Powered By Blogger

جمعرات, جولائی 28, 2022

بیگوسرائے : قرض کی ادائیگی کے دباؤ سے پریشان طالبہ نے کی خودکشی

بیگوسرائے : قرض کی ادائیگی کے دباؤ سے پریشان طالبہ نے کی خودکشی
بیگوسرائے ، 28 جولائی (اردو دنیا نیوز ۷۲)۔ بیگوسرائے میں والد کی بیماری اور مالی تنگی سے پریشان ایک طالبہ نے پھانسی لگا کر خود کشی کر لیا۔ واقعہ نیما چاند پورہ تھانہ علاقہ کے چاند پورہ گاؤں کا ہے ، متوفی طالبہ چاند پورہ گاؤں رہائشی گنیش مہتو کی بیٹی کاجل کماری ہے

واقعہ کے بارے میں گاؤں والوں نے بتایا کہ کاجل کماری کے والد گنیش مہتو لیور ٹیومر میں مبتلا ہیں اور اپنی بیوی کے ساتھ علاج کے لیے بریلی گئے ہوئے ہیں۔ یہاں کاجل کماری گاؤں میں اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ رہ کر گریجویشن پارٹ ون اورپارا میڈیکل کی تیاری کر رہی تھی۔ علاج اوراہل خانہ کی گزر بسر کے لئے والدین نے خود ایس ایچ جی سے قرض لیا تھا۔ لیکن بیماری کی وجہ سے سیلف ہیلپ گروپ میں بروقت قسط جمع نہیں کرا سکے تھے اور کئی قسط ڈیوز میں چل رہا تھا۔

قرض کی واپسی کے لیے دباؤ ڈالنے پر اس نے گھر میں رکھا اناج بیچ کر کچھ رقم ادا کی تھی۔ لیکن کاجل پر فینانس کمپنی کی طرف سے قرض کی قسط سمیت پوری رقم جمع کرانے کے لیے مسلسل دباؤ تھا۔ لیکن والدین کے علاج میں مصروف ہونے کی وجہ سے کاجل قرض ادا کرنے سے قاصر تھی اورعلاج کے لیے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے والد بھی بریلی میں علاج کروانے سے قاصرہیں۔ گھر میں کھانے کا بھی مسئلہ تھا۔ اسی دباؤ میں آکر کاجل نے دیررات اپنے گھر میں پھانسی لگا کر خودکشی کرلی۔

سوئے بھائی نے جب بہن کو پھندے میں لٹکتے دیکھ کر شورمچایا تو لوگوں کا ہجوم اکھٹا ہوگیا۔ واقعہ کی اطلاع ملتے ہی پولیس نے لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے صدراسپتال بیگوسرائے بھیج دیا اور سنجیدگی سے تحقیقات شروع کردی۔ گاؤں والوں نے بتایا کہ کاجل کے بھائیوں میں سے ایک کی موت گزشتہ سال 27 جولائی کوتالاب میں ڈوبنے سے ہوئی تھی۔ اس کے بعد بھائی کی موت کے ٹھیک ایک سال مکمل ہونے کی رات اس نے اپنے گھرمیں پھانسی لگا کر خودکشی کرلی۔

گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ کاجل پڑھائی میں بہت تیزتھی اور اس نے میٹرک اورانٹر فرسٹ ڈویزن سے پاس کیا تھا۔ وہ کچھ بننا چاہتی تھی لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا، پڑھائی میں بہت ذہین لڑکی کے بے وقت انتقال سے گاؤں میں غم کی لہر دوڑ گئی۔ واقعہ کی اطلاع متوفی کے والدین کو دے دی گئی ہے۔

اب 10 ہزار روپے سے زیادہ کی نقد رقم نکالنے پر او ٹی پی نمبر درج کرنا لازمی _ ایس بی آئی کے نئے رولس

اب 10 ہزار روپے سے زیادہ کی نقد رقم نکالنے پر او ٹی پی نمبر درج کرنا لازمی _ ایس بی آئی کے نئے رولس
حیدرآباد_ 28 جولائی ( اردودنیانیوز۷۲) اسٹیٹ بینک آف انڈیا (SBI) اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کر رہا ہے کہ صارفین دھوکہ دہی کا صارفین شکار نہ ہوں۔ اس سلسلہ میں ایس بی آئی نے کہا ہے کہ اے ٹی ایم سے 10 ہزار روپے سے زیادہ کی نقد رقم نکالنے کے لیے، صارفین کو 'بینک میں رجسٹرڈ موبائل نمبر' پر بھیجے گئے او ٹی پی کو داخل کرنا ہوگا۔اب تک یہ رات 10 بجے کے بعد ضروری تھا لیکن اب 24 گھنٹے رہے گا ۔اگر صارف کا موبائل فون نمبر صحیح طریقے سے رجسٹرڈ نہیں ہے تو اے ٹی ایم سے کیش نہیں نکالا جا سکے ۔ گا۔ ایک OTP کے ذریعے ایک ہی لین دین کیا جا 
سکتا ہے۔
ایس بی آئی نے صارفین کے لئے ایک خوشخبری بھی دی ہے اگر کسی صارف کے بینک اکاؤنٹ میں ایک لاکھ روپے سے زیادہ ہیں تو ایسی صورت میں اے ٹی ایم سے کئی مرتبہ نقد رقم نکال سکتا ہے اس کے لئے کوئی چارج ادا کرنے نہیں ہوں گے۔ اگر رقم ایک لاکھ سے کم ہے تو صرف 5 مفت لین دین کی اجازت ہے۔ دوسرے بینکوں کے اے ٹی ایم سے صرف 3 بار مفت رقم نکالنے کی اجازت ہے۔ اس سے آگے، ہر ٹرانزیکشن پر چارج لگے گا

مسلمانوں کے امت ہونے کا مطلب

مسلمانوں کے امت ہونے کا مطلب- 

 مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
(اُردو دنیا نیوز ۷۳)
آر ایس ایس کے ایک اہم قائد جناب رام مادھو نے مسلمانوں کو ہندو مسلم تعلقات بہتر بنانے کے لئے تین نکاتی فارمولہ پیش کیاہے، جس میں دوسرا نکتہ یہ ہے کہ مسلمان خود کو امت اسلام اور امت مسلمہ سمجھنا چھوڑ دیں انھوں نے شاید ایسا اس لئے کہا ہو کہ امت کا تصور ہندوستان کے مسلمانوں کو پوری دنیا کے مسلمانوں سے جوڑ دیتا ہے، اس رابطہ کو کمزور کرنے یا منقطع کرنے کے لئے بعض سنگھ کارکنوں کی طرف سے یہ بھی تجویز پیش کی جاتی رہی ہے کہ بھارت میں ہی مکہ مکرمہ یا کعبہ کا ماڈل تیار کر دیا جائے؛ تاکہ مسلمان اپنے دیش میں ہی رہتے ہوئے حج کر لیں؛ کیوں کہ مکہ مکرمہ جا کر فریضۂ حج ادا کرنے سے امت کے آفاقی تصور کو تقویت پہنچتی ہے، یا ایسا ہو کہ وہ حج ادا کرنے کی بجائے اجمیر شریف جاکر زیارت کر لیں اور بس، مسلمانوں سے یہ مطالبہ ایسا ہی ہے جیسے حیدرآباد میں رہنے والے ہندو بھائیوں سے کوئی گروہ مطالبہ کرے کہ وہ امرناتھ یاترا کے لئے کشمیر جانے کے بجائے اسی شہر میں کسی بڑے اور خوبصورت مندر کی یاترا کر لیں؛ تاکہ ان کے پیسے بچیں اور مقامی تاجروں کو بھی فائدہ پہنچے، ظاہر ہے کہ یہ ایک نامعقول بات ہوگی، انسان کے عقیدہ اور یقین کے مطابق جو عمل جس جگہ سے متعلق ہو جب تک وہ اُس عمل کو اُس جگہ انجام نہ دے، نہ اس کا وہ عمل پورا ہوگا اور نہ اس کو تشفی ہوگی؛ اس لئے مسلمانوں کے بارے میں یہ خیال کرنا کہ ہندوستان میں بنائے گئے، مصنوعی کعبہ کا حج یا کسی بزرگ کے مزار کی زیارت ان کے جذبۂ عبادت کو پورا کر دے گی، ایک مذاق تو ہو سکتا ہے؛ مگر یہ بات کبھی حقیقت نہیں بن سکتی۔
اصل میں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ امت کے لفظ کی حقیقت کیا ہے؟ کیا صرف مسلمان ہی امت ہیں یا دوسرے مذہبی گروہ بھی اپنے اپنے افکار کے ساتھ امت ہیں؟ امت ہونے یا بننے کا مقصد کیا ہے؟ کیا مسلمانوں کا ایک امت ہونا دوسرے مذہبی گروہوں سے مزاحمت کے لئے ہیَ اور اس کا مقصد دوسرے گروہوں کو نشانہ بنانا اور ان کو تکلیف پہنچانا ہے؟ اس سلسلے میں چند نکات کو پیش نظر رکھنا چاہئے:

۱۔ امت عربی زبان میں ایک طرح کے افراد کے مجموعہ کو کہتے ہیں، جن میں کوئی مشترک بنیاد ہو، خواہ یہ مشترک بنیاد دین کی ہو یا زمانہ یا وقت کی، یا مقام وعلاقہ کی: الأمۃ جمع لھم جامع من دین أو زمان أو مکان أو غیر ذالک (کشاف اصطلاحات الفنون: ۱؍ ۲۶۲)
اسی مناسبت سے جس قوم میں کسی نبی کو بھیجا گیا ہو وہ قوم اس نبی کی امت کہلاتی ہے، چاہے وہ اس پر ایمان لائی ہو یا نہیں، جو ایمان لا چکے ہیں ان کو’’ امت اجابت ‘‘کہا جاتا ے اور جو ایمان نہیں لائے ان کو امت دعوت (شرح مشکوٰۃ للطیبی: ۲؍ ۴۴۸) اجابت کے معنیٰ قبول کرنے کے ہیں؛ لہٰذا امت اجابت  کے معنیٰ اس گروہ کے ہیں، جس نے نبی کی دعوت کو قبول کر لی ہو، اور جس نے اس دعوت کو قبول نہیں کیا، ان کو ’’امت دعوت‘‘ کہا جاتا ہے، یعنی ابھی ان پر مزید دعوت حق پیش کرنے کی ضرورت ہے؛ اسی لئے اہل لغت نے صراحت کی ہے کہ پیغمبر کو جن لوگوں کی طرف بھیجا گیا، وہ سب امت میں شامل ہیں: الأمۃ جماعۃ أرسل الیھم رسول سواء آمنوا أو کفروا (تاج العروس: ۳۱؍ ۲۲۹) ایک مشترک خصوصیت کے حامل گروہ کو اُمت کہنے کے معاملہ میں لغت کے اعتبار سے اس قدر وسعت ہے کہ انسان ہی نہیں دوسری مخلوقات کے گروہ کو بھی امت کہا گیا ہے، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: زمین میں جتنے چلنے والے جانور اور اپنے پروں کے ذریعہ اڑنے والے پرندے ہیں، یہ سبھی تمہاری طرح امتیں ہیں: وما من دابۃ فی الأرض ولا طائر یطیر بجناحیہ إلا أمم أمثالکم (انعام: ۳۸)
۲۔ امت کے مفہوم کی اس وسعت کو دیکھئے تو صرف مسلمان ہی امت نہیں ہیں؛ بلکہ ہر مذہبی گروہ ایک امت ہے، چاہے وہ ہندو ہوں یا عیسائی یا یہودی؛ چنانچہ قرآن مجید کہتا ہے کہ ہر ’’امت ‘‘ میں اللہ تعالیٰ نے ڈرانے والا اور حق کی تعلیم دینے والا بھیجا ہے :  وإن من أمۃ إلا خلا فیھا نذیر (فاطر: ۲۴)اسی لئے قرآن مجید نے غیر مسلم گروہوں کو بھی امت کے لفظ سے تعبیر کیا ہے اور اہل مکہ سے فرمایا ہے کہ ’’ اگر تم نے پیغمبر برحق کو جھٹلا دیا تو کچھ عجیب نہیں؛ کیوں کہ تم سے پہلے کی امتوں نے بھی اپنے زمانے کے رسولوں کو جھٹلایا تھا‘‘ وان تکذبوا فقد کذب امم من قبلکم (عنکبوت: ۱۸)----- اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ امت ہونے میں یا اپنے آپ کو امت کہنے میں نہ اپنی بڑائی کا اظہار ہے اور نہ دوسرے کی تحقیر ہے۔

۳۔ کسی گروہ کے لئے جیسے دوسری باتیں مشترک بنیاد ہو سکتی ہیں، اس طرح دین ومذہب بھی ہو سکتا ہے، اسی مناسبت سے ایک دین پر قائم رہنے والے لوگوں کو بھی ایک امت کہا جاتا ہے، عربی لغت وگرامر کے ایک بڑے ماہر زجاج نے’’ کان الناس أمۃ واحدۃ‘‘ (بقرہ: ۲۱۳) ’’ لوگ ایک ہی امت تھے‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ تمام لوگ ایک ہی دین پر تھے‘‘ کانوا علیٰ دین واحد (تاج العروس: ۳۱؍ ۲۲۹) اس لئے مذہبی رشتہ سے پوری دنیا کے مسلمان ایک امت ہیں، جس کی دعاء حضرت ابراہم علیہ السلام نے کی تھی: ’’ ہماری نسل میں ایک مسلمان امت پیدا فرما ‘‘ ومن ذریتنا أمۃ مسلمۃ لک ( بقرہ: ۱۲۹) جیسے امت کا لفظ اجتماعیت کو ظاہر کرتا ہے ایسے ہی ایک لفظ قوم کا ہے، یہ بھی افراد کے ایک مجموعہ کو کہتے ہیں، امت کا لفظ عموماََ ایک فکر کے لوگوں پر بولا جاتا  ہے اور قوم کا لفظ عموماََ ایک علاقہ اور ملک کے لوگوں پر ؛ اسی لئے انبیاء علیہم السلام نے اپنے مخاطب کو ’’ قومی ‘‘ کے لفظ سے خطاب کیا؛ حالاں کہ دینی اعتبار سے اُن کے اور اُن کی قوم کے درمیان اتحاد نہیں تھا؛ بلکہ قوم ان کی دعوت کی سخت مخالف تھی، پس مسلمانوں کا ایک تعلق اپنے ہم مذہب لوگوں سے ہے، اور اس اعتبار سے وہ ایک ’’امت ‘‘ ہیں، اور دوسرا تعلق اپنے ہم وطنوں سے ہے، اور اس رشتہ کے اعتبار سے وہ ایک قوم ہیں؛ اس لئے ہندوستان میں بسنے والے جتنے بھی مذہبی گروہ ہیں، ہندوستانی مسلمان ان کو اپنی قوم کا حصہ سمجھتے ہیں، اسی جذبہ کے تحت مسلمان ملک کے دفاع، اس کی ترقی اور اس کی آزادی میں برادران وطن کے شانہ بشانہ بلکہ بعض اوقات دوسروں سے آگے بڑھ کر مادر وطن کی خدمت کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔
۴۔ موجودہ دنیا ایک گلوبل دنیا ہے، جس نے پوری دنیا کو ایک گاؤں میں تبدیل کر دیا ہے، ہر ملک کا مفاد دوسرے ملک سے متعلق ہے، بسا اوقات بڑے بڑے اور طاقتور ممالک بعض مفادات میں بہت چھوٹے ممالک کے محتاج ہوتے ہیں، اور وہ ان کی تائید چاہتے ہیں؛ اس لئے اگر ہندوستانی مسلمانوں کا تعلق عالم اسلام کے اور دوسرے ملکوں میں بسنے والے مسلمانوں سے استوار ہو اور اس کا استعمال ملک کے خلاف نہ ہو تو یہ ہمارے ملک کے لئے مفید ہے نہ کہ نقصان دہ، اس وقت ہندوستان کو مسلمان ممالک کی جو تائید حاصل ہے یہاں تک کہ بہت سی دفعہ وہ پڑوس کے مسلم اکثریت ملکوں کے مقابلہ ہندوستان کو ترجیح دیتے ہیں، تجارت میں، افرادی وسائل کو مشغول کرنے میں، سرمایہ کاری میں اور بین الاقوامی مسائل میں ہندوستان کے موقف کی تائید کرنے میں، اس میں یقینی طور پر اس بات کا بھی حصہ ہے کہ انڈونیشیا کے بعد سب سے زیادہ مسلمان بھارت میں بستے ہیں، پس امت کے اس تصور سے ہمارے ملک کو فائدہ پہنچتا ہے نہ کہ نقصان۔
۵۔ پھر کیا صرف اس ملک کے مسلمانوں ہی کا دوسرے ملکوں میں بسنے والے اپنے مذہبوں سے رابطہ ہے؟ کیا دوسرے مذہبی گروہوں کا نہیں ہے؟ ہندو مذہب پر یقین رکھنے والے تارکین وطن پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں، اور وہ وہاں ہندوستان میں بسنے والے ہم مذہب لوگوں سے خصوصی تعلق رکھتے ہیں، اپنے ملک میں رہتے ہوئے رام مندر پر چندہ کرتے ہیں، آر ایس ایس کی نفرت انگیز تحریک کا تعاون کرتے ہیں، اس کی بنیاد اتحاد مذہب کے سوا اور کیا ہے؟ پوری دنیا کے ہندوؤں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کے لئے سنگھ پریوار نے وشو ہندو پریشد قائم کی ہے، یہی ہے امت کا وہ تصور جس کو لے کر مسلمانوں کو بدنام کیا جاتا ہے۔

۶۔ کسی بھی اجتماعیت کے بارے میں نفع بخش یا نقصان دہ ہونے کا فیصلہ اس کے مقاصد سے کیا جاتا ہے، اگر لوگ اپنی ایک وحدت اس سوچ کے ساتھ قائم کریں کہ وہ دوسروں کو نیچا دکھائیں گے ، ان کو نقصان پہنچائیں گے، ان کو بے وطن کریں گے، سماج میں نفرت پھیلائیں گے اور تفریق کی فضاء بنائیں گے تو ظاہر ہے کہ ایسی اجتماعیت انسانیت کے لئے تباہ کن، ملک وقوم کے لئے مہلک ونقصان دہ اور ناقابل قبول ہے، چاہے یہ مسلمانوں کی طرف سے ہو یا کسی اور مذہبی گروہ کی طرف سے۔
ایک امت کی حیثیت سے مسلمانوں کی جو ذمہ داریاں اور مقاصد ہیں، قرآن مجید نے ان کو بہت واضح الفاظ میں بیان کیا ہے:
کنتم خیر أمۃ أخرجت للناس تأمرون بالمعروف وتنھون عن المنکر وتؤمنون باللہ (آل عمران: ۱۱)
ترجمہ: تم بہترین امت ہو، جس کو انسانیت کے لئے پیدا کیا گیا ہے؛ تاکہ تم لوگوں کو اچھی باتوں کا حکم دو ، بری باتوں سے منع کرو اور اللہ پر ایمان رکھا کرو۔
اسی بات کو قرآن مجید نے ایک دوسری جگہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو ’’ میانہ رَو اُمت ‘‘ بنایا ہے، جو لوگوں کے سامنے حق کی گواہی دیتے ہیں (بقرہ: ۱۴۳) گواہی دینے سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جن باتوں کا حکم دیا ہے، ان کی دعوت دیتے ہیں، اور جن باتوں سے منع فرمایا ہے، ان سے روکتے ہیں، غرض کہ اس امت کی اجتماعیت ،وحدت اور باہمی ارتباط کا مقصد نہ کسی گروہ کی مخالفت ہے نہ نفرت کا پھیلانا؛ بلکہ اس کا مقصد دنیا میں اچھی باتوں کو فروغ دینا، سماج کو خیروفلاح کی طرف لانا، ظلم وزیادتی اور برائیوں کو روکنا ہے، تو ظاہر ہے کہ ایسی امت ملک کے لئے فائدہ مند ہی ہوگی، پھر قرآن مجید نے یہ بھی صاف صاف کہہ دیا کہ دوسری قوموں کے جو عقائد وافکار اور رسوم وروایات ہیں اور زندگی گزارنے کا جو طور وطریقہ ہے ، چاہے مسلمانوں کو اس سے اتفاق نہ ہو؛ لیکن اس کو دنیا میں فساد وانتشار کا سبب نہ بنایا جائے، یہ اختلاف جو ہمیں نظر آتا ہے، یہ بھی اللہ تعالیٰ کی مشیت کا حصہ ہے، اگر اللہ تعالیٰ کو اس دنیا میں ادیان ومذاہب کا اختلاف منظور نہ ہوتا تو سارے کے سارے لوگ ایک ہی مذہب کے حامل ہوتے؛ لیکن اللہ تعالیٰ کے یہاں یہ بات مقدر ہے کہ اس دنیا میں اختلاف مذہب قائم رہے گا: ولو شاء ربک لجعل الناس أمۃ واحدۃ ولا یزالون مختلفین (ہود: ۱۱۸)؛ اس لئے مسلمانوں کو اس بات سے منع کیا گیا کہ دوسری قومیں جن دیویوں دیوتاؤں کی پوجا کرتی ہیں، ان کو برا بھلا کہا جائے : ولا تسبوا الذین یدعون من دون اللہ فیسبوااللہ عدوا بغیر علم (انعام: ۱۰۸) اگر اسلام نے امت محمدیہ کا مقصد دوسروں سے لڑنا، ا ن سے جنگ کرنا اور زبردستی ان کا مذہب تبدیل کرانے کی کوشش کرنا قرار دیا ہوتا تو یقیناََ مسلمان بحیثیت امت قابل نفرت ہوتے؛ لیکن اسلام نے ایسی کوئی بات نہیں کہی ہے؛ بلکہ امت کو بہتر مقاصد کے لئے برپا کیا گیا ہے؛ اس لئے اس سے نہ وطن عزیز کا کوئی نقصان ہے نہ برادران وطن کا اور نہ انسانیت کا۔ !!!


ماشاءاللہ تحفظ شریعت و ویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ و پلاسی ارریہ کا محرم الحرام حقائق، فضائل اور خرافات و بدعات کے عنوان پر سلسلہ وار پروگرام

ماشاءاللہ تحفظ شریعت و ویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ و پلاسی ارریہ کا
(اردو دنیا نیوز۷۲)
 محرم الحرام حقائق، فضائل اور خرافات و بدعات کے عنوان پر سلسلہ وار  پروگرام  مورخہ 27/ جولائی 2022  مقام جامع مسجد دھنپورہ، ماشاءاللہ بہت کامیاب رہا پروگرام کی صدارت حضرت مولانا و مفتی محمد ارشد صاحب مظاہری استاذ حدیث دارلعلوم شیخ زکریا دیوبند  نے کی مقرر خصوصی مولانا محمد نعمان صاحب قاسمی خطیب جامع مسجد جوکی ہاٹ نے محرم الحرام میں ڈھول ناچ اور مرسیہ کے متعلق لوگوں کو تفصیل سے بیان فرمایا اور بتایا کہ محرم الحرام کے مہینے میں صرف دو کام کرنے کے ہے نمبر ایک یوم عاشورہ کا روزہ دوسرا عاشورہ کے دن کھانے میں استطاعت ہونے پر وسیع کرنا، مفتی محمد سعود صاحب دلمال پور  نے بھی تنظیم کی تعریف کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنے کی گزارش کی مولانا مجیب الرحمٰن صاحب نے بھی محرم الحرام کے متعلق بیان فرمایا ،اور مفتی محمد اطہر حسین قاسمی نے تنظیم تحفظ شریعت کی تعریف اور دارالافتاء و دارالقضاء کے بارے میں بتایا،اور مولانا محمد طاہر دھنپورہ مقیم شولا پور نے بھی حضرت حسن وحسین کی سیرت مبارکہ بیان فرمایا، اور اس پروگرام میں تحفظ شریعت کے اکثر علماءکرام موجود رہے عبدالوارث مظاہری سکریٹری تحفظ شریعت، قاری عبدالقدوس، مولانا تنزیل الرحمن قاری مظفر صبا، مولانا محمد منہاج، مولانا محمد امتیاز مظاہری ،وغیرہ موجود رہے اور مفتی محمد ارشد صاحب مظاہری نے سبھی لوگوں کا شکریہ ادا کیا،  آخیر میں مولانا محمد کونین صاحب مظاہری  کی دعاء پر مجلس اختتام ہوئی

بدھ, جولائی 27, 2022

ہماچل اور راجستھان سمیت کئی ریاستوں میں بارش کا الرٹ جاری

ہماچل اور راجستھان سمیت کئی ریاستوں میں بارش کا الرٹ جاری


(اردودنیانیوز٧٢جے پور)

ملک کی بیشتر ریاستوں میں موسلادھار بارش ہو رہی ہے۔ کئی مقامات پر سیلابی صورتحال ہے۔ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران آسمانی بجلی گرنے سے بہار میں 11 اور اتر پردیش میں 10 لوگوں کی موت ہو گئی۔ آندھرا پردیش میں گوداوری ندی میں سیلاب کی وجہ سے اب تک 7 افراد اپنی جان گنوا چکے ہیں۔ راجستھان کے جودھ پور میں ڈوبنے سے پانچ افراد کی موت ہو گئی۔

مانسون شروع ہونے کے بعد سے گجرات میں 100 سے زیادہ اور مہاراشٹر میں 110 لوگوں کی موت ہو چکی ہے۔ آسام میں اس سال سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے 197 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

محکمہ موسمیات کے مطابق آئندہ 24 گھنٹوں میں گوا، مدھیہ پردیش، مغربی بنگال، سکم، راجستھان اور گجرات کے کچھ علاقوں میں موسلادھار بارش ہو سکتی ہے۔ کیرالہ، کرناٹک، دہلی اور ہریانہ میں بھی ہلکی بارش کی پیش گوئی کی گئی ہے۔

جودھ پور کے باوڑی قصبے میں شدید بارش کے دوران ڈوبنے سے چار بچوں کی موت ہو گئی۔ بارش کے بعد غیر قانونی کان کنی سے بنے گڑھے پانی سے بھر گئے۔ یہاں منگل کی دوپہر قریبی بستی کے 5 بچے یہاں نہانے گئے تھے۔ پانچوں پانی میں اترتے ہی ڈوبنے لگے۔ قریبی لوگوں نے ایک بچے کو بچا لیا تاہم باقی چار ڈوب گئے۔

دوسرا واقعہ مندور علاقے میں بہتی بیری گنگا میں پیش آیا۔ منگل کی دوپہر تقریباً 2 بجے دریا کے آبشار کے علاقے میں قریب ہی رہنے والا 10 سالہ نوجوان تیز کرنٹ میں بہہ گیا۔ وہ اپنے دو دوستوں کے ساتھ سیر کے لیے گیا۔

پوری ریاست میں اس سیزن میں اب تک 55 فیصد سے زیادہ بارش ہوئی ہے۔ ساتھ ہی، پورے مانسون کے دوران جودھپور میں 84 فیصد بارش 24 گھنٹوں میں ہوئی۔ منگل کی شام تک یہاں 180 ملی میٹر تک بارش ریکارڈ کی گئی ہے۔

جب کہ آج اور کل ریاست کے 24 اضلاع میں تیز بارش اور بجلی گرنے کی وارننگ دی گئی ہے۔ جودھپور میں زیادہ سے زیادہ بارش ہونے کا امکان ہے۔

ریاست کے کئی اضلاع میں منگل کو موسلادھار بارش ہوئی۔ اس کے بعد کئی مقامات پر پانی بھر گیا۔ اس میں بھوپال، گنا، ساگر، بیتول شامل ہیں جہاں ایک انچ سے زیادہ پانی گرا ہے۔

ریاست میں شدید بارش کے حوالے سے 13 اضلاع میں الرٹ جاری کر دیا گیا ہے۔ رتلام، شاجاپور، آگر، دیواس، شیو پوری، گوالیار، شیوپور، ساگر، دموہ، پنا، انوپ پور، ڈنڈوری اور عمریا اضلاع میں 115.5 ملی میٹر تک بارش کا امکان ہے۔

اگر بات ریاست ہماچل پردیش کریں تو یہاں بارش نے تباہی مچا دی ہے۔ کہیں بادل پھٹ رہے ہیں تو کہیں نالوں میں طغیانی ہے۔ اس کی وجہ سے منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کو 100 کروڑ سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے۔ چیف منسٹر نے عہدیداروں کو ہدایت دی ہے کہ وہ موسلادھار بارش کی وجہ سے ہونے والی آفات سے نمٹنے کے لئے وسیع انتظامات کریں۔

ہماچل پردیش کے کولو ضلع میں منگل کو لینڈ سلائیڈنگ ہوئی۔ جس کی وجہ سے باگی پل جاون سڑک بلاک ہوگئی۔ تاہم کسی نقصان کی اطلاع نہیں ہے۔ دوسری جانب شملہ میں بھی بارش ہوئی۔ اس سے موسم قدرے ٹھنڈا ہوگیا۔

محکمہ موسمیات نے اگلے چار دنوں تک ریاست میں شدید بارش کی پیش گوئی کی ہے۔ محکمہ کے ڈائریکٹر سریندر پال نے بتایا کہ میدانی علاقوں اور آس پاس کے علاقوں میں 26 اور 27 جولائی کو پیلا الرٹ اور 28-29 جولائی کو اورنج الرٹ جاری کیا گیا ہے۔

وہیں منگل کی شام یوپی کے کئی شہروں میں زبردست بارش ہوئی۔ کانپور میں اس مانسون کی سب سے زیادہ بارش ہوئی۔ دو گھنٹے میں یہاں 16 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔ پانی گھروں اور فیکٹریوں میں داخل ہو گیا۔ دوسری جانب ریاست میں موسلا دھار بارش میں آسمانی بجلی گرنے سے 10 افراد کی موت ہو گئی۔

محکمہ موسمیات نے پریاگ راج، لکھنؤ، چندولی، ماؤ، کوشامبی، چترکوٹ، فتح پور، ہمیر پور، بندہ، آگرہ، میرٹھ میں اگلے 24 گھنٹوں میں بارش کی پیش گوئی کی ہے۔ محکمہ کا کہنا ہے کہ 30 جولائی تک ایسا ہی موسم متوقع ہے۔

بہار کے دو اضلاع کے سرکاری اسکولوں میں جمعہ کے روز چھٹی پر حکومت حرکت میں، جانچ کا حکم

بہار کے دو اضلاع کے سرکاری اسکولوں میں جمعہ کے روز چھٹی پر حکومت حرکت میں، جانچ کا حکم


پٹنہ، 27 جولائی (اردو دنیا نیوز ۷۲)۔ بہار کے مسلم اکثریتی اضلاع کشن گنج اور کٹیہار کے کچھ سرکاری اسکولوں میں اتوارکے بجائے جمعہ کے روزہفتہ وار تعطیل ہونے کا انکشاف ہونے کے بعد ریاستی حکومت حرکت میں آگئی ہے۔ وزیر تعلیم وجے کمار چودھری نے تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ کشن گنج میں 37 اور کٹیہار ضلع کے 21 سرکاری اسکول اتوار کے بجائے جمعہ کو بند رہتے ہیں۔

حکومت نے بغیر کسی سرکاری اجازت کے ایسا کرنے کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ کشن گنج-کٹیہار کے ضلع ایجوکیشن افسر (ڈی ای او) سے رپورٹ طلب کی گئی ہے۔ وزیر تعلیم چو دھری کا کہنا ہے کہ رپورٹ آنے کے بعد مناسب کارروائی کی جائے گی۔ اسکول حکومت کے قوانین پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔

دل ودماغ کوترو تازہ رکھنے کا ہنر__

دل ودماغ کوترو تازہ رکھنے کا ہنر__
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف 
 (9431003131) 
(اردو دنیا نیوز ۷۲)
 بڑھتی عمر کے سائے انسانی جسم اور دل ودماغ پر پڑتے ہیں تو دل ، دماغ، جسم سب کمزور ہوجاتا ہے ، اکبر الٰہ آبادی کے لفظوں میں ’’بچوں سے کیا بدترپیری نے جو اں ہو کر‘‘ کا منظر سامنے ہوتا ہے ، اعضاء رئیسہ کے کمزور ہونے سے چلنے پھرنے کی صلاحیت بھی کمزور پڑ جاتی ہے، یاد داشت ساتھ چھوڑ نے لگتے ہیں اور حافظہ کمزور ہوجاتا ہے ، جیسے جیسے آدمی ’’ارذلِ عمر‘‘ کو پہونچتا ہے وہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی انجان ہوجاتا ہے ۔ قرآن کریم میں اسے لکیلا یعلم بعدعلم شیئا سے تعبیر کیاگیا ہے ، بڑھتی عمر کے اثرات کو روک پانا ہمارے لیے ممکن نہیں ہے ، لیکن ہم بڑھا پے میں بھی فکر کو تر وتازہ اور مثبت رکھ کر دماغ سے دیر تک کام لے سکتے ہیں، صحت عامہ کے اصولوں کا خیال رکھ کر جسم کوتیزی سے کمزور ہونے سے بچا سکتے ہیں۔دراصل قدرت نے ہمارے دماغ میں یاد داشت کے محفوظ رکھنے کا بڑا خانہ بنایا ہے؛ جس کی وجہ سے ہمارا ماضی اور اچھے دن کی یاد ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتے، یہ یادیں ہمیں زیادہ پریشان کر تی ہیں، اسی لیے ایک شاعر نے کہا تھا کہ یاد ماضی عذاب ہے یا رب/چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
 ماضی سے ہم اپنا رشتہ توڑ نہیں سکتے، لیکن ہم حال میں جینے کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا سکتے ہیں، حال میں جینے سے آپ کے کام کرنے کی صلاحیت باقی رہتی ہے، اور ماضی کی یادوں کے سہارے آپ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے نہیں رہتے، جب آپ ماضی میں جیتے ہیں تو اچھے دنوں کی یاد آپ کو پریشان کرتی ہے، آپ سوچتے رہتے ہیں کہ آخر وہ دن کیسے ہَوا ہوگیے جب پسینہ گلاب تھا، یہ سوچ دکھ درد میں اضافہ کا سبب ہوا کرتی ہے، اس لیے ماضی کے تجربہ سے فائدہ اٹھانا چاہیے، لیکن اس کو سوچ سوچ کر ہلکان ہونا کسی بھی درجہ میں عقل مندی نہیں ہے، جب ہم ماضی میں خود کو قید کر لیتے ہیں تو ہمارے آگے بڑھنے کے راستے خود ہی مسدود اور بند ہوجاتے ہیں۔
 اللہ تعالیٰ نے ہمارے جسم وجان اور دل ودماغ کے رشتے کو اس قدر کنفیڈنشل، خفیہ رکھا ہے کہ کوئی دوسرا ہمارے اندر جھانک کر ہمارے ماضی کا پتہ نہیں چلا سکتا تا آں کہ ہم خود ہی کسی کو راز دارنہ بنالیں، ہمارے تعلقات خاندان، سماج کے ساتھ الگ الگ ہوتے ہیں اور تعلقات کی نوعیت کے اعتبار سے ہمارا کرداربھی الگ الگ ہوتا ہے ، ہم بعض لوگوں کی جھوٹی تعریف کرکے اسے خوش کرتے ہیں، بعض سے ہمارا ذہنی اختلاف ہوتا ہے اور ہم اس کے در پہ آزار ہوتے ہیں،ہم سماج کو جیسا دکھتے ہیں ویسا ہوتے نہیں اور جیسا ہوتے ہیں ویسا دِکھتے نہیں، ہر آدمی وقت اورحالات کے اعتبار سے کچھوا کی طرح خول میں بند ہوتا ہے اور بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ اس خول سے باہر آکر لوگوں کو بتائے کہ ہم کون ہیں؟ کیا ہیں؟ اگر ہم اصلی صورت میں لوگوں کے سامنے آجائیں اور اللہ ہمارے گناہوں پر پردہ نہ ڈالے اور اپنی صفت ستاریت کے صدقے ہماری بے راہ رویوں کومعاف نہ کرے تو واقعہ یہ ہے کہ بیش تر لوگ سماج کو منہہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں، یقینا سماج کے سامنے اپنی مثالی تصویر بنائے رکھنا بُری بات نہیں ہے، لیکن ہمیں خود کو پہچاننا چاہیے کہ ہماری اصل کیا ہے ؟ ہمارے اندرکس قدر خوبیاں اور خامیاں ہیں؟ ہمارے قول وعمل میں کتنا تضاد ہے؟ہمیں ان سے واقف ہونا چاہیے، اپنا محاسبہ کرنا چاہیے ہمارے کردار سے دوسروں کو دھوکہ ہو سکتا ہے، لیکن ہمیں خود کو دھوکہ نہیں دینا چاہیے اور خود فریبی سے بچنا چاہیے، اس سے آپ کے کام کرنے کی صلاحیت بڑھے گی ، دماغ تر وتازہ رہے گا اور زندگی میں ایک خوش گوار تبدیلی آئے گی ، اور آپ کو اطمینان بھی ہوگا کہ ہم اپنے کو پہچان رہے ہیں، اور جو خود کو پہچان گیا وہ رب کو بھی پہچان لیتا ہے، من عرف نفسہ فقد عرف ربہ کا یہی مطلب ہے، یعنی معرفت نفس آدمی کو معرفت رب تک پہونچا دیتا ہے۔
خود کو پہچاننے کا یہ عمل آپ کو ذہنی تناؤ سے بھی بچا ئے گا، اس سے آپ کی سوچ میں تبدیلی آئے گی اور آپ صحیح فیصلے پر قادر ہو سکیں گے ، تناؤ اور ذہنی الجھن کی کثرت سے آدمی کے فیصلے کرنے کی قوت گھٹتی ہے ، آپ کے اندر حالات سے مقابلے اورمدافعت کی قوت کمزورہوجاتی ہے، اور آپ حالات کا سامنا کرنے کے بجائے اس سے راہ فرار اختیار کرنے میں عافیت محسوس کرتے ہیں، کچھ دن اگر آپ اسی حالت میں رہ گیے تو زندگی بے رس اور بے کیف ہوجاتی ہے اورآپ اس سے لطف اندوز نہیں ہو پاتے ہیں۔
 اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم مثبت سوچ کے ساتھ زندگی گذاریں ، کیوں کہ جب ہم کسی کے خلاف منصوبے بنا رہے ہوتے ہیں اور کسی کی دشمنی ہمارے دل ودماغ پر حاوی ہو جاتی ہے تو ہم پُرسکون نہیں رہ پاتے ، ہم جب پر سکون ہوتے ہیں تو فکر میں ہمارے تروتازگی ہوتی ہے اور ہم اپنے نظریات اور فکر کو نئی سمت سے آشنا کر سکتے ہیں، لیکن ہم ہر بار اپنی پرانی عادت اور کام کے پرانے طریقے کو ہی دہراتے رہتے ہیں اور سوچتے ہیںکہ یہ ہمارے تجربات کا نچوڑ ہے، لیکن اگر ہم کچھ نیا سوچ سکیں ، نئے طریقے کو سامنے لا سکیں تو ہمارے لیے ہو سکتا ہے کہ یہ ایک خوش گوار لمحہ ہو اور اس نئے طریقے کی سو چ ہمارے اندر نئی توانائی اور شادابی بھردے۔ در اصل عادتیں اور تجربات بہت طاقت ور ہوتے ہیں، اس لیے انسان آسانی سے اس سے پیچھا چھڑا نہیں پاتا ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پرانے تجربات اور عادتوں کو بار بار دہراتے رہنے سے آپ نئی راہوں پر چلنے کا حوصلہ نہیں جُٹاپاتے اور مواقع کھو دیتے ہیں، جس سے آپ کی ذہنی تروتازدگی میں فرق پڑتا ہے۔ آپ جب حال میں جینا سیکھ جاتے ہیں تو بہت ساری ذہنی پریشانیوں سے بچ جاتے ہیں اور آپ کے لیے یہ ممکن ہوتا ہے کہ بوڑھاپے میں خوشگوار زندگی جیتے رہیں او ر اپنی سوچ اورفکر کو بوڑھاہونے سے بچالیں۔ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ انسانی زندگی پر خود کی سوچ اور فکر کا بڑا اثر ہوتا ہے، آپ دن بھر جو کچھ سوچتے ہیں، اسی سے آپ کی شخصیت کی تعمیر وتشکیل ہوتی ہے، نفسیات کے ماہرین تو یہ بھی کہتے ہیں کہ آپ جو کچھ سوچتے ہیں، وہی مختلف اشکال، صورت اور واقعات کی شکل میں خواب میں آتے ہیں، امریکہ کے ایک دانشور کا کہنا ہے کہ آدمی کی سوچ اور فکر ہی اس کی شخصیت کو تیار کرتے ہیں، اس کو آپ ایک مثال سے اس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ آپ ظاہری رکھ رکھاؤ کے لیے اچھے کپڑے پہنے ہیں، بال داڑھی بنواتے ہیں، ورزش کرتے ہیںتاکہ آپ اچھے دکھیں، اسی طرح ذہن وفکر پر بھی محنت کی ضرورت ہوتی ہے، آپ اگر مذہبی اقدار پر یقین رکھتے ہیں، آپ کا قلب ایمان کی دولت سے مالا مال اور آپ کا عمل اسلامی تعلیمات کا مظہر ہے تو آپ کی فکر پر اس کا اثر پڑتا ہے اور اگر آپ نے دل ودماغ میں ملحدانہ افکار اور خدا بیزار عادت کو اپنا رکھا ہے تو آپ کی سوچ لا مذہبیت والی ہوجائے گی، اور آپ کی شخصیت پر اس کے واضح اثرات پڑیں گے، پھر قلب کی بے اطمینانی ، دل کی بے چینی اور دماغ کا جنون بڑھتا جائے گا، آپ اگر ہر وقت نا کامی کے بارے میں سوچتے ہیں تو آپ کو ناکام ہونے سے کوئی روک نہیں سکتا، کیوں کہ آپ کے دماغ میں ناکامی رچ بس گئی ہے، اور جو چیز دماغ میں رچ بس جاتی ہے اعمال کا صدور اسی حوالہ سے ہوا کرتا ہے، اس کے برعکس اگر آپ کے ذہن میں بیٹھا ہوا ہے کہ ہم یہ کر سکتے ہیں تو آپ کی محنت کا رخ بالکل الگ ہوگا، وہ جو نیپولین بونا پاٹ کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ آیا،اس نے دیکھا اور فتح کر لیا، وہ اسی سوچ کا نتیجہ ہے، وہ کہا کرتا تھا کہ ناکامی کا لفظ میری ڈکشنری میں نہیں ہے، اس کا مطلب یہی تھا کہ وہ کامیابی کے سلسلے میں انتہائی پر امید رہا کرتا تھا، سڑک کنارے ایک بورڈ پر لکھا ہوا میں نے دیکھا کہ ناکامی کا مطلب ہے کہ کامیابی کے لیے صحیح ڈھنگ سے کوشش نہیں کی گئی، ایک مفکر کاقول ہے کہ کوئی بھی مسئلہ بڑا نہیں ہماری سوچ اسے بڑا بنا دیتی ہے، بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں آپ بدل نہیں سکتے تو بھی ہلکان مت ہوئیے، کوئی ایسی بات سوچیے کہ اس کی اچھی توجیہہ ہوجائے، ایک شاعر انتہائی کالا کلوٹا تھا، لوگ اس کی تصویر لینے لگے تواس نے کہا کہ میری تصویر تو ڈجیٹل کیمرے سے بھی ڈارک ہی آتی ہے، پھر اس نے کہا کہ میرے اس رنگ کی خصوصیت ہے کہ یہ سارے رنگوں پر حاوی ہوجاتا ہے، نظر بد سے بچنے کے لیے مائیں میرے ہی رنگ کا بچوں کو ٹیکہ لگاتی ہیں، ظاہر ہے آپ اپنے چہرے کا رنگ بدل نہیں سکتے، لیکن خود پر ہنس کر اس کی اچھی توجیہ کرکے آپ مایوسی سے پیچھا ضرور چھڑا سکتے ہیں، یہ کام کیجئے دیکھئے بوڑھاپے میں بھی کس قدر زندگی نشاط آمیز ہوتی ہے۔
 خوشگوار زندگی گذارنے کے لیے تحمل اور برداشت بنیادی چیز ہے، کاموں کے وقت پر نمٹانے کا ایک نظام الاوقات بنائیں، ہدف مقرر کریں، اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ مقرر ہ وقت پر آپ ہدف تک پہونچ کر ہی دم لیں گے ، اس کے لیے کام میں انہماک اور ’’من‘‘ کی توانائی اور’’ تن‘‘ کی مستعدی ضروری ہے۔امید کا دامن تھامے رکھیں اور قناعت کے ساتھ زندگی گذاریں، اس سے آپ کا جسم بھی ٹھیک رہے گا اور دماغ بھی قابو میں رہے گا، زندگی میں آرائشی سامانوں کی کثرت سے خوشیاں نہیں ملتیں، خوشیاں ’’من‘‘ کے مطمئن ہونے سے ملا کرتی ہیں، اور اس کے لیے ضروری ہے کہ کام کے بوجھ کے ساتھ آپ اپنے بیوی بچوں کے لیے بھی تھوڑا وقت نکالیں، اس لیے کہ آپ پر آپ کا بھی حق ہے۔ترمذی شریف کی ایک روایت میں حضرت سلمان فارسی اور حضرت ابو داؤد کا واقعہ نقل کیا ہے کہ حضرت سلمان فارسی ؓ نے ان سے کہا کہ تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے، تمہارے مہمان کا تم پر حق ہے، تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے، تمہارے رب کا بھی حق ہے، سب کے حقوق ادا کیا کرو، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں ذکر آیا تو آپ نے حضرت سلمان کی تائید کی ، امام ترمذی نے اس روایت کو ’’حسن ‘‘کہا ہے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...