"مجھے عائشہ کے بارے میں تکلیف نہ دو"
ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ
(اردو دنیا نیوز۷۲)
شان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں دولوگوں نےگستاخی کی ہے،اس سے وطن عزیز کی پوری دنیا میں شبیہ خراب ہوئی ہے،اس واقعہ کو رونما ہوئے مہینہ پورا ہونے والا ہے مگر غم وغصہ میں ہنوز کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے، یہ مطالبہ حکومت وقت سے اب بھی ہےکہ مجرمین کو گرفتار کیا جائے اور کیفرکردار تک پہونچایا جائے، یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے،ایک ایمان والے کی یہ پہچان ہوتی ہے کہ وہ اپنی جان وخاندان سے زیادہ محبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کرتا ہے، یہی اس کے ایمان کی دلیل بھی ہے،
حضرت زید بن دثنہ رضی اللہ عنہ جب تختہ دار پر چڑھائے جارہے تھے، اور یہ وقت عین آپ کی شہادت کا تھا، ایک پوچھنے والے نے پوچھا، اے زید! تمہیں اللہ کا واسطہ ہے، کیا یہ پسند نہیں کہ تم اپنے گھر والوں کے درمیان ہوتے اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)تمہاری جگہ ہمارے پاس ہوتے اور ہم ان کا سرقلم کردیتے، حضرت زیدنے رضی اللہ عنہ کہا، "خدا کی قسم میرے نبی کو کانٹا بھی چبھویا جائے اور اس تکلیف کے عوض میں اپنے اہل وعیال میں آرام سے رہوں، مجھے یہ بھی برداشت نہیں ہے"
یہ جملہ سن کرحضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ اس وقت اسلام نہیں لائے تھے، کہنے لگے، خدا کی قسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی آپ سے جس قدر محبت کرتے ہیں میں نے کسی قوم کو نہیں دیکھاہے، اس بات کی گواہی ہرزمانے میں غیروں نے بھی دی ہے،اور آج بھی زمانہ اس کا شاہد ہے۔ اسلام کی تبلیغ میں بھی آقائے نامدار محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت نے بڑا کام کیا ہے،منکرین اسلام بھی اس کے معترف رہے ہیں،یہی وجہ ہےکہ جب بھی ملت اسلامیہ کو شدید تکلیف پہونچانے کی کوشش ہوئی ہے وہ شان رسالت میں توہین کے ذریعہ کی گئی ہے۔
گستاخی کا واقعہ نیا نہیں ہے،آپ صلی علیہ وسلم کی شان میں گستاخیوں کا سلسلہ ابتداءاسلام سے ہی شروع ہوا ہے، اس کی ابتدا اہل مکہ نے کی ہے،جو لوگ بعثت سے قبل آپ کوامین وصادق کہ کر پکارتے تھے،انہوں نےہی نعوذ باللہ نبی بنائے جانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوجھوٹا،کاہن، ساحرکہ کر آپ کی شان میں گستاخی کی ہے،قرآن کریم نے اس کا کافی وشافی جواب دیا ہے، مگرکہیں بھی اماجان حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی شادی اور ان کی عمر کولیکر اہل عرب نے گستاخی نہیں کی ہے،
قرآن وحدیث کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جس طرح حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی مطلقہ کے بارے میں ارشاد ربانی ہے:ہم نے آپ سے اس کا نکاح کردیا تاکہ مومنوں کے لیے انکے منھ بولے بیٹوں کی بیویوں کے ساتھ نکاح کرنے کے بارے میں کچھ تنگی نہ رہے،جب وہ انہیں طلاق دے دیں،اور اللہ کا یہ حکم واقع ہونے والا تھا ہی،(احزاب:37)
قرآن کریم کی اس آیت سے اماں جان حضرت زینب رضی اللہ تعالٰی عنہا کا حضور سے نکاح ایک خاص شرعی حکم کو بتلانے کے لیے اللہ کی طرف سے ہوا ہے،اور جاہلیت کی ایک پرانی رسم کی توڑ کا سامان ہے، آقائے مدنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے منھ بولے بیٹے زید بن حارثہ کی مطلقہ سے شادی کرکے قیامت تک کے لیے یہ پیغام دیا کہ منھ سے کسی کو بیٹا کہ دینے پر وہ صلبی بیٹاکے حکم میں نہیں ہے،اسی طرح حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منھ بولے بھائی ہیں، انکی لخت جگر سے نکاح فرماکر یہ تعلیم بھی مقصود ہے کہ منھ بولا بھائی خونی رشتہ کے بھائی کے حکم میں نہیں ہے۔
جس طرح قرآن کریم میں حضرت زینب رضی اللہ تعالٰی عنہا کے نکاح کےتعلق سے یہ اعلان فرمایاہےکہ " ہم نے آپ سے نکاح کردیا ہے"اور یہ بھی ذکر ہے کہ یہ اللہ کا حکم ہے،اسی طرح اماں جان حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے بارے میں حدیث شریف موجودہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے،ایک دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:تم مجھے خواب میں دو دفعہ دکھائی گئی ہو،میں نے دیکھا کہ تم ایک سفید ریشمی کپڑے میں لپٹی ہوئی تھیں اور فرشتہ کہ رہا تھا، یہ آپ کی بیوی ہیں ،میں وہ کپڑا ہٹاتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ تم ہو،میں کہتا تھا اگر یہ اللہ کی طرف سے ہے تو اسے ضرور پورا کرے گا، (بخاری، ۳۸۹۵)
یہ ضروری نکاح خاص شرعی حکم کو بھی بتلاتاہے اور قیامت تک کے لیے دین کی تکمیل کا سامان ہے۔
آج اماں جان حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی عمر کو لیکر اعتراض کیا گیا ہےکہ صرف چھ سال کی عمر میں آپ کا نکاح ہوا ہے، چنانچہ حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ جو حضرت عائشہ صدیقہ کے بھانجے ہیں، بیان کرتے ہیں کہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ کی طرف ہجرت سے تین سال پہلے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا فوت ہوگئی تھیں، آپ سے تقریبا دوسال بعد حضرت عائشہ صدیقہ سے نکاح کیا اور ان کی عمر چھ سال تھی، پھر نو سال کی عمر میں وہ آپ کے گھر تشریف لائی(بخاری، ۳۸۹۶)
مذکورہ بالا حدیث سے عمر کے حوالہ سے یہ شرعی مسئلہ بھی معلوم ہوا ہے کہ کم سنی میں شادی کی جاسکتی ہے، البتہ رخصتی وہ بلوغ کی عمر کے بعد ہونی چاہئے، اور اماں جان کے نکاح میں بھی اس کا مکمل خیال کیا گیا ہے، ام رومان جو اماں جان کی والدہ محترمہ ہیں، روایتوں میں اس کی وضاحت ملتی ہے کہ انہوں نے ہی نکاح کے تین سال بعد نو سال کی عمر میں آپ کی رخصتی کرادی ہے،
آج اس مسئلہ کو توہین رسالت کا عنوان بنانا آقائے نامدار محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے چاہنے والوں کو تکلیف پہونچانا مقصودہے، امت پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات ہیں تو اماں جان حضرت عائشہ بھی امت کی ماں اور محسنہ ہیں، دین اسلام کی تکمیل کا سامان رب ذوالجلال نے آپ کو بھی بنایا ہے،صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ کے علم وفضل کے معترف رہے ہیں، حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ، ہم رسول اللہ کے اصحاب پر جب بھی کسی حدیث میں اشکال ہوا تو ہم نے عائشہ صدیقہ سے پوچھا اور ان کے پاس اس بارے میں علم پایا، (ترمذی، ۳۸۸۳)
ایک واقعہ جو بہت ہی معروف ہے،بخارئ شریف میں لکھا ہوا ہے، ایک غزوہ کے موقع پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حضور کے ساتھ تھیں، گلے کا ہار گم ہو گیا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلاش میں اصحاب کو بھیجا، نماز کا وقت نکل رہا تھا، اس موقع پر آیت تیمم نازل ہوئی، مشہور صحابی حضرت اسیدبن حضیر نے کہا، اے عائشہ، اللہ آپ کو جزائے خیردے،آپ پرجب بھی کوئی مشکل آتی ہے تو اللہ آپ کے لیے کوئی سبیل پیدا کردیتا ہےاور اسی میں مسلمانوں کے لیے برکت ہوتی ہے،
آج امت اسلامیہ کے لیے بھی اس تناظر میں خوشخبری کی بات ہوسکتی ہے کہ اماں جان کی نسبت پر جب منافقین نے سازش رچی،اور تہمت دینے کا کام کیا توقرآن کریم کی سورہ نور کی دس آیات میں ان کی برات کا اعلان کیا گیا ہے، اور یہی چیز حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے لئے فخر کا سامان ہوا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر اماں جان حضرت ام سلمی رضی اللہ تعالٰی عنہا سے فرمایا:مجھے عائشہ کے بارے میں تکلیف نہ دو، بےشک اللہ کی قسم!مجھ پر تم میں صرف عائشہ کے بستر پر وحی نازل ہوتی ہے، (بخاری، ۳۷۷۵)
اس حدیث سے آقائے نامدار محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا بھی اندازہ ہوتا ہے اور اس کی وجہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ محبت کی بنیاد خالص شرعی ہے،
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیاری بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے بھی کہا ہے، اے میری بیٹی کیا تم اس سے محبت نہیں کرتی جس سے میں محبت کرتا ہوں،انہوں نےفرمایا،جی ہاں "
بخاری شریف کی ایک حدیث میں اللہ کے رسول کا ارشاد ہے، اے عائشہ، یہ جبرئیل تجھے سلام کہتے ہیں، حضرت عائشہ صدیقہ نے فرمایا، اور ان پر بھی اللہ کی رحمت اور سلام ہو،(بخاری، ۶۲۰۱)
اللہ رب العزت نے یہ مقام خاص دینی خدمات کے صلہ میں اماں جان کوعطا کیا ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خانگی زندگی کے ایک ایک حرف کی آپ نے حفاظت کی ہے،اور قیامت تک کے لئے اسے تسبیح کے دانہ میں پرو دیا ہے، موجودہ وقت میں اسے پڑھنے اور عام کرنے کی ضرورت ہے۔
ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ
۲۸/ذوالقعدہ ۱۴۴۳ھ