چاہیے، یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ کام کون کر رہا ہے ، بلکہ یہ دیکھنا چاہیے کہ کام کیا ہو رہا ہے ، ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ وسائل واسباب کی کمی سے کام نہیں رکتا، کام میں رکاوٹ صرف خلوص کی کمی سے آتی ہے، اس لیے کہ جہاں خلوص ہو وہاں فلوس (پیسہ) آہی جاتا ہے،ا س لیے خدا کے غیبی خزانے پر نگاہ رکھو اپنی جیب کی استطاعت نہ دیکھو ، یہ اور اس قسم کے دوسرے بہت سارے اقوال پر وہ خود بھی عمل کرتے تھے، اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرتے رہا کرتے تھے۔
میری ان سے بہت ملاقات اور شنا سائی نہیں تھی، صرف دو ملاقات تھی، جس میںگفتگو کم دیدن زیادہ ہوا تھا، پہلی ملاقات بنگلور ہی میں الامین میں ہوئی تھی ، میرا یہ سفر جامعہ دار السلام عمر آباد میں منعقد ہونے والے فقہی سمینار کے موقع سے تھا، تھوڑا وقت انہوں نے علمائ، فقہاء کے ساتھ گذارنے کی دعوت دی تھی، اور ہم لوگ بصد شوق وہاں حاضر ہو گیے تھے اور ان کے خیالات کو براہ راست سننے کا پہلی بار موقع ملا تھا۔ 
 دوسری ملاقات پٹنہ میں ہوئی تھی ، غالبا یہ سفر ان کا تعلیمی کارواں کے ساتھ ہوا تھا، جس میں سید حامد، سلمان صدیقی، امان اللہ خان کے علی گڈھ کے ساتھ وہ بھی تشریف لائے تھے، پروگرام کرشن میموریل ہال میں تھا، اور بہت کامیاب رہا تھا ، اس ملاقات میں میرے لیے صرف مصافحہ کر لینا ممکن ہوا تھا، پھر ان کی تقریر نے دل ودماغ کے دروا زے پر دستک دی، اس دستک کی وجہ سے تعلیمی میدان میں کام کو آگے بڑھانے کا حوصلہ ملا تھا۔
 ایسی با فیض شخصیت کا دنیا سے چلا جانا بڑا تعلیمی وملی نقصان ہے۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ان کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور ملت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔ آمینیا رب العالمین

اتوار, نومبر 28, 2021

بچوں کے خلاف سائبر جرائم مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہنیشنل رکارڈس بیورو (ان سی آر بی) کی رپورٹ کے مطابق بچوں کے خلاف سائبر جرائم میں چار سوفی صد کا اضافہ ۲۰۲۰ئ؁ میں درج کیا گیا ہے، جن میں ستاسی (۸۷) فی صد واقعات نابالغوں کے ساتھ جنسی ہراسانی اور استحصال کے ہیں،

بچوں کے خلاف سائبر جرائم 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ نیشنل رکارڈس بیورو (ان سی آر بی) کی رپورٹ کے مطابق بچوں کے خلاف سائبر جرائم میں چار سوفی صد کا اضافہ ۲۰۲۰ئ؁ میں درج کیا گیا ہے، جن میں ستاسی (۸۷) فی صد واقعات نابالغوں کے ساتھ جنسی ہراسانی اور استحصال کے ہیں، اعداد وشمار کے مطابق ۷۳۸ معاملات اس قسم کے تھے، جب کہ بچوں کے خلاف جرائم کی کل تعداد ۸۴۲ تھی، ۲۰۱۹ئ؁ میں صرف ۱۶۴ مقدمات درج ہوئے تھے جو ۲۰۲۰ئ؁ کے مقابل چار سو تیرہ (۴۱۳) فی صد کم تھے ۱۸-۲۰۱۷ئ؁ کی بات کریں تو یہ تعداد صرف ۱۷۹ اور ۱۱۷ تھی، بچوں کے خلاف آن لائن جرائم میں علی الترتیب اترپردیش کرناٹک (۱۴۴) مہاراشٹرا (۱۳۷) کیرالہ (۱۰۷) اور اڈیشہ (۷۱) پورے ملک میں سرفہرست ہیں۔
چائلڈرائٹس اینڈیو (سی آرواری) کی سی ای او یوما ماروا نے اپنے ایک تجزیہ میں کہا کہ انٹرنیٹ پر زیادہ وقت گذارنے کی وجہ سے بچوں کے خلاف جرائم میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے، بچے انٹرنیٹ کے ذریعہ جرائم پیشہ کے رابطے میں آتے ہیں، فحش پیغامات کا آپس میں تبادلہ ہوتا ہے، چڑھتی عمر کے بچوں کے لئے دھیرے دھیرے یہ محبوب مشغلہ بن جاتا ہے اور جرائم پیشہ ان بچوں کا استحصال شروع کرتے ہیں، معاملہ یہاں تک بڑھ جاتا ہے، کہ بچوں کے لئے نہ جائے رفتن، نہ پائے ماندن والی بات ہو جاتی ہے، جرائم میں اگر وہ ان کو ساتھ نہیں دے پاتے تو بلیک ملنیگ کی دھمکیاں ملنی شروع ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے بچے نفسیاتی طورپر پریشان ہوتے ہیں۔
ظاہر ہے اب تو تعلیم بھی آن لائن ہو رہی ہے، اس لئے اسمارٹ فون ۸۔۵۳ فی صد گھروں  میں پہونچ چکا ہے اور سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کی بہ نسبت نجی اسکولوں میں پڑھنے والے بچے اس کا زیادہ استعمال کر رہے ہیں، اس جائزہ کے مطابق اسی (۸۰) فی صد ایسے بچوں کے پاس اسمارٹ فون ہے جن کے والدین تو نویں، دسویں سے آگے نہیں اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکے تھے، ایسے والدین جن کی تعلیم پانچویں کلاس تک ہے، ان میں پچاس فی صد نے اپنے بچوں کو پڑھنے کے نام پر اسمارٹ فون دے رکھا ہے، پچیس فی صد گارجین وہ ہیں جنہوں نے تعلیم کے لئے ہی اسمارٹ خریدا، ایسے میں بچوں کو انٹرنیٹ سے دور نہیں رکھا جاسکتا جن تعلیمی اداروں میں انڈرائڈموبائل رکھنا اخراج کا سبب ہوتا تھا، وہاں موبائل بچوں کے ہاتھ دینا ان کی مجبوری ہو گئی ہے، ایسے میں بچوں کو سائبر جرائم سے بچانے کا صرف ایک طریقہ بچا ہے وہ یہ کہ اساتذہ گارجین بلکہ سماج بھی اس قسم کے جرائم اور حالات پر نگاہ رکھے اور اگر کوئی معاملہ سامنے آتا ہے تو فوری طورپر اس کے تدارک کی کوشش کرے۔

جمعہ کےخلاف کرکٹ،کیرتن اورجشن* گزشتہ کل کی بات ہے۔گروگرام دہلی کی یہ خبرہے،مسلمان جمعہ کی نماز کے لئے جمع ہیں، پچھلے پندرہ سال سے یہاں جماعت کرتے ہیں، پولس پرشاسن کی طرف سے کوئی پابندی بھی نہیں ہے، ابھی نماز شروع نہیں ہونی ہے،مگر کرکٹ کھیل شروع ہے، اس میچ کا انعقاد شرپسند عناصر نےکیا ہے،جمعہ کے خلاف یہ کھیل کیا گیا ہے، پولس تماشائی ہے، کوئی کچھ کہنے والا نہیں ہے

*جمعہ کےخلاف کرکٹ،کیرتن اورجشن* 
گزشتہ کل کی بات ہے۔گروگرام دہلی کی یہ خبرہے،مسلمان جمعہ کی نماز کے لئے جمع ہیں، پچھلے پندرہ سال سے یہاں جماعت کرتے ہیں، پولس پرشاسن کی طرف سے کوئی پابندی بھی نہیں ہے، ابھی نماز شروع نہیں  ہونی ہے،مگر کرکٹ کھیل شروع ہے، اس میچ کا انعقاد شرپسند عناصر نےکیا ہے،جمعہ کے خلاف یہ کھیل کیا گیا ہے، پولس تماشائی ہے، کوئی کچھ کہنے والا نہیں ہے، اور کوئی نمازیوں کی سننے والا بھی نہیں ہے۔بالآخر کسی طرح لوگوں نے ایک کنارے میں سمٹ کر بمشکل ظہر کی نماز ادا کی ہے،دوران نماز خوب خوب نعرے بازی بھی ہوئی ہے ۔
دوسراواقعہ شیتلا کالونی کاہے، یہاں توجمعہ کی نماز کے خلاف باضابطہ کیرتن کاپروگرام چل رہاہے۔ نمازی مایوس لوٹ آئے ہیں، نماز جمعہ جیسی عبادت سے محروم کئے گئے ہیں۔
یہ دونوں  واقعات افسوسناک ہیں۔مگر جمعہ کے خلاف کیرتن اور کرکٹ سے رکاوٹ کھڑی کرنے والے مسلمان نہیں ہیں،اور نہ اس جمہوری ملک کے معزز شہری ہوسکتے ہیں، یہ شرپسند عناصر ہیں،
نماز کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے، روز اول سے ہی اس آسمانی عبادت کے خلاف شیطانی رکاوٹ سامنے آتی رہی ہے۔اور کھیل تماشہ کے ذریعہ نماز سے اور بالخصوص اس کی جماعت کے انعقاد سے روکنے کی کوشش ہوتی رہی ہے۔نضربن حارث نے جو تماشہ اسلام کے ابتدائی ایام میں کھڑا کیا تھا،اس کی آج بھی اپنے ملک میں نقل کی جارہی ہے۔ان شاء اللہ العزیز یہ سب چلنے والا نہیں ہے، اس سے مسلمانوں کی امن پسندی اور اسلام کی صاف ستھری تصویر پوری دنیا میں جارہی ہے۔لوگ مذہب اسلام سے قریب ہوتے جارہے ہیں۔ان سے ہمیں کوئی نئی شکایت نہیں ہے۔بس باری تعالٰی سے دعا کیجئے کے بیسیوں مساجد گروگرام میں جومقفل ہیں، اللہ انہیں آباد کرے، مقامی مسلمانوں کی طرف سے کوششیں ہورہی ہیں، بقیہ کرکٹ کھیلنے والے کھیلتے رہیں، اور کیرتن کرتے والے بھجن گاتے رہیں، اس سے اسلام ومسلمان کا کچھ بھی بگڑنے والا نہیں ہے۔
جمعہ کے حوالہ سےآج اپنوں سےبھی ہمیں بات کرنی ہے۔اور خودکامحاسبہ بھی کرنا ہے۔ عنوان کا آخری حصہ جشن کا ہے،جس کا تعلق کسی غیر مسلم سے نہیں ہے،اورنہ کسی شرپسند عناصر سے ہے،یہ مسلمانوں سے جڑا معاملہ ہے،گزشتہ کل جہاں جمعہ کے خلاف کرکٹ میچ کھیلا گیا، کیرتن وبھجن کا پروگرا ہوا، وہیں بہار کے کثیر مسلم آبادی والا ضلع ارریہ کا جشن بھی ہے۔پنچایتی انتخاب کی جیت کی خوشی میں جمعہ کی جماعت ترک کردینا،اور اس جگہ پر جشن کرنا ہے۔یہ صاحب ایمان کے لئے بہت ہی تشویشناک امر ہے۔
جمعہ کی نماز اور جماعت کی اہمیت ہمارے دلوں سے بھی کم ہوتی جارہی ہے۔اس کا الزام ہم شرپسند عناصر کے کندھے پر ڈال کر راہ مفر اختیار نہیں کرسکتے ہیں۔
 قرآن کریم میں بڑی تاکید آئی ہے۔ایک موقع پر جب مدینہ میں اناج کی قلت  تھی، باہر سے ایک تجارتی قافلہ جمعہ کے وقت شہر میں داخل ہوا،نقارہ بجا،لوگ ادھر دوڑے،تو قران کریم میں اللہ نے اس پریہ آیتیں نازل کی یے،ارشاد ربانی ہے،ملاحظہ کیجئے:
اے ایمان والوجب اذان ہو نماز کی جمعہ کے دن تودوڑو اللہ کی یادکو اورچھوڑ دو خرید وفروخت کو یہ بہتر ہے تمہارے حق میں اگر تم کو سمجھ ہے، (سورہ جمعہ؛۹)
 آیت میں اس بات کی مسلمانوں کو تاکید کی گئی ہے کہ اذان جمعہ کا وقت غلہ کی طرف بھاگنے کا نہیں ہے بلکہ اللہ کی طرف دوڑنے کا یہ موقع ہے۔(یہاں دوڑنے سے مراد فقہا نے جمعہ کے لئے اھتمام اور مستعدی لی ہے)  اس سے یہ بات صاف ہے کہ دوسری مشغولیت جو جمعہ سے ہٹ کر ہے،صاحب ایمان کے لئے جائز نہیں ہے، خرید وفروخت کو بھی اس وقت ممنوع قرار دیا گیا ہےجب خطبہ جمعہ کے لئے اذان ہورہی ہے۔
 انتخابی جیت کےجشن کےلئے عین جمعہ کے وقت تماشہ کوئی گنجائش نہیں نکلتی ہے۔
آج انتخاب کو اگر کوئی کاروبار ہی کہتا ہے تو اس کی بھی اجازت اس وقت نہیں ہے۔دیکھنے والے ہمارے اس عمل کو بھی دیکھ رہے ہیں، اسی لئے بھی جمعہ کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کررہے ہیں کہ،جمعہ کی مسلمانوں کے یہاں بھی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔اس وقت ہمیں  ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے۔

ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 
رابطہ، 9973722710
27/نومبر 2021ء

ہفتہ, نومبر 27, 2021

دل پسند باتیں مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

دل پسند باتیں 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
 مولانا علی احمد قاسمی بن حضرت محمد یونس امین صاحب بانی ومہتمم جامعہ رشید العلوم امین نگر مہیش پور ڈاک خانہ تیلوا وایا مہشی ضلع سہرسا مدرسہ کے اہتمام اور دوسرے دینی وتعلیمی کاموں کے ساتھ تصنیف وتالیف کا ساف ستھرا ذوق رکھتے ہیں، ان کی کئی کتابیں مثلا آئینہ صالحین ، نادر کلام ، عربی محاورات، قیمتی اعمال کی نیکیاں، ملفوظات اولیائ، مواعظ تبلیغ، خطبات عالیہ، سفر عاقبت ، وقت کی اہمیت حدیث کی روشنی میں مطبوع، مقبول اور معروف ہیں۔
 ’’دل پسند باتیں‘‘ مولانا کی دسویں کتاب ہے ،ا س کا پہلا ایڈیشن ۲۰۱۸ء میں آیا تھا، دوسرا ایڈیشن بس آناہی چاہتا ہے، اس کتاب میں مولانا نے حکمت ودانائی کی باتوں کو ایک خاص انداز میں جمع کر دیا ہے ، یہ خیال ان کے دل میں ترمذی وابن ماجہ میں موجود اس حدیث کی وجہ سے پیدا ہوا، جس میں کہا گیا ہے کہ حکمت ودانائی کی بات صاحب حکمت اور دانا شخص کی گم شدہ چیز ہے، پس جہاں وہ پائے ، وہاں سے لینے کا وہ زیادہ حقدار ہے، بعض روایتوں میں الحکمۃ ضالۃ المؤمن کے الفاظ بھی آتے ہیں، جس سے ایمان والوں کی خصوصیت کا پتہ چلتا ہے ، مولانا نے اسے اپنی کتاب کا سرنامہ بنایا ہے ، کتاب کا انتساب والد مرحوم کے نام کیا ہے جو ان کی سعادت مندی پر دال ہے ، پیش لفظ فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ، تقریظ مولانا مفتی محمد جمال الدین قاسمی صدر مفتی وصدر المدرسین جامعہ اسلامیہ دار العلوم حیدر آباد اور حرف چند ڈاکٹر سید اسرار الحق سبیلی اسسٹنٹ پروفیسر وصدر شعبہ اردو گورمنٹ کالج سری پیٹ تلنگانہ کا ہے ، حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ نے لکھا ہے : 
’’زیر نظر کتاب میں مصنف نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر مختلف ادوار کے علماء ، صلحائ، صحابہ کرام اور تابعینعظام کے اقوال ونصائح کو نمبر وار ذکر کرنے کی کوشش کی ہے ، جو ہر طبقہ کے لوگوں کے لیے مفید چیز ہے ، مصنف کی یہ کوشش قابل قدر ہے ، کیوں کہ مختلف کتابوں اوررسائل سے مضامین کو منتخب کرکے جمع کرنا ایک مشکل کام ہوتا ہے ‘‘(ص ۳۰)
 مولانا مفتی محمد جمال الدین نے لکھا ہے کہ ’’دل پسند باتیں خضرراہ کا کام دے گی ، مؤلف نے مطالعہ کے سمندر میں غواصی کرکے قیمتی موتیاں ڈھونڈھ نکالی ہیں، اور کتابوں کا جگر چاک کرکے جواہرات کو اکٹھا کیا ہے ، اور چمنستان علم وعرفان سے رنگا رنگ پھولوں کو جمع کرکے ایک حسین گلدستہ تیار کیا ہے ۔‘‘ (ص ۳۲)
 ڈاکٹر سید اسرار الحق سبیلی نے لکھا ہے کہ ’’ان اقوال زریں سے شریعت کے بہت سے اسرار ورموز اور گتھیاں سلجھانے میں مدد ملے گی - مؤلف نے ان بکھرے اقوال کو یک جا کر کے اپنی علمی ذوق اور وسعت مطالعہ کا ثبوت دیا ہے۔‘‘ (ص ۳۵) خود مؤلف کا خیال ہے کہ ’’یہ جمع شدہ زریں کلمات وگراں قدر موتی وجواہرات ہیں جو بزرگان دین کی کتابوں کے صفحات کی سینوں میں مخفی تھے۔ یہ بیش بہا جواہرات دریا بہ کوزہ کے ساتھ خیر الکلام ماقل ودل کے مصداق ہیں۔ (ص ۳۶)
دوسو چودہ صفحات پر مشتمل یہ کتاب نو ابواب اور ایک متفرقات پر مشتمل ہے، پہلے باب کے تحت ذیلی عناوین درج نہیں ہیں، ہر باب کے تحت اس کے نمبر کے اعتبار سے احادیث واقوال درج کیے گیے ہیں، یہ سلسلہ دس تک پہونچتا ہے، یعنی دوسرے باب میں دو باتوں کا ذکر کیا گیا ہے ، تیسرے میں تین اور نویں میں دس باتوں کو نقل کیا گیا ہے ، ہر بات کے تحت بہت سارے اقوال نقل کیے گیے ہیں، کہنا چاہیے کہ یہ بکھرے موتی ہیں، جنہیں انتہائی سلیقہ سے اکابر کی کتابوں سے نکال کر اس کتاب میں جمع کر دیا گیا ہے ، یہ ورق ورق روشن ہے، جس پر عمل کرکے انسانی اور ایمانی زندگی روشنی کے تمام مراحل طے کر سکتی ہے۔ اور آدمی ایسی زندگی گذارنے پر قادر ہو سکتا ہے جو اللہ ورسول کو محبوب اور پسندیدہ ہیں، مؤمن کی سوچ وفکر کا مرکز ومحور یہی ہونا چاہیے کہ وہ اللہ کی رضا حاصل کرلے اور اسوۂنبی کو اپنا کر جنت کا مستحق ہوجائے۔
 کتاب کی کمپوزنگ سلیقے سے قبا گرافکس حیدر آباد نے کیا ہے ، طباعت ، کاغذ ، جلد اور بائینڈنگ بھی دل پسند ہے، ناشر امین لائبریری امین نگر ، مہیش پور سہرسا ہے، قیمت دو سو روپے کتاب کے تاجروں کے کمیشن کو سامنے رکھیں تو زائد نہیں ہے ، مطبع کا پتہ درج نہیں ہے، بعض جگہوں پر تعبیرات بدلنے کی ضرورت ہے ، مثلا پہلے باب کا آغاز اس جملہ سے ہوتا ہے کہ ’’اس باب میں وہ باتیں درج ہیں جو ایک ایک لفظ پر مشتمل ہیں‘‘ جو باتیں درج کی گئی ہیں، ان میں کئی کئی جملے ہیں، صحیح تعبیر یہ ہے کہ وہ باتیں درج ہیں، جن میں صرف ایک بات ، کام یا چیز کا ذکر کیا گیا ہے ۔
 کتاب میں جہاں سے جو بات لی گئی ہے اس کے حوالہ کا اہتمام کیا گیا ہے ، اگر ان کتابوں ، مصنفین اور جہاں سے وہ شائع ہوتی ہیں، اس کا ایک اشاریہ کتاب کے آخر میں دے دیا جاتا تو قارئین کو سہولت ہوتی اور حوالہ سے مکمل واقفیت ہوجاتی ، ابھی جو طرز اس کتاب میں موجود ہے ، اس سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ حوالہ والی کتابیں کن کی ہیں اور ان کی اہمیت کیا ہے ، ہم امید کرتے ہیں کہ اگلے اڈیشن میں اس کا اہتمام کیا جائے گا۔
 میں اس اہم کتاب کی تالیف پر مولانا علی احمد قاسمی کو مبارکباد دیتا ہوں، اللہ نے ان سے ایک اچھا کام لے لیا، دعا کرتا ہوں کہ اللہ اسے امت مسلمہ کی اصلاح کا ذریعہ بنا دے اور اسے قبول عام وتام حاصل ہو ، کتاب مؤلف کے پتہ سے مل سکتی ہے ، جو آغاز میں ہی درج کردیا گیا ہے ۔

گروگروام میں گرو سنگھ سبھا نے مسلمانوں سے کی گرودوارے میں نماز پڑھنے کی اپیل ، پیش کی بھائی چارہ کی مثال

گروگروام میں گرو سنگھ سبھا نے مسلمانوں سے کی گرودوارے میں نماز پڑھنے کی اپیل ، پیش کی بھائی چارہ کی مثالگرو گرام: مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر میں رکھنا... سائبر سٹی گروگرام میں ایک طرف کھلے میں نماز کی مخالفت ہو رہی ہے تو دوسری طرف بھائی چارے کو کیسے قائم رکھا جائے، اس کی کوشش بھی کی جارہی ہیں۔ گروگرام میں گرو سنگھ سبھا گروگرام نے سبھی مسلم بھائیوں سے گرودواروں میں نماز پڑھنے کی اپیل کرکے مثال پیش کی ہے۔ گرو سنگھ سبھا نے مہا پرو سے پہلے اپیل کرتے ہوئے کہا اگر مسلم بھائی چاہیں تو کووڈ ضوابط کے تحت ہمارے گرودواروں میں جمعہ کی نماز ادا کرسکتے ہیں۔ گرو سنگھ سبھا کے پردھان شیرگل سدھو نے کہا کہ یہ ہماری پہل، پہلی کوشش نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی امرتسر کے ہرمندر صاحب میں نماز ادا کی جاتی رہی ہے۔ واضح رہے کہ اس سے پہلے سیکٹر 12 کے رہنے والے اکشے یادو نے اس معاملے میں پہل کرتے ہوئے گزشتہ جمعہ کو اپنی دوکانوں میں نماز پڑھنے کی جگہ دی بلکہ کہا کہ اگر جگہ کم پڑے گی تو ان کے گھر میں موجود پارکنگ اور پارک میں نماز ادا کی جاسکے، ایسے انتظامات کے لئے بھی وہ تیار ہیں۔ وہیں اس معاملے میں شیر گل سدھو کی مانیں تو ہمارے اول رہنما پہلی پات شاہی نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ کیسے انسانیت کی خدمت ہی خدا کی عبادت ہے۔ اور ہماری قوم اسی میں اعتماد کرکے انسانیت کی خدمت میں لگی ہے۔

گرو سنگھ سبھا، گروگرام کے پردھان شیر گل سنگھ سدھو نے کہا کہ عبادت مندر میں ہو گرودوارے میں ہو یا مسجد میں، عبادت سے روکنا گناہ ہے۔

واضح رہے کہ ایک طرف سنیکت ہندو سنگھرش سمیتی نے ضلع انتظامیہ کو کسی بھی صورت میں کھلے میں نماز نہ پڑھنے دینے کی وارننگ جاری کی ہوئی ہے۔ وہیں پہلے اکشے یادو اور اب گروسنگھ سبھا نے بھائی چارے کی مثال پیش کرکے نفرت کی سیاست کرنے والوں کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی ہے۔ قومی، بین الا اقوامی، جموں وکشمیر کی تازہ ترین خبروں کے علاوہ تعلیم و روزگار اور بزنس کی خبروں کے لئے نیوز18 اردو کو ٹوئٹر، فیس بک پر فالو کریں۔

اپنے والداوربھائی کوبے گناہ ثابت کرنے میں ہم اکیلے رہ گئے ، سب نے ساتھ چھوڑدیا ، ملی تنظیموں نے بھی کنارہ کشی اختیارکرلی : عمرگوتم کی بیٹی نئی دہلی ( ایجنسی )

اپنے والداوربھائی کوبے گناہ ثابت کرنے میں ہم اکیلے رہ گئے ، سب نے ساتھ چھوڑدیا ، ملی تنظیموں نے بھی کنارہ کشی اختیارکرلی : عمرگوتم کی بیٹی نئی دہلی ( ایجنسی )دھرم پریورتن کرانے کے الزام میں گرفتار معروف داعی اورمبلغ عمر گوتم کی بیٹی نے ایک انٹرویو کے دوران اپنے دل کے زخموں کو کریدتے ہوئے کہا کہ ہماری فیملی ٹوٹ کر بکھر گئی ہے۔ ہم تنہا ہیں، سب نے ہمارا ساتھ چھوڑدیا،اپنی لڑائی خود لڑ رہے ہیں ،زندگی کا زیادہ تر حصہ وکیلوں کے پیچھے دوڑنے میں گزرتا ہے ،کوئی تنظیم بھی ہمارے حق میں نہیں بولتی، سب نے ہونٹ سی لیے ہیں۔
ایک نیوز پورٹل سے گفتگو کرتے ہوئے عمر گوتم کی بیٹی نے کہا کہ کیس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی،کوئی امید افزا بات نہیں ہوئی ۔انہوں نے بتایا کہ لکھنؤ پاپا سے ملنے جاتے رہتے ہیں ،ان کی صحت خراب ہورہی ہے اور مایو سی بڑھتی جارہی ہے ،میری ممی ٹوٹتی جارہی ہیں ،بھائی کی غیر قانونی گرفتاری نے ان کو اور مجھے توڑ کر رکھ دیا ہے،پاپا اور بھائی بے گناہ ہیں اور یہ ثابت کرنا ہمارا ہدف ہے۔
ان پر عائد الزامات کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ فیبریکیٹڈ ہیں، پاپا تبدیلی مذہب کرنے والوں کی قانونی مدد کرتے تھے ،کسی کا مذہب تبدیل نہیں کرایا نہ ترغیب دی اور نہ ہی کسی پر دباؤ ڈالا ۔دوسرے ان کا آفس دہلی میں ہے اور مقدمہ لکھنؤ میں رجسٹرڈ ہوا دفتر2010میں قایم کیا تھا۔
ان کی بیٹی نے ایک سوال پر کہا کہ ابھی تک کوئی ایسی بات سامنے نہیں آئی کہ پاپا کو ٹارچر کیا گیا یا ان پر کوئی زیادتی ہوئی ہو مگر جیل تو جیل ہے بس ان کی یہ خواہش ہے کہ وہ بے گناہ ثابت ہوں اور باعزت بری ہوکر سماج کے سامنے آئیں ،مین اسٹریم میڈیا کے رویے پر جواب دیتے ہوئے بیٹی نے کہا کہ اس نے ہماری فیملی کی امیج تباہ کردی ،زندگی بھر کی ساکھ کو ختم کردیا ۔وہ جج بن گیا فیصلے صادر کرتا رہا غیرملکی فنڈنگ کا الزام ہو یا دھرم پریورتن کرانے کا کسی کا کوئی ثبوت نہیں۔جو لیبل پیشانی پر لگادیا ہے باعزت بری ہونے کے بعد بھی اس کا دھلنا مشکل ہے ۔امید کی کرن یہ ہے کہ جنہوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا تھا وہ سامنے آئے اور پاپا کے حق میں گواہی دی شاید مقدمہ پر اس کا اثر پڑے۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے والد پر چار جگہوں گجرات،فتح پور،دہلی اور لکھنؤ میں مقدمات ہیں اند ازہ لگائیں کہ کیا حالت ہوتی ہوگی ،گزشتہ دنوں گجرات لے جایا گیا تھا ان دنوں لکھنؤ جیل میں ہیں ۔کیا لوگ ساتھ دے رہے ہیں؟ بیٹی نے کہا کہ نہیں ددھیال ہو یا ننہال کوئی نہیں ہے ہمارا۔ ہم اکیلے ہیں میں اور میری ممی بھائی کا سہارا تھا،اس کو بھی لے گیے میری اور ممی کی صحت خراب ہورہی ہے ،میری میرے بھائی کی جاب،فیوچر،کیریر،عزت سب ختم سالگتاہے ہمارے سپورٹ میں کوئی نہیں ہے، تنظیمیں بھی خاموش ،گھر کی دیواروں میں قید ہوکر رہ گیے ہیں ،سب کی نگاہوں میں سوال ہے۔ مقدمہ اپنی جگہ رکا ہے ۔رتی بھر پیش رفت نہیں ہوئی خواہ کوئی کچھ کہہ رہا ہو مگر حقیقت یہی ہے ۔
کیا ہے کسی کے پاس عمرگوتم کی بیٹی کے ان سوالوں کا جواب؟

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...