Powered By Blogger

جمعہ, جولائی 29, 2022

تنظیم تحفظ شریعت ویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ و پلاسی کی جانب سے ماہِ محرم الحرام کے حقائق، فضائل اور خرافات و بدعات کے عنوان سے پروگراموں کا سلسلہ جاری ہے.

تنظیم تحفظ شریعت ویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ و پلاسی کی جانب سے ماہِ محرم الحرام کے حقائق، فضائل اور خرافات و بدعات کے عنوان سے پروگراموں کا سلسلہ جاری ہے
(اردو دنیا نیوز ۷۲)
. ان پروگراموں کا مقصد اصلیہ بالکل صاف اور واضح ہے.  عوام الناس کو اس مہینے کے متعلق صاف صاف لفظوں میں حقائق کو بیان کرنا اور بتلانا ہے. چشمہ شریعت کو نچوڑ کر اس کا خلاصہ پیش کرنا ہے. کسی شاعر نے کہا ہے کہ " حقیقت روایات میں کھو گئی، یہ امت خرافات میں کھو گئی. 
آج مدرسہ امدادالعلوم عیدگاہ ہردار بھیلا گنج کا پروگرام اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی.  جلسہ میں علاقائی علماء کے ساتھ ساتھ دور دراز سے علماء کرام تشریف لائے جنہوں نے مسلمانوں کی ایک جم غفیر کو خطاب کیا. پروگرام کے کنوینر جناب مولانا عبدالوارث مظاہری صاحب نے نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تنظیم کی جانب سے ہر سال تقریباً دس سے پندرہ پروگرام خصوصاً ان علاقوں میں کیا جاتا ہے جہاں پر لوگوں میں ناواقفیت اور کم خواندگی ہے. پروگراموں کے تاریخوں کا تعین پہلے ہی کر دیا جاتا ہے اور سوشل میڈیا کے ذریعہ تاریخوں کا اعلان نکال دیا جاتا ہے جس سے لوگوں میں پہلے سے ہی مزاج بنا ہوا ہوتا ہے. اور شوق اور جذبہ کے ساتھ شریک ہر کر  مثبت اثرات کے حامل ہوتے ہیں. ان پروگراموں سے عوام الناس میں محرم الحرام کے مہینے سے قبل ہی ایک حقیقی پیغام پہنچ جاتا ہے جس کے بہترین نتائج ملتے ہیں.  آج کے پروگرام میں خصوصاً
 حضرت مولانا محمد سلمان کوثر صاحب مظاہری دولت پور ، مولانا محمد طاہر صاحب مظاہری دھنپورہ ، مولانا محمد کونین صاحب مظاہری بارا استمبرار ، حافظ محمد عابد راہی ،مفتی محمد اطہر حسین قاسمی صاحب محمد پور  مولانا محمد تنزیل الرحمن ، قاری مظفر صباء  قاری محمد امتیاز ، قاری عبدالقدوس ، مولانا محمد مسری بارااستمبرار قاری محمد ابوذر غفاری مہتمم مدرسہ امداد العلوم عیدگاہ ہردار بھیلا گنج حافظ عبدالسلام ، مولانا محمد عابد صاحب مظاہری ، مولانا محمد منہاج ، اور تنظیم کے اکثر ممبران موجود تھے

سال نوکی آمد -مرحبامفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

سال نوکی آمد -مرحبا
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
(اردو دنیا نیوز ۷۲)
۱۴۴۳ھ گذر ا جا رہا ہے اور ہم ۱۴۴۴ھ میں داخل ہونے والے ہیں، یعنی نئے سال کا سورج ہماری زندگی کے مہہ وسال سے ایک سال اور کم کرنے والا ہے ، ہم موت سے اور قریب ہو گیے ، انسان بھی کتنا نادان ہے وہ بڑھتی عمر کا جشن مناتا ہے، مبارک بادپیش کرتا ہے ، قبول کرتا ہے اور بھول جاتا ہے کہ ہماری عمر جس قدر بڑھتی ہے ، موت اور قبر کی منزل قریب ہوتی رہتی ہے اور بالآخر وقت موعود آجاتا ہے اور آدمی قبر کی آغوش میں جا سوتا ہے۔ جو لوگ صاحب نظر ہیں اور جن کے ذہن میں فکر آخرت رچی بسی ہوئی ہے، وہ گذرے ہوئے سال سے سبق لیتے ہیں ، اعمال کا محاسبہ کرتے ہیں، نئے سال کا استقبال تجدید عہد سے کرتے ہیںکہ آئندہ ہماری زندگی رب مانی گذرے گی ، من مانی ہم نہیں کریں گے ، اس عہد پر قائم رہ کر جو زندگی وہ گذارتے ہیں وہ رب کی خوش نودی کا سبب بنتا ہے اور اس کے نتیجے میں بندہ جنت کا مستحق ہوتا ہے۔
 نئے سال کی آمد پر ہم لوگ نہ محاسبہ کرتے ہیں اور نہ ہی تجدید عہد ، بلکہ ہم میں سے بیش تر کو تو یاد بھی نہیں رہتاکہ کب ہم نئے سال میں داخل ہو گیے، عیسوی کلینڈر سب کو یادہے، بچے بچے کی زبان پر ہے، انگریزی مہینے فرفر یاد ہیں ، چھوٹے چھوٹے بچے سے جب چاہیے سن لیجئے؛ لیکن اسلامی ہجری سال ، جو اسلام کی شوکت کا مظہر ہے، اس کا نہ سال ہمیں یاد رہتا ہے اور نہ مہینے ، عورتوں نے اپنی ضرورتوں کے لئے کچھ یاد رکھا ہے، لیکن اصلی نام انہیں بھی یاد نہیں بھلا ،بڑے پیراور ترتیزی ، شب برأت، خالی، عید ، بقرعید کے ناموں سے محرم صفر ، ربیع الاول ، ربیع الآخر، جمادی الاولیٰ ، جمادی الآخر، رجب ، شعبان، رمضان ، شوال ذیقعدہ اور ذی الحجہ جو اسلامی مہینوں کے اصلی نام ہیں ، ان کو کیا نسبت ہو سکتی ہے ، ہماری نئی نسل اور بڑے بوڑھے کو عام طور پر یا تو یہ نام یاد نہیں ہیں اور اگر ہیں بھی تو ترتیب سے نہیں ، اس لیے ہمیں اسلامی مہینوں کے نام ترتیب سے خود بھی یاد رکھنا چاہیے اور اپنے بچوں کو بھی یاد کرانا چاہیے، یاد رکھنے کی سب سے بہتر شکل یہ ہے کہ اپنے خطوط اور دوسری تحریروں میں اسلامی کلینڈر کا استعمال کیا جائے۔پروگرام اور تقریبات کی تاریخوں میں بھی اس کا استعمال کیا جائے ، کیونکہ بعض اکابر اسے شعار اسلام قرار دیتے ہیں اور شعار کے تحفظ کے لیے اقدام دوسری عبادتوں کی طرح ایک عبادت ہے۔
 ہجری سال کی تعیین سے پہلے، سال کی پہچان کسی بڑے واقعے سے کی جاتی تھی ۔ جیسے قبل مسیح ،عام الفیل ، عام ولادت نبوی وغیرہ، یہ سلسلہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے وقت تک جاری تھا ، حضرت عمر ؓ نے اپنے عہد خلافت میں مٰنمجلس شوریٰ میں یہ معاملہ رکھا کہ مسلمانوں کے پاس اپنا ایک کلینڈر ہونا چاہیے ۔ چنانچہ مشورہ سے یہ بات طے پائی کہ اسلامی کلینڈر کا آغاز ہجرت کے واقعہ سے ہو، چنانچہ سال کا شمار اسی سال سے کیاجانے لگا، البتہ ہجرت کا واقعہ ربیع الاول میں پیش آیا تھا ،لیکن سال کا آغاز محرم الحرام سے کیا گیا ، کیونکہ یہ سال کا پہلا مہینہ زمانہ جاہلیت میں بھی تھا۔اس طرح اسلامی ہجری سال کا آغاز محرم الحرام سے ہوتا ہے۔
 محرم الحرام ان چا ر مہینوں میں سے ایک ہے ، جس کا زمانہ جاہلیت میں بھی احترام کیا جاتا تھا، اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا کہ مہینوں کا شمار اللہ کے نزدیک بارہ ہیں اور یہ اسی دن سے ہیں، جس دن اللہ رب ا لعزت نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا ، ان میں چار مہینے خاص ادب کے ہیں ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چار مہینوں کی تفصیل رجب ، ذیقعدہ ، ذی الحجہ اور محرم بیان کی ہے ، پھر حضرت ابو ذر غفاری ؓ کی ایک روایت کے مطابق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ تمام مہینوں میں افضل ترین اللہ کا وہ مہینہ ہے جس کو تم محرم کہتے ہو ، یہ روایت سنن کبریٰ کی ہے ، مسلم شریف میں ایک حدیث مذکور ہے کہ رمضان کے بعد سب سے افضل روزے ماہ محرم کے ہیں ، اس ماہ کی اللہ کی جانب نسبت اور اسے اشہر حرم میں شامل کرنا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اس مہینے کی فضیلت شہادت حسین کی وجہ سے نہیں ، بلکہ بہت پہلے سے ہے ۔ 
 اسی مہینے کی دس تاریخ کو یوم عاشوراء کہا جاتا ہے ، رمضان المبارک کے روزے کی فرضیت کے قبل اس دن کا روزہ فرض تھا ، بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق قریش بھی زمانۂ جاہلیت میں عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے، خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس روزہ کا اہتمام فرماتے تھے، یہودیوں کے یہاں اس دن کی خاص اہمیت ہے ، کیوں کہ اسی دن بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات ملی تھی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ ہجرت کرکے تشریف لے گیے تو یہودیوں کو یوم عاشوراء کا روزہ رکھتے دیکھا ، معلوم ہوا کہ یہودی فرعون سے نجات کی خوشی میں یہ روزہ رکھتے ہیں ، آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ہم یہودیوں سے زیادہ اس کے حقدار ہیں کہ روزہ رکھیں ، لیکن اس میںیہودیوں کی مشابہت ہے ، اس لیے فرمایا کہ تم عاشورا کا روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو ، اس طرح کہ عاشوراء سے پہلے یا بعد ایک روزہ اور رکھو۔ علامہ عینی کے مطابق اسی دن حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی ،حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ سے اور حضرت یوسف علیہ السلام کنویں سے باہر آئے، حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی اسی دن واپس ہوئی ، حضرت داؤد علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام دنیا میں تشریف لائے، حضرت ایوب علیہ السلام کو مہلک بیماری سے نجات ہوئی، حضرت سلیمان علیہ السلام کو خصوصی حکومت ملی ، اور ہمارے آقا مولیٰ صلی اللہ  علیہ وسلم کو اسی دن ’’ غفر لہ ما تقدم من ذنبہ ‘‘کے ذریعہ مغفرت کا پروانہ عطا کیا گیا ۔ اس طرح دیکھیں تو یہ سارے واقعات مسرت وخوشی کے ہیں اور اس دن کی عظمت وجلالت کو واضح کرتے ہیں،اس لیے اس مہینے کو منحوس سمجھنا ، اوراس ماہ میں شادی بیاہ سے گریز کرنا نا واقفیت کی دلیل ہے اور حدیث میں ہے کہ بد شگونی کوئی چیز نہیں ہے ۔ 
یقینا اس دن حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی اہل خاندان کے ساتھ شہادت تاریخ کا بڑاا لم ناک، کرب ناک اور افسوس ناک واقعہ ہے، جس نے اسلامی تاریخ پر بڑے اثرات ڈالے ہیں، اس کے باوجود ہم اس دن کو بُرا بھلا نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی ماتم کر سکتے ہیں، اس لیے کہ ہمارا عقیدہ ہے حضرت حسین ؓ اور ان کے خانوادے اللہ کی راہ میں شہید ہوئے ، حق کی سر بلندی کے لیے شہید ہوئے اور قرآن کریم میںان حضرات کے بارے میں ارشاد ہے کہ جو اللہ کے راستے میں قتل کردیے گئے انہیں مردہ مت کہو ، بلکہ وہ زندہ ہیں، البتہ تم ان کی زندگی کو سمجھ نہیں سکتے ، قرآن انہیں زندہ قرار دیتا ہے ، اور ظاہر ہے ہمیں تومُردوں پر بھی ماتم کرنے ، گریباں چاک کرنے ، سینہ پیٹنے اور زور زور سے آواز لگا کر رونے سے منع کیا گیاہے، پھر جو زندہ ہیں، ان کے ماتم کی اجازت کس طور دی جا سکتی ہے ۔ ایک شاعر نے کہا ہے   ؎
روئیں وہ، جو قائل ہیں ممات شہداء کے ہم زندۂ جاوید کا ماتم نہیں کرتے
اس دن حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی یاد میں تعزیے نکالے جاتے ہیں، تعزیہ نکالنے کی اجازت تو شیعوں کو چھوڑ کر کسی کے یہاں نہیں ہے ، پھر جس طرح تعزیہ کے ساتھ نعرے لگائے جاتے ہیںیاعلی، یا حسین ؓ یہ تو ان حضرات کے نام کی توہین لگتی ہے ، حضرت علی ، کے نام کے ساتھ کرم اللہ وجہہ اور حضرت حسین کے نام کے ساتھ رضی اللہ عنہ لگانا عظمت صحابہ کا تقاضہ اور داماد رسول اور نواسہ رسول کے احترام کا ایک طریقہ ہے ۔ لیکن جلوس میں اس کی پرواہ کس کو ہوتی ہے ، اس طرح ان حضرات کا نام ٹیڑھا میڑھا کرکے لیتے ہیں کہ ہمارے باپ کا نا م اس طرح بگاڑ کرکوئی لے تو جھگڑا رکھا ہوا ہے ، بے غیرتی اور بے حمیتی کی انتہا یہ ہے کہ اسے کار ثواب سمجھا جا رہا ہے ، دیکھا یہ گیا ہے کہ اس موقع سے جلوس کے ساتھ بعض جگہوں پر رقاصائیں رقص کرتی ہوئی چلتی ہیں، عیش ونشاط اور بزم طرب ومسرت کے سارے سامان کے ساتھ حضرت حسین کی شہادت کا غم منایا جاتا ہے، اس موقع سے شریعت کے اصول واحکام کی جتنی دھجیاں اڑائی جا سکتی ہیں، سب کی موجودگی غیروں کے مذاق اڑانے کا سبب بنتی ہے ، اور ہمیں اس کا ذرا بھی احساس وادراک نہیں ہوتا ۔
جلوس کے معاملہ میں ہمیں ایک دوسرے طریقہ سے بھی غور کرنے کی ضرورت ہے ، تاریخ کے دریچوں سے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ حضرت حسین رضی اللہ علیہ کی شہادت کے بعد اس خانوادہ میں بیمار حضرت زین العابدین اور خواتین کے علاوہ کوئی نہیں بچا تھا ،یہ ایک لٹا ہوا قافلہ تھا ، جس پریزیدی افواج نے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے تھے، ان کے پاس جلوس نکالنے کے لیے کچھ بھی نہیںبچا تھا، تیر ،بھالے ، نیزے اورعَلم تو یزیدی افواج کے پاس تھے، حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا سر نیزے پر تھا اوریزیدی بزعم خود اپنی فتح وکامرانی کاجلوس لیکر یزیدکے دربار کی طرف روانہ ہوئے تھے، ہمارے یہاںجلوس میں جو کروفراور شان وشوکت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے ، یہ کس کی نقل کی جا رہی ہے؟ ذرا سوچئے کھلے ذہن سے سوچیے تو معلوم ہوگا کہ ہم کسی اور کی نقل کر رہے ہیں، حسینی قافلہ کی تو اس دن یہ شان تھی ہی نہیں، اس لیے مسلمانوں کو ایسی کسی بھی حرکت سے پر ہیز کرنا چاہیے ، ایسے جلوس میں نہ خود شامل ہوں اور نہ اپنے بچوںکو اس میں جانے کی اجازت دیں۔

جمعرات, جولائی 28, 2022

اردو زبان کے فروغ اور بقا کیلئے بچوں کو اردو تعلیم دلانا ضروری: احمد محمود

اردو زبان کے فروغ اور بقا کیلئے بچوں کو اردو تعلیم دلانا ضروری: احمد محمود


۔ اردو ڈائریکٹوریٹ کے زیر اہتمام شین مظفر پوری اور سہیل عظیم آبادی یاد گاری تقریبات کا انعقاد

پٹنہ، 28 جولائی(اردو دینا نیوز ۷۲)۔ شین مظفر پوری قومی سطح کے مشہور اور مقبول افسانہ نگار، بہترین ناول نگاراوربلند پائے کے صحافی تھے۔ انہوں نے بہت کم مدت میں ہی بڑی شہرت اور عزت حاصل کر لی۔ شین مظفر پوری میں بے پناہ تخلیقی صلاحیت تھی۔ وہ زود نویس تھے۔ کثرت سے مضامین اور افسانے لکھے۔ وہ با صلاحیت صحافی تھے۔ ایسے عظیم المرتبت بلند پایہ شخصیت کی پوری زندگی مختلف قسم کی پریشانیوں اور معاشی الجھنوں میں گزری ۔انہوں نے زندگی کے بہت سارے کرب کو جھیلا۔ نہایت عسرت و تنگی میں اپنی زندگی بسر کی۔ ان خیالات کا اظہار محکمہ کابینہ سکریٹریٹ، اردو ڈائریکٹوریٹ کے زیر اہتمام ابھیلیکھ بھون، بیلی روڈ میں منعقد ''شین مظفرپوری اور سہیل عظیم آبادی یادگاری تقریبات'' میں دانشوارانِ علم و ادب نے اپنے مقالے میں کیا۔

تقریب کی صدارت سابق صدر لینگویجز ایس سی آر ٹی بہار و عالمی شہرت یافتہ تخلیق کار ڈاکٹر قاسم خورشید نے کی۔ اپنے صدارتی خطاب میں انہوں نے نہایت موثر ڈھنگ سے تفصیلی اظہار خیال کے دوران زور دیا کہ شین مظفر پور ی ایک نابغہ عصر فکشن نگار تھے انہوں نے زندگی کے طویل سفر کو اپنی تحریروں کا مسکن بنایا ۔ انہوں نے آزادی سے پہلے تقسیم کے درد کو، ترقّی پسندی کے عروج کو، اور آزادی کے بعد ہونے والی تبدیلیوں کو بہت شدّت سے محسوس کیا اور اسے خوبصورتی سے اپنے فکشن کا موضوع بنایا ۔ ڈاکٹر خورشید نے اس سیشن میں پیش کردہ مقالے پر بھی مدلل تبصرہ کیا اور ڈاکٹر ابوبکر رضوی ڈاکٹر علاءالدین خان اور حذیفہ شکیل کو خصوصی مبارک باد پیش کی۔

پروگرام کا آغاز شمع افروزی کے ذریعہ ہوا۔ استقبالیہ و تعارفی کلمات پیش کرتے ہوئے اردو ڈائرکٹوریٹ کے ڈائرکٹر احمد محمود نے کہا کہ آج ہم لوگ دو عظیم شخصیتوں کی یاد گاری تقریبات کا انعقاد کرکے انہیں خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں۔ اردو ڈائریکٹوریٹ کے زیر اہتمام سال بھر میں 22 عظیم شخصیات پر یاد گاری تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ اسی سلسلے کی کڑی کے طور پر آج ہم لوگ دو عظیم افسانہ نگار شین مظفر پوری اورسہیل عظیم آبادی کو یاد کر رہے ہیں۔

احمد محمود نے کہا کہ یہ دونوں عظیم شخصیتیں ایسی ہیں جنہوں نے قومی و بین الاقوامی سطح پر اپنی نمایاں شناخت قائم کیں اور بہار کا نام روشن کیا۔ انہوں نے کہا کہ شین مظفر پوری نے جہاں مالی تنگی اور عسرت بھری زندگی کے باوجود لوگوں میں اپنی خاص پہچان بنائی اوراپنےافسانے اور ناول کے ذریعہ اردو زبان و ادب کو فروغ دینے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ نیز انہوں نے یہ ثابت کیا کہ ضروری نہیں کہ انسان باضابطہ تعلیم حاصل کرکے یا اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد ہی زبان و ادب کا کوئی بڑا کام کر سکتا ہے یا پھر وہی لوگ زبان وادب کی خدمت کر سکتے ہیں جنہوں نے بڑی بڑی ڈگریاں حاصل کی ہوں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ شین مظفر پوری کے افسانے اور ناول نیز ان کی صحافتی خدمات اس بات کی تردید کرتی ہیں۔ جناب احمد محمود نے سہیل عظیم آبادی کے حوالے سے بھی مختصر مگر جامع باتیں کہیں ۔ انہوں نے کہا کہ سہیل عظیم آبادی کا شمار ہندستان کے بڑے افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے عالمی سطح پرخود کو متعارف کرایا۔ ان کے افسانوں کا ترجمہ کئی یوروپی ممالک میں بھی کیا گیا جو مقبول عام وخاص رہاہے۔

ڈائرکٹر موصوف نے اردو ڈائرکٹوریٹ کی ایک اہم اور خاص کاکرکردگی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اردو ڈائرکٹوریٹ کا آن لائن اردو لرننگ پروگرام کافی سود مند اور افادہ بخش ثابت ہو رہا ہے۔ ابھی آن لائن کا چوتھا بیچ مکمل ہوا ہے ۔جلد ہی تقسیم اسناد تقریب کا انعقاد کرکے ہم انہیںاسناد اور اعزاز سے نوازیں گے۔ پھر فوراً بعد نئے بیچ میں داخلہ کی کارروائی شروع ہوگی۔

اس مشترکہ یاد گاری تقریب میںڈاکٹر ابو بکر رضوی، صدر شعبہ اردو،ٹی پی ایس کالج، پٹنہ،ڈاکٹر علاء الدین خان، اسسٹنٹ پروفیسر ، جے پی یونیورسٹی، چھپرہ، حذیفہ شکیل، معروف ناقد و ادیب، پٹنہ نے اپنے بیش قیمتی مقالے میںشین مظفر پوری کے شخصیت اور خدمات کے مختلف پہلوئوں پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ تقریب کے دوسرے سیشن میں سہیل عظیم آبادی یاد گاری تقریب کا انعقاد ہوا۔

تقریب کی صدارت پروفیسر فاروق احمد صدیقی ، سابق صدر شعبہ اردو بی آر اے بہار یونیورسٹی ، مظفر پور نےفرمائی۔ پروفیسر فاروق صدیقی نے اپنے صدارتی خطاب میں سب سے پہلے سبھی مقالہ خواں ڈاکٹر ہمایوں اشرف، صدر شعبہ اردو ، ونوبا بھاوے یونیورسٹی ہزاری باغ، ڈاکٹر صفدر امام قادری ، سابق صدر شعبہ اردو ،کالج آف کامرس ، آرٹس اینڈ سائنس ، پٹنہ اور ڈاکٹر جلال اصغر فریدی ، معروف ادیب و ناقد ، مظفر پور کے مقالے پر تجزیہ و تبصرہ پیش کیا ۔ انہوں نے سہیل عظیم آبادی کی شخصیت اورکارنامے پر بھی مختصر مگر جامع روشنی ڈالی۔ تقریب کی نظامت حسیب الرحمن انصاری نے بحسن و خوبی انجام دیا۔ ڈائرکٹر احمد محمود کے تشکراتی کلمات سے تقریب کا اختتام ہوا۔

بیگوسرائے : قرض کی ادائیگی کے دباؤ سے پریشان طالبہ نے کی خودکشی

بیگوسرائے : قرض کی ادائیگی کے دباؤ سے پریشان طالبہ نے کی خودکشی
بیگوسرائے ، 28 جولائی (اردو دنیا نیوز ۷۲)۔ بیگوسرائے میں والد کی بیماری اور مالی تنگی سے پریشان ایک طالبہ نے پھانسی لگا کر خود کشی کر لیا۔ واقعہ نیما چاند پورہ تھانہ علاقہ کے چاند پورہ گاؤں کا ہے ، متوفی طالبہ چاند پورہ گاؤں رہائشی گنیش مہتو کی بیٹی کاجل کماری ہے

واقعہ کے بارے میں گاؤں والوں نے بتایا کہ کاجل کماری کے والد گنیش مہتو لیور ٹیومر میں مبتلا ہیں اور اپنی بیوی کے ساتھ علاج کے لیے بریلی گئے ہوئے ہیں۔ یہاں کاجل کماری گاؤں میں اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ رہ کر گریجویشن پارٹ ون اورپارا میڈیکل کی تیاری کر رہی تھی۔ علاج اوراہل خانہ کی گزر بسر کے لئے والدین نے خود ایس ایچ جی سے قرض لیا تھا۔ لیکن بیماری کی وجہ سے سیلف ہیلپ گروپ میں بروقت قسط جمع نہیں کرا سکے تھے اور کئی قسط ڈیوز میں چل رہا تھا۔

قرض کی واپسی کے لیے دباؤ ڈالنے پر اس نے گھر میں رکھا اناج بیچ کر کچھ رقم ادا کی تھی۔ لیکن کاجل پر فینانس کمپنی کی طرف سے قرض کی قسط سمیت پوری رقم جمع کرانے کے لیے مسلسل دباؤ تھا۔ لیکن والدین کے علاج میں مصروف ہونے کی وجہ سے کاجل قرض ادا کرنے سے قاصر تھی اورعلاج کے لیے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے والد بھی بریلی میں علاج کروانے سے قاصرہیں۔ گھر میں کھانے کا بھی مسئلہ تھا۔ اسی دباؤ میں آکر کاجل نے دیررات اپنے گھر میں پھانسی لگا کر خودکشی کرلی۔

سوئے بھائی نے جب بہن کو پھندے میں لٹکتے دیکھ کر شورمچایا تو لوگوں کا ہجوم اکھٹا ہوگیا۔ واقعہ کی اطلاع ملتے ہی پولیس نے لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے صدراسپتال بیگوسرائے بھیج دیا اور سنجیدگی سے تحقیقات شروع کردی۔ گاؤں والوں نے بتایا کہ کاجل کے بھائیوں میں سے ایک کی موت گزشتہ سال 27 جولائی کوتالاب میں ڈوبنے سے ہوئی تھی۔ اس کے بعد بھائی کی موت کے ٹھیک ایک سال مکمل ہونے کی رات اس نے اپنے گھرمیں پھانسی لگا کر خودکشی کرلی۔

گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ کاجل پڑھائی میں بہت تیزتھی اور اس نے میٹرک اورانٹر فرسٹ ڈویزن سے پاس کیا تھا۔ وہ کچھ بننا چاہتی تھی لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا، پڑھائی میں بہت ذہین لڑکی کے بے وقت انتقال سے گاؤں میں غم کی لہر دوڑ گئی۔ واقعہ کی اطلاع متوفی کے والدین کو دے دی گئی ہے۔

اب 10 ہزار روپے سے زیادہ کی نقد رقم نکالنے پر او ٹی پی نمبر درج کرنا لازمی _ ایس بی آئی کے نئے رولس

اب 10 ہزار روپے سے زیادہ کی نقد رقم نکالنے پر او ٹی پی نمبر درج کرنا لازمی _ ایس بی آئی کے نئے رولس
حیدرآباد_ 28 جولائی ( اردودنیانیوز۷۲) اسٹیٹ بینک آف انڈیا (SBI) اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کر رہا ہے کہ صارفین دھوکہ دہی کا صارفین شکار نہ ہوں۔ اس سلسلہ میں ایس بی آئی نے کہا ہے کہ اے ٹی ایم سے 10 ہزار روپے سے زیادہ کی نقد رقم نکالنے کے لیے، صارفین کو 'بینک میں رجسٹرڈ موبائل نمبر' پر بھیجے گئے او ٹی پی کو داخل کرنا ہوگا۔اب تک یہ رات 10 بجے کے بعد ضروری تھا لیکن اب 24 گھنٹے رہے گا ۔اگر صارف کا موبائل فون نمبر صحیح طریقے سے رجسٹرڈ نہیں ہے تو اے ٹی ایم سے کیش نہیں نکالا جا سکے ۔ گا۔ ایک OTP کے ذریعے ایک ہی لین دین کیا جا 
سکتا ہے۔
ایس بی آئی نے صارفین کے لئے ایک خوشخبری بھی دی ہے اگر کسی صارف کے بینک اکاؤنٹ میں ایک لاکھ روپے سے زیادہ ہیں تو ایسی صورت میں اے ٹی ایم سے کئی مرتبہ نقد رقم نکال سکتا ہے اس کے لئے کوئی چارج ادا کرنے نہیں ہوں گے۔ اگر رقم ایک لاکھ سے کم ہے تو صرف 5 مفت لین دین کی اجازت ہے۔ دوسرے بینکوں کے اے ٹی ایم سے صرف 3 بار مفت رقم نکالنے کی اجازت ہے۔ اس سے آگے، ہر ٹرانزیکشن پر چارج لگے گا

مسلمانوں کے امت ہونے کا مطلب

مسلمانوں کے امت ہونے کا مطلب- 

 مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
(اُردو دنیا نیوز ۷۳)
آر ایس ایس کے ایک اہم قائد جناب رام مادھو نے مسلمانوں کو ہندو مسلم تعلقات بہتر بنانے کے لئے تین نکاتی فارمولہ پیش کیاہے، جس میں دوسرا نکتہ یہ ہے کہ مسلمان خود کو امت اسلام اور امت مسلمہ سمجھنا چھوڑ دیں انھوں نے شاید ایسا اس لئے کہا ہو کہ امت کا تصور ہندوستان کے مسلمانوں کو پوری دنیا کے مسلمانوں سے جوڑ دیتا ہے، اس رابطہ کو کمزور کرنے یا منقطع کرنے کے لئے بعض سنگھ کارکنوں کی طرف سے یہ بھی تجویز پیش کی جاتی رہی ہے کہ بھارت میں ہی مکہ مکرمہ یا کعبہ کا ماڈل تیار کر دیا جائے؛ تاکہ مسلمان اپنے دیش میں ہی رہتے ہوئے حج کر لیں؛ کیوں کہ مکہ مکرمہ جا کر فریضۂ حج ادا کرنے سے امت کے آفاقی تصور کو تقویت پہنچتی ہے، یا ایسا ہو کہ وہ حج ادا کرنے کی بجائے اجمیر شریف جاکر زیارت کر لیں اور بس، مسلمانوں سے یہ مطالبہ ایسا ہی ہے جیسے حیدرآباد میں رہنے والے ہندو بھائیوں سے کوئی گروہ مطالبہ کرے کہ وہ امرناتھ یاترا کے لئے کشمیر جانے کے بجائے اسی شہر میں کسی بڑے اور خوبصورت مندر کی یاترا کر لیں؛ تاکہ ان کے پیسے بچیں اور مقامی تاجروں کو بھی فائدہ پہنچے، ظاہر ہے کہ یہ ایک نامعقول بات ہوگی، انسان کے عقیدہ اور یقین کے مطابق جو عمل جس جگہ سے متعلق ہو جب تک وہ اُس عمل کو اُس جگہ انجام نہ دے، نہ اس کا وہ عمل پورا ہوگا اور نہ اس کو تشفی ہوگی؛ اس لئے مسلمانوں کے بارے میں یہ خیال کرنا کہ ہندوستان میں بنائے گئے، مصنوعی کعبہ کا حج یا کسی بزرگ کے مزار کی زیارت ان کے جذبۂ عبادت کو پورا کر دے گی، ایک مذاق تو ہو سکتا ہے؛ مگر یہ بات کبھی حقیقت نہیں بن سکتی۔
اصل میں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ امت کے لفظ کی حقیقت کیا ہے؟ کیا صرف مسلمان ہی امت ہیں یا دوسرے مذہبی گروہ بھی اپنے اپنے افکار کے ساتھ امت ہیں؟ امت ہونے یا بننے کا مقصد کیا ہے؟ کیا مسلمانوں کا ایک امت ہونا دوسرے مذہبی گروہوں سے مزاحمت کے لئے ہیَ اور اس کا مقصد دوسرے گروہوں کو نشانہ بنانا اور ان کو تکلیف پہنچانا ہے؟ اس سلسلے میں چند نکات کو پیش نظر رکھنا چاہئے:

۱۔ امت عربی زبان میں ایک طرح کے افراد کے مجموعہ کو کہتے ہیں، جن میں کوئی مشترک بنیاد ہو، خواہ یہ مشترک بنیاد دین کی ہو یا زمانہ یا وقت کی، یا مقام وعلاقہ کی: الأمۃ جمع لھم جامع من دین أو زمان أو مکان أو غیر ذالک (کشاف اصطلاحات الفنون: ۱؍ ۲۶۲)
اسی مناسبت سے جس قوم میں کسی نبی کو بھیجا گیا ہو وہ قوم اس نبی کی امت کہلاتی ہے، چاہے وہ اس پر ایمان لائی ہو یا نہیں، جو ایمان لا چکے ہیں ان کو’’ امت اجابت ‘‘کہا جاتا ے اور جو ایمان نہیں لائے ان کو امت دعوت (شرح مشکوٰۃ للطیبی: ۲؍ ۴۴۸) اجابت کے معنیٰ قبول کرنے کے ہیں؛ لہٰذا امت اجابت  کے معنیٰ اس گروہ کے ہیں، جس نے نبی کی دعوت کو قبول کر لی ہو، اور جس نے اس دعوت کو قبول نہیں کیا، ان کو ’’امت دعوت‘‘ کہا جاتا ہے، یعنی ابھی ان پر مزید دعوت حق پیش کرنے کی ضرورت ہے؛ اسی لئے اہل لغت نے صراحت کی ہے کہ پیغمبر کو جن لوگوں کی طرف بھیجا گیا، وہ سب امت میں شامل ہیں: الأمۃ جماعۃ أرسل الیھم رسول سواء آمنوا أو کفروا (تاج العروس: ۳۱؍ ۲۲۹) ایک مشترک خصوصیت کے حامل گروہ کو اُمت کہنے کے معاملہ میں لغت کے اعتبار سے اس قدر وسعت ہے کہ انسان ہی نہیں دوسری مخلوقات کے گروہ کو بھی امت کہا گیا ہے، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: زمین میں جتنے چلنے والے جانور اور اپنے پروں کے ذریعہ اڑنے والے پرندے ہیں، یہ سبھی تمہاری طرح امتیں ہیں: وما من دابۃ فی الأرض ولا طائر یطیر بجناحیہ إلا أمم أمثالکم (انعام: ۳۸)
۲۔ امت کے مفہوم کی اس وسعت کو دیکھئے تو صرف مسلمان ہی امت نہیں ہیں؛ بلکہ ہر مذہبی گروہ ایک امت ہے، چاہے وہ ہندو ہوں یا عیسائی یا یہودی؛ چنانچہ قرآن مجید کہتا ہے کہ ہر ’’امت ‘‘ میں اللہ تعالیٰ نے ڈرانے والا اور حق کی تعلیم دینے والا بھیجا ہے :  وإن من أمۃ إلا خلا فیھا نذیر (فاطر: ۲۴)اسی لئے قرآن مجید نے غیر مسلم گروہوں کو بھی امت کے لفظ سے تعبیر کیا ہے اور اہل مکہ سے فرمایا ہے کہ ’’ اگر تم نے پیغمبر برحق کو جھٹلا دیا تو کچھ عجیب نہیں؛ کیوں کہ تم سے پہلے کی امتوں نے بھی اپنے زمانے کے رسولوں کو جھٹلایا تھا‘‘ وان تکذبوا فقد کذب امم من قبلکم (عنکبوت: ۱۸)----- اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ امت ہونے میں یا اپنے آپ کو امت کہنے میں نہ اپنی بڑائی کا اظہار ہے اور نہ دوسرے کی تحقیر ہے۔

۳۔ کسی گروہ کے لئے جیسے دوسری باتیں مشترک بنیاد ہو سکتی ہیں، اس طرح دین ومذہب بھی ہو سکتا ہے، اسی مناسبت سے ایک دین پر قائم رہنے والے لوگوں کو بھی ایک امت کہا جاتا ہے، عربی لغت وگرامر کے ایک بڑے ماہر زجاج نے’’ کان الناس أمۃ واحدۃ‘‘ (بقرہ: ۲۱۳) ’’ لوگ ایک ہی امت تھے‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ تمام لوگ ایک ہی دین پر تھے‘‘ کانوا علیٰ دین واحد (تاج العروس: ۳۱؍ ۲۲۹) اس لئے مذہبی رشتہ سے پوری دنیا کے مسلمان ایک امت ہیں، جس کی دعاء حضرت ابراہم علیہ السلام نے کی تھی: ’’ ہماری نسل میں ایک مسلمان امت پیدا فرما ‘‘ ومن ذریتنا أمۃ مسلمۃ لک ( بقرہ: ۱۲۹) جیسے امت کا لفظ اجتماعیت کو ظاہر کرتا ہے ایسے ہی ایک لفظ قوم کا ہے، یہ بھی افراد کے ایک مجموعہ کو کہتے ہیں، امت کا لفظ عموماََ ایک فکر کے لوگوں پر بولا جاتا  ہے اور قوم کا لفظ عموماََ ایک علاقہ اور ملک کے لوگوں پر ؛ اسی لئے انبیاء علیہم السلام نے اپنے مخاطب کو ’’ قومی ‘‘ کے لفظ سے خطاب کیا؛ حالاں کہ دینی اعتبار سے اُن کے اور اُن کی قوم کے درمیان اتحاد نہیں تھا؛ بلکہ قوم ان کی دعوت کی سخت مخالف تھی، پس مسلمانوں کا ایک تعلق اپنے ہم مذہب لوگوں سے ہے، اور اس اعتبار سے وہ ایک ’’امت ‘‘ ہیں، اور دوسرا تعلق اپنے ہم وطنوں سے ہے، اور اس رشتہ کے اعتبار سے وہ ایک قوم ہیں؛ اس لئے ہندوستان میں بسنے والے جتنے بھی مذہبی گروہ ہیں، ہندوستانی مسلمان ان کو اپنی قوم کا حصہ سمجھتے ہیں، اسی جذبہ کے تحت مسلمان ملک کے دفاع، اس کی ترقی اور اس کی آزادی میں برادران وطن کے شانہ بشانہ بلکہ بعض اوقات دوسروں سے آگے بڑھ کر مادر وطن کی خدمت کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔
۴۔ موجودہ دنیا ایک گلوبل دنیا ہے، جس نے پوری دنیا کو ایک گاؤں میں تبدیل کر دیا ہے، ہر ملک کا مفاد دوسرے ملک سے متعلق ہے، بسا اوقات بڑے بڑے اور طاقتور ممالک بعض مفادات میں بہت چھوٹے ممالک کے محتاج ہوتے ہیں، اور وہ ان کی تائید چاہتے ہیں؛ اس لئے اگر ہندوستانی مسلمانوں کا تعلق عالم اسلام کے اور دوسرے ملکوں میں بسنے والے مسلمانوں سے استوار ہو اور اس کا استعمال ملک کے خلاف نہ ہو تو یہ ہمارے ملک کے لئے مفید ہے نہ کہ نقصان دہ، اس وقت ہندوستان کو مسلمان ممالک کی جو تائید حاصل ہے یہاں تک کہ بہت سی دفعہ وہ پڑوس کے مسلم اکثریت ملکوں کے مقابلہ ہندوستان کو ترجیح دیتے ہیں، تجارت میں، افرادی وسائل کو مشغول کرنے میں، سرمایہ کاری میں اور بین الاقوامی مسائل میں ہندوستان کے موقف کی تائید کرنے میں، اس میں یقینی طور پر اس بات کا بھی حصہ ہے کہ انڈونیشیا کے بعد سب سے زیادہ مسلمان بھارت میں بستے ہیں، پس امت کے اس تصور سے ہمارے ملک کو فائدہ پہنچتا ہے نہ کہ نقصان۔
۵۔ پھر کیا صرف اس ملک کے مسلمانوں ہی کا دوسرے ملکوں میں بسنے والے اپنے مذہبوں سے رابطہ ہے؟ کیا دوسرے مذہبی گروہوں کا نہیں ہے؟ ہندو مذہب پر یقین رکھنے والے تارکین وطن پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں، اور وہ وہاں ہندوستان میں بسنے والے ہم مذہب لوگوں سے خصوصی تعلق رکھتے ہیں، اپنے ملک میں رہتے ہوئے رام مندر پر چندہ کرتے ہیں، آر ایس ایس کی نفرت انگیز تحریک کا تعاون کرتے ہیں، اس کی بنیاد اتحاد مذہب کے سوا اور کیا ہے؟ پوری دنیا کے ہندوؤں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کے لئے سنگھ پریوار نے وشو ہندو پریشد قائم کی ہے، یہی ہے امت کا وہ تصور جس کو لے کر مسلمانوں کو بدنام کیا جاتا ہے۔

۶۔ کسی بھی اجتماعیت کے بارے میں نفع بخش یا نقصان دہ ہونے کا فیصلہ اس کے مقاصد سے کیا جاتا ہے، اگر لوگ اپنی ایک وحدت اس سوچ کے ساتھ قائم کریں کہ وہ دوسروں کو نیچا دکھائیں گے ، ان کو نقصان پہنچائیں گے، ان کو بے وطن کریں گے، سماج میں نفرت پھیلائیں گے اور تفریق کی فضاء بنائیں گے تو ظاہر ہے کہ ایسی اجتماعیت انسانیت کے لئے تباہ کن، ملک وقوم کے لئے مہلک ونقصان دہ اور ناقابل قبول ہے، چاہے یہ مسلمانوں کی طرف سے ہو یا کسی اور مذہبی گروہ کی طرف سے۔
ایک امت کی حیثیت سے مسلمانوں کی جو ذمہ داریاں اور مقاصد ہیں، قرآن مجید نے ان کو بہت واضح الفاظ میں بیان کیا ہے:
کنتم خیر أمۃ أخرجت للناس تأمرون بالمعروف وتنھون عن المنکر وتؤمنون باللہ (آل عمران: ۱۱)
ترجمہ: تم بہترین امت ہو، جس کو انسانیت کے لئے پیدا کیا گیا ہے؛ تاکہ تم لوگوں کو اچھی باتوں کا حکم دو ، بری باتوں سے منع کرو اور اللہ پر ایمان رکھا کرو۔
اسی بات کو قرآن مجید نے ایک دوسری جگہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو ’’ میانہ رَو اُمت ‘‘ بنایا ہے، جو لوگوں کے سامنے حق کی گواہی دیتے ہیں (بقرہ: ۱۴۳) گواہی دینے سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جن باتوں کا حکم دیا ہے، ان کی دعوت دیتے ہیں، اور جن باتوں سے منع فرمایا ہے، ان سے روکتے ہیں، غرض کہ اس امت کی اجتماعیت ،وحدت اور باہمی ارتباط کا مقصد نہ کسی گروہ کی مخالفت ہے نہ نفرت کا پھیلانا؛ بلکہ اس کا مقصد دنیا میں اچھی باتوں کو فروغ دینا، سماج کو خیروفلاح کی طرف لانا، ظلم وزیادتی اور برائیوں کو روکنا ہے، تو ظاہر ہے کہ ایسی امت ملک کے لئے فائدہ مند ہی ہوگی، پھر قرآن مجید نے یہ بھی صاف صاف کہہ دیا کہ دوسری قوموں کے جو عقائد وافکار اور رسوم وروایات ہیں اور زندگی گزارنے کا جو طور وطریقہ ہے ، چاہے مسلمانوں کو اس سے اتفاق نہ ہو؛ لیکن اس کو دنیا میں فساد وانتشار کا سبب نہ بنایا جائے، یہ اختلاف جو ہمیں نظر آتا ہے، یہ بھی اللہ تعالیٰ کی مشیت کا حصہ ہے، اگر اللہ تعالیٰ کو اس دنیا میں ادیان ومذاہب کا اختلاف منظور نہ ہوتا تو سارے کے سارے لوگ ایک ہی مذہب کے حامل ہوتے؛ لیکن اللہ تعالیٰ کے یہاں یہ بات مقدر ہے کہ اس دنیا میں اختلاف مذہب قائم رہے گا: ولو شاء ربک لجعل الناس أمۃ واحدۃ ولا یزالون مختلفین (ہود: ۱۱۸)؛ اس لئے مسلمانوں کو اس بات سے منع کیا گیا کہ دوسری قومیں جن دیویوں دیوتاؤں کی پوجا کرتی ہیں، ان کو برا بھلا کہا جائے : ولا تسبوا الذین یدعون من دون اللہ فیسبوااللہ عدوا بغیر علم (انعام: ۱۰۸) اگر اسلام نے امت محمدیہ کا مقصد دوسروں سے لڑنا، ا ن سے جنگ کرنا اور زبردستی ان کا مذہب تبدیل کرانے کی کوشش کرنا قرار دیا ہوتا تو یقیناََ مسلمان بحیثیت امت قابل نفرت ہوتے؛ لیکن اسلام نے ایسی کوئی بات نہیں کہی ہے؛ بلکہ امت کو بہتر مقاصد کے لئے برپا کیا گیا ہے؛ اس لئے اس سے نہ وطن عزیز کا کوئی نقصان ہے نہ برادران وطن کا اور نہ انسانیت کا۔ !!!


ماشاءاللہ تحفظ شریعت و ویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ و پلاسی ارریہ کا محرم الحرام حقائق، فضائل اور خرافات و بدعات کے عنوان پر سلسلہ وار پروگرام

ماشاءاللہ تحفظ شریعت و ویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ و پلاسی ارریہ کا
(اردو دنیا نیوز۷۲)
 محرم الحرام حقائق، فضائل اور خرافات و بدعات کے عنوان پر سلسلہ وار  پروگرام  مورخہ 27/ جولائی 2022  مقام جامع مسجد دھنپورہ، ماشاءاللہ بہت کامیاب رہا پروگرام کی صدارت حضرت مولانا و مفتی محمد ارشد صاحب مظاہری استاذ حدیث دارلعلوم شیخ زکریا دیوبند  نے کی مقرر خصوصی مولانا محمد نعمان صاحب قاسمی خطیب جامع مسجد جوکی ہاٹ نے محرم الحرام میں ڈھول ناچ اور مرسیہ کے متعلق لوگوں کو تفصیل سے بیان فرمایا اور بتایا کہ محرم الحرام کے مہینے میں صرف دو کام کرنے کے ہے نمبر ایک یوم عاشورہ کا روزہ دوسرا عاشورہ کے دن کھانے میں استطاعت ہونے پر وسیع کرنا، مفتی محمد سعود صاحب دلمال پور  نے بھی تنظیم کی تعریف کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنے کی گزارش کی مولانا مجیب الرحمٰن صاحب نے بھی محرم الحرام کے متعلق بیان فرمایا ،اور مفتی محمد اطہر حسین قاسمی نے تنظیم تحفظ شریعت کی تعریف اور دارالافتاء و دارالقضاء کے بارے میں بتایا،اور مولانا محمد طاہر دھنپورہ مقیم شولا پور نے بھی حضرت حسن وحسین کی سیرت مبارکہ بیان فرمایا، اور اس پروگرام میں تحفظ شریعت کے اکثر علماءکرام موجود رہے عبدالوارث مظاہری سکریٹری تحفظ شریعت، قاری عبدالقدوس، مولانا تنزیل الرحمن قاری مظفر صبا، مولانا محمد منہاج، مولانا محمد امتیاز مظاہری ،وغیرہ موجود رہے اور مفتی محمد ارشد صاحب مظاہری نے سبھی لوگوں کا شکریہ ادا کیا،  آخیر میں مولانا محمد کونین صاحب مظاہری  کی دعاء پر مجلس اختتام ہوئی

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...