Powered By Blogger

جمعرات, اگست 12, 2021

مہاراشٹر میں ڈیلٹا پلس ویریئنٹ شدت اختیار کررہاہے، کیرالہ میں حالات بے قابو، پابندیاں سخت


  • (اردو اخبار دنیا)

 میں مجموعی طور پر کورونا انفیکشن کے معاملے دھیرے دھیرے کم ہو رہے ہیں، لیکن کچھ ریاستوں میں حالات ہنوز فکر انگیز بنے ہوئے ہیں۔ ایک طرف جہاں مہاراشٹر میں کورونا کے ڈیلٹا پلس ویریئنٹ کے مریض لگاتار سامنے آ رہے ہیں جس سے فکر میں اضافہ ہوا ہے، تو دوسری طرف کیرالہ میں روزانہ 20 ہزار سے زیادہ کورونا انفیکشن کے معاملوں نے ریاستی حکومت کے ساتھ ساتھ مرکزی حکومت کو بھی پریشانی میں ڈال دیا ہے۔

گزشتہ مہینے سے ہی کیرالہ میں کورونا انفیکشن کے معاملے بڑھنے لگے تھے اور ملک میں سامنے آ رہے مجموعی معاملوں کا نصف کیس اسی ریاست سے سامنے آ رہا ہے۔ عیدالاضحیٰ کے موقع پر کیرالہ میں حکومت نے کورونا پابندیوں میں کچھ چھوٹ دے دی تھی جس پر سپریم کورٹ نے پینارائی وجین حکومت کو پھٹکار بھی لگائی تھی، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ریاستی حکومت نے اونم سے پہلے سخت لاک ڈاؤن لگا دیا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ اونم 20 اگست کو ہے اور ان مقامات پر کورونا پابندیوں میں سخت کی گئی ہے جہاں انفیکشن کی شرح 8 فیصد سے زیادہ ہے۔

کیرالہ میں انفیکشن کو قابو میں کرنے کے لیے حکومت نے 60 سال سے زیادہ عمر کے سبھی لوگوں کو 15 اگست تک کم از کم ٹیکے کی ایک خوراک لگا دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ 18 سال سے زیادہ عمر کے ایسے مریضوں کو بھی 15 اگست تک ٹیکے لگائے جائیں گے جو چلنے پھرنے سے معذور ہیں۔ 15 اگست کے بعد سبریمالہ مندر جانے والے عقیدتمندوں کی تعداد محدود کر کے 15 ہزار روزانہ کر دیا گیا ہے۔ اس کے لیے پہلے سے ہی رجسٹریشن کرانا ہوگا۔ ساتھ ہی اونم، درگا پوجا، جنم اشٹمی، گنیش چترتھی اور محرم جیسے تہواروں کے لیے صرف ضروری سرگرمیوں کے لیے ہی چھوٹ دی گئی ہے۔

اس درمیان مہاراشٹر میں ڈیلپٹا پلس ویریئنٹ نے فکر میں اضافہ کر دیا ہے۔ خبر رساں ادارہ پی ٹی آئی کی ایک رپورٹ کے مطابق مہاراشٹر میں کورونا کے ڈیلٹا پلس ویریئنٹ کے 20 نئے معاملے سامنے آئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ریاست میں ڈیلٹا ویریئنٹ کے معاملے بڑھ کر 65 ہو گئے ہیں۔ مہاراشٹر کے محکمہ صحت نے اپنے آفیشیل بیان میں بتایا ہے کہ نئے معاملوں میں 7 ممبئی سے، 3 پونے سے، اور ناندیڑ، گوندیا، رائے گڑھ و پالگھر سے 2-2 کیسز سامنے آئے ہیں۔ علاوہ ازیں چندر پور اور اکولا سے ڈیلٹا پلس ویریئنٹ کے ایک ایک کیسز کا پتہ چلا ہے۔ ریاستی حکومت کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ اب تک ملے ڈیلٹا پلس ویریئنٹ کے 65 معاملوں میں سے سب سے زیادہ 33 معاملے 19 سے 45 سال کے لوگوں میں پائے گئے ہیں، جب کہ 17 معاملے 46 سے 60 سال کی عمر کے لوگوں میں ملے ہیں

مولانا طارق جمیل: ہماری تبلیغ کا اصول ہے کہ ہم مذمت نہیں کرتے بلکہ مثبت بات کرتے ہیں

  • (اردو اخبار دنیا)

پاکستان کی معروف مذہبی شخصیت مولانا طارق جمیل کا کہنا ہے یہ تاثر درست نہیں کہ وہ ملک میں ایک بڑا حلقۂ اثر رکھنے کے باوجود خواتین کے حقوق، لاپتہ افراد یا اظہارِ آزادی رائے جیسے معاملات پر بات نہیں کرتے اور ان معاملات پر اپنے معتقدین کی راہنمائی کرنے سے گریزاں ہیں۔بی بی سی اردو کے لیے صحافی فاروق عادل کو دیے گئے انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ’ملک (پاکستان) میں بے شمار مسائل ہیں، میرے نزدیک سب سے بڑا مسئلہ اللہ سے دوری ہے۔ یہ بنیادی مسئلہ ہے اور اللہ کے بندوں کی رائے کو ختم کر دینا اسی دوری کا نتیجہ ہے۔‘

 

ان کا کہنا تھا کہ اللہ کے بندوں کو ان کا حق نہ دینا اسی وجہ سے ہے کہ اظہارِ رائے کی آزادی سلب کرنے والے ’اللہ کو نہیں جانتے اگر وہ اللہ کو جانیں تو ایسا کیوں کریں۔‘معاشرے میں مثبت کردار ادا کرتے ہوئے انسانی حقوق جیسے مسائل پر کم بات کرنے سے متعلق سوال پر مولانا طارق جمیل کا کہنا تھا کہ ’میرے تو سارے بیان ہی حقوق العباد پر ہوتے ہیں، میں حقوق اللہ کو بھی بیان کرتا ہوں لیکن جتنا اللہ نے بیان کیا ہے، اور حقوق العباد کو بھی اتنا ہی بیان کرتا ہوں جتنا اللہ نے بیان کیا ہے۔ اللہ نے حقوق العباد کو پھیلا کر بیان کیا ہے۔ اللہ نے اپنے حقوق مختصر بیان کیے ہیں۔’

 

ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ تیس برس سےانھوں نے معاشرے میں انسانیت کو ابھارنے کی کوشش کی ہے اور انسانی حقوق کو اجاگر کیا ہے۔ملک میں لاپتہ افراد جیسے سنگین اور بڑے مسئلے کی مذمت نہ کرنے کے تاثر پر ان کا کہنا تھا کہ ’میرے ذمے اللہ کے دین کی دعوت دینا ہے اب اس کی عملدری تو نہ میرے ہاتھ نہ میرا ذمہ ہے۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہماری تبلیغ کا ایک اصول ہے، ہم مذمت نہیں کرتے، منفی بات نہیں کرتے بلکہ ہم مثبت بات کرتے ہیں۔ کسی کو برا نہیں کہتے اچھائی کو بیان کرتے ہیں، اچھائی اتنی بیان کریں کہ برائی اسی میں دب جائے۔‘

عمران خان سے قریبی تعلق:وزیر اعظم عمران خان سے قریبی تعلق اور ان کے بارے میں بات کرتے ہوئے مولانا طارق جمیل کا کہنا تھا کہ انھوں نے سنہ 1992 سے جس وقت وسیم سجاد قائم مقام صدر تھے سے لے کر موجودہ وزیر اعظم عمران خان تک سوائے بے نظیر بھٹو کے سب سے ملاقات کی ہے۔’ویسے تو بہت عرصے سے ہماری سلام دعا ہے لیکن بطور وزیر اعظم جب عمران خان نے مجھے بلایا اور کہا کہ مولانا میں چاہتا ہوں کہ میرے نوجوان اپنے نبی کے ساتھ جڑ جائیں اور ان کی زندگی کو اپنائیں، یہ بات اس سے پہلے مجھے کسی حکمران نے نہیں کہی۔‘

 

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ عمران خان نے بطور وزیر اعظم پہلی ملاقات میں ان سے کہا کہ ‘میں چاہتا ہوں کہ میں آپ کو کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھیجوں اور آپ کے بیان کرواؤں۔’مولانا طارق جمیل کا کہنا تھاکہ مستقبل میں عمران خان کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں وہ ایک الگ معاملہ ہے لیکن وہ ان کی سوچ سے بہت متاثر ہوئے ہیں۔اس سوال پر کہ ان کے خیال میں گذشتہ تین برسوں میں عمران خان نے ایسے کون سے ٹھوس اقدامات کیے ہیں جن میں ’ریاست مدینہ‘ کی تشکیل کا عنصر مل سکے، مولانا طارق جمیل کا کہنا تھا کہ ‘ملک میں 72 برس کا کچرا ہے، اور ان کے پاس ٹیم بھی مضبوط کوئی نہیں ہے اور وہ اکیلے اپنی جان سے لڑ رہے ہیں تو اتنی جلدی تو تبدیلی نظر نہیں آتی۔’

ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘میں ہر وقت ان کے ساتھ تو رہتا نہیں ہوں کہ بتا سکوں انھوں (وزیر اعظم عمران خان) نے کیا اقدامات کیے ہیں، میرا تو اس سے ملاقات کا ایک سلسلہ ہے۔ باقی یہ تو وہ بتائیں گے جو ساتھ رہتے ہیں۔’ان یہ یہ بھی کہنا تھا کہ ’حکمرانوں کو جا کر نصیحت کرنا تو ہمارے ذمے ہیں لیکن ان سے مفاد اٹھانا یہ ایک سودے بازی کی بات ہے۔ حکمرانوں کو بات سمجھانا بھی ہماری ذمہ داری ہے، ہم کنارہ کش ہو کر بیٹھ جائیں تو غلط لوگ ان کو گھیر لیں۔‘

’برینڈ کا مقصد پیسا کمانا نہیں مدارس چلانا ہے‘

مولانا طارق جمیل نے کچھ عرصہ قبل ہی کپڑوں کا ایک برینڈ بھی شروع کیا ہے جس کا نام بھی خود ان کے نام پر ہے۔ یہ برینڈ سامنے آنے کے بعد ان پر تنقید بھی کی گئی جس کا جواب دیتے ہوئے طارق جمیل نے کہا کہ ان کے اس کاروبار کا بنیادی مقصد مدارس کو چلانے کے لیے رقم مہیا کرنا ہے۔

’ اس برینڈ کو بنانے کا مقصد کوئی پیسا بنانا نہیں ہے بلکہ یہ کوشش ہے کہ وہ مدارس جو میرے ذریعے سے چل رہے ہیں وہ لوگوں سے مانگیں نہیں، ان کو مانگنے سے منع کرنا ہے۔

’میں کوئی دس بارہ مدارس چلا رہا ہوں اور ہمارے ہاں مدارس کا نظام ہے چندہ۔ ہم چندہ مانگتے ہیں اور زکوۃ مانگتے ہیں اور اس سے یہ مدارس چلاتے ہیں۔ میں بھی گذشتہ بیس سال سے یہ ہی کر رہا ہوں۔

’لیکن جب یہ کورونا آیا اور لوگوں کے مالی حالات بہت خراب ہو گئے تو ہمیں وہ چندہ ملنا بھی کم ہو گیا اور خود مجھے بھی بڑی شرم آئی کہ میں اب ان سے کس منھ سے چندہ مانگوں، یہ بیچارے تو خود تنگی کا شکار ہوئے پڑیں ہیں۔ فیکٹریاں بند ہو گئی ہیں، کام ٹھپ ہو گیا ہے تو اس پر یہ مشورہ ہوا کہ کچھ ایسا کیا جائے کہ مدرسے کا مستقل ذریعہ آمدن بنایا جائے تاکہ ہم رہیں یا نہ رہیں مدرسہ چلتا رہے۔‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’مجھے اللہ نے اپنے فضل سے بہت کچھ دیا ہوا ہے تو مجھے کوئی ضرورت نہیں تھی مال کمانے یا بنانے کی۔ صرف اس وجہ سے یہ براینڈ بنایا ہے۔ اس میں باقی دوست بھی شراکت دار ہیں جو اپنا منافع کمائیں گے لیکن اس کا بڑا مقصد مدارس کے لیے جائے گا۔‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ہمارے ہاں دینی یا مذہبی مزاج رکھنے والے کا تصور یہ ہے کہ وہ کچے گھر میں رہتا ہو، سائیکل پر ہوں مولانا صاحب اور اپنے لیے چندہ مانگ رہے ہوں، اپنی ضروریات لوگوں کے سامنے پیش کر رہے ہوں۔ تو مجھے اللہ نے مجھے اس زمیندارانہ ماحول سے سمجھا دیا، اللہ نے ہمیں وراثتی بہت کچھ دیا۔ میں نے تو کبھی ایک مرلہ زمین نہیں خریدی اور والد جو چھوڑ گئے اللہ کے فضل سے یہ ہماری اگلی نسل کے لیے بھی کافی ہے۔

’اسلام میں سارے ماڈل موجود ہیں۔ اگر میں ایک مالدار خاندان سے تبلیغ میں لگ گیا ہوں اور اللہ نے مجھے ایک وراثتی چیز دی ہوئی ہے تو کیا میں اسے چھوڑ کر چٹائی پر بیٹھ جاؤں۔‘

’میڈیا کوریج ہی مشہور لوگوں سے ملاقاتوں کو دیتا ہے‘

طارق جمیل سے جب یہ سوال کیا گیا کہ ان کے بارے میں ایک تاثر ہے کہ ان کی توجہ اداکاروں اور بڑے سیاستدانوں پر رہی ہے جبکہ عام آدمی کو ان تک رسائی صرف ٹی وی یا سوشل میڈیا کے ذریعے ہی ہے، تو ان کا کہنا تھا کہ یہ تاثر درست نہیں بلکہ میڈیا انھیں کوریج ہی جب دیتا ہے جب وہ ایسی شخصیات سے مل رہے ہوں اور عوام سے ان کی ملاقاتوں کو کوریج نہیں ملتی۔’

بات یہ ہے کہ آپ کا کیمرا مجھے تب کوریج دیتا ہے جب میں ایسے مشہور افراد سے ملتا ہوں۔ جب میں عام اور ایسے غریب افراد سے ملتا ہو تو آپ کا کونسا کیمرا مجھے کوریج دینے آتا ہے۔‘

معروف مبلغ نے یہ بھی کہا یہ تاثر درست نہیں کہ ان کے بیانات اور گفتگو میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے
بات نہیں ہوتی۔

’میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے صرف وراثت کے معاملات پر ہی بات نہیں کرتا ہوں، بلکہ اس کے ہر روپ میں اس کے حقوق کی بات کرتا ہوں کہ ایک عورت کے ماں یا بیوی کے طور پر کیا حقوق ہیں، بیٹی، بہن کے روپ میں کیا حقوق ہیں۔

’پھر ہمارے معاشرے میں سسرال میں آنے والی بچیوں پر ظلم کے حوالے سے میں بات کرتا ہوں، پھر ایسی بچیاں جو غصیلے یا بدزبان ہوتی ہیں، میں تو پورے معاشرے پر بات کرتا ہوں۔‘

اس سوال پر کہ حال ہی میں پاکستان بھر میں زیرِ بحث نور مقدم کیس سمیت اس جیسے موضوعات پر ان کا کوئی بیان یا پیغام دیکھنے کو نہیں ملا، طارق جمیل نے کہا کہ ’ میں کلی چیزوں پر بات کرتا ہوں، یہ جزیات ہیں کہ فلاں جگہ پر یہ واقعہ ہوا یا فلاں جگہ پر ایسا ہوا میں ان پر بات نہیں کرتا ہوں۔‘

’کہانی کا انداز دل و دماغ پر اثر کرتا ہے‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ اپنے اندازِ خطابت میں افسانوی انداز کیوں اپناتے ہیں طارق جمیل کا کہنا تھا کہ ’اللہ قرآن میں نصیحت کو کہانی کے انداز میں بیان کرتا ہے۔’حضرت موسیٰ کا قصہ سناتا ہے اس میں نصیحت ہے، ذوالقرنین کی کہانی سناتا ہے اس میں نصیحت ہوتی ہے، اصحاب کہف کی کہانی سناتا ہے اس میں نصیحت ہوتی ہے۔ لہٰذا کہانی کے انداز میں چیز انسان کے دل و دماغ میں اترتی ہے۔‘اس سوال پر کہ کیا اس میں کمزور روایت کی گنجائش پیدا ہو سکتی ہے ان کا کہنا تھا کہ ’جی بالکل اس میں کمزور روایت کو پیش کر سکتے ہیں۔‘(بہ شکریہ بی بی سی اردو)

ناندیڑ:شرابی شوہر نے بیوی کاکلہاڑی سے قتل کیا

ناندیڑ:11اگست (اردو اخبار دنیا)مدکھیڑتعلقہ کے موضع ترکس واڑی میں ایک شرابی شوہر نے محو خواب بیوی پرگھر میں کلہاڑی سے وار کرکے قتل کردیا ۔اس دردناک واقعہ کی اطلاع ملنے پربارڈ پولس جائے واردات پر پہنچ گئی اور ملزم کی تلاش شروع کردی ہے ۔ترکسواڑی کے ساکن گیانیشور ماروتی شندے نے9 اگست کو محو خواب بیوی تائی بائی عمر29سال کے سراور ہاتھ پر کلہاڑی سے زبردست وارکردیا۔

اس واقعہ کے بعد مقامی افراد نے تائی بائی کو بارڈ کے دیہی اسپتال میں منتقل کیا لیکن خون زیادہ بہنے کی وجہہ سے ناندیڑ کے وشنوپوری سرکاری اسپتال میںداخل کروایاگیا جہاں پردوران علاج اسکی موت ہوگئی ۔ تائی کے بھائی سوناجی ارجن ڈھگے نے پولس اسٹیشن میں شکایت درج کروائی کہ تائی بائی کواسکاشوہر ہمیشہ گھریلو باتوں پرجھگڑتاتھا۔اس فریاد پر ملزم کے خلاف قتل کامقدمہ درج کیاگیا ہے ۔

بدھ, اگست 11, 2021

بین الاقوامی شہرت یافتہ یوٹیوبر مبشر صدیق کی مداحوں سے التجا

  • (اردو اخبار دنیا)

’میں پبلک پراپرٹی ہوں لیکن میرا خاندان پبلک پراپرٹی نہیں ہے‘

سیالکوٹ: کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے جب مٹی کے برتنوں میں کھانا پکاتے اور کچے صحن میں مختلف پکوان پکاتے اور دیکھنے والے کو ان کی ترکیبیں سکھاتے مبشر صدیق اپنے مداحوں کی توجہ اور محبت کا شکریہ ادا کرتے نظر آتے تھے۔ لیکن اب اپنے یوٹیوب چینل پر تیس سیکنڈ کے مختصر سے کلپ میں وہ لوگوں سے التجا کرتے نظر آئے کے ’خدا کا واسطہ ہے مجھ سے ملنے مت آئیں۔‘ضلع سیالکوٹ کے چھوٹے سے گاؤں کنگڑا سے تعلق رکھنے والے ولاگر مبشر صدیق نے یوٹیوب پر ’ولیج فوڈ سیکریٹس‘ کے نام سے ایک چینل شروع کیا جس پر وہ دیہاتی پکوانوں کی تراکیب بتاتے تھے۔ سادہ سے کچے صحن اور کچن میں یا کھیتوں میں کھانے بناتے مبشر کے فالوور دیکھتے دیکھتے بڑھنے لگے۔ کچھ ہی عرصے میں وہ اتنے مقبول ہو گئے کہ اس سے چینل سے انھیں ماہانہ اچھی آمدنی بھی ہونے لگی۔مبشر کی مقبولیت کے بعد ان کے بارے میں بی بی سی اردو سمیت کئی خبر رساں اداروں میں چرچے بھی ہوئے۔ لیکن اب وہ اپنی مداحوں سے ہاتھ جوڑ کر ان سے نہ ملنے کی اپیل کر رہے ہیں۔

مبشر صدیق ہیں کون؟
مبشر کے گاؤں کی جانب جانے والی سڑک بھی چھوٹی ہے اور گاؤں میں انٹرنیٹ بھی باقاعدگی سے دستیاب نہیں تھا اور انھیں اپنی ویڈیو گاؤں سے ایک اور جگہ جا کر آپ لوڈ کرنی پڑتی تھیں۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا ’میری تعلیم میٹرک ہے، اور وہ بھی میں نے تھرڈ ڈویژن میں کی ہوئی ہے۔ اور میں ڈسٹرکٹ سیالکوٹ کے بالکل ایک چھوٹے سے گاؤں کا رہنے والا ہوں۔ ‘مبشر اُس وقت تک اپنی شہرت اور کامیابی سے لطف اندوز ہوتے رہے جب تک ان کے مداح ان کے گاؤں کو دیکھنے اور ان سے ملنے ان کے گاؤں تک نہیں پہنچ گئے۔پہلی بار مبشر نومبر 2019 میں اپنے مداحوں سے درخواست کرتے نظر آئے کہ ان کے گاؤں میں آ کر ویڈیو نہ بنائیں۔ ان کا موقف تھا کہ لوگ ان کے گاؤں میں آ کر خواتین کی ویڈیوز بنا کر اپ لوڈ کرتے ہیں اور چونکہ لوگ خود کو مبشر کا مہمان قرار دیتے ہیں اس لیے انہیں پورے گاؤں سے معافی مانگنی پڑی۔

اس وقت پانچ منٹ سے زیادہ طویل ویڈیو میں انھوں نے گاؤں والوں کی جانب سے تنبیہ کی تھی اگر کسی کو ویڈیو بناتے دیکھا گیا تو اسے پولیس کے حوالے کیا جائے گا۔لیکن اب پھر سے ایسا کیا ہو گیا کہ انھیں لوگ کو واشگاف الفاظ میں کہنا پڑا کہ ’جو لوگ ہمارے گاؤں ہم سے ملنے آتے ہیں میں ہاتھ جوڑ کر ان سے معافی مانگتا ہوں اور کہتا ہوں کہ اللہ کے واسطے ہم سے ملنے نہ آئیں۔ اور اگر یہ بات آپ کو بری لگی ہے تو پھر بھی اللہ کے واسطے ہمیں معاف کر دیں۔‘وہ اس تیس سیکنڈ کی ویڈیو میں یہی جملے دہراتے نظر آئے۔تو آخر ایسا کیا ہوا کہ انھیں یہ التجا کرنی پڑے؟

خاندان کی خواتین کی خفیہ ویڈیوز بنانے کا الزام:مبشر صدیق کا کہنا ہے کہ کچھ خواتین یو ٹیوبر ان سے ملنے ان کے گھر گئیں جب وہ گھر پر نہیں تھے، تو وہ ان کے گھر کی خواتین کی ویڈیو خفیہ کیمروں سے بنا کر لے گئیں اور انہیں عام کر دیا۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا ’میں کسی کا نام نہیں لینا چاہتا۔ اگرچہ ان خاتون یو ٹیوبروں نے یہ ویڈیو میری درخواست پر اب ہٹا دی ہیں لیکن مستقبل میں ایسے حادثات سے بچنے کے لیے میں نے یہ معذرت کی تھی۔‘مبشر صدیق کا کہنا تھا کہ ان ویڈیوز میں ان کی والدہ، بہن اور بھانجی کی بلا اجازت عکس بندی کی گئی تھی۔

ان کا کہنا تھا ’میں نے ان کو ای میل لکھی تھی کیونکہ ان کا نمبر میرے پاس نہیں تھا۔ میں نے ان سے ویڈیو ڈیلیٹ کرنے کو کہا۔ اگرچہ انھوں نے ڈیلیٹ تو کر دی لیکن پریشانی اس وقت ہوتی ہے جب دوسرے لوگ یہ ویڈیو ڈاؤن لوڈ کر لیتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ یہ مبشر کی فیملی ہے، پھر انٹرنیٹ سے کوئی چیز ہٹانا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ’چونکہ یہ ویڈیو ابھی ایک ہی چینل پر تھی اور زیادہ ویو بھی نہیں تھے اس لیے وقت پر ہی ڈیلیٹ کروا دی۔‘’نجی زندگی پر بات کریں ویڈیو نہ بنائیں‘:مبشر صدیق کے بعد اب ان کے بھائی بھی یوٹیوب چینل پر اپنی زندگی کی کامیابیاں اور واقعات شیئر کرتے نظر آتے ہیں۔ حال ہی میں مبشر کے نئے گھر کی سیر کروائی گئی اور ان کی بیٹی کی پیدائش پر اس سے ملاقات بھی کروائی گئی۔جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ خود بھی اپنی ذاتی زندگی لوگوں سے شیئر کرتے ہیں تو اس میں اعتراض کس بات پر ہے؟مبشر صدیقی کا کہنا تھا ’آپ کبھی بھی ہماری کسی ویڈیو میں خاندان کے افراد کو نہیں دیکھیں گے۔ میری ذاتی زندگی کے بارے میں اگر کوئی مجھ سے بات کرتا ہے تو وہ مسئلہ نہیں ہے لیکن اگر میرے خاندان کو آن کیمرہ لائیں گے تو وہ مسئلہ ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’ان سے ملنے مرد اور خواتین دونوں آتے ہیں تاہم خواتین آتی ہیں تو انہیں گھر میں لے جایا جاتا ہے لیکن خفیہ طور پر ویڈیو بنانا اخلاقی طور پر بھی مناسب نہیں۔ میری جگہ کوئی بھی ہو گا وہ اس کی اجازت نہیں گا۔‘ان کا کہنا تھا اگرچہ ان کے گھر کی خواتین سے گفتگو معمول کی ہی تھی لیکن انھیں بلا اجازت کیمرے پر لانا ٹھیک نہیں تھا۔مبشر صدیق کا کہنا تھا کہ ’ہمیں بالکل اندازہ نہیں تھا کہ مشھور ہونے کے بعد کی زندگی کیسی ہوتی ہے۔‘

تاہم ان کا کہنا تھا ’میں تسلیم کرتا ہوں کے میں پبلک پراپرٹی ہوں لیکن میرا خاندان پبلک پراپرٹی نہیں ہے۔‘
’سوشل میڈیا پر اپنی معلومات سوچ سمجھ کر ڈالیں‘:سوشل میڈیا کی ترقی اور پھیلاؤ سے جہاں سیلیبریٹی اور مداحوں میں فاصلے کم ہوئے ہیں وہیں یہی کم فاصلے مسائل کی وجہ بھی بن رہے ہیں جیسے کہ مبشر صدیق کے معاملے میں دیکھنے کو ملا۔انٹرٹینمنٹ کی خبروں سے وابستہ صحافی آمنہ حیدر کا کہنا ہے کہ ’سوشل میڈیا کی آمد کے بعد یہ سیلیبریٹی ٹی وی، فلم کے علاوہ ہر جگہ ہیں اور اب ان کے لیے مداحوں کو کنٹرول کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ ‘’کچھ لوگ اپنی ذاتی زندگی کو عام نہیں کرتے، لیکن کچھ سیبریٹی خاص کر یوٹیوبروں کے لیے یہ تو شہرت کے مضمرات میں سے ہے۔ ان میں اور اداکاروں میں صرف پلیٹ فارم کا فرق ہے۔ شاید دس بارہ سال کے تجربے کے بعد وہ سمجھ جائیں کہ کیسے ذاتی زندگی کو شہرت سے الگ رکھنا ہے لیکن ایک یوٹیوبر کی شہرت کی عمر شاید دس سال تک نہ ہو۔ ‘آمنہ حیدر کا کہنا تھا کہ شائقین کا بھی یہی عالم ہے ’لوگوں کو اپنی حدود کا نہیں پتا، کیا زبان استعمال کرنی ہے اور یہ احساس نہیں کہ ان کی بات کا کسی پر کیا اثر پڑے گا۔‘’میرا تو مشورہ ہے کہ سوشل میڈیا پر اپنی معلومات سوچ سمجھ کر ڈالیں، اگرچہ سائبر کرائم قانون ہیں، انھیں تحفظ بھی ملنا چاہیے لیکن اگر کوئی گھر کا پتا اور ساری معلومات آن لائن کر دیں گے تو اس کے اثرات تو ہوں گے۔‘

ان کا کہنا تھا ’پوری دنیا میں مداحوں کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا البتہ آپ خود کو کنٹرول کر سکتے ہیں۔‘
سوشل میڈیا رد عمل:مبشر کی اس مختصر ویڈیو پر جس میں انھوں نے لوگوں سے ملنے نہ آنے کی درخواست کی، بیشتر لوگ ان کی تائید کرتے نظر آئے اور ان کا کہنا تھا کہ کسی کی بھی نجی زندگی کا احترام کیا جانا چاہیے۔ایک صارف محمد فاضلی عزیز کا کہنا تھا ’ان کی مشکلات میں سمجھ سکتا ہو کیونکہ میرا تعلق بھی ایک پسماندہ گاؤں سے جہاں پر طرح طرح کے لوگ رہتے ہے اور باتیں بناتے ہیں۔‘فہد شنواری کا کہنا تھا ’بالکل صحیح. وہ صرف ’وہ ایک یو ٹیوبر ہیں اور آپ کو ان کے مواد کو دیکھنا اور اس سے لطف اندوز ہونا چاہیے۔ ان کے خاندان کو پریشان کرنا برا ہے جیسے ان کے دروازے پر دستک دے کر بن بلائے مہمان بن جانا۔‘کچھ لوگوں کو اعتراض تھا کہ مبشر کی جانب سے اپنے مداحوں کو دعوت دینا مسئلہ کی وجہ بنا۔ ایک صارف عمران آفریدی کا اعتراض تھا کہ ’آپ کو پہلے ہی ہر کسی کو اپنے گاؤں آنے کے لیے نہیں کہنا چاہیے تھا، اور یہ کہ آپ گیسٹ روم ٹائپ سیٹ اپ بنا رہے تھے۔ اس کے علاوہ آپ ، آپ کے بھائی زین اور مدثر ہر ذاتی تفصیلات، بچے اور گھر کے کونے وغیرہ پوری دنیا کو دکھاتے ہیں۔‘تاہم ایک صارف نے مشورہ دیا کہ ’آپ کو ہر مہینے ملاقات کا اہتمام کرنا چاہیے۔ میں آپ کے درد کو محسوس کرسکتا ہوں لیکن آپ کے مداح ہیں انھیں سنبھالیں۔ یہ آپ کی زندگی کا حصہ ہیں۔ جب آپ عوامی چہرہ ہوں تو شہرت کے مشکلات بھی آتی ہیں ان سے نمٹنے کے لیے کوئی راستہ تلاش کرنے کی کوشش کریں۔ ہر دوسرے مہینے معافی مانگتے ہوئے اپنی تو ہین نہ کریں۔‘(بہ شکریہ بی بی سی اردو)

پرائمری کو چھوڑ کر یوپی میں 16 اگست سے کھلیں گے سبھی اسکول کالج ، ہفتہ واری کرفیو بھی ختم کرنے کا اعلان

لکھنؤ(اردو اخبار دنیا): کورونا وائرس وبا کے بہتر ہوتے حالات کے درمیان یوپی کے اسکول اور کالج پھر سے کھلنے ہونے جارہے ہیں۔ یوپی کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کی ہدایت کے مطابق پرائمری کو چھوڑ کر سبھی تعلیمی ادارے یوم آزادی 15 اگست سے کھلیں گے ، حالانکہ پڑھائی 16 اگست سے شروع ہوگی۔ بتادیں کہ سیکنڈری اسکول دو شفٹوں میں صبح 8 سے 12 بجے اور پھر دوپہر ساڑھے بارہ بجے سے شام 4:30 بجے تک کھلیں گے۔ کل تعداد کا نصف پہلی شفٹ میں اور نصف دوسری شفٹ میں کلاس میں موجود ہوں گے۔ اس کے ساتھ ہی اب چھٹی تک کی جماعت میں داخل شروع کرنے کی تیاری ہے۔

وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے بدھ کو ایک اعلی سطحی میٹنگ میں اسکول و کالجوں میں نئے سیشن کے آغاز کی تیاریوں کا جائزہ لیا۔ انہوں نے کہا کہ بچوں اور سرپرست صحت کا خاص خیال رکھتے ہوئے پرائمری سے اوپر کے کالجوں میں آف لائن درس وتدریس کا سلسلہ شروع ہونا چاہئے۔ ریاستی سطح کی طبی ماہرین کی مشاورتی کمیٹی نے گذشتہ دنوں اسکولوں کو کھولے جانے کے ضمن میں اپنی شفارشات دی تھیں۔

کمیٹی کی شفارشات کے مطابق اسکولوں میں 50 فیصدی طلبا کی موجودگی کے ساتھ کلاسز کا آغاز کیا جائے گا۔ ہر جگہ کلاسز دو شفٹوں میں منعقد کی جائیں گی اور کووڈ پروٹوکول پر سخت سے عمل کیا جائےگا۔ وزیر اعلی نے کہا کہ بیسک ایجوکیشن کونسل کے اسکول میں 6 تا 8 جماعت میں نئے داخلوں کی کار وائی کا آغاز حالات کا اندازہ کرتے ہوئے کیا جانا چاہئے۔ ان اسکولوں میں بھی درس و تدریس کا آغاز یکم ستمبر سے کیا جائے گا۔

کورونا انفکشن کے کم ہوتے اثر کے ساتھ ہی اترپردیش حکومت نے کورونا کرفیو میں مزید راحت دیتےہ وئے اعلان کیا کہ اب اتوار کو چھوڑ کر دیگر دنوں میں صبح 6تا رات10بجے تک بازار کھل سکیں گے اور اتوار کو مکمل بندی رہے گی۔ ریاست کے اڈیشنل چیف سکریٹری داخلہ اونیش کمار اوستھی نے بدھ کو سبھی اضلاع اور ڈویژن سربراہوں کو جاری ہدایت نامہ میں کہا کہ 14اگست سےپیر تا ہفتہ تک ماسک، سماجی فاصلہ اور سینیٹائز کی شرائط کے ساتھ صبح 6تا رات 10بجے تک سبھی سرگرمیاں معمول سے چلائی جائیں گی۔

اب تک کورونا کرفیو کے تحت پورے ہفتے میں دو دن سنیچر اور اتوار کو مکمل بندی رہتی تھی۔ لیکن ریاست میں کم ہوتے کورونا کے مریضوں کے درمیان حکومت نے کورونا کرفیو میں مزید راحت دینے کا اعلان کیا ہے۔

ممبئی کی لوکل ٹرینوں میں سفر کے لیے پاس دینے کا عمل شروع

ممبئی(اردو اخبار دنیا) ، 11 اگست۔ ممبئی کی لائف لائن کہی جانے والی لوکل ٹرین میں عوام کو سفر کرنے کیلئے آج سے پاس دینے کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔ جن لوگوں نے ویکسین کی دو نوں ڈوز لی ہیں ان کی دستاویزات کی ممبئی کے 53 اسٹیشنوں اور ایم ایم آر کے 109 اسٹیشنوں پر جانچ پڑتال کی جا رہی ہے۔ دستاویزات کی جانچ پڑتال کے بعد ،کیو آر کوڈ کے ساتھ ایک ماہ کا پاس دیا جائے گا۔ یوم آزادی یعنی 15 اگست سے لوکل ٹرینوں میں سفر کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے نے 15 اگست سے عام لوگوں کے لیے لوکل ٹرین سفر مشروط طور پر شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ممبئی میونسپل کارپوریشن نے ایم ایم آر کے 109 اسٹیشنوں بشمول میٹروپولیس کے 53 اسٹیشنوں پر صبح 7 بجے سے رات 11 بجے تک کورونا ویکسین کی دونوں ڈوز لینے کے بعد 14 دن کا وقفہ مکمل کرنے والوں کو آف لائن طریقہ سے پاس فراہم کرنے کی سہولت فراہم کی ہے۔ ہر اسٹیشن پر ہیلپ اینڈ چیک سنٹر قائم کیے گئے ہیں۔ جہاں درخواست گزاروں کے دستاویزات کی جانچ پڑتال کے بعد انہیں اہل ہونے پر مہر لگے گی اور اس کے بعد انہیں ریلوے ونڈو پر پاس ملے گا۔ فی الحال ٹکٹ کی سہولت فراہم نہیں کی گئی ہے۔ یہ پاس 15 اگست سے موثر سمجھا جائے گا۔ لوگوں کوپاس کی سہولت قریبی اسٹیشن پر دستیاب ہے۔ اس لیے بھیڑ نہ کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔ سرکاری ملازمین ، ہیلتھ ورکرس اور ضروری خدمات سے وابستہ لوگ پہلے کی طرح سفر کر سکیں گے۔ یہ ضابطہ ان پر لاگو نہیں ہوگا۔ درخواست گزار کو کورونا ویکسین کی دونوں ڈوز کا سرٹیفکیٹ دینا ہوگا (دوسری ڈوز کے 14 دن بعد) ، اس کے ساتھ اپنا شناختی کارڈ ، اس طرح کے دو دستاویزات جمع کرنے ہوں گے۔ممبئی کے 53 لوکل اسٹیشنوں پر کل 358 ہیلپ اینڈ چیک سنٹر قائم کیے گئے ہیں۔ یہ سہولت مہاممبئی کے کل 109 لوکل اسٹیشنوں پر دستیاب ہے۔ یہاں دو شفٹوں میں میونسپل کارپوریشن کے ملازمین کو ہیلپ اور چیککے لیے تعینات کیا جائے گا۔ یہ مراکز صبح 7 بجے سے سہ پہر 3 بجے تک اور 3 بجے سے 11 بجے تک کھلے رہیں گے۔ اگر ویکسین کی دونوں خوراکیں لینے کی جعلی دستاویز ملی تو متعلقہ شخص کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ پولیس ایسے افراد کے خلاف مقدمہ درج کرے گی۔ اس کے علاوہ میونسپل کارپوریشن آن لائن سرٹیفکیٹس کے لیے ایک ایپ بنا رہی ہے۔ جس کے ذریعے لوگ آن لائن ذریعے ریلوے پاس حاصل کر سکیں گے۔ یہ ایپ بھی اگلے چند دنوں میں شروع کی جائے گی۔ جس کے بعد پاس حاصل کرنے کا یہ عمل آسان ہو جائے گا

مسلم لڑکیوں کا غیر مسلم لڑکوں سے شادی کرنا ایمانی غیرت کے خلاف: نائب امیر شریعت ‏



مسلم لڑکیوں کا غیر مسلم لڑکوں سے شادی کرنا ایمانی غیرت کے خلاف: نائب امیر شریعت 

پھلواری شریف(اردو اخبار دنیا) اس وقت ملک کے بعض علاقوں سے یہ دلدوز اور روح فرسا خبریں آرہی ہیں کہ معمولی مفاد کی خاطر مسلم لڑکیاں غیرمسلم لڑکوں کی ہوس رانی کا شکار بن رہی ہیں اور مذہب تبدیل کرکے شادیاں بھی کرتی ہیں، یہ صورت حال مسلم معاشرہ کی بربادی کے لئے زبردست خطرہ کی گھنٹی ہے، ان حالات میں اگر ملک کے باشعور مسلم طبقہ نے سنجیدگی سے اس کے تدارک پر غور نہ کیا تو مسلمانوں کے خاندانی نظام کے تانے بانے بکھر جائیں گے، ان کی عظمت وشرافت اور انسانیت کی جڑیں کھوکھلی ہو جائیں گی، ان خیالات کا اظہار امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ وجھارکھنڈ کے نائب امیر شریعت حضرت مولانا محمد شمشاد رحمانی قاسمی مد ظلہ نے اخباری نمائندوں سے بات چیت میں کیا، انہوں نے فرمایا کہ ملک کی انتہا پسند اور ہندو احیاء پرست تنظیمیں مسلمانوں کی کثیر آبادی والے علاقوں کو نشانہ بناتی ہیں، مسلمانوں کے مہذب خاندانوں کی تعلیم یافتہ لڑکیوں کو جال میں پھنساتی ہیں اور غریب گھرانے کی بچیوں کو لالچ دے کر غیر مسلم لڑکوں سے شادیاں کراتی ہیں، پھر ان کی عفت وعصمت کو تار تار کرواتی ہیں، اس قسم کے روح فرسا واقعات ملک کے مختلف خطوں میں پیش آچکے ہیں، جہاں لڑکیاں مذہب تبدیل کرکے غیرمسلم لڑکوں سے شادیاں رچا لیتی ہیں، حضرت نائب امیر شریعت نے فرمایا کہ بھلا بتلایئے کہ اسلام نے عورتوں کے سروں پر عزت واحترام کا تاج رکھا ہے، اس نے ماں کے قدموں تلے جنت، اچھی اور نیک بیوی کو آدھا ایمان اور بیٹی کی پیدائش کو رحمت قرار دیا۔

لیکن افسوس ہے آج اسی مذہب کے شیدائی بے حیائی وبے راہ روی پر گامزن ہیں، جس کا غلط فائدہ اٹھاکر عہد جدید کی تہذیب نے استحصال کرنا شروع کردیا اور ستم ظریفی کہئے کہ مسلم معاشرہ بھی اس کا شکار ہوتا جارہا ہے، آج کل تعلیم نسواں کے نام پر ایسی تعلیم دی جاتی ہے کہ ان میں مادیت پرستی کے سواکوئی فکری اور روحانی تبدیلی پیدا نہیں ہوتی ہے، جس کے نتیجہ میں معاشرہ آزاد جنسی، آوارگی اوربے راہ روی میں مبتلا ہو تا جارہا ہے، اس وقت حالات انتہائی نازک وناگفتہ بہ ہیں اور یہ ہماری ایمانی غیرت کے بھی خلاف ہے، اس لئے ہمارے علماء وفضلاء مدارس اور ائمہ مساجد کی دینی واخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ اس پہلو پر فوری توجہ دیں اور مسجد کے منبر ومحراب سے اس بے راہ روی کے خلاف خطاب کریں، خواتین کے اصلاحی اجتماعات منعقد کریں اس میں اسلام نے عورتوں کو عزت واحترام کا جو مقام عطا کیا ہے اس سے انہیں روشناس کرائیں، غیر مخلوط نظام تعلیم کے قیام پر توجہ دلائیں، ٹیلی ویزن اور موبائل کا کثرت سے استعمال کرنے پر تنبیہ کریں، انٹرنیٹ اور یوٹیوب پر فحاشی کے جو مناظر دکھلائے جاتے ہیں ان کے دیکھنے سے منع کریں، ساتھ ہی مسلم گھرانوں میں بھی والدین لڑکیوں کے سامنے خواتین اسلام کے کردار وعمل کے اسباق سنائیں، ان کے اندر وہی ذوق عمل پیدا کیا جائے جو ماضی میں ہماری ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کا طرز عمل رہا ہے، جب تک گھر میں لڑکیوں کی صحیح اسلامی، دینی واخلاقی تربیت اور ذہن سازی نہیں ہوگی، خارجی ماحول وفضائ میں خوشگواری نہیں آئے گی، اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اس فتنہ وبگاڑ سے محفوظ رکھے اور سنت وشریعت کے مطابق زندگی گذارنے کی توفیق بخشے۔آمین


اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...