Powered By Blogger

پیر, مارچ 06, 2023

گزشتہ چھبیس فروری 2023 کو دن کے گیارہ بجے گورنمنٹ آئیڈیل مڈل اسکول بھیروکھڑا پاتے پور ویشالی ،بہار ،

*اجالا میٹھی یادوں کا* 
==============================
                      ✍🏼 مظہرؔوسطوی  
Urduduniyanews72
  گزشتہ چھبیس فروری 2023 کو دن کے گیارہ بجے گورنمنٹ آئیڈیل مڈل اسکول بھیروکھڑا پاتے پور ویشالی ،بہار ، کے وسیع احاطے میں تنظیم ارباب ادب چاند پور فتح ویشالی کے زیر اہتمام ایک ساتھ تین کتابوں کا اجرا پروفیسر فاروق احمد صدیقی( صدر محترم ) ،ڈاکٹر عطاء عابدی (مہمان خصوصی) اور مہمان اعزازی جناب انوارالحسن وسطوی، جناب سید محمد مصباح الدین احمد، شری راما نند سنگھ ، انجینئر رام نریش شرما ، شری جوالہ ساندھ پشپ ، ڈاکٹر اویناش امن اور ڈاکٹر عارف حسن وسطوی(ناظم )کے ہاتھوں کیا گیا۔ ان میں ڈاکٹربدر محمدی کی کتاب "بنت فنون کا رشتہ مع تبصرہ وتجزیہ" ڈاکٹر رام نریش بھکت کی کتاب "بجیکا گیتوں میں جن چیتنا" ، کہنہ مشق و قادر الکلام شاعر منظور عادل کی کتاب " جسے بھول گئے" قابل ذکر ہیں - ان تینوں کتابوں کے مصنفین ایک ہی بستی کے ہیں اور ان تینوں تصانیف کا تعلق شاعری سے ہے ۔ کوئی خالص تخلیقی ادب کا نمونہ ہے تو کوئی شاعری اور شاعری پر تنقید کا مجموعہ اور کوئی بجیکا شاعری پر تحقیق کا گلدستہ۔ تقریب رونمائی کے شرکاء نے ان تینوں کتابوں پر سیر حاصل بحث کی اور تینوں کے امتیازات واضح کئے ۔ نئی کتابوں کی رسم رونمائی اور ان پر گفتگو کے بعد دوسرے سیشن میں ایک عظیم الشان مشاعرہ و کوی سمیلن کا انعقاد عمل میں آیا ـ مشاعرہ کی صدارت بھی پروفیسر فاروق احمد صدیقی( سابق صدر شعبہ اردو بہار یونیورسٹی مظفر پور) نے فرمائی ۔ جناب صدر کے علاوہ جن شعرا نے اردو ہندی اور بجیکا کے اس مشاعرے میں شرکت کی ان کے اسمائے گرامی ہیں ۔ ڈاکٹر عطا عابدی ، جناب اسد رضوی، جناب علی احمد منظر ، جناب اکرام آزر ، جناب مشتاق دربھنگوی ،جناب منظور عادل، جناب کاظم رضا، ڈاکٹر بسمل عارفی، جناب ایم آر چشتی، جناب مقیم دانش ، ڈاکٹر بدر محمدی ، جناب مظہرؔ وسطوی ، شری راما نند سنگھ ، شری جوالہ ساندھ پشپ، شری اکھوری چندرشیکھر ، ڈاکٹر رام نریش بھکت ، ڈاکٹر اویناش امن، ڈاکٹر پنکج کرن، شری پریم ناتھ بسمل، ، ڈاکٹر ودیا چودھری، محترمہ سدھا ورما ، محترمہ معصومہ خاتون ، ڈاکٹر شمع ناسمین نازاں، ڈاکٹر فرحت یاسمین، محترمہ ثانیہ فرحت جمال - دونوں تقریب کی مشترکہ نظامت کے فرائض انجام دیئے جناب اثر فریدی اور ڈاکٹر عارف حسن وسطوی نے۔ مذکورہ دونوں تقریب گورنمنٹ آئیڈیل مڈل اسکول بھیروکھڑا کے قیام کے 70 سال مکمل ہونے پر منعقد کی گئی تھی ، جہاں ڈاکٹر بدر محمدی صدر مدرس کے عہدے پر فائز ہیں ۔ گنگا جمنی تہذیب کے دلدادہ سامعین کی خاصی تعداد نے دلجمعی کے ساتھ داد و تحسین سے نوازا اور اپنی ادبی بیداری کا ثبوت پیش کیا تنظیم ارباب ادب کے سکریٹری ڈاکٹر بدر محمدی کے اظہار تشکر کے ساتھ دورافتادہ دیہی آبادی میں منعقد ایک کامیاب اور تاریخ ساز ادبی تقریب اختتام پذیر ہو کر میٹھی یادوں کا اجالا بکھیر گئ۔۔۔

جلسوں، کانفرنسوں اور سیمیناروں کی مثال زمانہ قدیم سے موجودہے ان جلسوں میں بڑے بڑے علمائے کرام،دانشوران ملک وملت اور بزرگان دین کی شرکت پہلے بھی ہواکرتی تھی

آج کل کے جلسے مفید یا مضر

مفتی محمد آصف اقبال قاسمی
Urduduniyanews72
جلسوں، کانفرنسوں اور سیمیناروں کی مثال زمانہ قدیم سے موجودہے ان جلسوں میں بڑے بڑے علمائے کرام،دانشوران ملک وملت اور بزرگان دین کی شرکت پہلے بھی ہواکرتی تھی اور آج بھی ہورہی ہے۔ لیکن پہلے کے جلسوں او رآج کے جلسوں میں نمایا فرق محسوس ہوتاہے۔پہلے جلسے تو گاہے گاہے ہواکرتے تھے لیکن آج کل مدارس اور خاص کر چھوٹے چھوٹے مدارس جو اپنی پہچان بنانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ ہر سال جلسہ کرنا مدارس کا اہم فریضہ سمجھتے ہیں۔اس کے لئے عنوان کہیں دستار بندی حفاظ وفضلائے کرام، کہیں جشن تکمیل قرآن کریم، کہیں، جشن ختم بخاری شریف، کہیں سالانہ اجلاس عام وغیرہ اختیار کیا جاتاہے۔ملک کے کونے کونے سے بلکہ بعض لوگ بیرون ملک سے بھی مقررین اور شعرا کو بلاتے ہیں اور ان کے آنے جانے اور ھدیہ نذرانہ کا بوجھ قومی چندہ پر رکھ کر نہایت عظیم الشان اجلاس عام کیاجاتاہے۔آج کل لوگوں کا مزاج بن گیا ہے کہ علاقائی علماء وشعرا کے نام پر جمع نہیں ہوتے۔ ہاں اگر شاعری کی دنیا کا کوئی بڑا نام ہو کوئی مشہور نعت خواں ہو تو بھیڑ اس قدر جمع ہوجاتی ہے کہ ان کو سنبھالنا منتظمین اجلاس کے لئے مشکل ہوجاتاہے۔نعت گوئی ایک ایسا فن ہے جس کے بارے میں کہا جاتاہے کہ یہ بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہے۔اس لئے کہ ایک طرف تو عظمت رسول ہے اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی کبریائی اور اس کے متعینہ حدود ہیں۔ اگر عظمت رسول میں ذرا سی کمی ہوئی تو بھی ایمان کاخطرہ ہے اور اگر زیادتی اتنی ہوجائے کہ اللہ کی کبریائی کی حد میں داخل ہوگئی تو بھی ایمان کاخطرہ رہتاہے اسی لئے بڑے بڑے شعراء کرام نے اس میں یا تو قدم ہی نہیں رکھا اور اگر کبھی کوشش کی بھی ہے تو زیادہ دور تک نہیں چل سکے ہیں۔ بڑے بڑے شعرائے کرام کے دواوین دیکھیں انہوں نے صرف تبرکاً ایک دو نعتیں لکھ دی ہیں باقی پوری دیوان۔غزلیات، رباعیات، مثنویات اور نغمات سے بھری ہوتی ہے۔یہ تو بات ہوئی نعت لکھنے کی لیکن پڑھنے کے لئے بھی ان لوازمات کا ہوناضروری ہے۔ اس لئے کہ نعت گوئی رسول اللہ ﷺ کی ثنا خوانی ہوتی ہے اور ثناخوانی میں ادب و تعظیم کا خیال رکھنا نہایت ضروری ہوتا ہے۔مروجہ دور میں جلسوں میں نعت خوانی کا جو طریقہ ہے اس میں تعظیم رسول بالکل بھی نہیں پائی جاتی۔ شعرا کامقصد کسی بھی طرح سامعین سے داد وتحسین وصول کرنا ہوتاہے اس کے لئے وہ مختلف قسم کے حربے استعمال کرتے ہیں۔ سامعین کے جذبات کو ابھارتے ہیں۔زبردستی ہاتھ اٹھواکر سبحان اللہ اور تکبیر کے نعرے لگواتے ہیں ایسے ایسے جملے استعمال کرتے ہیں کے سننے والا مجبورا ہاتھ اٹھاکر ہی رہے گا۔جیسے جسے رسول اللہ سے محبت ہو وہ ہاتھ اٹھائے، جسے اپنی ماں سے محبت ہو وہ ہاتھ اٹھائے۔اب جس مصرعے پر شاعر کو داد مل جاتی ہے اس کو وہ بار بار پڑھ کر سامعین سے انعام کی صورت میں رقم وصول کرنے کی فکر میں لگ جاتاہے اور بعضے تو لوگو ں کہ کہتے بھی ہیں کہ اپنی سخاوت کی مثال پیش کرکے حب رسول کی دلیل پیش کیجئے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ آج کا نوجوان فلمی گانوں کا دیوانہ ہوگیا ہے اس لئے جب کو ئی شاعر کوئی ایسی نعت پڑھتا ہے جس کاطرز کسی فلمی گانے سے ملتا جلتاہے تو پورا کا پور امجمع جھوم جاتاہے اور پھر شاعر دادو تحسین حاصل کرنے کے لئے ایک ہی مصرع کو بار بار پڑھتاہے نتیجتا پورا کا پور اجلسہ عوام کے ہاتھوں میں چلا جاتاہے جب تک شاعر اسٹیج پر موجود ہے جلسہ گاہ بھری ہوتی ہے اور جیسے ہی کوئی مقرر رونق اسٹیج ہوا پورا مجمع باہرنکل جاتاہے اور چائے خانوں میں جاکر بیٹھ جاتاہے۔اوپر سے بد قسمتی یہ ہے کہ شعرا کے لئے تو وقت کی کوئی پابندی نہیں اور مقررین کومختصر سا وقت دیا جاتاہے آخر اس کا مقصد کیا ہے اگر مقصد صرف اشعار کالطف اٹھانا ہے تو اس کے لئے جلسہ کے بجائے مشاعرے کا لفظ استعمال کرنا زیادہ بہتر ہے۔ شعرا ئے کرام کو اس بات کا خیال بہرحال رکھناہوگا کہ نعت خوانی اور غزل خوانی میں فرق ہوتاہے۔نعت خواں کے تصور میں رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس ہوتی ہے اورپھر اسی تصور کے ساتھ سرور کائنات کی شان عقیدت میں اپنا کلام پیش کرتاہے اس کے لئے مؤدب اور باوقار ہونا نہایت لازمی شیئ ہے ورنہ تعظیم رسول کے بجائے توہین رسول ثابت ہوجائے گی۔ دوسری طرف مقررین کی صورت حال یہ ہے کہ عوام الناس کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئےقرآنی آیات واحادیث اور اقوال صحابہ وتابعین اور سیرت رسول وصحابہ کے واقعات کے بجائے من گھرٹ قصے کہانیاں جو ان کی اپنی گھڑی ہوئی ہوتی ہیں جس میں کچھ مزاحیہ جملے بھی ہوتے اور سامعین کو لبھانے کے لئے قصے میں عجیب لچک بھی ہوتی ہے بیان کرتے ہیں اور اگر پھر بھی لوگوں کی توجہ حاصل نہیں ہوئی تو وہ بھی شاعروں کی راہ پر چل پڑتے ہیں۔ آج کل کے کامیاب مقرر وہی سمجھے جاتے ہیں جو آدھے گویے اور آدھے قوال ہوں۔مقر ر کی اصل خصوصیت تو یہ ہے کہ سامعین کے دلوں میں وہ پیغام بٹھا دے جو وہ لے کر آیا ہے نہ یہ کہ واہ واہ اور تالیوں کی گڑگڑاہٹ میں مجمع سے داد وتحسین کے کلمات وصول کرے۔انتظامی اعتبار سے جلسوں پر جواخراجات آتے ہیں اور جس طرح جلسہ گاہوں کو سجایا سنوارا جاتا ہے وہ بالکل اس دور کے شادیوں کے پنڈال معلوم ہوتے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ جس اسٹیج پر کھڑے ہوکر مقررین شادی بیاہ کے بیجا اخراجات کو شیطانی عمل قرار دیتے ہیں اور اس کے لئے قرآن وحدیث سے شواہد ودلائل پیش کرتے ہیں وہ اسٹیج بذات خود طرح طرح کی آرائش وزیبائش کا نمونہ بناہوتاہے اور مقررین دولہا دولہن کی طرح سج سنور کر اسٹیج کی زینت کو چار چاند لگاتے ہیں۔ اس کے پیچھے قوم کا وہ سرمایہ خرچ ہوتاہے جو دین کی اشاعت و تبلیغ کے نام پر جمع کیا جاتاہے اور پھر اسے ایک رات میں خس وخاشاک کی طرح اڑا دیا جاتاہے۔ پنڈال پر لاکھوں کا خرچ، ساونڈ سسٹم پر لاکھوں کا خرچ اس کے علاوہ سامعین وشرکائے جلسہ کے لئے چائے پانی کا نظم اور رونق اسٹیج علماء، دانشواران، شعرا کی آمد ورفت پر لاکھوں کے اخراجات کرنے کے اور ان سب کے لئے مہینوں کی انتھک محنت اور جدو جہد کے بعد منتظمین جلسہ ذرا اس بات پر غور کریں کہ ان جلسوں میں جتنا پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا کیا قوم وملت کو دینی اعتبار سے اتنا فائدہ ہوا۔ اگر لاکھوں روپیہ خرچ کرنے کے بعد ایک بھی مسلمان اپنے گناہوں سے تائب ہوکر راہ حق کی طرف گامزن ہوگیا تو میں سمجھتاہوں کہ پیسہ وصول ہوگیا اور اگر اس کے برعکس ہے تو یقینا یہ اخراجات ضائع ہوگئے ۔ یہ ایک لمحہ فکریہ ہے جس پر عوام وخواص سب کو سوچنے اور اس کے تدارک کے لئے بہترین لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے۔


اتوار, مارچ 05, 2023

جامعہ عربیہ دارالعلوم محمدیہ میں میٹنگ کا انعقادپھلواری شریف پٹنہ مورخہ 5/مارچ 2023 (پریس ریلیز

جامعہ عربیہ دارالعلوم محمدیہ میں میٹنگ کا انعقاد
پھلواری شریف پٹنہ مورخہ 5/مارچ 2023 (پریس ریلیز
اردودنیانیوز۷۲ 
✍️ :محمد ضیاء العظیم قاسمی)
جامعہ عربیہ دارالعلوم محمدیہ البا کالونی پھلواری شریف پٹنہ میں ایک میٹنگ کا انعقاد کیا گیا، جس میں مدرسہ کے اساتذہ سمیت تمام کارکنان موجود تھے، واضح رہے کہ مورخہ 16/مارچ 2023 بروز جمعرات بمطابق ٢٤ شعبان المعظم ١٤٤٤ھ بوقت بعد نماز مغرب ایک عظیم الشان اجلاس دستار بندی ہوگی جس میں 16/حفاظ کرام کے سر پر دستار فضیلت باندھی جائے گی،اس اجلاس میں ملک کے مشہور ومعروف علماء کرام سمیت کئ اہم شخصیات تشریف لارہے ہیں ۔میٹنگ میں اجلاس کو کامیاب بنانے کی تجویز پیش کی گئی، اس موقع پر جامعہ ہذا کے مہتم مفتی نور العظیم مظاہری نے تمام اساتذہ وکارکنان کو خاص ہدایت دی کہ آنے والے مہمانان کو کسی بھی قسم کی کوئی دشواری درپیش نہ آئے ہم سب مل کر کوشش کریں اور دعا کریں کہ پروگرام مکمل کامیاب رہے، یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جامعہ عربیہ دارالعلوم محمدیہ (بیاد حاجی شفیق صاحب رح) کی بنیاد 2017 میں رکھی گئی تھی، اور اب تک الحمد للہ بیس طلباء اور ایک طالبہ نے حفظ قرآن کی تکمیل کی سعادت حاصل کی ہے، اور سولہ طلباء کی دستارِ فضیلت ہوگی چار طلباء بیرون ملک ہیں جس بنا پر ان کا آنا ممکن نہیں ہے،
مولانا محمد ضیاء العظیم قاسمی استاذ جامعہ ہذا نے بھی عمدہ تجاویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ الحمد للہ اہل خیر خواتین وحضرات ادارہ کو بھر پور تعاون دے رہے ہیں، ہم سب ان کے حق میں دعا گو ہیں،
قاری واجد علی عرفانی استاذ حفظ وقرأت نے بھی کئ اہم تجاویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم لوگوں کی پوری کوشش ہوگی کہ مہمانان کو کسی طرح کی کوئی دشواری نہیں ہوگی، کیوں کہ ہم لوگوں نے رضا کار کی ایک ٹیم ترتیب دی ہے ۔
مفتی نور العظیم مظاہری نے اہل خیر خواتین وحضرات سے مزید تعاون کی اپیل کی ہے ۔
اس میٹنگ میں مفتی نور العظیم مہتم جامعہ ہذا، قاری جہانگیر، قاری ماجد، قاری واجد علی عرفانی، مولانا محمد ضیاء العظیم قاسمی سمیت اور بھی کئ اہم شخصیات نے شرکت کی ۔

ہفتہ, مارچ 04, 2023

ہمایوں اقبال ندوی، نائب صدر جمعیت علماء ارریہ وجنرل سکریٹری، تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری ۴/مارچ ۲۰۲۳ء

*اپیل وگزارش*
اردودنیانیوز۷۲ 

آئندہ کل بتاریخ ۵/مارچ ۲۰۲۳ء شہر ارریہ کے ٹاؤن ہال میں الفاروق فاؤنڈیشن کی طرف سے اردو بیداری کے عنوان پر ۱۰/بجےدن سے ۴/بجے دن تک ایک اہم پروگرام منعقد ہورہا ہے، 
ذاتی مردم شماری کے درمیان یہ پروگرام خاص مقصد کے تحت منعقد کیا جارہا ہے، لوگوں میں یہ غلط فہمی (کنفیوژن )ہے کہ ہم جس برادری سے تعلق رکھتے ہیں اسی زبان کو زبان کے کالم میں درج کریں گے، یہ مستقبل کے لئے خطرناک اور تشویشناک بات ہوسکتی ہے، بلکہ اردوزبان جو ہماری ریاست کی دوسری سرکاری زبان ہے اس کے لئے بھی خطرہ پیدا ہوسکتا ہے، مزید روزگار اور تعلیم کا یہ وسیع میدان جو ہمیں ملا ہوا ہے اس کےبھی چھن جانے کا اندیشہ ہے، بروقت بیدار رہنے کی ضرورت ہے اور بیداری لانے کی بھی ضرورت ہے۔
اس کے لئے الفاروق فاؤنڈیشن نے پورے سیمانچل میں ایک تحریک شروع کی ہے،پرچے بانٹے گئے ہیں، پمفلٹ شائع کئے گئے ہیں، اب باضابطہ اس عنوان پر پروگرام منعقد کیا جارہا ہے، 
لہذا سیمانچل کے محبان اردو سے میری درخواست ہےکہ اس اہم  پروگرام میں شرکت  فرما کر ملی بیداری کا ثبوت پیش کریں اور مذکورہ پروگرام کو کامیاب وبامراد بنائیں، جزاکم اللہ خیرا 

الملتمس 
ہمایوں اقبال ندوی، نائب صدر جمعیت علماء ارریہ 
وجنرل سکریٹری، تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری 
۴/مارچ ۲۰۲۳ء

جامعہ عربیہ دارالعلوم محمدیہ (بیاد حاجی شفیع رح) کا سالانہ تقریری امتحان بحسن خوبی اختتام پذیر ہوا

جامعہ عربیہ دارالعلوم محمدیہ (بیاد حاجی شفیع رح) کا سالانہ تقریری امتحان بحسن خوبی اختتام پذیر ہوا
اردودنیانیوز۷۲ 
پھلواری شریف پٹنہ مورخہ 4/مارچ 2023 (پریس ریلیز :محمد ضیاء العظیم قاسمی)
جامعہ عربیہ دارالعلوم محمدیہ البا کالونی پھلواری شریف پٹنہ میں مورخہ 4/مارچ 2023 بروز سنیچر سالانہ تقریری امتحان بحسن خوبی اختتام پذیر ہوا ۔اس امتحان میں درجہ حفظ وناظرہ سمیت ابتدائی نورانی قاعدہ کے طلبہ وطالبات شریک ہوکر بیحد دلچسپی اور دل جمعی کے ساتھ اس مرحلے کو بحسن خوبی انجام تک پہنچایا، اس موقع پر بحیثیتِ ممتحن ماہر نفسیات، سماجی کارکن واستاذ حافظ شارق خان ڈائریکٹر نظام العلوم فاؤنڈیشن پٹنہ ،اور قاری محمد جہانگیر سمستی پوری استاذ مدرسہ روضۃ العلوم اسراہی بسیفی مدھوبنی تشریف لائیں، ممتحن نے طلبہ وطالبات کی کاوشوں اور کارکردگی پر اطمنان ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یقیناً جامعہ کے اساتذہ نے طلبہ وطالبات کی تعلیم وتربیت پر بڑی محنت مشقت کی ہیں۔
واضح رہے کہ جامعہ عربیہ دارالعلوم محمدیہ(بیاد حاجی شفیع) یہ ایک خالص دینی ادارہ ہے جہاں کثیر تعداد میں مقامی وبیرونی طلبہ وطالبات اپنی علمی پیاس بجھا رہے ہیں یہ ادارہ مشہور ومعروف عالم دین مولانا محمد عظیم الدین رحمانی صاحب کے زیر سرپرستی اور سماجی کارکن محمد فاروق منیر کالونی پھلواری شریف پٹنہ کے زیر نگرانی اپنی خدمات انجام دے رہا ہے ۔اس وقت ادارہ میں چار اساتذہ دو کارکنان اور تقریباً تیس طالب علم ہاسٹل میں مقیم ہیں جن کی مکمل کفالت جامعہ ہذا کے ذمہ ہے ۔جبکہ مقامی تیس طلبہ وطالبات زیر تعلیم ہیں ۔
یقیناً کائنات میں انسان کے لیے ہدایات اوررہنمائی کا جو نظام اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہے اس میں انسان میں علم کے حصول اور سمع بصر اور فواد کے ذریعہ انفس اور آفاق دونوں دنیاؤں سے حصول علم اور الہامی ہدایت کے ذریعہ اس علم اور ان صلاحیتوں کا صحیح صحیح استعمال شامل ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیائے کرام کے ذریعہ علم ، انسان اور تہذیب کےلئے اسی نمونہ کو ہمارے سامنے پیش فرمایا۔ یہ انبیائے کرام ﷩ انسانیت کو اسی نمونے کی تعلیم دینے کی خدمت انجام دیتے رہے جس کا مکمل ترین نمونہ خاتم الانبیاء حضرت محمدﷺ نے پیش کیا اور فرمایا کہ میں معلّم بناکر بھیجا گیا ہوں۔تعلیم ہی وہ ذریعہ ہے جس سے وہ انسان اور ادارے وجود میں آتے ہیں جو زندگی کے پورے نظام کی اسلام کی اقدار اور مقاصد کے مطابق صورت گری کرتے ہیں۔اس لیے امت مسلمہ کی ترقی اور زوال اور سطوت اور محکومی کا سارا انحصار تعلیم اور نظام تعلیم پر ہے۔

جمعہ, مارچ 03, 2023

پیاسوں کو سمندر کا پتا دیتے ہیں سرکارﷺمخلوق کو خالق سے ملا دیتے ہیں سرکارﷺ

پیاسوں کو سمندر کا پتا دیتے ہیں سرکارﷺ
مخلوق کو خالق سے ملا دیتے ہیں سرکارﷺ
Urduduniyanews72
پیاسوں کو سمندر کا پتا دیتے ہیں سرکارﷺ
مخلوق کو خالق سے ملا دیتے ہیں سرکارﷺ

بگڑی ہوئی تقدیر بنا دیتے ہیں سرکارﷺ
روتے ہوئے انساں کا ہنسا دیتے ہیں سرکارﷺ

اس شخص کی تقدیر میں لکھ اٹھ تی ہے پستی 
جس کو بھی نگاہوں سے گرا دیتے ہیں سرکارﷺ

پاتے ہیں تڑپ دید کی جس شخص کے دل میں 
دیدار اسے اپنا کرا دیتے ہیں سرکارﷺ

پڑ جاتی ہے جب جنگ کے دوران ضرورت 
افواج ملائک کو بلا دیتے ہیں سرکارﷺ

امداد طلب کرتے ہیں جو رنج و الم میں 
مژدہ انہیں راحت کا سنا دیتے ہیں سرکارﷺ

ہوں ہی تو نہیں مونس و غمخوار وہ ٹھہرے 
غربت میں بھی سائل کو بڑا دیتے ہیں سرکارﷺ 

سیرابی نظر آتی ہے صحرائے عرب میں 
جب دست دعا اپنا اٹھا دیتے ہیں سرکار ﷺ

ہیں عالمِ غیب ایسے کہ آئندہ کی باتیں 
پہلے ہی زمانے کو بتا دیتے ہیں سرکار ﷺ

تفریق و تشدد کے ملوث کو زمیں پر
پابندِ مساوات بنا دیتے ہیں سرکارﷺ

تعلیم و معارف کے چراغوں کو جلا کر
تاریکِ جہالت کو مٹا دیتے ہیں سرکارﷺ

ضو بار ہمیشہ ہی رہیں گے سبھی اصحاب 
ان سارے ستاروں کو جلا دیتے ہیں سرکارﷺ

نیزے کی انی پر بھی وہ کرتا ہے تلاوت 
قرآن جنہیں پڑھنا سکھا دیتے ہیں سرکار 

پھر کیوں نہ ضیا اپنوں ہو لطف و عنایت 
جب دشمنِ جاں کو بھی دعا دیتے ہیں سرکارﷺ

ضیاء کاملی
 قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن 
 سکراول ،اردو بازار، ٹانڈہ۔۔۔امبیڈکرنگر( یوپی

آزادی رائے ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

آزادی رائے  ___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب  ناظم  امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
اردودنیانیوز۷۲ 
 ہندوستانی سیاست اور ذرائع ابلاغ میں ان دنوں اظہار رائے کی آزادی پر کھل کر بحث ہو رہی ہے، عالمی تنظیم آر اف اس نے اپنی سالانہ رپورٹ میں واضح کیا ہے کہ ہندوستانی پریس کی آزادی میں مسلسل گراوٹ آرہی ہے، ایک امریکی صحافی نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ہندوستان میں رییل جرنلزم (حقیقی صحافت) کا دور ختم ہو چکا ہے، امریکی صحافی کا یہ قول حقیقت سے انتہائی قریب ہے، ہندوستان میں آج میڈیا بکا ہوا ہے، اور بیش تر قابل ذکر صحافی کی ایک قیمت سیاسی پارٹیوں نے لگا رکھی ہے، پرنٹ میڈیا کے مالکان کی وابستگی کسی نہ کسی سیاسی پارٹی، نظریات اور رجحانات سے ہے، اس صورت حال میں قلم وہ نہیں لکھتا جو اسے لکھنا چاہیے، بلکہ وہ لکھتا ہے جو اس سے لکھوایا جاتا ہے، ایسے میں اظہار رائے کی آزادی کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے، ماضی قریب میں جن صحافیوں نے اپنی بولی نہیں لگنے دیا انہیں اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑے، شجاعت بخاری، گوری لنکیش، نریندر دابھولکر، ڈاکٹر ایم ایک کلبرگی اور ڈاکٹر پنسارے بک نہیں سکے تو انہیں دوسری دنیا کی راہ دکھا دی گئی ہے، پرسون واجپئی، سمن واجپی، اکارپٹیل، ابھیشار اور رویش کمار جیسے چند صحافیوں پر سوشل میڈیا ذاتی حملے اور کردار کشی کرتا رہا ہے، رویش کمار کو این ڈی ٹی وی چھوڑ دینا پڑا،اور جس طرح ان کے خلاف نفرت کی فضا پیدا کی جا رہی ہے اس میں کیا بعید ہے کہ کسی دن ”بانگ آید کہ فلاں نہ ماند“
یہ اس ملک کا المیہ ہے کہ میڈیا یہاں پرغیر ذمہ دارانہ انداز میں کام کرتا رہا ہے، کبھی اس نے اظہار رائے کی آزادی کے نام مذہبی مسلمات اور اقدار پر حملے کیے اور کبھی وہ حکومت کے ہاتھ میں کٹھ پتلی کی طرح ناچتا رہا، اب صحافت میں غیر جانب دارانہ نظریات اور حقائق کی پیش کش کی بات عنقا ہے، حالاں کہ ہم تو غیر جانب دار ہونے کو بھی صحیح نہیں سمجھتے، ہمارا نعرہ تو یہ ہونا چاہیے کہ ہم غیر جانب دار نہیں حق کے طرف دار ہیں، البتہ حق کی تعیین پر وپیگنڈے، نعرے بازی اور جملے اچھالنے سے نہیں، انتہائی گہرائی اور گیرائی، پس وپیش حقائق ومشاہدات کی روشنی میں کرنا چاہیے، ورنہ کوئی بھی صحافی بڑی آسانی سے یہ کہہ سکتا ہے کہ ہم فلاں پارٹی کی حمایت اس لیے کرتے ہیں کہ اسے حق سمجھتے ہیں، اسے حق سمجھنے کی ان بنیادوں پر بھی روشنی ڈالنی چاہیے، جس کی وجہ سے وہ اسے حق سمجھتا ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ سب صرف مودی اوریوگی حکومت میں ہو رہا ہے، بنگال کی ممتا بنرجی بھی اس معاملے میں کچھ کم نہیں ہیں، ممتا کی پہلی حکومت میں ایک کارٹون بنا کر پوسٹ کرنے پر شانتی نکیتن کے ایک پروفیسر کو جیل میں ڈال دیا گیا تھا اور ضمانت پر رہائی کے بعد گھر میں گھس کر ممتا کے چاہنے والوں نے اس کی جم کر پٹائی کی تھی، لوک سبھا چناؤ کے موقع سے ممتا کے ایک کارٹون بنانے والے کوپولس نے گرفتار کر لیا تھا، بڑی مشکل سے ہائی کورٹ سے ضمانت ملی تھی، اڈیشہ اور تمل ناڈو کی حکومتیں بھی اس معاملہ میں پیچھے نہیں ہیں۔
 ملک سے باہر نکلیں تو برما، پاکستان اور اسرائیل سے صحافیوں پر ظلم وجور کی خبریں آتی رہی ہیں، ان حالات میں صحافیوں کا دم خم کمزور پڑتا جا رہا ہے، اور وہ لوگ جو ظلم وجبر کے خلاف سینہ سپر ہوجایا کرتے تھے اور قلم کی ساری سیاہی استعمال کر لینا اپنا فرض منصبی سمجھتے تھے ان کے حوصلے ٹوٹ رہے ہیں، پرکھادت، ساگر یکا، گھوش، سوامی ناتھن، جیسے صحافی اور مضمون نگار کے الفاظ، جملے اور تعبیرات میں اب وہ دھار نہیں ہے جس سے باطل کے ایوان میں لرزہ طاری ہوتا تھا، اور آپ خوب جانتے ہیں کہ دھار ایک بار کند ہو گئی تو اس کا صیقل کرناآسان نہیں ہوتا، ایسے میں دو طرفہ محاسبہ کی ضرورت ہے،حکومت اور ان کے کارندوں کو میڈیا کے تئیں اپنے رویہ پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور میڈیا کو یہ سمجھنا چاہیے کہ جمہوریت کا یہ چوتھا ستون پابند سلاسل سیم وزر ہو گیا تو اس کی اہمیت وافادیت ہی نہیں، قدر وقیمت بھی ختم ہو جائے گی اور جب بھی ان سلاسل سے نکلنے کی کوشش کی جائے گی صحافی حضرات کو سخت آزمائش سے گذرنا ہوگا، کبھی آزمائش کا یہ سلسلہ جسم وجان تک پہونچے گا اور کبھی اس کا اختتام ابدی نیند پر بھی ہو سکتا ہے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...