Powered By Blogger

بدھ, جون 29, 2022

مہا نندا ندی نے اعظم نگر میں خطرے کے نشان کو کیا پار

مہا نندا ندی نے اعظم نگر میں خطرے کے نشان کو کیا پار

کٹیہار، 29 جون (اردو دنیا نیوز۷۲)۔ ضلع سے گزرنے والی گنگا، مہانندا، کوسی اور برانڈی ندیوں سے پانی کی سطح میں اتار چڑھاؤ جاری ہے۔ گزشتہ 24 گھنٹوں میں اعظم نگر اور دھابول میں مہانندا ندی خطرے کے نشان کو پار کر چکی ہے۔ مہانندا کے پانی کی سطح بڑھنے سے ساحلی علاقوں کے کئی گاؤں زیر آب آگئے ہیں اور آمدورفت متاثر ہوا ہے۔ اعظم نگر بلاک علاقے کے چولہر پنچایت کے تحت چاند پور بیریا سمیت کئی گاؤں سیلاب کی زد میں آ گئے ہیں۔

بدھ کی صبح فلڈ کنٹرول ڈویزن کٹیہار کے دفتر سے موصولہ اطلاع کے مطابق مہانندا ندی اعظم نگر میں خطرے کے نشان 29.89 میٹر پار کرکے 30.10 پر بہہ رہی ہے۔ اسی طرح جھاؤ میں انتباہی نشان 30.80 میٹر سے بڑھ 31.15 میٹر ۔ بہرکل میں 30.48 میٹر سے بڑھ کر 31.07، دھابول میں 28.65 میٹر سے بڑھ کر 29.26 میٹر، کرسل میں 30.78 میٹر سے بڑھ 31.20، درگاپور میں 27.44 میٹر سے بڑھ کر 27.75 میٹر، اور گووند پور میں 26.52 میٹر سے گھٹ کر 25.71 میٹر پر بہہ رہا ہے۔

ضلع کے کرسیلا، منیہاری اور احمد آباد بلاکوں سے گزرنے والی گنگا ندی کے پانی کی سطح میں کمی آئی ہے، لیکن دھار کے کنارے رہنے والے لوگوں میں اب بھی خوف کا ماحول ہے۔ گنگا ندی رامائن پور میں انتباہی نشان 26.65 میٹر سے نیچے 23.07 میٹر، اور کڑھا گولا گھاٹ میں 28.96 میٹر سے نیچے 25.65 میٹر پر بہہ رہی ہے۔ جبکہ برانڈی ندی این ایچ 31 ڈومر کے پاس خطرے کے نشان 28.96 میٹر سے نیچے 27.94 میٹر، کاری کوشی چین 389 میٹر کے قریب 27.13 میٹر نیچے اور کوسی ندی کرسلا ریلوے برج کے پا س 29.50 میٹر سے نیچے 25.70 میٹرپر بہہ رہی ہے۔ اس درمیان فلڈ کنٹرول ڈویزن کے مطابق ضلع میں تمام پشتے محفوظ ہیں اور ضلع انتظامیہ 24 گھنٹے سیلاب کو لیکر الرٹ موڈ میں ہے۔

بہار میں صبح سے ہو رہی بارش، محکمہ موسمیات کا الرٹ

بہار میں صبح سے ہو رہی بارش، محکمہ موسمیات کا الرٹ

پٹنہ، 29 جون (اردو دنیا نیوز۷۲)۔ راجدھانی پٹنہ سمیت بہار کے کئی اضلاع میں صبح سے ہو رہی بارش سے باشندگان پٹنہ کو گرمی سے کچھ راحت ملی ہے۔ صبح سے ہورہی بارش کے باعث درجہ حرارت میں بھی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ محکمہ موسمیات نے پٹنہ سمیت ریاست کے دیگر اضلاع میں بارش کے ساتھ ساتھ گرج چمک کے الرٹ جاری کیا ہے۔

محکمہ موسمیات نے پٹنہ کے کچھ علاقوں کے ساتھ ساتھ مظفر پور، سمستی پور، ویشالی، بکسر، نالندہ، نوادہ، شیخ پورہ، بیگوسرائے، کھگڑیا، سہرسہ، دربھنگہ اور مدھوبنی میں بارش اور بجلی گرنے کی پیشن گوئی کی ہے۔

ڈیزاسٹر مینجمنٹ ڈیپارٹمنٹ نے پٹنہ کے کچھ علاقوں میں آج صبح 8 بجے سے 11 بجے تک گرج چمک کے ساتھ طوفان کی وارننگ جاری کی ہے۔ اس کے علاوہ محکمہ موسمیات کی جانب سے جاری کی گئی پیشن گوئی کے مطابق آج بہار کے 19 اضلاع میں بارش ہوگی۔

محکمہ موسمیات کے مطابق بہار میں بیک وقت دو ہواؤں کا سسٹم سرگرم ہے۔ اس کے ساتھ ہی طوفانی ہواؤں کا اثر راجستھان سے خلیج بنگال تک برقرار ہے جس کی وجہ سے شمالی بہار کے تمام اضلاع میں ہلکی بارش ہونے کی امید ہے۔ اس کے ساتھ ہی جنوبی حصے کے پٹنہ، گیا، نالندہ، نوادہ سمیت 19 اضلاع میں گرج چمک کے ساتھ ہلکی بارش ہوگی۔ وہیں محکمہ موسمیات نے سیوان، گوپال گنج، مغربی چمپارن میں موسلادھار بارش کو لیکر الرٹ جاری کیا ہے

زیارت حرمین شریفین مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ

زیارت حرمین شریفین 
(اردو دنیا نیوز۷۲)
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ
 زیارت حرمین شریفین کی خواہش ہر مؤمن کے دل میں انگڑائی لیتی ہے، وسائل میسر ہوں اور اللہ بلائے تو اس خواہش کی تکمیل بآسانی ہوجاتی ہے، کبھی کبھی وسائل نہیں بھی ہو تو اللہ بلا لیتا ہے، وہ ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے کہ بندہ بآسانی حرمین شریفین تک پہونچ جاتا ہے اور کیوں نہ ہو جب آسمان وزمین کے خزانہ کی ملکیت اسی کی ہے، وسائل کی موجودگی کے با وجود بلاہٹ نہ ہو تو انسان دل مسوس کر رہ جاتا ہے۔
 پھر جو خوش قسمت حرمین شریفین تک پہونچ جاتا ہے وہ پوری زندگی ان احوال وکوائف کو بیان کرتا رہتا ہے، یہ بیان تقریری بھی ہوتا ہے اور تحریری بھی ، لکھنا آتا ہے تو قلبی واردات ، وکیفیات کا ذکر تحریری ہوتا ہے، کبھی سفر نامے کی شکل میں اور کبھی حج وزیارت پر ایک باب میں اضافہ کی شکل میں، اس فہرست میں ڈاکٹر کلیم عاجز کی ’’یہاں سے کعبہ کعبہ سے مدینہ‘‘ ، عبد الخالق خلیق کی ’’حاضری‘‘ ، راقم الحروف (محمد ثناء الہدیٰ قاسمی)کا سفرنامہ’’ یہ سفر قبول کرلے‘‘  مولانا رضوان احمد ندوی کی ’’گھر سے بیت اللہ تک‘‘ شائع ہو کر مقبول ہو چکی ہیں، اس سلسلے میں بعض حیثیت سے ممتاز مفتی کے سفرنامہ’’ لبیک‘‘ کی حیثیت بھی ادبی دنیا میں تسلیم کی گئی ہے ، یہ ایک ایسے شخص کا سفر نامہ ہے جو قلبی واردات بھی لکھتا ہے اور باغیانہ انداز میں اسرار ورموز بھی واشگاف کرتا جاتاہے، خود ممتاز مفتی نے اسے سفر نامہ کے بجائے رپوتاز قرار دیا ہے ، حج کے سفر ناموں میں سورش کشمیری کا سفر نامہ’’شب جائیکہ من بودم‘‘ غلام ثقلین کی ’’ارض تمنا‘‘ عبد اللہ ملک کے ’’حدیث دل ‘‘ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، ان سفر ناموں میں حج کے حوالہ سے نئی نئی جہتوں کا ادراک واحساس ہوتا ہے۔
اردو میں حج کا پہلا سفرنامہ حاجی محمد منصف علی کا ’’ماہ مغرب المعروف بہ کعبہ نما‘‘ کے نام سے ۱۹۱۷ء میں سیدھے سادے اسلوب میں لکھا گیا اور طبع ہو کر مقبول ہوا، اس کے بعد ۱۸۴۴ء میں سید شاہ عطا حسین فانی گیاوی نے ’’ دید مغرب المعروف بہ ہدایت المسافرین ‘‘کے نام سے اور نواب سکندر بیگم نے ’’یاد داشت تاریخ وقائع حج‘‘ کے نام سے اپنا سفر نامہ لکھا، لیکن یہ دونوں سفرنامے طباعت کے مرحلے سے گذر نہ سکے، مزید معلومات کے لیے حج کے سفرنامے پر ڈاکٹر محمد شہاب الدین کا تحقیق مقالہ جو انہوں نے علی گڈھ مسلم یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے لکھا ہے، مطبوعہ شکل میں موجود ہے، اس کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔
 اس طویل سلسلۃ الذہب کی ایک کڑی جناب ارشد انور الف (ولادت ۱۵؍ جنوری ۱۹۷۰ء )بن الحاج افضل حسین (م ۲۳؍ستمبر ۲۰۱۸ئ) ساکن گیاری ضلع ارریہ ، استاذ آزاد اکیڈمی ارریہ کا یہ سفرنامہ ہے، موصوف نے ۲۰۱۴ء میں بہار حج کمیٹی کی جانب سے خادم الحجاج کے طور پر حرمین شریفین کا سفر کیا تھا، اس سفر نامہ میں جو کچھ دل پر گذری اس کو پیش کیا ہے، اس کے ساتھ اس کے دوسرے حصہ میں رہنمائے حج وزیارت کے طور پر ضروری مسائل ، دعائے مسنونہ ، زیارت کے آداب وغیرہ پر بھی روشنی ڈالی ہے ، اس طرح یہ سفر نامہ ماضی میں لکھے گئے سفرناموں کے دونوں مقاصد کی تکمیل کرتا ہے، حج کے ابتدائی سفر ناموں میں آپ پائیں گے کہ ان میں معلومات اور مناسک کی تفصیل زیادہ اور واردات قلبی کا ذکرلیکن موجودہ دور کے سفرناموں میں مناسک کم اور دلی کیفیات کا اظہار زیادہ ملتا ہے، اگر ایک جملہ میں اس کو سمجھنا چاہتے ہیں تو ابتدائی سفر ناموں میں ’’کیا ہے‘‘ کی تفصیل ہوتی تھی اور موجودہ حج کے سفرنامے کا محور’’کیا پایا‘‘ ہے، اس طرح کہنا چاہیے کہ آج کل کے سفرنامے میں حج وزیارت کے ایام کی آپ بیتی ہیں جن میں مقصد سفر کے ساتھ اپنے قلبی واردات وکیفیات ، محسوسات وتجربات کو بیان کرنا مقصود ہوتا ہے۔
 ارشد انور ’’الف‘‘ نے بڑی خوبصورتی سے دونوں دور کے انداز کو الگ الگ حصوں میں ہمیں برت کر دکھایا ہے، ہم اس سفرنامے سے ان کے دلی جذبات واحساسات کا بھی اندازہ لگا سکتے ہیں اور مناسک حج کو بھی سمجھ سکتے ہیں، کتاب کی ضخامت بہت نہیں ہے، مختصر میں بات کہنے کی کوشش کی گئی ہے، مصروفیت کے اس دور میں ضخیم کتاب پڑھنے کے لیے نہ تو وقت ہے اور نہ قوت خرید، ارشد انور الف اس راز کو اچھی طرح جانتے ہیں، اس لیے انہوں نے بڑی خوش اسلوبی سے مختصر انداز میں اپنی بات رکھنے کا کام کیا ہے۔
 ارشد انور صاحب اصلا سائنس کے استاذ ہیں، سائنس جیسے خشک اور کھر درے مضمون کے ساتھ ادب لطیف کا گذر ذرا کم ہی ہوتا ہے، لیکن ارشد انور سائنسی حقائق وانکشافات کی معلومات کے ساتھ اپنے سینہ میں ایک درد مند دل بھی رکھتے ہیں، موقع ملتے ہی یہ درد مند دل ادب لطیف کے نرغے میں چلا جاتا ہے، پھر وہ کہانیاں لکھنے لگتے ہیں، شاعری بھی کرتے ہیں اور نثر بھی خوبصورت لکھتے ہیں۔
 ارشد انور نے اپنا تخلص ’’الف ‘‘ رکھا ہے، مجھے وجہ تسمیہ نہیں معلوم؛لیکن بچپن میں استاذ نے پڑھایا تھا ’’الف‘‘ سے اللہ کو پہچان ’’ب‘‘ سے بڑوں کا کہنا مان، ارشد انور اللہ کو پہچاننے کے مرحلے سے گذر رہے ہیں، اس مرحلہ کو عروج بخشنے میں زیارت حرمین شریفین کا خاص حصہ ہے، کیوں کہ انہوں نے مکہ میں کعبہ کی تجلیات ، اللہ کے جلال اور مدینہ طیبہ سے اللہ کے رسول کے جمال کو کھلی آنکھوں سے دیکھا ہے اور یہ دونوں چیزیں معرفت الٰہی کے لیے اکسیر کا درجہ رکھتی ہیں، انہیں سرمۂ کیمیا کہا جا سکتا ہے۔
 میں اس اہم کتاب کی تصنیف وتالیف پر ارشد انور ’’ الف‘‘ کو مبارکباد دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ یہ کتاب مقبول بھی ہو اور یہ سفر ان کاآخر سفر ثابت نہ ہو آپ بھی ہماری اس دعا پر آمین کہیے اور پڑھنے کے لیے تھوڑا انتظار کیجئے، میں بھی مسودہ کو مطبوعہ شکل میں دیکھنے ض کا منتظر ہوں۔

مجھے عائشہ کے بارے میں تکلیف نہ دو"ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ ۲۸/ذوالقعدہ ۱۴۴۳ھ

"مجھے عائشہ کے بارے میں تکلیف نہ دو"
ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 
۲۸/ذوالقعدہ ۱۴۴۳ھ
(اردو دنیا نیوز۷۲)

شان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں دولوگوں نےگستاخی کی ہے،اس سے وطن عزیز کی پوری دنیا میں شبیہ خراب ہوئی ہے،اس واقعہ کو رونما ہوئے مہینہ پورا ہونے والا ہے مگر غم وغصہ میں ہنوز کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے، یہ مطالبہ حکومت وقت سے اب بھی ہےکہ مجرمین کو گرفتار کیا جائے اور کیفرکردار تک پہونچایا جائے، یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے،ایک ایمان والے کی یہ پہچان ہوتی ہے کہ وہ اپنی جان وخاندان سے زیادہ محبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کرتا ہے، یہی اس کے ایمان کی دلیل  بھی ہے، 
حضرت زید بن دثنہ رضی اللہ عنہ جب تختہ دار پر چڑھائے جارہے تھے، اور یہ وقت عین آپ کی شہادت کا تھا، ایک پوچھنے والے نے پوچھا، اے زید! تمہیں اللہ کا واسطہ ہے، کیا یہ پسند نہیں کہ تم اپنے گھر والوں کے درمیان ہوتے اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)تمہاری جگہ ہمارے پاس ہوتے اور ہم ان کا سرقلم کردیتے، حضرت زیدنے رضی اللہ عنہ کہا، "خدا کی قسم میرے نبی کو کانٹا بھی چبھویا جائے اور اس تکلیف کے عوض میں اپنے اہل وعیال میں آرام سے رہوں، مجھے یہ بھی برداشت نہیں ہے"
یہ جملہ سن کرحضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ اس وقت اسلام نہیں لائے تھے، کہنے لگے، خدا کی قسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی آپ سے جس قدر محبت کرتے ہیں میں نے کسی قوم کو نہیں دیکھاہے، اس بات کی گواہی ہرزمانے میں غیروں نے بھی دی ہے،اور آج بھی زمانہ اس کا شاہد ہے۔ اسلام کی تبلیغ میں بھی آقائے نامدار محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت نے بڑا کام کیا ہے،منکرین اسلام بھی اس کے معترف رہے ہیں،یہی وجہ ہےکہ جب بھی ملت اسلامیہ کو شدید تکلیف پہونچانے کی کوشش ہوئی ہے وہ شان رسالت میں توہین کے ذریعہ کی گئی ہے۔
  گستاخی کا واقعہ نیا نہیں ہے،آپ صلی علیہ وسلم کی شان میں گستاخیوں کا سلسلہ ابتداءاسلام سے ہی شروع ہوا ہے، اس کی ابتدا اہل مکہ نے کی ہے،جو لوگ بعثت سے قبل آپ کوامین وصادق کہ کر پکارتے تھے،انہوں نےہی نعوذ باللہ نبی بنائے جانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوجھوٹا،کاہن، ساحرکہ کر آپ کی شان میں گستاخی کی ہے،قرآن کریم نے اس کا کافی وشافی جواب دیا ہے، مگرکہیں بھی اماجان حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی شادی اور ان کی عمر کولیکر اہل عرب نے گستاخی نہیں کی ہے،
قرآن وحدیث کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جس طرح حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی مطلقہ کے بارے میں ارشاد ربانی ہے:ہم نے آپ سے اس کا نکاح کردیا تاکہ مومنوں کے لیے انکے منھ بولے بیٹوں کی بیویوں کے ساتھ نکاح کرنے کے بارے میں کچھ تنگی نہ رہے،جب وہ انہیں طلاق دے دیں،اور اللہ کا یہ حکم واقع ہونے والا تھا ہی،(احزاب:37)
قرآن کریم کی اس آیت سے اماں جان حضرت زینب رضی اللہ تعالٰی عنہا کا حضور سے نکاح ایک خاص شرعی حکم کو بتلانے کے لیے اللہ کی طرف سے ہوا ہے،اور جاہلیت کی ایک  پرانی رسم کی توڑ کا سامان ہے، آقائے مدنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے منھ بولے بیٹے زید بن حارثہ کی مطلقہ سے شادی کرکے قیامت تک کے لیے یہ پیغام دیا کہ منھ سے کسی کو بیٹا کہ دینے پر وہ  صلبی بیٹاکے حکم میں نہیں ہے،اسی طرح حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منھ بولے بھائی ہیں، انکی لخت جگر سے نکاح فرماکر یہ تعلیم بھی مقصود ہے کہ منھ بولا بھائی خونی رشتہ کے بھائی کے حکم میں نہیں ہے۔
جس طرح قرآن کریم میں حضرت زینب رضی اللہ تعالٰی عنہا کے نکاح کےتعلق سے یہ اعلان فرمایاہےکہ " ہم نے آپ سے نکاح کردیا ہے"اور یہ بھی ذکر ہے کہ یہ اللہ کا حکم ہے،اسی طرح اماں جان حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے بارے میں حدیث شریف موجودہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے،ایک دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:تم مجھے خواب میں دو دفعہ دکھائی گئی ہو،میں نے دیکھا کہ تم ایک سفید ریشمی کپڑے میں لپٹی ہوئی تھیں اور فرشتہ کہ رہا تھا، یہ آپ کی بیوی ہیں ،میں وہ کپڑا ہٹاتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ تم ہو،میں کہتا تھا اگر یہ اللہ کی طرف سے ہے تو اسے ضرور پورا کرے گا، (بخاری، ۳۸۹۵)
یہ ضروری نکاح خاص شرعی حکم کو بھی بتلاتاہے اور قیامت تک کے لیے دین کی تکمیل کا سامان ہے۔
آج اماں جان حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی عمر کو لیکر اعتراض کیا گیا ہےکہ صرف چھ سال کی عمر میں آپ کا نکاح ہوا ہے، چنانچہ حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ جو حضرت عائشہ صدیقہ کے بھانجے ہیں، بیان کرتے ہیں کہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ کی طرف ہجرت سے تین سال پہلے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا فوت ہوگئی تھیں، آپ سے تقریبا دوسال بعد حضرت عائشہ صدیقہ سے نکاح کیا اور ان کی عمر چھ سال تھی، پھر نو سال کی عمر میں وہ آپ کے گھر تشریف لائی(بخاری، ۳۸۹۶)
مذکورہ بالا حدیث سے عمر کے حوالہ سے یہ شرعی مسئلہ بھی معلوم ہوا ہے کہ کم سنی میں شادی کی جاسکتی ہے، البتہ رخصتی وہ بلوغ کی عمر کے بعد ہونی چاہئے، اور اماں جان کے نکاح میں بھی اس کا مکمل خیال کیا گیا ہے، ام رومان جو اماں جان کی والدہ محترمہ ہیں، روایتوں میں اس کی وضاحت ملتی ہے کہ انہوں نے ہی نکاح کے تین سال بعد نو سال کی عمر میں آپ کی رخصتی کرادی ہے،
آج اس مسئلہ کو توہین رسالت کا عنوان بنانا آقائے نامدار محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے چاہنے والوں کو تکلیف پہونچانا مقصودہے، امت پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات ہیں تو اماں جان حضرت عائشہ بھی امت کی ماں اور محسنہ ہیں، دین اسلام کی تکمیل کا سامان رب ذوالجلال نے آپ کو بھی بنایا ہے،صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ کے علم وفضل کے معترف رہے ہیں، حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ، ہم رسول اللہ کے اصحاب پر جب بھی کسی حدیث میں اشکال ہوا تو ہم نے عائشہ صدیقہ سے پوچھا اور ان کے پاس اس بارے میں علم پایا، (ترمذی، ۳۸۸۳)
ایک واقعہ جو بہت ہی معروف ہے،بخارئ شریف میں لکھا ہوا ہے، ایک غزوہ کے موقع پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حضور کے ساتھ تھیں، گلے کا ہار گم ہو گیا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلاش میں اصحاب کو بھیجا، نماز کا وقت نکل رہا تھا، اس موقع پر آیت تیمم نازل ہوئی، مشہور صحابی حضرت اسیدبن حضیر نے کہا، اے عائشہ، اللہ آپ کو جزائے خیردے،آپ پرجب بھی کوئی مشکل آتی ہے تو اللہ آپ کے لیے کوئی سبیل پیدا کردیتا ہےاور اسی میں مسلمانوں کے لیے برکت ہوتی ہے، 
آج امت اسلامیہ کے لیے بھی اس تناظر میں خوشخبری کی بات ہوسکتی ہے کہ اماں جان کی نسبت پر جب منافقین نے سازش رچی،اور تہمت دینے کا کام کیا توقرآن کریم کی سورہ نور کی دس آیات میں ان کی برات کا اعلان کیا گیا ہے، اور یہی چیز حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے لئے فخر کا سامان ہوا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر اماں جان حضرت ام سلمی رضی اللہ تعالٰی عنہا سے فرمایا:مجھے عائشہ کے بارے میں تکلیف نہ دو، بےشک اللہ کی قسم!مجھ پر تم میں صرف عائشہ کے بستر پر وحی نازل ہوتی ہے، (بخاری، ۳۷۷۵)
اس حدیث سے آقائے نامدار محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا بھی اندازہ ہوتا ہے اور اس کی وجہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ محبت کی بنیاد خالص شرعی ہے،
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیاری بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے بھی کہا ہے، اے میری بیٹی کیا تم اس سے محبت نہیں کرتی جس سے میں محبت کرتا ہوں،انہوں نےفرمایا،جی ہاں "
بخاری شریف کی ایک حدیث میں اللہ کے رسول کا ارشاد ہے، اے عائشہ، یہ جبرئیل تجھے سلام کہتے ہیں، حضرت عائشہ صدیقہ نے فرمایا، اور ان پر بھی اللہ کی رحمت اور سلام ہو،(بخاری، ۶۲۰۱)
اللہ رب العزت نے یہ مقام خاص دینی خدمات کے صلہ میں  اماں جان کوعطا کیا ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خانگی زندگی کے ایک ایک حرف کی آپ نے حفاظت کی ہے،اور قیامت تک کے لئے اسے تسبیح کے دانہ میں پرو دیا ہے، موجودہ وقت میں اسے پڑھنے اور عام کرنے کی ضرورت ہے۔

ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 
۲۸/ذوالقعدہ ۱۴۴۳ھ

بلڈوزرکاروائی: یوپی حکومت حقائق کو چھپارہی ہے،سپریم کورٹ میں جمعیۃ کاجوابی حلف نامہ


بلڈوزرکاروائی: یوپی حکومت حقائق کو چھپارہی ہے،سپریم کورٹ میں جمعیۃ کاجوابی حلف نامہ

(اردو دنیا نیوز۷۲)

نئی دہلی:یوپی کے مختلف اضلاع میں مسلمانوں کی املاک پر بلڈوز کے ذریعہ غیر قانونی انہدامی کارروائی کے خلاف صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشدمدنی کی جانب سے داخل پٹیشن پرکل سپریم کورٹ میں سماعت عمل میں آئے گی۔یہ اطلاع آج یہاں جمعیۃکی جاری کردہ ریلیز میں دی گئی ہے

اس اہم پٹیشن پرسپریم کورٹ کی تعطیلاتی بینچ کے جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس جے بی پاردی والا سماعت کریں گے۔جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ سی یو سنگھ اور ایڈوکیٹ نتیا راما کرشنن پیش ہونگے۔

قبل ازیں آج جمعیۃ علماء ہند نے یو پی حکومت کی جانب سے داخل حلف نامہ کے جواب میں جوابی حلف نامہ عدالت میں داخل کردیاہے جس میں تحریر کیا گیا ہے کہ وزیر اعلی یوپی یوگی آدتیہ ناتھ، اعلی پولس افسران و دیگر کی جانب سے عوامی بیانات میں احتجاج کرنے والوں کے متعلق کہا گیا تھا کہ قانون ہاتھ میں لینے والوں کو ایسا سبق سکھایا جائے گا جو دوسروں کے لئے مثال بنے گا، یوپی حکومت کے حلف نامے میں اس پر ایک لفظ تک نہیں کہا گیا ہے اور نہ ہی سہارنپور میں مسلمانوں کی املاک پر چلے بلڈوزر کا ذکر ہے۔

اسی طرح الہ آباد میں محمد جاوید کا جو مکان منہدم کیا گیا اس تعلق سے بھی حقیقت بیانی نہیں کی گئی ہے۔مکان جب جاوید کی اہلیہ کے نام پر تھا تو انہدامی کاروائی سے ایک شب قبل مکان پر نوٹس چسپاں کئے جانے کا کیا مطلب؟ جوابی حلف نامے میں وضاحت کی گئی ہے کہ یوپی کے مختلف شہروں میں انہدامی کاروائی انجام دی گئی جبکہ حلف نامہ میں صرف تین جگہوں کا ہی ذکر کیا گیاجس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یو پی حکومت عدالت سے حقائق کو چھپانا چاہتی ہے۔

جوابی حلف نامہ میں مزید لکھا گیا ہے کہ ہ احتجاج کے بعد ہی کیوں بلڈوزر کی کارروائی شروع کی گئی نیز سپریم کورٹ کی گائڈلائنس کو بالائے طاق رکھ کر ایک مخصوص طبقہ کے لوگوں کے مکانات مہندم کیئے گئے جب کہ اگر تجاؤزات ہٹانا ہی مقصد ہے تو بلا تفریق مذہب کیا جانا چاہئے اور وہ بھی قانون کے مطابق۔

جوابی حلف نامہ میں مزید تحریر کیا گیا ہے کہ دہلی، مدھیہ پردیش، گجرات، اتراکھنڈ، اور اتر پردیش جیسی ریاستوں میں یکے بعد دیگرے غیر قانونی بلڈوزر کاررائی انجام دی گئی جس کے خلاف جمعیۃ علماء ہند نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے نیز جن لوگوں کے مکانات کو نقصانات پہنچایا گیا ہے و ہ ذاتی طور پر بھی ہائی کور ٹ سے رجوع ہوئے ہیں۔

واضح رہے کہ اس سے قبل کی سماعت پر جسٹس اے ایس بوپنا اور جسٹس وکرم ناتھ کے روبرو جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے سینئر وکلاء نتیا راما کرشنن اور سی یو سنگھ پیش ہوئے تھے جنہوں نے عدالت کو بتایا تھا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے گزشتہ کاروائی پر عدالت نے غیر قانونی بلڈوزر انہدامی کارروائی پر نوٹس جاری کیئے جانے کے بعد بھی یوپی میں غیر قانونی طریقے سے انہدامی کارروائی کی جارہی ہے جس پر روک لگانا ضروری ہے

نیز ان افسران کے خلاف کارروائی کرنا بھی ضروری ہے جنہوں نے قانون کی دھجیاں اڑاکر مسلمانوں کی املاک کو نقصان پہنچایا ہے۔صدر جمعیۃ علماء ہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت پر داخل پٹیشن میں جمعیۃ علماء قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی مدعی ہیں۔ (ایجنسی)

منگل, جون 28, 2022

گھر میں لگی آگ میں زندہ جلے میاں ۔ بیوی

گھر میں لگی آگ میں زندہ جلے میاں ۔ بیوی

آگ میں جھلسے 38 سالہ دلار چند کی بھی حالت تشویشناک

موتیہاری ، 28 جون (اردو دنیا نیوز۷۲) ۔ضلع کے پٹاہی بلاک علاقہ میں واقع ننفروا پنچایت کے وارڈ نمبر -6 کے ایک مکان میں پیر کی دیر رات آگ لگنے کے واقعہ میں شوہر اور بیوی زندہ جل گئے ۔ مرنے والوں میں 60 سالہ گنیش مہتو اور 55 سالہ گنگاجلی دیوی بتائی جاتی ہے۔ جبکہ گھر کا ایک فرد 38 سالہ دلار چند مہتو شدیدطور سے جھلس گئے ۔ ان کی حالت بدستور تشویشناک ہے۔

آتشزدگی کے واقعہ میں اشیائے خوردونوش سمیت لاکھوں روپے مالیت کا سامان جل کر خاکستر ہوگیا۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق بتایا جاتا ہے کہ گنیش مہتو ایک معذور شخص تھا۔ پیر کی دیر رات ان کے گھر میں اچانک آگ لگ گئی ۔ ان کی بیوی گنگاجلی دیوی اپنے شوہر کو بچانے آئی۔ لیکن دونوں آگ کی زد میں آکر ہلاک ہوگئے ۔ آگ کے شعلے اتنے زوردار تھے کہ جب تک لوگ کچھ سمجھ پاتے آگ نے پورے گھر کو اپنی زد میں لے لیا۔حالانکہ اس کی اطلاع پر محکمہ فائر ڈ کی ٹیم گاؤں والوں کے پاس پہنچ گئی۔ ٹیم نے واٹر کینن کے ذریعے آگ پر قابو پالیا۔ اس دل دہلا دینے والے واقعے کے بعد گاؤں والے حیران رہ گئے۔ واقعہ میں لاکھوں روپے مالیت کی املاک کے تباہ ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔ سرکل افسر سوربھ کمار نے کہا کہ متاثرہ خاندان کو ہر ممکن سرکاری مدد فراہم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ واقعہ کے بعد گاؤں والے خوفزدہ ہیں۔

مساجد کے اندر کوچنگ سینٹر کھولیں ! -نقی احمد ندوی

مساجد کے اندر کوچنگ سینٹر کھولیں ! -نقی احمد ندوی(اردو دنیا نیوز۷۲)
ہمارے ملک میں کتنے ایسے انٹرنس ایگزامس اور امتحانات ہوتے ہیں جن کی تیاری کے لیے بچوں کو کسی بڑے شہر کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ ہم اپنے شہر کی جامع مسجدوں میں کوچنگ سینٹر قائم کریں جہاں پر مسلم طلباء NEET, JEEوغیرہ کے مسابقاتی امتحانات کی تیاری کرسکیں۔ شہر کے کسی جامع مسجد میں JEEاور کسی دوسری میں NEET کی تیاری کا نظم و نسق ہو، تاکہ بچوں کو باہر جانے کی ضرورت نہ پڑے۔ اس کے لیے بھی معقول فیس رکھی جاسکتی ہے جو دوسرے اداروں سے انتہائی کم اور معمولی ہو جس سے اسٹوڈنٹس کو بھی فائدہ ہو اور مسجد کو بھی۔ کوچنگ سینٹر کھولنے کے لیے بہت زیادہ کمروں یا جگہ کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ مسجد کے ایک دو کمرے بہت آسانی سے استعمال کرکے کوئی بھی کوچنگ سینٹر کھولا جاسکتا ہے۔ ساتھ ہی مسجد کی لائبریری میں ایسے اگزامس کی تیاری کی کتابیں رکھی جائیں جس سے طلباء مستفید ہوں۔ اگر ایسی لائبریری قائم کی جائے تو بیشتر لوگ اور طلباء ایسی کتابیں لاکر مسجدوں میں خود بہ خود رکھنا شروع کردیں گے جس سے ہمارے طلباء مستفید ہوتے رہیں گے۔
مسجدوں کے اندر کوچنگ سینٹر کھولنا نہ تو مشکل کام ہے اور نہ کوئی نئی بات ہے۔چنئی کی ایک مسجد نے UPSCکا کوچنگ سینٹر کھول کر ایک ایسا نمونہ پیش کردیا ہے جسے ذمہ داران مساجد نمونہ کے طور پربخوبی استعمال کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی مساجد میں ایسے کوچنگ سنٹرس کا انتظام ہوگا جس کا ہم سب کو علم نہیں۔ ہم یہاں چنئی کی کوچنگ سنٹر پر ایک مختصر رپورٹ جو ٹائمز آف انڈیا میں شائع ہوئی تھی پیش کرتے ہیں:

اناملائی میں واقع مکہ مسجد کے امام مولانا شمس الدین قاسمی آج فخر محسوس کررہے ہیں کہ ان کی پہلی ہی کوشش بار آور ہوئی ہے۔ انھوں نے مسجد ہی کے اندر آئی اے ایس کے امتحان میں شریک ہونے والے طلباء کے لیے ایک ٹریننگ اکیڈمی کا آغاز کیا تھا، 2011ء میں Azhagiya Kadan IASاکیڈمی کے نام سے انھوں نے مسجد کے تیسرے فلور پراس اکیڈمی کا آغاز کیا تھا۔ جس میں شروع میں صرف 26طلباء تھے۔ آج انھیں طلباء میں ایک محمد اشرف جی ایس نے پہلی ہی دفعہ میں UPSCاگزام پاس کرلیا ہے اور 1032رینک حاصل کیا ہے۔

مولانا شمس الدین کا کہنا ہے کہ ملک میں کوئی ایسی مسجد نہیں پائی جاتی جو اپنے احاطہ میں مسجد کے اندر سول سروسیز کی ٹریننگ اکیڈمی چلاتی ہو۔ یہ اکیڈمی مفت کوچنگ، قیام و طعام، کتابیں اور اسٹڈی میٹریل مہیا کراتی ہے۔ یہ اکیڈمی سالانہ چالیس لاکھ روپئے اس پر خرچ کرتی ہے۔ اور یہ فنڈ اسی کمیونٹی کے لوگ مہیا کرتے ہیں۔

اشرف پہلے چنئی میٹرو ریل لمیٹڈ میں کام کرتے تھے، انھوں نے اپنی نوکری چھوڑ کر سول سروسز جوائن کرنے اوراپنے بچپن کے خواب کو پورا کرنے کا ارادہ کیا۔ اشرف سیوا گنگا ضلع میں واقع کرائے کوڈی کے رہنے والے ہیں جہاں ان کے والد ایک ویلڈنگ ورکشاپ چلاتے ہیں۔ انھوں نے 2011ء میں انّا یونیورسٹی سے انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی، گریجویشن کے بعد انھوں نے 28000ماہانہ کی تنخواہ پر CMRLجوائن کرلی۔

اشرف ان 28طلباء میں شامل تھے جن کو اکیڈمی نے 1200درخواست کنندگان میں سے منتخب کیا تھا۔ اشرف نے 2012ء میں مسجد کی اکیڈمی میں داخلہ لیا۔ اور مئی 2013ء میں سول سروسز کے امتحان میں شرکت کی۔ گرچہ ان کا رینک 1032آیا ہے مگر کمیونٹی کیلوگ اس کو ایک شاندار کامیابی کے طور پر مانتے ہیں۔ مستقبل میں یہ اکیڈمی مسلم نوجوانوں کے لیے ایک مشعل راہ کا کام کرے گی۔

مولانا شمس الدین نے کہا کہ اشرف کی کامیابی سے مسلم طلباء کی ہمت افزائی ہوئی ہے، ہم طلباء سے اکیڈمی جوائن کرنے کی اپیل کرتے ہیں۔ فی الحال ہمارے پاس 50طلباء ہیں مستقبل میں 100 طلباء کوکوچنگ کرانے کا ارادہ ہے۔

اشرف کا ماننا ہے کہ مسجد کی اکیڈمی ہی کی وجہ سے وہ کامیاب ہوسکے ہیں۔ لوگوں کو اپنے بچوں کو ملک کے باہرمزدوری کرنے کے لیے بھیجنے کی ذہنیت کو بدلنی چاہیے۔ اس کے بجائے انہیں اچھی تعلیم دینی چاہیے۔ اشرف کا خیال ہے کہ IASمیں مسلمانوں کا تناسب صرف 2%ہے، اس قسم کی اکیڈمیوں کے ذریعے اس تناسب کو بڑھایا جاسکتا ہے۔ ٹائمز آف انڈیا، 13جون، 2014،

اگر چنئی کی ایک مسجد ہندوستان کے سب سے مشکل ترین امتحان سول سروسز کی تیاری اپنی مسجد کے اندر کراسکتی ہے تو کیا آپ اپنی مسجد میں میٹرک، JEEیا NEET کی تیاری نہیں کراسکتے؟ کس نے آپ سے کہا کہ مسجدیں صرف دینی تعلیمات کے پڑھنے کے لیے وجود میں آئی ہیں۔ یہ وہ مرکز ہے جس کا صحیح استعمال آپ کی قوم کی تقدیر بدل سکتا ہے۔

صرف ہندوستان کے اندر مسجد کو عصری تعلیم کے لیے استعمال نہیں کیا گیا ہے بلکہ برطانیہ کی مسجد میں خالص ٹیکنیکل تعلیم مسجد کے اندر ہورہی ہے۔ وہاں کی مسجد میں نوجوانوں کو ایسے ہنر سکھائے جاتے ہیں جو ان کی معاش کا ذریعہ اور وسیلہ بن سکے۔

واشنگٹن میں ایک مسجد ہے جس کا نام مسجد محمدؐ ہے، اس اسکول میں نوجوانوں کے لیے ہفتہ کے آخر میں اسکول چلایا جاتا ہے، لیڈر شپ پروگرام کا انعقاد کیا جاتا ہے اور ساتھ ہی حفظ کرایا جاتا ہے۔ مسجد والوں نے فل ٹائم اسکول کھولنے کا بھی منصوبہ بنارکھا ہے۔

ہمیں اپنے ملک میں بھی پوری دانشمندی کے ساتھ اپنے نبی پاکؐ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی مسجدوں کو تعلیم کا مرکزبنانے کی ضرورت ہے۔ اگر ایسا کرنے میں آپکامیاب ہوجاتے ہیں تو یقین مانئے کہ آپ کے علاقہ میں آپ کی مسجد ایک ایسا انقلاب برپا کرنے میں ممد و معاون ہوسکتی ہے جو ہماری قوم کے ساتھ ساتھ ہمارے ملک کی بھی تعمیر و ترقی میں ایک سنگ میل ثابت ہوگا۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...