جمعرات, جون 09, 2022
بھوجپور میں شادی میں فائرنگ ، رقاصہ کو لگی گولی

پانی ایک بڑی نعمت تحریر: مشتاق احمد قاسمی گنگولوی

مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی میری نظر میںمحمدامام الدین ندوی مدرسہ حفظ القرآن منجیا ویشالی

پیغمبراسلام کی شان میں گستاخی ، نصیرالدین شاه کا وزیراعظم کو مشورہ
پیغمبراسلام کی شان میں گستاخی ، نصیرالدین شاه کا وزیراعظم کو مشورہ
نئی دہلی: بالی ووڈ اداکار نصیرالدین شاہ نے پیغمبراسلام کی شان میں نوپورشرما کی جانب سے کی گئی گستاخی پرشدید رد عمل ظاہرکیا ہے۔ انھوں نے ایک خانگی ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ترجمان کے خلاف کاروائی میں تاخیرکی گئی ہے،حکومت کو منہ کھولنے اور معاملے کی مذمت کرنے میں ایک ہفتہ لگا،
اداکار نے کہا کہ نوپورشرما نے اپنی وضاحت میں کہا تھا کہ انہوں نے ہندو دیوی دیوتاؤں کے خلاف تبصرے سے دکھی ہو کراس طرح کی گستاخی کی ہے، فلم ادکارنے کہا کہ مجھے کوئی ایسا بیان یا ریکارڈنگ دکھائیں جس میں مسلمانوں نے ہندو دیوتاؤں کے بارے میں کچھ کہا ہو۔ نصیرالدین شاہ نے کہا کہ وقت آ گیا ہے کہ اگر سماج میں پھیل رہی نفرت کو روکنا ہے تو پی ایم مودی کوپہل کرنی چاہئے

کرناٹک : ٹرین گارڈ کی بیٹی'یو پی ایس سی' میں کامیاب واحد مسلم امیدوارخ
کرناٹک : ٹرین گارڈ کی بیٹی'یو پی ایس سی' میں کامیاب واحد مسلم امیدواربنگلورو : یو پی ایس سی میں یوں تو اس سال مسلم امیدواروں کا تناسب گھٹا ہے ،مگر کامیاب امیدواروں کی اپنی الگ الگ کہانیاں ہیں ۔جن میں ایک کرناٹک کی تحسین بانو داودی ہیں۔ جو ایک ٹرین گارڈ کی صاحبزادی ہیں اور اس سال کرناٹک میں کامیاب ہونے والی واحد مسلم امیدوار بھی۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ انہوں نے یو پی ایس سی کی تیاری کے لیے نہ صرف جامعہ ملیہ اسلامیہ بلکہ ممبئی حج کمیٹی کے یوپی ایس سی کوچنگ سینٹر کی بھی مدد لی تھی۔ جو حکومت کی وزارت امور اقلیت کے زیر نگرانی ہے۔ تحسین بانو داودی کی کامیابی نے ایک بار پھر ثابت کردیا ہے کہ اگر آپ میں اہلیت ہے اور قابلیت ہے تو آپ کوکوئی نہیں روک سکتا ہے ۔ ساتھ ہی حکومت کی مسلم اداروں میں کوچنگ کے تجربے نے بھی بہت مثبت نتائج دئیے ہیں ۔
تحسین بانو داودی، کرناٹک میں یو پی ایس سی پاس رنے والے 26 امیدواروں میں واحد مسلم خاتون ہیں ۔جو کہ ایک ریٹائرڈ ٹرین گارڈ کی بیٹی ہیں۔ تحسین بانوداودی نے اپنی دوسری کوشش میں 482 واں رینک حاصل کیا۔
تحسین بانو کے والد خضر باشا، 2012 میں ریلوے سے بطور چیف ٹرین کلرک ریٹائر ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ "جب نتائج سامنے آئے تو میں بہت خوشی ہوئی۔ مجھے یقین تھا کہ تحسین کو منزل مل جائے گی۔انہوں نے کہا کہ میرے دو بیٹے اور دو بیٹیاں تعلیمی لحاظ سے اچھے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ میرے لیے ایک قابل فخر لمحہ تھا جب جنرل منیجر، ایس ڈبلیو آراور ڈویژنل ریلوے مینیجر، ہبلی نے ہمیں اپنے دفتر میں مدعو کیا اور میری بیٹی کی عزت افزائی کی۔
کرناٹک کی 24 سالہ تحسین بانو ، جنہوں نے 2019 میں یونیورسٹی آف ایگریکلچرل سائنسز، دھارواڑ سے ایگریکلچر میں بی ایس سی مکمل کیا تھا، جب وہ اپنے گریجویشن کے آخری سال میں پڑھ رہی تھیں تو سول سروسز کے بارے میں نہ صرف سوچا بلکہ اس کی تیاری شروع کرلی تھی۔
تحسین بانو نے بتایا کہ "میرے والد اور والدہ حسینہ بیگم نے میرا ساتھ دیا اور یہاں تک کہ مجھے کوچنگ کے لیے ممبئی کے ممبئی حج ہاؤس بھیجا، جس کا انتظام اقلیتی امور کی وزارت کرتی ہے۔
میں 2020 میں اپنی پہلی کوشش میں ابتدائی امتحانات بھی پاس نہیں کر سکی تھی۔ لیکن 2021 میں اپنی اگلی کوشش میں، میں نے ابتدائی امتحانات، مینز اور انٹرویو کو کلیئر کر لیا ۔ مجھے یقین تھا کہ میں اس میں کامیابی حاصل کرلوں گی، انہوں نے دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کی رہائشی کوچنگ اکیڈمی سے کوچنگ بھی لی۔
تحسین بانو کہتی ہیں کہ ''یہ میرے لیے حیرت کی بات تھی کہ میں نے 680 میں سے 482 واں رینک یا مقام حاصل کیا۔ تحسین بانو نے کہا کہ اب وہ بیوروکریسی میں اپنا کیریئر بنانے کی خواہش مند ہیں ۔ " میں سول سروسز کا خواہشمند تھی کیونکہ یہ معاشرے کی خدمت کرنے کا براہ راست موقع فراہم کرتا ہے۔
دوسری جانب تحسین بانو داودی کی کامیابی کا جشن منایا جارہا ہے ۔ان کے اسکول نے بھی انہیں استقبالیہ دیا۔ ہبلی میں ساؤتھ ویسٹرن ریلوے ویمنز ویلفیئر آرگنائزیشن کے زیر انتظام اسکول کی تاریخ میں پیر کا دن ایک اہم دن تھا۔
اسکول نے اپنی 32 سالہ تاریخ میں اپنے واحد طالب علم کے لیے ایک بڑے استقبالیہ کا انعقاد کیا جس نے ایک ہفتہ قبل اعلان کردہ نتائج میں سول سروسز کے امتحان میں کامیابی حاصل کی تھی۔
تحسین بانو کے لیے بھی یہ پروگرام بہت اہم تھا کیونکہ ان کے اساتذہ اور طلبا انہیں بہت پیار اور احترام سے دیکھ رہے تھے ،جن سب کی آنکھوں میں چمک تھی اور تحسین بانو کے چہرے پر خوشی۔

' پی ایم مودی مسلم ممالک کی بات سنتے ہیں ، مگر ہندوستان کے مسلمانوں کی نہیں ' ، اویسی نے توہین رسالت معاملے پر حکومت کو گھیرا

کیسے رکے گا یہ نفرت کا طوفان - ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
کیسے رکے گا یہ نفرت کا طوفان - ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
دنیا میں بھارت کی پہچان تکثیری ملک کی ہے ۔ یہاں مختلف زبانیں بولنے، رسم و رواج پر عمل کرنے اور مذاہب کو ماننے والے افراد برسوں سے ساتھ رہتے آئے ہیں ۔ مسلم بادشاہوں کے دربار میں ہندو اعلیٰ و عزت دار عہدوں پر فائز تھے اور ہندو راجاؤں کے یہاں مسلمان ۔ اس وقت ہندو مسلمانوں کے درمیان نہ کوئی امتیاز تھا نہ نفرت ۔ ہندو بغیر کسی رکاوٹ کے اپنی مذہبی رسومات ادا کرتے اور تہوار مناتے تھے ۔ دونوں ایک دوسرے کے تہواروں میں شریک ہوتے اور مذاہب کا احترام کرتے تھے ۔ ریاستوں پر انگریزوں کے قبضہ اور مغل سلطنت کے خاتمے نے دانشوروں کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ۔ ایک انگریزوں کی غلامی سے ملک کو بچانا چاہتا تھا ۔ اس میں مسلمانوں کی اکثریت تھی ۔ 1857 میں انہیں ہندو مسلمانوں نے بہادر شاہ ظفر کی لیڈر شپ میں انگریزوں کو ملک بدر کرنے کی کوشش کی ۔ دوسرا (ہندو دانشور) طبقہ وہ تھا جس نے انگریزوں کے ساتھ مل کر ہندو احیاء پرستی کی تحریک شروع کی ۔ ان کی تعداد بہت قلیل تھی وہ ہندو مسلم اتحاد اور رواداری کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے ۔ اس اتحاد کا مظاہرہ اس وقت ہوا جب 1905 میں انگریزوں نے بنگال کو تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا ۔ ہندو مسلمانوں کے متحدہ احتجاج کی وجہ سے انہیں اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا ۔ اس تحریک نے ان کی آنکھیں کھول دیں، اس کے بعد ہی پھوٹ ڈالو اور راج کرو کی پالیسی اپنائی گئی ۔ جس کا مقصد ہندو مسلم اتحاد کو ختم کرنا تھا ۔ انگریزوں نے ہندو مسلمانوں کے درمیان ریل کی پٹریوں کی طرح فاصلہ بنا کر رکھا ۔ جو ساتھ تو رہتی ہیں لیکن ملتی نہیں ۔ وہ بانٹو اور راج کرو کی پالیسی کی وجہ سے ہی بھارت کے عوام کو غلام بنا سکے ۔ اور برسوں تک ان پر اپنے اقتدار کی گاڑی دوڑاتے رہے ۔بھارت کے لوگوں نے اس پالیسی کو سمجھا اور ہندو مسلمان دونوں نے مل کر آزادی کی لڑائی کندھے سے کندھا ملا کر لڑی ۔ مگر ہندو احیاء پرستی کے حامی آزادی کی تحریک کا حصہ نہیں بنے بلکہ انہوں نے انگریزوں کے مخبر کے طور پر کام کیا ۔ وہ آزادی کی جدوجہد میں شامل افراد کے راستہ کی رکاوٹ بنے اور انتظامیہ کو ان کی سرگرمیوں سے واقف کراتے تھے ۔ انگریز حکمرانوں کے یہ دوست نہیں چاہتے تھے کہ وہ ملک چھوڑ کر جائیں ۔ مگر ملک کی اکثریت غلامی کے خلاف متحد تھی اس لئے انگریز جیسے طاقتور حاکم کو بھارت چھوڑ کر جانا پڑا ۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ آزادی کے بعد ہمارے حکمرانوں نے ہندو مسلم کے درمیان تفریق اور نفرت کی موٹی لکیر کو مٹنے نہیں دیا ۔ انہوں نے سماج کو بانٹنے اور نفرت پھیلانے والوں کو بھی نہیں روکا بلکہ ان کی سرگرمیوں کو جاری رہنے دیا ۔ یہاں تک کہ 1860 کے پولس ایکٹ کو بھی نہیں بدلا گیا ۔ جبکہ برطانوی پولس کے مظالم کو وہ خود بھگت چکے تھے ۔ یہ پولس انگریز حکومت کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبانے کا کام کرتی تھی ۔ اب یہ پولس لا اینڈ آرڈر کو درست رکھنے کے بجائے حکمران جماعت کے لئے فنڈ جٹانے، اس کے مخالفین کو ٹھکانے لگانے اور اس کی سیاست سادھنے کے لئے کام کرتی ہے ۔ سابق ڈائریکٹر جنرل آف پولس وبھوتی نرائن رائے کا کہنا ہے کہ آزاد بھارت میں پولس اصلاحات کی ضرورت ہے ۔ مگر حکمرانوں نے اچھے ہتھیار، تیز رفتار گاڑیاں، وردی اور اچھی تنخواہ دینے کو ہی پولس کی اصلاح سمجھ لیا ہے ۔ حالانکہ پولس کا مزاج اور کام کرنے کے طریقہ کو بدلنا چاہئے ۔ حکمراں پولس کو اپنے مفادات سادھنے کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔ اس کی وجہ سے پولس پر بار بار داغ لگتا ہے اور سماج میں اس کی منفی شبیہ بنتی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ جو پولس اہلکار برسراقتدار جماعت کے مفادات اور مزاج کے مطابق کام کرتا ہے اسے سپاہی سے انسپیکٹر بننے میں زیادہ وقت نہیں لگتا ۔ یہی وجہ ہے کہ اقتدار بدلنے کے ساتھ پولس کی وفاداری بدل جاتی ہے ۔ پولس کی زیادتی، فسادیوں کو روکنے میں ناکامی اور حراست میں موت کو اسی پس منظر میں دیکھنا چاہئے ۔ جو کام سیاست داں سیدھے طور پر نہیں کر پاتے وہ پولس کے ذریعہ کرایا جاتا ہے ۔ نفرت اور طبقاتی تفریق کو بنائے رکھنے میں بھی پولس معاون ثابت ہوتی ہے ۔ سیاست داں جانتے ہیں کہ جب تک سماج ٹکڑوں میں نہیں بٹے گا تب تک ان کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔ وہ اپنے مفاد کے لئے کبھی ہندو مسلمان، کبھی اگڑی پچھڑی، کبھی برہمن راجپوت اور یادو کے نام پر سماج کو بانٹ کر اقتدار حاصل کرنا اپنی پالیسی بنا چکے ہیں ۔ اس لئے جو جتنا سماج کو بانٹ سکتا ہے وہ اتنی ہی جلدی اقتدار کی بلندی پر پہنچ جاتا ہے ۔ ملک میں مذہب، ذات، طبقات اور امتیازات پہلے بھی موجود تھے مگر سماج اتنی بری طرح بٹا ہوا نہیں تھا ۔ لوگوں کی آنکھوں میں شرم اور بزرگوں کی عزت تھی ۔ حالانکہ آزادی کے بعد شروع ہوا فسادات کا سلسلہ کبھی رکا نہیں ۔ لیکن پھر بھی غیر مسلم مسجد یا درگاہ کے سامنے سے ہاتھ جوڑ کر گزرتے تھے ۔ ہندو خواتین شام کو اپنے نونہالوں پر نمازیوں سے دم کرانے کے لئے مسجد کے باہر کھڑی دکھائی دیتی تھیں ۔ منڈل کے مقابلے کمنڈل پھر رام جنم بھومی بابری مسجد تنازعہ اور رتھ یاترا نے سماج کو بدل دیا، آنکھوں کی شرم اور بزرگوں کی عزت کو خاک میں ملا دیا ۔ سماجی نفرت اور تفریق پچھلے چند سالوں میں اپنے عروج پر آگئی ۔ جس میں سیاست دانوں کی شمولیت صاف دکھائی دیتی ہے ۔ ابھی تک یہ سمجھا جاتا رہا ہے کہ الیکشن جیتنے اور لوگوں کا دھیان بنیادی مسائل سے ہٹانے کے لئے ہجومی تشدد، گو کشی، مسلمان، قبرستان، لوجہاد، جناح، پاکستان، سی اے اے، این آر سی، مسلمانوں کا اقتصادی بائیکاٹ، آذان، حجاب، مندر مسجد کا ذکر کیا جاتا ہے ۔ کسی نہ کسی بہانے سماج میں تفریق پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ بیس فیصد مسلمانوں سے اسی فیصد غیر مسلموں کو ڈرایا جاتا ہے ۔ جبکہ تمام اعلیٰ عہدوں پر غیر مسلم فائز ہیں ۔ ملک کی معیشت ہندوؤں کے ہاتھوں میں ہے ۔ فوج کے تمام اعلیٰ افسران غیر مسلم ہیں ۔ وزیراعظم، وزیر داخلہ، وزیر دفاع، چیف جسٹس اور صدر جمہوریہ تک غیر مسلم ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب قواعد صرف ووٹ حاصل کرنے کے لئے ہے یا کسی منصوبہ کا حصہ ہے ۔ ایک مسئلہ سے دھیان نہیں ہٹتا کہ دوسرا شروع ہو جاتا ہے ۔ اب بات مسلم مخالف نعروں اور قتل عام کے حلف سے آگے بڑھ کر مساجد کے نیچے مندر کے آثار تلاش کرنے اور اہانت رسول صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ چکی ہے ۔ اس سے لگتا ہے کہ نفرت کی آندھی چلانے والوں کی نیت میں کچھ کھوٹ ہے ۔ حکومت کی خاموشی نے ان کا حوصلہ اور بڑھا دیا ہے ۔ شاید اس کے ذریعہ وہ اپنی کارکردگی پر جواب دہی سے بچنا چاہتی ہے ۔
یہ صورتحال اس وقت اور زیادہ سنگین ہو جاتی ہے جب نفرت اقتدار حاصل کرنے کا ذریعہ بن جائے ۔ گزشتہ کئی سال اس کے گواہ ہیں کہ جس نے فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے اور سماج کو توڑنے کا کام کیا اسے سزا کے بجائے ترقی ملی، وزارت ملی ۔ اس کے بعد تو جیسے یہ فیشن بن گیا کہ اگر بی جے پی کا ٹکٹ چاہئے یا پارٹی میں کوئی مقام تو کسی کمزور مسلمان کو پیٹو یا گئو تسکری، چوری کا الزام لگا کر قتل کر دو ۔ اس کا ویڈیو بنا کر وائرل کرو اور مشہور ہو جاؤ ۔ مسلمانوں کو مارنے کاٹنے کے نعرے لگاؤ اور میڈیا میں چھا جاؤ ۔ برسراقتدار جماعت کے افراد، وی ایچ پی، بجرنگ دل، اے بی وی پی وغیرہ مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے والوں کی حمایت میں آ جاتے ہیں ۔ دوسری طرف ملک کے کچھ حق پرست مظلوموں کو انصاف دلانے کی مانگ کرتے ہیں ۔ انہیں ٹرول کیا جاتا ہے اور میڈیا میں گرماگرم بحث کرائی جاتی ہے تاکہ لوگوں کی توجہ بھک مری، بے روزگاری، صحت، تعلیم، مہنگائی اور کسانوں کے مسائل سے ہٹ جائے ۔ برسراقتدار جماعت کو ان نفرت آمیز و سماج کو توڑنے والے نعروں، واقعات کو الیکشن میں بھنانے کا موقع مل جاتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ ملک و آئین کو ایک رنگ میں رنگنے سے بچانے اور نفرت کے طوفان کو روکنے کے لئے کیا کیا جائے ۔ مولانا توقیر رضا خان کے مطابق جمہوری نظام میں افرادی قوت کے ذریعہ حکومت کو صحیح فیصلہ لینے کے لئے مجبور کیا جا سکتا ہے ۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ ملک میں ایسے لوگ اکثریت میں ہیں جو بی جے پی سے اتفاق نہیں رکھتے ۔ انہیں اکٹھا ہو کر اس کا مقابلہ کرنا چاہئے ۔ اسلامک اسکالرز کے مطابق ملک کو اسلامی تعلیمات کے ذریعہ ہی موجودہ مسائل سے نجات مل سکتی ہے ۔ ان کا ماننا ہے کہ یہ وقت ملک کے لوگوں کو اسلام کی تعلیمات اور نبی آخر الزماں کی سیرت سے واقف کرانے کا ہے ۔ اگر عربی، فارسی نام والے بادشاہوں نے اسلام کا تعارف کرایا ہوتا، انہوں نے مندروں کو توڑا ہوتا یا یہاں کے مذاہب کی حفاظت نہ کی ہوتی تو بھارت میں ایک بھی ہندو نہیں ہوتا ۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک میں آریہ سماجی، لنگایت، برہما کماری، سکھ اور کئی ایسے طبقات ہیں جو بتوں کی پوجا نہیں کرتے ۔ وہ کسی نہ کسی شکل میں توحید کے قریب ہیں ۔ ان کی کانفرنس ہونی چاہئے ۔ کچھ قانون کے ماہرین اپنے دفاع کے حق کا استعمال کرنے اور کاونٹر مقدمات کرنے کی صلاح دیتے ہیں ۔ سول سوسائٹی کے ذمہ داران کا کہنا ہے کہ آئین میں یقین رکھنے والے امن پسند حضرات کو آگے آکر نفرت کے طوفان کو روکنا چاہئے ۔ انہیں میں سے کئی صبر کی تلقین کرتے ہوئے بھی دکھائی دیتے ہیں ۔ ان کے مطابق ملک کے مزاج میں تشدد اور نفرت نہیں ہے ۔ بھارت کے لوگ زیادہ دیر تک شدت پسندی کے ساتھ نہیں رہ سکتے ۔ انہیں کچھ ہی دنوں میں اپنی غلطی کا احساس ہو جائے گا ۔ یہ صحیح ہے کہ بھارت کے لوگ عدم تشدد کے حامی ہیں لیکن جذجات کی رو میں بہہ کر بڑے بڑے فسادات کا حصہ بن چکے ہیں ۔ اس لئے ضروری ہے کہ نفرت کے طوفان کو روکنے کی سنجیدہ کوشش کی جائے ۔ طریقہ جو بھی ہو ملک کو اس بیماری سے نجات ملنا چاہئے ۔ کیوں کہ نفرت اور سماجی امتیاز کی بنیاد پر کوئی بھی ملک ترقی نہیں کر سکتا ۔ بھارت کے پاس وہ سب کچھ ہے جو اسے دنیا کا لیڈر بنا سکتا ہے ۔ ضرورت ہے تو بس یہاں کے حکمراں کے قوت ارادی کی ۔

اردودنیانیوز۷۲
ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!
ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے! Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...
-
ٹرین میں ناری شکتی پردرشن Urduduniyanews72 عالمی یوم خواتین سے سبھی واقف ہیں، یہ ہرسال مارچ کی آٹھویں تاریخ کوپوری دنیا میں من...
-
گستاخ نبی کی قرآنی سزا اردودنیانیوز۷۲ مکہ میں سب سے پہلےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنےوالا کوئی اور نہیں بل...
-
یہ بیماری نہیں عذاب الہی ہے ! Urduduniyanews72 سی این این یہ امریکی نشریاتی ادارہ ہے،اس کی ایک رپورٹ جسے ملک کے اکثر اخبارات ...
-
بچیوں کی تربیت: ایک اہم ذمہ داری Urduduniyanews72 1. بچیوں کی تربیت کی اہمیت بچیوں کی تربیت ایک معاشرتی فریضہ ہے۔ ایک اچھی تربی...
-
مدارس اسلامیہ کنونشن میں منظور شدہ تجاویز اردودنیانیوز۷۲ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھن...
-
ملکِ ہند میں اسلامی انگریزی اسکول: وقت کی اہم ضرورت Urduduniyanews72 ہندوستان میں مسلمان قوم کا شمار ملک کی سب سے بڑی اقلیت میں...
-
نئے سال کا آغاز: ایک نیا سفر Urduduniyanews72 نیا سال ایک نیا آغاز، ایک نئی امید اور نئی جدوجہد کا پیغام لے کر آتا ہے۔ یہ دن نہ...
-
پیام انسانیت کے وفد کا سیمانچل دورہ Urduduniyanews72 Urduduniyanews72 @gmail.com ملک میں ایک ایسی تحریک جو خالص انسانی بنیاد پ...
-
سنبھل میں کرفیو کی ایک رات ) * انس مسرورانصاری Urduduniyanews72 رات آئی تو خوف کا عفریت...
-
خنساء اسلامک انگلش اسکول بہیڑہ دربہنگہ، بہار کی دینی و عصری تعلیم اور اصلاحی خدمات۔ Urduduniyanews72 تعارف: خنساء اسلامک انگلش ...