Powered By Blogger

اتوار, مارچ 05, 2023

جامعہ عربیہ دارالعلوم محمدیہ میں میٹنگ کا انعقادپھلواری شریف پٹنہ مورخہ 5/مارچ 2023 (پریس ریلیز

جامعہ عربیہ دارالعلوم محمدیہ میں میٹنگ کا انعقاد
پھلواری شریف پٹنہ مورخہ 5/مارچ 2023 (پریس ریلیز
اردودنیانیوز۷۲ 
✍️ :محمد ضیاء العظیم قاسمی)
جامعہ عربیہ دارالعلوم محمدیہ البا کالونی پھلواری شریف پٹنہ میں ایک میٹنگ کا انعقاد کیا گیا، جس میں مدرسہ کے اساتذہ سمیت تمام کارکنان موجود تھے، واضح رہے کہ مورخہ 16/مارچ 2023 بروز جمعرات بمطابق ٢٤ شعبان المعظم ١٤٤٤ھ بوقت بعد نماز مغرب ایک عظیم الشان اجلاس دستار بندی ہوگی جس میں 16/حفاظ کرام کے سر پر دستار فضیلت باندھی جائے گی،اس اجلاس میں ملک کے مشہور ومعروف علماء کرام سمیت کئ اہم شخصیات تشریف لارہے ہیں ۔میٹنگ میں اجلاس کو کامیاب بنانے کی تجویز پیش کی گئی، اس موقع پر جامعہ ہذا کے مہتم مفتی نور العظیم مظاہری نے تمام اساتذہ وکارکنان کو خاص ہدایت دی کہ آنے والے مہمانان کو کسی بھی قسم کی کوئی دشواری درپیش نہ آئے ہم سب مل کر کوشش کریں اور دعا کریں کہ پروگرام مکمل کامیاب رہے، یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جامعہ عربیہ دارالعلوم محمدیہ (بیاد حاجی شفیق صاحب رح) کی بنیاد 2017 میں رکھی گئی تھی، اور اب تک الحمد للہ بیس طلباء اور ایک طالبہ نے حفظ قرآن کی تکمیل کی سعادت حاصل کی ہے، اور سولہ طلباء کی دستارِ فضیلت ہوگی چار طلباء بیرون ملک ہیں جس بنا پر ان کا آنا ممکن نہیں ہے،
مولانا محمد ضیاء العظیم قاسمی استاذ جامعہ ہذا نے بھی عمدہ تجاویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ الحمد للہ اہل خیر خواتین وحضرات ادارہ کو بھر پور تعاون دے رہے ہیں، ہم سب ان کے حق میں دعا گو ہیں،
قاری واجد علی عرفانی استاذ حفظ وقرأت نے بھی کئ اہم تجاویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم لوگوں کی پوری کوشش ہوگی کہ مہمانان کو کسی طرح کی کوئی دشواری نہیں ہوگی، کیوں کہ ہم لوگوں نے رضا کار کی ایک ٹیم ترتیب دی ہے ۔
مفتی نور العظیم مظاہری نے اہل خیر خواتین وحضرات سے مزید تعاون کی اپیل کی ہے ۔
اس میٹنگ میں مفتی نور العظیم مہتم جامعہ ہذا، قاری جہانگیر، قاری ماجد، قاری واجد علی عرفانی، مولانا محمد ضیاء العظیم قاسمی سمیت اور بھی کئ اہم شخصیات نے شرکت کی ۔

ہفتہ, مارچ 04, 2023

ہمایوں اقبال ندوی، نائب صدر جمعیت علماء ارریہ وجنرل سکریٹری، تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری ۴/مارچ ۲۰۲۳ء

*اپیل وگزارش*
اردودنیانیوز۷۲ 

آئندہ کل بتاریخ ۵/مارچ ۲۰۲۳ء شہر ارریہ کے ٹاؤن ہال میں الفاروق فاؤنڈیشن کی طرف سے اردو بیداری کے عنوان پر ۱۰/بجےدن سے ۴/بجے دن تک ایک اہم پروگرام منعقد ہورہا ہے، 
ذاتی مردم شماری کے درمیان یہ پروگرام خاص مقصد کے تحت منعقد کیا جارہا ہے، لوگوں میں یہ غلط فہمی (کنفیوژن )ہے کہ ہم جس برادری سے تعلق رکھتے ہیں اسی زبان کو زبان کے کالم میں درج کریں گے، یہ مستقبل کے لئے خطرناک اور تشویشناک بات ہوسکتی ہے، بلکہ اردوزبان جو ہماری ریاست کی دوسری سرکاری زبان ہے اس کے لئے بھی خطرہ پیدا ہوسکتا ہے، مزید روزگار اور تعلیم کا یہ وسیع میدان جو ہمیں ملا ہوا ہے اس کےبھی چھن جانے کا اندیشہ ہے، بروقت بیدار رہنے کی ضرورت ہے اور بیداری لانے کی بھی ضرورت ہے۔
اس کے لئے الفاروق فاؤنڈیشن نے پورے سیمانچل میں ایک تحریک شروع کی ہے،پرچے بانٹے گئے ہیں، پمفلٹ شائع کئے گئے ہیں، اب باضابطہ اس عنوان پر پروگرام منعقد کیا جارہا ہے، 
لہذا سیمانچل کے محبان اردو سے میری درخواست ہےکہ اس اہم  پروگرام میں شرکت  فرما کر ملی بیداری کا ثبوت پیش کریں اور مذکورہ پروگرام کو کامیاب وبامراد بنائیں، جزاکم اللہ خیرا 

الملتمس 
ہمایوں اقبال ندوی، نائب صدر جمعیت علماء ارریہ 
وجنرل سکریٹری، تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری 
۴/مارچ ۲۰۲۳ء

جامعہ عربیہ دارالعلوم محمدیہ (بیاد حاجی شفیع رح) کا سالانہ تقریری امتحان بحسن خوبی اختتام پذیر ہوا

جامعہ عربیہ دارالعلوم محمدیہ (بیاد حاجی شفیع رح) کا سالانہ تقریری امتحان بحسن خوبی اختتام پذیر ہوا
اردودنیانیوز۷۲ 
پھلواری شریف پٹنہ مورخہ 4/مارچ 2023 (پریس ریلیز :محمد ضیاء العظیم قاسمی)
جامعہ عربیہ دارالعلوم محمدیہ البا کالونی پھلواری شریف پٹنہ میں مورخہ 4/مارچ 2023 بروز سنیچر سالانہ تقریری امتحان بحسن خوبی اختتام پذیر ہوا ۔اس امتحان میں درجہ حفظ وناظرہ سمیت ابتدائی نورانی قاعدہ کے طلبہ وطالبات شریک ہوکر بیحد دلچسپی اور دل جمعی کے ساتھ اس مرحلے کو بحسن خوبی انجام تک پہنچایا، اس موقع پر بحیثیتِ ممتحن ماہر نفسیات، سماجی کارکن واستاذ حافظ شارق خان ڈائریکٹر نظام العلوم فاؤنڈیشن پٹنہ ،اور قاری محمد جہانگیر سمستی پوری استاذ مدرسہ روضۃ العلوم اسراہی بسیفی مدھوبنی تشریف لائیں، ممتحن نے طلبہ وطالبات کی کاوشوں اور کارکردگی پر اطمنان ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یقیناً جامعہ کے اساتذہ نے طلبہ وطالبات کی تعلیم وتربیت پر بڑی محنت مشقت کی ہیں۔
واضح رہے کہ جامعہ عربیہ دارالعلوم محمدیہ(بیاد حاجی شفیع) یہ ایک خالص دینی ادارہ ہے جہاں کثیر تعداد میں مقامی وبیرونی طلبہ وطالبات اپنی علمی پیاس بجھا رہے ہیں یہ ادارہ مشہور ومعروف عالم دین مولانا محمد عظیم الدین رحمانی صاحب کے زیر سرپرستی اور سماجی کارکن محمد فاروق منیر کالونی پھلواری شریف پٹنہ کے زیر نگرانی اپنی خدمات انجام دے رہا ہے ۔اس وقت ادارہ میں چار اساتذہ دو کارکنان اور تقریباً تیس طالب علم ہاسٹل میں مقیم ہیں جن کی مکمل کفالت جامعہ ہذا کے ذمہ ہے ۔جبکہ مقامی تیس طلبہ وطالبات زیر تعلیم ہیں ۔
یقیناً کائنات میں انسان کے لیے ہدایات اوررہنمائی کا جو نظام اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہے اس میں انسان میں علم کے حصول اور سمع بصر اور فواد کے ذریعہ انفس اور آفاق دونوں دنیاؤں سے حصول علم اور الہامی ہدایت کے ذریعہ اس علم اور ان صلاحیتوں کا صحیح صحیح استعمال شامل ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیائے کرام کے ذریعہ علم ، انسان اور تہذیب کےلئے اسی نمونہ کو ہمارے سامنے پیش فرمایا۔ یہ انبیائے کرام ﷩ انسانیت کو اسی نمونے کی تعلیم دینے کی خدمت انجام دیتے رہے جس کا مکمل ترین نمونہ خاتم الانبیاء حضرت محمدﷺ نے پیش کیا اور فرمایا کہ میں معلّم بناکر بھیجا گیا ہوں۔تعلیم ہی وہ ذریعہ ہے جس سے وہ انسان اور ادارے وجود میں آتے ہیں جو زندگی کے پورے نظام کی اسلام کی اقدار اور مقاصد کے مطابق صورت گری کرتے ہیں۔اس لیے امت مسلمہ کی ترقی اور زوال اور سطوت اور محکومی کا سارا انحصار تعلیم اور نظام تعلیم پر ہے۔

جمعہ, مارچ 03, 2023

پیاسوں کو سمندر کا پتا دیتے ہیں سرکارﷺمخلوق کو خالق سے ملا دیتے ہیں سرکارﷺ

پیاسوں کو سمندر کا پتا دیتے ہیں سرکارﷺ
مخلوق کو خالق سے ملا دیتے ہیں سرکارﷺ
Urduduniyanews72
پیاسوں کو سمندر کا پتا دیتے ہیں سرکارﷺ
مخلوق کو خالق سے ملا دیتے ہیں سرکارﷺ

بگڑی ہوئی تقدیر بنا دیتے ہیں سرکارﷺ
روتے ہوئے انساں کا ہنسا دیتے ہیں سرکارﷺ

اس شخص کی تقدیر میں لکھ اٹھ تی ہے پستی 
جس کو بھی نگاہوں سے گرا دیتے ہیں سرکارﷺ

پاتے ہیں تڑپ دید کی جس شخص کے دل میں 
دیدار اسے اپنا کرا دیتے ہیں سرکارﷺ

پڑ جاتی ہے جب جنگ کے دوران ضرورت 
افواج ملائک کو بلا دیتے ہیں سرکارﷺ

امداد طلب کرتے ہیں جو رنج و الم میں 
مژدہ انہیں راحت کا سنا دیتے ہیں سرکارﷺ

ہوں ہی تو نہیں مونس و غمخوار وہ ٹھہرے 
غربت میں بھی سائل کو بڑا دیتے ہیں سرکارﷺ 

سیرابی نظر آتی ہے صحرائے عرب میں 
جب دست دعا اپنا اٹھا دیتے ہیں سرکار ﷺ

ہیں عالمِ غیب ایسے کہ آئندہ کی باتیں 
پہلے ہی زمانے کو بتا دیتے ہیں سرکار ﷺ

تفریق و تشدد کے ملوث کو زمیں پر
پابندِ مساوات بنا دیتے ہیں سرکارﷺ

تعلیم و معارف کے چراغوں کو جلا کر
تاریکِ جہالت کو مٹا دیتے ہیں سرکارﷺ

ضو بار ہمیشہ ہی رہیں گے سبھی اصحاب 
ان سارے ستاروں کو جلا دیتے ہیں سرکارﷺ

نیزے کی انی پر بھی وہ کرتا ہے تلاوت 
قرآن جنہیں پڑھنا سکھا دیتے ہیں سرکار 

پھر کیوں نہ ضیا اپنوں ہو لطف و عنایت 
جب دشمنِ جاں کو بھی دعا دیتے ہیں سرکارﷺ

ضیاء کاملی
 قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن 
 سکراول ،اردو بازار، ٹانڈہ۔۔۔امبیڈکرنگر( یوپی

آزادی رائے ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

آزادی رائے  ___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب  ناظم  امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
اردودنیانیوز۷۲ 
 ہندوستانی سیاست اور ذرائع ابلاغ میں ان دنوں اظہار رائے کی آزادی پر کھل کر بحث ہو رہی ہے، عالمی تنظیم آر اف اس نے اپنی سالانہ رپورٹ میں واضح کیا ہے کہ ہندوستانی پریس کی آزادی میں مسلسل گراوٹ آرہی ہے، ایک امریکی صحافی نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ہندوستان میں رییل جرنلزم (حقیقی صحافت) کا دور ختم ہو چکا ہے، امریکی صحافی کا یہ قول حقیقت سے انتہائی قریب ہے، ہندوستان میں آج میڈیا بکا ہوا ہے، اور بیش تر قابل ذکر صحافی کی ایک قیمت سیاسی پارٹیوں نے لگا رکھی ہے، پرنٹ میڈیا کے مالکان کی وابستگی کسی نہ کسی سیاسی پارٹی، نظریات اور رجحانات سے ہے، اس صورت حال میں قلم وہ نہیں لکھتا جو اسے لکھنا چاہیے، بلکہ وہ لکھتا ہے جو اس سے لکھوایا جاتا ہے، ایسے میں اظہار رائے کی آزادی کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے، ماضی قریب میں جن صحافیوں نے اپنی بولی نہیں لگنے دیا انہیں اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑے، شجاعت بخاری، گوری لنکیش، نریندر دابھولکر، ڈاکٹر ایم ایک کلبرگی اور ڈاکٹر پنسارے بک نہیں سکے تو انہیں دوسری دنیا کی راہ دکھا دی گئی ہے، پرسون واجپئی، سمن واجپی، اکارپٹیل، ابھیشار اور رویش کمار جیسے چند صحافیوں پر سوشل میڈیا ذاتی حملے اور کردار کشی کرتا رہا ہے، رویش کمار کو این ڈی ٹی وی چھوڑ دینا پڑا،اور جس طرح ان کے خلاف نفرت کی فضا پیدا کی جا رہی ہے اس میں کیا بعید ہے کہ کسی دن ”بانگ آید کہ فلاں نہ ماند“
یہ اس ملک کا المیہ ہے کہ میڈیا یہاں پرغیر ذمہ دارانہ انداز میں کام کرتا رہا ہے، کبھی اس نے اظہار رائے کی آزادی کے نام مذہبی مسلمات اور اقدار پر حملے کیے اور کبھی وہ حکومت کے ہاتھ میں کٹھ پتلی کی طرح ناچتا رہا، اب صحافت میں غیر جانب دارانہ نظریات اور حقائق کی پیش کش کی بات عنقا ہے، حالاں کہ ہم تو غیر جانب دار ہونے کو بھی صحیح نہیں سمجھتے، ہمارا نعرہ تو یہ ہونا چاہیے کہ ہم غیر جانب دار نہیں حق کے طرف دار ہیں، البتہ حق کی تعیین پر وپیگنڈے، نعرے بازی اور جملے اچھالنے سے نہیں، انتہائی گہرائی اور گیرائی، پس وپیش حقائق ومشاہدات کی روشنی میں کرنا چاہیے، ورنہ کوئی بھی صحافی بڑی آسانی سے یہ کہہ سکتا ہے کہ ہم فلاں پارٹی کی حمایت اس لیے کرتے ہیں کہ اسے حق سمجھتے ہیں، اسے حق سمجھنے کی ان بنیادوں پر بھی روشنی ڈالنی چاہیے، جس کی وجہ سے وہ اسے حق سمجھتا ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ سب صرف مودی اوریوگی حکومت میں ہو رہا ہے، بنگال کی ممتا بنرجی بھی اس معاملے میں کچھ کم نہیں ہیں، ممتا کی پہلی حکومت میں ایک کارٹون بنا کر پوسٹ کرنے پر شانتی نکیتن کے ایک پروفیسر کو جیل میں ڈال دیا گیا تھا اور ضمانت پر رہائی کے بعد گھر میں گھس کر ممتا کے چاہنے والوں نے اس کی جم کر پٹائی کی تھی، لوک سبھا چناؤ کے موقع سے ممتا کے ایک کارٹون بنانے والے کوپولس نے گرفتار کر لیا تھا، بڑی مشکل سے ہائی کورٹ سے ضمانت ملی تھی، اڈیشہ اور تمل ناڈو کی حکومتیں بھی اس معاملہ میں پیچھے نہیں ہیں۔
 ملک سے باہر نکلیں تو برما، پاکستان اور اسرائیل سے صحافیوں پر ظلم وجور کی خبریں آتی رہی ہیں، ان حالات میں صحافیوں کا دم خم کمزور پڑتا جا رہا ہے، اور وہ لوگ جو ظلم وجبر کے خلاف سینہ سپر ہوجایا کرتے تھے اور قلم کی ساری سیاہی استعمال کر لینا اپنا فرض منصبی سمجھتے تھے ان کے حوصلے ٹوٹ رہے ہیں، پرکھادت، ساگر یکا، گھوش، سوامی ناتھن، جیسے صحافی اور مضمون نگار کے الفاظ، جملے اور تعبیرات میں اب وہ دھار نہیں ہے جس سے باطل کے ایوان میں لرزہ طاری ہوتا تھا، اور آپ خوب جانتے ہیں کہ دھار ایک بار کند ہو گئی تو اس کا صیقل کرناآسان نہیں ہوتا، ایسے میں دو طرفہ محاسبہ کی ضرورت ہے،حکومت اور ان کے کارندوں کو میڈیا کے تئیں اپنے رویہ پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور میڈیا کو یہ سمجھنا چاہیے کہ جمہوریت کا یہ چوتھا ستون پابند سلاسل سیم وزر ہو گیا تو اس کی اہمیت وافادیت ہی نہیں، قدر وقیمت بھی ختم ہو جائے گی اور جب بھی ان سلاسل سے نکلنے کی کوشش کی جائے گی صحافی حضرات کو سخت آزمائش سے گذرنا ہوگا، کبھی آزمائش کا یہ سلسلہ جسم وجان تک پہونچے گا اور کبھی اس کا اختتام ابدی نیند پر بھی ہو سکتا ہے۔

محمد اشرف علی بن محمد شکیل نے ایک بیٹھک میں مکمل قرآن مجید حفظ سنایا

محمد اشرف علی بن محمد شکیل نے ایک بیٹھک میں مکمل قرآن مجید حفظ سنایا 
Urduduniyanews72

پھلواری شریف پٹنہ مورخہ 3/مارچ 2023 (پریس ریلیز :محمد ضیاء العظیم قاسمی) 

جامعہ عربیہ دارالعلوم محمدیہ البا کالونی پھلواری شریف پٹنہ میں ہمارے ایک شاگرد محمد اشرف علی بن محمد شکیل ساکن اروا بچھواڑا ضلع بیگو سرائے بہار نے ایک بیٹھک میں قرآن مجید زبانی سنایا ۔واضح رہے کہ محمد اشرف مورخہ 2 مارچ رات 1/بجے سے قرآن مجید دو اساتذۂ کرام اور دو طالب علم کی نگرانی میں سنانا شروع کیا اور 2/مارچ تقریباً صبح 9/بجے مکمل قرآن مجید سنا ڈالا ، قرآن مجید جن اساتذہ کرام اور طالب علم کی نگرانی میں سنایا ان میں محمد ضیاء العظیم قاسمی ،قاری واجد علی عرفانی، اور طالب علم میں یوسف، مہدی علی، علی شیر کا نام مذکور ہے، اس کارہائے نمایاں پر مدرسہ کے تمام اساتذہ وکارکنان نے محمد اشرف کو مبارکبادی پیش کرتے ہوئے دعائیں دیں، 
یقیناً قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ،یہ سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی ہے ۔ یہ دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔اس نے اپنے سے پہلے کی سب الہامی کتابوں کو منسوخ کردیا ہے۔ اوران میں سےکوئی بھی آج اپنی اصل صورت میں محفوظ نہیں ۔ قرآن مجید بھی تھی، ہے، اور ان شاء اللہ تا قیامت محفوظ رہے گی، ساتھ ساتھ اس کے معانی مفاہیم اور احکامات بھی محفوظ رہیں گے،  قرآن تمام پہلی کتابوں کی تعلیمات کواپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے ۔اور قرآن مجید واحد ایسی کتاب کے جو پوری انسانیت کےلیے رشد وہدایت کا ذریعہ ہے اللہ تعالی نے اس کتاب ِہدایت میں انسان کو پیش آنے والےتما م مسائل کو تفصیل سے بیان کردیا ہے جیسے کہ ارشادگرامی ہے کہ و نزلنا عليك الكتاب تبيانا لكل شيء، قرآن مجید سیکڑوں موضوعا ت پرمشتمل ہے۔مسلمانوں کی دینی زندگی کا انحصار اس مقدس کتاب سے وابستگی پر ہے اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اسے پڑ ھا اور سمجھا نہ جائے۔ قرآن کریم کا یہ اعجاز ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت کا ذمہ خود لیا۔اور اپنے مخصوص بندے کے سینے میں اسے محفوظ فرماتے ہیں، قرآن کریم ایک ایسا معجزہ ہے کہ تمام مخلوقات مل کر بھی اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہیں۔قرآن مجید وہ دریچہ ہے جس سے ہم اپنی ماضی، حال اور مستقبل تینوں بیک وقت دیکھ سکتے ہیں، اس کی عظمت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ یہ کتاب جس سرزمین پر نازل ہوئی اس نے وہاں کے لوگوں کو فرشِ خاک سے اوجِ ثریا تک پہنچا دیا۔اس نےان کو دنیا کی عظیم ترین طاقت بنا دیا۔قرآن واحادیث میں قرآن اور حاملین قرآن کے بہت فضائل بیان کے گئے ہیں ۔نبی کریم ﷺ نے اپنی زبانِ رسالت سے ارشاد فرمایا: «خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ القُرْآنَ وَعَلَّمَهُ» صحیح بخاری:5027) اور ایک حدیث مبارکہ میں قوموں کی ترقی اور تنزلی کو بھی قرآن مجید پر عمل کرنے کےساتھ مشروط کیا ہے ۔ارشاد نبو ی ہے : «إِنَّ اللهَ يَرْفَعُ بِهَذَا الْكِتَابِ أَقْوَامًا، وَيَضَعُ بِهِ آخَرِينَ»صحیح مسلم :817)تاریخ گواہ کہ جب تک مسلمانوں نے قرآن وحدیث کو مقدم رکھااور اس پر عمل پیرا رہے تو وہ دنیا میں غالب اور سربلند رہے ۔ انہوں نے تین براعظموں پر حکومت کی اور دنیا کو اعلیٰ تہذیب وتمدن اور بہترین نظام ِ زندگی دیا ۔ اور جب قرآن سے دوری کا راستہ اختیار کیا تو مسلمان تنزلی کاشکار ہوگئے۔
واضح رہے کہ جامعہ عربیہ دارالعلوم محمدیہ البا کالونی پھلواری شریف پٹنہ(بیاد حاجی شفیع مرحوم منیر کالونی پھلواری شریف پٹنہ) یہ ایک خالص دینی ادارہ ہے جو شہر پٹنہ کے پھلواری شریف میں واقع ہے جہاں مقامی وبیرونی طلباء اپنی علمی پیاس بجھا رہے ہیں حفظ وناظرہ کے ساتھ ساتھ بنیادی عصری تعلیم کا بھی نظم ونسق ہے ،اس وقت مدرسہ میں تقریباً تیس طالب علم ہاسٹل میں ہیں جن کی مکمل کفالت مدرسہ ھذا کے ذمہ ہے ۔

کچھ تبسم زیرِ لب * نئی ریسرچ رپورٹ * ٭ انس مسرورؔانصا ری

کچھ تبسم زیرِ لب

               * نئی ریسرچ رپورٹ *
   ٭ انس مسرورؔانصا ری 
اردودنیانیوز۷۲ 
امریکی پروفیسرپوپٹ لولی نے بھارت کاایک ریسرچ ٹورکیا۔وہ کافی دنوں تک یہاں رہے اورمختلف صوبوں اور شہروں کادورہ کرتے رہے۔اُنھوں نے اپنے تجربات ومشاہدات کوقلم بند کیا۔اس ریسرچ ٹورکے بعد جب وہ اپنے وطن امریکہ واپس پہنچے تو ایک پریس کانفرنس میں اخبارنویسوں کوبتایاکہ ‘‘میری انڈین ریسرچ رپورٹ کے مطابق انڈیامیں مذہبی ولسانی،بداخلاقی وخودغرضی،ذات پرستی وذاتی مفاخرت، تنگ نظری و منافرت، روحانی غروروگھمنڈاورفرقہ وارانہ فسادات کی ایک بڑی وجہ وہاں وٹامن اورپروٹین کی عام کمی ہے۔وہاں سیاسی لیڈرسکون و اطمینان،ٹھنڈے د ل ودما غ اورغوروفکرکے بجائےسرسام، بلڈپریشر،مالخیولیااورجنون کےامراض میں مبتلاپائےجاتےہیں۔سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ وہاں عام شرح پیدائش کے مقابلہ میں لیڈروں کی پیداوارحیران کن بلکہ تباہ کن حدتک زیادہ ہے۔ مجھے انڈیاکی عام آبادی بڑھنے سے اتنی تشویش نہیں ہے جتنی تشویش لیڈروں کی کثرتِ پیدائش پرہے۔غورطلب ہے کہ جب ساری پبلک نیتاہوجائے گی تو انڈیابناپبلک کےہوجا ئے گا۔پھراس ملک کاکیاہوگا۔؟وہاں کی حکومت کوچاہئے کہ فیملی پلاننگ منصوبہ بندی سے زیادہ نیتابندمنصوبہ بندی کے متعلق یوجنابنائے۔عجیب بات یہ بھی ہے کہ انڈین پارلیامنٹ میں جلسہ کےدوران ممبر آرام سے سوسکتاہےمگرخرّاٹےنہیں لےسکتا۔یعنی باآواز بلندنہیں سوسکتاتاکہ دوسرے ممبرانِ پارلیامنٹ کی نیندوں میں خلل نہ پڑنے پائے۔اس پارلیمانی اُصول پرسختی کے ساتھ عمل کیاجاتاہے۔دوسرے اُصولوں پرکوئی پابندی نہیں،انہیں باربارتوڑااورجوڑاجاسکتاہے۔انڈیامیں اُصول بناتےوقت بہت کچھ نہیں سوچاجاتا۔طرح طرح کے نئے نئے اُصول بنانا وہاں کے لوگوں کی بڑی ہابی ہے۔اُصولوں پرعمل کرناضروری نہیں ہے،لیکن مذکورہ پارلیمنٹری اُصول پرسختی سے عمل کیاجاتا ہے۔اگر ایسانہ کیاجائے توکئی بار ملکی مسائل پرتبادلۂ خیال کے بجائے جوتے،چپّل ،مہذب گالی گلوج ،مرغی کے کچےانڈوں، ٹماٹروں، کرسیوں اورمیزوں سے مائیک اکھاڑکرآپس میں تبادلے ہونے لگتے ہیں اوریہ سب کچھ جلسہ کےدوران ہوتاہے۔اس لیے بغیرآوازکے سونے پرکوئی پابندی نہیں ہے۔اس قدرنازک ترین مسائل پروہاں کی حکومت کوئی توجہ نہیں دے رہی ہے۔میں حیران ہوں کہ وہاں کانظامِ حکومت کس طرح چل رہاہے۔ 
وہاں میری ملاقات ڈاکٹرطوطارام سے بھی ہوئی۔وہ پہلے امریکہ کے ایک ہسپتال میں جانوروں کے ڈاکٹرتھے۔ پھرجب اپنے وطن انڈیاواپس گئے تو اپناایک ذاتی نرسنگ ہوم کھول لیااورجانوروں کے ساتھ ساتھ انسانوں کابھی علاج کرنے لگے،اوربہت کامیاب ہیں۔انڈیامیں انسانوں سے زیادہ جانوروں کی قدرومنزلت ہے۔وہاں جانوروں کی خوب دیکھ بھال کی جاتی ہے اور ان کے لیے سرکاری بجٹ میں ایک بڑی رقم مختص کی جاتی ہے۔پھر اس رقم کا اسی فیصد نیتاؤں کی جیب میں چلاجاتا ہے جس سےانسانوں کوبے رحمی کے ساتھ قتل کرنےمیں بڑی مددملتی ہے۔ایک اور عجیب بات میں نے یہ دیکھی کہ وہاں بچہ اپنی ماں کے پیٹ میں آنے کے فوراََبعدکئی طرح کے ٹیکس اداکرناشروع کردیتاہے۔اس کاسبب یہ بتایاگیاکہ عام لیڈروں اورراج نیتاؤں کی خاطرخواہ پرورش وپرواخت اوران کے آرام وآسائش کے لیے یہ بہت ضروری ہے۔وہاں کے صنعت کارعوامی ٹیکسوں کی جمع شدہ رقم لے کراکثرملک سے فرارہوجاتے ہیں اورحکومت کوئی نوٹس نہیں لیتی بلکہ ان کی حوصلہ افزائی کے لیے انھیں بڑی فراخ دلی سے معاف کردیتی ہے۔وہاں کاہرنیتاکروڑ پتی اورعام آدمی غریب پتی ہے۔خوش حالی اوربدحالی دونوں باہم اس طرح دست و گریبان نظرآتے ہیں کہ من توشدم تومن شدی من تن شدم توجاں شدی کاگمان ہوتاہے۔وہاں کی پبلک بڑی بھولی بھالی ہے۔لوگ جان توڑ کرمحنت سےکماتے ہیں اورسرکاری نوکروں اورلیڈروں کوبڑے چاؤ سے کھلادیتے ہیں۔کبھی کبھی خودبھوکے رہ کرکھلاتے ہیں۔یہ عوامی ایثاروقربانی کسی اورملک کے لوگوں میں نظرنہیں آتی۔وہاں کی سب سے قیمتی چیز‘‘جواڑ’’ہے جوکسی دوسرے ملک میں نہیں پایاجاتا۔ہرکام جواڑسے ہوتاہے۔پی، ایم۔سی،ایم۔ڈی،ایم ہی نہیں بلکہ عام آدمی بھی ہروقت ‘‘جواڑ’’میں لگارہتاہے۔جواڑہی سے وہاں کی حکومت اورکرسیاں بدلتی ہیں۔جواڑنہ ہوتوکوئی کام نہیں ہوسکتا۔امریکہ کوچاہئے کہ انڈیاسے جواڑکاایگریمنٹ کرے اوراسے ہرقیمت پریہاں لائےتاکہ امریکہ کی ترقی میں جوکچھ کسرباقی رہ گئی ہووہ پوری ہوجائے۔امریکہ چاہے جتنابڑا ترقی یافتہ ملک ہومگر اس کے پاس جواڑنہیں ہے۔یہاں کی پبلک جواڑسے محروم ہے۔یہ کتنابڑاالمیہ ہے۔ 
بھار ت میں مسلمانوں کوسب سے بڑی اقلیت کادرجہ حاصل ہے مگر پچیس کروڑ کی تعداد والی یہ سب سے بڑی اقلیت سہمی ہوئی بھیڑبکریوں کےڈرے سہمےبھٹکے ہوئےریوڑ سے زیادہ کوئی حیثیت رکھتی ہے نہ اہمیت۔یہ قوم اس قدرانتشاراورذات پرستی کی لعنت میں مبتلاہے کہ اس کاکوئی متفّقہ قائدنہیں ہے اورنہ یہ کسی کی قیادت کو قبول کرتی ہے۔اس قوم کاہرفردخوداپناقائد ہے۔ یہی سبب ہےکہ آزادی کے پچھتر۷۵/سال بعدبھی کسی صوبہ میں اپناایک چیف منسٹر تک نہیں بنا سکی۔یہ قوم حکمرانی کی تمام حکمتِ عملی بھول چکی ہے۔گداگری کی عادت پڑگئی ہے۔اس کے زوال کی انتہاتک نظرنہیں آتی۔اس قوم کے بہترین دماغ جوقوم کے لیے کچھ کرسکتے ہیں وہ شعروادب کی دنیامیں پناہ گزیں ہیں۔وہاں پہلے مشاعروں اورسیمیناروں میں دادوتحسین کے شورو غل سے مشاعرہ کے پنڈال کی چھتیں اُڑجایاکرتی تھیں مگراب سامعین زبانوں کاکام ہاتھوں سے لینے لگے ہیں اورخوب تالیاں بجاتے ہیں۔اُن کی دیکھادیکھی حکومت تھالیاں بجوانےلگی۔جب انڈیامیں کروناکی وباعام ہوئی توحکومت کے حکم سے پبلک نے خوب تھالیاں بجائیں۔تھالیاں بجانے سےکروناویکسین کی کافی بڑی رقم پس انداز کی گئی۔بعدمیں وہ ساری جمع پونجی ایک گجراتی صنعت کارلے کرغیرملک فرار ہوگیا۔ 
بھارت کی سرزمین خانقاہوں اورآشرموں کے لیے بڑی زرخیزہے۔آبادی کا بہت بڑاحصہ ان سے وابستہ ہے جسے اہم ترین قومی وملکی مسائل سے کوئی دل چسپی نہیں۔وہاں میں ایسے لیڈروں سے بھی ملا جواسمبلی اورپارلیامنٹ میں بیٹھتے ہیں لیکن ٹھیک طرح سے اپنی سائن بھی نہیں بناپاتے ۔وہاں مذہب جیسے ذاتی معاملات پرحکومت نے آئین بنارکھاہے۔حکومت کی اجازت کے بغیرکوئی اپنادھرم نہیں بدل سکتا۔البتہ اقلیتی طبقہ کاکوئی فرداپنامذہب بدلناچاہے توکوئی ہرج نہیں۔وہاں ایک ملک،ایک قانون اورایک راج کے بجائے کئی قانون اورکئی راج کارواج ہے۔ اِن دنوں وہاں‘‘بلڈوزرکی بڑی دھوم دھام ہے۔یہ مشین صوبائی حکومتوں کا دل چسپ مشغلہ بن گئی ہے۔ اس سے پہلے کہ مکین اپنامکان خالی کریں،یہ انھیں زمیں بوس کردیتی ہے۔حکمراں طبقہ میں بلڈوزراتنامقبول ہے کہ ایک صوبہ کے چیف منسٹرکوبلڈوزرباباکہاجانے لگااوروہ اپنے اس نئے نام سے بہت خوشی محسوس کرتے ہیں۔بلڈوزروہاں کاایک سیکولرمشن بن گیاہے۔اس سے عالی شان عمارتیں،بڑی بڑی بلڈنگیں،مسجد،مندر،تاریخی عمارتیں کچھ بھی محفوظ نہیں ۔حکومتیں بڑے فخرکے ساتھ بلڈوزرچلواتی ہیں۔اس یوجناسے وہاں کی جنتا ہرچندکہ بہت پریشان ہے مگرحکمراں طبقہ خوش ہے۔چونکہ بلڈوزرباباکاسربالوں سے محروم ہے،اس لیےکسی دادوفریادپران کے کانوں پرجوں تک نہیں رینگ پاتی۔وہاں کے لیڈروں میں ایک کہاوت بہت مشہور ہےاور بہت مقبول بھی۔!‘‘اپناکام بنتا،بھاڑمیں جائے جنتا۔’’اس کہاوت پربڑی ایمانداری سے عمل کیاجاتاہے۔اسی طرح کے اوربھی کئی اُصول ہیں جن کی پابندی بڑے خلوصِ دل سے کی جاتی ہے۔ وہاں کاپارلیمنٹری سسٹم ایساہے کہ اُن پرزیادہ غوروفکر سے سرسامی کیفیت پیداہوجاتی ہے۔ کبھی بلڈپریشر چڑھ جاتاہے اور کبھی ڈاؤن ہوجاتاہے۔انڈیاکےعجائبات 
 بہت زیادہ ہیں جوایک میٹنگ میں بیان نہیں کیے جاسکتے۔ اس لیے ٹاٹا۔۔۔۔ پھر ملیں گے۔
                                                        ٭٭ 
    انس مسرورؔانصاری 
 
      قومی اُردوتحریک فاؤنڈیشن 
   سکراول،اُردوبازار،ٹانڈہ۔امبیڈکرنگر(یو،پی)

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...